خوشبوئے حیات حضرت امام حسن ع
آپ رسول اسلام ۖکے فرزند اور اُن کے پھول ہیں،آپ حلم ،صبر،جود اور سخاوت میں رسول ۖ کے مشابہ تھے ،نبی اکر م ۖ آپ سے خالص محبت کرتے تھے ،آپ کی محبت مسلمانوں کے درمیان مشہور تھی ،آنحضرت ۖنے اپنے نزدیک امام حسن علیہ السلام کی عظیم شان و منزلت کے سلسلہ میں متعدد احادیث بیان فرما ئی ہیں جن میں سے کچھ احا دیث یوں ہیں :
١۔عائشہ سے روایت ہے :آنحضرت ۖ نے امام حسن کو آغوش میں لیا اور ان کو اپنے سینہ سے چمٹاتے ہوئے فرمایا:خدایا !یہ میرا فرزند ہے ،میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جو اس سے محبت کرے اس سے محبت کرتا ہوں ”۔(کنزالعمال، جلد ٧،صفحہ ١٠٤۔مجمع الزوائد، جلد ٩،صفحہ ١٧٦)
٢۔براء بن عازب سے مروی ہے :میں نے رسول اسلام ۖ کو دیکھا کہ آپ اپنے کندھوں پر امام حسن اور امام حسین کو سوار کئے ہوئے فرما رہے ہیں :خدایا میں ان سے محبت کرتا ہوں اور تو بھی ان سے محبت کر ”۔ (صحیح بخاری باب ،مناقب حسن اور حسین جلد ٣،صفحہ ١٣٧٠،طبع دار ابن کثیر ، دمشق۔صحیح الترمذی ،جلد ٢،صفحہ ٢٠٧۔البدایہ والنھایہ ،جلد ٨،صفحہ ٣٤)
٣۔ابن عباس سے روایت ہے :سرور کائنات امام حسن کو اپنے کندھے پر سوار کئے ہوئے کہیں لے جا رہے تھے ،ایک شخص نے کہا :اے صاحبزادے !تمہاری سواری کتنی اچھی ہے ؟رسول اسلام ۖ نے فرمایا:”سوار کتنا اچھا ہے” ۔ (صواعق محرقہ، صفحہ ٨٢،حلیة الاولیاء ،جلد ٢،صفحہ ٣٥)
٤۔رسول اللہ ۖ سے روایت ہے :”جو جوانان جنت کے سرداروں کو دیکھنا چا ہتا ہے وہ امام حسن پر نظر کرے ”۔ (الاستیعاب، جلد ٢،صفحہ ٣٦٩)
٥۔رسول اسلام ۖ کا فرمان ہے :”حسن دنیا میں میرے پھول ہیں” ۔(البدایہ والنہایہ ،جلد ٨،صفحہ ٣٥۔فضائل اصحاب ،صفحہ ١٦٥)
٦۔انس بن مالک سے مروی ہے :”امام حسن نبی کی خدمت میں آئے میں نے ان کو رسول سے دور رکھنے کی کو شش کی تو رسول اسلام ۖ نے فرمایا:اے انس وائے ہو تم پر ،میرے فرزند ارجمند اور میرے جگر کو چھوڑ دو،بیشک جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی ”۔(کنز العمال، جلد ٦،صفحہ ٢٢٢)
٧۔حضرت رسول اکرم ۖ نماز عشاء میں مشغول تھے تو آپ ۖ نے ایک سجدہ کو بہت طول دیا جب آپ ۖ نے سلام پھیرا تو لوگوں نے آپ اس سلسلہ میں سوال کیا تو آنحضرت ۖ نے فرمایا:”یہ (حسن ) میرا فرزند ہے جو میری پشت پر سوار ہوگیا تھا اور میں نے اس کو اپنی پشت سے جلدی اتارنے میں کراہت محسوس کی” ۔(البدایہ والنہایہ ، جلد ٨،صفحہ ٣٣)
٨۔عبداللہ بن عبد الرحمن بن زبیر سے روایت ہے : امام حسن نبی کے اہل میں سب سے زیادہ زیادہ آنحضرت ۖسے مشابہ تھے ،اور وہ امام حسن سے سب سے زیادہ محبت کر تے تھے ،راوی کابیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ رسول اسلام ۖ سجدہ میں تھے تو امام حسن آنحضرت ۖ کی گردن یا آپ کی پشت پر سوار ہو گئے اور آپ ۖ نے امام حسن کواس وقت تک اپنی پشت سے نہیں اُتارا جب تک کہ آپ خود آنحضرت ۖ کی پشت سے نہیں اُتر گئے ،اور میں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ جب آپ ۖ رکوع کرتے تھے تو اپنے دونوں پائے مبارک کو اتنا کشادہ کرتے تھے جس سے امام حسن ایک طرف سے دوسری طرف نکل سکیں ۔(الاصابہ ،جلد ٢،صفحہ ١٢)
آنحضرت ۖ کے فرزندارجمند ،ریحان اور میوئہ دل کی فضیلت کے بارے میں ان احا دیث کے مانندمتعدد احا دیث رسول اسلام ۖ سے نقل کی گئی ہیں ۔راویوں نے کچھ دو سری احا دیث نقل کی ہیں جن میں امام حسن اور ان کے برادر سید الشہداء امام حسین کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور دوسری کچھ روایات میں اہل بیت کی فضیلت بیان کی گئی ہے امام حسن اہل بیت کی ایک شمع ہیں ،اور ہم نے متعدد احا دیث اپنی کتاب( حیاةالامام الحسن ) کے پہلے حصہ میں بیان کر دی ہیں ۔
آپ کی پرورش:
نبی ۖ نے اپنے فرزند ارحمند سے دو ستی کی رعایت کرتے ہوئے ان کو بلند اخلاق کا درس دیا ، اپنے تمام علوم ان تک پہنچا ئے ،آپ کی تربیت آپ کے والد بزرگوار امیر المو منین نے کی جو دنیائے اسلام کے سب سے بلند و افضل معلم ہیں جنھوں نے آپ کی ذات اور نفس کو کریم اور عظیم مثال سے آراستہ کیا یہاں تک کہ آپ ان کی سچی تصویر بن گئے ،اسی طرح آپ کی والدہ گرا می سید ة نساہ العالمین ،زہرا ء ِرسول اللہ ۖ نے خالص ایمان ، اللہ سے عمیق محبت اور اس سے مضبوطی سے لو لگانے سے آپ کی تربیت فرما ئی ۔
امام حسن نے بیت نبوت ،وحی نازل ہونے کی جگہ اور مرکز امامت میں پرورش پا ئی آپ اپنے حسن سلوک اور عظیم شخصیت میں اسلامی تربیت کے لئے بہترین مثال بن گئے ۔
بہترین فضائل و کمالات:
امام حسن بلند ترین صفات و کمالات کا مجسمہ تھے ، آپ اپنے جدامجد اور والد بزرگوار کے صفات وکمالات کے مکمل آئینہ دار تھے جنھوں نے زمین پر فضائل و کمالات کے چشمے جا ری کئے ۔
امام حسن علیہ السلام فضائل و مناقب ، اصل رائے ،بلند افکار ،ورع و پرہیزگاری ،وسیع حلم ، اخلاق حسنہ میں بلندی ٔ کمالات پر فائز ہوئے یہ سب آپ کے اخلاق کے کچھ جواہر پارے ہیں ۔
امامت:
آپ کے عظیم صفات میںسے امامت ہے اور امامت و بلندی کمالات اس کے شامل حال ہوتی ہے جس کو خداوند عالم اپنے بندوں میں سے منتخب کرتا ہے ،یہ امامت کا درجہ بھی خدا ہی نے آپ کو عطا کیا اور رسول کریم ۖ نے امام حسن اور ان کے بردار محترم کے سلسلہ میں یہ اعلان فرمایا :”حسن اور حسین دونوں امام ہیں چا ہے وہ دونوں قیام کریں یا بیٹھ جا ئیں ”۔
ہم اس وقت اختصار کے طور پر امامت کے معنی اوراس کے متعلق کچھ مطالب بیان کرنے کیلئے مجبور ہیں جن سے امام کا مقام اور عظیم شان کاپتہ چلتا ہے، قارئین کرام ملا حظہ فرما ئیں:
١۔امامت کا مطلب:
علماء کلام نے امامت کی تعریف میں یوں کہا ہے :ایک انسانی شخصیت کا دین اور دنیا کے امور میں عام طور پر رئیس و حکمراں ہونا ۔پس اس تعریف کی بنا پر امام وہ عام زعیم و رئیس ہے جس کا لوگوں کے تمام دینی اور دنیوی امور پر سلطۂ قدرت ہو۔
٢۔امامت کی ضرورت:
امامت زندگی کی ضرورتوں میں سے ایک ضرورت ہے جس سے انسان کا کسی حال میں بھی بے نیاز رہنے کا امکان نہیں ہے، اسی میں دنیا اور دین کے نظام کا قیام ہوتا ہے اسی سے عدالت کبریٰ محقق ہو تی ہے، جس کو اللہ نے زمین پر نافذ کیا ہے ،لوگوں کے درمیان عام طور پر امن و سلامتی محقق ہوتی ہے ان سے ہرج و مرج دور ہوتا ہے ،اور طاقت ورکو کمزوروں پر زورگو ئی سے روکتا ہے ۔
امام کی سب سے زیادہ اہم ضرورت یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دے ،اس کے احکام اور تعلیمات کو نشر کرے ،معاشرہ کو روح ایمان اور تقویٰ کی غذا کھلائے تاکہ اس کے ذریعہ وہ انسانوں سے شر دورکرے اور اچھائیوں کی طرف متوجہ ہو اور تمام امت پر اس کی اطاعت کرنا ، اس کے امور کو قائم کرنے کے لئے اس کے اوامر کو بجالانا،اس کے ذریعہ کجی کو درست کرنا ، پراکندگی کو اکٹھا کرنا اور راہ مستقیم کی طرف ہدایت کرناضروری ہے ۔
٣۔واجبات امام:
مسلمانوں کے امام اور ان کے ولی امر میں مندرجہ ذیل چیزیں ہونا چا ہئے :
١۔دین کی حفاظت ،اسلام کی حراست ،اورا قدار و اخلاق کو مذاق کرنے والوں سے بچانا ۔
٢۔احکام نافذ کرنا ،جھگڑوں میں فیصلے کرنا اور مظلوم کا ظالم سے حق دلانے میں انصاف کرنا۔
٣۔اسلامی ممالک کی بیرونی حملوں سے حفاظت کرنا ،چاہے وہ حملے لشکری ہوں یا فکری ۔
٤۔ انسان کی شقاوت کا باعث ہونے والے تمام جرائم میں حدیں اور فیصلے قائم کرنا ۔
٥۔سرحدوں کی حفاظت ۔
٦۔جہاد ۔
٧۔زکات جیسے خراج ”ٹیکس ”کا جمع کرناجس کے متعلق اسلامی شرعی نص و روایت موجود ہے ۔
٨۔حکومتی امور میں امانتدار افراد سے کام لینا اور اپنے کار گزاروں کے ساتھ نا انصافی نہ کرنا۔
٩۔بذات خود رعایا کے امور کی نگرانی اور دیکھ بھال کرنا ،اور اس کے لئے کسی دوسرے کی نظارت پر اعتماد کرنا جا ئز نہیں ہے ۔(۔سیاست شرعیہ، صفحہ ٧)
١٠۔دلیری کے ساتھ فیصلے کرنا ،امت کیلئے رفاھی کام کرنا اور ان کو فقر و محرومیت سے نجات دلانا ۔
امام پر ان مندرجہ بالا امور کابجالانا اور ان کی عام طور پر مطابقت کرنا واجب ہے اور ہم نے ان جہتوں کے متعلق مکمل طور پر اپنی کتاب ”نظام الحکم اور ادارة الاسلام ”میں بحث کی ہے ۔
٤۔امام کے صفات:
امام میں مندرجہ ذیل شرطوں کاپایا جانا ضروری ہے :
١۔معاشرہ میں عدالت رائج کرنایعنی اور وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب نہ کرتاہو اور گناہ صغیرہ پر اصرار نہ کرتاہو ۔
٢۔امت کی تمام ضروریات کی چیزوں سے آگاہ ہو ،ان کے شان نزول اور احکام سے باخبر ہو ۔
٣۔اس کے حواس جیسے قوت سامعہ ،باصرہ اور زبان صحیح و سالم ہو ،تا کہ ان کے ذریعہ براہ راست چیزوں کا درک کرنا صحیح ہو ،جیسا کہ دوسرے بعض اعضاء کا ہر نقص سے پاک و منزہ ہونا ضروری ہے ۔
٤۔رعایا کی سیاست اور عام مصلحتوں کی تدبیر کے لئے نظریہ کا نفاذ۔
٥۔اسلام کی حمایت اور دشمن سے جہاد کرنے کے لئے شجاعت ،جواں مردی اور قدرت کا ہونا ۔
٦۔نسب یعنی امام کا قریش سے ہونا ۔
یہ تمام شرطیں اور صفات ماوردی اور ابن خلدون نے بیان کی ہیں ۔(احکام السلطانیہ ،صفحہ ٤۔مقدمہ ،صفحہ ١٣٥)
٧۔ عصمت،متکلمین نے عصمت کی تعریف یوں کی ہے :اللہ کا لطف جو اس کے اکمل بندوں پر جاری ہوتا ہے ،جو اس کو عمداً اور سہوا جرائم اور گناہوں کے ارتکاب سے روکتا ہے ،شیعوں کا امام میں اس صفت کے پائے جانے پر اجماع ہے ،اس مطلب پر حدیث ثقلین دلالت کر تی ہے ، رسول اسلام ۖ نے قرآن و عترت کو مقارن قرار دیا ہے ،جس طرح ”قرآن کریم”غلطی اور لغزش سے محفوظ ہے، اسی طرح عترت اطہار بھی غلطی اور خطا سے محفوظ ہیں ،ورنہ ان دونوں کے ما بین مقارنت اور مساوات کیسے صحیح ہو تی اور ہم اس سلسلہ میں پہلے عرض کر چکے ہیں ۔
یہ تمام صفات ائمہ ٔ اہل بیت کے علاوہ کسی اور میں نہیں پائے جاتے ہیں چونکہ انھوں نے ہی اسلام کی پرورش اور اس کی حمایت کی ،اللہ اور اس کی رضا اور اس کی اطاعت کے لئے دلائل پیش کئے ،اسلام کے معتقد شاعر نے ان کو اشعار میں یوں نظم کیا ہے :
لِلْقَرِیبِینَ مِنْ نَدًی والبَعِیدیِ
مِنَ الْجَوْرِ ف عُری الأَحکامِ
والمُصِیْبِیْنَ بابَ ما أَخْطَأَ النَّاسُ
وَمُرْسِیْ قَواعِدَ السلامِ
والحُماة الکُفَاةِ ف الحربِ نْ لَفْفَ
ضِرامُ وَقُودَہُ بِضِرَامِ
وَالغُیوثِ الذینَ ِنْ أَمْحلَ النَّاسُ
فَمأْویٰ حَوَاضِنِ الأَیْتَامِ
راجحِ الوَزْنِ کامِلِ العَدْلِ فِ السَّیْرِ
طَبِیْنُوْنَ بِالْاُمُوْرِ الْعِظَامِ
سَاسَةُ لاکَمَنْ رآَٔی رَعْیَةَ النَّاسِ
سَوائً وَرَعْیَةَ الْأَنْعامِ(ہاشمیات، صفحہ ٩)
”یہ صفات اُن ائمہ کی ہیں جو سخاوت سے نزدیک ہیں اور ظلم و جور سے دُور ہیں ۔
یہ ائمہ احکام اسلام پر مضبوطی سے عمل پیرا ہیں جہاں لوگ خطائوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔
وہاں ان کو راہ راست معلوم ہو تی ہے یہ اسلام کی بنیادوں کو راہ راست بخشنے والے ہیں ۔
یہ ائمہ جنگ میں شدت سے حملہ کرتے ہیں ۔
یہ وہ باران کرم ہیں کہ اگر لوگ پریشانی میں مبتلا ہوںتو یہ یتیموں کی پناہ گاہ ہوتے ہیں۔
اُن کی فضیلتوں کا پلّہ جھکا رہتا ہے یہ بالکل انصاف سے کا م لیتے ہیں ۔
یہ اہم امور کو اچھی طرح سمجھتے ہیں یہ سیاست مدار ہیں البتہ جانوروں اور انسانوں کو ایک نگاہ سے دیکھنے والے نہیں ہیں”۔
بیشک اہل بیت نے اپنی عصمت پر سیرت و کردار کے ذریعہ دلیل قائم کی ہے جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ تاریخ انسانیت میں ان کے مثل کو ئی نہیں ہے ،اسی وجہ سے ان کیلئے دین میں عظیم فضل اور تقویٰ ہے ۔وہ ہر قسم کی غلطی اور خطا سے معصوم ہیںجس پر مختلف حالات و واقعات دلالت کرتے ہیں۔
٥۔امام کی تعیین:
شیعوں کے نظریہ کے مطابق امام کا معین کرنا امت کے اختیار میں نہیں ہے اور نہ ہی اہل حل وعقد کے ہاتھ میں ہے ،امامت کے متعلق الکشن کرانا باطل ہے ،اس میں کسی کا اختیار محال ہے، امامت بالکل نبوت کے مانند ہے ،جس طرح نبوت انسان کی ایجاد نہیں ہو سکتی اسی طرح امامت بھی کسی کی تکوین و ایجاد کے ذریعہ نہیں ہو سکتی ،کیونکہ جس عصمت کی امامت میں شرط ہے اس سے خدا کے علاوہ مخفی نفوس سے کو ئی بھی آگاہ نہیں ہے ،اس نے اس پر حجت آل محمد اور مہدی ٔ منتظر سے اپنی حدیث میں سعد بن عبداللہ کے ساتھ استدلال کیاہے اس نے امام سے سوال کیا کہ لوگوں کے اپنی خاطر امام اختیار نہ
نہ کرنے کی کیا وجہ ہے ؟تو امام نے فرمایا:”وہ اپنے لئے مصلح یا مفسد امام کو اختیار کریںگے ؟”
اس نے جواب دیا:بلکہ مصلح امام اختیار کریں گے ۔
”تو کیا ان کا کسی بُرے شخص کو اختیار کرناناممکن ہے جبکہ کسی کے دل کی اچھائی یابرا ئی سے کو ئی واقف نہیں ہے ؟”۔۔کیوں نہیں ۔
یہ وجہ میں نے تیری عقل کے نزدیک مؤثق دلیل و برہان کے ذریعہ بیان کی ہے ،مجھے ان انبیاء کی خبر دی گئی ہے جن کو اللہ نے منتخب فرمایا ،ان پر کتاب نازل فر ما ئی ،ان کی عصمت اور وحی کے ذریعہ تا ئید فرما ئی کیونکہ وہ امتوںکے بزرگ ہیں ،مو سیٰ اور عیسیٰ کے مانند ان کو اختیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے کیا ان دونوں کی زیادہ عقل اور ان کے علم کے کامل ہونے کے باوجودان دونوں کو کسی کومنتخب کرنے کا اختیار ملتا ہے تو وہ منافق کے سلسلہ میں حیرت میں پڑجاتے ہیںاور فکر کرتے ہیںکہ یہ مو من ہے حالانکہ وہ منافق ہوتا ہے ؟ ‘ ‘ ۔۔نہیں ۔
موسیٰ کلیم اللہ نے اتنی زیادہ عقل ،اتنے کامل علم اور اپنے اوپر وحی نازل ہونے کے باوجود اپنی قوم سے اپنے پروردگار سے کئے ہوئے وعدے کے تحت ستر افراد کو منتخب کیاجن کے ایمان و اخلاص میں کو ئی شک و شبہ نہیں تھا جبکہ اُن میں منافقین بھی تھے؟ ” اللہ کا ارشاد ہے :(وَاخْتَارَ مُوسَی قَوْمَہُ سَبْعِینَ رَجُلًا لِمِیقَاتِنَا)( سورئہ اعراف، آیت ١٥٥) ”اور موسیٰ نے ہمارے وعدے کے لئے اپنی قوم کے ستّرافراد کا انتخاب کیا ”
یہاں تک کہ خدا نے فرمایا :(فَقَالُواَرِنَااﷲَ جَہْرَةً فََخَذَتْہُمْ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِہِم ) (سورئہ نساء ،آیت ١٥٣)
”جب انھوں نے کہا کہ ہمیں علی الاعلان اللہ کو دکھلا دیجئے تو ان کے ظلم کی بناپرانھیں ایک بجلی نے اپنی گرفت میں لے لیا ”(بحارالانوار، جلد ١٣،صفحہ ١٢٧)
جب خدا کی طرف سے نبوت کیلئے منتخب کیا جانے والا شخص بھی فاسد کا انتخاب کر سکتا ہے تواس سے ہم یہ جان لیتے ہیں کہ منتخب کرنے کا حق صرف اس ذات بابرکت کو ہے جو دلوں کے راز سے واقف ہے۔
انسانی طاقتیں اس امت کے لئے اصلح شخص کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں ،اس کا اختیار انسان کے بس کی بات نہیں ہے بلکہ اس کا اختیار تو عالم الغیب خدا کے قبضہ قدرت میں ہے ۔
امامت کے متعلق یہ مختصر سی بحث تھی اور محقق کے لئے تفصیل کی خاطرعلم کلام کی کتابوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔