عزاداری انبیاء اور ائمہ اطہار کی نگاہ میں
حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری ایسی عبادت ہے جسے انجام دینے میں بہت زیادہ ثواب ملتا ہے اور اس سے رضائے الہٰی حاصل ہوتی ہے ۔
معصومین کے حضور سید الشہداء کی عزاداری
خلاصہ
بلاشبہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری ایسی عبادت ہے جسے انجام دینے میں بہت زیادہ ثواب ملتا ہے اور اس سے رضائے الہٰی حاصل ہوتی ہے ۔ یہ وہ عبادت ہے جسے حضرات معصومین علیہم السلام بڑے اہتمام سے بجا لاتے تھے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دشمنان اسلام نے اسے مٹانے،روکنے اور اس کے حقیقی چہرے کو مسخ کرنے میں اپنی پوری طاقت اور توانائی سے استفادہ کیا ہے اور اسی سبب سے عزاداری سید الشہداء کچھ حد تک تحولات کا شکار بھی رہی ہے۔تحریفات سے پاک و منزہ خالص عزاداری تک دسترسی کے لیے خود حضرات معصومین علیہم السلام کی اقتدا ہی بہترین راستہ ہوسکتا ہے۔ اس مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ حدالمقدور حضرات معصومین علیہم السلام کے محضر میں سید الشہداء حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی عزاداری سے متعلق منعقد ہونے والی مجالس اور ان مجالس کے انعقاد کے وہ ممکنہ اہداف بیان کیے جائیں جنہیں خود حضرات معصومین علیہم السلام نے بیان فرمایا ہے۔
مقدمہ
رونا اور ہسنان انسان کے وجودی عوارض میں سے ہیں یعنی انسان اپنے بہت سے روحی واندرونی حالات کا اظہار رونے اور ہنسنے سے ہی کرتا ہے اور یہ ایک فطری عمل ہے جوانسان میں فطرتاً موجود ہے انسان اپنے غم کا اظہار آنسو بہا کر اور خوشی کا اظہار مسکرا کر ہی کرتا ہے ۔خداوندمتعال نے بھی دین مبین اسلام کو بشری فطری تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اصحاب بھی اس قانون سے مستثنی نہیں تھے وہ بھی اپنے غموں کا اظہار آنسو بہا کر اور خوشی کا اظہار مسکرا کرہی کیا کرتے تھے جس کے متعدد شواہد تاریخی کتب میں ملتے ہیں ۔ہم بھی اسی بشری فطری عمل کے مطابق حضرات معصومین علیہم السلام کی محبت میں ان کی مظلومیت پر عزاداری کرتے ہیں جو ایک فطری عمل کا تقاضے کے عین مطابق ہے ۔لہٰذااس فطری عمل کے لیے کسی بھی دلیل کی ضرورت نہیں لیکن اس کےباوجود ہماری یہ عزاداری رسالتمآب کی ادائگی ِرسالت کاوہ حق ہے جسے ہم قرآن مجید کی آیت’’قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى‘‘(۱) کے مطابق ادا کرتے ہیں چونکہ حقیقی محب اسے ہی کہا جاتا ہے جو اپنے محبوب کی خوشی میں خوش اور اس کے غم میں غمگین رہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری بشر کی سرنوشت کے ساتھ وابستہ ہے۔ یعنی جب سے اولین بشر حضرت آدم علیہ السلام نے اس دنیا میں قدم رکھاہے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور عزاداری کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے اور یہ تذکرہ اسی طرح حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دورتک جاری رہا۔انبیاء علیہم السلام کو حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی ہی خبر نہیں ملی بلکہ انہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری بھی کی۔
ہم تین شعبان کے اعمال میں پڑھتے ہیں :’’اللهم إني أسألك بحق هذا المولود في هذا اليوم الموعود بشهادته قبل استهلاله و ولادته بكته ملائكة السماء و من فيها و الأرض و من عليها و لما يطأ لابتيها‘‘(۲)اے میرے پروردگار آپ کو آج کے اس مولود کا واسطہ دے کر پکارتے ہیں جس کی شہادت کی خبر ان کی ولادت سے پہلے دی گئی تھی اور آسمان و زمین نے اپنے تمام مکینوں کے ساتھ ان پر عزاداری کی جبکہ ابھی اس نے اس زمین پر قدم بھی نہیں رکھا تھا۔
جی ہاں تمام انبیاء حضرت امام حسین علیہم السلام پر روئے اور ان کے قاتلوں پر لعنت کی؛اوربلاشبہ ۶۱ ہجری کو اپنے اصحاب و اقارب کے ساتھ دلخراش حالت میں شہادت پانے والےپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تیسرے جانشین حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری شیعیان حیدر کرار کے ہاں اہم سنت ہے۔حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام نے اپنے پیروکاروں میں ایسی دائمی حرکت ایجاد کی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے:اِنّ الاسلامَ عَلوی، والتّشیّع حسینی(۳) اسلام علوی جبکہ شیعت حسینی ہے۔
جی ہاں!جب حضرت سیدالشہداء علیہ السلام خون میں لت پت ذوالجناح سے نیچے تشریف لائےتو اس حالت میں اپنے ربّ سے اس طرح مناجات فرماتے ہیں:’’صبرا علی قضائک یا رب، لا إله سواک یا غیاث المستغیثین، ما لی رب سواک و لا معبود غیرک، صبرا علی حُلمک، یا غیاث من لا غیاث له، یا دائما لا نفاد له، یا محیی الموتی، یا قائما علی کل نفس بما کسبت، احکم بینی و بینهم و انت خیرالحاکمین‘‘(۴)پروردگارا! تیری قضا کے سامنے صبر کرتا ہوں،تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اے بے پناہوں کی پناہگاہ!تیرے علاوہ میرا کوئی مالک نہیں اور تیرے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں ہے۔میں تیرے حکم اور فیصلہ پر صابر ہوں ؛اے بے کسوں کی فریاد سننے والے،اے خداجو دائمی و ابدی ہے اور مردوں کو زندہ کرتا ہے،اے سب جاننے والے شاہد اورمخلوقات کے تمام اعمال پر نظارت کرنے والے! تو خود میرے اور اس قوم کے درمیان قضاوت فرما بیشک توہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
یہ فیصلہ الہٰی ہی ہے کہ جس حسین مظلوم نے اپنا سب کچھ حق متعال کی توحید کے احیاء کے لیے قربان کر دیا تھا اب’’هَلْ جَزاءُ الْإِحْسانِ إِلاَّ الْإِحْسان‘‘(۵)کا تقاضا اسی میں ہے کہ جب تک توحید باقی ہے نام حسینؑ ابن علیؑ بھی باقی رہے۔ہماری اس تحقیق میں یہی کوشش رہے گی کہ اختصار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ دیکھیں کہ خداوندمتعال نے اس احسان کی جزاء کس طرح دی۔لہٰذا ہم اس تحقیق کو درج ذیل پانچ فصلوں میں پیش کریں گے ۔
۔۱۔ پہلی فصل:حضرت امام حسین علیہ السلام کا مختصر تعارف
۔۲۔ دوسری فصل:حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت سےپہلے آپ پر انبیاء کی عزاداری
۔۳۔ تیسری فصل: حضرت امام حسین علیہ السلام ولادت کے بعد آپ پر عزاداری
۔۴۔ چوتھی فصل: حضرت امام حسین علیہ السلام شہادت کے بعد آپ کی عزاداری
۔۵۔ پانچویں فصل :حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو اس قدر اہتمام سے منانے کی وجوہات
پہلی فصل
حضرت امام حسین علیہ السلام کا مختصر تعارف
حضرت امام حسین علیہ السلام کا مختصر تعارف
حضرت امام حسین علیہ السلام۳شعبان المعظم۴ہجری کو مدینہ منورہ میں متولد ہوئے،آپ کے والد بزرگوار سید الاوصیاء امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابیطالب علیہما السلام اور والدہ گرامی خاتون جنت،صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور پیغمبر گرامی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے نانا تھے۔
آپ کی ولادت کے بعد جبرائیل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں تشریف لائے اور حق متعال کا درودو سلام پہنچانے کے بعد عرض کی:اس مولود مبارک کا نام ہارون کے چھوٹے بیٹے’’شبیر‘‘کے نام گرامی پر رکھیں جو عربی میں ’’حسین‘‘کا معنی دیتا ہے اور اس اسم گزاری کی وجہ اس طرح سے بیان فرمائی کہ :علی ابن ابیطالب آپ کے لیے ہارون کی طرح سے ہیں یعنی جس طرح ہارون موسیٰ علیہ السلام کے جانشین تھے اسی طرح علی ابن ابیطالب آپ کے جانشین ہیں لہٰذا ہارون کے بیٹوں کے جو نام تھے آپ انہی ناموں کو اپنے فرزندوں کے لیے انتخاب فرمائیں۔
آپ چھ سال اور چند مہینے اپنے نانا کے ساتھ رہے اور تیس سال اپنے والد بزرگوار کے ہمرار رہے۔آپ کی شان و منزلت کے لیے آیت مباہلہ ہی کافی ہے جس میں آپ کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرزندجانا گیا ہے اور آیت تطہیر آپ کی عصمت کی گواہ ہے اس کے علاوہ بہت سی آیات آپ کی شان و منزلت کو بیان کرتی ہیں۔
آپ کی ولادت کی مبارک باد عرض کرنے کے لیے ملائکہ الہٰی عرش معلیٰ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں تشریف لائے اور آپ کی خدمت میں کربلا کی مٹی پیش کرنے کے ساتھ تعزیت پیش کی۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا مفہوم
حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر رونا،رولانایا پھرعزاداری کا روپ دھار لینا سب عزاداری کے مفہوم میں شامل ہیں۔ان مفاہیم میں رونا اور رولانا دونوں واضح مفاہیم ہیں لیکن’’تباکی‘‘ کا مفہوم سے متعلق کچھ بحث جسے متعدد روایات میں بھی ذکر کیا گیا ہے اس کلمہ کے مصادیق میں سے؛ رونے والی شکل بنالینا،اپنے قیافہ کو سوگوار اور غمزدہ لوگوں کی طرح ڈھال لینا،رونے والا انداز اختیار کرلینا،غمزدہ افراد کی دلجوئی کے لیے غمزدہ شکل بنا لینا،ہر وہ فعل جس سے غمزدہ افراد اپنے غم کا اظہار کرتے ہوں اُن کے ساتھ اظہار ہمدری کے لیے وہ افعال انجام دیناخواہ سیاہ لباس کی شکل میں ہو،سبیل لگانے کی صورت میں ہو،نیاز تقسیم کرنے کی صورت میں ہویا پھر انتظامی اموروغیرہ سب اس مفہوم میں شامل ہیں۔ہم فقط دو احادیث کو تبرکا ذکر کرتے ہیں:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’مَنْ اَنْشَدَ فِی الحُسَینِ شِعرا فَتَباکی فَلَهُ الجَنة‘‘(۶) جو بھی حسین علیہ السلام کے بارے میں شعر کہے اور غمزدہ روپ دھار لے وہ جنت کا مستحق ہے۔
حدیث قدسی کو نقل کرتے ہیں:’’ يَا مُوسَى!مَا مِنْ عَبْدٍ مِنْ عَبِيدِي فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ بَكَى أَوْ تَبَاكَى وَ تَعَزَّى عَلَى وُلْدِ الْمُصْطَفَى(ص)إِلَّا وَ كَانَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ثَابِتاً فِيهَا‘‘(۷)اے موسیٰ!میرے بندوں میں سے جو بھی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند کی شہادت کے زمانے میں اُن کی مظلومیت پر روئے یا رونے والی حالت اپناتے ہوئے محمد مصطفیٰ کو ان کے نواسے کا پرسہ دے وہ ہمیشہ جنت میں رہے گا۔ تباکی سے متعلق متعدد روایات دعاؤں،استغفار سے متعلق بھی ہیں جنہیں ہم اختصار کی مطلوبیت کی خاطر ذکر نہیں کرتے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی فضیلت
روایات میں ہر خوشی و غمی کی مناسبت پر حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت ،مجالس ،محافل اور ان کی عزاداری کی رغبت دلائی گئی ہے چونکہ اگر ذکر حسینؑ زندہ ہے تو اسلام اور توحید زندہ ہے اس طرح قیامت تک کے لیے امام حسین علیہ السلام کے طفیل اسلام کی حفاظت ہوتی رہے گی۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’إِنَّ اللَّهَ اتَّخَذَ كَرْبَلَاءَ حَرَماً آمِناً مُبَارَكاً قَبْلَ أَنْ يَتَّخِذَ مَكَّةَ حَرَماً‘‘(۸) خداوندمتعال نے کربلا کو امن و برکت کا حرم مکہ معظمہ سے پہلے قرار دیا تھا۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ حَجَّ أَلْفَ حَجَّةٍ ثُمَّ لَمْ يَأْتِ قَبْرَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ(ع) لَكَانَ قَدْ تَرَكَ حَقّاً مِنْ حُقُوقِ رَسُولِ اللَّهِ (ص) وَ سُئِلَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ حَقُّ الْحُسَيْنِ ع مَفْرُوضٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ‘‘(۹)اگر تم میں سے کوئی ہزار مرتبہ حج انجام دے لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے نہ جائے تو اس نے یقینی طور پر حقوق الہٰی میں سے حق کو ترک کردیا ہے جس کے متعلق قیامت کے دن اسے مؤاخذہ کیا جائے گا۔پھر حضرت نے ارشاد فرمایا:امام حسین علیہ السلام کا حق ہر مسلمان پر واجب ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’مَنْ لَمْ يَأْتِ قَبْرَ الْحُسَيْنِ(ع) وَ هُوَ يَزْعُمُ أَنَّهُ لَنَا شِيعَةٌ حَتَّى يَمُوتَ فَلَيْسَ هُوَ لَنَا بِشِيعَةٍ وَ إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَهُوَ مِنْ ضِيفَانِ أَهْلِ الْجَنَّةِ‘‘(۱۰)جو بھی امام حسین علیہ السلام کے نورانی مرقد کی زیارت کے لیے نہ جائے اور یہ تصور کرتا ہو کہ وہ ہمارا شیعہ ہے اور اسی حالت میں اس دنیا سے چلا جائے تو وہ ہمارا شیعہ ہی نہیں اور اگر جنت میں بھی چلا جائے تو بہشتیوں کا مہمان ہوگا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى عَوَّضَ الْحُسَيْنَ(ع)مِنْ قَتْلِهِ أَنْ جَعَلَ الْإِمَامَةَ فِي ذُرِّيَّتِهِ وَ الشِّفَاءَ فِي تُرْبَتِهِ وَ إِجَابَةَ الدُّعَاءِ عِنْدَ قَبْرِهِ وَ لَا تُعَدَّ أَيَّامُ زَائِرِيهِ جَائِياً وَ رَاجِعاً مِنْ عُمُرِهِ‘‘(۱۱)خداوندمتعال نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے عوض امامت کو اُن کی نسل میں سے قرار دیا،اُن کے مقتل کی مٹی میں شفاء قرار دی ،اُن کے مرقد منور کو مستجاب الدعا قرار دیا اور اُن کے زائرکے آمد و رفت کے ایام کو اس کی زندگی میں سے شمار نہیں کیا۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’مَنْ زَارَ قَبْرَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) بِشَطِّ الْفُرَاتِ كَمَنْ زَارَ اللَّهَ فَوْقَ عَرْشِهِ‘‘(۱۲) جو بھی شط فرات کے نزدیک امام حسین کی زیارت کرے وہ اس طرح ہے جس طرح اس نے عرش پر خداوندمتعال کی زیارت کی ہو۔
حضرت امام جعفرصادق اور حضرت امام موسیٰ کاظم علیمتالسلام سے ایک ہی مضمون پر مبنی روایت نقل ہوئی ہے جس میں یہ دو بزرگوار امام ارشاد فرماتے ہیں:’’من زار الحسين(ع)عارفا بحقه غفر الله له ما تقدم من ذنبه و ما تأخر‘‘(۱۳)جو بھی امام حسین علیہ السلام کی معرفت کے ساتھ ان کی قبر مطہر کی زیارت کرے خداوندمتعال اس کے تمام گذشتہ اور آئندہ گناہوں کو معاف کردے گا۔
دوسری فصل
حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت سےپہلے آپ پر انبیاء کی عزاداری
حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت آدم اور جبرائیل علیہم السلام کی عزاداری
کتاب ’’دُرّالثمین‘‘کے مصنف ’’فَتَلَقّی آدَمَ مِنْ رَبِّهِ کَلَماتٍ فَتابَ عَلَيْهِ إنَّهُ هُوَ التَّوابُ الرَّحيمُ‘‘(۱۴) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:سب پہلے پیغمبر جن کے سامنے جبرائیل نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے مصائب کا تذکرہ کیا وہ حضرت آدم علیہ السلام تھے۔ پھر جب حضرت آدم نے پیغمبر اکرم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء گرامی کوعرش پروردگار پر مشاہدہ کیا تو جبرائیل نے حضرت آدم سے کہا انھیں پڑھو:’’يٰا حَميدُ بِحَقِّ مُحَمَّد يٰا عٰالي بِحَقِّ عَلي يٰا فٰاطِرُ بِحَقِّ فاطِمة يٰا مُحْسِنُ بِحَقِّ الْحَسَنْ وَ الْحُسَيْن وَ مِنْکَ الْإحْسان‘‘جب امام حسین علیہ السلام کا اسم گرامی حضرت آدم کی زبان مبارک پر جاری ہوا تو اُن کی آنکھوں سےبے ساختہ آنسوؤں کا سیلاب جاری ہوگیا ان کا دل غمگین ہو گیا جبرائیل سے کہنے لگے:کیوں اس نام کو زبان پر جاری کرنے سے میرا دل غمگین ہو گیا ہے اور میرے آنسو بھی جاری ہو گئے ہیں؟ جبرائیل نے کہا: آپ کے اس فرزند پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے؛ جو سب کے سب اس کے آگے حقیر ہوں گے۔حضرت آدم نے سوال کیا:وہ میبتں کیا ہوگی؟جبرائیل نے کہا:آپ کا یہ فرزند پیاسا،غربت کے عالم میں حامی و ناصر کے بغیر شہید کردیا جائے گا۔ اے آدم!کاش آپ اسےاس وقت دیکھیں کہ وہ کیسے’’وا عَطشاه واقلة ناصِراه‘‘کی فریاد کرے گا اور پیاس اس کے اور آسمان کے درمیان دھوئیں کی طرح حائل ہو جائے گی ۔کوئی بھی تلوار کےسوا اس کا جواب دینے والا نہ ہوگااور پھر دنبے کی طرح ان کا سر پشت گردن سے جدا کردیا جائے گا ان کے دشمن ان کے اموال کو غارت کریں گے ان کےسروں کو ان کے غمزدہ اہل وعیال کے ساتھ شہر شہر پھرائیں گے یہ سب کچھ حق متعال کے علم میں ہے۔ان مصائب کے ذکر سے حضرت آدم اور جبرائیل علیہماالسلام اسی طرح روئے جس طرح باپ جوان بیٹے کے مرنے پر روتا ہےاور جب حضرت آدم علیہ السلام کربلا کی زمین پر پہنچے توحضرت امام حسین علیہ السلام کے مقتل میں آپ کا پاؤں پھسلا اور گرنے سے آپ کی پیشانی سے خون جاری ہو گیاتو بارگاہ رب العزت میں عرض کی: بارالہٰا! کیا مجھ سے کوئی خطا سرزد ہوئی ہے جو اس طرح مجھ ے سزا دے جارہی ہے؟ جواب ملا نہیں کوئی خطا نہیں ہوئی بلکہ اس سرزمین پر آپ کا مظلوم بیٹا حسین شہید ہوگا ۔ ان کا خون اس سرزمین میں جاری ہوگا ان کے درد میں شریک ہونے کے لیے یہاں پر آپ کا خون جاری ہوا ہے۔حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی پروردگارا! ان کا قاتل کون ہوگا؟جواب ملا یزید ملعون۔اس پر لعت بھیجو۔اس طرح حضرت آدم نے یزید لعین پر لعنت بھیجی۔(۱۵)۔
حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت نوح علیہ السلام کی عزاداری
انس بن مالک نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:جب خداوندمتعال نے حضرت نوح کی قوم کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت نوح کو دستور دیا کہ جبرائیل کی نظارت میں کشتی بنائیں اور اس کشتی میں استعمال ہونے والی ایک ہزار کیلیں جبرائیل نے حضرت نوح کو دیں اور حضرت نوح نے ان تمام کیلوں کو کشتی بنانے میں استعمال کیا جب آخری پانچ کیلیں باقی بچیں تو جب حضرت نوح نے انھیں لگانے کا ارادہ کیا اور اُن میں سے ایک کیل کو اس مقصد سے ہاتھ میں لیاتو اُچانک اس سے درخشندہ ستاروں کی مانندنور نکلنے لگا حضرت نوح یہ ماجرا دیکھ کر حیران ہو گئے تو اس کیل سے آواز آئی اے نوح میں بہترین پیغمبر یعنی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں۔حضرت نوح نے کہا: اے جبرائیل اس کیل کا کیا ماجرا ہے میں نے آج تک ایسی کیل نہیں دیکھی۔جبرائیل نے جواب دیا یہ کیل خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نام نامی سے منسوب ہے اسے کشتی کی دائیں جانب نبے کریں۔حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیااور پھر دوسرےکیل کو نصب کرنے کے لیے اٹھایا تواس کیل سے بھی ایک نور بلند ہوا،حضرت نوح نے پوچھا یہ کیا ہے؟جواب ملا:یہ کیل سید الانبیاء کے چچازاد بھائی علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے نام سے منسوب ہے اسے کشتی کی بائیں جانب نصب کریں۔حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیا اورپھر تیسری کیل نصب کرنے کے لیےاٹھائی اس سےبھی نور بلند ہوا تو جبرائیل نے کہا یہ کیل آخری پیغمبر کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام نامی سے منسوب ہے اسے انکے والد سے منسوب کیل کےساتھ نصب کردیں حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیااورپھر چوتھی کیل اٹھائی تو اس سے بھی نور بلند ہوا تو جبرائیل نے کہا یہ کیل حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے نام سے منسوب ہے اسے ان کے والد گرامی کے نام سے منسوب کیل کے ساتھ نصب کریں لیکن جب حضرت نوح علیہ السلام نے پانچویں کیل اٹھائی تو پہلے تو اس سے نور اٹھا لیکن جب حضرت نوح نے اسے کشتی میں نصب کیا تو اس سے خون جاری ہو گیا ۔حضرت جبرائیل نے کہا: یہ کیل حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام نامی سے منسوب ہے اور پھر جبرائیل نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا ماجرا بیان کیا اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا پیغمبر کے نواسے سے سلوک بیان کیا۔(۱۶)۔
حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عزاداری
روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب سرزمین کربلا سے عبور کرنا چاہا توحضرت گھوڑے پر سوار تھے اچانک گھوڑے کا پاؤں پھسلا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام گھوڑے سے زمین پر گرےان کا سر مبارک زمین پر لگنے سے خون جاری ہو گیاحضرت ابراہیم علیہ السلام نے استغفار کرنا شروع کر دیا اور کہا:’’الھی،أیُّ شیءٍ حدث منّی؟ فنزل الیہ جبرئیل وقال: ھنا یُقتَلُ سبط خاتم الانبیاء وابن خاتم الاوصیاء‘‘پروردگارا! مجھ سے کون سا گناہ سرزد ہوا ہے؟جبرائیل نازل ہوئے اور کہا:اس سرزمین پر خاتم الانبیاء اور سید الاوصیاء کا فرزند شہید کردیا جائے گا۔اسی لیے آپ کا خون اُن کے غم میں شریک ہونے کے لیے جاری ہوا ہے۔(۱۷)۔
حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عزاداری
روایت میں ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نہر فرات کے کنارے اپنے حیوانوں کو چرانے میں مشغول تھے ایک دن ان کے چرواہے نے اُن سے کہا :کہ چند دن سے جانور نہر فرات کا پانی نہیں پی رہے اس کی کیا وجہ ہے؟حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خداوندمتعال سے اس کی علت دریافت کی تو جبرائیل نازل ہوئے اور کہا:اے اسماعیل آپ خود ہی اِن حیوانوں سے اس کی علت دریافت کریں وہ خود ہی آپ کو ماجرا سے آگاہ کریں گے؟حضرت اسماعیل علیہ السلام نے حیوانوں سے پوچھا کہ پانی کیوں نہیں پی رہے؟ ’’فقالت بلسانٍ فصیحٍ: قد بلغنا انّ ولدک الحسین(ع) سبط محمد یقتل هنا عطشاناً فنحن لانشرب من هذه المشرعة حزناً علیه‘‘حیوانات نے فصیح زبان میں کلام کرتے ہوئے کہا:کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ اس مقام پر آپ کے فرزند حسین جومحمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے ہیں اس مقام پر پیاسے شہید کردیے جائیں گے لہٰذا ہم بھی اُن کے حزن میں پانی نہیں پی رہے۔حضرت اسماعیل نے اُن کے قاتلوں کے بارے میں سوال کیا؟ تو جواب ملا اُن کےقاتل پر تمام آسمان و زمین اور اس کی تمام مخلوقات اس پر لعنت کرتیں ہیں۔’’فقال اسماعیل:اللّهم العن قاتل الحسین‘‘حضرت اسماعیل کہا:خداوندا! اس کے قاتلوں پر لعنت بھیج۔(۱۸)۔
حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی عزاداری
مرحوم علامہ مجلسی ؒ نقل فرماتے ہیں کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام ہوا میں اپنی سواری پر سوار ہو کر زمین کی گردش کرتے ہوئے سرزمین کربلا سے گذرے تو ہوا نے انکی سواری کو تین مرتبہ گردباد میں پھنسا دیا اور قریب تھا کہ وہ کو گر جاتے۔جب ہوا ٹھہری تو حضرت سلیمان کی سواری کربلا کی سرزمین پر نیچے اتری۔حضرت نے سواری سے پوچھا کہ کیوں اس سرزمین پر رکی ہو؟’’فقالت انّ هنا یقتل الحسین فقال و من یکون الحسین فقالت سبط محمّدٍ المختار و ابن علیّ الکرّار‘‘ہوا نے کہا:اس سرزمین پر حسین شہید کیے جائیں گے۔حضرت سلیمان نے پوچھا:حسین کون ہیں؟ جواب ملا آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اورعلی مرتضیٰ کے فرزند ہیں۔ پوچھا؟ کون اُن سے جنگ کرے گا؟جواب ملا آسمان و زمین کا موعلن ترین شخص یزید۔حضرت سلمان نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے اس پر لعنت بھیجی اور تمام جن و انس نے آمین کہی پھر حضرت سلیمان کی سواری نے حرکت کی۔(۱۹)۔
حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عزاداری
حضرت موسیٰ علیہ السلام یوشع بن نون کے ہمراہ بیابان میں سفر کر رہے تھے کہ جب وہ کربلا کی سرزمین پر پہنچے تو حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے جوتے کا تسمہ کھل گیا اور ایک تین پہلوؤں والا کانٹا حضرت موسی ٰ حضرت کے پاؤں میں پیوست ہوگیا جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیر سے خون جاری ہونے لگا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی :بارالہٰا !مجھ سے کوئی گناہ ہوا ہے؟خداوندمتعال نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی:اس جگہ پر حسین شہید ہوں گے اور ان کا خون بہایا جائے گا تمہارا خون بھی ان کے ساتھ وابستگی کی خاطر جاری ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی : بارالہٰا !حسین کون ہیں؟ ارشاد ہوا:وہ محمد مصطفیٰ کے نواسے اور علی مرتضی کے لخت جگر ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی مناجات میں عرض کی:’’يَا رَبِّ لِمَ فَضَّلْتَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ(ص)عَلَى سَائِرِ الْأُمَمِ فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى فَضَّلْتُهُمْ لِعَشْرِ خِصَالٍ قَالَ مُوسَى وَ مَا تِلْكَ الْخِصَالُ الَّتِي يَعْمَلُونَهَا حَتَّى آمُرَ بَنِي إِسْرَائِيلَ يَعْمَلُونَهَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى الصَّلَاةُ وَ الزَّكَاةُ وَ الصَّوْمُ وَ الْحَجُّ وَ الْجِهَادُ وَ الْجُمُعَةُ وَ الْجَمَاعَةُ وَ الْقُرْآنُ وَ الْعِلْمُ وَ الْعَاشُورَاءُ قَالَ مُوسَى(ع)يَا رَبِّ وَ مَا الْعَاشُورَاءُ قَالَ الْبُكَاءُ وَ التَّبَاكِي عَلَى سِبْطِ مُحَمَّدٍ(ص)وَ الْمَرْثِيَةُ وَ الْعَزَاءُ عَلَى مُصِيبَةِ وُلْدِ الْمُصْطَفَى يَا مُوسَى مَا مِنْ عَبْدٍ مِنْ عَبِيدِي فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ بَكَى أَوْ تَبَاكَى وَ تَعَزَّى عَلَى وُلْدِ الْمُصْطَفَى(ص)إِلَّا وَ كَانَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ثَابِتاً فِيهَا وَ مَا مِنْ عَبْدٍ أَنْفَقَ مِنْ مَالِهِ فِي مَحَبَّةِ ابْنِ بِنْتِ نَبِيِّهِ طَعَاماً وَ غَيْرَ ذَلِكَ دِرْهَماً إِلَّا وَ بَارَكْتُ لَهُ فِي الدَّارِ الدُّنْيَا الدِّرْهَمَ بِسَبْعِينَ دِرْهَماً وَ كَانَ مُعَافاً فِي الْجَنَّةِ وَ غَفَرْتُ لَهُ ذُنُوبَهُ وَ عِزَّتِي وَ جَلَالِي مَا مِنْ رَجُلٍ أَوِ امْرَأَةٍ سَالَ دَمْعُ عَيْنَيْهِ فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ وَ غَيْرِهِ قَطْرَةً وَاحِدَةً إِلَّا وَ كُتِبَ لَهُ أَجْرُ مِائَةِ شَهِيدٍ‘‘(۲۰)اے میرے پروردگار! آخری نبی کی امت کو باقی نبیوں کی امتوں پر کیوں برتری دی؟جواب ملا:ان میں دس خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے انھیں فضیلت دی گئی ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی :وہ دس خصوصیات کیا ہیں مجھے بھی بتائیں تو میں بنی اسرائیل کو کہوں کہ وہ بھی ان پر عمل کریں۔خداوندمتعال نے ارشاد فرمایا:’’نماز،زکات، روزہ،حج،جامد،جمعہ،جماعت،قرآن،علم اور عاشوراء‘‘حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی پروردگارا یہ عاشورا کیا ہے؟ارشاد ہوا:محمد مصطفیٰ کے فرزند کی مصیبت میں عزاداری کرتے ہوئے رونا اورمرثیہ خوانی کرنا۔ اے موسیٰ! جو بھی اس زمانے محمد مصطفیٰ کے اس فرزند پر روئے اور عزاداری کرے اس کے لیے جنت یقینی ہےاور اے موسیٰ !جو بھی محمد مصطفیٰ کے اس فرزند کی محبت میں اپنا مال خرچ کرے (نیازمیں یاپھر کسی بھی چیز میں)میں اس میں برکت ڈال دوں گا یہاں تک کہ اس کا ایک درہم ستر درہموں کے برابر ہوجائے گا اور اسے گناہوں سے پاک صاف جنت میں داخل کروں گااور مجھے میری عزت و جلال کی قسم جو بھی عاشورا یا عاشورا کے علاوہ اس کی محبت میں ایک قطرہ آنسو بہائے میں سو شہیدوں کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھ دوں گا۔
منقول ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں بنی اسرائیل کی بخشش کی درخواست کی تو حق متعال نے ارشاد فرمایا:اے موسیٰ !حسین کے قاتل کے علاوہ جو بھی اپنے گناہوں کی مجھ سے معافی مانگے گا میں اسے معاف کردوں گا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:اس کا قاتل کون ہے؟خداوندمتعال نے فرمایا:اس کا قاتل وہ ہے جس پر مچھلیاں دریاؤں میں، درندے بیابانوں میں،پرندے ہواؤں میں لعنت بھیجتے ہیں۔اس کے جد حضرت محمد مصطفٰی کی امت کے کچھ ظالم اسے کربلا کی سرزمین پر شہید کردیں گے اور ان کا گھوڑا فریاد کرے گا۔’’اَلظَّليْمَةُ اَلظَّليْمَةُ مِنْ اُمّة قتلَت إبْن بِنْت نبيِّهٰا‘‘پھر ان کے بدن کو غسل و کفن کے بغیر صحرا میں پتھروں پر چھوڑ دیں گے اور ان کے اموال کو غارت کریں گے ان کے اہل و عیال کو قیدی بنالیں گے ان کے ساتھیوں کو بھی قتل کردیں گے اور ان کے سروں کو نیزوں پر سوار کرکے بازاروں اور گلیوں میں پھرائیں گے ۔اے موسیٰ ! ان کے بعض بچے پیاس کی شدت سے مرجائیں گے ان کے بڑوں کے جسم کی کھال پیاس کی شدت سے سکڑ جائے گی وہ جس قدر بھی فریاد کریں گے، مدد طلب کریں گے،امان مانگیں گے کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں بڑے گا اورانھیں امان نہیں دی جائے گی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے روتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے یزید پر لعنت کی اورحضرت امام حسین علیہ السلام کے لیے دعا کی اور یوشع بن نون نے آمین کہا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:اے میرے پروردگار!حسین کے قاتلوں کے لیے کیا عذاب ہوگا؟ خداوندمتعال نے وحی کی:ایسا عذاب کہ جہنمی بھی اس عذاب کی شدت کی وجہ سے پناہ مانگیں گے ،میری رحمت اور ان کے جد کی شفاعت ان لوگوں کے شامل حال نہ ہوگی اور اگر حسین کی عظمت نہ ہوتی تو میں ان کے قاتلوں کوزندہ درگور کر دیتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا:پروردگار میں ان سے اور جو بھی ان کے کاموں پر راضی تھے ان سب سے بیزار ہوں۔خداوندمتعال نے ارشاد فرمایا:میں نے ان کے پیروکاروں کے لیے بخشش کو انتخاب کیا ہے۔’’’وَ اعْلَمْ اَنَّهُ مَنْ بَکٰا عَلَيْهِ اَوْ اَبْکٰا اَوْ تَبٰاکٰا حُرِّمَتْ جَسَدَهُ عَلَی النّٰارْ‘‘اور جان لو! جو بھی حسین پر روئے یا رولائے یا رونے کی شکل بنالے اس کا جسم جہنم کی آگ پر حرام ہے۔(۲۱)۔
حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت زکریا علیہ السلام کی عزاداری
سعد بن عبداللہ قمی ؒکہتے ہیں میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہواحضرت نے ارشاد فرمایا:اس ملاقات سے تمہارا کیا مقصد تھا؟میں نے عرض کیا:مجھے احمد بن اسحاق نے اشتیاق دلایا کہ میں آپ کی خدمت میں شرفیاب ہو کر آپ کے محضر سے فیض حاصل کروں اور اگر آپ اجازت فرمائیں تو آپ سے کچھ سوال بھی کرلوں۔حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جو کچھ بھی پوچھنا چاہتے ہو میرے اس فرزند سے پوچھ لو یہ اہل تشیع کا بارھواں امام ہے ۔سعد کہتاہے میں نے اس گوہر تابناک کی طرف توجہ کرتے ہوئے ان سے پوچھا اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!مجھے سورہ مریم کے اول میں’’کھیعص‘‘کی تأویل سے آگاہ فرمائیں؟امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:یہ حروف مقطعات غیب کی خبروں میں سے ہیں اور خداوندمتعال ان حروف کے ذریعہ سے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت زکریا کے واقعات سے آگاہ فرمارہے ہیں پھر حضرت نے اس قصہ کو بیان فرمایا: کہ حضرت زکریا نے خداوندمتعال سے تقاضا کیا کے مجھے خمسہ طیبہ کے اسمائے گرامی کی تعلیم دیں،جبرائیل نازل ہوئے اور اُن اسماء کی تعلیم حضرت زکریا کو دی۔ایک دن حضرت زکریا نے مناجات کے وقت عرض کی:پروردگارا! میں جب بھی محمد،علی، فاطمہ اورحسن صلوات الله علیمی اجمعین کے اسماء کو ذہن میں لاتا ہوں تواپنے غموں کو بھول کر خوشحال ہوجاتا ہوں لیکن جب بھی حسین علیہ السلام کے نام گرامی کے بارے میں سوچتا ہوں تو دنیا کے تمام غم میری طرف ہجوم آور ہوجاتے ہیں اور بے اختیار میرے آنسو جاری ہو جاتے ہیں؟خداوندمتعال نے انہیں حضرت سید الشہداء کے واقعہ سے آگاہ کیا ۔پھرحضرت نےفرمایا:’’کاف‘‘کربلا کی طرف اشارہ ہے جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا مقام ہے اور’’ھا‘‘عترت طاہرہ کی ہلاکت کی طرف اشارہ ہے اور’’یا‘‘یزید ملعون کی طرف اشارہ ہے اور’’عین‘‘عطش اور پیاس کی طرف اشارہ ہے’’صاد‘‘صبر سید الشہداء کی طرف اشارہ ہے۔
جب حضرت زکریا نے کربلا کے اس جانسوز واقعہ کو سنا تو اس قدر متأثر ہوئے کہ تین دن تک اپنے گھر سے باہر تشریف نہیں لائے اور لوگوں کو ملنے سے منع کردیا اس مدت میں عزاداری سید الشہداء میں مشغول رہے اور ان جملوں کا تکرار کرتے تھے: ’’إلهي اتفجع خير جميع خلقک بولده ؟ إلهي اتنزل بلوی هذه الرزية بفنائة ؟ إلهي اتلبس علی و فاطمه ثياب هذه المصيبة ؟ إلهي اتحل کربة هذه المصيبة بساحتهما ؟‘‘اور ان جملوں کے بعد خداوندمتعال سے التجا کرتے تھے کہ بارالہٰا !مجھے ایک فرزند عنایت فرما جس کی محبت سے میرے دل کو نورانی کردے اور پھر مجھے اس کی مصیبت میں اسی طرح مبتلا فرما جس طرح اپنے حبیب محمد مصطفیٰ کو ان کے فرزند حسین کی مصیبت میں مبتلا فرمائے گا ۔ خداوندمتعال نے حضرت زکریا کی دعا قبول کرتے ہوئے انہیں حضرت یحیی ٰعنایت کیے اور پھر حضرت یحییٰ شہید ہو گئے اور زکریا ان کے غم میں سوگوار ہوگئے۔حضرت یحیی ٰاور حضرت امام حسین علیہما السلام میں ایک اور شباہت یہ تھی کہ یہ دونوں بزرگوار چھ ماہ کے حمل کے بعد متولد ہوئے تھے۔(۲۲) اس کے علاوہ ان دونوں بزرگواروں میں ایک اور شباہہت یہ بھی پائی جاتی ہے جسے حضرت امام جواد علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:’’ما بکت السماء الاّ علی یحیی بن ذکریا والحسین بن علی علیہما السلام‘‘یعنی آسمان حضرت یحییٰ اور حضرت سید الشہداء کی مظلومیت کے سوا کسی اور کی مظلومیت پر نہیں رویا۔(۲۳)۔
حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عزاداری
منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوں کے ہمراہ سفر کر رہے تھے کہ اُن کا گذر سرزمین کربلا سے ہوا تو انھوں نے دیکھا کہ ایک شیر آمادہ ان کا راستہ روکے بیٹھا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام شیر کے پاس گئے اور اس سے علت دریافت کی؟شیر نے فصیح زبان میں کلام کرتے ہوئے کہا:میں اس راستے سے گذرنے نہیں دوں گا مگر یہ کہ’’تلعنوا یزید قاتل الحسین علیہ السلام فقال عیسی: و من یکون الحسین؟ قال: هو سبط محمّدٍ النّبیّ الامّی و ابن علیٍ الولیٍ‘‘۔ امام حسین علیہ السلام کے قاتل پر لعنت بھیجیں ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ حسین علیہ السلام کون ہیں؟کہا:محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اور علی مرتضیٰ علیہ السلام کے فرزندہیں۔پوچھا ان کا قاتل کون ہے؟جواب ملا وحشی حیوانات اور درندگان کا نفرین شدہ یزید۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ بلند کر کے یزید پر لعنت بھیجی اور حواریوں نے آمین کہی تو شیر نے اُن کے لیے راستہ کھول دیا۔(۲۴)۔
تیسری فصل
حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعدآپ کی عزاداری
ہم اس فصل میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی حضرت سید الشہداء علیہ السلام پر عزاداری سے متعلق مختصر سی وضاحت کریں گے ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزاداری
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد مناسبتوں سے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شایدت کی کیفیت کو بیان کیا اور عزاداری فرمائی ہے۔جن میں سے چند موارد کو بطور مثال ذکر کرتے ہیں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزاداری
بیقیض حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے اسماء بنت عمیس کے نقل کو نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ آپ فرماتی ہیں: میں حضرات امام حسن اور حسین علیہم السلام کی ولادت با سعادت کے مواقع پر آپ کی دادی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس موجود تھی۔جب حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو حضرت خاتم الانبیاء میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا:اے اسماء ! میرے فرزند کو میرے پاس لے آؤ۔میں نے مولود کو ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر رسول خدا کے سپرد کردیا۔حضرت نے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور پھر بچے کو اپنی گود میں رکھ کر رونے لگے۔میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان جاؤں کیوں گریہ فرما رہے ہیں؟ارشاد فرمایا: اپنے اس فرزند پر رو رہا ہوں۔ میں نے دوبارہ دریافت کیا:یہ تو ابھی متولد ہوا ہے! فرمایا:اے اسماء ! میرے اس فرزند کو ستمگروں کا ایک گروہ شہید کردے گا خداوندمتعال انھیں میری شفاعت سے محروم رکھے۔پھر فرمایا:اے اسماء!یہ بات ابھی فاطمہ سے ذکر نہ کرنا کیونکہ یہ فرزند ابھی تازہ متولد ہوا ہے۔(۲۵)۔
______________
حوالہ جات:
۔ ۱۔ قرآن مجید،سورۂ شوری، آیت نمبر۲۳۔
۔۲۔سيد على بن موسى بن طاوس، إقبال الأعمال،دار الكتب الإسلامیہ تہران،۱۳۶۷ھ۔ش۔
۔۳۔ محمدحسین مظفّر، تاریخ شیعہ، ترجمہ محمدباقر حجتی، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۶۸، ص ۶۹۔
۔۴- مقرم،مقتل الحسین علیہ السلام،ص ۲۸۳۔
۔۵۔قرآن مجید، سورۂ بقره، آیت نمبر ۳۷۔
۔۶۔ ملا محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، بیروت، دارالاحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق(۱۹۸۳م) ج۴۴ص۲۸۳
۔۷۔ ایضاً ،ص۲۸۸۔
۔۸۔ایضاً،ج۱۰۱،ص۱۱۰۔
۔۹۔ایضاً،ج۱۰۱،ص۵،ح۱۸۔
۔۱۰۔جعفربن محمد بن قولویہ، کامل الزیارات، نجف، مطبعہ المرتضویہ، ۱۳۵۶ق، ص۳۵۶، باب۷۸، ح۳۔
۔۱۱۔ محمد بن علی بن بابویہ(شیخ صدوق)،امالی،ترجمہ محمد باقر کمرہ ای،تہران،کتابخانہ اسلامی،۱۳۶۲ش،ص۳۱۷
۔۱۲۔شیخ صدوق،ثواب الاعمال و عقاب الاعمال،ص۸۵
۔۱۳۔کامل الزیارات،ص۲۶۲،باب۵۴،ح۱
۔۱۴۔سورۂ بقرہ آیت نمبر۳۷
۔۱۵۔بحار الانوار،ج۴۴،ص۲۴۵،ح۴۴۔
۔۱۶۔بحار الانوار،ج۴۴،ص۲۴۳،ح۳۸
۔۱۷۔سید موسیٰ جوادی،سوگنامہ آل محمد،ص۳۴،مکتبہ امام رضاؑ
۔۱۸۔بحار الانوار،ج۴۴،ص۲۴۳،۲۴۴،ح۳۹
۔۱۹۔ایضا،ص۲۴۴،ح۴۲
۔۲۰۔مستدرک الوسائل،ج۱۰،ص۳۱۸
۔۲۱۔ایضاً،ص۲۴۴،ح۴۱
۔۲۲۔ایضاً،ص۳۰۸و۲۴۴و۲۷۹
۔۲۳۔ایضاً،ص۲۲۳
۔۲۴۔ایضاً،ح۴۳
۔۲۵۔مقتل،حافظ ابوالمؤید خوارزمی،ج۱فصل۶ص۸۸
جاری۔۔۔