اَمْرِ بالمَعْروف وَ نَہی عن المُنْکر، اسلام کے عملی احکام یعنی فروع دین میں سے دو اہم عبادات ہیں۔ “امر بالمعروف” یعنی کسی واجب یا مستحب کام کی طرف دعوت دینا اور “نہی عن المنکر” یعنی کسی حرام کام سے منع کرنا۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی معاشرے میں اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کو امر بالمعروف جبکہ اسلامی معاشرے سے برائی کے خلاف رد عمل کو نہی عن المنکر کہا جاتا ہے۔
شریعت کی نگاہ میں یہ کام اس شخص کا وظیفہ ہے جو خود “معروف” یعنی اچھائی اور “منکر” یعنی برائی سے آگاہی رکھتا ہو اور اس کام کے مثمر ثمر واقع ہونے کا بھی احتمال دیا جائے۔ اس کے وجوب کے بعض اور شرائط بھی ہیں۔
قرآن و سنت کی روشنی میں:
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر “امر بالمعروف اور “نہی عن المنکر” کو امت محمدی کیلئے ایک خاص شرعی وظیفے کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں بعض اوقات اسے خدا اور معاد پر ایمان لانے جیسے اعتقادات یا نماز اور زکات جیسے عبادات کے ساتھ ذکر کیا ہے۔[1] “آیات الاحکام” سے مربوط کتابوں میں بطور خاص وہ کتابیں جنہیں مختلف موضوعات پر بالترتیب لکھی گئی ہے، میں عموما اس اہم شرعی وظیفے سے مختص ایک باب بھی دیکھنے کو ملتا ہے جس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے متعلق آیات کا تجزیہ و تحلیل کیا گیا ہے۔[2]
فردی یا اجتماعی وظیفہ:
اسلام میں ہمیشہ سے ایک عام تاثر چلا آرہا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور مختلف مذاہب کے سیاسی نظریات میں ایک مستقیم رابطہ موجود ہے اس بنا پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے متعلق مباحث کا دائرہ کار اس مذہب کے سیاسی نظریے کے ساتھ ہماہنگ ہوا کرتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر خارج میں تحقق پانے کیلئے کسی “مامور بہ”(جس کو امر کی گئی ہو) اور “منہی عنہ”(جس کو روکا گیا ہو) کا ہونا ضروری ہے۔ اس بنا پر “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” انسان کے فردی وظائف سے ہٹ کر معاشرے کے دوسرے افراد کے حقوق سے بھی مربوط ہے۔
اگر “مامور بہ” اور “منہی عنہ” اس امر یا نہی کو کشادہ روی سے قبول کریں تو معاشرے میں کوئی تعارض پیش نہیں آتا لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر اس وظیفے پر عمل پیرا ہونا معاشرے میں کسی ایسی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو جو نظام حاکم کے سیاست کے خلاف ہو تو اس صورت میں صرف “آمر اور مامور بہ” یا “ناہی” اور “منہی عنہ” کی رضا مندی بھی اسے معاشرے میں لاگو ہونے کیلئے کافی نہیں ہے۔
اس وظیفے پر کرنے والوں کی سرگرمیں کا معاشرے کے دوسرے افراد کے حقوق اور حکومت وقت کے وظائف اور اختیارات کے ساتھ ٹکراؤ کی وجہ سے مختلف مذاہب نے اپنی خاص سیاسی نظریے کی بنیاد پر مشروع اور جائز “امر بالمعروف و نہی عن المنکر” کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اس وظیفے کے دائرہ کار کو مقید اور محدود کیا ہے۔
شیعوں کا نظریہ:
مشہور قول کی بنا پر شیعوں کے نزدیک فروع دین دس ہیں جن میں سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ساتویں اور آٹھویں نمبر پر آتے ہیں۔ اسلامی فقہ میں سنتی تقسیم بندی کے مطابق فقہ کے ہر باب کو ایک “کتاب” کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ بعض شیعہ منابع میں “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” کو ایک علیحدہ کتاب کی صورت میں “کتاب” جہاد کے بعد عبادات کے آخری حصے کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے۔ یہی خصوصیت یعنی “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” کو عبادات میں شمار کرنا اور اسے “جہاد” جیسے اہم عبادت کے ساتھ ذکر کرنا ایک واضح دلیل ہے کہ شیعہ فقہاء کی نگاہ میں یہ وظیفہ ایک ہم عبادت میں سے ہے۔ منتہی جہاد کی طرح “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” کو بھی ایک اجتماعی عبادت شمار کیا جاتا ہے۔
البتہ تیسرے، چوتھے، نویں اور دسویں صدی ہجری کے شیعہ فقہی آثار کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان ادوار میں لکھی گئی فقہی اور حدیثی کتابوں جیسے حسین بن سعید اہوازی کی کتابیں،[3] شیخ صدوق کا فقہی مجموعہ اور ابن جنید اسکافی کی تہذیب الشیعۃ[4] میں امر بالمعروف سے بحث نہیں کی گئی ہے۔ لیکن ان کے مقابلے میں کلینی کی الکافی[5] اور فقہ الرضا(ع)[6] جیسے آثار میں بالترتیب کتاب جہاد کے ایک حصے اور اخلاقی ملحقات کے عنوان سے کتاب کے آخری مباحث کو اس اہم موضوع کے ساتھ مختص کیا ہے۔
شیخ مفید نے عصر غیبت کی شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” کے مسئلے کو “اقامہ حدود” جیسے حکومتی موضوعات کے ساتھ مقایسہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی فقہی کتاب المقنعہ میں کتاب حدود کے ملحقات کے عنوان سے ایک باب کو “کتاب الامر بالمعروف و النہی عن المنکر و اقامہ الحدود” کا عنوان دیا ہے یہ حصہ مختصر ہونے کے باوجود انکی کتاب کا سب سے اہم حصہ شمار کیا جاتا ہے جس میں ان کی سیاسی اور اجتماعی نظریات پر محیط بنیادی مسائل سے بحث کی گئی ہے۔[7]
سید مرتضی نے ایک رسالے میں حکمرانوں کے ساتھ کسی سیاسی منصب کو قبول کرنے کے حوالے سے جس کے ذریعے کسی مؤمن کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا زمینہ فراہم ہو، تعاون کرنے کو واجب قرار دیا ہے۔[8] شیخ طوسی نے امر بالمعروف کی بحث کو جہاد کی بحث کے بعد لایا ہے اور اس کے احکام سے متعلق تفصیلی بحث کی ہے۔ شہید اول نے الدروس میں اس بحث کے عنوان کو “کتاب الحسبہ” کا نام دیا ہے۔[9]
عصر صفوی میں امامیہ کیلئے حکومت کے مواقع فراہم ہونے اور اجتماعی اور سیاسی مباحث میں وسعت پیدا ہونے کے ساتھ امر بالمعروف کی بحث میں بھی نسبتا وسعت پیدا ہو گئی۔ یوں اس زمینے میں بعض تالیفات جو اس موضوع پر نسبتا تفصیلی بحث کی ہیں، منظر عام پر آگئیں۔ اس حوالے سے حسن بن علی بن عبدالعالی کرکی کی کتاب “الامر بالمعروف و النہی عن المنکر” کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔[10] میرزا محمد اخباری (د ۱۲۳۲ق /۱۸۱۷م) سے بھی اسی عنوان سے ایک کتاب موجود ہے۔[11]
فقہ امامیہ:
اکثر امامیہ فقہی منابق میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے احکام اور اس پر عمل کرنے کے شرائط وغیرہ سے بحث کی گئی ہے۔ چونکہ معروف کی دو قسم ہیں، واجب اور مستحب اس بنا پر واجب پر امر کرنا واجب جبکہ مستحب پر امر کرنا مستحب قرار دیا گیا ہے۔ لیکن منکر صرف حرام کو شامل کرتا ہے اور اس سے نہی کرنا واجب ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب کفایی ہے۔ آیا اس کا وجوب عقلی بھی ہے یا صرف شرعی؟ اس حوالے سے بہی قدما کے آثار میں بحث ہوئی ہے۔[12]
شرایط وجوب:
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وجوب کچھ شرائط پر منحصر ہے:
• اس وظیفے پر عمل کرنے والے کا “معروف” و “منکر” سے آگاہی؛
• مخاطب میں تأثیر کرنے کا احتمال ہو؛
• مخاطب کسی معروف کو ترک یا کسی منکر کو انجام دینے پر اصرار کرے؛
• اس وظیفے پر عمل کرنے میں کوئی مفسدہ نہ ہو بنابر این اگر اس کام سے آمر یا ناہی یا کسی اور شخص کو کوئی ضرر پہنچتا ہو تو اس کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔
واجب کفایی:
شیعہ فقہاء کی نظر میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب کفایی ہے[13]، لیکن شیخ طوسی اور ایک گروہ نے اسے واجبات عینی میں سے قرار دیا ہے۔[14]
مراتب:
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مراتب کے اعتبار سے تین قسم ہیں:
قلبی: دل میں معروف کو اچھا اور منکر کو برا سمجھنا واجب ہے۔ منکر سے پرہیز وغیرہ اسی مرحلے میں شامل ہے۔
لسانی: شرائط محقق ہو تو زبان کے ساتھ امر یا نہی کرے۔
عملی: اگر زبان مؤثر نہ ہو تو منکر کو روکنے کیلئے عملی اقدام کرنا واجب ہے۔[15]
اہلسنت کا نظریہ:
معتزلہ:
معتزلہ کے ہاں “امر بالمعروف” اور “نہی عن المنکر” میں ایک بنیادی فرق ہے ہے وہ یہ کہ “امر بالمعروف” میں صرف اچھے کام کی طرف شوق اور رغبت پیدا کرنا کافی ہے اور اجبار ضروری نہیں ہے۔ جبکہ “نہی عن المنکر” میں اگر شرائط میسر ہو تو صرف کہنا کافی نہیں ہے۔ [16] اس بنا پر “نہی عن المنکر” کے مراتب کو یوں ترسیم کیا جاتا ہے: تنفر قلبی، ممانعت زبانی، ممانعت عملی اور آمنا سامنا اور اقدام مسلحانہ۔
معتزلہ اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر آسان مراتب مؤثر واقع نہ ہو تو ہاتھ میں تلوار لینا ناگزیر ہو جاتا ہے اور یہ تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔[17] معتزلہ نے ہمیشہ اپنے اسی عقیدے پر اصرار کیا ہے اور چہ بسا اس موضوع پر مختلف کتابیں بھی لکھی گئی ہیں،[18] اور عملی زندگی میں بھی اس پر پابند رہے ہیں[19]؛ یہاں تک کہ “مسعودی” کے مطابق معتزلہ کا اجماع ہے کہ اس فریضے کو انجام دینا کبھی کبھار جہاد کی صورت اختیار کرتی ہے اور اس حوالے سے کافر اور فاسق – جو کہ کفر اور ایمان کے درمیان واقع ہے – میں کوئی فرق نہیں ہے۔[20]
اشاعرہ:
ان کے یہاں بھی اس وظیفے کے مراتب مختلف ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ نہی عن المنکر کے مراتب صرف قلبی اور زبانی ہے اس سے زیادہ کوئی چیز واجب نہیں ہے۔[21] اگرچہ “ابن حزم” کے مطابق یہ لوگ امام عادل کے خلاف اگر کوئی فاسق بغاوفت کرے تو اس کے خلاف تلوار اٹھانے کو واجب سمجھتے ہیں۔[22]؛ ایک اور گروہ جنہیں “اشعری” “اصحاب حدیث” کے نام سے یاد کرتے ہیں،[23] کا عقیدہ ہے کہ تلوار ہاتھ میں اٹھانا جائز نہیں ہے بلکہ صرف ہاتھ سے مقابلہ کرنے تک آگے جا سکتے ہیں[24]؛ اور آخری گروہ اسلحہ اٹھانے کو بھی واجب سمجھتے ہیں جب اسی کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو۔ [25]
حنفی:
ابو حنیفہ ان لوگوں میں سے تھے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی حمایت کرتے تھے اسی وجہ سے اپنے رسالہ “الفقہ الاکبر” میں بھی یہی نظریہ نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ یہ رسالہ اصل میں ابوحنیفہ کے پیروکاروں کا عقیدہ نامہ شمار ہوتا ہے، “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اسے اپنی مذہب کے اصلی شعار میں سے قرار دیتے ہیں۔[26]
مذہب حنفیہ نے بعد میں اہل سنت و جماعت کے روپ میں اپنی سیاسی نقطہ نگاہ میں تجدید نظر کے سبب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے بھی ان کا نقطہ نظر تبدیل ہو گیا اور اسے نہایت ہی محدود کر دیا۔ انہوں نے “الفقہ الاکبر” میں اس جملے ظالم کا ظلم اور عادل کا عدل تمہیں کوئی نفع و نقصان نہیں پہنچاتا اور ہر چیز کا اپنا ثواب اور عقاب ہے کا اضافہ کرنے کے ذریعے اس جدید سیاسی نظریے سامنے لانے کی کوشش کی ہیں۔[27] بہر حال یہ فکر اہل سنت و جماعت کے ہاں صراحت کے ساتھ مطرح ہونے لگا اور یوں تلقی ہونا شروع ہوا کہ اس زمانے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر لوگوں کی گردن سے ساقط ہو گیا ہے۔[28]
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو محدود کرنے کا یہ واقعہ جو اہل سنت کے مختلف مذہب میں بطور مشترک دیکھا جا سکتا ہے، حقیقت میں صرف فردی حوالے سے ان دو وظیفوں کو محدود کرنا ہے ورنہ جہاں پر عمومی اور حکومتی احکام کی بات آتی ہے تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بحث بھی وسعت پیدا کرتی ہے۔[29]
اہل سنت میں اصلاحی اور سلفی سوچ:
صدر اسلام میں مختلف فقہی مذاہب کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مسئلے سے محتاطانہ رویہ اختیار کرنے کی باوجود بعض ایسے افراد بھی پائے جاتے تھے جو معاشرے سے برائی کے خامتے کیلئے تلوار کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔ اور موانع کے باوجود بھی اس قسم کی سرگرمیوں میں سبقت لیتے تھے۔[30] گذر زمان کے ساتھ یہ مسلحانہ سوچ مصلحانہ اور اطلاح طلبانہ سوچ میں تبدیل ہو گیا یوں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بحث نے ایک جدید شکل اختیار کی۔
ابن تیمیہ (متوفی 728 ھ) اگر چہ “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” کے مسئلے میں پہلی سوچ کے حامی ہیں لیکن اس حوالے سے ایک نیا انداز اپنایا۔ان کی سیاسی نظریے کے مطابق حکومت کے اصلی وظائف میں سے ایک معاشرے میں “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” کا اجراء ہے۔ اس کے مطابق “امام” جو حاکموں میں شمار ہوتا ہے، کا وظیفہ ہے کہ شرائط اور مقتضائے حال کے مطابق “معروف” کے پرچار اور “منکر” کو معاشرے سے ختم کرنے کیلئے عملی اقدام کریں۔[31]
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے باب میں مصر کے متأخر اصلاح طلبان میں “شیخ محمد عبدُہ” کے نظریہ کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں جو “اس وظیفے کو معاشرے کی حفاظت کرنے والا اور وحدت کا عامل سمجھتے ہیں”۔ شیخ عبدہ اپنے نظریات کی تبیین کرتے ہوئے “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” کو “حبل اللہ” یعنی اللہ کی وہ مضبوط رسی قرار دیتے ہیں کہ اگر امت اسلامی اسے تھام لے تو اختلاف سے نجات پا کر وحدت کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔[32]
_____________
حوالہ جات:
1. آل عمران /۳/۱۰۴، ۱۱۰، ۱۱۴؛ اعراف /۷/۱۵۷؛ توبہ /۹/۶۷، ۷۱، ۱۱۲؛ حج /۲۲/۴۱؛ لقمان /۳۱/۱۷.
2. سیوری، کنزالعرفان، ج۱، صص۴۰۴- ۴۰۸.
3. نک: نجاشی، الرجال، ص۵۸، فہرست ابواب.
4. نک: نجاشی، الرجال، صص۳۸۵-۳۸۷، فہرست ابواب.
5. کلینی، الکافی، ج۵، صص۵۵ بب.
6. فقہ الرضا(ع)، ص۳۷۵.
7. المقنعۃ، صص۸۰۸ بب.
8. مسألۃ فی العمل مع السلطان، صص۸۹ بب.
9. نک: شہید اول، الدروس، صص۱۶۴- ۱۶۵.
10. برای مدرسی، ص۱۷۰.
11. برای فہرستی از این دست آثار، نک: مدرسی.
12. محقق حلی، شرائع الاسلام، ج۱، ص۳۴۳؛ علامۃ حلی، مختلف الشیعۃ، ج۴، صص۴۷۱-۴۷۴؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ج۱، ص۲۶۲؛ صاحب جواہر، جواہر الکلام، ج۲۱، صص۳۵۸- ۳۶۵).
13. نک: شیخ مفید، اوائل المقالات، ص۵۶؛ سیدمرتضی، الذخیرۃ، ص۵۵۴، ۵۶۰؛ سیوری، ارشاد الطالبین، ص۳۸۱.
14. شیخ طوسی، الاقتصاد، صص۱۴۷، ۱۵۰-۱۵۱.
15. محقق حلی، شرائع الاسلام، ج۱، ص۳۴۲-۳۴۳؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ج۱، ص۲۶۵؛ صاحب جواہر، جواہر الکلام، ج۲۱، صص۳۶۶- ۳۸۵.
16. قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسۃ، صص۷۴۴- ۷۴۵؛ قاسم بن محمد، الاساس لعقائد الاکیاس، ص۱۷۸.
17. اشعری، مقالات الاسلامیین، ج۱، ص۳۱۱، ج۲، ص۱۲۵؛ ابن حزم، الفصل، ج۴، ص۱۷۱.
18. خیاط، الانتصار، ص۱۲۷؛ ملطی، التنبیہ والرد، صص۴۲-۴۴.
19. ابن حزم، الفصل، ج۴، ص۱۷۲.
20. مسعودی، مروج الذہب، ج۳، ص۲۲۲؛ نیز نک: ابوالقاسم بلخی، باب ذکر المعتزلۃ، ص۶۴؛ ابن مرتضی، البحرالزخار، ص۹۷.
21. اشعری، مقالات الاسلامیین، ج۲، ص۱۲۶.
22. ابن حزم، الفصل، ج۴، ص۱۷۱.
23. اشعری، مقالات الاسلامیین، ج۲، ص۱۲۵.
24. اشعری، مقالات الاسلامیین، ج۲، ص۱۲۶.
25. ابن حزم، ابن حزم، الفصل، ج۴، ص۱۷۱.
26. بند ۲: انا نأمر بالمعروف و ننہی عن المنکر.
27. الفقہ الاکبر (۱)، ص۱۵؛ قس: ونسینک، ۱۰۴ -۱۰۳، کہ این بند در آن وجود ندارد.
28. ماتریدی، عقیدۃ، ص۳۶؛ «شرح الفقہ الاکبر»، ص۱۵.
29. مثلاً نک: ماوردی، الاحکام السلطانیۃ، صص۳۹۷ بب؛ ابویعلی، الاحکام السلطانیۃ، ص۲۸۷؛ ابن اخوہ، معالم القربۃ، صص۱۵ بب.
30. بحشل، تاریخ واسط، صص۱۱۴- ۱۱۵.
31. لائوست ۱، سراسر کتاب.
32. برای بسط موضوع، نک: رضا، تفسیر المنار، ج۴، ص۲۶ – ۵۰، جم.
One Response
بالمَعْروف وَ نَہی عن المُنْکر، اسلام کے عملی احکام یعنی فروع دین میں سے دو اہم عبادات ہیں۔ “امر بالمعروف” یعنی کسی واجب یا مستحب کام کی طرف دعوت دینا اور “نہی عن المنکر” یعنی کسی حرام کام سے منع کرنا۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی معاشرے میں اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کو امر بالمعروف جبکہ اسلامی معاشرے سے برائی کے خلاف رد عمل کو نہی عن المنکر کہا جاتا ہے۔
شریعت کی نگاہ میں یہ کام اس شخص کا وظیفہ ہے جو خود “معروف” یعنی اچھائی اور “منکر” یعنی برائی سے آگاہی رکھتا ہو اور اس کام کے مثمر ثمر واقع ہونے کا بھی احتمال دیا جائے۔ اس