حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، (5 بعثت -11ھ) پیغمبر اکرمؐ و حضرت خدیجہ کی بیٹی، امام علیؑ کی زوجہ اور امام حسنؑ، امام حسینؑ و حضرت زینبؑ کی والدہ ماجدہ ہیں۔ آپ اصحاب کسا یا پنجتن پاک میں سے ہیں جنہیں شیعہ معصوم مانتے ہیں۔ زہرا، بَتول و سیدۃ نساء العالمین آپ کے القاب اور اُمّ اَبیها آپ کی مشہور کنیت ہے۔ حضرت فاطمہؑ واحد خاتون ہیں جو نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کے دوران پیغمبر اکرمؐ کے ہمراہ تھیں۔

سورہ کوثر، آیت تطہیر، آیت مودت، آیت اطعام اور حدیث بِضعہ آپؑ کی شان اور فضیلت میں وارد ہوئی ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ رسول اکرمؑ نے فاطمہ زہراؑ کو سیدۃ نساء العالمین کے طور پر متعارف کیا اور ان کی خوشی اور ناراضگی کو اللہ کی خوشنودی و ناراضگی قرار دیا ہے۔

آپ نے سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعے کی مخالفت کی اور ابوبکر کی خلافت کو غصبی قرار دیتے ہوئے ان کی بیعت نہیں کی۔ آپ نے غصب فدک کے واقعے میں امیرالمومنین کے دفاع میں خطبہ دیا جو خطبہ فدکیہ سے مشہور ہے۔ حضرت فاطمہؑ پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے فوراً بعد ابوبکر کے حامیوں کی طرف سے آپ کے گھر پر کئے گئے حملے میں زخمی ہوئیں اور بیمار پڑ گئیں پھر مختصر عرصے کے بعد 3 جمادی‌ الثانی سنہ 11 ہجری کو مدینہ میں شہید ہو گئیں۔ دختر پیغمبرؐ کو ان کی وصیت کے مطابق رات کی تاریکی میں دفن کیا گیا اور ان کی قبر آج بھی مخفی ہے۔

تسبیحات حضرت زہراؑ، مصحف فاطمہؑ اور خطبہ فدکیہ آپ کی معنوی میراث کا حصہ ہیں۔ مصحف فاطمہ ایک کتاب ہے جس میں فرشتہ الہی کے ذریعہ آپ پر القاء ہونے والے الہامات بھی شامل ہیں جنہیں امام علیؑ نے تحریر فرمایا ہے۔ روایات کے مطابق صحیفہ فاطمہ ائمہ سے منتقل ہوتے ہوئے اس وقت امام زمانہ (عج) کے پاس ہے۔

شیعہ آپؑ کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں اور آپ کی شہادت کے ایام میں عزاداری کرتے ہیں جو ایام فاطمیہ کے نام سے مشہور ہیں۔ ایران میں آپؑ کے روز ولادت (20 جمادی‌ الثانی) کو یوم مادر اور یوم خواتین قرار دیا گیا ہے اور فاطمہ و زہراؑ لڑکیوں کے سب سے زیادہ رکھے جانے والے ناموں میں سے ہیں۔

نام و نسب

تفصیلی مضمون: القاب حضرت فاطمہ
حضرت فاطمہؑ زہرا حضرت محمدؐ اور حضرت خدیجہ کبریؑ کی بیٹی ہیں۔ آپ کے متعدد القاب (تقریبا 30) ذکر ہوئے ہیں۔ جن میں زہرا، صدیقہ، مُحَدَّثہ، بَتول، سیدة نساء العالمین، منصورہ، طاہرہ، مطہرہ، زَکیہ، مبارکہ، راضیہ، مرضیہ زیادہ مشہور ہیں۔[1]

آپؑ کے لئے متعدد کنیتیں ذکر ہوئی ہیں: جیسے:ام ابیہا، ام الائمہ، ام الحسن، ام الحسین اور ام المحسن۔[2]

حضرت فاطمہ زہرا

سوانح حیات

حضرت فاطمہؑ کی زندگی تاریخ کے آئینے میں
فاطمه الزهرا

20 جمادی‌الثانی سنہ 5 بعثت ولادت
10 رمضان سنہ 10 بعثت والدہ ماجده خدیجہ کی رحلت[3]
اواخر صفر سنہ 2 ہجری حضرت علی بن ابی طالبؑ کے ساتھ نکاح [4]
1 ذی‌الحجہ سنہ 2 ہجری حضرت علیؑ کے ساتھ شادی اور رخصتی [5]
15 رمضان سنہ 3 ہجری امام حسنؑ کی ولادت [6]
7 شوال سنہ 3 ہجری غزوہ احد میں پیغمبرؐ کے زخموں کے مداوا کیلئے حاضر ہونا [7]
3 شعبان سنہ 4 ہجری امام حسینؑ کی ولادت [8]
5 جمادی‌الاول سنہ 5 یا 6 ہجری ولادت حضرت زینبؑ[9]
سنہ 6 ہجری ولادت ام‌کلثوم[10]
سنہ 7 ہجری پیغمبرؐ کی جانب سے باغ فدک کا حضرت فاطمہؑ کیلئے ہبہ کرنا[11]
24 ذی‌الحجہ سنہ 9 ہجری نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کیلئے حاضر ہونا[12]
28 صفر یا 12 ربیع‌الاول سنہ 11 ہجری رحلت پیغمبر اکرمؐ[13]
ربیع الاول 11 ہجری۔ ابوبکر کے حکم پر فدک کو آپ سے واپس لے لینا
ربیع الاول 11 ہجری. مسجد نبوی میں خطبہ فدکیہ ارشاد فرمانا
ربیع الاول 11 ہجری. والد بزرگوار کے فراق میں عزا کی خاطر حضرت فاطمہؑ کیلئے امام علیؑ کے ذریعہ بقیع میں بیت الاحزان کی تعمیر
ربیع الثانی 11 ہجری. حضرت فاطمہؑ کے دروازے پر ہجوم اور محسن بن علی کی شہادت
13 جمادی الاول یا 3 جمادی الثانی 11 ہجری. شہادت[14]

حضرت فاطمہؑ پیغمبر اکرمؐ اور حضرت خدیجہ کی آخری اولاد ہیں۔[15] تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت فاطمہؑ مکہ مکرمہ میں حضرت خدیجہ کے گھر میں جو مسعی کے نزدیک زُقاق العطارین و زُقاق الحجر نامی محلہ میں واقع تھا، پیدا ہوئی ہیں۔[16]

ولادت اور بچپن
شیعوں کے یہاں مشہور قول کی بنا پر حضرت فاطمہؑ بعثت کے پانچویں سال سنہ احقافیہ[17] (سورہ احقاف کے سال نزول) میں متولد ہوئیں۔[18] شیخ مفید و کفعمی نے آپؑ کی ولادت کو بعثت کے دوسرے سال میں ذکر کیا ہے۔[19] اہل سنت کے مطابق آپؑ کی ولادت بعثت سے پانچ سال قبل ہوئی ہے۔[20]

منابع شیعہ میں آپ کی ولادت کی تاریخ 20 جمادی الثانی ذکر ہوئی ہے۔[21]

آپؑ کی زندگی کے ابتدائی ایام کے بارے میں تاریخی حوالہ جات کی کمی کی وجہ سے، دقیق معلومات حاصل کرنا مشکل ہے۔[22] تاریخی اسناد کے مطابق، حضرت زہراؑ نے حضورؐ کی دعوت کے علنی ہونے کے بعد، مشرکین کی طرف سے اپنے بابا پر کئے جانے والے تشدد اور ناروا سلوک کو نزدیک سے دیکھا۔ اس کے علاوہ بچپن کے تین سال آپؑ نے شعب ابی طالب میں گزارے، جس دوران مشرکین مکہ نے بنی ہاشم اور حضورؐ کے چاہنے والوں کا سوشل بائیکاٹ کر رکھا تھا۔[23] اسی طرح آپؑ بچپن میں ہی اپنی والدہ کی شفقت اور اپنے بابا رسول خدا کے چچا اور اہم حامی حضرت ابوطالبؑ کے سایہ شفقت سے محروم ہوئیں۔[24] اس کے علاوہ قریش کا حضورؐ کو قتل کرنے کا منصوبہ،[25] پیغمبرؐ کا رات کے وقت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا اور آپؑ کا بنی ہاشم کی بعض دیگر خواتین سمیت حضرت علیؑ کے ہمراہ مدینہ ہجرت کرنا، حضرت فاطمہؑ کے بچپن میں پیش آنے والے واقعات ہیں۔[26]

ازدواج

تفصیلی مضمون: حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی شادی
حضرت فاطمہؑ کے لئے بہت سے رشتے تھے۔ لیکن آپ نے حضرت علی کا رشتہ قبول کیا اور ان سے شادی کی۔ بعض محققین کے مطابق، پیغمبر اکرم کی مدینہ ہجرت، اسلامی معاشرے کی رہبری اور آپؐ سے نسبت کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان مورد احترام اور بلند مرتبہ کی حامل تھیں۔[27] اس کے علاوہ آنحضرت (ص) کا آپ سے اظہار محبت کرنا،[28] اپنی ہم عصر خواتین[29] کے درمیان مقائسہ میں آپ میں پائی جانے والی خصوصیات سبب بنیں بعض مسلمان آپ کا رشتہ طلب کریں۔[30] بعض بزرگان قریش جو سابق الاسلام اور مالی اعتبار سے مضبوط تھے، انہوں نے رشتہ طلب کیا۔[31] ابوبکر، عمر[32] اور عبد الرحمن بن عوف[33] نے بھی آپؑ کا رشتہ مانگا لیکن رسول اللہؐ نے سوائے حضرت علیؑ کے باقی سب کا رشتہ یہ فرماتے ہوئے مسترد کیا[34] کہ میری بیٹی فاطمہؑ کا رشتہ ایک الہٰی امر ہے لہذا اس حوالے سے میں وحی کا منتظر ہوں۔[35] اسی طرح کچھ موارد میں حضرت فاطمہؑ کی نارضایتی کا بھی ذکر فرمایا۔[36]

امام علیؑ پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ خاندانی تعلق اور خود حضرت فاطمہؑ کی اخلاقی و دینی خصوصیات کی وجہ سے اس رشتے کی دلی خواہش رکھتے تھے۔[37] لیکن مورخین کے بقول آپؑ میں یہ جرأت پیدا نہیں ہو رہی تھی کہ رسول اکرمؐ کی بیٹی کا رشتہ مانگتے۔[38] سعد بن معاذ نے حضرت علیؑ کی درخواست کو پیغمبر اکرمؐ تک منتقل کیا۔ پیغمبر اکرمؐ نے اس رشتے پر اپنی رضایت کا اظہار کرتے ہوئے[39] اسے اپنی بیٹی کے سامنے رکھا اور انہیں حضرت علیؑ کے اخلاقی فضائل اور حسن کردار سے آگاہ فرمایا جس پر حضرت فاطمہؑ نے بھی اپنی رضایت کا اظہار فرمایا۔[40] آپ (ص) نے بحکم الہی حضرت فاطمہ کی شادی حضرت سے علی سے کر دی۔[41] ہجرت کے ابتدائی ایام میں دوسرے مہاجرین کی طرح حضرت علیؑ کی اقتصادی حالت بھی مناسب نہیں تھی۔[42] اس بنا پر آپؑ نے پیغمبر اکرمؐ کے کہنے پر اپنی زرہ بیچ کر یا اسے گروی رکھ کر حضرت فاطمہؑ کا حق مہر ادا کیا۔[43] یوں مسجد نبوی میں مسلمانوں کی محفل میں حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کا عقد پڑھا گیا۔[44] مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ عقد کس تاریخ کو پڑھا گیا۔ اکثر مصادر میں ہجرت کے دوسرے سال کا تذکره ملتا ہے۔[45] رخصتی جنگ بدر کے بعد شوال یا ذوالحجہ سنہ 2 ہجری میں ہوئی۔[46]

ازدواجی زندگی

احادیث اور تاریخی مصادر میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہؑ امام علیؑ کے ساتھ مختلف انداز سے حتی پیغمبر اکرمؐ کے حضور میں بھی محبت سے پیش آتی تھیں اور آپ کو بہترین شوہر مانتی تھیں۔[47] حضرت علیؑ کا احترام آپؑ کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ آپؑ گھر کے اندر حضرت علیؑ کے ساتھ محبت‌ آمیز گفتگو فرماتی تھیں[48] اور لوگوں کے سامنے حضرت علیؑ کو ان کی کنیت ابا الحسن سے پکارتی تھیں۔[49] احادیث میں وارد ہوا ہے کہ حضرت فاطمہؑ حضرت علیؑ کیلئے خود کو عطر اور زینتی وسائل سے آراستہ فرماتی تھیں۔[50]

ازدواجی زندگی کے ابتدائی ایام میں حضرت فاطمہؑ اور حضرت علیؑ کو انتہائی سخت اور کٹھن معاشی حالات کا سامنا تھا۔[51] یہاں تک کہ بعض اوقات حسنینؑ کیلئے پیٹ بھر کھانا بھی میسر نہ ہوتا تھا۔[52] مگر حضرت فاطمہؑ نے اس حوالے سے کبھی کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں کی اور چہ بسا گھریلو اخراجات پورا کرنے کی خاطر اپنے شوہر کی مدد کی غرض سے اون بھی کاتا کرتی تھیں۔[53]

گھر کے اندرونی معاملات حضرت فاطمہؑ جبکہ باہر کے معاملات حضرت علیؑ انجام دیتے تھے[54] یہاں تک کہ جس وقت پیغمبر اکرمؐ نے فضہ کو بطور کنیز آپ کی خدمت کیلئے بھیجا تو اس وقت بھی آپ گھر کے تمام امور ان کے ذمہ نہیں لگاتی تھیں بلکہ آدھے امور خود انجام دیتیں اور آدھے امور فضہ کے سپرد فرماتی تھیں۔[55] اس سلسلے میں تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ایک دن گھر کے کام کاج فضہ انجام دیتیں جبکہ دوسرے دن آپ خود انہیں انجام دیتی تھیں۔[56]

اولاد

شیعہ اور اہل‌ سنت دونوں مصادر کا اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ امام حسنؑ[57]، امام حسینؑ[58]، حضرت زینبؑ[59] اور ام‌ کلثوم، [60] حضرت فاطمہؑ اور امام علیؑ کی اولاد ہیں۔[61] شیعہ اور بعض اہل سنت مصادر میں ایک اور بیٹے کا نام بھی ملتا ہے جو پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد حضرت زہراؑ کے ساتھ پیش آنے والے حوادث میں سقط ہوگیا جس کا نام محسن یا مُحَسَّن ذکر ہوا ہے۔[62]

زندگی کے آخری ایام

حضرت فاطمہؑ کی زندگی کے آخری مہینوں میں کچھ تلخ اور ناگوار واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس مدت میں کسی نے بھی آپ کے کے لبوں پر مسکراہٹ نہیں دیکھی۔[63] ان واقعات میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت،[64] واقعہ سقیفہ، ابوبکر اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے خلافت اور باغ فدک کا غصب اور صحابہ کرام کے بھرے مجمع میں خطبہ دینا[65] آپ کی زندگی کے آخری ایام میں پیش آنے والے ان ہی تلخ اور ناگوار واقعات میں سے ہیں۔ اس عرصے میں حضرت فاطمہؑ حضرت علیؑ کے ساتھ ان کے مخالفین کے سامنے امامت و ولایت کے دفاع میں کھڑی تھیں؛[66] جس کی وجہ سے آپ مخالفین کے ظلم و جبر کا نشانہ بنیں اور آپ کے دروازے پر لکڑیاں جمع کرکے دروازے کو آگ لگا دینا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔[67] حضرت علیؑ کی جانب سے ابوبکر کی عدم بیعت اور ابوبکر کے مخالفین کا بطور احتجاج آپؑ کے گھر میں اجتماع یہ وہ امور تھے کہ جنہیں بہانہ بنا کر خلیفہ اور ان کے حامیوں نے حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ کر دیا اور آخرکار گھر کے دروازے کو آگ لگا دی گئی۔ اس حملے میں حضرت فاطمہؑ حضرت علیؑ کو زبردستی بیعت کیلئے مسجد لے جانے میں مانع بننے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنیں[68] جس سے آپ کے شکم میں موجود بچہ ساقط ہوگیا۔[69] اس واقعے کی بعد آپ سخت بیمار ہو گئیں[70] اور مختصر عرصے میں آپؑ کی شہادت واقع ہوگئی۔[71]

آپؑ نے حضرت علیؑ کو وصیت کی کہ آپؑ کے مخالفین کو آپؑ کی نماز جنازہ اور دفن وغیرہ میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے اور آپؑ کو رات کی تاریکی میں سپرد خاک کیا جائے۔[72] مشہور قول کی بنا پر حضرت فاطمہؑ نے 3 جمادی‌ الثانی سن 11 ہجری کو مدینہ میں شہادت پائی۔[73]

سیاسی موقف

حضرت فاطمہؑ کی مختصر زندگی میں مختلف معاشرتی سرگرمیوں کے علاوہ سیاسی موقف بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہجرت مدینہ، جنگ احد،[74] جنگ خندق کے موقع پر زخمیوں کی دیکھ بھال، مجاہدین تک جنگی ساز و سامان کی ترسیل اور[75] فتح مکہ[76] کے موقع پر آپ کی موجودگی سماجی سرگرمیوں میں سے ہیں لیکن آپ کے سیاسی موقف کا اظہار پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس مختصر عرصے میں اسلامی حکومت کے سیاسی منظر نامے پر حضرت فاطمہؑ کا سیاسی موقف کچھ یوں دیکھنے میں آیا:

سقیفہ بنی ساعدہ میں پیغمبر اکرمؐ کے بعد ابوبکر کی بطور خلیفہ تقرری کے بعد ان کی بیعت سے انکار، مہاجرین و انصار کے سرکردہ لوگوں سے خلافت کیلئے امام علیؑ کی برتری کا اقرار لینا، باغ فدک کی دوبارہ مالکیت کے لئے سعی و کوشش، مسجد نبوی میں مہاجرین و انصار کی بھری محفل سے خطاب اور دروازے پر مخالفین کے حملے کے وقت حضرت علیؑ کا دفاع۔ محققین کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد حضرت فاطمہؑ نے جس رد عمل کا اظہار فرمایا ہے وہ حقیقت میں ابوبکر اور ان کے حامیوں کی جانب سے خلافت کے غصب کئے جانے پر اعتراض اور احتجاج تھا۔[77]

سقیفہ کی مخالفت

تفصیلی مضمون: واقعہ سقیفہ بنی‌ ساعدہ
سقیفہ بنی ساعدہ میں خلیفہ کے انتخاب کے حوالے سے منعقد ہونے والے ہنگامی اجلاس میں وہاں پر موجود صحابہ کی جانب سے ابوبکر کی بعنوان خلیفہ بیعت کے بعد آپ نے حضرت علیؑ اور بعض صحابہ مانند طلحہ اور زبیر کے ساتھ مل کر صحابہ کے اس اقدام کی مخالفت کی[78] کیونکہ حجۃ الوداع کے موقع پر غدیر خم کے مقام پر پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ کو اپنا جانشین معین فرمایا تھا۔[79] تاریخی شواہد کے مطابق حضرت فاطمہؑ حضرت علیؑ کے ہمراہ چیدہ چیدہ اصحاب کے گھروں میں جاتیں، ان سے مدد اور نصرت طلب کرتی تھیں۔ صحابہ آپ کی اس درخواست کے جواب میں کہتے اگر ابوبکر کی بیعت سے پہلے یہ مطالبہ کرتے تو ہم علیؑ کی حمایت کرتے لیکن اب ہم ابوبکر کی بیعت کر چکے ہیں۔ جب صحابہ حضرت علیؑ کی حمایت سے انکار کرتے تو آپ انہیں خبردار کرتیں کہ ابوبکر کی بیعت خدا کی ناراضگی اور عذاب کا باعث ہے۔[80]

باغ فدک اور خطبۂ فدکیہ

تفصیلی مضمون: خطبہ فدکیہ
حضرت فاطمہؑ نے ابوبکر کی جانب سے فدک کو آپؑ سے واپس لے کر حکومتی خزانے میں جمع کرنے کے اقدام کی سخت مخالفت کی۔[81] لہٰذا فدک کو دوبارہ اپنی ملکیت میں واپس لانے کیلئے آپ نے ابوبکر کے ساتھ گفتگو کی ابوبکر نے جب دیکھا کہ آپؑ کے پاس کافی دلائل و شواہد ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ یہ باغ آپؑ کی ملکیت ہے[82] تو ابوبکر نے ایک سند تحریر کی جس میں لکھا کہ فدک حضرت فاطمہؑ کی ملکیت ہے۔ جب عمر بن خطاب اس سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے اس تحریر کو حضرت فاطمہؑ کے دست مبارک سے چھین کر اسے پھاڑ دیا۔[83] جب آپؑ نے دیکھا کہ فدک کو واپس لینے کی تمام تر کوششیں ھدر جا رہی ہیں تو ایسے میں آپؑ نے مسجد نبوی کا رخ کیا اور وہاں پر صحابہ کی موجودگی میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جو خطبہ فدکیہ کے نام سے معروف ہے جس میں آپؑ نے ابوبکر کی جانب سے خلافت کو غصب کرنے اور فدک کو واپس لینے کی سخت الفاظ میں مخالفت کی اور خلیفہ کے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ اس خطبے میں آپؑ نے ابوبکر اور ان کے حامیوں کے اس اقدام کو دوزخ خریدنے کے مترادف قرار دیا۔[84]

مخالفین ابوبکر کے اجتماع کی حمایت
تفصیلی مضمون: خانہ فاطمہ میں اجتماع کا واقعہ
پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے فورا بعد جب کچھ لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کی اور امام علیؑ کی خلافت اور جانشینی سے متعلق پیغمبر اکرمؐ سے صادر ہونے والے احکامات کو نظر انداز کر دیا تو حضرت فاطمہؑ نے حضرت علیؑ، بنی ہاشم اور بعض صحابہ کرام کے ساتھ مل کر ابوبکر کی بیعت سے انکار کر دیا۔ ابوبکر کی خلافت کے مخالفین آپؑ کے گھر میں جمع ہوگئے اور انہوں نے پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی اور خلافت کے حوالے سے حضرت علیؑ کے مسلمہ حق کی حمایت کی۔[85] ان میں پیغمبر اکرمؐ کے چچا عباس بن عبدالمطلب، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار بن یاسر، مقداد، اُبیّ بن کَعب اور بنی‌ ہاشم شامل تھے۔[86]

گھر پر حملے کے دوران حضرت علیؑ کا دفاع
تفصیلی مضمون: حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ
ابوبکر کے حامیوں کی جانب سے حضرت علیؑ کے گھر پر حملے کے دوران حضرت فاطمہؑ دشمنوں کے مقابلے میں حضرت علیؑ کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوئیں اور آپؑ نے حضرت علیؑ کو زبردستی ابوبکر کی بیعت کیلئے لے جانے کی اجازت نہیں دی۔ تیسری اور چوتھی صدی کے اہل سنت عالم ابن عبد ربہ کے مطابق جب ابوبکر اس بات سے مطلع ہوئے کہ ان کے مخالفین حضرت فاطمہؑ کے گھر جمع ہوئے ہیں تو حکم دیا کہ ان پر حملہ کرکے انہیں متفرق کیا جائے اور مزاحمت کی صورت میں ان کے ساتھ جنگ کی جائے۔ عمر کچھ افراد کے ساتھ حضرت فاطمہؑ کے گھر کی طرف روانہ ہوئے اور انہوں نے گھر میں موجود افراد سے باہر نکلنے کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی خبردار کیا کہ ان کے حکم کی تعمیل نہ ہونے کی صورت میں اس گھر کو آگ لگا دی جائے گی۔[87] عمر اور ان کے ساتھی زبردستی گھر میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر آپؑ نے انہیں اس بات سے ڈرایا کہ اگر گھر سے باہر نہ نکلے تو میں خدا کے حضور شکایت کروں گی۔[88] اس پر حملہ آور گھر سے باہر چلے گئے اور امام علیؑ اور بنی‌ ہاشم کے علاوہ گھر میں موجود دیگر افراد کو ابوبکر کی بیعت کیلئے مسجد لے گئے۔[89]

حضرت فاطمہؑ کے گھر میں احتجاج کرنے والوں سے زبردستی بیعت لینے کے بعد حضرت علیؑ اور بنی ہاشم سے بھی بیعت لینے کیلئے عمر اور ان کے ساتھیوں نے ایک بار پھر آپؑ کے گھر کا رخ کیا اور اس مرتبہ حتی گھر کے دروازے کو آگ بھی لگا دی گئی۔ دروازے کو آگ لگانے کے بعد زبردستی دروازہ توڑ کر گھر میں داخل ہو گئے اس دوران در و دیوار کے بیچ میں حضرت فاطمہؑ مجروح ہوئیں، عمر اور قنفذ نے آپ کو ضربیں لگائیں جس سے آپؑ زخمی ہوئیں اور اس دوران آپؑ کے پیٹ میں موجود بچہ (محسن) سقط ہو گیا۔[90] بعض مورخین کے مطابق قنفذ نے حضرت فاطمہؑ کو در و دیوار کے درمیان رکھ کر [91] آپؑ پر دروازہ گرا دیا جس سے آپؑ کا پہلو زخمی ہوگیا۔[92] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ عمر نے آپ کے شکم اطہر پر بھی وار کیا[93] اس واقعے کے بعد حضرت فاطمہؑ علیل ہو گئیں اور اسی بیماری کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔[94]

ابوبکر و عمر سے ناراضگی
فدک اور ابوبکر کی بیعت سے مربوط واقعات میں ابوبکر اور عمر کے حضرت فاطمہؑ اور حضرت علیؑ کے ساتھ سختی سے پیش آنے کی وجہ سے آپؑ ان دونوں سے سخت ناراض ہو گئیں۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ دوسرے خلیفہ اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے حضرت فاطمہؑ کے دروازے پر حملہ کرنے اور اس سے پیدا ہونے والے ناخوشگوار واقعات کے بعد ابوبکر اور عمر نے آپؑ سے معافی مانگنے کا ارادہ کیا لیکن آپؑ نے انہیں اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ آخرکار جب حضرت علیؑ کی وساطت سے ابوبکر اور عمر فاطمہؑ کے گھر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تو اس وقت بھی آپؑ نے ان دونوں سے منہ پھیر لیا اور ان کے سلام کا جواب بھی نہیں دیا اور انہیں بغیر کسی جواب کے واپس جانے پر مجبور کیا۔ حضرت فاطمہؑ نے پیغمبر اکرمؐ کی مشہور حدیث جس میں پیغمبر اکرمؐ نے اپنی خوشنودی کو حضرت فاطمہؑ کی خوشنودی قرار دیا تھا؛ کا حوالہ دیتے ہوئے ان دونوں سے اپنی نارضایتی کا اعلان کیا۔[95] بعض مورخین کے مطابق حضرت فاطمہؑ نے ہر نماز کے بعد ان دونوں سے اظہار برأت کی قسم کھائی۔[96]

شہادت، تشییع، تدفین
تفصیلی مضمون: شہادت حضرت فاطمہ زہرا
پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات میں جسمانی اور روحانی دونوں اعتبار سے مجروح ہونے اور کچھ مدت تک بیمار رہنے کے بعد آخر کار آپ سنہ 11 ہجری کو اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔[97] آپ کی تاریخ شہادت کے بارے میں بھی چند اقوال، چالیس روز سے آٹھ ماہ تک، ذکر ہوئے ہیں۔ شیعوں کے یہاں مشہور ترین قول 3 جمادی‌ الثانی سنہ 11 ہجری ہے۔[98] یعنی رحلت پیغمبر (ص) کے بعد 95 روز، اس قول کی دلیل امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث ہے۔[99] دوسرے اقوال کے مطابق آپ کی شہادت 75 روز کے بعد 13 جمادی الاول (نوٹ) 8 ربیع الثانی[100] 13 ربیع‌ الثانی[101] اور 3 رمضان[102] ذکر ہوئی ہے۔

امام موسی کاظم علیہ السلام نے ایک روایت میں آپ کی شہادت کی تصریح کی ہے۔[103] امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت میں آپ کی شہادت کا سبب قنفذ کی وہ ضربت ہے جو اس نے غلاف شمشیر سے لگائی تھی، جس سے محسن کا حمل سقط ہوا اور اس کے نتیجہ میں پیش آنے والی بیماری سے آپ کی شہادت واقع ہوئی۔[104]

بعض محققین کے مطابق حضرت فاطمہ کی یہ وصیت کہ انہیں مخفیانہ طور پر دفن کیا جائے، دستگاہ خلافت کے خلاف ان کا آخری سیاسی قدم تھا۔[105]

مقام دفن
تفصیلی مضمون: حضرت فاطمہ کی تشییع و تدفین
شہادت سے پہلے حضرت فاطمہؑ نے یہ وصیت کی کہ میں ہرگز ان سے راضی نہیں ہوں جنہوں نے مجھ پر ظلم و ستم کیا اور میری ناراضگی کا باعث بنے وہ میرے جنازے میں شرکت کریں یا میری نماز جنازہ پڑھیں؛ اسی بنا پر آپؑ نے وصیت کی تھی کہ آپؑ کو مخفیانہ طور پر شب کی تاریکی میں دفن کیا جائے اور آپؑ کی قبر مبارک کو بھی مخفی رکھا جائے۔[106] مورخین کے مطابق حضرت علیؑ نے اسماء بنت عُمیس کی مدد سے آپؑ کو غسل دیا[107] اور آپؑ نے خود نماز جنازہ پڑھائی۔[108] امام علیؑ کے علاوہ کچھ اور افراد نے بھی آپؑ کے جنازے میں شرکت کی جن کی تعداد اور ناموں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ تاریخی مصادر میں امام حسن، امام حسین، عباس بن عبدالمطلب، مقداد، سلمان، ابوذر، عمار، عقیل، زبیر، عبداللہ بن مسعود اور فضل بن عباس کو ان افراد میں سے شمار کیا ہے جنہوں نے آپؑ کی نمازه جنازہ میں شرکت کی۔[109]

حضرت علی نے تدفین کے بعد قبر کے آثار کو مٹا دیا تا کہ قبر معلوم نہ ہو۔[110] تاریخی اور حدیثی مصادر میں درج ذیل مقامات آپؑ کے مقام دفن کے طور پر ذکر کئے گئے ہیں:[111]

بعض نے آپ کا محل دفن روضہ پیغمبر (ص) ذکر کیا ہے۔
خود آپؑ کا گھر۔ جو بنی امیہ کے دور میں مسجد کی توسیع میں مسجد کا حصہ بن گیا۔[112]
مسجد نبوی میں قبر اور منبر پیغمبر (ص) کے درمیان۔ [113]
قبرستان بقیع میں: بعض منابع نے بطور مطلق آپ کا محل دفن جنت البقیع کو قرار دیا ہے۔[114]
عقیل بن ابی طالب کے گھر میں[115] قبرستان بقیع کے بغل عقیل کا ایک بڑا سا گھر تھا۔[116] جو فاطمہ بنت اسد، عباس بن عبدالمطلب اور شیعوں کے اماموں کے دفن ہونے کے بعد محل سکونت سے خارج ہو کر عمومی زیارت گاہ میں تبدیل ہو گیا۔[117]
فضائل
شیعہ اور اہل سنت روائی، تفسیری اور تاریخی مصادر میں حضرت زہراؑ کے متعدد فضائل ذکر ہوئے ہیں۔ ان فضائل میں سے بعض کا منشا قرآن کریم کی مختلف آیات جیسے آیۂ تطہیر اور آیۂ مباہلہ ہیں۔ اس قسم کے فضائل میں آیات کا شان نزول تمام اہل‌ بیتؑ کے لئے ہے جن میں حضرت زہراؑ بھی شامل ہیں۔ آپ کے بعض فضائل احادیث میں بھی نقل ہوئے ہیں جن میں بِضعۃ الرسول اور مُحَدَّثہ ہونا ہیں۔

عصمت
تفصیلی مضمون: عصمت اہل بیتؑ
شیعہ نقطہ نگاہ سے فاطمہؑ آیۂ تطہیر کے مصادیق میں سے ایک ہونے کی حیثیت سے عصمت کے مقام پر فائز ہیں۔[118] اس آیت کے مطابق خداوند عالم نے اہل بیتؑ کو ہر قسم کی برائی اور نجاست سے پاک اور منزہ رکھنے کا ارادہ فرمایا ہے۔[119] شیعہ اور اہل‌ سنت دونوں طریق سے نقل ہونے والی متعدد احادیث کے مطابق حضرت فاطمہؑ اہل‌ بیتؑ میں سے ہیں۔[120] آپ کی عصمت کو مورد بحث قرار دینے کا پہلا مورد پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد پیش آنے والے ناگوار واقعات من جملہ فدک کا واقعہ ہے جس میں امام علیؑ نے آپ کے معصوم ہونے پر آیت تطہیر سے استناد کرتے ہوئے ابوبکر کے اس اقدام کو غلط اور فدک واپس لینے کے حوالے سے حضرت زہراؑ کی درخواست کو ان کا مسلمہ حق قرار دیا۔[121] شیعوں کے علاوہ اہل سنت کے حدیثی اور تاریخی مصادر میں بھی بعض احادیث نقل ہوئی ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے آیت تطہیر کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے اہل بیتؑ یعنی فاطمہؑ، علیؑ، حسنؑ اور حسینؑ کو ہر قسم کے گناہ سے مبرا قرار دیا ہے۔[122]

عبادت

حضرت فاطمہ زہرا ؑ
مَن اَصعَدَ اِلَی اللهِ خالِصَ عِبادَتِه اَهبَطَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ اِلَیهِ اَفضَلَ مَصلَحَتِه
ترجمہ: جو اپنی خالص عبادت کو اللہ کی طرف بھیجے تو اللہ تعالی اپنی بہترین مصلحت اس کی طرف نازل کرے گا۔
عدة الداعی، ص 233
حضرت فاطمہ زہراؑ بھی اپنے والد پیغمبر اکرم (ص) کی طرح خدا کی عبادت سے شدید لگاؤ رکھتی تھیں۔ اسی بنا پر آپ اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ نماز اور خدا کے ساتھ راز و نیاز میں بسر کرتی تھیں۔[123] بعض مصادر میں آیا ہے کہ بعض اوقات جب حضرت فاطمہؑ قرآن کی تلاوت میں مشغول ہوتی تھیں تو اس دوران آپ غیبی امداد سے بہرہ مند ہوتی تھیں۔ جیسے: ذکر کیا جاتا ہے کہ ایک دن سلمان فارسی نے دیکھا کہ حضرت زہراؑ چکی کے پاس قرآن کی تلاوت میں مصروف تھیں اور چکی خود بخود چل رہی تھی، سلمان فارسی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعے کو پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں بیان کیا تو آپ نے فرمایا: … خداوند عالم نے حضرت زہراؑ کیلئے چکی چلانے کے لئے جبرئیل امین کو بھیجا تھا۔[124] طولانی نمازیں پڑھنا، راتوں میں عبادت کرنا، دوسروں منجملہ پڑوسیوں کے لئے دعا کرنا،[125] روزہ رکھنا، شہداء کی قبور کی زیارت کرنا؛ آپ کے نمایاں معمولات زندگی تھے کہ جس کی اہل‌ بیتؑ، بعض صحابہ اور تابعین نے تائید کی ہے۔[126] یہی سبب ہے کہ دعا و مناجات کی کتابوں میں بعض نمازوں، دعاؤں اور تسبیحات وغیرہ کی نسبت ان کی طرف دی گئی ہے۔[127]

خدا و رسول کے نزدیک مقام و منزلت

شیعہ و سنی علما اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت زہراؑ کے ساتھ دوستی اور محبت کو خدا نے مسلمانوں پر فرض قرار دیا ہے۔ علما آیۂ مودت کے نام سے مشہور سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 23 سے استناد کرتے ہوئے حضرت فاطمہؑ کی دوستی اور محبت کو فرض اور ضروری سمجھتے ہیں۔ آیۂ مودت میں پیغمبر اکرمؐ کی رسالت و نبوت کی اجرت آپؐ کے اہل‌ بیتؑ سے مودت و محبت کرنے کو قرار دیا گیا ہے۔ احادیث کی روشنی میں اس آیت میں اہل‌ بیتؑ سے مراد فاطمہؑ، علیؑ اور حسنینؑ ہیں۔[128] آیۂ مودت کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ سے کئی احادیث نقل ہوئی ہیں جن کے مطابق خداوند عالم فاطمہؐ کی ناراضگی سے ناراض اور آپؑ کی خوشنودی سے خوش ہوتا ہے۔[129]

جنۃ العاصمہ کے مولف نے اپنی کتاب میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں حضرت فاطمہؑ کی خلقت کو وجہ تخلیق افلاک قرار دیا گیا ہے۔ یہ احادیث قدسی حدیث لولاک کے نام سے مشہور ہے جو پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے جس کے مطابق: افلاک کی خلقت پیغمبر اکرمؐ کی خلقت پر موقوف ہے، آپؐ کی خلقت حضرت علیؑ کی خلقت پر موقوف ہے اور آپ دونوں کی خلقت حضرت فاطمہؑ کی خلقت پر موقوف ہے۔[130] بعض علما اس حدیث کی سند کو مخدوش قرار دیتے ہیں لیکن اس کے مضمون کو قابل توجیہ مانتے ہیں۔[131]

پیغمبر اکرمؐ حضرت فاطمہؑ کو بہت مانتے تھے اور دوسروں کی بنسبت سے ان سے زیادہ محبت اور احترام کرتے تھے۔ حدیث بضعہ نامی مشہور حدیث میں پیغمبر اکرمؐ نے فاطمہؑ کو اپنے جگر کا ٹکڑا قرار دیتے ہوئے فرمایا: جس نے بھی اسے ستایا گویا اس نے مجھے ستایا۔ اس حدیث کو متقدمین محدثین جیسے شیعہ علماء میں شیخ مفید اور اہل سنت علماء میں احمد بن حنبل نے مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے۔[132]

خواتین کی سردار

شیعہ سنی دونوں طریقوں سے منقول متعدد احادیث میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہؑ سیدۃ نساء العالمین، بہشت کی تمام عورتوں کی سردار اور امت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔[133]

مباہلہ میں شریک واحد خاتون

صدر اسلام کی مسلمان خواتین میں سے حضرت فاطمہؑ وہ اکیلی خاتون ہیں جنہیں پیغمبر اکرمؐ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کیلئے انتخاب فرمایا تھا۔ یہ واقعہ قرآن مجید کی آیۂ مباہلہ میں ذکر ہوا ہے۔ تفسیری، روائی اور تاریخی مصادر کی روشنی میں آیت مباہلہ اہل‌ بیت پیغمبرؐ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہے۔[134] کہا جاتا ہے کہ فاطمہؑ، امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ اس واقعے میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ مباہلے کیلئے گئے اور ان اشخاص کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ نے کسی کو بھی اپنے ساتھ نہیں لیا۔[135]

نسل پیغمبر اکرمؐ کا تسلسل

پیغمبر اکرمؐ کی نسل کا تسلسل اور ائمہ معصومین کا تعین حضرت زہراؑ کی نسل سے ہونا آپ کی فضیلت میں شمار کیا گیا ہے۔[136] بعض مفسرین حضرت زہراؑ کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ کی نسل کے تسلسل کو سورہ کوثر میں مذکور خیر کثیر کا مصداق قرار دیتے ہیں۔[137]

سخاوت

حضرت فاطمہؑ کی زندگی میں سخاوت کا پہلو ان کی سیرت اور کردار کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ جس وقت آپؑ نے حضرت علیؑ کے ساتھ مشترکہ ازدواجی زندگی کا آغاز کیا تو اس وقت آپ کی مالی حالت معقول تھی۔ اس وقت بھی آپؑ نے سادہ زندگی گزاری اور اس وقت بھی آپؑ نے خدا کی راہ میں ہمیشہ انفاق کیا۔[138] اپنی شادی کا لباس اسی رات محتاج کو دینا،[139] فقیر کو اپنا گردن بند عطا کرنا[140] اور تین دن تک اپنا اور اپنے اہل و عیال کا کھانا مسکین، یتیم اور اسیر کو دے دینا؛ سخاوت کے اعلیٰ نمونوں میں سے ہے۔[141] حدیثی اور تفسیری مصادر میں موجود مطالب کی روشنی میں جب فاطمہؑ، علیؑ اور حسنینؑ نے مسلسل تین دن روزہ رکھا اور افطار کے وقت پورا کھانا نیازمندوں کو دے دیا تو خدا کی طرف سے سورہ انسان کی آیات 5 تا 9 نازل ہوئیں جو آیات اطعام کے نام سے مشہور ہیں۔[142]

محَدّثَہ

خدا کے مقرب فرشتوں کا حضرت فاطمہؑ کے ساتھ ہم کلام ہونا آپؑ کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔ اسی وجہ سے آپؑ کو “محَدّثَہ” کہا گیا۔[143] آپؑ کا پیغمبر اکرمؐ کی حیات طیبہ میں فرشتوں کے ساتھ ہمکلام ہونا[144] اور حضورؐ کی رحلت کے بعد فرشتوں کا آپؑ کو تسلیت دینا اور نسل پیغمبر اکرمؐ کا تسلسل آپ سے جاری رہنے کی خبر دینا اس بات کی واضح نشانیوں میں سے ہیں۔ آئندہ رونما ہونے والے واقعات جو فرشتہ الہٰی حضرت فاطمہؑ کیلئے بیان کرتے؛ امام علیؑ انہیں کتابی صورت میں تحریر فرماتے تھے جو بعد میں مصحف فاطمہؑ کے نام سے معروف ہوا۔[145]

زیارت نامہ

بعض شیعہ منابع میں امام جعفر صادق (ع) سے حضرت فاطمہ زہرا ؑ کے لئے زیارت نامہ نقل ہوا ہے۔[146] اس زیارت نامہ کے متن کے مطابق، حضرت فاطمہ ولادت سے پہلے اللہ کی طرف سے مورد امتحان قرار پائیں اور آپ نے اس امتحان میں صبر کا ثبوت دیا۔[147]

اس زیارت نامہ کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی ولایت قبول کرنے کو تمام انبیاء اور پیغمبر اکرم (ص) کی ولایت قبول کرنے اور ان کی اطاعت کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔[148] اسی طرح سے اس زیارت کے مطابق، جس نے حضرت زہرا کی اطاعت کی اور اس پر ثابت قدم رہا تو وہ نجاستوں اور گناہوں سے پاک ہو جائے گا۔[149]

معنوی میراث

حضرت فاطمہؑ کی عبادی، سیاسی و اجتماعی زندگی اور آپؑ کے اقوال کو قیمتی معنوی میراث کی طرح تمام مسلمان اپنی روزمرہ کی زندگی میں اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیتے ہیں اور اسلامی آثار میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں۔ مصحف فاطمہ، خطبہ فدکیہ، تسبیحات اور نماز حضرت زہراؑ اس معنوی میراث میں سے ہیں۔

روایات: آپؑ سے منقول احادیث اس معنوی میراث کا اہم حصہ ہیں۔ یہ احادیث محتوی کے اعتبار سے متنوع اور اعتقادی، فقہی، اخلاقی اور اجتماعی‌ موضوعات پر مشتمل ہیں۔ ان احادیث میں سے بعض شیعہ و اہل‌ سنت حدیثی مصادر میں مذکور ہیں جبکہ آپؑ کی اکثر احادیث مسنَد فاطمہ اور اخبار فاطمہ کے نام سے مستقل کتابوں کی شکل میں شائع ہوئی ہیں۔ ان مسانید میں سے بعض مرور زمان کے ساتھ مفقود ہو گئیں اور علم رجال و تراجم کی کتابوں میں ان راویوں اور مصنفین کے صرف نام مذکور ہیں۔[150]
مصحف فاطمہؑ: ایسے مطالب پر مشتمل ہے جنہیں حضرت فاطمہؑ نے فرشتہ الہیٰ سے سنا اور امام علیؑ اسے تحریری کیا۔[151] شیعوں کے مطابق مصحف فاطمہؑ ائمہ معصومین کے پاس محفوظ رہا، ہر امام اپنی عمر کے آخر میں اسے اپنے بعد والے امام کے سپرد کرتا رہا[152] اور ائمہ معصومینؑ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو اس کتاب تک رسائی حاصل نہیں ہو سکی۔ یہ کتاب اس وقت امام زمانہؑ کے پاس موجود ہے۔[153]
خطبہ فدکیہ: حضرت فاطمہؑ کے مشہور خطبات میں سے ایک ہے جسے آپ نے واقعہ سقیفہ بنی‌ ساعدہ اور باغ فدک کے غصب کے بارے میں مسجد نبوی میں صحابہ کے بھرے مجمع میں ارشاد فرمایا۔ اس خطبے کی اب تک کئی شرحیں لکھی جا چکی ہیں جن میں سے اکثر کا نام “حضرت زہراؑ کے خطبے کی شرح” یا “شرح خطبہ لُمَّہ” (خطبہ فدکیہ کا دوسرا نام) ہے۔[154]
تسبیح حضرت زہراؑ: سے مراد وہ مشہور ذکر ہے جسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت زہراؑ کو تعلیم دیا[155] جس سے حضرت فاطمہؑ بیحد خوش ہوئیں۔[156] شیعہ اور اہل‌ سنت مصادر میں حضرت زہراؑ کو رسول اکرمؐ کی طرف سے اس تسبیح کی تعلیم دینے کے حوالے سے مختلف مطالب مذکور ہیں اور کہا جاتا ہے کہ امام علیؑ نے اس ذکر کے سننے کے بعد کسی بھی صورت میں اسے ترک نہیں فرمایا۔[157]
نماز حضرت زہرا: سے مراد وہ نمازیں ہیں جنہیں حضرت فاطمہؑ نے آنحضرتؐ یا جبرئیل سے دریافت فرمایا۔ بعض حدیثی مصادر اور دعاؤں کی کتابوں میں ان نمازوں کی طرف اشارے ملتے ہیں۔[158]
حضرت زہرا سے منسوب اشعار: مصادر میں موجود بعض اشعار حضرت فاطمہؑ سے منسوب ہیں جنہیں تاریخی اور حدیثی مصادر میں ذکر کیا گیا ہے۔ تاریخی حوالے سے یہ اشعار دو ادوار پیغمبر اکرمؐ کی رحلت سے پہلے اور آپؑ کی رحلت کے بعد کے دور سے مربوط ہیں۔[159]
فاطمہ زہرا ؑ شیعہ ثقافت و ادب میں
شیعہ حضرت فاطمہؑ کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیتے ہیں اور آپ کی سیرت شیعہ ثقافت اور شیعوں کی زندگی میں جاری و ساری ہے۔ ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

مہر السنۃ: روایت کے مطابق امام محمد تقی (ع) نے اپنی زوجہ کا مہر حضرت فاطمہ زہرا کے مہر 500 درہم جتنا قرار دیا۔[160] اس مقدار مہر کو “مہر السنۃ” کہا جاتا ہے جو رسول خدا (ص) کی ازواج و اولاد کا مہر تھا۔[161]
ایام فاطمیہ: حضرت فاطمہؑ کی شہادت کے ایام کو ایام فاطمیہ کہا جاتا ہے۔ ایران سمیت دنیا کے تمام ممالک میں شیعہ حضرات 3 جمادی‌ الثانی کو آپؑ کی شہادت کی مناسبت سے عزاداری کرتے ہیں اور بعض ممالک من جملہ ایران میں اس دن سرکاری سطح پر چھٹی ہوتی ہے[162] اور شیعہ مراجع تقلید ننگے پاؤں عزاداری میں شرکت کرتے ہیں۔[163]
یوم مادر: ایران میں حضرت فاطمہؑ کی ولادت کے دن یعنی 20 جمادی‌ الثانی یوم مادر (Mother Day) یا یوم خواتین کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔[164] اس دن ایران میں لوگ اپنی ماؤں کو تحفے تحائف دے کر آپ ؑ کی ولادت کا جشن مناتے ہیں۔[165]
محلہ بنی‌ ہاشم کی علامتی تعمیر: ایام فاطمیہ کے ساتھ ساتھ محلہ بنی ہاشم، قبرستان بقیع اور حضرت فاطمہؑ کے گھر کی علامتی تعمیر قدیم ایام کی طرز پر شروع ہوتی ہے جسے دیکھنے کیلئے لوگ مقررہ مقامات کی طرف چلے آتے ہیں۔[166]
بیٹیوں کے نام: شیعہ اپنی بیٹیوں کا نام فاطمہ رکھتے ہیں یا پھر حضرت زہراؑ کے القابات میں سے کسی لقب کو نام کے طور پر چنتے ہیں اور ایران میں حالیہ سالوں کے دوران بیٹیوں کے ناموں میں “فاطمہ” اور “زہرا” کا شمار پہلے دس ناموں میں ہوتا ہے۔[167]
اولاد فاطمہؑ سے انتساب: شیعوں میں زیدیہ فرقہ اس بات کا معتقد ہے کہ امامت و رہبری صرف حضرت فاطمہؑ کی اولاد سے مخصوص ہے۔ اس بنا پر زیدیہ صرف اس شخص کو اپنا امام مانتے ہیں اور اس کی حکومت کو قبول کرتے ہیں جو آپؑ کی نسل سے ہو۔[168] اسی طرح فاطمیون نے جب مصر میں اپنی حکومت قائم کی تو انہوں نے خود کو آپؑ کے نام سے موسوم کیا اور وہ اپنے آپ کو حضرت فاطمہؑ کی اولاد سے قرار دیتے ہیں۔[169]
مونوگراف:
حضرت فاطمہؑ کے بارے میں تحریروں کا آغاز پہلی صدی ہجری سے ہی مسلمانوں خاص طور پر شیعوں میں ہو گیا تھا۔ اس سلسلے میں آپؑ کے بارے میں لکھی گئی کتابوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مُسنَد نگاری، مَنقَبَت‌ نگاری اور سیرت نگاری۔ [170] اس موضوع پر شیعہ علماء کی لکھی گئی مسانید درج ذیل ہیں:

مسند فاطمۃ الزہراء تالیف عزیز اللہ عطاردی
مسند فاطمہ زہرا تالیف سید حسین شیخ الاسلامی
نہج الحیاۃ (اقوال حضرت فاطمہ) تالیف محمد دشتی
مسند فاطمہ تالیف مہدی جعفری[171]
دلائل الامامۃ تالیف طبری امامی (اس سلسلے کا سب سے قدیمی مآخذ ہے)[172]
منقبت نگاری میں شیعہ علما کی تصانیف یہ ہیں:

مناقب فاطمہ الزہراء و ولدہا تالیف، طبری امامی،[173]
شرح احقاق الحق و ازہاق الباطل تالیف، سید شہاب الدین مرعشی نجفی
فضائل فاطمۃ الزہراء از نگاہ دیگران تالیف ناصر مکارم شیرازی
فاطمہ زہرا از نظر روایات اہل‌ سنت تالیف محمد واصف[174]
اس موضوع پر اہل سنت علماء کی تحریر کردہ مسانید کے نام یہ ہیں:

السقیفہ و فدک تالیف جوہری بصری
من روی عن فاطمہ من اولادہا تالیف ابن‌ عقدہ جارودی
مسند فاطمہ تالیف دارقطنی شافعی
منقبت نگاری کے عنوان سے اہل سنت کتب یہ ہیں:

الثغور الباسمۃ فی فضائل السیدۃ الفاطمۃ تالیف جلال‌ الدین سیوطی
اتحاف السائل بما لفاطمۃ من المناقب و الفضائل تالیف محمد علی مناوی[175]

 

………………………………………………….

حوالہ جات :

  1. صدوق، الامالی، 1417ھ، ص74، 187، 688، 691 و 692؛ کلینی، الکافی، 1363 شمسی، ج1، ص240؛ مسعودی، اسرار الفاطمیہ، 1420ھ، ص409۔
  2. صدوق، الامالی، 1417ھ، ص74، 187، 688، 691 و 692؛ کلینی، الکافی، 1363 شمسی، ج1، ص240؛ مسعودی، اسرار الفاطمیہ، 1420ھ، ص409 مجلسی، بحار الانوار، ج43، ص16؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ج3، ص132؛ قمی، بیت الاحزان، ص12 و 692
  3. ابن سعد، الطبقات‏ الکبری، ۱۴۱۰ق، ج ۸ ، ص۱۴.
  4. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۴۱۰
  5. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۴ق، ج۴۳، ص۹۲.
  6. کلینی، الکافی، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۴۶۱.
  7. شہیدی، زندگانی فاطمہ زہرا، ۱۳۶۳ش، ص۷۸.
  8. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۴۴، ص۲۰۱.
  9. محلاتی، ریاحین الشریعہ، دارالکتب الاسلامیہ، ج۳، ص۳۳.
  10. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۵۰۰.
  11. متقی ہندی، کنز العُمال، موسسۃ الرسالۃ، ج۲، ص۱۵۸ و ج۳، ص۷۶۷.
  12. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۲۹۳.
  13. مفید، الإرشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۸۹.
  14. کلینی، ج۱، ص۲۴۱، ح۵، طبری امامی،‌ دلائل الامامۃ، ۱۴۱۳ق، ص۱۳۴.
  15. نگاه کریں: صدوق، الخصال، ۱۴۰۳ق، ص۴۰۴؛ ابن‌ هشام، سیرة النبویہ، دار المعرفہ، ج۱، ص۱۹۰.
  16. بتنونی، الرحلۃالرحلۃ الحجازیۃ، المکتبۃ الثقافیۃ الدینیہ، ص128۔
  17. جمعی از محققین، فرهنگ ‌نامہ علوم قرآن، ‏‫۱۳۹۴ش، ج۱، ص۲۴۴۳.
  18. کلینی، الکافی، 1363 شمسی، ج1، ص458؛ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ص793؛ طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ج79، ص134؛ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، قم، شریف الرضی، ص143؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج1، ص290؛ ابن ‌شہر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، 1376ھ، ج3، ص132۔
  19. مفید، مسار الشریعہ فی مختصر تواریخ الشریعۃ، 1414ھ، ص54؛ کفعمی، المصباح، 1403ھ، ص512۔
  20. ابن ‌سعد، الطبقات الکبری، بیروت، ج1، ص133. ج8، ص19؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص403؛ ابن ‌عبد البر، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، 1412ھ، ج4، ص1899۔
  21. مفید، مسار الشریعہ، ۱۴۱۴ق، ص۵۴؛ طوسی، مصباح المتهجد، ۱۴۱۱ق، ص۷۹۳؛ طبری امامی، دلائل الامامة، ۱۴۱۳ق، ص۱۳۴.
  22. کیا آج کی ایک مسلمان خاتون حضرت زہراءؑ کو نمونہ عمل بنا سکتی ہے؟، پایگاہ خبری تحلیلی مہرخانہ، تاریخ انتشار: 11-02-1392 شمسی، تاریخ بازدید: 17-12-1395 شمسی
  23. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص163۔
  24. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج2، ص35۔
  25. احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، بیروت، ج1، ص368؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، ج1، ص163۔
  26. محقق سبزواری، نمونہ بینات در شأن نزول آیات از نظر شیخ طوسی و سایر مفسرین خاصہ و عامہ، 1359 شمسی، ص173-174
  27. طباطبایی، ازدواج فاطمہ، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۱۲۸.
  28. طبری، ذخائر العقبی، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۱۶۷؛ متقی هندی، کنز العمال، ۱۴۰۱ق، ج۷، ص۱۲۹.
  29. کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۸، ص۱۶۵؛ مغربی، شرح الاخبار، ۱۴۱۴ق، ج۳، ص۲۹. سهمی، تاریخ جرجان، ۱۴۰۷ق، ص۱۷۱.
  30. طباطبایی، ازدواج فاطمہ، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۱۲۸.
  31. اربلی، کشف الغمہ، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۳۶۳؛ خوارزمی، المناقب، ۱۴۱۱ق، ص۳۴۳.
  32. نسایی، السنن الکبری، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۴۳؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، دار المعرفة، ج۲، س۱۶۷ و ۱۶۸.
  33. طبری امامی، دلائل الامامة، ۱۴۱۳ق، ص۸۲.
  34. خوارزمی، المناقب، ۱۴۱۱ق، ص۳۴۳.
  35. ابن سعد، طبقات، ح8، ص11۔
  36. طوسی، محمد بن حسن، الامالی، 1414ھ، ص39۔
  37. صدوق، الامالی، 1417ھ، ص653؛ اربلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، 1405ھ، ج1، ص364۔
  38. مفید، الاختصاص، 1414ھ، ص148۔
  39. مفید، الاختصاص، 1414ھ، ص148۔
  40. طوسی، محمد بن حسن، الامالی، 1414ھ، ص40۔
  41. طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۱۵ق، ج۱۰، ص۱۵۶؛ خوارزمی، المناقب، ۱۴۱۱ق، ص۳۳۶.
  42. ابن ‌اثیر جزری، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، انتشارات اسماعیلیان، ج5، ص517۔
  43. اردبیلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، 1405ھ، ج1، ص358۔
  44. طبری امامی، دلائل الإمامۃ، 1413ھ، ص88-90؛ خوارزمی، المناقب، 1411ھ، ص335-338۔
  45. ابن‌ حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، 1404ھ، ج12، ص391؛ مقریزی، امتاع الاسماع، 1420ھ، ج1، ص73؛ کلینی، الکافی، 1363 شمسی، ج8، ص340۔
  46. طوسی، الأمالی، 1414ھ، ص43؛ طبری، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، 1420ھ، ص410۔
  47. ابن‌ شہر آشوب، مناقب آل‌ابی ‌طالب، 1376ھ، ج3، ص131۔
  48. خوارزمی، مناقب، ۱۴۱۱ق، ص۲۶۸-۲۷۱.
  49. مجلسی، بحار الانوار، 1404ھ، ج43، ص192 و 199؛ جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، 1413ھ، ص64۔
  50. صدوق، الأمالی، 1417ھ، ص552۔
  51. ابن ‌سعد، الطبقات الکبری، بیروت، ج8، ص25۔
  52. مجلسی، بحار الانوار، 1404ھ، ج43، ص72۔
  53. خوارزمی، المناقب، 1411ھ، ص268
  54. حمیری قمی، قرب الإسناد، 1413ھ، ص52۔
  55. طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص140-142۔
  56. الانصاری الزنجانی، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء، 1428ھ، ج‏17، ص429۔
  57. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشھ، 1415ھ، ج13، ص163،173۔
  58. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1413ھ، ج3، ص280۔
  59. ابن ‌سعد، الطبقات الکبری، دار صادر، ج8، ص465۔
  60. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشھ، 1415ھ، ج69، ص176۔
  61. مفید، الإرشاد، 1413ھ، ج1، ص355؛
  62. شہرستانی، الملل و النحل، 1422ھ، ج1، ص57؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1413ھ، ج15، ص578؛ مسعودی، اثبات الوصیۃ
  63. للإمام علی ‌بن ابی‌ طالب، 1417ھ، ص154 و 155؛ ہلالی عامری، کتاب سلیم بن قیس، 1420ھ، ص153۔
    ابن ‌سعد، الطبقات الکبری، بیروت، ج2، ص238؛ کلینی، کافی، 1363 شمسی، ج3، ص228۔
  64. کلینی، الکافی، 1363 شمسی، ج1، ص241۔
  65. مفید، المقنعۃ، 1410ھ، ص289 و 290؛ سید مرتضی، الشافی فی‌الامامۃ، 1410ھ، ج4، ص101؛ مجلسی، بحار الانوار، دار الرضا، ج29، ص124؛ اردبیلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، 1421ھ، ج1، ص353-364۔
  66. جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، 1413ھ، ص63؛ابن‌ ابی‌ الحدید، شرح نہج ‌البلاغۃ، 1378ھ، ج2، ص47۔
  67. ابن‌ ابی‌ شیبہ کوفی، المصنف فی الاحادیث و الآثار، 1409ھ، ج8، ص572۔
  68. جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، 1413ھ، ص72 و 73۔
  69. طبرسی، الاحتجاج، 1386ھ، ج1، ص109۔
  70. طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص143۔
  71. طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ۔ ص793۔
  72. ابن ‌شہر آشوب، مناقب آل‌ابی ‌طالب، 1376ھ، ج3، ص137۔
  73. طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص143۔
  74. ابن ‌کثیر، السیرہ النبویہ، 1396ھ، ج3، ص58۔
  75. طبرسی، مجمع البیان فی تفسیرالقرآن، 1415ھ، ج8، ص125-135۔
  76. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص635۔
  77. فرہمند پور، «سیرہ سیاسی فاطمہ»، ص309-316۔
  78. ابن‌ ابی ‌الحدید، شرح نہج‌ البلاغۃ، 1378ھ، ج1، ص123۔
  79. امینی، الغدیر، ج1، ص33۔
  80. ابن ‌قتیبہ دینوری، الامامۃ و السیاسۃ، 1380شمسی، ص28۔
  81. جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، 1413ھ، ص119۔
  82. سیوطی، الدر المنثور، 1404ھ، ج3، ص290۔
  83. مفید، الاختصاص، 1414ھ، ص184 و 185؛ حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، 1400ھ، ج3، ص488۔
  84. طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص111-121۔
  85. ابن‌ کثیر، تاریخ ابن‌ کثیر، 1351-1358ھ، ج5، ص246؛ ابن‌ ہشام، سیرۃ النبویہ لابن ہشام، 1375ھ، ج4، ص338۔
  86. عسکری، سقیفہ: بررسی نحوہ شکل‌ گیری حکومت پس از پیامبر، 1387 شمسی، ص99۔
  87. ابن عبد ربہ اندلسی، العقد الفرید، 1409ھ، ج3، ص64۔
  88. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص105۔
  89. ابن‌ ابی ‌الحدید، شرح نہج‌ البلاغہ، 1378ھ، ج2، ص21۔
  90. طبری امامی، دلائل الامامہ، 1413ھ، ص134۔
  91. صدوق، معانی الاخبار، 1379 شمسی، ص206۔
  92. عاملی، رنج‌ہای حضرت زہراؑ، 1382 شمسی، ج2، ص350-351۔
  93. مفید، الاختصاص، 1414ھ، ص185۔
  94. طبری امامی، دلائل الامامہ، 1413ھ، ص134۔
  95. ابن ‌قتیبہ دینوری، الامامۃ والسیاسۃ، 1413ھ/1371 شمسی، ج1، ص31۔
  96. کحالہ، اعلام النساء فی عالمی العرب و الاسلام، 1412ھ/1991م، ج4، ص123-124۔
  97. طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ص793۔
  98. طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ص793۔
  99. طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص134۔
  100. ابن ‌شہر آشوب، مناقب آل ‌ابی ‌طالب، 1376ھ، ج3، ص132۔
  101. طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص136۔
  102. اربلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، 1405ھ، ج2، ص125۔
  103. کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۴۵۸.
  104. طبری امامی، دلائل الامامة، ۱۴۱۳ق، ص۱۳۴.
  105. فرهمند پور، «سیره سیاسی فاطمہ»، ۱۳۹۳ش، ج۲، ص۳۱۵.
  106. صدوق، علل الشرایع، 1385ھ، ج1، ص185؛ ابن‌ شہر آشوب، مناقب آل‌ ابی ‌طالب، 1376ھ، ج3، ص137۔
  107. بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص34؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1403ھ، ج2، ص473-474۔
  108. اربلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، 1421ھ، ج2، ص125۔
  109. ہلالی عامری، کتاب سلیم بن قیس، 1420ھ، ص393؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج1، ص300؛ صدوق، محمد بن علی، الخصال، 1403ھ، ص361؛ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، 1404ھ، ج1، ص33 و 34۔
  110. مجلسی،‌ بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۳، ص۱۹۳.
  111. طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۰۰.
  112. کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۴۶۱؛ مفید، الاختصاص، ۱۴۱۴ق، ص۱۸۵؛ صدوق، من لا یحضره الفقیہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۲۹ وج۲، ص۵۷۲: طوسی، تهذیب الأحکام، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۹؛ نمیری، تاریخ المدینة المنوره، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۰۶ و ۱۰۷.
  113. صدوق، من لا یحضره الفقیہ، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۵۷۲؛ طوسی، تهذیب الأحکام، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۹؛ طبری‌ امامی، دلائل الامامة، ۱۴۱۳ق، ص۱۳۶؛ ابن‌ شهر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، ۱۳۷۶ق، ج۳، ص۱۳۹.
  114. صدوق، من لا یحضره الفقیہ، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۵۷۲.
  115. نمیری، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص105۔
  116. واقدی، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۴، ص۳۳.
  117. سمہودی، وفاء الوفا، 1971م، ج3، ص92 و 95۔
  118. سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، 1410ھ، ج4، ص95؛ ابن‌ شہر آشوب، مناقب آل‌ ابی ‌طالب، 1376ھ، ج3، ص112۔
  119. سورہ احزاب، آیہ 33۔
  120. طبرسی، الاحتجاج، 1386ھ، ج1، ص215؛ سیوطی، الدر المنثور، 1404ھ، ج5، ص198۔
  121. ر.ک: طبرسی، الاحتجاج، 1386ھ، ج1، ص122 و 123؛ صدوق، علل الشرایع، 1385ھ، ج1، ص190-192۔
  122. ابن ‌مردویہ اصفہانی، مناقب علی ‌بن ابی ‌طالب، 1424ھ، ص305؛ سیوطی، الدر المنثور، 1404ھ، ج5، ص199؛ ابن ‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1408ھ، ج2، ص316۔
  123. طوسی، الأمالی، 1414ھ، ص528۔
  124. ابن ‌شہر‌ آشوب، مناقب آل ‌ابی ‌طالب، 1376ھ، ج3، ص116 و 117۔
  125. صدوق، علل الشرایع، 1385ھ، ج1، ص182۔
  126. ابن ‌شہر آشوب، مناقب آل‌ابی‌ طالب، 1376ھ، ج3، ص119۔
  127. ر.ک: ابن‌ طاووس، جمال الاسبوع، 1371 شمسی، ص 93؛ کلینی، الکافی، 1363 شمسی۔ ج3، ص343۔
  128. ابو الفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، 1375 شمسی، ج17، ص122؛ بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، 1416ھ، ج4، ص815؛ سیوطی، الدر المنثور فی تفسیر بالمأثور، 1404ھ، ج6، ص7؛ ابو السعود، ارشادالعقل السلیم الی مزایا القرآن الکریم، دار احیاء التراث العربی، ج8، ص30۔
  129. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، ج3، ص154۔
  130. میر جہانی، جنۃ العاصمۃ، 1398ھ، ص148۔
  131. گفت‌ و گو با آیت اللہ‌ العظمی شبیری زنجانی، سایت جماران، تاریخ انتشار: 1393/01/14، تاریخ بازدید: 1395/11/29.
  132. مفید، الامالی، 1414ھ، ص260؛ طوسی، الامالی، 1414ھ، ص24؛ احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، بیروت، ج4، ص5۔
  133. صدوق، علل الشرایع، 1385ھ، ج2، ص182. طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص81؛ احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، بیروت، ج3، ص80؛ بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت، ج4، ص183؛ مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، بیروت، ج7، ص143 و 144۔
  134. ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1412ھ، ج1، ص379؛ بلاغی، حجۃالتفاسیر و بلاغ‌الاکسیر، 1386ھ، ج1، ص268؛ ترمذی، سنن الترمذی، 1403ھ، ج4، ص293 و 294۔
  135. برای نمونہ نک: ابن‌اثير، الکامل فی التاريخ، 1385شمسی، ج2، ص293
  136. طباطبائی، المیزان فی تفسیرالقرآن، 1417ھ، ج20، ص370 و 371۔
  137. طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1417ھ، ج20، ص370 و 371؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج27، ص371؛ فخر رازی، التفسیرالکبیر، 1420ھ، ج32، ص313؛ بیضاوی، انوار التنزیل و اسرار التأویل، 1418ھ، ج5، ص342؛ نیشابوری، تفسیر غرائب القرآن، 1416ھ، ج6، ص576۔
  138. طبرسی، مکارم الاخلاق، 1392ھ، ص94 و 95۔
  139. مرعشی نجفی، شرح احقاق الحق، کتابخانہ مرعشی نجفی، ج19، ص114۔
  140. طبری، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، 1420ھ، ص218 و 219۔
  141. اربلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، 1405ھ، ج1، ص169۔
  142. ابن طاووس، الطرائف، مطبعۃ الخیام، 1399ھ، ص107-109؛ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، 1409ھ، ج10، ص211؛ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج4، ص670؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج30، ص746 و 747
  143. صدوق، علل الشرائع، 1385ھ، ج1، ص182۔
  144. ابن‌ شہر آشوب، مناقب آل ابی ‌طالب، 1376ھ، ج3، ص116۔
  145. کلینی، الکافی، 1363 شمسی، ج1، ص240 و 241۔
  146. شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۱۴، ص۳۶۸؛ طوسی، تهذیب الأحکام، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۹.
  147. شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۱۴، ص۳۶۸؛ آل رسول، «اسرار وجودی حضرت زهراؑ»، ص۱۶۷.
  148. شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۱۴، ص۳۶۸؛ آل رسول، «اسرار وجودی حضرت زهراؑ»، ص۱۶۷.
  149. شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۱۴، ص۳۶۸؛ آل رسول، «اسرار وجودی حضرت زهراؑ»، ص۱۶۷.
  150. معموری، کتاب شناسی فاطمہ، 1393 شمسی، ص561 -563۔
  151. کلینی، الکافی، 1363 شمسی، ج1، ص241۔
  152. صفار، بصائر الدرجات الکبری، 1404ھ، ص173 و 181۔
  153. آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ، 1403ھ، ج21، ص126۔
  154. آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ، 1403ھ، ج8، ص93؛ ج13، ص224۔
  155. صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1404ھ، ج1، ص 320 و 321؛ بخاری، صحیح بخاری، دار الفکر، 1401ھ، ج4، ص48 و 208۔
  156. صدوق، علل الشرایع، 1385ھ، ج2، ص366۔
  157. احمد بن حنبل، مسند، بیروت، ج1، ص107۔
  158. سید بن طاووس، علی ‌بن موسی، جمال الاسبوع، 1371 شمسی، ص70 و 93۔
  159. عالمی، اشعار فاطمہؑ، دانشنامہ فاطمیؑ، 1393 شمسی، ج3، ص110 -120۔
  160. سید بن طاووس، جمال الاسبوع، ۱۳۷۱ش، ص۷۰ و ۹۳.
  161. عالمی، اشعار فاطمہ ؑ، ج۳، ص۱۱۰ -۱۲۰.
  162. «ماجرای تعطیل شدن روز شہادت حضرت زہراؑ». خبرگزاری فارس‌، تاریخ انتشار: 05 -02- 1391 شمسی، تاریخ بازدید: 02-12-1395
  163. فاطمیہ درقم ؛ پیادہ روی دو تن از مراجع تقلید تا حرم، خبرگزاری صداو سیما، تاریخ انتشار: 14-01-1393 شمسی، تاریخ بازدید: 02-12-1395شمسی۔
  164. آیین‌ نامہ‌ہای مصوب شورای فرہنگ عمومی، ادارہ کل فرہنگ و ارشاد اسلامی کرمانشاہ، تاریخ بازدید: 02-12-1395.
  165. 15 پیشنہاد برای ہدیہ روز مادر، پایگاہ اینترنتی بیتوتہ، تاریخ بازدید: 02-12-1395.
  166. نمایشگاہ کوچہ‌ہای بنی ہاشم، خبرگزاری مشرھ، تاریخ انتشار: 27-01-1391 تاریخ بازدید: 02-12-1395.
  167. دہ نام نخست برای دختران و پسران ایرانی، خبرگزاری فارس، تاریخ انتشار: 15-02-1392، تاریخ بازدید: 02-12-1395.
  168. رصاص، مصباح العلوم، 1999م، ص23-24۔
  169. ربانی گلپایگانی، علی، فاطمیان و قرامطہ، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ، تاریخ انتشار :4-5-1385، تاریخ بازدید: 06-12-1395.
  170. معموری، کتاب شناسی فاطمہ، 1393 شمسی، ص561
  171. معموری کتاب شناسی فاطمہ، 1393 شمسی، ج2، ص564
  172. معموری، کتاب شناسی فاطمہ، 1393 شمسی، ج2، ص563؛ مراجعہ کریں: طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، 65-76
  173. آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ 1403ھ، ج22، ص332۔
  174. معموری، کتاب شناسی فاطمہ ، 1393شمسی، ص567
  175. معموری، کتاب شناسی فاطمہ، 1393 شمسی، ص566
Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے