حضرت فاطمہ(س) کا گھر مسجد النبی سے متصل امام علیؑ اور حضرت فاطمہ(س) کا محل سکونت تھا۔ یہ اس گھر کی فضیلت تھی کہ خدا نے سَدُّ الاَبواب کے واقعے میں مسجد النبی سے متصل تمام دروازوں کو بند کرنے‌ اور صرف حضرت زہرا(س) کے دروازے کے کھلا رہنے کا حکم دیا۔

امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضرت زہراء(س) کے گھر میں نماز پڑھنا روضۃ‌ النبی میں نماز پڑھنے سے زیادہ فضیلت کا حامل ہے، بنی‌ امیہ کے دور حکومت میں مسجد النبی کی توسیع کے دوران حضرت زہراء(س) کے گھر کو تخریب کر کے پیغمبر اکرمؐ کے حجرے کے ساتھ ضریح میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اکثر شیعہ علماء اسی گھر کو حضرت فاطمہ کا محل دفن قرار دیتے ہیں۔

سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعے کے بعد امام علیؑ نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اسی گھر میں احتجاج کیا۔ ابوبکر کے بعض کارندوں نے امام علیؑ سے بیعت لینے کے لئے اس گھر پر حملہ کیا۔ حضرت فاطمہ(س) کے گھر پر ہجوم کے واقعے میں آپ(س) زخمی ہوئیں اور شیعوں کے مطابق یہی صدمات حضرت فاطمہ کی شہادت کا سبب بنے۔ بعض علماء اس بات کے قائل ہیں کہ ابوبکر کے دور خلافت میں حضرت زہراء(س) کے جس گھر پر حملہ کیا گیا تھا وہ مسجد النبی سے متصل گھر نہیں تھا بلکہ جس گھر پر ہجوم لایا گیا تھا وہ قبرستان بقیع میں واقع تھا۔

فضیلت اور مسلمانوں‌ کے یہاں اس کا مقام
حضرت فاطمہ(س) کا دولت سرا جہاں مدینہ میں آپ(س) سکونت اختیار کرتی تھیں، شیعہ اور اہل سنت تاریخی اور حدیث منابع میں اس گھر کی فضلیت[1] اور ابوبکر کے دور خلافت میں حضرت زہراء کے گھر پر حملے کے واقعے[2] کا تذکرہ ملتا ہے۔ اسی طرح بعض شیعہ علماء اس مقام کو حضرت فاطمہ کا محل دفن بھی قرار دیتے ہیں۔[3]

حضرت فاطمہ کا گھر آپ کے فرزندوں[4] اور ایک حدیث کے مطابق امام سجادؑ[5] کی جائ پیدائش ہے۔ کتاب الکافی میں امام صادقؑ سے نقل ہونے والی ایک حدیث حضرت فاطمہ(س) کے گھر میں نمازپڑھنے کو روضہ پیغمبر میں نماز پڑھنے سے زیادہ با فضیلت قرار دیا گیا ہے۔[6] اسی طرح امام جوادؑ کے بارے میں آیا ہے کہ آپ ہر روز حضرت فاطمہ(س) کے دولت سرا میں نماز پڑھتے تھے۔[7]

ایران کے بعض شہروں میں ایام فاطمیہ کے دوران کوچہ‌ ہای مادری(مامتا کی گلیاں) کے عنوان سے نمائش لگتی ہے جس میں محلہ بنی‌ ہاشم اور حضرت فاطمہ(س) کے گھر کی عکاسی کی جاتی ہے۔[8]

رسول خداؐ کی درخواست پر حضرت فاطمہ(س) کے گھر کی منتقلی
تیسری صدی ہجری کے مورخ ابن سعد نے امام باقرؑ سے نقل کیا ہے کہ امام علیؑ نے حضرت فاطمہ کے ساتھ شادی کے بعد آپ کے لئے پیغمبر اکرمؐ کے دولت سرا سے کچھ فاصلے پر گھر مہیا کیا تھا۔ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا میری بیٹی اپنے والد کے گھر کے نزدیک رہنا چاہتی ہیں۔ حضرت فاطمہ(س) نے پیغمبر اکرمؐ سے درخواست کی کہ آپؐ حارثہ بن نُعمان سے بات کریں تاکہ ہم ان کے گھر میں جو کہ پیغمبر اکرمؐ کے گھر کے نزدیک تھا، منتقل ہو سکیں۔[9] حارثہ نے اس سے پہلے اپنے گھر کے کچھ حجروں کو پیغمبر اکرمؐ کے لئے دے دیا تھا تاکہ آپ اپنی زوجات کے ساتھ یہاں زندگی گزاریں۔[10] اس بنا پر پیغمبر اکرمؐ فرمایا مجھے حاریۃ بن نعمان سے یہ بات کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی‌ ہے۔ حارثہ کو اس واقعے کی اطلاع مل جاتی ہے جس پر انہوں نے اپنے گھر کو پیغمبر اکرمؐ کے لئے بخش دیا اور کہا کہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے ان کے گھر کو قبول کرنا ان کے نزدیک قبول نہ‌ کرنے سے زیادہ پسندیده ہے۔[11]

بعض شیعہ منابع کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ سے فرمایا کہ کوئی ڈھونڈ لو تاکہ‌شادی کے بعد اس میں منتقل ہو سکیں، حضرت علیؑ نے کہا آپؐ کے گھر کے نزدیک سوائے حارثۃ بن نعمان کے گھر کے کوئی اور گھر نہیں ہے۔ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا حارثہ نے پہلے ہی اپنے گھر کا کچھ حصہ میرے لئے بخش دیا ہے اس بنا پر مجھے شرم آتی ہے ان سے دوبارہ‌ گھر کے حوالے سے بات کرنے سے۔ حارثہ کو واقعے کی اطلاع ملی تو وہ خود پیغمبر اکرمؐ کے پاس آ کر اپنا گھر پیغمبر اکرمؐ کے لئے بخش دیا۔ یوں حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہ(س) حارثہ بن نعمان کے گھر میں منتقل ہو گئے۔[12]

واحد گھر جس کا دروازہ‌ مسجد میں کھلتا ہے
تفصیلی مضمون: سد الابواب
حضرت فاطمہ کا گھر مسجد النبی کی مشرقی جانب پیغمبر اکرمؐ کے حجروں کے درمیان میں واقع تھا۔[13] اس گھر کے دو دروازے تھے: ایک مسجد النبوی میں کھلتا تھا اور دوسرا مسجد سے باہر۔[14] سَدُّ الاَبواب کے واقعے میں پیغمبر اکرمؐ نے خدا کے حکم سے مسجد‌ النبی میں کھلنے والے تمام دروازوں کو بند کروا دیا سوائے حضرت فاطمہ کے گھر کے دروازے کے۔[15] اس بنا پر سَدُّ الابواب کا واقعہ امام علیؐ کی انحصاری فضائل میں شمار ہوتا ہے۔[16]

مسجد النبی میں حضرت فاطمہ(س) کے گھر کا محل وقوع
حضرت فاطمہ(س) کا گھر پیغمبر اکرمؐ کے حجرے (حجرہ عایشہ) کے پیچھے واقع تھا۔[17] ان دو گھروں کے درمیان ایک روشندان تھا[18] جہاں سے پیغمبر اکرمؐ اپنی بیٹی کا حال و احوال دریافت کیا کرتے تھے۔[19] ایک رات حضرت فاطمہ(س) اور پیغمبر اکرمؐ کی زوجہ عایشہ کے درمیان اتفاق جھگڑا ہوا جس سے حضرت فاطمہ(س) ناراض ہو گئیں اس کے بعد حضرت فاطمہ(س) کی درخواست پر پیغمبر اکرمؐ نے اس روشندان کو بند کروا دیا۔[20]

حضرت فاطمہ(س) کے گھر پر حملہ
تفصیلی مضمون: حضرت فاطمہ(س) کے گھر پر حملہ
شیعہ اور اہل سنت منابع کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی رحلت اور سقیفہ کے واقعے کے بعد ابوبکر کے بعض حامیوں نے حضرت فاطمہ(س) کے گھر پر حملہ کیا تاکہ امام علیؑ سمیت بعض دیگر افرادی کو جو ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کرتے ہوئے حضرت فاطمہ(س) کے گھر میں احتجاج کر رہے تھے، کو بیعت کے لئے لے جا سکیں۔[21] شیعہ منابع کے مطابق اس واقعے میں حضرت فاطمہ(س) کے گھر کے درواازے کو آگ لگا دی گئی،[22]اسی طرح اس حملے کے نتیجے میں حضرت فاطمہ(س) پر وارد ہونے والے صدمات کی وجہ سے آپ کے شکم میں موجود بچہ (محسن بن علی) سِقط ہو گئے[23] اور حضرت فاطمہ(س) کچھ عرصے بعد انہی صدمات کی وجہ سے شہید ہو گئیں۔[24]

ہجوم کس گھر پر لایا گیا تھا؟
شیعہ محقق تاریخ جعفر مرتضی عاملی (متوفی: 1441ھ) کے مطابق حضرت فاطمہ(س) کے گھر پر حملہ کرنے کا واقعہ اسی گھر میں رونما ہوا ہے جس گھر میں سد الابواب کا واقعہ رونما ہوا تھا۔[25] لیکن بعض مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ جس گھر میں سد الابواب کا واقعہ پیش آیا تھا اس پر حملہ نہیں ہوا بلکہ جس گھر پر حملہ ہوا تھا وہ مسجد النبی سے دور واقع تھا[26] تاریخ حرم ائمہ بقیع نامی کتاب کے مصنف محمدصادق نجمی (متوفی: 1390) کے مطابق بعض تاریخی منابع میں اس نظریے کی تائید ملتی ہے۔ من جملہ یہ کہ جب حضرت علیؑ کو ابوبکر کی بیعت کے لئے لے جایا جا رہے تھے تو لوگ مدینے کی گلیوں میں اس واقعے کو دیکھ رہے تھے۔[27] یہ مطلب احمد بن عبد العزیز جوہری بصری (متوفی: 323ھ) کی کتاب السقیفہ و فدک آیا ہے۔[28] اس طرح کہا جاتا ہے کہ یہ گھر مسجد النبی کی مشرقی جانب جنت البقیع کے پیچھے ابوایوب انصاری کے گھر کے ساتھ واقع تھا جو صحن، سٹور، کئی کمروں اور لکڑی کے بڑے دروازے پر مشتمل تھا۔[29]

اہل سنت مدنیہ شناس سَمْہودی (متوفی911ھ) نے بھی امام علیؑ کے ایک اور گھر کی طرف اشارہ کیا ہے جو قبرستان بقیع کی طرف واقع تھا۔[30] تیسری صدی ہجری کی تاریخی کتاب الطبقات الکبری میں بھی قبرستان بقیع میں واقع امام علیؑ کے گھر کا تذکرہ کیا ہے۔[31] البتہ بعض اس گھر کو وہی گھر قررا دیتے ہیں جسے حارثۃ بن نُعمان نے حضرت فاطمہ(س) کی سکونت کے لئے بخش دیا تھا۔[32]

آیا حضرت فاطمہ(س) اپنے گھر میں دفن ہوئی تھیں؟
تفصیلی مضمون: محل دفن حضرت فاطمہ(س)
شیعہ علماء کے مطابق حضرت فاطمہ کا محل دفن یقینی طور پر معلوم نہیں ہے۔[33] اس کے باوجود بعض شیعہ علماء آپ(س) کے محل دفن کے بارے میں مختلف احتمالات مطرح کرتے ہیں۔ اسماعیل انصاری زنجانی اپنی الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء میں اس بات کے معتقد ہیں کہ اکثر شیعہ علماء نے یہ‌احتمال دیا ہے کہ حضرت فاطمہ(س) اپنے گھر میں دفن ہوئی تھیں۔[34] اسی طرح آیت‌ اللہ مکارم شیرازی نے حضرت زہرا(س) کے دفن کے وقت حضرت علیؑ سے منقول کلمات میں “النَّازِلَۃِ فِي جِوَارِكَ؛ آپ کے جوار میں آ گئی ہیں” کی عبارت کو ان افراد کے نظریے کی تائید قرار دیتے ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت فاطمہ(س) اپنے گھر میں دفن ہوئی تھیں۔[35] شیخ صدوق بھی اس بات کے معتقد تھے کہ حضرت فاطمہ(س) اسی مقام پر دفن ہوئی ہیں۔[36]

مسجد نبوی کی توسیع میں اس گھر کا ضریح پیغمبر میں شامل ہونا
حضرت فاطمہ(س) کا گھر عبد الملک بن مروان (حکومت: 65سے 86ھ)[37] یا ولید بن عبد الملک (حکومت: 86 سے 96ھ)[38] کے دور حکومت میں مسجد نبوی کے توسیعی منصوبے کے زد میں آ کر گرا دیا گیا۔ یہ حجرہ پیغمبر اکرمؐ کے حجرے کے ساتھ جہاں آپؐ دفن ہیں، ایک ضریح میں قرار دیا گیا ہے۔[39] یہ ضریح 1397ھ میں چچنیا کے صدر کے لئے کھول دیا گیا تھا۔[40]

…………………………………………………………

حوالہ جات :

  1. نمونہ‌کے لئے ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج‏1، ص493، ج4، ص556۔
  2. مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1384ہجری شمسی، ج1، ص146۔
  3. شیخ صدوھ، من لا يحضرہ الفقيہ‏، 1413ھ، ج2، ص572۔
  4. طبسی، «گزارشی از خانہ زہرا علیہا السلام»، سایت حوزہ۔
  5. طبری آملی، دلائل الإمامۃ، 1413ھ، ص191۔
  6. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص556۔
  7. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج‏1، ص493۔
  8. «روایتی از «کوچہ‌ہای مادری»، خبرگزاری جمہوری اسلامی۔
  9. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج‏8، ص132۔
  10. عاملی، الصحیح من سیرۃ الإمام علیؑ، 2009م، ج3، ص132-133۔
  11. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج‏8، ص132۔
  12. طبرسی، إعلام الوری بأعلام الہدی، 1390ھ، ص71؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج19، ص113۔
  13. طبسی، «گزارشی از خانہ زہرا علیہا السلام»، سایت حوزہ۔
  14. قائدان، درسنامہ اماکن مذہبی مکہ مکرمہ و مدینہ، 1390ہجری شمسی، ص177۔
  15. ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ھ، ج7، ص342۔
  16. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، ج3، ص125۔
  17. قائدان، درسنامہ اماکن مذہبی مکہ مکرمہ و مدینہ، 1390ہجری شمسی، ص177۔
  18. الصغیر، الامام علی علیہ السلام سیرتہ وقیادتہ فی ضوء المنہج التحلیلی، 2002ء۔ ج1، ص31۔
  19. سمہودی، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی، 2006م، ج2، ص57۔
  20. صبری باشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب، 2004م، ج3، ص262۔
  21. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ھ، ج‏3، ص202۔
  22. سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس، 1420ھ، ج1، ص150۔
  23. مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1384ہجری شمسی، ص146۔
  24. طبری، دلائل الامامہ، 1413ھ، ص134۔
  25. عاملی، مأساۃ الزہراءؑ، 1418ھ، ج1، ص177۔
  26. موسوی، «پاسخ بہ شبہات تاریخی آتش زدن خانہ وحی در آیینہ‌ی تاریخ و روایات فریقین»، ص 140- 141۔
  27. نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، 1386ہجری شمسی، ص163-166۔
  28. جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، تہران، ص72۔
  29. اللہ‌اکبری، «خانہ حضرت فاطمہ(س) کجا بودہ است؟»، شیعہ‌نیوز
  30. سمہودی، وفاء الوفاء، 2006م، ج2، ص59۔
  31. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج4، ص40۔
  32. ملاحظہ کریں: قزوینی، فاطمۃ الزہراءؑ من المہد الی اللحد، 2006م، ج1، ص157۔
  33. عاملی، مأساۃ الزہراؑ، 1418ھ، ج1، ص252 و 253۔
  34. انصاری زنجانی، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء، 1428ھ، ج16، ص113۔
  35. مکارم شیرازی، پیام امام اميرالمؤمنين، 1386ہجری شمسی، ج8، ص32۔
  36. شیخ صدوھ، من لا يحضرہ الفقيہ‏، 1413ھ، ج2، ص572۔
  37. ابن‌شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، 1379ھ، ج2، ص211۔
  38. سمہودی، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی، 2006م، ج2، ص89۔
  39. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1387ہجری شمسی، ص 295۔
  40. «تصاویری از گشودن درب خانہ حضرت زہرا (س) برای اولین بار»، خبرگزاری مہر۔
Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے