کربلا میں بچوں کا کردار
جب کہ کربلا کے میدان جنگ میں چھ ماہ کے شیر خوار علی اصغر سمیت ایسے درجنوں بچوں نے حق و امام حسین علیہ السلام پر جان نچھاور کر دی یا پھر واقعہ کربلا کے بعد یزیدی فوج کی طرف سے مخدارات عصمت و طہارت سمیت قید و بند اور شام و کوفہ کے زندانوں میں مصائب و آلام کا اس طرح سے مقابلہ کیا کہ کربلا سے شام و کوفہ کے زندانوں تک بغیر کجاوہ کے اونٹوں پر لے جاتے ہوئے مظالم سے شہید ہوتے گئے، لیکن یزیدیت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکا کرتے گئے۔
حکیم الامت و کربلا شناس علامہ اقبال کی اس پیشن گوئی کی تفسیر ہے اور ہم بحثیت پاکستانی اب تک علامہ اقبال کو نہ سمجھ سکے:
دیکھا تھا افرنگ نے اک خواب جینیوا
ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے
تہران ہو گر عالم مشرق کا جینیوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
کربلا میں تلوار پر خون کی فتح رقم کر کے 61 ہجری کی طرح اکییسویں صدی میں بھی اس شعر کی عملی تفسیر کر دی کہ:
قتل حسین اصل میں مرگ یذید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
میدان کربلا اور کربلا سے شام و کوفہ کے زندانوں تک لے جاتے ہوئے یزیدی فوج کے مظالم سے شہید ہونے والوں میں کئی بچوں میں سے چھ ماہ کے شیر خوار علی اصغر سمیت شریکتہ الحسین حضرت بی بی زینب علیہ السلام کے دو بیٹے عون و محمد کے علاوہ حضرت جعفر طیار کے نواسے اور سفیر حسین حضرت مسلم ابن عقیل کے دو کمسن فرزندان کے علاوہ نواسہ رسولؐ امام حسن ابن علی علیہ السلام کے تیرہ سالہ کمسن فرزند قاسم ابن حسن علیہ السلام کی لازوال قربانی شامل ہے۔ اسی طرح امام حسینؑ کی چار سالہ بیٹی بی بی سکینہ بنت حسین کا یزیدی فوج کے مظالم برداشت کرتے ہوئے زندان شام دمشق میں شہادت بچوں کی قربانیوں کا درخشان باب ہے۔
میدان کربلا میں بچوں کا کردار واضح تر کرنے کے لیے تیرہ سالہ کمسن فرزند قاسم ابن حسن علیہ السلام کا یہ واقعہ ہی کافی ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام نے تیرہ سالہ کمسن فرزند قاسم ابن حسن علیہ السلام سے پوچھا کہ میرے بھتیجے تیرہ سالہ کمسن فرزند قاسم ابن حسن علیہ السلام! تم حق کی راہ میں موت کو کیسے پاتے ہو تو تیرہ سالہ کمسن فرزند قاسم ابن حسن علیہ السلام نے فرمایا کہ میں موت کو شہد سے زیادہ شیرین پاتا ہوں۔
اسی طرح امام حسین کے اٹھارہ سالہ کڑیل جوان نے اسی طرح کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ:
جب ہم حق پر ہیں تو اس کی پروا نہیں کہ موت ہم پر پڑے یا ہم موت پر۔
یہ گھرانہ آل محمد کی تربیت ہی کا اثر تھا اور امام حسین علیہ السلام فرماتے تھے کہ میں ظالموں کے ساتھ رہنے اور ان کی بادشاہت یا ڈکٹیٹر شپ ماننے کی بجائے شہادت کو ترجیح دیتا ہوں، کیونکہ ذلت ہم اہلبیت علیہ السلام سے بہت دور ہے۔
بقول شاعر
عزت کی موت بہتر ہے ذلت کی زندگی سے
یہ سبق ہمیں ملا ہے حسین ابن علی سے
شریکۃ الحسین سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے شام دمشق کے یزیدی درباروں اور بازاروں میں یادگار خطبے دیئے۔شام کے زندان کو اپنے مظلوم بھائی کے عزا خانے میں تبدیل کر دیا اور اس طرح ستمکاروں کے محل لرزنے لگے۔ابن زیاد ملعون اس باطل خیال میں تھا کہ ایک خاتون اس قدر مصائب اور رنج و آلام دیکھ کر ایک جابر ستمگر کے سامنے جواب دینے کی سکت و جرأت نہیں رکھتی، کہنے لگا:اُس خدا کا شکر گزار ہوں کہ جس نے آپ لوگوں کو رسوا کیا، تمہارے مردوں کو مار ڈالا اور تمہاری باتوں کو جھوٹا ثابت کیا۔علی کی بیٹی نے کمال عظمت کے ساتھ اس سرکش طاغوت کی طرف حقارت بھری نظروں سے دیکھا اور فرمایا:یابن مرجانہ (یاد رہے کہ ابن زیاد لعین کی ماں مرجانہ اس وقت عرب کی زانی خواتین میں مشہور تھی اور یہ بھی مشہور تھا کہ ابن زیاد حرام زادہ ہے، لیکن اس کے باوجود یزید ملعون نے ابن زیاد کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا کر گورنر بنایا تھا) تعریفیں اُس خدا کیلیے ہیں کہ جس نے ہمیں اپنے پیغمبر کے ساتھ منسوب کر کے عزت بخشی، آلودگی و ناپاکی سے ہم کو دور رکھا اور تجھ جیسے ویران گر شخص کو رسوا کر دیا۔
یزید کا دربار اور حضرت سکینہ بنت الحسین کا خواب:
شہر شام میں پیش آنے والے عجیب اور غریب واقعات میں سے ایک شہزادی حضرت سکینہ کا وہ خواب ہے کہ جو آپ نے یزید کے دربار میں بیان فرمایا جس کو علامہ مجلسی، ابن نما حلی، سیّد ابن طاووس ، محدث بحرانی اور شیخ عباس قمی جیسے جید علماء نے اپنی اپنی کتب میں نقل فرمایا ہے۔
حضرت سکینہ نے دربار شام میں یزید سے فرمایا: میں نے ایک خواب دیکھا ہے اگر تو سنے تو میں بیان کروں۔ یزید سننے کے لیے تیار ہو گیا۔ آپ نے فرمایا : کل رات جیسے ہی میں نماز اور دعا سے فارغ ہوئی تو اچانک مجھے بابا کی یاد ستانے لگی، میں بہت روئی اور روتے روتے میری آنکھ لگ گئی، میں نے خواب میں دیکھا: گویا آسمان کے تمام دروازے میرے لیے کھول دئیے گئے ہیں اور میں ایک ایسے نور کے بقعہ میں ہوں جسکا نور آسمان سے زمین تک پھیلا ہوا ہے۔اسکے بعد میں نے اپنے والد گرامی کو جنت کے ایک باغ میں پایا اور وہاں ایک خادم کو دیکھا جو اس باغ میں موجود تھا، جیسے ہی میں نے باغ میں قدم رکھا تو ایک عالی شان قصر میرے سامنے تھا، جیسے ہی میں نے داخل ہونے کا قصد کیا، میرے ساتھ پانچ افراد اور داخل ہونے لگے۔ میں نے خادم سے پوچھا یہ محل کس کا ہے؟ خادم نے جواب دیا: یہ تمہارے باباکا محل ہے جو اللہ نے انہیں ان کے عظیم اور پائیدار صبر کے بدلے میں عطا فرمایا ہے۔
میں نے اس سے دوسرا سوال کیا: یہ پانچ با جلالت و با عظمت افراد کون ہیں کہ جو میرے ہمراہ وارد قصر ہونا چاہتے ہیں؟ اس نے ہر ایک کی طرف اشارہ کر کے مجھے بتانا شروع کیا کہ یہ پہلے ابو البشر حضرت آدم ہیں، یہ حضرت نوح ہیں، یہ تیسرے حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہیں اور یہ چوتھے حضرت موسیٰ کلیم اللہ ہیں، میں نے اس سے پوچھا کہ یہ بزرگ کون ہیں کہ جو اپنی داڑھی پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اور آثار حزن و ملال ان کے چہرے سے ظاہر ہے اور مسلسل جنکی آنکھوں سے آنسو نکل کر رخساروں پر بہہ رہے ہیں؟ اس نے جواب دیا: آقا زادی! ان بزرگ کو نہیں پہچانتی؟ میں نے کہا: نہیں، اس نے کہا : یہ تمہارے جد رسول خدا حضرت محمّد مصطفیؐ ہیں کہ جو اپنے نواسے امام حسینؑ سے ملاقات کے لیے آئے ہیں۔
سکینہ کہتی ہیں کہ میں دوڑتی ہوئی اپنے جد کے قریب گئی اور ان کے سامنے یہ بین کرنے لگی:
یا جدّاہ قتلت واللّٰہ رجالنا و سفکت واللّٰہ دماءنا وھتکت حریمنا و حملنا علی الاقطاب من غیر قطاع و نصاب الی یزید،
اے نانا خدا کی قسم ہمارے مردوں کو مار ڈالا گیا، ہمارے خون کو بہایا گیا، ہماری بے حرمتی کی گئی اور ہم کو برہنہ پشت اونٹوں پر سوار کر کے شام تک لایا گیا۔یہ سن کر پیغمبر خدا نے مجھے اپنی آغوش میں لیا اور آدم و نوح و ابراہیم اور موسیٰ کی طرف رخ کر کے فرمایا:
اما ترون ما صنعت امتّی بولدی من بعدی،
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ میری امت نے میرے بعد میرے نور نظر کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟
خادم نے کہا:سکینہ بی بی خاموش ہو جاؤ تم نے اپنے نانا کو بہت غم زدہ اور محزون کر دیا ہے۔
اس کے بعد اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اس قصر کے اندر لے گیا، جہاں میں نے ان پانچ عورتوں کو دیکھا جنکا وجود نور خدا سے منور تھا، ان کے درمیان ایک معظمہ بی بی کو دیکھا کہ جو ہر اعتبار سے ممتاز تھیں بال پریشان،سیاہ لباس میں ملبوس اور ایک خون بھرا کرتا ہاتھوں میں لیے ہوئے تھیں، جب وہ اٹھتی تھیں تو تمام عورتیں ان کے احترام میں کھڑی ہو جاتی تھیں۔ میں نے خادم سے سوال کیا یہ کون ہیں؟ خادم نے مجھ سے ان سب کا تعارف کرایا: یہ خاتون مریم ہیں، یہ خدیجہ، یہ ہاجرہ اور یہ سارہ ہیں اور یہ خاتون کہ جن کے ہاتھوں میں خون بھرا کرتا ہے، یہ جنت کی تمام عورتوں کی سردار حضرت فاطمہ زہرا ہیں۔ یہ سن کر میں اپنی دادی کے پاس گئی اور کہا:یا جدّتا قتل و اللّٰہ ابی و ایتمت علی صغر سنّی،
دادی جان ! خدا کی قسم، ظالموں نے میرے بابا کو قتل کر کے مجھے اس کم سنی میں ہی یتیم کر دیا ہے۔
میری دادی نے میرے یہ بین سن کر مجھے اپنی آغوش میں لے لیا اور آہ و بکا کرنے لگیں، اب کیا تھا وہ عورتیں بھی رونے لگیں اور بصد احترام عرض کیا: اے سیدہ عالمین! صبر کرو !خداوند تمہارے اور یزید کے درمیان فیصلہ کرے گا۔
اسکے بعد صدّیقہ طاہرہؑ نے مجھ سے فرمایا:کفّی صوتک یا سکینہ،میری لاڈلی سکینہ اب نہ رونا۔
فقد قطعت نیّاط قلبی ھذا قمیص ابیک الحسین،تیری صدائے گریہ نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے اور دیکھ یہ تیرے بابا حسین کا خون بھرا کرتا ہے،
لا یفارقنی حتّی القی اللّٰہ بہ،اسے اس وقت تک ہاتھوں سے نہ چھوڑوں گی، جب تک خدائے واحد سے ملاقات نہ کر لوں۔