امام حسین کو "اباعبداللہ” اور "ثاراللہ” کیوں کہا جاتا ہے؟

ماہِ محرم کی آمد کے ساتھ، سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کے دو مشہور القابات — "اباعبداللہ” جو وہ کنیت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچپن ہی میں امام حسینؑ کے لیے منتخب فرمائی، اور "ثارالله” جس کے معنی ہیں "خونِ خدا” اور جو کربلا کے واقعے پر خداوند کی طرف سے خون‌خواہی کی علامت ہے — ان کی تاریخی بنیادوں کا جائزہ خاص اہمیت اختیار کر جاتا ہے، جس پر ہمارے دینی ماہر نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

 

اسلامی تاریخ میں آئمہ معصومین علیہم السلام کے القابات اور کنیتیں صرف رسمی عنوانات نہیں بلکہ عمیق مفاہیم اور الٰہی پیغامات کی حامل ہوتی ہیں۔

ان میں سے دو اہم اور معروف عنوانات، حضرت امام حسین علیہ السلام کے لیے استعمال ہونے والی کنیت "اباعبداللہ” اور لقب "ثاراللہ” ہیں، جن کی بنیاد معتبر احادیث اور بلند اسلامی مفاہیم پر استوار ہے۔

یہ القابات نہ صرف امام حسینؑ کی عظمت کے غماز ہیں بلکہ ان کے بلند روحانی مقام اور دینِ الٰہی کی احیاء میں ان کے بے نظیر کردار کی بھی نمائندگی کرتے ہیں۔

اسی سلسلے میں، دینی شبہات کے جوابات دینے والے ماہر، حجت‌الاسلام والمسلمین رضا پوراسماعیل ان دونوں القابات کے تاریخی اور تفسیری پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں اور اس موضوع کے مختلف زاویے بیان کرتے ہیں۔

یہ تحقیق خاص طور پر اُن محبانِ اہل بیتؑ کے لیے پیش کی گئی ہے جو امام حسینؑ کی راہِ عشق پر گامزن ہیں۔

"اباعبداللہ” کی کنیت کیوں؟

کنیت "اباعبداللہ” عربوں کے درمیان ایک معروف رواج تھا۔ ان کے ہاں یہ عام رواج تھا کہ بچے کی پیدائش کے وقت اس کے لیے نام کے ساتھ ساتھ ایک کنیت بھی رکھی جاتی۔

یہ روایت خاص طور پر ان خاندانوں میں زیادہ رائج تھی جو اپنے نسب، حسب اور شرافت کا خاص خیال رکھتے تھے۔

کنیت یا تو پیدائش کے وقت دی جاتی تھی یا بعد میں بچے کی اولاد کی مناسبت سے رکھی جاتی تھی۔ مثلاً اگر کسی کا بیٹا علی ہوتا تو اسے "ابو علی” کہا جاتا۔

امام حسینؑ کو بچپن ہی میں "اباعبداللہ” کی کنیت سے پکارا گیا۔ بعض روایات کے مطابق، جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرائیل کے حکم سے حسینؑ کا نام رکھا، تو ساتھ ہی انہیں "اباعبداللہ” کہہ کر بھی مخاطب کیا۔

لہٰذا یہ کنیت خود پیغمبر اسلامؐ کی طرف سے عطا کی گئی تھی۔

اگرچہ بعض محققین کا خیال ہے کہ چونکہ امام حسینؑ کا ایک فرزند "عبداللہ” نامی تھا، جو شیر خوارگی میں عاشورا کے دن شہید ہوا، اس لیے یہ کنیت رکھی گئی۔

لیکن دیگر علماء کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ بچہ امامؑ کی زندگی کے آخری مہینوں میں پیدا ہوا تھا، اس لیے یہ کنیت اس کی پیدائش سے پہلے ہی موجود تھی اور اس کا اس سے تعلق نہیں۔

امام حسینؑ کو "ثاراللہ” کیوں کہا جاتا ہے؟

"ثار” عربی زبان میں "خون” یا "خون بہا” کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

لقب "ثاراللہ” زیارت عاشورا میں بھی آیا ہے، جو امام حسینؑ کے مشہور القابات میں سے ایک ہے۔

زیارت عاشورا میں ہم پڑھتے ہیں: "السلام علیک یا ثارالله و ابن ثاره” – سلام ہو آپ پر اے اللہ کے خون اور اللہ کے خون کے بیٹے!

یہ لقب امام حسینؑ اور بعض اوقات امام علیؑ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔

علماء نے "ثاراللہ” کے معنی کی مختلف تفاسیر کی ہیں، لیکن سب سے مشہور اور مستند تفسیر یہ ہے کہ چونکہ امام حسینؑ مظلومانہ شہید ہوئے، اور ان کا قیام خالصتاً اللہ کی راہ میں تھا، اس لیے خود خداوندِ متعال نے ان کے خون کا ولی اور خون‌خواہ بننے کا اعلان کیا۔

قرآن مجید میں اللہ فرماتا ہے: "وَ مَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهِ سُلْطَانًا” (سورہ اسراء، آیت 33)

"جو شخص مظلوم قتل ہو، ہم نے اس کے ولی کو قصاص کا حق دیا ہے۔”

چونکہ امام حسینؑ کی شہادت عین مظلومیت اور راہِ خدا میں تھی، لہٰذا ان کے خون کا ولی خود خداوند تعالیٰ ہے۔

اسی لیے امامؑ کو "ثاراللہ” کہا جاتا ہے، یعنی "وہ جن کا خون اللہ کی طرف سے محفوظ اور قابلِ انتقام ہے”۔

 

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے