حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
تاریخ دوسری فاطمہ کا انتظارکررہی ہے . انتظار کی گھڑی گذرجاتی ہے اور خانہ خورشید بھینی بھینی خوشبو سے بھرجاتا ہے. فاطمہ کے حضور جدید کی ٹھنڈک مدینہ کی فضاؤں پر چھا جاتی ہے اور کوثر سیدہ، وہی چشمہ کوثر پھوٹنے لگتا ہے. میں آپ کی حرم کی باغوں میں پناہ لیتا ہوں اور قدری اس ملکوتی سائے میں سستا لیتا ہوں. نہر استجابت کی کنارے بیٹھ جاتا ہوں اور خود ایک قطرہ بن جاتا ہوں اور آپ کے زائرین کی اشکوں کے دریا کے شفاف پانیوں میں آپ کے ضریح مقدس کو عقیدت کے پھولوں کی مالا پہنا دیتا ہوں اور اس کے روزنوں میں سے آپ کی قبر مطہر کا نظارہ کرتا ہوں. یقین نہیں آتا! کیا میں اتنی آسانی سے آپ کی زیارت کے لئے حاضر ہؤا ہوں! جبکہ آپ کی زیارت کوثر مدینہ کی گمشدہ کی زیارت کے ہم رتبہ ہے. !والدین ماجدین
آپ کے والد ماجد ساتویں امام باب الحوائج حضرت موسیٰ بن جعفر علیہما السلام اور مادر گرامی نجمہ خاتون ہیں جو امام رضا علیہ السلام کی بھی والدہ ماجدہ ہیں ۔ ([1])
ولادت تا ہجرت
حضرت معصومه سلام الله علیها[2] نے پہلی ذی القعدہ ۱۷۳ ء ھ کو مدینہ منورہ کی سرزمین پر اس جہان میں قدم رنجہ فرمایا اور ۲۸ سال کی مختصر سی زندگی میں دس ۱۰ ([3]) یا بارہ۱۲ ([4]) ربیع الثانی ۲۰۱ ھ میں شہر قم میں اس دار فانی کو وداع کردیا ۔
اس عظیم القدر سیدہ نے ابتدا ہے سے ایسے ماحول میں پرورش پائی جہان والدین اور بہن بھائی سب کے سب اخلاقی فضیلتوں سے آراستہ تھے. عبادت و زہد، پارسائی اور تقوی، صداقت اور حلم، مشکلات و مصائب میں صبر و استقامت، جود و سخا، رحمت و کرم، پاکدامنی اور ذکر و یاد الہی، اس پاک سیرت اور نیک سرشت خاندان کی ابھری ہوئی خصوصیات تھیں. سب برگزیدہ اور بزرگ اور ہدایت و رشد کے پیشوا، امامت کے درخشان گوہر اور سفینہ بشریت کے ہادی و ناخدا تھے.
علم و دانش کا سرچشمہ
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے ایسے خاندان میں پرورش پائی جو علم و تقوا اور اخلاقی فضایل کا سرچشمہ تھا. آپ سلام اللہ علیہا کے والد ماجد حضرت موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ (ع) کے فرزند ارجمند حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی سرپرستی اور تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھایا. امام رضا علیہ السلام کی خصوصی توجہات کی وجہ سے امام ہفتم کے سارے فرزند اعلی علمی اور معنوی مراتب پر فائز ہوئے اور اپنے علم و معرفت کی وجہ سے معروف و مشہور ہوگئے.
ابن صباغ ملکی کہتے ہیں: «ابوالحسن موسی المعروف «کاظم» کے ہر فرزند کی اپنی ایک خاص اور مشہور فضیلت ہے.»
اس میں شک نہیں ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کے فرزندوں میں حضرت رضا علیہ السلام کے بعد علمی اور اخلاقی حوالے سے حضرت سیدہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا علمی اور اخلاقی مقام سب سے اونچا ہے. یہ والا مقام حضرت سیدہ معصومہ کے ناموں اور القاب اور ان کے بارے میں ائمہ کی زبان مبارک سے بیان ہونے والی تعاریف و توصیفات سے آشکار ہے. اور اس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ سیدہ معصومہ بھی ثانی زہرا حضرت زینب کی مانند «عالمہ غیر مُعَلَّمہ» ہیں.( عالمہ ہیں مگر ان کا استاد نہیں ہے)
فضایل کا مظہر
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا فضائل و مراتب و مقامات عالیہ کا مظہر ہیں. معصومین علیہم السلام کی روایات آپ سلام اللہ علیہا کے لئے نہایت اونچے مقامات و مراتب کی دلیل ہیں.
روى القاضى نور اللّه عن الصادق عليه السلام قال:ان للّه حرماً و هو مكة ألا انَّ لرسول اللّه حرماً و هو المدينة ألا و ان لاميرالمؤمنين عليه السلام حرماً و هو الكوفه الا و انَّ قم الكوفة الصغيرة ألا ان للجنة ثمانيه ابواب ثلاثه منها الى قم تقبض فيها امراة من ولدى اسمها فاطمہ بنت موسى عليهاالسلام و تدخل بشفاعتها شيعتى الجنة باجمعهم.[5(
قاضی نور الله رحمه روایت کرتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: «جان لو کہ خدا کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے؛ اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے بھی ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے؛ اور حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے لئے بھی ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے. جان لو کہ قم ہمارا چھوٹا کوفہ ہے، جان لو کہ جنت کی آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی جانب کھلتے ہیں. میرے فرزندوں میں سے ایک خاتون – جن کا نام فاطمہ ہے – قم میں رحلت فرمائیں گی جن کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں وارد ہونگے».
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا علمی مقام
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عالم تشیع کی نہایت گرانقدر اور والا مقام خاتون ہیں جن کا علمی مقام بہت اونچا ہے.
روایت ہے کہ ایک روز شیعیان محمد و آل محمد (ص) کا ایک گروہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی ملاقات کے لئے مدینہ منورہ مشرف ہؤا. چونکہ امام علیہ السلام سفر پر تشریف لے گئے تھے اور یہ لوگ آپ (ع) سے سوالات پوچھنے آئے تھے لہذا انہوں نے اپنے سوالات حضرت فاطمہ معصومہ کے سپرد کئے – جو ابھی نوعمر بچی ہی تھیں – یہ لوگ دوسرے روز ایک بار پھرامام علیہ السلام کی در گاہ پر حاضر ہوئے مگر امام (ع) ابھی نہیں لوتے تھے؛ چنانچہ انہوں نے اپنے سوالات واپس مانگے. مگر انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ سیدہ معصومہ نے ان کے جوابات بھی تحریر کر رکھے تھے. جب ان لوگوں نے اپنے سوالات کے جوابات کا مشاہدہ کیا، بہت خوش ہوئے اور نہایت تشکر اور امتنان کے ساتھ مدینہ چھوڑ کر چلے گئے. اتفاق سے راستے میں ہی ان کا سامنا امام موسی کاظم علیہ السلام سے ہؤا اور انہوں نے اپنا ماجرا امام علیہ السلام کو کہہ سنایا. امام (ع) نے سوالات اور جوابات کا مطالعہ کیا اور فرمایا: باپ اس پر فدا ہو – باپ اس پر فدا ہو – باپ اس پر فدا ہو .
قم کی تقدس کا راز
متعدد احادیث میں قم کے تقدس پر تأکید ہوئی ہے. امام صادق (ع) نے قم کو اپنا اور اپنے بعد آنے والے اماموں کا حرم قرار دیا ہے اور اس کی مٹّی کو پاک و پاکیزہ توصیف فرمایا ہے:.امام علیہ السلام فرماتے ہیں : «الا انَّ حرمى و حرم ولدى بعدى قم»[6](
آگاہ رہو کہ میرا حرم اور میرے بعد آنے والے پیشواؤں کا حرم قم ہے.
امام صادق علیہ السلام ہی اپنی مشہور حدیث میں اہل رے سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: … وان لاميرالمؤمنين عليه السلام حرماً و هو الكوفه الا و انَّ قم الكوفة الصغيرة ألا ان للجنة ثمانيه ابواب ثلاثه منها الى قم… = اور حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے لئے بھی ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے. جان لو کہ قم ہمارا چھوٹا کوفہ ہے، جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی جانب کھلتے ہیں.
امام علیہ السلام قم کے تقدس کی سلسلے میں اپنی حدیث کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: « … تقبض فيها امراة من ولدى اسمها فاطمہ بنت موسى عليهاالسلام و تدخل بشفاعتها شيعتى الجنة با جمعهم = میرے فرزندوں میں سے ایک خاتون – جن کا نام فاطمہ بنت موسی ہے – قم میں رحلت فرمائیں گی جن کی شفاعت سے ہماری تمام شیعہ بہشت میں وارد ہونگے».
راوی کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث امام موسی کاظم علیہ السلام کی ولادت سے بھی پہلے امام صادق علیہ السلام سے سنی تھی. یہ حدیث قم کے تقدس کا پتہ دیتی ہے اور قم کی شرافت و تقدس کے راز سے پردہ اٹھاتی ہیں؛ اور یہ کہ اس شہر کا اتنا تقدس اور شرف – جو روایات سے ثابت ہے – ریحانہ رسول (ص)، کریمہ اہل بیت سلام اللہ علیہا کے وجود مبارک کی وجہ سے ہے جنہوں نے اس سرزمین میں شہادت پاکر اس کی خاک کو حور و ملائک کی آنکھوں کا سرمہ بنادیا ہے.
سیده نے بهی قم کا انتخاب کیا
امام رضا علیہ السلام کے مجبورا شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد ۲۰۱ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں راستہ میں ساوہ پھنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت کے مخالف تھے لہٰذا انہوں نے حکومتی کارندوں کے ساتھ مل کر قافلے پر حملہ کردیا اور جنگ چھیڑدی جس کے نتیجے میں قافلے میں سے بہت سارے افراد شہید ہوگئے([7(
حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ہوگئیں اور ایک روایت کی مطابق ساوه میں ایک عورت نے آپ کو مسموم کردیا ([8]) جس کی وجه سے آپ (س) بیمار پڑ گئیں اور محسوس کیا کہ اب خراسان نہ جاسکیں گی اور اب زیاده دیر تک زنده بهی نہیں رہیں گی چنانچہ فرمایا : مجھے شہر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے ۔ ([9]) اس طرح حضرت وہاں سے قم روانہ ہوگئیں ۔
دشمنان اہل بیت کا اس قافلے سے نبرد آزما ہونا اور بعض حضرات کا جام شہادت نوش فرمانا اور وہ دیگر نامساعد حالات ایسے میں حضرت کا حالت مرض میں وہاں سے سفر کرنا، ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کو قبول کرنا بعید نہیں ہے کہ سیده معصومه (س) بهی عباسی جلادون کی حکم پر مسموم کی گئی تِہیں۔
بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے، مویٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور فاطمہ معصومہ (ص) اہل قم کے عشق اہلبیت سے لبریز سمندر کے درمیان وارد ہوئیں ۔ موسیٰ بن خزرج کے ذاتی مکان میں نزول اجلال فرمایا ۔ ([10])
غروب غمگین
بی بی مکرمہ نے ۱۷ دن اس شہر امامت و ولایت میں گزارے، مسلسل مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں اس طرح اپنی زندگی کے آخری ایام بھی خضوع و خشوع الٰہی کے ساتھ بسر فرمائے ۔ آخر کار وہ ذوق و شوق نیز وہ تمام خوشیاں جو کوکب ولایت کے آنے اور دختر فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی زیارت سے اہل قم کو میسر ہوئی تھیں یکایک نجمہ عصمت و طہارت کے غروب سے حزن و اندوہ کے سمندر میں ڈوب گئیں لقاء الله کے لئے بے قرار روح قفس خاکی سے بسوئے افلاک پرواز کرگئی. سیده نے دعوت حق کو لبیک کہی اور عاشقان امامت و ولایت عزادار ہوگئے ۔
یہ سنہ 201 ہجری کا واقعہ ہے. سلام ہو اسلام کی اس عظیم المرتبت خاتون پر روز طلوع سے لے کر لمحہ غروب تک.
سلام و درود معصومہ سلام اللہ علیہا کی روح تابناک پر جن کے حرم منور نے قم کی ریگستانی سرزمین کو نورانیت بخشی. سلام ہو دنیا کی خواتین کی سیدہ (س)، مہر محبت کے پیامبروں کی لاڈلی پر، دختر سرداران جوانان جنت پر.
اے فاطمہ! روز قیامت ہماری شفاعت فرما، کہ آپ اللہ تعالی کی بارگاہ میں خاص مقام و منزلت کی مالک ہیں.
ہاں بی بی معصومہ سلام اللہ علیہا نے حضرت زینب علیا مقام سلام اللہ علیہا کی طرح اپنے پر برکت سفر میں حقیقی پیشواؤں کی حقانیت کے سلسلے میں امامت کی سند پیش کردی اور مأمون کے چہرے سے مکر و فریب کی نقاب نوچ لی۔ قہرمان کربلا کی طرح اپنے بھائی کے قاتل کی حقیقت کو طشت از بام کردیا ۔ فقط فرق یہ تھا کہ اس دور کے حسین علیہ السلام کو مکر و فریب کے ساتھ قتلگاہ بنی عباس میں لے جایا گیا تھا ۔ اسی اثناء میں تقدیر الٰہی اس پر قائم ہوئی کہ اس حامی ولایت و امامت کی قبر مطہر ہمیشہ کے لئے تاریخ میں ظلم و ستم اور بے انصافی کے خلاف قیام کا بہترین نمونہ اور ہر زمانے میں پیروان علی علیہ السلام کے لئے ایک الہام الٰہی قرار پائے۔ آپ (س) جیسوں کی موت شہادت نہ ہو تو کیا ہو؟
آپ (س) نے خاندان پیغمبر صل اللہ علیہ و آلہ کے چند افراد اور محبان اہلبیت کے ہمراہ مدینے سے سفر کر کے ثابت کردیا کہ ہر زمانے میں حقیقی اور خالص محمدی اسلام کے تربیت یافتہ جیالوں نے مادی و طاغوتی طاقتوں کے سامنے حق کا اظہار کیا ہے۔ جیسا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یزید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمایا ” انی استصغرک “ ([11]) میں تجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہوں اور تجھے بہت ذلیل و رسوا سمجھتی ہوں ۔
تدفین کی رسومات
شفیعہ روز جزا کی وفات حسرت آیات کے بعد ان کو غسل دیا گیا ۔ تدفین پہنایا گیا پھر قبرستان بابلان کی طرف آپ کی تشییع کی گئی ۔ لیکن دفن کے وقت مَحرم نہ ہونے کی وجہ سے آل سعد مشکل میں پھنس گئے. آخر کار ارادہ کیا کہ ایک ضعیف العمر بزرگ اس عظیم کام کو انجام دیں، لیکن وہ بزرگ اور دیگر بزرگان اور صلحائے شیعہ اس امر عظیم کی ذمہ داری اٹھانے کے لائق نہ تھے کیونکہ معصومہ اہل بیت (س) کے جنازے کو ہر کوئی سپرد خاک نہیں کرسکتا تھا۔ لوگ اسی مشکل میں اس ضعیف العمر بزرگ کی آمد کے منتظر تھے کہ ناگہاں لوگوں نے دو سواروں کو آتے ہوئے دیکھا وہ ریگزاروں کی طرف سے آرہے تھے۔ جب وہ لوگ جنازے کے نزدیک پھنچے تو نیچے اترے اور کچھ کہے سنے بغیر نماز جنازہ پڑہی اور اس ریحانہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسد اطہر کو داخل سرداب دفن کردیا ۔ اور کسی سے گفتگو کئے بغیر سوار ہوئے اور واپس چلے گئے اور کسی نے بھی ان لوگوں کو نہ پہچانا ۔ ([12])
حضرت آیة اللہ العظمیٰ شیخ محمد فاضل لنکرانی (رہ) فرماتے ہیں کہ بہ امر بعید نہیں ہے کہ یہ دو بزرگوار دو امام معصوم رہے ہوں کہ جو اس امر عظیم کی انجام دہی کے لئے قم تشریف لائے اور چلے گئے۔
سیدہ معصومہ (س) کو دفن کرنے کے بعد موسیٰ بن الخزرج نے حصیر و بوریا کا ایک سائبان قبر مطہر پر ڈال دیا وہ ایک مدت تک باقی رہا ۔ مگر حضرت زینب بنت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام قم تشریف لائیں تو انہوں نے مقبرے پر اینٹوں کا قبہ تعمیر کرایا ۔ ([13])
زیارت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا روایات کی منظر سے
دعا اور زیارت گوشہ تنہائی سے پر کھول کر لقاء اللہ تک عروج کرنے کا نام ہے. خالص معنویت کے شفاف چشمے کے آب گوارا سے بھرا ہؤا شفاف جام ہے؛ اور حضرت معصومہ کے حرم کی زیارت زمانے کی غبار آلود فضا میں امید کی کرن ہے، غفلت اور بے خبری کے بھنور میں غوطہ کھانے والی روح کی فریاد ہے اور بہشت کی بوستانوں سے اٹھی ہوئی فرح بخش نسیم ہے.
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے مرقد منور کی زیارت انسان کو خوداعتمادی کا درس دیتی ہے، اس ناامیدی کی گرداب میں ڈوبنے سے بچا دیتی ہے اور اس کو مزید ہمت و محنت کی دعوت دیتی ہے. کریمہ اہل بیت سلام اللہ علیہا کے مزار کی زیارت اس امر کا باعث ہوتی ہے کہ زائر اپنے آپ کا خداوند صمد کے سامنے نیازمنداور محتاج پائے، خدا کے سامنے خضوع و خشوع اختیار کرے، غرور و تکبر کی سواری – جو تمام بدبختیوں اور شقاوتوں کا موجب ہے – سے نیچے اتر آئے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دے. اسی وجہ سے آپ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے لئے عظیم انعامات کا وعدہ دیا گیا ہے.
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے سلسلے میں ائمہ معصومین سے متعدد احادیث و روایت نقل ہوئی ہیں.
1- قم کے نامور محدث «سعد ابن سعد» کہتے ہیں کہ: «میں امام رضا علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہؤا تو امام ہشتم علیہ السلام نے مجھ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: «ای سعد! ہماری ایک قبر تمہارے ہاں ہے». میں نے عرض کیا:«میری جان آپ پر فدا ہو؛ کیا آپ فاطمہ بنت موسی بن جعفر کے مزار کی بات کررہے ہیں؟ فرمایا: « من زارها فله الجنّة؛ جو شخص ان کے حق کی معرفت رکھتے ہوئے ان کی زیارت کرے، اس کے لئے بہشت ہے».[14]
2- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:« من زارها عارفاً بحقّها فله الجنة = جو کوئی ان کی زیارت کرے جنت اس پر واجب اور ان کے حق کی معرفت رکهتا ہو اس پر جنت واجب ہے»[15]. اور ایک اور حدیث میں ہے کہ: « ان کی زیارت بہشت کے ہم پلہ ہے».
3 – نیز فرمایا:«انّ زیارتها تعدل الجنّة؛ جو شخص ان کی زیارت کرے اس کی جزا بهشت ہے.»
4 – امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: «من زار المعصومة عارفاً بحقّها فله الجنّة؛جو شخص از روئے معرفت آپ کی زیارت کرے اس کا انعام جنت ہے.»[16]
5 – نیز فرمایا «من زار المعصومة بقم کمن زارنی؛ جو شخص قم میں حضرت معصومہ (س) کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زیارت کی ہے.»
6- عن عليهماالسلام قال:اس سلسلے میں روایت ہے کہ ابن الرضا امام محمد تقی الجوادعلیہ السلام نے فرمایا:«من زارقبرعمّتى بقم فله الجنة [17]
جو شخص قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے بہشت اس پر واجب ہے». 7– ایک مؤمن امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے مشہد گیا اور وہاں سے کربلا روانہ ہؤا اور ہمدان کے راستے کربلا چلا گیا. سفر کے دوران اس نے خواب میں امام رضا علیہ السلام کی زیارت کی اور امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: کیا ہوتا اگر تم سفر کے دوران قم سے عبور کرتے اور میری همشیره کی زیارت کرتے؟»
8 – مولی حیدر خوانساری لکهتے ہیں: روایت ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص میری زیارت کے لئے نہ آسکے رے میں میرے بهائی (حمزه ) کی زیارت کرے یا قم میں میری ہمشیره معصومہ کی زیارت کرے اس کو میری زیارت کا ثواب ملے گا.[18]
احادیث کی مختصر شرح
گو کہ یہ ساری احادیث حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عظمت کی دلیل ہیں مگر این روایات میں بعض نکات قابل تشریح ہیں:
جیسے: جنت کا واجب ہونا، جنت کے برابر ہونا، بہشت کا مالک ہوجانا، جو لفظ «له» سے سمجها جاتا ہے اور ان کی زیارت کا حضرت رضا علیہ السلام کی زیارت کے برابر ہونا اور حضرت رضا علیہ السلام کا اس شیعہ بهائی سے بازخواست کرنا جس نے حضرت معصومہ سلام الله علیہا کی زیارت نہیں کی تهی.
حضرت معصومہ علیہا السلام کی زیارت کی سفارش صرف ایک امام نے نہیں فرمائی ہے بلکہ تین اماموں (علیہم السلام) نے ان کی زیارت کی سفارش فرمائی ہے: امام صادق، امام رضا و امام جواد علیہم السلام. اور دلچسپ امر یہ کہ امام صارف علیہ السلام نے حضرت معصومه کی ولادت با سعادت سے بہت پہلے بلکہ آپ (س) کے والد امام کاظم علیہ السلام کی ولادت سے بهی پہلے ان کی زیارت کی سفارش فرمائی ہے.
دوسرا دلچسپ نکتہ پانچویں روایت ہے جس میں حضرت معصومہ کی زیارت امام رضا علیہ السلام کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے. زید شحّام نے امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ :«یا بن رسول الله جس شخص نے آپ میں سے کسی ایک کی زیارت کی اس کی جزا کیا ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: «جس نے ہم میں سے کسی ایک کی زیارت کی «کمن زار رسول الله (ص)؛ اس شخص کی طرح ہے جس نے رسول خدا صلی الله و علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کی ہو» چنانچہ جس نے سیده معصومہ (س) کی زیارت کی در حقیقت اس نے رسول خدا کی زیارت کی ہے. اور پهر حضرت رضا علیہ السلام – جو سیدہ معصومہ کی زیارت کو اپنی زیارت کے برابر قراردیتے ہیں – فرماتے ہیں کہ :«الا فمن زارنی و هو علی غسل، خرج من ذنوبه کیوم ولدته امّه؛ آگاه رہو کہ جس نے غسل زیارت کرکے میری زیارت کی وه گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جس طرح کہ وه ماں سے متولد ہوتے وقت گناہوں سے پاک تها». ان احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سیده معصومه سلام الله کی زیارت گناہوں کا کفاره بهی ہے اور جنت کی ضمانت بهی ہے بشرطیکہ انسان زیارت کے بعد گناہوں سے پرہیز کرے.
دو حدیثوں میں امام صادق اور امام رضا علیہما السلام نے زیارت کی قبولیت اور وجوب جنت کے لئے آپ (س) کے حق کی معرفت کو شرط قرار دیا ہے. اور ہم آپ (س) کی زیارت میں پڑهتے ہیں کہ «يا فاطِمَة ا ِشْفَعی لی فِی الْجَنَّة ِ، فَا ِنَّ لَكَ عِنْدَاللّْہ ِشَأْناً مِنَ الشَّأْن = اے فاطمہ جنت میں میری شفاعت فرما کیونکہ آپ کے لئے خدا کے نزدیک ایک خاص شأن و منزلت ہے» امام صادق علیہ السلام کے ارشاد گرامی کے مطابق تمام شیعیان اہل بیت (ع) حضرت سیده معصومہ سلام الله کی شفاعت سے جنت میں داخل ہونگے اور زیارتنامے میں ہے کہ آپ ہماری شفاعت فرمائیں کیوں کہ آپ کے لئے ایک خاص شأن و منزلت ہے. علماء کہتے ہیں کہ یہ شأن، شأنِ ولایت ہے جو سیده (س) کو حاصل ہے اور اسی منزلت کی بنا پر وه مؤمنین کی شفاعت فرمائیں گی اور اگر کوئی اس شأن کی معرفت رکهتا ہو اور آپ کی زیارت کرے تو اس پر جنت واجب ہے.
زیارت اور اس کا فلسفه:
قاموس شیعہ میں ایک مقدس و معروف کلمہ،کلمہٴ زیارت ہے اسلام میں جن آداب کی بہت زیادہ تأکید ہوئی ہے ان میں سے ایک اہل بیت علیہم السلام اور ان کی اولاد امجاد کی قبور مبارک کی زیارت کے لئے سفر کرنا ہے ۔حدیثوں میں رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی جانب سے اس امر کی بڑی تأکید ہے ۔
مثلا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:من زارنی او زار احدا من ذریتی زرتہ یوم القیامة فانقذتہ من اھوائھا۔ [19]
جو میری یا میری اولاد میں سے کسی کی زیارت کرے گا مین قیامت کے دن اس کے دیدار کو پہنچوں گا اور اسے اس دن کے خوف سے نجات دلاؤں گا ۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ من اتی قبر الحسین عارفا بحقہ کان کمن حج مأة حجة مع رسول اللہ[20]
جو معرفت حقہ کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے گا تو گویا اس نے ۱۰۰ سو حج رسول اللہ کے ساتھ انجام دیئے۔
ایک دوسری روایت مین امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:امام حسین علیہ السلام آپ کی زیارت ہزار حج و عمرہ کے برابر ہے۔[21]
امام رضا علیہ السلام نے اپنی زیارت کے لئے فرمایا : جو شخص معرفت کے ساتھ میری زیارت کرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔[22]
امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا : جس نے عبد العظیم (ع) کی قبر کی زیارت کی گویا اس نے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی ہے۔[23]
امام جواد علیہ السلام نے بھی امام رضا علیہ السلام کے لئے فرمایا:
اس شخص پر جنت واجب ہے جو معرفت کے ساتھ (طوس میں) ہمارے باباکی زیارت کرے۔
حضرت معصومہ سلام الله علیہا کی زیارت کف بارف میں وارد ہونے والی روایات بهی مندرجہ بالا سطور میں بیان ہوئیں.
اب سوال یہ ہے کہ ان فضائل و جزا کا فلسفہ کیا ہے؟ کیا یہ تمام اجر و ثواب بغیر کسی ہدف کے فقط ایک بار ظاہری طور پر زیارت کرنے والے کو میسر ہوجائے گا؟
در حقیقت زیارت کا فلسفہ یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیمات سے آخرت کے لئے زاد راہ فراہم کریں اور خدا کی راہ میں اسی طرح قدم اٹھائیں جس طرح کہ ان بزرگوں نے اٹھائے. زیارت معصومین (ع) کے سلسلے میں وارد ہونے والی اکثر احادیث میں شرط یہ ہے کہ ان کے حق کی معرفت کے ساتھ ہو تو تب ہی اس کا اخروی ثمرہ ملنے کی توقع کی جاسکے گی.
یہ بزرگ ہستیاں، عالم بشریت کے لئے نمونہ اور مثال ہیں، ہمیں ان کا حق پہچان کر ان کی زیارت کے لئے سفر کی سختیان برداشت کرنی ہیں اور ساتھ ہی خدا کی راہ میں ان کی قربانیوں اور قرآن و اسلام کی حفاظت کی غرض سے ان کی محنت و مشقت سے سبق حاصل کرنا ہے اور اپنی دینی اور دنیاوی حاجات کے لئے ان سے التجا کرنی ہے کہ ہماری شفاعت فرمائیں اور اس کے لئے ان کے حق کی معرفت کی ضرورت ہے۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا مأثور زیارتنامہ
ہر بارگاہ میں ملاقات (زیارت) کا ایک خاص دستور ہوتاہے. حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکی بارگاہ میں بھی مشرف ہونے کے خاص آداب ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کی زیارت کے لئے معتبر روایتوں سے زیارت نامہ منقول ہے تا کہ مشتاقان زیارت ان نورانی جملوں کی تلاوت فرماکر رشدو کمال کی راہ میں حضرت سے الہام حاصل کرسکیں اور رحمت حق کی بی ساحل سمندر سی اپنی توانائی اور اپنے ظرف کے مطابق کچھ قطرے ہی اٹها سکیں ۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے لئے ائمہ معصومین سے مأثور زیارت نامہ وارد ہؤا ہے. سیدة العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی بعد آپ سلام اللہ علیہا پہلی بی بی ہیں جن کے لئے ائمہ اطہار علیہم السلام کی طرف سے زیارت نامہ وارد ہؤا ہے. تاریخ اسلام میں رسول اللہ (ص) کی والدہ حضرت آمنہ بنت وہب، حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد، حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ بنت خویلد، حضرت ابوالفضل علیہ السلام کی والدہ فاطمہ بنت ام البنین، شریکة الحسین ثانی زہراء حضرت زینب، حضرت امام علی النقی علیہ السلام کی ہمشیرہ حضرت حکیمہ خاتون اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت نرجس خاتون (سلام اللہ علیہن اجمعین) جیسی عظیم عالی مرتبت خواتین ہو گذری ہیں جن کی مقام و منزلت میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مگر ان کے بارے میں معصومین سے کوئی مستند زیارتنامہ وارد نہیں ہؤا ہے. مگر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے لئے زیارتنامہ وارد ہؤا ہے اور یہ حضرت معصومہ (س) کی عظمت کی نشانی ہے؛ تا کہ شیعیان و پیروکاران اہل بیت عصمت و طہارت بالخصوص خواتین اس عظمت کا پاس رکھیں اور روئے زمین پر عفت و حیاء اور تقوی و پارسائی کے عملی نمونے پیش کرتی رہیں، کہ صرف اسی صورت میں ہے آپ سلام اللہ علیہا کی روح مطہر ہم سے خوشنود ہوگی اور ہماری شفاعت فرمائیں گی۔
حضرت کا معتبر زیارت نامہ
سند زیارت
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکی ایک معتبر زیارت ہے جسے علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں نقل فرمایا ہے. ہم پہلے اس کی سند پیش کرتے ہیں:
علی ابن ابراہیم اپنے پدر سے وہ سعد سے وہ امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اے سعد تمھارے نزدیک ہماری ایک قبر ہے !میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان ہوجاوٴں کیا آپ فاطمہ بنت موسی بن جعفر علیہم السلام کی قبر کو بیان فرمارہے ہیں؟ فرمایا :”ہاں“ جو بھی معرفت کے ساتھ ان کی زیارت کرے گا وہ مستحق بہشت ہے۔ جب بھی (تم حرم مشرف ہوتے ہو قبر کو دیکھ کر قبر شریف کے سرہانے (یعنی ضریح کے شمال میں) رو بقبلہ کهڑے ہوجاوٴ اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر،۳۳ مرتبہ سبحان اللہ،۳۳ مرتبہ الحمد للہ پڑھو (بالکل تسبیحات حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی مانند) اور پھر کہو۔
متن زیارت
اَلـسَّلامُ عَـلی آدَمَ صَـفْوَة اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلی نوُح نَبِی اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلی اِبْرهيمَ خَليلِ اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلی موُسی كَليمِ اللّهِِ، اَلسَّلامُ عَلی عيسی روُح ِاللّهِِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا خَيْرَ خَلْقَ اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا صَفِی اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُحَمّدَ بْنَ عَبْد ِاللّهِ، خاتَمَ النَّبِيّينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا اَميرَالْمُؤْمِنينَ عَلی بْنَ اَبی طالِب، وَصِی رَسوُلِ اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكِ يا فاطِمَة سَيِّدَة نِساءِ الْعالَمينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكُما يا سِبْطَی نَبِی الرَّحْمَةِ، وَ سَيِّدَی شَباب اھل ِالْجَنَّةِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا عَلِی بْنَ الْحُسَيْنِ، سَيِّدَ الْعابِدينَ وَ قُرَّة عَيْنِ النّاظِرينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِی، باقِرَ الْعِلْم ِبَعْدَ النَّبِی،اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّد الصّاد ِقَ الْبارَّ الْامينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا موُسَی بْنَ جَعْفَر الطّهرَ الطُّهرَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا عَلِی بْنَ موُ سَی الرِّضَا الْمُرْتَضی، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِی التَّقِی، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا عَلِی بْنَ مُحَمَّد النَّقِی النّاصِحَ الْأَمينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا حَسَنَ بْنَ عَلِی، اَلسَّلامُ عَلَی الْوَصِی مِنْ بَعْدِهِ. اَللّهمَّ صَلِّ عَلی نُورِكَ وَ سِراجِكَ، وَ وَلِی وَلِيِّكَ، وَ وَصِيِّ وَصِيِّكَ، وَ حُجَّتِكَ عَلی خَلْقِكَ . اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ رَسوُل ِاللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ فاطِمَة وَ خَديجَة، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ اَميرِالْمُؤْمِنينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ الْحَسَن ِوَ الْحُسَيْن ِاَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ وَلِی اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيا اُخْتَ وَلِی اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيا عَمَّة وَلِی اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ موُسَی بْن ِجَعْفَر، وَ رَحْمَة اللّهِ وَ بَرَكاتُه. اَلسَّلامُ عَلَيْكِ، عَرَّفَ اللّه بَيْنَنا وَ بَيْنَكُمْ فِی الْجَنَّةِ، وَ حَشَرَنا فی زُمْرَتِكُمْ، وَ أَوَرَدْنا حَوْضَ نَبِيِّكُمْ، وَ سَقانا بِكَأْس ِجَدِّ كُمْ مِنْ يَد ِعَلِی ِّبْن ِاَبی طالِب، صَلَواتُ اللّه عَلَيْكُمْ، أَسْئَلُ اللّه أَنْ يُر ِيَنا فيكُمُ السُّروُرَ وَ الْفَرَجَ، وَ أَنْ يَجْمَعَنا وَ إِيّاكُمْ فی زُمْرَة ِجَدِّكُمْ مُحَمَّد، صَلَّی اللّه عَلَيْهِ وَ آلِهِ، وَ أَنْ لا يَسْلُبَنا مَعْر ِفَتَكُمْ، إِنَّه وَلِی قَديرٌ. أَتَقَرَّبُ إِلَی اللّهِ بِحُبِّكُمْ وَ الْبَرائة ِمِنْ أَعْدائِكُمْ، وَ التَّسْليم ِإِلَی اللّهِ، راضِياً بِهِ غَيْرَ مُنْكِر وَ لا مُسْتَكْبِر وَ عَلی يَقين ِما أَتی بِهِ مَحَمَّدٌ – صلی اللہ علیه و آله – وَ بِه راض، نَطْلُبُ بِذلِكَ وَجْهكَ يا سَيِّدی، اَللّهمَّ وَ رِضاكَ وَ الدّارَ الْآخِرَة . يا فاطِمَةُ اِشْفَعی لی فِی الْجَنَّة ِ، فَا ِنَّ لَكَ عِنْدَاللّْهِ شَأْناً مِنَ الشَّأْن ِ. اَللّْهمّ ا ِنی اَسْئَلُكَ أَنْ تَخْتِمَ لی بِالسَّعادَة ِ، فَلاتَسْلُبْ مِنّی ِما أَنَا فيهِ،وَ لاحُولَ وَ لا قُوَة إِلا بالّله الْعَلِی الْعَظيم ِ. اَللّهمَ اسْتَجِبْ لَنا، وَ تَقَبَّلْه بِكَرَمِكَ وَ عِزَّتِكَ، وَ بِرَحْمَتِكَ وَ عافِيَتَكَ، وَ صَلَّی الّله عَلی مُحَمَّد وَ آلِهِ أَجْمَعينَ، وَ سَلَّمَ تَسْليما يا أَرْحَمَ الرّاحِمينَ. [24]
ترجمہ :
سلام ہو آدم پر جو برگزیده هی خدا کا ۔ سلام ہو نوح پر جو نبی الله ِہیں. سلام ہو ابراہیم جو خدا کی خلیل ہیں ۔ سلام ہو موسیٰ پر جو کلیم الله ِہیں۔ سلام ہو عیسیٰ پر جو روح الله ِہیں۔
اے رسول خدا آپ پر سلام ہو، اے بہترین مخلوق خدا آپ پر سلام ہو ۔ اے صفی خدا آپ پرسلام ہو ۔اے خاتم انبیاء محمد بن عبداللہ آپ پر سلام ہو ۔
اے امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب وصی رسول خدا آپ پر سلام ہو ۔
اے فاطمہ ای سیده خواتین عالمین، آپ پر سلام ہو ۔ اے علی بن حسین ای عبادت گزاروں کے سید و سردار اور ای دیکھنے والوں کی آنکه کی تهندک، آپ پر سلام ہو۔ اے محمد بن علی ای بعد از نبی علم نبی (ص) کی رازون کی تالی کهولنی والی آپ پر سلام ہو۔ اے جعفر بن محمد صادق نیک کردار، امین آپ پر سلام ہو۔ اے موسیٰ بن جعفر پاک وپاکیزہ آپ پر سلام ہو۔ اے علی بن موسیٰ رضا، مرتضی آپ پر سلام ہو۔ اے محمد بن علی پرہیزگار آپ پر سلام ہو۔ اے علی بن محمد نقی خیر خواہ، امین آپ پر سلام ہو۔ اے حسن بن علی آپ پر سلام ہو۔ اے ان کے بعد جو وصی ہیں ان پر سلام ہو۔خدایا تو اپنے نور اور تابناک چراغ، اپنے ولی کے نمائندے، اپنے جانشین اور بندوں پر اپنی حجت کے اوپر سلام نازل فرما ۔ اے بنت رسول خدا آپ پر سلام ہو۔ اے دختر فاطمہ و خدیجہ آپ پر سلام ہو ۔اے دختر امیر المومنین آپ پر سلام ہو ۔اے دختر حسین و حسین آپ پر سلام ہو ۔اے دختر ولی خدا آپ پر سلام ہو ۔ اے ولی خدا کی خواہر آپ پر سلام ہو ۔اے ولی خدا کی پھوپھی آپ پر سلام ہو ۔اے دختر موسی بن جعفر آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکت ہو۔ سلام ہو آپ پر۔خدا جنت میں ہمارے اور آپ کے در میان شناخت قائم فرمائے اور ہم کو آپ لوگوں کے گروہ میں محشور فرمائے۔ آپ کے نبی کے حوض پر وارد فرمائے نیز ہمیں آپ لوگوں پر خدا کا درود ہو۔ میں خدا سے درخواست کرتاہوں کہ وہ ہمیں آپ کے بارے میں خوشحال کرے اور فرج دکھائے۔نیز ہمیں اور آپ کو آپ کے جد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گروہ میں شمار فرمائے اور ہم سے آپ کی معرفت کو سلب نہ کرے۔ کیونکہ وہی سرپرست اور قدرت والا ہے۔ میں آپ کی محبت اور آپ کے دشمنوں سے برائت کے وسیلے سے خدا کی بارگاہ میں تقرب چاہتاہوں اور اس کی بارگاہ میں سر نیاز خم کرتاہوں۔
نیز اس سے راضی ہوں۔ نہ ہی منکر ہوں نہ ہی مستکبر۔یہ تمام باتیں جو چیزیں محمد لائے ہیں اس پر یقین کے ساتھ کہہ رہاہوں نیز اس سے راضی ہوں۔اے مرے آقا اسی وسیلے سے تری توجہ کا طلبگار ہوں۔ خدایا تری خوشنودی اور خانہٴ آخرت چاہتاہوں۔
اے فاطمہ جنت میں میری شفاعت فرمائیے کیونکہ آپ خدا کے نزدیک ایک خاص شان ومقام کی حامل ہیں ۔خدایا میں تجھ سے درخواست کرتاہوں کہ ہمارا خاتمہ سعادت پر ہو۔پس اس ایمان کو ہم سے نہ چھین جو ہم میں موجود ہے۔تمام حرکت و جنبش خدا ہی کے وسیلے سے ہے جو بزرگ و برتر ہے ۔ خدایا ہماری حاجت کو مستجاب فرما۔ اور اپنے کرم و عزت و رحمت و عافیت سے اسے قبول فرما نیز محمد اور ان کی آل پر درود و سلام نازل فرما۔ اے سب سے زیادہ مہربان ۔
امام رضا (ع) اور لقب «معصومہ»
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا جنتی خاتون، عبادت اور خدا کی ساتھ راز و نیاز میں ڈوبی ہوئی، بدیوں سے پاک اور عالم خلقت کا شبنم ہیں. شاید اس بی بی کو لقب «معصومہ» اسی لئے ملا ہے کہ ماں زہراء سلام اللہ علیہا کی عصمت آپ (س) کے وجود میں جلوہ گر ہوگئی تھی. بعض روایات کی مطابق یہ لقب حضرت رضا علیہ السلام نے اپنی ہمشیرہ مطہرہ کو عطا فرمایا تھا.جیسا کہ بلند اندیش اور سفید سیرت شیعہ فقیہ علامہ محمد باقر مجلسی (رہ) روایت کرتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: «مَنْ زَارَ الْمَعصُومَةَ بِقُمْ كَمَنْ زَارَنى= جو شخص قم میں حضرت معصومہ (س) کی زیارت کرے، گویا کہ اس نے میری زیارت کی ہے»[25].
کریمة اہل بیت علیہم السلام
یہ لقب امام معصوم کی جانب سے سیدہ معصومہ سلام اللہ علیہا کو عطا ہؤا ہے جو آپ (س) کی مرتبت کی بلندی پر دلالت کرتا ہے.
انسان عبادت و بندگی خداوند عالم کے نتیجے میں مظہر ارادہ حق اور واسطہ فیض الٰہی قرار پا سکتا ہے، یہ ذات اقدس الہی کی عبودیت کا ثمرہ ہے چنانچہ خداوند عالم حدیث قدسی میں فرماتا ہے :
«انا اقول للشیء کن فیکون اطعنی فیما امرتک اجعلک تقول للشیء کن فیکون[26] = اے فرزند آدم میں کسی چیز کے لئے کہتا ہوں کہ ہوجا! پس وہ وجود میں آجا تی ہے، تو بھی میرے بتائے ہوئے راستوں پر چل؛ میں تجھ کو ایسا بنادوں گا کہ کہے گا ہوجا ! وہ شیء موجود ہو جائے گی».
امام صادق علیہ اسلام نے بھی فرمایا :
«العبودیة جوھریة کنہها الربوبیة[27] = یعنی خدا کی بندگی ایک گوہر ہے جس کی نہایت اور اس کا باطن موجودات پر فرمانروائی ہے».
اولیاء خدا جنہوں نے بندگی و اطاعت کی راہ میں دوسروں سے سبقت حاصل فرمائی اور اس راہ کو خلوص کے ساتھ طے کیا وہ اپنی اس با برکت عارضی زندگی میں بھی اور زندگی کے بعد بھی کرامات و عنایات کا منشأ ہیں ۔ اور یه سب ان کی پاکیزہ زندگی کا نتیجہ ہے ۔
آستان قدس فاطمی قدیم الایام سے هی ہزاروں کرامات و عنایات ربانی کا مرکز و معدن رہا ہے، کتنے نا امید قلوب خدا کی فضل و کرم سی پر امید هوئی، کتنے تہی داماں، رحمت ربوبی سے اپنی جھولی بھر چکے؛ اور کتنے ٹهکرائے هوئے اس در پر آکر کریمہ اہلبیت سلام اللہ علیہا کے فیض و کرم سے فیضیاب ہوئے اور خوشحال و شادماں ہوکر لوٹے ہیں اور اولیاء حق کی ولایت کے سائے میں ایمان محکم کے ساتھ اپنی زندگی کی نئی بنیاد رکهی ہے ۔ یہ تمام چیزیں اسی کنیز خدا کی روح کی عظمت اور خداوند متعال کی فیض و کرم کے منبع بے کراں کی نشاندہی کرتی ہیں اور ثابت کرتی ہیں که سیده معصومہ (س) کریمہ اہل بیت (ع)ہیں.
اب ہم دیکهتے ہیں که کریمہ اہل بیت علیہم السلام کا لقب کس طرح ظاهر ہؤا؟.
یه لقب در حقیقت ایک معاصر بزرگ مرجع تقلید کے والد بزرگوار کی رؤیائے صادقہ کے ذریعے ظاہر ہؤا ہے. خواب کچھ یوں ہے:
آیت اللہ العظمی سید شہاب الدین مرعشی نجفی (رہ) کے والد ماجد مرحوم آيت اللّہ سيّد محمود مرعشى نجفى(رہ)، حضرت سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی قبر شریف کا مقام معلوم کرنے کی سعی وافر کررہے تھے اور اس سلسلے میں انہوں نے ایک مجرب ختم کا تعین کیا تا کہ اس طرح معلوم ہوجائے کہ ام ابیھا سلام اللہ علیہا کی گمشدہ قبر کہاں ہے؟ چالیس راتیں انہوں نے اپنا ذکر جاری رکھا. چالیسویں شب انہوں نے ختم مکمل کرلی اور دعا و توسل بسیار کے بعد آرام کرنے لگے تو آنکھ لگتے ہی عالم خواب میں حضرت امام محمد باقر(ع) يا حضرت امام جعفر صادق (ع) کی زیارت کا شرف حاصل کیا.
امام علیہ السلام نے انہیں فرمایا:
«عَلَيْكَ بِكَرِيمَةِ اَھل ِ الْبَْيت ِ.»
یعنی کریمہ اہل بیت کی زیارت کی پابندی کرو
انہوں نے سوچا کہ گویا امام علیہ السلام حضرت فاطمة الزہراء سلام اللہ کی زیارت کی سفارش کررہی ہیں. چنانچہ عرض کیا:«میں آپ پر قربان جاؤں میں نے ختم کا چلہ اسی لئے کاٹا ہے کہ میں حضرت فاطمة الزہراء سلام اللہ کی قبرکے صحیح مقام کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں.
امام علیہ السلام نے فرمایا: میری مراد حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر شریف ہے». پھر حضرت (ع) نے مزید فرمایا:«بعض مصلحتوں کی بنا پر خداوند متعال نے ارادہ فرمایا ہے کہ حضرت زہرا(س) کی قبر شریف مخفی ہی رہے. اگر مشیت الہی یہ ہوتی کہ سیدہ فاطمة الزہراء سلام اللہ علیہا کی قبر ظاہر ہو، تو خدا کی طرف سے اس کے لئے جو جلال و جبروت مقدر ہوتی وہی جلال و جبروت خدا نے حضرت معصومہ کے لئے مقدر کر رکھی ہے». آیت اللہ مرعشى نجفى جاگ اٹھے تو فورا قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کی غرض سے قم روانہ ہوئے اور اپنے اہل و عیال کے ہمراہ نجف سے قم تشریف لائے.[28]
اسی بنا پر شیعہ فقہاء، دانشور اور علماء کی زبان میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا «کریمہ اہل بیت» کے لقب سے مشہور ہیں.
دیگر القاب :
سیدہ معصومہ (س) کے دو زیارتناموں میں جو اسماء و القاب بیان ہوئے ہیں وہ یہ ہیں:
1- طاہرہ (پاک و پاکیزہ)
2- حمیدہ (جس کی ستائش اور تعریف ہوئی ہے)
3- بِرّہ (نیکوکار)؛
4- رشیدہ (ہدایت یافتہ و عاقلہ)
5- تقَِّیہ (پرہیزگار)
6- رضّیہ (خدا سے راضی)
7- مرضیّہ ((ان سے خدا راضی و خوشنود ہے)
8- سیدہ صدیقہ (بہت زیادہ سچی خاتون)
9- سیدہ رضیّہ مرضّیہ (وہ خاتون جو خدا سے راضی ہیں اور خدا بھی ان سے راضی و خوشنود ہے)
شفاعت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا
بی شک شفاعت کا والاترین اور بالاترین مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مقام ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مقام قرآن مجید میں مقام محمود قراردیا گیا.[29]
اسی طرح خاندان احمد مختار صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں دو خواتین کے لئے وسیع شفاعت مقرر ہے، جو بہت ہی وسیع اور عالمگیر ہے اور پورے اہل محشر بھی ان دو عالی مرتبت خواتین کی شفاعت کے دائرے میں داخل ہوسکتے ہیں بشرطیکہ وہ شفاعت کے لائق ہوں.
یہ دو عالیقدر خواتین صدیقہ طاہرہ، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور شفیعہ روز جزا، حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا ہیں. حضرت ام الحسنین علیہا السلام کے مقام شفاعت جاننے کے لئے یہی جاننا کافی ہے کہ شفاعت آپ (س) کا حق مھر ہے اور جب بحکم آلہی آپ (ع) کا نکاح قطب عالم امکان حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام سے ہورہا تھا، قاصد وحی نے خدا کا بھیجا ہؤا شادی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حوالی کیا. وہ تحفہ ایک ریشمی کپرا تھا جس پر تحریر تھا: «امت محمد (ص) کے گنہگاروں کی شفاعت خداوند عالم نے فاطمہ زہراء (س) کا حق مہر قرار دیا»، یہ حدیث اہل سنت کے منابع میں بھی نقل ہوئی ہے.
سیدہ زہراء سلام اللہ علیہا کی بعد کسی بھی خاتون کو شفیعہ روز محشر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا مقام شفاعت حاصل نہیں ہے. اسی لئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: «جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی جانب کھلتے ہیں، میرے فرزندوں میں سے ایک خاتون – جن کا نام فاطمہ ہے – قم میں رحلت فرمائیں گی جن کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں وارد ہونگے».
حضرت امام رضا (ع) سے حضرت معصومہ (س) کی محبت
عرصہ 25 برس تک حضرت رضا علیہ السلام حضرت نجمہ خاتون سلام اللہ علیہا کی اکلوتی فرزند تھی. اور 25 سال بعد نجمہ خاتون (س) کے دامن مبارک سے ایک ستارہ طلوع ہؤا جس کا نام فاطمہ رکھا گیا. امام علیہ السلام نے اپنے والاترین احساساتِ نورانی اپنی کمسن ہمشیرہ کے دل کی اتہاہ مین ودیعت رکھ لین. یہ دو بھائی بہن حیرت انگیز حد تک ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور ایک دوسرے کا فراق ان کے لئے ناقابل برداشت تھا. زبان ان دو کے درمیان محبت کی گہرائیاں بیان کرنے سے قاصر ہے. امام موسی کاظم علیہ السلام کے ایک معجزے کے دوران – جس میں سیدہ معصومہ (س) کا بھی کردار ہے – جب نصرانی اس کم سن امامزادی سے پوچھتا ہے: «آپ کون ہیں» ؟ تو آپ (س) جواب دیتی ہیں: «میں معصومہ ہوں امام رضا (ع) کی ہمشیرہ».
سیدہ (س) کے اس بیان سے دو چیزوں کا اظہار ہوتا ہے: ایک یہ کہ آپ (ع) اپنے بھائی سے حد درجہ محبت کرتی تھیں. دوسری یہ کہ آپ (س) امام رضا (ع) کو اپنی شناخت کی علامت سمجھتی تھیں اور امام (ع) کی بہن ہونے کو اپنے لئے اعزاز اور باعث فخر سمجھتی تھیں.
خواتین کی سرور
فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا انفرادی اور ذاتی شخصیت و روحانی کمالات کے لحاظ سے امام موسی بن جعفر (ع) کی اولاد میں علی بن موسی الرضا (ع) کے بعد دوسرے درجے پر فائز تھیں. بالفاظ دیگر اپنے بھائی بہنوں میں آپ (س) کا درجہ امام رضا (ع) کے بعد دوسرا تھا. رجالی منابع کے حوالے سے امام موسی بن جعفر علیہ السلام کی 18 بیٹیاں تھیں اور حضرت معصومہ سب کی سرور تھیں یہی نہیں بلکہ بھائیوں میں بھی امام رضا کے بعد کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا.
محدث بزرگوار شیخ عباس قمی (رہ) امام کاظم (ع) کی بیٹیوں کے بارے میں لکھتے ہیں لکھتے ہیں: جو روایات ہم تک پھنچی ہیں ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ان سب سے افضل و برتر سیدہ جلیلہ حضرت فاطمہ بنت امام موسی بن جعفر (ع) ہیں جو معصومہ کے لقب سے مشہور ہوئی ہیں.
بے مثال فضیلت
شیخ محمد تقی تُستری، قاموس الرجال میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا ایک مثالی خاتون (اور خواتین کے لئے اسوہ کاملہ) کے عنوان سے تعارف کراتے ہیں جو امام رضا (ع) کے بعد اپنے بھائیوں اور بہنوں کے درمیان بے مثال تھیں. وہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں: «امام موسی ابن جعفر علیہ السلام کی اولاد کی کثرت کے باوجود امام رضا علیہ السلام کو چھوڑ کر کوئی بھی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے ہم پلہ نہیں ہے.».
بے شک فاطمہ دختر موسی بن جعفر (ع) کے بارے میں اس طرح کے اظہارات ان روایات و احادیث پر استوار ہیں جو ائمہ معصومین علیہم السلام سے آپ (ع) کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں. یہ روایات سیدہ معصومہ (س) کے لئے ایسے مراتب و مدارج بیان کرتے ہیں جو آپ (س) کے دیگر بھائیوں اور بہنوں کے لئے بیان نہیں ہوئے ہیں. اور اس طرح فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا نام دنیا کی برتر خواتین کے زمرے میں قرار پایا ہے.
بوئے وصال
بے شک اہل بیت رسول (ص) نے نہایت روشن چہرے عالم بشریت کے حوالے کئے ہیں جن کے نام درخشان ستاروں کی مانند فضیلتوں کے آسمان پر چمک رہے ہیں. ولایت کے ساتویں منظومے کی بزرگ خواتین کے درمیان فاطمہ بنت موسی بن جعفر (ع) درخشان ترین ستارہ ہیں؛ ایسی خاتون جن کی حریم سے علم و معرفت کے پیاسے ایمان کا آب حیات نوش کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے. عرفاء آپ کی زندگی کا تجزیہ کرکے، آپ کے ان لمحوں کا سراغ لگاتے ہیں جب آپ (س) آسمانی وجود میں تبدیل ہوئی تھیں اور اس طرح وہ اپنے لئے عروج عارفانہ کی راہیں ڈھونڈتے ہیں اور کائنات کی وسعتوں میں شمیم وصال پہیلادیتے ہیں۔
پیغام کے دو نکتے
1 – اتنا بڑا مقام کیوں ؟
پوچھتے ہیں اتنا اونچا مقام کیوں؟ جبکہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی کئی بہنیں تھیں یہ سیدہ ان سے برتر و افضل کیوں تھیں؟
جواب: یہ سوال حضرت زہرا سلام علیہا کے بارے میں بھی پوچھا جاتا ہے؛ اور جواب یہ ہے کہ: یہ دو خواتین ذاتی اور خاندانی شرافت کے ساتھ ساتھ، ایمان اور عمل کے میدان میں بھی ممتاز تھیں اور اس سلسلے میں انہوں نے اپنے انتخاب سے اعلی انسانی اقدار کے اعلی مدارج و مراتب طے کئے تھے اور اپنے عرفان و عمل کی بنا پر اس مقام و منزلت تک عروج کرچکی تھیں.
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عمل، عرفان، ایمان، سیاست، اور مقام امامت کی حمایت کے سلسلے میں ممتاز تھیں اور آخرکار اسی راستے میں مرتبت شہادت حاصل کرگئیں.
سیدہ معصومہ نے قم میں اپنی سترہ دن عبادت اور خداوند قدوس کے ساتھ راز و نیاز میں گذاردئے؛ یہاں تک کہ آپ کی قیامگاہ کو «بیت النور»، کا نام دیا گیاہے اور یہ عبادتگاہ اس وقت قم کے میدان میر کے محلے اور مدرسہ ستّیہ میں واقع ہے اور آج بھی یہ مقام آپ (س) کی نورانیت اور اپنے خالق یکتا کے ساتھ آپ(س) کی قربت کے خلوص کی گواہی دے رہا ہے.
«حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی اٹھائیس سالہ پر برکت زندگی کی ثمر بخشی کے اثبات کے لئے یہی جاننا کافی ہے کہ قم میں آپ(س) کے سترہ روزہ قیام نے قم کے حوزہ علمیہ کو بقائے جاودانہ بخشی اور قم نے آپ ہی کی برکت سے دسیوں ہزار محقق، عالم، دانشور، مراجع اور مجتہدین عالم تشیع کی حوالے کردیئے. اکابر علماء جیسے امام رضا (ع) کے صحابی زکریّا بن آدم اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے وکیل حسن بن اسحاق سے لے کر علمائے مفکر اور مراجع تقلید – جیسے میرزائے قمی، آیت اللہ شیخ ابوالقاسم قمی، آیة اللہ حائری، آیة اللہ صدر، آیة اللہ سید محمد تقی خوانساری، آیة اللہ حجّت، آیة اللہ بروجردی، آیة اللہ سید احمد خوانساری، آیة اللہ گلپایگانی، آیة اللہ مرعشی نجفی، آیة اللہ اراکی، علامہ طباطبایی، استاد شہید مرتضی مطہری و حضرت امام خمینی (اعلی اللہ مقامہم الشّریف) – تک سب کے سب عالم عالمۂ آل عبا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے وجود کی برکت سے اس سرزمین پر نشو و نما پاچکے ہیں اور بی بی ہی کے وجود نے حوزہ علمیہ کو مرکزیت و محوریت عطا فرمائی ہے اور قم نے آپ ہی کی برکت سے مدینہ فاضلہ کی حیثیت اختیار کی ہوئی ہے … اسلامی انقلاب در حقیقت اسی سرزمین کا فرزند مطہر ہے وہی جو فیضیہ کی آغوش میں پلا اور بڑھا وہی فیضیہ جس کو مجاورت معصومہ نے فیض بخشا. بت شکن دوران امام خمینی نے اسی مدرسے میں بیٹھ کر عالمی استکبار و استعمار کو للکارا اور یہیں سے اسلامی انقلاب کی شمع جلائی جس نے آج دنیا کے گوشے گوشے میں روشنی کے چرا غ جلائے ہیں اور قوموں کو آج ان دشمنوں کے چہرے نظر آنے لگے ہیں جو ہمیشہ اقوام کو اندہیرے میں بلاکر ان کا استحصال کرتے ہیں. آج انقلاب اسلامی کے چراغ ان کی رسوائی کا سبب بنے ہوئے ہیں اور اسی بنا پر استکبار عالمی کو یہ چراغ ایک آنکھ بھی نہیں بھاتے اور وہ اس کا منبع خشک کرنے کے درپے ہیں. ان کا خیال تھا کہ امام خمینی کی رحلت کے بعد یہ انسانیت ک آفاق پر روشن ہونے والا اسلامی انقلاب کا یہ چراغ بجھ جائے گا مگر پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا([30]) چنانچہ سفینہ انقلاب کو نئے امیر کے حوالے کیا گیا اور استکبار کی نیندیں حرام ہوگئیں کیونکہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدّظلہ العالی سفینہ انقلاب کو دنیا کی وسعتوں میں آگے کی طرف ہدایت کررہے ہیں اور استکباری منصوبے اب اس کا راستہ روکنے سے عاجز آگئے ہیں. آیة اللہ العظمی خامنہ ای، بھی اسی حوزہ قم کے شاگرد ہیں جو اس انقلاب مبارک کی حفاظت فرمارہے ہیں اور ہزاروں رکاوتوں، سازشوں، عداوتوں، دوستوں کی حماقتوں اور دشمنوں کی شرارتوں کے بیچ سے ہوتے ہوئے اس کاروان کی ہدایت فرما رہے ہیں.
خداوند عالم، انبیاء عظام، ائمہ طاہرین، اولیاء الہی، حقیقی مجاہدین اور سُکّان ارض و سماء کا سلام و درود ہو اس سیدہ کریمہ اہل بیت (ع) پر اس بزرگ خاتون پر، جس کاچشمہ فیض دائما جاری ہے اور جس کا سرچشمہ نور ہر وقت دنیا کی تاریکیوں میں امید ہدایت کی روشن نقاط اجاگر کرتا ہے. درود و سلام ہو اس کوثرِ ولایت پر.
مختصر یہ کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایمان اور عمل انسان کو مقامات عالیہ اور مراتب و مدارج رفیعہ کے معراج تک پھنچاتا ہے امام (ع) فرماتے ہیں:«فو اللہ ماشیعتنا الاّ من اتّقی اللہ و اطاعہ؛ خدا کی قسم وہ شخص ہمارے شیعوں میں سے نہیں ہے جو متقی و پرہیزگار نہ ہو اور جو خدا کی اطاعت نہ کرتا ہو.
نیز امام پنجم (ع) نے فرمایا: لا تنال ولایتنا الا بالعمل و والورع؛ ہماری دوستی اور ولایت تک پھنچنا نیک عملی اور پرہیزگاری کے سوا ممکن نہیں ہے.
حضرت معصومہ علیہا السلام سے منقول روایتیں
1- عَنْ فَاطِمَةُ بِنْتَ موسَى بْن جَعْفَر (ع) عن فاطمة بنت جعفر الصادق(ع) عن فاطمة بنت محمد الباقر (ع) عن فاطمة بنت علی زین العابدین (ع) عن فاطمة بنت الحسین (ع) عن زینب بنت امیرالمؤمنین (ع) عَنْ فَاطِمَةَ بِنْت ِرَسُول ِاللّهِ صَلَّى اللّه علیہ ِوَ آلہ وِ سَلَّمَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللّهِ علیہ ِوَ آلہ ِوَ سَلَّمَ : «ألا مَنْ ماتَ عَلى حُبِّ آل ِمُحَمَّد ماتَ شَهِیداً.
حضرت فاطمہ معصومہ علیہا السلام فاطمہ بنت امام جعفر صادق علیہ السلام سے وہ فاطمہ بنت امام باقر علیہ السلام سے وہ فاطمہ بنت امام سجاد علیہ السلام سے وہ فاطمہ بنت امام حسین علیہ السلام سے وہ زینب بنت امیر الموٴمنین علیہ السلام وہ فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہاسے نقل فرماتی ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فر مایا : آگاہ ہو جاوٴ کہ جو آل محمد کی محبت پر مرے گا وہ شہید مرا ہے۔([31])
2- حضرت علی علیہ السلام اور ان کے شیعوں کی قدر و منزلت
فاطمہ معصومہ علیہا السلام (اسی مذکورہ سند سے ) فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے نقل فرماتی ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا : جب شب معراج، میں بہشت میں داخل ہوا تو ایک قصر دیکھا جس کا ایک دروازہ یاقوت اور موتیوں سے آراستہ تھا اس کے دروازے پر ایک پردہ آویزاں تھا میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا: «لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی القوم =خدا کے علاوہ کوئی لائق پرستش نہیں محمد اللہ کے رسول اور علی لوگوں کے رہبر ہیں». اور اس کے پردے پر لکھا تھا بخ بخ من مثل شیعۃ علی خوشابحال خاشابحال علی علیہ السلام کے شیعوں جیسا کون ہے؟ میں اس قصر میں داخل ہو وہاں ایک عمارت دیکھی جو عقیق سرخ سے بنی ہوئی تھی اس کا دروازہ چاندی کا تھا جو زبرجد سے مرصع تھا اس در پر بھی ایک پردہ آویزاں تھا میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا: «محمد رسول اللہ علی وصی المصطفیٰ = محمد خدا کے رسول اور علی مصطفیٰ کے وصی ہیں». اس کے پردے پر مرقوم تھا: «بشر بشیعۃ علی بطیب المولد = علی شیعوں کو حلال زادہ ہونے کی مبارک باد دیدو». میں داخل ہوا تو وہاں زبرجد سے بنا ہوا ایک محل دیکھا جس سے بہتر میں نے نہیں دیکھا تھا اس محل کا دروازہ سرخ یاقوت کا تھا جو موتیوں سے مزین تھا اس پر ایک پردہ لٹکا تھا میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ پردے پر لکھا ہے: «شیعۃ علی ہم الفائزون = علی کے شیعہ ہی کامیاب ہیں». میں نے جبرئیل سے سوال کیا کہ یہ محل کس کا ہے جبرئیل نے کہا آپ کے چچا زاد بھائی، وصی و جانشین حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کا ہے قیامت کے دن سب بجز علی کے شیعوں کے ننگے پاوٴں وارد ہونگے۔[32]
3- من اصعد الی الله خالص عبادته اهبط الله عزوجل الیه افضل مصلحته
حضرت معصومہ (س) روایت کرتی ہیں کہ حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ (ص) نے فرمایا: جو شخص اپنی خالص عبادت اللہ تعالی کی بارگاہ میں بھیجے گا خدا اپنی بہترین مصلحتیں اس کی جانب اتارے گا. ([33])
حدیث غدیر و منزلت
4- عن فاطمۃ بنت علی بن موسی الرضا حدثتنی فاطمہ و زینب و ام کلثوم بنات موسی بن جعفر علیہ السلام قلن حدثتنا فاطمۃ بنت جعفر بن محمد الصادق ، حدثتنی فاطمۃ بنت محمد بن علی ، حدثتنی فاطمۃ بنت علی بن الحسین ، حدثتنی فاطمۃ و سکینۃ ابنتا الحسین بن علی عن ام کلثوم بنت فاطمۃ بنت النبی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم عن فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ قالت :«انسیتم قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم یوم غدیر خم : من کنت مولاہ فعلی مولاہ و قولہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ».[34]
ترجمہ : فاطمہ بنت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام،امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹیوں فاطمہ زینب اور ام کلثوم (سلام اللہ علیہن) سے نقل فرماتی ہیں کہ انہوں نے فاطمہ بنت جعفر صادق (ع) سے اور انہوں نے فاطمہ بنت محمد بن علی(ع) سے، انہوں نے فاطمہ بنت علی بن الحسین(ع)، فاطمه بنت زین العابدین (ع) نے فاطمه اور سکینه بنت الحسین (ع) سے انہوں نے ام کلثوم دختر فاطمہ بنت رسول الله (ص) سے نقل فرمایا ہے کہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ان لوگون سے دریافت کیا: کیا تم غدیر خم کے دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ” من کنت مولاہ فعلی مولاہ (=جس کا میں مولا ہوں پس اس کے علی مولا ہیں،) اور آپ (ص) کا قول انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ (=اے علی تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے کہ جو ہارون کو موسیٰ سے تھی) بهول گئے؟
________________________________________
حوالہ جات:
[1] – دلائل الامامہ ص/ ۳۰۹ ۔
[3] – وسیلہ المعصومہ بنقل نزھۃ الابرار ۔
[4] – مستدرک سفینۃ البحار ج/ ۸ ص/ ۲۵۷ ۔
[5] – سفينه البحار 2/376؛ تاريخ قم /7.
[6] – بحارالانوار ج ٦٠ صفحه ٢١٦
[7] – زندگانی حضرت معصومہ / آقائے منصوری : ص/ ۱۴، بنقل از ریاض الانساب تالیف ملک الکتاب شیرازی ۔
[8] – وسیلۃ المعصومیہ : میرزا ابو طالب بیوک ص/ ۶۸، الحیا ة السیاسبۃ للامام الرضا علیہ السلام: جعفر مرتضیٰ عاملی ص/ ۴۲۸، قیام سادات علوی : علی اکبر تشید ص / ۱۶۸۔
[9] – دریائے سخن تاٴلیف سقازادہ تبریزی : ص/۱۲، بنقل از ودیعہ آل محمد صل اللہ علیہ و آلہ/ آقائے انصاری ۔
[10] – تاریخ قدیم قم ص/ ۲۱۳ ۔
[11] – خطبہ حضرت در شام
[12] – تاریخ قدیم قم ص / ۲۱۴ ۔
[13] – سفینۃ البحار ج/ ۲، ص / ۳۷۶ ۔
[14] – ثواب الأعمال و عيون اخبار الرضا(ع). عوالم العلوم، ج ٢١، ص ٣٥٣ بحوالۂ اسنى المطالب ص ٤٩ تا ص ٥١.
[15] – بحار ج ٤٨ صفحه ٣٠٧.
[16] – عیون اخبارالرضا (ع).
[17] – كامل الزيارة
[18] – زبدة التصانيف، ج ٦، ص ١٥٩، بحوالۂ كريمۂ اہل بيت، ص ٣.
[19] – کامل الزیارات ص۱۱.
[20] – بحار الانوار ج ۱۰۱، ص ۴۲.
[21] – بحار الانوار ج ۱۰۱، ص ۴۳۔
[22] – بحار الانوار ج ۱۰۲، ص۳۳.
[23] – بحار الانوار ج ۱۰۲، ص۲۶۵.
[24] – بحار الانوار ج /۱۰۲، ص ۲۶۶.
[25] – ناسخ التواريخ، ج ٣، ص ٦٨، بحوالۂ کتاب ” كريمۂ اہل بيت”، ص ٣٢.
[26] – مستدرک الوسائل ج/ ۲، ص / ۲۹۸ ۶
[27] – مصباح الشریعۃ باب ۱۰۰
[28] – كريمه اهل بيت، ص٤٣، با تلخيص و تصرّف
[29] – وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا = اور رات کے ایک حصے میں نیند سے اٹهیں اور قرآن (اور نماز) پڑهیں. یہ آپ کے لئے ایک اضافی فریضہ ہے؛ امید رکهیں کہ خدا آپ کو مقام محمود (قابل ستائش و قابل تعریف مقام) عطا فرماکر محشور و مبعوث کرے.(سوره اسراء آیت 79)
[30] – خداوند متعال کا ارشاد گرامی ہے : یُرِيدُونَ أَن يُطْفِؤُواْ نُورَ اللّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللّهُ إِلاَّ أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ = وہ اپنے منہ سے خدا کا نور بجھانا چاہتے ہیں لیکن خداوند متعال اپنا نور مکمل کرنے کے سوا کچھ نہیں چاہتا خواہ کفار اکمال و اتمام نور کو ناپسند ہی کیوں نہ کریں!۔ (سوره توبہ آیت 32)
يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ = وہ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ سے خاموش کرنا چاہتے ہیں مگر خداوند اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے خواہ کافرین کے لئے ناپسند ہی کیوں نہ ہو!. (سورہ صف آیت 8)
[31] – ۔آثار الحجۃ محمد رازی ص / ۹ ، نقل از اللولؤ الثمینہ ص / ۲۱۷۔
[32] – بحار ج / ۶۸ ، ص / ۷۶ ۔
[33] – بحار الانوار، ج 70، ص 249. ( عدّة الدّاعی ( ص 218 ) ؛ بحارالانوار (ج 67 ، ص 249 ) ؛
میزان الحکمة ( ج 2 ، ص 882 )؛ تفسیر الامام العسکری ( ص 327 ) .
[34] – الغدیر ج / ۱ ، ص ۱۹۶ ۔