نبوت تمام ادیان الہی کے بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔ اسلامی تعلیمات میں نبوت کو اصول دین میں سے شمار کیا جاتا ہے اور اس پر اعتقاد رکھنا مسلمان ہونے کیلئے شرط ہے۔ قرآن یا سنت نبوی میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور دوسرے انبیاء کو پیامبران الہی کہا جاتا ہے۔ حضرت آدم ؑ سے نبوت کا آغاز ہوا اور قران کی تصریح کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ختم ہوئی ہے نیز اس عقیدے میں اہل سنت اور شیعہ ایک جیسا اعتقاد رکھتے ہیں۔
لغوی معنی
“نبا” یا “نبو” لفظ “نبوت” کی اصل ہے ۔عربی زبان میں “نبا” یا “نبو” درج ذیل معانی کیلئے استعمال ہوتے ہیں:۔ خبر دینے والا[1] ، بلند مقام[2] ، کسی جگہ سے نکلنا[3] ، واضح راستہ[4]،مخفی آواز[5]
رسالت”ر س ل” کے مادے سے اسم مصدر[6] ہے اور پیام ، کتاب، پیغمبری، وہ جسے ذمہ داری سونپی گئی ہو اور بھیجنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے[7]۔اس کی جمع رسائل[8] اور رسالات[9] آتی ہے۔
رسولبھی “ر س ل” کے مادے سے مصدر ہے کہ جس کا معنی آرام کے ساتھ اٹھنا ہے۔ دینی اصطلاح میں احکام کی تبلیغ کیلئے پیام لانے والے اور بھیجے ہوئے کو کہا جاتا ہے[10] اور اسکی جانب مطالب وحی کئے گئے ہوتے ہیں[11]۔
نبی کا تلفظ
لغویوں کی نگاہ میں لفظ “نبی” کا تلفظ اس صورت میں ہے کہ اگر اس لفظ کو “نبا” یعنی ہمزہ کے ساتھ بنایا گیاہو تو اسے ہمزے کے ساتھ اور ہمزے کے بغیر پڑھا جا سکتا ہے اگرچہ ہمزے کے بغیر اس کا تلفظ فصیح تر ہے ۔لیکن نباوۃ اور نبوۃ مرتبے کی بلندی اور علو کے معنی سے لیا گیا ہو تو اسے بغیر ہمزے کے تلفظ کرنا چاہئے ۔[12]
اصطلاحی معنی
ہر مسلک اور اعتقاد کے اسلامی مفکروں نے نبوت کی مختلف تعریفیں پیش کی ہیں۔ ان میں سے بعض نے نبوت کے لوازمات اور اس کی خصوصیات بیان کی ہیں اور بعض نے اس کی دقیق، مانع اور جامع تعریف پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ نبوت کی تمام تعریفوں کے مشترک نکات درج ذیل ہیں:-
• نبی کا انسان ہونا یقینی ہے۔[13]
• تمام انسانوں کی ہدایت ان کی تبلیغ کا ہدف ہے۔[14]
• ان کی دعوت اور تبلیغ مجموعی طور پر ان اسلامی اور الہی معارف پر مشتمل ہے کہ جو عملی اور نظری لحاظ سے لوگوں کی زندگی اور انہیں دنیاوی اور اخروی سعادت تک پہنچانے میں مؤثر ہیں۔[15]
• ان کے اقوال کا ماخذ اور منبع خدا ہے۔[16]
• کسی دوسرے انسان کے واسطے کے بغیر وحی کو حاصل کرنا۔[17]
٭خدا کے پیام کو انسانوں تک پہنچاتے ہیں۔[18]
پس اس بنا پر پیغمبر ایسے انسان کو کہا جا سکتا ہے کہ جسے انسانوں کی ہدایت کے مقصد کیلئے مقرر کیا گیا ہو تا کہ وہ معارف کو کسی انسانی واسطے کے بغیر خدا سے لے اور لوگوں کو پہنچائے۔[19]
نبی اور رسول
علم کلام کی ابحاث میں سے ایک بحث نبی اور رسول کے درمیان فرق کی بحث ہے۔ قرآن پاک میں بعض آیات جیسے سورہ احزاب کی 40 ویں آیت میں نبی اور رسول کا لفظ اکٹھا استعمال ہوا ہے، اس مقام پر مفسروں اور متکلمین کے درمیان تفصیلی بحث شروع ہو گئی ہے۔
ایک گروہ اس بات کا معتقد ہے کہ مفہوم کے لحاظ سے نبی اور رسول باہم مترادف ہیں اور مصداق کے لحاظ سے بھی ان کا مصداق ایک ہے۔ لیکن مشہور قول کی بنا پر مصداق کے لحاظ سے نبی اور رسول کے درمیان اعم و اخص مطلق کی نسبت پائی جاتی ہے۔ یعنی ہر رسول نبی لے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے۔ پس اس بنا پر نبوت لوگوں کی دسترس سے بالا تر ایک بلند مرتبہ ہے اور یہی مقام بعض انبیاء کو رسالت کے منصب عطا کرنے کا مقدمہ بنتا ہے۔[20]
مشابہت
رسالت بھی نبوت کی طرح خدا کی طرف سے لوگوں پر مقام خلافت اور خدا اور بندوں کے درمیان واسطہ ہے۔ رسول خدا کے خواست اور چاہت کے بغیر کچھ نہیں کہتا ہے۔ رسول کا انجام رسالت اور خدا کا پیغام لوگوں تک پہچانے کے علاوہ کوئی اور ہدف اور مقصد نہیں ہوتا ہے ۔[21]
فرق
رسول اور نبی کے درمیان اختلاف کے قائلین کے درمیان رسول اور نبی کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔[22] ان میں سے اہم تریں درج ذیل ہیں:-
• رسول نئی شریعت کا صاحب ہوتا ہے یا پہلی شریعت کے بعض احکام کو مسنوخ کرنے کیلئے مبعوث ہوتا ہے۔
• رسول وہ ہوتا ہے جس کی طرف بیداری اور نیند کی حالت میں وحی کی جاتی ہےاور وہ دونوں حالتوں میں فرشتے کو دیکھتا ہے جبکہ نبی کی طرف صرف نیند کی حالت میں وحی ہوتی ہے اور وہ نیند کے عالم میں فرشتے کو دیکھتا ہے۔[23]
• مرتبے کے لحاظ سے نبی پر وحی کی نسبت رسول پر وحی کا مرتبہ بلند ہے، رسول پر وحی جبرائیل کے ذریعے ہوتی ہے جبکہ نبی پر وحی الہام قلبی یا سچے خواب کے ذریعے ہوتی ہے۔[24] البتہ نبی یا رسول دونوں لفظ رسول اکرمؐ یا حضرت مسیحؑ کیلئے استعمال ہوئے ہیں۔[25]
البتہ بعض روایات میں اس اعتراض کا جواب یوں مذکور ہوا ہے: ایسے مقامات پر پیغمبر کے شخصی معاملات کے بارے میں گفتگو ہے اسلئے نبی کہہ کر خطاب ہوا ہے جیسے رسول اکرمؐ کیلئے “نبی” کہا گیا [26] نیزانکے بار ِرسالت اٹھانے اور رسالتِ عمومی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے انہیں رسول کہا گیا ہے جیسے سورۂ مائدہ کی 61ویں آیت میں يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ کہا گیا۔[27]
انبیاء بھیجنے کی ضرورت
انسان کی نسبت ضرورت دین اور ضرورت انبیاء علم کلام کی اہم ترین بحثوں میں سے جو شروع سے ہی متکلمین اور فلاسفہ کی نگاہ اس پر مرکوز رہی ہے۔ زمانۂ قدیم سے علماء کے درمیان اس بحث یں اختلاف رہا ہے ہندو مذاہب میں سے صرف براہمہ کے پیروکار پیغمبران الہی کی بعثت اور آسمانی شریعت کے نازل ہونے کو لغو سمجھتے تھے دیگر تمام متفکر بعثت انبیاء کو حکمت پر مشتمل اور ایک پسندیدہ عمل قبول کرتے ہوئے خدا کی جانب سے بعثت انبیاء کی ضرورت یا عدم ضرورت کے بارے میں بحث کرتے رہے ہیں۔ گذشتہ صدیوں میں بعض یورپین فلسفیوں نے ادیان کو افیون کہا اور صرف ادیان اور پیغمبروں کے وجود کو ضروری ہی نہیں کہا بلکہ انہیں نقصان دہ، ترقی اور انسان کی آزادی میں رکاوٹ اور ملتوں کیلئے افیون کہا ہے۔[28]۔ اس مسئلے کے بارے میں مختلف اتدلال پیش کئے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض استدلال دینی نظریات اور بعض غیر دینی نظریات پر مشتمل ہیں۔
غیر دینی نگاہ سے استدلال
اس طرز تفکر میں بعثت انبیاء کی ضرورت کو نظری علوم کی ابحاث کی بنیاد پر بیان کیا جاتا ہے اور یہ استدلال درج ذیل چند مقدمات پر مشتمل ہے:-
• خدا انسان کو پیدا کرنے والا ہے۔
• خدا حکیم ہے اور وہ کسی ہدف کے تحت خلق کرتا ہے۔
• انسان کی خلقت سے اس کا مقصد کمال تک پہنچنا ہے۔
• انسان ایک صاحب اختیار موجود ہے۔
• کمال تک رسائی اختیاری افعال کو انجام دینے کے ساتھ ممکن ہے۔
• ایک اختیاری کام کا انجام پانا چند مقدمات پر موقوف ہے: صحیح راستے سے آگاہ ہونا، اس کام کے انجام پانے کے خارجی شرائط کا فراہم ہونا اور اس کام کے انجام دینے پر انسان کا قادر ہونا۔
• قاعدۂ لطف کی بنیاد پر خدا کیلئے ضروری ہے کہ انسان کو انتخاب کرنے کی قدرت دے اور انسان کیلئے صحیح راستے کی شناخت اور پہچان کیلئے شرائط کو بیان کرے ؛
• شناخت کے ذرائع اور وسائل حس، عقل اور وحی ہیں؛
• انسانی زندگی کے انفرادی اور معاشرتی، مادی اور معنوی، دنیاوی اور اخروی تمام پہلوؤں کی شناخت اور پہچان کے راستوں کی شناخت کیلئے حس اور عقل کے ذرائع ناکافی ہیں؛
• تخلیق انسان کی ہدف کے متحقق ہونے کیلئے خداوند حکیم اور لطیف پر ضروری ہے کہ وہ حس اور عقل کے علاوہ کسی اور راستے کی طرف انسان کی راہنمائی کرے اور وہ علم غیب اور ارتباطِ وحی کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔
• غیب سے رابطہ اور دریافت وحی ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہے صرف معدود افراد ہی صحیح افعال انجام دینے کے نتیجے میں ایسی قدرت اور توانائی حاصل کر سکتے ہیں۔[29]
دینی نگاہ سے استدلال
دینی تعلیمات میں مختلف عناوین سے بعثت انبیاء کا مسئلہ بیان ہوا ہے مثلا:
• فطری امور کا زندہ کرنا اور عقل کے نزدیک ابہامات دور کرنا۔[30]
• لوگوں پر حجت کا تمام کرنا اور عذر اور بہانے کا راستہ روکنا۔[31][32]
• انسانوں تک شریعت پہچانااور احکام الہی کی وضاحت کرنا۔[33]
• انسانوں کی تعلیم و تربیت۔[34]
• عدل وانصاف قائم کرنا اور انسانوں کو باہمی ظلم و ستم سے روکنا۔[35]
• طاغوت سےانسان کی آزادی اور دوسرے انسانوں کے ظلم و ستم اور زیر تسلط آنے سے روکنا۔[36][37]
براہمہ کا شبہ
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ خدا کی شناخت اور وحی کو حاصل کرنے کیلئے نبوت اور بعثت انبیاء کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انسان عقل کے سہارے راہ سعادت اور شناخت توحید اور اس پر عمل پیرا ہو سکتا ہے۔ زمانۂ قدیم سے براہمہ[38]، صابئین، تناسخیہ[39]، سمنیہ[40] اور موجودہ دور کے دوئیستی ان میں سے ہیں۔ انکے علاوہ مسلمانوں میں سے احمد بن سرخی اور قطب الدین راوندی کی طرف بھی اس عقیدے کی نسبت دی گئی ہے[41]۔
اعتراض اور جواب
اپنے اس اعتقاد کیلئے ان گروہوں نے چند دلائل پیش کئے ہیں۔ انکا اہم ترین استدلال یہ ہے:
انبیاء کا پیغام اگر عقل کے موافق ہے تو عقل کے ہوتے ہوئے نبی ،اور اسکے پیغام کی ضرورت نہیں ہے اور اگر انبیاء کا پیغام مخالف عقل ہے تو عقل انبیاء کے پیغام کو قبول کرنے سے روکتی ہے[42]۔اور عقلی لحاظ سے اس کی نفی اور جھٹلانا چاہئے[43]۔
لیکن یہ درست نہیں ہے کیونکہ:
عقل کے موافق اور مخالف ہونے کے علاوہ ایک تیسری قسم اشیاء کے درک میں عقل کی قدرت اور توانائی کا نہ ہونا بھی ہے اور یہ قطعی طور پر مخالف عقل کے علاوہ ایک اور چیز ہے۔
وضاحت
وحی کی تعلیمات کی دو قسمیں ہیں : اصول دین کی طرح ایسی تعلیمات ہیں کہ عقل انہیں درک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے یا عقل انہیں درست درک کرنے سے عاجز ہے اور اس مقام پر عقل ان کے بارے میں خاموش ہے اور ان کے متعلق کوئی حکم بیان نہیں کرتی ہے۔ ابتدائے کائنات اور قیامت، صفات خدا اور زندگی گزارنے کا درست طریقہ[44] ایسے امور میں سے ہیں کہ جن کے بارے میں انسانی عقل مستقل طور پر کچھ بیان نہیں کرسکتی ہے اور اس طرح کے امور میں وحی ہماری صحیح راہنمائی کر سکتی ہے۔ لیکن جن مقامات پر انسانی عقل مستقل طور پر رسائی اور قدرت رکھتی ہے ان میں وحی کی راہنمائی دیندار لوگوں کو زیادہ اعتماد بخشتی ہے اور زیادہ تاکید کا فائدہ دیتی ہے۔[45]
بعثت انبیاء کے مقاصد اور فوائد
(جو نیکوکاروں کو) خوشخبری دینے والے (اور بدکاروں) کو ڈرانے والے تھے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی (جس میں قانون تھا)۔ تاکہ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ کرے اور یہ اختلاف انہی لوگوں نے کیا جن کو وہ (کتاب) دی گئی تھی اور وہ بھی تب کہ جب کھلی ہوئی دلیلیں ان کے سامنے آچکی تھیں۔ محض بغاوت اور زیادتی کی بنا پر۔ تو خدا نے اپنے حکم سے ایمان والوں کو ان اختلافی باتوں میں راہِ حق کی طرف راہنمائی فرمائی۔ اور خدا جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف راہنمائی فرماتا ہے۔ (213)
• حقیقی کامل زندگی کی طرف دعوت
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴿٢٤﴾ [51] ترجمہ: اے ایمان والو اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہو۔ جب کہ وہ (رسول) تمہیں بلائیں۔ اس چیز کی طرف جو تمہیں (روحانی) زندگی بخشنے والی ہے۔ اور جان لو۔ کہ اللہ (اپنے مقررہ اسباب کے تحت) انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو
مذکورہ آیت مادی ،معنوی، ثقافتی،اقتصادی، سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی زندگی کے تمام مختلف پہلوؤں کو بعثت کے مقاصد میں سے شمار کرتی ہے۔ [52]
انبیاءؑ کی خصوصیات
لوگوں کو کمال اور قرب خدا تک پہچانے کیلئے پیغمبران الہی ولایت باطنی اور معاشرے کی حاکمیت اور رہبری کے حامل تھے ۔اس رہبری اور لوگوں کی ہدایت کو بہتر طریقے سے انجام دینے کیلئے ضروری ہے کہ وہ احکام شرعی اور ان کے معیاروں کا علم رکھتے ہوں اور بعض تکوینی امور سے آگاہ ہوں ۔قرآن کریم نے علم اور حکمت کو انبیائے الہی کی دو اہم ترین خصوصیات کے عنوان سے یاد کرتا ہے اور ان کے علم اور آگاہی کو چند چیزوں کے ہمراہ ذکر کرتا ہے ۔ علم کو درج ذیل چیزوں کے ہمراہ ذکر کیا ہے :
دیگر آسمانی کتابوں کا علم،امور تکوینی اور اسمائے الہی کا علم[63] دوسرے علوم کے ساتھ علم جیسے حضرت داؤد کے زرہ بنانے کا علم [64] جنوں سے کام لینے کی کیفیت اور پرندوں کی زبان کا علم[65] یا حضرت یوسف کو عطا کئے گئے تعبیر خواب کا علم[66] اور علم ۔
حواس خمسہ کے ذریعے قابل مشاہدہ نہ ہونے والے امور کو جاننا علم غیب ہے۔یہ علم خداوند سے مخصوص ہے اور جو لوگ اس کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس علم سے سوئے استفادہ نہیں کرتے ہیں ،ان کی ظرفیت کے مطابق انہیں یہ علم غیب دیا جاتا ہے ۔[67]
تکرار انبیاء کی حکمت
ابتدائے خلقت انسان سے ہی انسان کی وسائل ہدایت کی طرف احتیاج کے پیش نظر انبیاء موجود تھے۔ ان انبیاء کی تعداد اور انبیاء کی تکرار ایک ایسا سوال ہے جو انسان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواتا ہے ۔ معاشرۂ انسانی میں کیوں اتنی تعداد میں انیباء مبعوث ہوئے؟ کیوں شروع میں ہی دین کامل پیش نہیں کیا گیا؟ جب دینی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے درج ذیل چند جواب ہمیں ملتے ہیں:ـ
• دین کی اصلی تعلیمات کے فراموشی اور تحریف کا خوف
ہدایت بشر کیلئے متعدد انبیاء کے بھیجے جانے کا اصلی عامل لوگوں کے ہاتھوں دینی تعلیمات کی تحریف ہونا ہے ۔انسان زمین پر آباد ہوا اور معاشرے کی صورت میں جب اس کے باہمی تعلقات قائم ہوئے تو لوگوں کے درمیان اختلاف نظر ظاہر ہوا ۔زور گو اور طاقتور ناتوان لوگوں سے ناجائز فوائد حاصل کرنے کا مقصد رکھتے تھے جبکہ انبیائے الہی اپنے مقاصد میں سے ایک مقصد برابری اور مساوات کی بنیاد پر ایک آیڈیل معاشرے کی تشکیل سمجھتے تھے لہذا وہ ایسے طاقتوروں سے مقابلہ کرتے ۔پس ان حالات میں ان طاقتوروں کے پاس انبیاء سے مقابلہ کرنے کا راہ حل یہ تھا کہ وہ دین کی اساسی تعلیمات میں تحریف کوآسان ترین راستہ سمجھیں اور وہ دین کی اساسی تعلیمات میں تحریف کی کوشش کریں ۔ [68]
اعتقادی اور عملی دو مقامات پر تحریف واقع ہوئی جیسے فرشتوں کو لڑکیاں جاننا، حضرت عیسی کو خدا کا بیٹا سمجھنا اور تثلیث کا عقیدہ تحریفی اعتقادات کی مثالیں ہیں جبکہ خدا کے حلال و حرام میں تبدیلی اور بدعت تحریف عملی کی مثالیں ہیں۔ [69]
لوگوں کے درمیان پیغامات الہی کے باقی رہنے،ان کے فراموش نہ ہونے اور ان کے تحریف سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ تاریخ کے مختف حصوں میں ایسے افراد ہونے چاہئے تا کہ وہ پہلے آسمانی پیغاموں یا خدا کی جانب سے صحیح اور درست نئے پیغامات کی تبلیغ کے ذریعے تحریف سے خالی صحیح اور سالم دینی تعلیمات کو لوگوں کے سامنے پیش کریں۔
• آسمانی کتابوں کا ناپدید ہوجانا
حضرت ابو ذر سے منقول روایت کے مطابق ہدایت بشر کیلئے خدا کی جانب سے بہت سی کتابیں انبیاء پر نازل ہوئی ہیں۔مختلف ادیان کے پیروکار فکری بلوغ اور ترقی کے نہ ہونے اور زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کتابوں کی حفاظت نہیں کر سکے ہیں لہذا بہت سی کتابیں ناپدید ہو گئیں اور لوگوں کے ہاتھوں میں موجود نہیں ہیں اور آنے والی نسلیں اس محروم ہیں۔[70]۔اس وجہ سے ضروری ہے کہ بعد میں پیغمبر آئیں تا کہ ناپدید شدہ کتابوں کے متعلق بیان کریں اور لوگوں کیلئے ان کی تعلیمات اور احکام بیان کریں یا انسان کی ہدایت کیلئے ایک جدید اور نئے دینی دستور العمل کو پیش کریں۔
• ضرورتوں اور تقاضوں کا باہمی اختلاف
مختلف ادیان الہی کی اساسی تعلیمات ایک جیسی ،ثابت اور ناقابل تغییر ہیں لیکن دین کی کچھ احکامات ضرورتوں، زمانے کے تقاضوں اور مصلحتوں کے تحت بنائی گئی ہیں اور ضرورتوں، حالات اور مصلحتوں کی کی تبدیلی کے ساتھ وہ احکام بھی تبدیل ہوں گے۔ [71]
مثلا بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کی تنبیہ اور فرمانبردار بنانے کیلئے اور روح عبودیت کی تقویت کیلئے دین یہود میں بعض احکام تھے اور واضح سی بات ہے کہ اس خصوصیت کے ختم ہو جانے اور مخاطبین کے بدلنے کی وجہ سے اب وہ مصلحت بھی موجود نہیں ہے اور وہ احکام منسوخ ہو جائیں گے ۔
• ترقی فہم اور انسانی استعداد
زمانے کے گزرنے ،زندگی کے حالات مختلف ہونے،اجتماعی اور انفرادی سوچ کے استعمال اور انسانوں کے پاس انبیاء کی دی ہوئی تعلیمات کے وسیلے سے انسان تکمیل کے مراحل میں رہا اور جس قدر اس کی عمر زیادہ ہو رہی ہے اسی طرح نئے سے نئے پیغامات حاصل کرنے اور کامل تر ہونے کی صلاحیت میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔اس بات کو مختلف ادیان الہی کے تعلیمات کا باہم مقائسہ کر کے سمجھا جا سکتا ہے ۔ اسی وجہ سے بعض فلاسفہ کا یہ اعتقاد ہے انسان حضرت آدم ؐ سے لے نبی آخر الزمان کی امت تک مسلسل ترقی کر رہا ہے اس وجہ سے ضروری ہے کہ مسلسل انبیاء بھیجیں جائیں اور وہ اپنی امت کی صلاحیت اور استعداد کے مطابق سعادت اور نیکی کے دستور العمل سے انہیں آگاہ کریں۔[72]
تعداد انبیاء
بعض روایات کے مطابق انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار(124000) ہے۔یہ بات رسول اکرم کی حدیث میں وارد ہویئ ہے کہ خدا نے لوگوں کی راہنمائی کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے۔اس کے متعلق رسول اکرم ؐکا ارشاد ہے :
خدائے پاک نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے میں ان میں سے سب سے زیادہ لائق احترام اور خدا کے قریب ترین میں ہوں نیز خدا نے ایک لاکھ چوبیس ہزار وصی خلق کئے ان میں سے خدا کے نزدیک سب سے زیادہ برتر اور لائق احترام علی ہے۔[73]
پہلا نبی
حضرت آدم سب سے پہلے انسان اور تمام انسانوں کے باپ ہیں ۔خدا نے اپنی روح اس کے ڈھانچے میں پھونکی ہے [74] پھر خلقت آدم کی وجہ سے خدا نے اپنی تعریف کی ہے ۔[75]فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اسے سجدہ کریں [76] ان کی بیوی حضرت حوا ہیں[77] ممنوعہ پھل کھانے کی وجہ سے انہیں جنت سے نکالا گیا ۔ وہ زمین پر خدا کی جانب سے سب سے پہلے خلیفہ اور پہلے نبی الہی ہیں۔
آخری نبی
محمد بن عبداللّه بن عبدالمطّلب بن ہاشم (عام الفیل/۵۷۰م. مکہ–۱۱ه.ق./۶۳۲م. مدینہ)اولوالعزم پیغمبروں میں سے آخری نبیؐ ہیں ۔ان کا اصلی معجزہ قرآن پاک ہے ان کے والد کا نام عبدالله بن عبدالمطلب و ان کی والدہ ماجدہ آمنہ وہب کی بیٹی ہیں . آپؐ نے جوانی میں حضرت خدیجہ بنت خویلد سے شادی کی اور ان کے بطن سے حضرت فاطمہ کی ولادت ہوئی۔چالیس سال کی عمر میں غار حراء میں نبی مبعوث ہوئے۔آپ ؐ نے دیناسلام کی تبلیغ کی ۔اس دین کی اساسی تعلیمات یکتاپرستی اور اخلاق پر مشتمل ہیں۔آپؐ حاکم، قانون بنانے والے ، معاشرے کی اصلاح کرنے والے اور فوج کے سپہ سالار تھے ۔دین کی تبلیغ میں آپؐ نے بہت سی مشقتیں اٹھائیں ۔مشرکوں اور یہودیوں کی جانب سے آپؐ کو بہت سی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔
صاحبان کتاب انبیاء
خدا کے بعض پیغمبر صاحبان کتاب تھے۔ وحی کے ذریعے جو پیغام الہی دریافت کرتے تھے اسے مجموعے کی صورت میں کتاب مقدس یا آسمانی کتاب کہتے تھے۔ یہ کتابیں اس دین کے پیروکاروں کیلئے عمل کا معیار اور ان کے اعتقادات کا مجموعہ ہوتیں۔ان کتابوں کے نام یہ ہیں :
• کتاب، حضرت نوحؑ
• صحف، حضرت ابراہیمؑ
• زبور، حضرت داؤدؑ
• توریت، حضرت موسیٰؑ
• انجیل، حضرت عیسیٰؑ
• قرآن، حضرت محمدؐ[78]
صاحب شریعت اور تبلیغی انبیاء
انسان کی زندگی حضرت نوحؑ کے زمانے تک کسی قسم کی اجتماعی مشکلات کے بغیر سادہ طریقے سے گزر رہی تھی ۔اس طرح سے کہ اجتماعی اور معاشرتی ضرورتوں اور اجتماعی پروگراموں کو انجام دینے کیلئے کسی قسم کے قوانین بنانے اور معاشرے میں رہنے کے احکام بنائے جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی ۔زور گو اور طاقتور ابھی تک معاشرے میں ظاہر نہیں ہوئے تھے ۔ اسی وجہ سے حضرت نوحؑ کے زمانے تک صرفتعلیمات وحی کے بیان کرنے کی ضرورت تھی ۔ حضرت نوح ؑ کے زمانے تک کے انبیاء کے درمیان صرف کیفیت کی تبدیلی اور میزان تعلیم کا فرق تھا۔ ایسی نبوت کہ جو حضرت نوحؑ کے زمانے سے پہلے تک موجود تھی،کہا جاتا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت آدم ؑ ،حضرت شیث، حضرت ادریسؑ ،…..ان انبیاء کی نبوت “تبلیغی اور تعریفی” تھی یعنی وہ صرف توحید اوراس کی صفات اور قیامت جیسے دین کے اعتقادات کی تبلیغ اور وضاحت کرنے کے ذمہ دار تھے۔
لیکن انسان کی اپنی زندگی میں ترقی ،معاشروں میں توسیع اور پھیلاؤ، معاشرے میں موجود افراد کے درمیان معاشرتی تضادات کے ایجاد، معاشرے میں طاقتور اور زور گو طبقے کے پیدا ہوجانے اور لوگوں کی جانب سے خدائی دستوروں کی مخالفت کی وجہ سے ایک شریعت کی ضرورت زیادہ محسوس ہوئی ۔ اسی وجہ سے اس کے بعد دینی تعلیمات کے ابلاغ اور ان کی وضاحت کی ذمہ داری کے علاوہ انبیاء موظف تھے کہ وحی سے حاصل ہونے والے احکام کی تبلیغ کریں،لوگوں کو اخلاقی تعلیمات سے آراستہ کریں ، معاشرتی، سیاسی اور عبادتی قوانین و ضوابط بنائیں اور بیان کریں اور خلاصہ یہ کہ وہ انسان کیلئے خدا کی جانب سے قانون اور دستورالعمل لے کر آئیں۔[79]۔ایسی نبوت صرف “اولو العزم” پیغمبروں کے مخصوص تھی اور اسے ” نبوت تشریعی” کہا جاتا ہے۔
اولو العزم انبیاءؑ
کچھ انبیاء اولو العزم نبی کہلاتے ہیں ۔ اولو العزم کے معنی ،تعداد نیز ان کی رسالت کی محدودیت میں مختلف نظریات بیان ہوئے ہیں ۔ ان میں سے مشہور یہ ہے کہ اولو العزم پانچ صاحب شریعت انبیاء حضرت نوح ، حضرت ابراهیم، حضرت موسی،حضرت عیسی اور حضرت محمد علیهم السلام ہیں ۔ [80]
ختم نبوت
ختم نبوت علم کلام سے متعلق مفہوم ہے اور مسلمانوں کے مشترک عقائد میں سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد کوئی نبی اور کوئی دین نہیں آئے گا ۔
قرآن کریم کے سورۂ احزاب کی 40ویں آیت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کیلئے واضح طور پر خاتم النبیین لفظ استعمال ہوا ہے اور “ختم نبوت” کو اسی آیت سے لیا گیا ہے ۔رسول اکرم کی خاتمیت کا اعتقاد خود آپؐ کے زمانے اور ان کے بعد آنے والے زمانوں میں مسلمانوں کے درمیان ایک مسلم اعتقاد کے طور پر رہا ہے ۔[81] بلکہ اس اعتقاد کو اس معنی میں “ضروریات دین ” میں سے شمار کیا جاتا ہے کہ جو شخص رسول اکرمؐ کی نبوت کا اقرار کرتا ہے اسے چاہئے کہ وہ انکی خاتمیت کا اقرار بھی کرے۔[82]
قرآن کا قسم کی تحریف سے محفوظ رہنے،دین اسلام کے جامع اور کامل ہونے، انسان کی ضرورتوں میں تبدیلی اور قرآن کے مخاطبوں کے عقلی لحاظ سے بالغ اور کامل ہونے کو ختم نبوت کی حکمتوں میں سے شمار کیا گیا ہے ۔
نبوت عامہ اور خاصہ
نبوت سے مربوط مسائل مجموعی طور پر دو حصوں :عام اور خاص میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ نبوت عام سے تمام انبیاء سے مربوط مسائل کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور نبوت خاص سے صرف رسول اکرمؐ سے مربوط مسائل کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔[83]
____________________
حوالہ جات
1. ابن منظور ،لسان العرب ج1 ص 162۔
2. طریحی، مجمع البحرین ج1 ص405۔
3. فیومی، مصباح المنیر، ج2 ص591۔
4. خلیل بن احمد، العین،ج8 ص382۔
5. جوہری،قاموس ج1ص74۔
6. ابن منظور، لسان العربج11 ص283
7. دہخدا،لغتنامہ دہخداج7 ص10584۔
8. خلیل بن احمد۔ العین، ج7 ص341۔
9. خاتمی،فرہنگ علم کلام ج1 ص121
10. جرجانی، تعریفات،49۔
11. مؤلفین کا گروہ،159۔
12. طوسی۔ الاقتصادفیما یتعلق بالاعتقاد245۔
13. سورہ ابراہیم 11۔
14. میثم بحرانی ،قواعد المرام فی علم الکلام122۔
15. سورۂ بقرہ129۔
16. فاضل مقداد، النافع یوم الحشر24۔
17. حلی، منایج الیقین فی اصول الدین 403۔
18. حلی ، الباب الحادی عشر34۔
19. صادقی، درآمدی بر کلام جدید 184۔
20. مصطفوی،التحقیق فی کلمات القرآن ج2 ص116۔
21. مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن، ج3 ص118۔
22. ماوردی ص51۔
23. عسکری، معجم الفروق اللغویہ362۔ کلینی، اصول کافی ج1 ص176
24. جرجانی، تعریفات 105۔
25. إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا (مريم51)
26. يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ (الأحزاب: 8)
27. مصطفوی،التحقیق فی کلمات القرآن ج3 ص116
28. ربانی گلپائیگانی، کلام تطبیقی ،ص19 و20۔
29. مصباح یزدی، آموزش عقائد ص177 و 178؛مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی ص16۔
30. ابن عربی ، ص448۔
31. مدرسی، ص257۔
32. طباطبائی ، المیزان فی تفسیر القرآن،ج2 ص141۔
33. سبزواری، محمد بن حبیب، ص558۔
34. سورۂ جمعہ،آیت 2۔
35. طباطبائی، المیزان فی رفسیر المیزان ج2 ، ص199۔
36. کلینی، اصول کافی، ج8 ص 386۔
37. طباطبائی ، المیزان فی تفسیر القرآن ج12 ص243۔
38. فخر رازی، مفاتیح الغیب ج19، ص157۔
39. جرجانی، شرح المواقفج 8 ص234۔
40. تفاتازانی، شرح العقائد النسفیہ ص85۔
41. فاخوری اور خلیل الجرء، تاریخ فلسفہ در جہان اسلام ص343۔
42. حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد 345۔
43. لاہیجی، شرح الاصول الخمسہ ص38۔
44. پیٹرسن اور دوسرے ص 48۔
45. شریف مرتضی۔ الذکیرہ فی علم الکلام ص324؛حلی، الافین ص345۔
46. سورہ نحل 36
47. نہج البلاغہ خطبہ 143۔
48. سورہ جمعہ 2۔
49. سورة الحدید 25۔
50. سورہ بقرہ213
51. سورہ انفال24
52. مصباح یزدی، آموزش عقائد، 23-56
53. طباطبایی، وحی یا شعور مرموز، ص۱۰۴
54. شیخ مفید، النکت الاعتقادیہ، ص۳۵
55. شریف مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، ص۳۲۶
56. حلی، الباب الحادی عشر، ص۹
57. طباطبایی، المیزان…، ج۶، ص۱۲
58. جوادی آملی، ولایت فقیہ، ص۱۲۴
59. کلینی،اصول کافی، ج۱، ص۲۶۵
60. سروش، بسط تجربہ نبوی، ص۱۳۵
61. سروش، بسط تجربہ نبوی، ص۱۳۳
62. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۴، ص۳۸۸ و۳۸۹
63. علی بن ابراهیم، تفسیر قمی، ج۱، صص۴۶
64. سوره انبیاء، آیه۸۰
65. سوره نمل، آیه۱۶
66. سوره یوسف، آیه۲۱
67. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۵، ص۳۹۳
68. مطهری، جامعه و تاریخ، ص۲۱۲
69. سوره انعام، آیه۱۴۰
70. مطهری، وحی و نبوت، ص۱۸۲
71. قیصری، شرح فصوص الحکم، ج۱، ص۱۳۶
72. صدرالمتألهین، شرح اصول کافی، کتاب الحجة، ص۴۲۴
73. مجلسی، ج۱۱، ص۳۰
74. سورۂ حجر، آیه۲۹
75. سورۂ مومنون، آیه۱۴
76. سورۂ بقرہ، آیه۳۴
77. سورۂ نساء، آیت۱
78. ر.ک: کلینی، ج۱، ص۲۴۰
79. سبزواری، شرح الأسماء الحسنیٰ، ص۵۵۲ و۵۵۳
80. طباطبایی، المیزان، ج۲، ص۱۴۱ و ۱۴۲
81. آمدی، ص۳۶۰
82. بغدادی، کتاب اصول الدین، ص۱۶۲؛ نیز رجوع کریں: فاضل مقداد،الاعتماد فی شرح واجب الاعتقاد، ص۸۴؛ آلوسی،تفسیر روح المعانی ج۲۲، ص۳۴
83. پرسمان دانشجویی