امامت، پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی میں اسلامی معاشرے کی قیادت و رہبری کا ایک الہی نظام ہے۔ شیعوں کے نزدیک امامت اصول دین میں سے ہے۔ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان مختلف حوالے سے اس مسئلے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ شیعوں کو امامت پر اعتقاد رکھنے کی وجہ سے امامیہ بھی کہا جاتا ہے۔
شیعہ تعلیمات کے مطابق رسول خداؐ اپنی رسالت کے ابتدائی ایام سے ہی اپنے جانشین کے اعلان کا قطعی ارادہ رکھتے تھے۔ آپ نے اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر قریش کے سامنے حضرت علیؑ کا نام لے کر کیا۔ اس کے علاوہ 18 ذی الحجہ کو حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر غدیر خم کے مقام پر حجاج کرام کے سامنے اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں قلم اور دوات مانگنے کے واقعے میں بھی حضرت علیؑ کی جانشینی کا اعلان فرمایا۔
اہل سنت بھی امام کی ضرورت اور اس کی اطاعت کے لزوم پر عقیدہ رکھتے ہیں، لیکن ان کے مطابق امام کے انتخاب کا اختیار لوگوں کو حاصل ہے اور رسول اللہؐ نے اپنے بعد کسی کو امام کی حیثیت سے اپنا جانشین مقرر نہیں فرمایا۔
شیعوں میں زیدیہ اور اسماعیلیہ اماموں کی تعداد اور اشخاص کے بارے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ شیعہ اثنا عشریہ کے نزدیک اماموں کی تعداد 12 ہیں جن میں پہلے امام حضرت علیؑ اور آخری امام حضرت مہدیؑ ہیں۔
امام کے وجود کا فلسفہ دین اسلام کی حفاظت، دینی معارف کی وضاحت اور انسانوں کی ہدایت کرنا ہے۔ لہذا اس ذمہ داری کو بہتر اور احسن طریقے سے نبھانے کیلئے امام کو عصمت علم لدنی اور ولایت کا مالک ہونا چاہئے۔
لغوی اور اصطلاحی معنی: امامت لغت میں پیشوائی اور رہبری کے معنی میں ہے۔عربی زبان میں امام کا لفظ اس شخص یا چیز کیلئے استعمال ہوتا ہے جس کی اقتدا اور پیروی کی جائے۔ اسی معنا کے پیش نظر قرآن کریم، پیامبر گرامی اسلام، جانشینِ پیغمبرؐ، پیش امام، سپہ سالار، مسافروں کا راہنما، ساربان اور اونٹوں کے راہنما کو امام کے مصادیق میں سے جانا گیا ہے۔[1] متکلمین امامت کی دو طرح سے تعریف کرتے ہیں: پہلا تعریف عام ہے اور یہ نبوت کو بھی شامل کرتا ہے۔ اس تعریف کے مطابق امام "دینی اور دنیوی مسائل میں عمومی رہنما" کو کہا جاتا ہے۔[2] دوسرا تعریف ایک خاص تفسیر کا حامل ہے جس کے مطابق "امام" اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دینی امور میں پیغمبر اکرمؐ کا جانشین ہو۔[3] امام کی یہ تعریف کہ "دینی اور دنیوی امور میں پیغمبر اکرمؐ کی جانشین کے عنوان سے مسلمانوں کا رہنما اور پیشوا"، تمام اسلامی فرقوں کے لئے قابل قبول تعریف ہے۔[4]
قرآن میں لفظ امام:
قرآن کریم میں امام کا لفظ انسانوں اور دیگر موجودات کیلئے استعمال ہوا ہے:
انسانوں کے علاوہ جن چیزوں کے لئے قرآن میں امام کہا گیا ہے ان میں لوح محفوظ[5]، واضح راہ[6] اور حضرت موسی کی آسمانی کتاب۔[7]
انسانوں کی نسبت حق اور باطل دونوں طرح کے رہنما کیلئے امام کا لفظ استعمال ہوا ہے:
ائمہ حق کے مصادیق میں انبیا،[8] خدا کے شائستہ بندے[9] اور مستضعفین شامل ہیں۔[10]
ائمہ کفر جیسے فرعون اور اسکی حکومت کے کارندوں کو قرآن میں امام باطل کے مصادیق کے طور پر پیش کئے ہیں۔[11]
قرآن کی ایک آیت میں لفظ امام کا استعمال مذکورہ تمام استعمالات کو شامل کرتا ہے: وَیوْمَ نَدْعُو کلّ أُناس بِإِمامِهِم۔[12]
اہمیت:
اہل تشیع کے عقیدے میں امامت اصول دین میں سے ہے لیکن معتزلہ، اشاعره اور دیگر اسلامی مذاہب میں اسے فروع دین میں سے سمجھا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر اہل سنت کے مقابلے میں شیعوں کے یہاں امامت کو ایک خاص مقام اور حیثیت حاصل ہے۔ شیعہ مذہب میں امامت کو خلافت کے علاوہ عہد الہی اور دین کی تکمیل کا باعث بھی سمجھا جاتا ہے۔
امامت اور خلافت:
تاریخی اعتبار سے پیغمبر اسلامؐ کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے درمیان سب سے اہم اور حسّاس ترین مسئلہ امامت ہے یہاں تک کہ امامت کے مسئلے میں جو اختلاف اور بحث و مباحثہ مسلمانوں کے درمیان پیدا ہوا وہ کسی اور معاملے میں پیدا نہیں ہوا۔[13]
رسول اللہؐ کے بعد امت کی رہبری اور پیشوائی کا مسئلہ امامت اور خلافت جیسے مختلف عناوین کے تحت زیر بحث رہا ہے۔ اس منصب کو امت کی رہبری اور پیشوائی کے لحاظ سے امامت جبکہ پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے خلافت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اس بنا پر اسلامی تعلیمات میں امام، رسول اللہ کا جانشین اور خلیفہ ہے۔ البتہ آیا امامت کو “خلیفہ اللہ” بھی کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اہل سنت کے یہاں اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، بعض اسے جائز سمجھتے ہیں اور بعض اسے جائز نہیں سمجھتے۔[14] اہل بیت سے نقل ہونے والی احادیث میں امام کو خدا اور رسول دونوں کا خلیفہ قرار دیتی ہیں۔[15]
عہد الہی:
قرآن کریم امامت کو نبوت سے اعلی مرتبہ سمجھتا ہے کیونکہ حضرت ابراہیم کے بارے میں آیا ہے کہ انہیں نبوت ملنے اور امتحانات و آزمائشوں میں کامیابی کے بعد امامت کا مقام عطا کیا گیا ہے۔
و إذ إبتَلی ابراهیمَ ربُّه فأتَمَهُنّ، قال إنّی جاعِلُک للناس إماما قالَ وَ مِنْ ذُرِّیتی قالَ لا ینالُ عَهْدِی الظَّالِمینَ(ترجمہ: اور وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم کا ان کے پروردگار نے چند باتوں کے ساتھ امتحان لیا۔ اور جب انہوں نے پوری کر دکھائیں ارشاد ہوا۔ میں تمہیں تمام انسانوں کا امام بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا اور میری اولاد (میں سے بھی(؟ ارشاد ہوا: میرا عہدہ (امامت) ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔)[16]
اس آیت میں خدا امامت کو خدا کا عہد و پیمان قرار دیتے ہیں۔ اہل بیتؑ سے منقول احادیث میں بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ ملتا ہے۔[17]
تکمیل دین:
آیت اکمال[18] کی شان نزول میں وارد ہونے والی احادیث سے بھی امامت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان احادیث کے مطابق یہ آیت واقعۂ غدیر کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس میں رسول اللہ نے خدا کے حکم سے حضرت علی بن ابی طالبؑ کو اپنا جانشین اور امت کا پیشوا کے طور پر معرفی کیا ہے۔[19] اس بنا پر اسلام امامت کے وسیلے سے اپنے کمال کو پہنچ گیا ہے۔
آیت تبلیغ[20] بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ کیونکہ اس آیت اور اس کی شان نزول میں وارد ہونے والی احادیث کے مطابق امامت کی اہمیت اس قدر ہے کہ اگر رسول اللہؐ اسے بیان نہ کرتے تو گویا رسول اللہ نے رسالت کی ابلاغ کا کوئی کام بھی انجام نہیں دیا ہے اور رسول اللہ کی ساری محنت رائیگاں شمار ہوگی۔[21]
قیامت کے دن امامت کی اہمیت:
قرآن کے مطابق قیامت کے دن ہر شخص اپنے امام کے ساتھ حاضر ہو گا:
یوْمَ نَدْعُو کلّ أُناس بإِمامِهِمْ(ترجمہ: اس دن (کو یاد کرو) جب ہم (ہر دور کے) تمام انسانوں کو انکے امام (پیشوا) کے ساتھ بلائیں گے۔)[22]۔
اس مطلب کو شیعہ اور اہل سنت نے حضرت امام رضا(ع) سے نقل کیا ہے۔ اسکے مطابق قیامت کے روز ہر گروہ کتاب آسمانی، سنت پیغمبر اور اپنے زمانے کے امام کے ساتھ بلایا جائے گا۔[23]
حضرت علی ؑ نے فرمایا:
بندگان خدا کیلئے امام، رہبر اور راہنما ہیں۔قیامت کے روز کوئی انہیں پہچانے بغیر جنت میں داخل نہیں ہو گا اور امام انہیں پہچانے بغیر بہشت میں داخل نہیں ہو گا اور اسی طرح جہنم میں بھی ایک دوسرے کو پہچانے بغیر داخل نہیں ہونگے مگر یہ کہ وہ ایک دوسرے کا انکار کریں[24]
شیعہ آئمہ کی متعدد روایات میں آیا ہے کہ نماز، زکات، روزه، حج اور ولایت اسلام کے ارکان میں سے ہیں نیز ان میں امامت کو خاص مقام حاصل ہے کیونکہ وہ انکی راہنما اور کلید ہے۔[25]
وجود امام کی ضرورت:
امامیہ متکلمین کے نزدیک امامت واجب ہے اور اسکا وجوب وجوب کلامی ہے؛ یعنی اسکا وجوب لوگوں پر نہیں بلکہ اللہ پر اسکا وجوب ہے۔
اس وجوب کا معنی یہ ہے کہ یہ عدل ،حکمت،…..دیگر صفات الہی کا مقتضی ہے اور ایسی چیز کا ترک کرنا ذات خدا میں نقص کو مستلزم ہے۔اور یہ محال ہے پس اسکا انجام دینا واجب اور ضروری ہے۔ البتہ یہ وجوب خدا کی صفات کمالیہ سے پیدا ہوتا ہے نہ کہ کسی نے خدا پر اسے واجب کیا ہے۔ جیسا کہ خداوند کریم نے اپنے اوپر ہدایت اور رحمت کو واجب قرار دیا ہے :
خواجہ نصیر الدین اس کے متعلق کہتے ہیں:
امامیہ معتقد ہیں کہ امام کو متعین کرنا ایک لطف ہے کیونکہ وہ لوگوں کو اطاعت کے قریب کرتا ہے اور انہیں معصیت سے دور کرتا ہے اور لطف خدا پر واجب ہے [26]
دیگر مذاہب:
دیگر مذاہب اسلامی کی اکثریت امامت کو واجب سمجھتی ہے لیکن اسکے واجب فقہی اور واجب عقلی میں اختلاف نظر رکھتی ہے۔
وجوب نقلی اور شرعی: اشاعره بھی امامت کو واجب سمجھتے ہیں لیکن وہ حسن و قبح عقلی اور خدا پر کسی چیز کے واجب ہونے کے قائل نہیں اسلئے وہ اسے خدا کی بجائے لوگوں پر واجب سمجھتے ہیں۔نیز روایات کی بنا پر وہ اسے وجوب عقلی کی بجائے وجوب نقلی اور سمعی سمجھتے ہیں۔ عضدالدین ایجی معتقد ہے کہ اشاعره کے نزدیک امام کا نصب کرنا سمعی اور شرعی طور پر واجب ہے۔[27] کیونکہ خدا نے امام کے وجود اور نصب کرنے کا حکم بیان کیا ہے پس امام کے نصب کرنے اور اسکے وجود کا حکم عقل سے نہیں سمجھا جاتا ہے۔
وجوب عقلی: معتزلہ، ماتریدیہ، اباضیہ اور زیدیہ کا ایک گروہ امامت کو لوگوں پر واجب سمجھتا ہے۔معتزلہ میں سے بعض امامت کے وجوب کو عقلی اور بعض اسے سمعی اور شرعی سمجھتے ہیں [28]
وجوب امامت کے دلائل:
آیت اولی الامر:
یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکمْ
اس آیت میں خدا اولی الامر کی اطاعت کا حکم دے رہا ہے پس اولی الامر موجود ہونے چاہئیں تا کہ انکی اطاعت کی جائے۔[29]
تفتازانی اس دلیل کے متعلق کہتا ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کا وجوب ان کے متحقق ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔[30]
حدیث من مات:
رسول اللہ نے فرمایا :
مَنْ ماتَ وَ لَمْ یعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ ماتَ مَیتَةً جاهِلِیةً[31]
اس حدیث کے مطابق جو شخص بھی اپنے زمانے کے امام کی پہچان کے بغیر اس دنیا سے رخصت ہو گیا وہ اس دنیا سے جاہلیت کی موت مرا ہے۔
مسلمان متکلمین کا ایک گروہ اس حدیث کو وجوب امامت کی دلیل سمجھتے ہیں۔کیونکہ اس حدیث کے مطابق ہر زمانے میں امام کی معرفت ایک حکم شرعی ہے اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ کوئی بھی زمانہ اس سے خالی نہیں ہو۔[32]
سیرت مسلمین:
متکلمین کا ایک گروہ مسلمانوں کی سیرت کو وجوب امامت کی دلیل قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ مسلمانوں کی سیرت سے واضح ہوتا ہے کہ وہ امامت کے وجوب کو کسی شک و شبہ کے بغیر ایک مسلم اور یقینی سیرت سمجھتے ہیں۔ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان امامت میں اختلاف نہیں ہے بلکہ مصداق میں اختلاف ہے۔[33] ابوعلی و ابوہاشم جُبّائی اور دیگر نے وجوب امات پر صحابہ کے اجماع کے ساتھ استدلال کیا ہے۔[34]
قاعدۂ لطف:
امامیہ متکلمین کے نزدیک وجوب امامت کی اہم ترین دلیل قاعدۂ لطف ہے۔وہ قاعدۂ لطف کے مصادیق میں امامت کو واضح ترین مصداق سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خداوند کو اپنے بندوں کی نسبت لطف کرنا چاہئے اور امام کو منصوب کرنا اور متعین کرنا بھی ایک طرح کا لطف ہے پس امامت بھی واجب ہو گی۔
سید مرتضی اسکی توضیح کرتے ہوئے کہتے ہیں :
ہم جانتے ہیں کہ انسان کیلئے عقلی طور کچھ ذمہ دارایاں ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بالغ و عاقل انسان معصوم نہیں ہے۔ان دو مطالب کے پیش نظر امامت کے وجوب کی دلیل یہ ہے کہ عرف اور سیرت عقلا سے آشنائی رکھنے والا عاقل انسان جانتا ہے کہ جب بھی معاشرے میں مدبر اور کافی وافی رہبری موجود ہو جو کہ معاشرے میں پلیدگی اور ستمگری کا راستہ روکے اور انسانی اقدار اور عدالت کا دفاع کرے تو اقدار اور فضائل کیلئے معاشرے میں اجتماعی طور پر شرائط بہتر فراہم ہونگی اور یہ چیز لطف کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے کیونکہ لطف یہ ہے کہ وہ مکلفین کو اطاعت اور فضیلت کے قریب لائے گا اور انہیں تباہی سے دور کرے گا۔اس بنا پر امامت مکلفین کے حق میں ایک لطف ہے۔[35]
ابن میثم بحرانی، سدید الدین حمصی، خواجہ نصیر الدین طوسی جیسے دیگر متکلمین نے اس قاعدے کی بنیاد پر امامت اور اس کے وجوب کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔[36]
معتزلی متکلمی قاعدۂ لطف کو قبول کرنے کے باوجود امامت کے مسئلہ میں اور امام کے لطف ہونے کو قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ اس مقام پر اعتراضات کرتے ہیں جن کے جوابات سید مرتضی نے الشافی فی الامامۃ میں ذکر کئے ہیں۔
فلسفہ امامت:
اہل سنت حضرات کے نزدیک امام سیاسی حاکم ہے وہ وجود امام کے فلسفے کو حکومت بنانے اور حکومتی ذمہ داریوں کے بیان کرنے اور معاشرے کو چلانے میں منحصر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر معتزلہ حدود و تعزیرات کا نفاذ، امت اسلامی کی حفاظت اور دشمن سے مقابلے کیلئے افرادی قوت کو تیار کرنا اور اس جیسے دوسرے امور کو امامت کی غرض میں بیان کرتے ہیں۔[37]
لیکن شیعہ وجود امام کیلئے دو قسم کے اہداف بیان کرتے ہیں:
پہلا ہدف : اس میں وہی اہداف اور عملی فوائد بیان کرتے ہیں جنہیں اہل سنت حضرات بیان کرتے ہیں۔ پس اس بنا پر مسلمانوں کے معاشرتی نظام کی حفاظت اور عدل و انصاف کا قیام۔ اس بنیاد بر مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی حفاظت، معاشرے میں عدل و انصاف برقرار کرنا، احکام اسلامی کو وجود بخشنا خاص طور پر جن احکام میں معاشرتی پہلو کا جنبہ موجود ہوتا ہے، حدود الہی کو نافذ کرنا امامت کے اہداف میں سے ہیں۔[38]
دوسرا ہدف : اہم ترین ہدف کو تشکیل دیتا ہے جو شریعت کی وضاحت، حفاظت اور اسے لوگوں تک پہنچانے پر مشتمل ہے۔
بیانِ شریعت:
امامیہ کے نزدیک خدا نے دین کامل صورت میں پیغمبر تک وحی کی صورت میں پہنچایا اور انہوں نے اسے مکمل صورت میں آئمہ کو ابلاغ کیا تا کہ وہ درجہ بدرجہ لوگوں تک پہنچائیں۔ اس بنا پر عبادات اور معاملات جیسے عقود ایقاعات ارث حدود دیات وغیرہ کے جزئی احکامات قرآن اور سنت پیغمبر میں بیان نہیں ہوئے ہیں۔ قرآن کریم میں احکام کے کلیات بیان ہوئے ہیں اور رسول اللہ کے ذریعے ہم تک پہنچنے والے احکام کی ایک محدود تعداد ہے نیز سند کے لحاظ سے وہ تمام احادیث بھی معتبر نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے اہل سنت حضرات اس محدودیت سے مجبور ہو کر قیاس، استحسان وغیرہ جیسی روشوں کا سہارا لیتے ہیں جویقین آور نہیں ہیں۔ اہل شیعہ کے نزدیک ان غیر یقینی روشوں کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ کوئی شرعی اور عقلی معتبر دلیل انکے بارے میں موجود نہیں ہے اسلئے احکام شرعیہ میں ان سے استناد کرنا درست نہیں ہے۔ مثلا ماه رمضان کے آخری دن کا روزہ واجب اور ماه شوال کے پہلے دن کا روزه حرام اور دوسرے دن کا روزہ رکھنا مستحب ہے حالانکہ ظاہری طور پر ان کے درمیان کوئی تفاوت نہیں ہے لیکن صرف مشابہت کی وجہ سے ایک روزے کے حکم کو دوسرے روزے پر نہیں لگایا جا سکتا ہے۔
شیعہ اعتقاد کے مطابق پیغمبر اسلام نے دین کو کامل طور پر ابلاغ کیا ہے اور اس میں کسی قسم کا نقص موجود نہیں ہے کہ جس کی بنا پر قیاس اور استحسان جیسی روشوں کا سہارا لینا ضروری ہو۔ لیکن لوگوں کی آمادگی نہ ہونے کی وجہ یا ایسا موضو رسول کے زمانے میں پیش نہ آنے کی وجہ سے بہت سے احکام بیان نہیں ہو سکے۔ رسول خدا نے اس قسم کے احکام کا علم آپنے بعد والے آئمہ کو تعلیم دئے تا کہ انہیں انکے موقعے پر بیان کر دیا جائے اور انہیں لوگوں تک پہنچایا جائے۔
حفظِ شریعت:
دیگر امور میں سے ایک اور امر جو وجود امام کی ضرورت بیان کرتا ہے اور اسے امامت کے مقاصد میں سے سمجھا جاتا ہے وہ شریعت کی محافظت کرنا ہے۔
اس بنا پر امام کا وجود دین کو تغیر و تبدل اور تحریف سے بچانے کا باعث بنتا ہے کیونکہ ایک طرف قرآن جزئی احکام بیان نہیں کرتا اور دوسری جانب قرآن ایک خاموش دستور العمل ہے اور اسے ایک مفر کی ضرورت ہے۔ لوگوں میں قرآن فہمی کی کمی، خطا کا احتمال اور اشتباہ کا امکان موجود ہونا ایسے افراد کی ضرورت محسوس کرتا ہے کہ جو قرآن فہمی میں کمال کی نہائی حدوں پر فائز، خطا اور اشتباہ سے پاک ہوں۔ ان کا وجود دوسرے افراد کی قرآن فہمی ،خطا اور اشتباہ کی تشخیص کیلئے ایک میزان ہے۔ یہ میزان اور معیار ہو جو بھی ہو حقیقت میں وہی شریعت کی محافظت کا سبب ہو گا۔
اسکے علاوہ وہ احکام اور معارف دین جو متواتر یا اجماع کی شکل میں منقول ہوئے ہیں وہ محدود ہیں وہ شریعت کے تمام احکام کے بیانگر نہیں ہیں اور اجماع معصوم کے قول کے بغیر کوئی اعتبار نہیں رکھتا ہے۔ اس وجہ سے صرف ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت کی ایک معصوم امام کے ذریعے حفاظت ہو کیونکہ اس صورت میں اس کا قول عصمت کی دلیل کی بنا پر ہر قسم کی خطا سے محفوظ ہو گا اور قرآن کی تفسیر اور شریعت کی وضاحت میں دوسروں کے اقوال کو جانچنا ممکن ہو گا۔
معارف دینی وضاحت:
وجود امام کی ضرورت کے عوامل میں سے ایک حصہ معارف اور شریعت کے احکام کی وضاحت کا ہے کہ جو مناسب حالات مہیا نہ ہونے اور کافی فرصت نہ ہونے کی وجہ سے رسول اللہ کی زبان مبارک سے بیان نہیں ہوئے۔ اب انہیں امام کے سپرد کر دیا گیا کہ وہ انہیں بیان کریں۔
امامت کے لوازمات اور خصوصیات:
عصمت:
امامت کی شرائط اور لوازم میں سے امام کا گناہ سے پاک اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خطا کا مرتکب نہ ہونا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے وہ رسول خدا کا جانشین،احکام شرعی ،معارف دین،قرآن کی تفسیر اور سنت نبوی کی توضیح میں مرجع علمی (کی حیثیت رکھتا) ہے۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کے گناہ سے مبرا ہو تاکہ لوگ اسکی بات پر اعتماد کر سکیں۔اگر ایسا نہ ہو تو لوگوں کے درمیان سے اسکا اعتماد اٹھ جائے گا اور لوگوں کی ہدایت کی خاطر آئمہ مقرر کرنے کے خدائی ہدف میں خلل اور نقض لازم آتا ہے۔
علم لدنی:
رسول خدا سے واسطے یا کسی واسطے کے بغیر پہنچنے والے علم کے علاوہ آئمہ طاہرین کے پاس دیگر علم بھی تھا۔ یہ علم غیر معمولی طریقے الہام کی صورت میں انہیں دیا گیا تھا۔ جیسے حضرت خضر، حضرت ذو القرنین، حضرت مریم اور حضرت موسی کی والدۂ گرامی اس سے بہرہ مند تھے۔ ان میں سے بعض آئمہ کو یہ علم کمسنی میں حاصل ہوا اور وہ امامت کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس علم کی بدولت ہر وہ چیز جو انسانوں کی ہدایت اور اپنے ذمہ داری کو انجام دینے میں ضروری ہوتی ہے وہ اس سے آگاہ ہوتے اور انہیں کسی دوسرے شخص کی ضرورت نہیں تھی۔[39]
ولایت:
ولایت ایک خاص قسم کا الہی قرب ہے جس کی وجہ سے کسی شخص کو ایک مخصوص قسم کے تصرف کا حق حاصل ہوتا ہے۔[40] تکوینی اور تشریعی اس ولایت کی دو اقسام ہیں۔ ولایت تکوینی موجودات جہان اور خارج میں موجود اشیاء پر تصرف اور سرپرستی سے عبارت ہے۔ ولایت تشریعی قرآن کریم کی تفسیر و توضیح، سنت نبوی اور معاشرے کی رہبری کو شامل ہے۔[41]
کلام امام کی حجیت اور اسکی اطاعت:
اس خصوصیت کا معنی ہے کہ خدا کے کلام کی توضیح میں امام کے کلام اور اسکی تفسیر کی پیروی اور اسکی اطاعت کرنا ضروری ہے۔اس اطاعت کی پیروی کا سبب ان کا خدا کی جانب سے انہیں علم لدنی اور وہبی حاصل ہونا اور کلام خدا کے مقصود سے آگاہ ہونا ہے۔ [42]
شیعہ ائمہ:
اہل بیت کے 12 افراد اہل تشیع کے امام ہیں۔ ان میں سے پہلے حضرت علی، اس کے بعد انکے دو فرزند حسن اور حسین ہیں اور ان کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں سے 9 بیٹے ہیں۔ یہ تمام امام علم لدنی کے مالک، مقام عصمت پر فائز اور حق شفاعت کے حاملین میں سے ہیں۔ان کے توسل سے خدا کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ علم کا منبع، دینی تعلیمات اور معاشرے کی سیاسی حاکمیت اور رہبری کا حق انہیں ہی حاصل ہے۔
رسول ختمی مرتبت سے احادیث میں ان کے اسماء اور انکی صفات اور خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ جن سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تمام افراد خاندان قریش سے ہی ہیں اور پیغمبر کے اہل بیت ہیں نیز آخری زمانے کا مہدی بھی انہی میں سے ہو گا۔
حضرت امام علی کے پہلے امام ہونے کے بارے میں رسول اللہ کی واضح احادیث مذکور ہیں اور دیگر آئمہ کے متعلق قطعی نصوص بھی مذکور ہیں جن میں آئندہ کی امامت اور انکے اسما کا بیان مذکور ہے۔ ان احادیث کے متون کی بنا پر اسلام کے آئمہ 12 افراد ہیں جن کے اسما درج ذیل ترتیب کے مطابق ہیں:[43]
• علی بن ابی طالب
• حسن بن علی
• حسین بن علی
• علی بن حسین
• محمد بن علی
• جعفر بن محمد
• موسی بن جعفر
• علی بن موسی
• محمد بن علی
• علی بن محمد
• حسن بن علی
• مہدی علیہم السّلام
امامت اور خاتمیت کی باہمی سازگاری
امامت پر کئے جانے والے اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ امامت کا جو معنی بیان کیا جاتا ہے اور شیعہ حضرات جس کا اعتقاد رکھتے ہیں، کے مطابق خاتمیت کے سازگار نہیں ہے۔کیونکہ شیعہ حضرات کے نزدیک امامت پر فائز شخص میں پائی جانے والی خصوصیات اور آخری پیغمبر کی خصوصیات میں کسی قسم کا تفاوت نہیں پایا جاتا ہے۔[44]
جعفر سبحانی نے اس اعتراض کا یوں جواب دیا ہے :
نبوت اور اسکے علوم کو پروان چڑھانے میں واضح فرق ہے جو کسی وضاحت کے محتاج نہیں ہے۔کیونکہ نبوت کی حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر وحی کے مخاطَب ہوتے ہیں،کلام خدا کو سنتے ہیں خدا کے بھیجے ہوئے کو دیکھتے ہیں اور وہ ایک شریعت کے حامل ہیں یا پہلی شریعت کے مروج ہیں جبکہ امام کسی بھی وحی کے مخاطَب کے بغیر یا کلام خدا کو سنے بغیر یا فرشتے کو دیکھے بغیر پیغمبر کے ان علوم کا خزانہ دار ہوتا ہے جن کی اسے ضرورت ہوتی ہے۔[45]
________________
حوالہ جات: 1. معجم المقاییس فی اللغہ، ص۴۸؛ المصباح المنیر، ج۱، ص۳۱ـ ۳۲؛ لسان العرب، ج۱، ص۱۵۷؛ المفردات فی غریب القرآن، ص۲۴؛ اقرب الموارد، ج۱، ص۱۹؛ المعجم الوسیط، ج۱، ص۲۷ 2. میر سید شریف، التعریفات، ۱۴۱۲ق، ص۲۸؛ بحرانی، قواعد المرام، ۱۴۰۶ق، ص۱۷۴؛ فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، ۱۴۰۵ق، ص۳۲۵؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۳۴؛ میر سید شریف، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۴۵ 3. حلی، الباب الحادی عشر، ۱۳۶۵ش، ص۶۶؛ فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، ۱۴۰۵ق، ص۳۲۵-۳۲۶؛ فاضل مقداد، اللوامع الإلہیۃ، ۱۴۲۲ق، ص۳۱۹-۳۲۰؛ میر سید شریف، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۴۵؛ آمدی، أبکار الأفکار، ۱۴۲۳ق، ج۳، ص۴۱۶؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۳۴ 4. فیاض لاہیجی، گوہر مراد، ۱۳۸۳ش، ص۴۶۱-۴۶۲؛ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان، ۱۳۷۲ش، ص۱۰۷ 5. سوره یس، آیت۱۲ 6. سوره حجر، آیت۷۹ 7. سوره ہود، آیت ۱۷ 8. سوره بقره، آیت ۱۲۴؛ سوره انبیاء، آیت۷۳؛ سوره سجده، آیت۲۴ 9. سوره فرقان، آیت۷۴ 10. سوره قصص، آیت۵ 11. سوره توبہ، آیت۱۲؛ سوره قصص، آیت۴۱ 12. سوره اسراء، آیت ۱۷ 13. الملل والنحل، ج۱، ص۲۲ 14. مقدمہ ابن خلدون، ص۱۹۱ 15. اصول کافی، ج۱، ص۱۵۵ 16. بقرہ 124۔ 17. کلینی، اصول کافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۳۳-۱۳۴، ۱۴۹-۱۵۱ و ۱۵۴؛ آمدی، غایۃ المرام، ۱۴۱۳ش، ج۳، ص۱۲۷-۱۲۹؛ بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۱۴۹-۱۵۱ 18. سوره مائده، آیت ۳ 19. الغدیر، ج۱، ص۲۳۰ـ ۲۳۶؛ غایۃ المرام، ج۳، ص۳۲۸ـ ۳۴۰ 20. سوره مائده، آیت ۶۷ 21. الغدیر، ج۱، ص۲۱۴ـ ۲۲۳؛ غایہ المرام، ج۳، ص۳۲۰ـ ۳۲۷ 22. سورہ اسراء17 23. مجمع البیان، ج۳، ص۴۳۰ 24. نہج البلاغہ، خطبہ ۲۵۲ 25. اصول کافی، ج۲، ص۱۶، حدیث ۵و ۸ 26. تلخیص المحصل، ص۴۰۷ 27. شرح المواقف، ج۸، ص۳۴۵ 28. قواعدالعقائد، ص۱۱۰؛ شرح المقاصد، ج۵، ص۲۳۵؛ تلخیص المحصل، ص۴۰۶؛ کشف المراد، ص۲۹۰؛ شرح المواقف، ج۸، ص۳۴۵ 29. تلخیص المحصل، ص۴۰۷ 30. شرح المقاصد، ج۵، ص۲۳۹ 31. بحارالأنوار، ج۲۳، ص۷۶ـ ۹۵؛ اثبات الوصیہ، ج۱، ص۱۱۲ـ ۱۱۵؛ المستدرک علی الصحیحین، ج۱، ص۱۵۰ و ۲۰۴، احادیث ۲۵۹ و ۴۰۳؛ مسند احمد بن حنبل، ج۱۲، ص۲۷۷؛ ج۱۳، ص۱۸۸، احادیث ۱۵۶۳۶ و ۱۶۸۱۹؛ شرح نہج البلاغہ، ج۹، ص۱۲۵ 32. شرح المقاصد، ج۵، ص۲۳۹؛ شرح الفقہ الأکبر، ص۱۷۹؛ النبراس، ص۵۱۴؛ تلخیص المحصل، ص۴۰۷ 33. شرح المواقف، ج۸، ص۳۴۶؛ شرح العقاید النسفیہ، ص۱۱۰؛ نہایۃ الاقدام، ص۴۷۹؛ غایۃ المرام، ص۳۶۴ 34. المغنی فی أبواب التوحید والعدل، الإمامۃ، ج۱، ص۴۷ 35. الذخیرة فی علم الکلام، ص۴۰۹ـ ۴۱۰ 36. قواعد المرام، ص۱۷۵؛ تقریب المعارف، ص۹۵؛ المنقذ من التقلید، ج۲، ص۲۴۰؛ کشف المراد، ص۴۹۰؛ ارشاد الطالبین، ص۳۲۸ 37. المغنی فی أبواب التوحید والعدل، الإمامہ، ج۱،ص۳۹ـ ۴۱؛ شرح الاصول الخمسہ، ص۵۰۹ 38. الألفین، ص۷ـ۸ 39. مصباح یزدی، آموزش عقائد، ص۳۲۱-۳۲۲ 40. مطباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۶، ص۱۲ 41. جوادی آملی، ولایت فقیہ، ص۱۲۴-۱۲۵ 42. طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص۳۱و۳۲ 43. طباطبائی، شیعہ در اسلام، صص ۱۹۷-۱۹۹. 44. نک: ناصر بن عبد الله بن علی القفاری، أصول مذہب الشیعہ الإمامیہ الإثنی عشریہ، ج۲ ص ۶۵۵؛ سخنرانی دکتر سروش، ۳ مرداد ۸۴ دانشگاه سوربُن پاریس، منبع: پایگاه اطلاع رسانی دکتر عبدالکریم سروش 45. سبحانی، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنہ و العقل، ج۴، ص۳۹