باب 1 – اصول دین
ہر شخص کسی ایک مذہب اور دین کا ماننے والا ہوتا ہے۔ کوئی مسلمان ہے تو کوئی عیسائی، کوئی یہودی ہے تو کوئی ہندو، قرآن مجید میں خداوند کریم فرماتا ہے:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (آل عمران:19)
خدا کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد رب العزت ہوتا ہے:
وَ مَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ۔ (سورہ آل عمران:85)
اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا خواہاں ہو گا وہ اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا۔
ہر دین کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک حصہ دین کی جڑیں اور دوسرا حصہ اس کی شاخیں کہلاتا ہے۔ دین کی جڑوں کو اصول دین اور شاخوں کو فروع دین کہا جاتا ہے۔ اصول دین توحید، نبوت، عدل، امامت اور قیامت ہیں۔ فروع دین دس ہیں, نماز، روزہ، حج، زکات، خمس، جہاد، تولا، تبرا، امربالمعروف و نہی عن المنکر۔
جب کسی درخت کی جڑیں خراب ہو جائیں تو اس درخت کی شاخیں بھی ٹھیک نہیں رہ سکتی۔ پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے فروع دین، نماز، روزہ وغیرہ قبول ہوں تو ہمیں اصول دین کو درست کرنا ہو گا۔ اصول دین کو دلیلوں کی بنیاد پر سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ ہم خدا کو اس وجہ سے نہیں مانتے کہ ہمارے ماں اور باپ مانتے ہیں یا آباء و اجداد مانتے تھے۔
اگر ہم اپنے آبا ء و اجداد کی وجہ سے خدا کو ایک مانتے ہیں تو ہم ان کافروں کی طرح ہوں گے کہ جن سے جب کہا جاتا تھا کہ بتوں کی عبادت نہ کرو تو وہ کہتے کہ ہمارے آباء و اجداد چونکہ بتوں کی عبادت کرتے تھے تو ہم بھی کریں گے۔
اصول دین میں ہر بالغ و عاقل شخص پر اپنی عقل کی طرف سے دلیل قائم کرنا ضروری ہوتا ہے جبکہ فروع دین کو فقط اپنی عقل سے نہیں سمجھا جا سکتا۔
مثال کے طور پر خدا کے ایک ہونے پر (توحید) عقلی دلیل ضروری ہے۔ لیکن نماز و روزہ کے لئے فقط عقل کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ پس اصول دین میں تقلید جائز نہیں (تقلید یعنی کسی کی بات کو بغیر دلیل کے ماننا) بلکہ اپنی عقل سے تمام اصول دین، توحید نبوت عدل امامت و قیامت کو ثابت کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جبکہ فروع دین میں تقلید کرنا واجب ہوتا ہے۔ مجتہد جامع الشرائط کی تقلید فقط فروع دین میں کرنا ضروری ہوتا ہے۔
آنے والے درسوں میں ہم تمام اصول دین پر عقلی دلیلیں ذکر کریں گے اور یہ جاننے کی کوششیں کریں گے کہ اس کائنات کو کس نے بنایا؟ یا یہ خود بخود بن گئی ہے؟ ہمارا پیدا کرنے والا کوئی ہے؟ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کیوں آئے؟ اور ہمیں کہاں جانا ہے؟ ان تمام سوالات کے جواب ہم اپنی عقل سے معلوم کریں گے۔ یہ بات واضح ہے کہ اسلام عقل اور علم کا دین ہے۔ دنیا میں دوسرے دین اور مذہب کی طرح فقط خیالی اور وہمی دین نہیں ہے۔ چونکہ اسلام ہمیں سوال کرنے پر پابندی نہیں لگاتا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ اگر تم نہیں جانتے تو جاننے والوں سے سوال کرو۔ مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’خدا اس شخص پر رحمت نازل کرے جو یہ جانتا ہے کہ کہاں سے آیا ہے؟ کہاں جانا ہے۔‘‘
اگر ہم ان سوالوں کے جواب اپنی عقل سے معلوم کریں گے تو ہمارا دل مطمئن ہو جائے گا اور ہم اپنی من پسند زندگی بسر کر سکیں گے۔