کیا امام حسین علیہ السلام کے لیے عزا داری کرنا بدعت ہے؟ (حصہ دوم)
فصل چهارم:
سنت نبوی میں امام حسين عليه السلام کی عزاداری:
رسول خدا صلّي الله عليه وآله کا امام حسين عليه السلام کے لیے گریہ کرنا:
امام حسین(ع) کی ولادت کے موقع پر گریہ کرنا:
مستدرك الصحيحين ، تأريخ ابن عساكراور مقتل الخوارزمي میں أم الفضل بنت الحارث سے نقل ہوا ہے کہ:
انها دخلت علي رسول الله(ص) فقالت: يا رسول الله اني رأيت حلما منكرا الليله، قال: وما هو؟ قالت: انه شديد قال: وما هو؟ قالت: رأيت كأن قطعه من جسدك قطعت ووضعت في حجري، فقال رسول الله (ص): رأيت خيرا، تلد فاطمه – إن شاء الله – غلاما فيكون في حجرك، فولدت فاطمه الحسين فكان في حجري – كما قال رسول الله (ص) – فدخلت يوما إلي رسول الله (ص) فوضعته في حجره، ثم حانت مني التفاته فإذا عينا رسول الله (ص) تهريقان من الدموع قالت: فقلت: يا نبي الله بأبي أنت وأمي مالك؟ قال: أتاني جبرئيل عليه الصلاه والسلام فأخبرني ان امتي ستقتل ابني هذا، فقلت: هذا؟ فقال: نعم، وأتاني بتربه من تربته حمراء.
ام الفضل حارث کی بیٹی ایک دن حضور رسول خدا (صلي الله عليه و آله و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ کل رات میں نے ایک خطر ناک خواب دیکھا ہے ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ کیا خواب دیکھا ہے؟کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے بدن کا ایک ٹکڑا آپ کے بدن سے الگ ہو کر میری گود میں آ گرا ہے۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے ۔
بہت جلد فاطمه (عليها السلام) کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا اور وہ بچہ تمہاری گود میں آئے گا۔ کہتی ہے کہ جب حسین(ع) دنیا میں آئے تو میں نے انکو اپنی گود میں اٹھایا۔
ایک دن میں حسین|(ع) کو گود میں اٹھائے رسول خدا(ص) کے پاس گئی ۔ وہ حسین(ع) کو دیکھتے ہی اشک بہانے لگے۔ میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ کیوں رو رہے ہیں؟آپ نے فرمایا ابھی جبرائیل مجھ پر نازل ہوا ہے اور اس نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے اس بیٹے کو میرے بعد جلدی شھید کر دے گی پھر اس نے مجھے شھادت والی جگہ کی خاک بھی دکھائی اور دی ہے۔
حاكم نيشابوري اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے :
هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه.
مستدرك الصحيحين، ج 3، ص 176 و با اختصار در ص 179 ـ تاريخ شام در شرح حال امام حسين عليه السلام: ص 183 رقم 232 ـ مجمع الزوائد، ج 9، ص 179 ـ مقتل خوارزمي، ج 1، ص 159 و در ص 162 با لفظ ديگر ـ تاريخ ابن كثير، ج 6، ص 230 و با اشاره در ج 8، ص 199 ـ أمالي السجري، ص 188. و مراجعه شود به: الفصول المهمه ابن صباغ مالكي، ص 154 و الروض النضير، ج 1، ص 89، و الصواعق، ص 115، و كنز العمال چاپ قديم، ج 6، ص 223، و الخصائص الكبري، ج 2، ص 125.
2 ـ رسول خدا (ص) کا امام حسین(ع) پر ایک سال کی عمر میں گریہ کرنا:
خوارزمی اپنی کتاب مقتل میں لکھتا ہے کہ:
لمّا أتي علي الحسين عليه السلام سنه كامله هبط علي رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم اثنا عشر ملكا، محمره وجوههم قد نشروا أجنحتهم، وهم يخبرون النبي بما سينزل علي الحسين عليه السلام.
جب حسين عليه السلام ایک سال کے ہوئے بارہ فرشتے خون آلود صورتوں کے ساتھ غم کی حالت میں رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم پر نازل ہوئے اور ان حضرت کو حسین(ع) پر آنے والے تمام حوادث کے بارے میں بتایا۔
مقتل الحسين، ج 1، ص 163. الفتوح، أحمد بن أعثم الكوفي، ج 4، ص 325.
3 ـ حديث أمّ سلمه:
امّ سلمه رسول خدا(ص) کی با وفا ہمسر گرامی تھیں کہ رسول خدا کی زندگی و سیرہ کا مہم حصہ انھوں نے نقل کیا ہے۔ وہ رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلّم کا حسين (ع) کے گریہ کرنے کو اس طرح روایت کرتیں ہیں:
كان رسول الله صلي الله عليه وسلم جالسا ذات يوم في بيتي قال لا يدخل علي أحد فانتظرت فدخل الحسين فسمعت نشيج رسول الله صلي الله عليه وسلم يبكي فأطلت فإذا حسين في حجره والنبي صلي الله عليه وسلم يمسح جبينه وهو يبكي فقلت والله ما علمت حين دخل فقال إن جبريل عليه السلام كان معنا في البيت قال أفتحبه قلت أما في الدنيا فنعم قال إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها كربلاء فتناول جبريل من تربتها فأراها النبي صلي الله عليه وسلم…
ایک دن رسول خدا(ص) کمرے میں تھے اور فرمایا کہ کوئی بھی میرے کمرے میں داخل نہ ہو۔ میں کمرے کے باہر کھڑی ہو گئی تا کہ جب اجازت ملے تو اندر چلی جاؤں۔ اسی دوران امام حسين عليه السلام رسول خدا کے پاس آئے۔ تھوڑی دیر بعد کمرے سے رونے کی آواز سنائی دی۔ میں نے آگے ہو کر دیکھا کہ حسین(ع) نانا کے زانو پر بیٹھے ہیں اور وہ نواسے کی پیشانی پر ہاتھ لگا لگا کر روتے جا رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا، میں نے حسین(ع) کو کمرے میں نہیں آنے دیا بلکہ وہ خود آیا ہے۔
رسول خدا نے فرمایا کہ ابھی جبرائیل میرے پاس تھا اس نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ کیا آپ حسین سے محبت کرتے ہیں؟ میں کہا کہ ہاں۔ جبرائیل نے کہ جلد ہی آپ کی امت اس کو کربلاء کی سرزمین پر شھید کرے گی اور بعد میں مجھے اس جگہ کی خاک بھی دکھائی ہے۔
مجمع الزوائد، ج 9، ص189.
هيثمی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:
رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات.
اس روایت کو طبرانی نے نقل کیا ہے اور اسکی ایک سند کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
مجمع الزوائد، ج 9، ص189.
المعجم الكبير، طبراني، ج 3، ص109 ـ مسند ابن راهويه، ج 4، ص 131.
4 ـ حديث عايشه:
حدیث ام سلمہ بالکل انہی الفاظ کس ساتھ عایشہ سے بھی نقل ہوئی ہے:
المعجم الكبير، طبراني، ج 3، ص107ـ مجمع الزوائد، ج 9، ص187 ـ ابن عساكر، ترجمه الإمام الحسين عليه السلام، ج7، ص 260.
5 ـ عزاداری رسول خدا (ص) بعد از شهادت امام حسين(ع):
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ حَدَّثَنَا رَزِينٌ قَالَ حَدَّثَتْنِي سَلْمَي قَالَتْ دَخَلْتُ عَلَي أُمِّ سَلَمَه وَهِيَ تَبْكِي فَقُلْتُ مَا يُبْكِيكِ قَالَتْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْنِي فِي الْمَنَامِ وَعَلَي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ فَقُلْتُ مَا لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ شَهِدْتُ قَتْلَ الْحُسَيْنِ آنِفًا.
سلمی کہتی ہے کہ:
میں ام سلمہ کے پاس گئی دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے کیوں گریہ کر رہی ہیں؟بولیں کہ رسول خدا کو خواب میں دیکھا ہے کہ ان کے سر اور داڑھی خاک آلود ہیں۔ میں نے خواب میں ہی سوال کیا کہ یا رسول اللہ کیا ہوا ہے۔ آپکی یہ حالت کیوں ہوئی ہے؟فرمایا کہ میں نے ابھی خواب میں حسین(ع) کو شھید ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
سنن ترمذي، ج 12، ص 195، كتاب فضائل الصحابه باب مناقب الحسن و الحسين.
کیا سيره و سنّت پيامبر خدا صلّي الله عليه و آله وسلّم اس واقعے اور اس طرح کے دوسرے واقعات دلیل و حجت شرعی نہیں ہے؟
فصل پنجم:
سیرت آئمہ معصومین(ع) میں امام حسين عليه السلام کی عزاداری:
الف: امير المؤمنين عليه السّلام کا واقعہ کربلاء سے کئی سال پہلے گریہ کرنا:
کتب شیعہ میں کئی روایات ہیں کہ امير المؤمنين عليّ بن أبي طالب (ع) مانند رسول خدا(ص) حسین(ع) کے شھید ہونے کی سن کر گریہ کیا کرتے تھے۔
نُجَيّ حضرمی کہتا ہے کہ:
انّہ سار مع علي رضي الله عنه وكان صاحب مطهرته فلما حاذي نينوي وهو منطلق إلي صفين فنادي علي اصبر أبا عبد الله اصبر أبا عبد الله بشط الفرات قلت وما ذاك قال دخلت علي النبي صلي الله عليه وسلم ذات يوم وإذا عيناه تذرفان قلت يا نبي الله أغضبك أحد ما شأن عينيك تفيضان قال بل قام من عندي جبريل عليه السلام قيل فحدثني ان الحسين يقتل بشط الفرات قال فقال هل لك ان أشمك من تربته قلت نعم قال فمد يده فقبض قبضه من تراب فأعطانيها فلم أملك عيني ان فاضتا.
جب علی علیہ السلام صفّین کی طرف جا رہے تھے۔ اچانک نینوا کے مقام پر پہنچتے ہی بلند آواز سے کہا اے أبا عبد اللّه نہر فرات کے کنارے صبر سے کام لو۔ اس جملے کو مولا(ع) نے دو بار تکرار کیا۔
راوی نے کہا میں نے سوال کیا کہ یہ آپ نے کیا بات کی ہے؟
فرمایا کہ میں ایک دن رسول خدا(ص) کے پاس تھا کہ انھوں نے اچانک رونا شروع کر دیا۔ میں نے پوچھا کہ اے رسول خدا کیا ہوا ہے کس نے آپ کو ناراض کیا ہے کہ آپ گریہ کر رہے ہیں؟فرمایا کچھ دیر پہلے جبرائیل میرے پاس تھا اور حسین(ع) کے نہر فرات کے کنارے شھید ہونے کے بارے میں مجھے خبر دی ہے اور کہا کہ کیا آپ اس مقام کی خاک کو دیکھنا چاہتے ہیں؟میں نے کہا ہاں۔ اس نے اپنا بڑھا کر تھوڑی خاک سر زمین کربلاء کی مجھے دی ہے۔ یہ سن کر میں صبر نہ کر سکا اور اپنے آنسوں کو روک نہ سکا۔
مجمع الزوائد، هيثمي، ج 9، ص 187.
هيثمی اس خبر کو نقل کرنے کے بعد اپنی نظر اس طرح بیان کرتے ہیں:
رواه أحمد وأبو يعلي والبزار والطبراني ورجاله ثقات ولم ينفرد نجي بهذا.
اس روايت کو احمد ، ابويعلي ، بزاز اور طبرانی نے روايت کیا ہے کہا ہے کہ تمام راوی ثقہ ہیں۔
مجمع الزوائد، هيثمي، ج 9، ص 187.
الصواعق المحرقه، أحمد بن حجر هيثمي، ص 193.
ب ـ عزاداری فاطمه سلام الله عليها در محشر:
حضرت صديقه طاهره سلام الله عليها کا گریہ کنان میدان محشر میں آنا محکم ترین دلیل برای عزاداری امام حسین(ع) ہے۔
علی بن محمّد شافعی مغازلی، أبو أحمد عامر سے اور وہ حضرت علی بن موسی الرضا (ع) سے اور وہ اپنے اجداد سے اور وہ امير المؤمنين (ع) سے اور وہ پيامبر اكرم صلّي الله عليه و آله وسلّم سے اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ:
تحشر ابنتي فاطمه ومعها ثياب مصبوغه بدمٍ، فتتعلّق بقائمه من قوائم العرش وتقول: ياعدل! ياجبّار! أُحكم بيني وبين قاتل ولدي قال صلّي الله عليه وآله وسلّم: فيحكم لابنتي وربّ الكعبه.
میری بیٹی فاطمہ(س) اپنے بیٹے حسين (ع) کا خون آلود لباس لے کر میدان محشر میں داخل ہوں گی۔ پھر عرش خداوند کے پاس کھڑی ہو کر کہیں گی کہ اے خداوند عادل میرے اور بیٹے کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ کرو۔ خداوند کی قسم خداوند اپنا خاص حکم میری بیٹی کے بارے میں دیں گئے۔
مناقب عليّ بن أبي طالب عليهما السلام، مغازلي، ص 66 ـ ينابيع الموده لذوي القربي، قندوزي، ج 3، ص 47
ج: گريه و عزاداری آئمہ(ع) شيعه:
تاریخ کی گواہی کے مطابق آئمہ دین کی سیرت و سنت شهادت امام حسين (ع) کے بعد مجالس عزا و مصائب برپا کرنا تھا۔ در حقیقت وہی ان مجالس عزا کی بنیاد و ترویج کرنے والے تھے۔ اس مطلب پر دلیل آئمہ کے مجالس عزا برپا کرنے پر فرامین موجود ہیں۔
ان اقوال میں سے خود امام حسین(ع) سے نقل ہوا ہے کہ :
من دمعت عيناه فينا دمعه، أو قطرت عيناه فينا قطره، آتاه اللّه عزّ وجلّ الجنّه.
جو بھی ہمارے غم میں اک قطرہ اشک کا بہائے یا اس کی آنکھیں اشک سے نم ہو جائیں تو خداوند اسکو جنت عطا کرے گا۔
ذخائر العقبي، ص 19 ـ ينابيع المودّه، ج 2، ص117.
امام سجّاد(ع) کے آنسو واقعه كربلا کے بعد بند نہیں ہوئے۔ جو بھی امام کو دیکھتا تھا سوال کرتا کہ آپ اتنا گریہ کیوں کرتے ہیں؟
آپ فرماتے کہ:
لا تلوموني، فإنّ يعقوب فقد سبطاً من ولده، فبكي حتّي ابيضّت عيناه من الحزن، ولم يعلم أنّه مات، وقد نظرتُ إلي أربعه عشر رجلاً من أهل بيتي يذبحون في غداه واحده، فترون حزنهم يذهب من قلبي أبدا.
میری مذمت کیوں کرتے ہو يعقوب عليه السلام کا بیٹا تھوڑے عرصے کے لیے ان سے دور ہوا تھا انھوں نے اس قدر گریہ کیا کہ انکی بینائی ختم ہو گئی لیکن میرے خاندان کے 14 جوانوں کے ایک دن میں میرے سامنے سر قلم کیے گئے۔ کیا میرا غم کبھی ختم ہو سکتا ہے؟
تهذيب الكمال، مزّي، ج 20، ص 399 ـ البدايه والنهايه، ج 9، ص 125 ـ تاريخ مدينه دمشق، ج 41، ص386.
امام باقر ع(ع) اپنے والد محترم امام سجّاد(ع) سے واقعہ عاشورا پر تاکید کے بارے میں روایت کو نقل کرتے ہیں اور اپنے والد کی سیرت عملی سے مراسم عزاداری کے باقی رکھنے پر دلیل لاتے ہیں:
كان أبي عليّ بن الحسين عليه السلام يقول: أيّما مؤمن دمعت عيناه لقتل الحسين ومن معه، حتّي تسيل علي خدّيه، بوّأه اللّه في الجنّه غرفاً، وأيّما مؤمن دمعت عيناه دمعاً حتّي يسيل علي خدّيه، لأذي مسّنا من عدوّنا بوّأه اللّه مبوّء صدق.
میرے والد عليّ بن الحسين ع(ع) فرماتے تھے کہ: جس مؤمن کی آنکھ سے امام حسین(ع)اور ان کے اصحاب کی شھادت پر اشک جاری ہو جایئں تو خداوند حنت میں اس کو گھر عطا کرے گا۔
ينابيع الموده لذوي القربي، قندوزي، ج 3، ص 102 ـ الاصابه، ابن حجر، ج 2، ص 438 ـ لسان الميزان، ج2، ص 451.
امام صادق ع(ع) اپنے اجداد کی پیروی کرتے ہوئے کربلاء کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
إنّ يوم عاشورا أحرق قلوبنا، وأرسل دموعنا، وأرض كربلاء أورثتنا الكرب والبلاء، فعلي مثل الحسين فليبك الباكون، فإنّ البكاء عليه يمحو الذنوب أيّها المؤمنون.
واقعہ کربلاء ہمارے دلوں کو آگ لگاتا ہے اور ہمارے اشکوں کو جاری کرتا ہے۔ ہم سر زمین کربلاء کے غم کے وارث ہیں۔ پس رونے والوں کو حسین(ع) کی طرح کے لوگوں پر رونا چاہئیے کیونکہ ان پر گریہ کرنا گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔
نور العين في مشهد الحسين، أبو إسحاق اسفراييني، ص 84.
فصل ششم:
سيرت صحابه میں عزاداري:
عزداری صحابہ کی طرف سے صحابہ کہ اہل سنت ان سب کو عادل و حجت مانتے ہیں۔ ان کا اور مکے و مدینے کے لوگوں کا رسول خدا کی رحلت پر عزاداری کرنا بہترین دلیل و شاھد ہے کہ عزاداری ابتدائے اسلام میں موجود تھی۔ کوئی بھی ان کے مراسم کو بدعت و حرام قرار نہیں دیتا تھا۔
1 ـ مکہ کے لوگوں کا رسول خدا(ص) کی رحلت پر عزاداری کرنا:
بقول گفته سعيد بن مسيب رسول گرامي اسلام کی رحلت پر شھر مکہ شدت گريئے سے سے لرز اٹھا۔
لما قبض النبي (ص) ارتجت مكه بصوت.
بعد از وفات رسول خدا (ص) تمام شهر مكه شدت گريئے سے سے لرز اٹھا۔
اخبار مكه، فاكهي، ج 3، ص 80.
2 ـ عایشہ اور دوسری عورتوں کا مدینے میں رسول خدا(ص) کی رحلت پر عزاداری کرنا:
عايشه کہتی ہے کہ:
و قمتُ التدم (اضرب صدري) مع النساء و اضرب وجهي.
رسول خدا (ص) کی رحلت پر میں دوسری عورتوں کے ساتھ مدینے میں مل کر اپنے سر و چہرے پر ماتم کرتی تھی۔
السيره النبويه، ج 4، ص 305.
3 ـ امير المؤمنين (ع) کا محمد بن ابي بكر کے لیے گریہ کرنا:
صاحب كتاب تذكره الخواص لکھتا ہے کہ:
بلغ عليا قتل محمد بن أبي بكر فبكي وتأسف عليه ولعن قاتله.
جب علی (ع) کو محمد بن ابی بکر کے قتل ہونے کی خبر ملی تو آپ نے گریہ کیا اور اس کے قاتل پر لعنت کی۔
تذكره الخواص، ص 102
4- عمر کا نعمان بن مقرن کے لیے گریہ کرنا:
ابن ابي شيبه در المصنف مي نويسد:
عن ابي عثمان: اتيتُ عمر بنعي النعمان بن مقرن، فجعل يده علي راسه و جعل يبكي.
ابو عثمان کہتا ہے کہ جب نعمان بن مقرن کی وفات کی خبر عمر کو ملی تو وہ ہاتھ سر پر رکھ کر رونے لگا۔
المصنف، ابن أبي شيبه كوفي، ج 3، ص 175 و ج 8، ص 21
5 ـ عمر کا خالد بن ولید پر عزداری کرنے کی عورتوں کو اجازت دینا اور خود بھی ان کے ساتھ ہونا:
حاكم مستدرک میں لکھتا ہے کہ:
عن أبي وائل قال قيل لعمر بن الخطاب رضي الله عنه أن نسوه من بني المغيره قد اجتمعن في دار خالد بن الوليد يبكين وإنا نكره أن يؤذينك فلو نهيتهن فقال عمر ما عليهن أن يهرقن من دموعهن سجلا أو سجلين ما لم يكن لقع ولا لقلقه يعني باللقع اللطم وباللقلقه الصراخ.
عمر کو کہا گیا کہ بنی مغیرہ کی عورتیں خالد بن ولید کے گھر جمع ہیں اور اس پر رو رہی ہیں۔ اگر آپ کہتے ہو تو ان کو اس کام سے منع کر دو۔ عمر نے کہا کوئی بات نہیں ان کو رونے دو۔
المستدرك علي الصحيحين، ج 3، ص336.
الأغاني، ج 22، ص 98.
6 ـ ابن مسعود کا مرگ عمر پر گریہ کرنا:
فوقف ابن مسعود علي قبره يبكی.
اين مسعود عمر کے مرنے پر اس کی قبر کے نزدیک کھڑا ہو کر رویا۔
العقد الفريد، ج 4، ص 283.
7 ـ عبداللَّه بن رواحه کا حمزه پر گریہ کرنا:
عبداللَّه بن رواحه حمزه پر رویا اور اس کے غم میں شعر پڑھے۔
السيره النبويه، ج 3، ص 171.
مدینے کے مردوں اور عورتوں کا امام حسين عليه السلام کی شھادت کی خبر سن کر گریہ کرنا:
طبری اپنی تاريخ میں لکھتا ہے کہ:
لما قتل عبيد الله بن زياد الحسين بن علي و جيء برأسه إليه دعا عبد الملك بن أبي الحارث السلمي فقال: انطلق حتي تقدم المدينه علي عمر بن سعيد فبشّره بقتل الحسين – وكان عمرو أمير المدينه -. قال عبد الملك فقدمت المدينه، فلقيني رجل من قريش فقال: ما الخبر؟ فقلت: الخبر عند الأمير؛ فقال إنا لله وإنا إليه راجعون؛ قتل الحسين بن علي.
فدخلت علي عمرو بن سعيد، فقال: ما وراءك، فقلت: ما سرّ الأمير؛ قتل الحسين بن علي؛ فقال: ناد بقتله، فناديت بقتله، فلم أسمع والله واعيه قط مثل واعيه نساء بني هاشم في دورهن علي الحسين…
جب عبيد الله بن زياد نے امام حسين بن علي عليهما السلام کو شھید کیا ان کے سر مبارک کو عبد الملك بن أبي الحارث سلمی کے لیے لے کر گئے اور کہا کہ مدینے کے لوگوں کو امام حسین(ع) کی خبر دو۔
عبد الملک کہتا ہے کہ میں مدینے آیا۔ ایک قریش کے بندے نے مجھے دیکھا اور مجھ سے پوچھا کہ کیا نئی خبر ہے؟میں نے کہا کہ امیر کے پاس خبر ہے وہ میری بات کے معنی کو سمجھ گیا اور کہا إنا لله وإنا إليه راجعون؛ حسين بن علي كشته کو شھید کر دیا گیا ہے۔
عمرو بن سعيد، حاكم مدينه کے پاس گیا اور کہا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟میں نے کہا جو امیر چھپا رہا ہے وہ حسين بن علی کا شھید ہونا ہے۔
خدا کی قسم میں نے اپنی عمر میں ہر گز اس قدر شدید گریہ عورتوں کا مانند جیسا کہ شهادت امام حسين (ع) پر کیا ہے نہیں سنا۔
تاريخ طبري، ج 3، ص 342.
فصل هفتم:
اهل سنت میں عزاداري:
گریہ و نوحے کے بارے میں علماء اہل سنت کے فتاوی:
سب سے پہلے ہم چند علماء اهل سنت کے اس بارے فتوے ذکر کرتے ہیں پھر دیکھتے ہیں کہ کیا گریہ میت کے لیے گناہ ہے یا نہیں؟
نووی نے اپنی كتاب «المجموع» میں آراء کی علماء کو حرمت گريه و بكاء کے بارے میں جمع کیا ہے۔
1 ـ اکثر علماء قائل ہیں کہ: گریہ اس وقت حرام ہے جب میت نے وصیت کی ہو کہ میرے مرنے کے بعد مجھ پر گریہ و نوحہ کرنا۔ نووی کا بھی یہی قول ہے۔
2 ـ بعض قائل ہیں کہ: گریہ اس وقت حرام ہے جب میت نے وصیت کی ہو کہ میرے مرنے کے بعد مجھ پر گریہ و نوحہ نہ کرنا۔
3 ـ بعض کی رائے ہے کہ: گریہ اس وقت حرام ہے جب میت کے ورثاء میت کو ان صفات کے ساتھ یاد کریں کہ جو کہنا جائز نہیں ہے۔ مثلا کہنا کہ اے بچوں کو یتیم کرنے والے یا اے بیوی کو بیوہ کرنے والے۔
4 ـ بعض کی رائے ہے کہ: میت پر اہل و عیال کے گریہ کرنے سے عذاب ہوتا ہے۔ یہ قول و نظر محمد بن جرير و قاضی عياض کی ہے۔
اجماع علماء کو بیان کرتا ہے کہ :
وأجمعوا كلهم علي اختلاف مذاهبهم ان المراد بالبكاء بصوت ونياحه لا مجرد دمع العين.
تمام علماء تمام اختلاف کے باوجود اس بات پر متحد ہیں کہ گریہ اس صورت میں حرام ہے جب آواز لگا کر گریہ و بین کیے جائیں نہ ہر طرح کا گریہ۔
المجموع، نووي، ج 5، ص 308.
پس معلوم ہوا کہ علماء اهل سنت کے نزدیک ہر طرح کا گریہ ممنوع و حرام نہیں ہے۔
سال 352هـ میں امام حسين(ع) پر عزاداری:
ذهبی سال 352 هـ کے عزاداری کے واقعات کو اس طرح لکھتا ہے:
قال ثابت: ألزم معز الدوله الناس بغلق الأسواق ومنع الهراسين والطباخين من الطبيخ، ونصبوا القباب في الأسواق وعلقوا عليها المسوح، وأخرجوا نساء منشرات الشعور مضجات يلطمن في الشوارع ويقمن المآتم علي الحسين عليه السلام، وهذا أول يوم نيح عليه ببغداد.
معز الدوله نے حکم دیا کہ بازار بند کر دو اور حکم دیا کہ کھانا پکانا بند کر دو۔ عزاداری والے علم بازاروں میں لگا دو۔ عورتیں کھولے بالوں کے ساتھ گریہ کرتی سڑکوں پر آگئیں اور امام حسین(ع) پر عزاداری اور نوحہ سرائی کی۔ یہ بغداد میں پہلا گریہ و عزاداری تھی۔
تاريخ الإسلام، ج 26، ص11.
عزاداری امام حسين عليه السلام توسط سبط ابن جوزی (عالم اهل سنت):
ابن كثير اپنی تاريخ میں لکھتا ہے کہ:
در روز عاشورا سبط ابن جوزی سے کہا گیا کہ منبر پر جا کر مقتل و شهادت امام حسين عليه السلام کو لوگوں کے لیے بیان کرے۔ وہ منبر پر گیا اور رومال صورت پر رکھ کر زور زور سے گریہ اور اشعار پڑھنے لگا۔ پھر وہ منبر سے اتر کر گرئیے کی حالت میں اپنے گھر چلا گیا۔
البدايه و النهايه، ج 13، ص 207 (حوادث 654 هجري قمري).
جويني (م 478 هق) کے لیے عزاداری کرنا:
ذهبی جوينی کے مراسم عزاداری کو اس طرح بیان کرتا ہے:
فدفن بجنب والده، وكسروا منبره، وغلقت الأسواق، ورثي بقصائد، وكان له نحو من أربع مائه تلميذ، كسروا محابرهم وأقلامهم، وأقاموا حولا، ووضعت المناديل عن الرؤوس عاما، بحيث ما اجترأ أحد علي ستر رأسه، وكانت الطلبه يطوفون في البلد نائحين عليه، مبالغين في الصياح والجزع.
اس کو باپ کی قبر کے ساتھ دفن کیا گیا۔ اس کے غم میں اس کے منبر کو توڑ دیا گیا۔ بازاروں کو بند کر دیا گیا۔ اس پر نوحے و مرثیے پڑھے گئے۔ اس کے شاگردوں نے قلم اور دوات کو غم میں توڑ ڈالا۔ سارے لوگ ایک سال تک سڑکوں اور بازاروں میں عزاداری کرتے رہتے تھے۔
سير أعلام النبلاء، ج 18، ص476.
ابن جوزی (م 597 هق) کے لیے عزاداری:
ذهبي اس بارے میں لکھتا ہے کہ:
وتوفي ليله الجمعه بين العشاءين الثالث عشر من رمضان.، وغلقت الأسواق، وجاء الخلق،. وكان في تموز، وأفطر خلق، ورموا نفوسهم في الماء. وباتوا عند قبره طول شهر رمضان يختمون الختمات، بالشمع والقناديل.
سبط بن جوزی شب جمعه 13 ماه رمضان کو فوت ہوا۔ اس کے مرنے پر بازار بند ہو گئے۔ لوگ زیادہ جمع ہو گئے۔ لوگوں نے غم اور گرمی کی وجہ سے روزہ نہ رکھا۔لوگ ماہ رمضان کے آخر تک اس کی قبر پر بیٹھے رہے۔ اس کی قبر پر شمعیں و چراغ جلائے گئے اور ختم قرآن کیا گیا۔ عزاداری اور نوحہ خوانی کی گئی۔
سير أعلام النبلاء، ج 21، ص 379.
1-عمر بن عبد العزيز کی وفات پر آسمان کا گریہ کرنا!!!
عن خالد الربعي قال: مكتوب في التوراه إن السماء والأرض لتبكي علي عمر بن عبد العزيز أربعين صباحا!!!
خالد ربعی کہتا ہے کہ: تورات میں آیا ہے کہ آسمان اور زمین 40 دن عمر بن عبد العزيز کی موت پر روئے۔
الروض الفائق، ص 255 ـ الغدير، ج 11، ص 120
2- ابن عساكر متوفاي571 هج کی وفات پر آسمان کا گریہ کرنا:
قال ولده: وكان الغيث قد احتبس في هذه السنه؛ فدرّ وسحّ عند ارتفاع نعشه؛ فكأن السماء بكت عليه بدمع وابله واطشه.
اس کا بیٹا کہتا ہے کہ:اس سال بارش نہیں برسی لیکن جب ابن عساکر کا جنازہ اٹھایا گیا تو آسمان پر بادل چھا گئے کہ گویا آسمان بھی ابن عساکر کے مرنے پر اشک بہا رہا ہے۔
معجم الأدباء، ج 4، ص41، مطرت بناحيه بلخ دما عبيطا سنه 246، ص 17.
عزاداری کے بارے میں علماء اہل سنت کے متضاد اقوال:
اس تفصیل و بیان کے باوجود جب علماء اہل سنت عزاداری امام حسین(ع) کا ذکر آتا ہے تو عجیب و غریب باتیں کرتے ہیں۔
ذهبی جب بغداد میں امام حسين عليه السلام کی عزاداری کا ذکر تا ہے کہتا ہے کہ:
سنه اثنتين وخمسين وثلاثمئه: فيها يوم عاشوراء، ألزم معز الدوله، أهل بغداد بالنَّوح والمآتم، علي الحسين بن علي رضي الله عنه، وأمر بغلق الأسواق، وعلّقت عليها المسوح، ومنع الطباخين من عمل الأطعمه، وخرجت نساء الرافضه، منشّرات الشعور، مضخّمات الوجوه، يلطمن، ويفتنّ الناس، وهذا أول ما نيح عليه.
اس عبارت کا ترجمہ اوپر ذکر ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللهم ثبت علينا عقولنا.
کہتا ہے کہ خدایا ہماری عقلوں کو ٹابت قدم رکھ۔
العبر في خبر من غبر، ذهبي، ج 1، ص 146، عدد الأجزاء: 4، مصدر الكتاب: موقع الوراق،
یعنی عزاداری کو عقل کے خلاف سمجھتا ہے۔
يا ذهبی ایک دوسری جگہ عزاداری روز عاشوراء کے بارے میں لکھتا ہے کہ:
أقامت الرافضه الشعار الجاهلي يوم عاشوراء…
شیعہ رافضی اس زمان جاہلیت کے کام کو روز عاشورا انجام دیتے ہیں۔
تاريخ الإسلام، ذهبي، ج 26، ص 43
العبر، ذهبي، ج 3، ص 44
اسی طرح ابن کثیر لکھتا ہے کہ:
عملت الرافضه بدعتهم الشنعاء…
شیعہ رافضیوں نے اس بری بدعت کو (عزاداری در عاشوراء) کو عملی طور پر انجام دیتے ہیں۔
البدايه والنهايه، ابن كثير، ج 11، ص 302.
عزاداری امام حسین(ع) کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں حالانکہ خود ہی اپنی کتب میں سوگواري و عزاداري علماء کے لیے عجیب عجیب واقعات ذکر و نقل کرتے ہیں۔ چند نمونے اوپر ذکر ہوئے ہیں۔ یہ اقوال اس تعصب کا نتیجہ ہے جو 14 سو سال سے اہل بیت اور شیعوں سے کرتے آ رہے ہیں۔
خلاصہ کلام۔
ان تمام دلائل و رویات کی روشنی میں عزاداری بر امام حسین(ع) کا جائز اور شرعی ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر انبیاء کی سنت و سیرت عملی میں بھی غم و عزا موجود و ثابت ہے۔
غم کے مواقع پر غم منانا اور خوشی کے مواقع خوش ہونا یہ ایک فطری عمل ہے جو تمام انسانوں کی فطرت سلیم میں پایا جاتا ہے۔ اس فطری عمل کو اپنوں کے لیے ثابت کرنا اور انجام دینا اور اہل بیت بخصوص امام حسین(ع) کے بدعت و نا جائز کہنا یہ فقط و فقط تعصب و بے انصافی ہے۔