مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ماتمی انجمنوں کی مرکزی کمیٹی، صوبۂ تہران کی ماتمی انجمنوں کے عہدیداروں اور صوبۂ تہران کی مبلّغ خواتین نے 3 اگست 1994 کو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے ماتمی انجمنوں، قیام امام حسین اور دینداری کے موضوع پر بڑے اہم نکات بیان کئے۔
خطاب حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے تو میں آپ سب برادران و خواہران گرامی کو خوش آمدید کہتا ہوں جنھوں نے اس حسینی نشست میں شرکت کی ہے اور بحمد اللہ ہماری اس نشست نے سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی مجلس عزا کی خوشبو حاصل کر لی ہے۔
ماتمی انجمنیں، ہمارے مسلمان معاشرے میں حسینی روشنی کی ایک جھلک
ہمارے عوام کے لیے ماتمی انجمنوں کا موضوع ایک عام اور روزمرہ کا معاملہ ہے اور لوگوں کے دل اور ان کی آنکھیں ان سے مانوس ہیں لیکن اگر کوئي زیادہ باریکی اور حقیقت بیں نظروں سے دیکھے تو یہ ہمارے مسلمان معاشرے میں حسینی ضوفشانی کا ایک مظہر اور اس عظیم الہی تحریک کی مسلسل جاری برکتوں اور ثمرات میں سے ایک ہے۔ حسین ابن علی علیہ السلام کے واقعے کے سلسلے میں آپ ایران کے عوام اور دنیا بھر کے شیعوں کی عزاداری کے ماضی پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ عزاداری کی یہ سنت و روایت موجودہ شکل میں ان کے تمام ادوار اور مختلف سماجی حالات میں موجود رہی ہے۔ دشمن، شیعوں کی اس دینی اور الہی سنت کو ان سے سلب نہیں کر سکے اور یہ چیز عزاداری کے سلسلے میں عوام کے دلوں اور مسلمانوں کے ایمان و عقیدے میں گہرے اثر اور عمیق ایمان کی نشاندہی کرتی ہے، چاہے یہ عزاداری کی مجلس کی شکل میں ہو یا فعال ماتمی انجمنوں کی شکل میں ہو۔
رضا خان کے گھٹن بھرے دور میں بھی مجالس عزا کا سلسلہ نہیں رکا
ان انجمنوں کے اندر موجود صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ آپ دیکھیے کہ رضا خان کے گھٹن بھرے دور میں بھی، جب عوام کے ہر قدم پر، چھوٹے سے چھوٹے قدم پر بھی رضاخانی آمریت کے پٹھو، جو اسلام کے مخالف اور تشیع کے مراسم کے مخالف تھے، گہری نظر رکھتے تھے اور ان پر سختی کرتے تھے، دباؤ ڈالتے تھے اور ایذائيں دیتے تھے، یہاں تک کہ گھروں کے اندر اور صبح کی اذان سے پہلے ہونے والی مجلسوں پر بھی نظر رکھتے تھے اور اگر وہ کسی مجلس یا مرثیہ پڑھنے والے کو دیکھتے کہ وہ صبح کی اذان سے پہلے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہا ہے اور اگر انھیں معلوم ہوتا یہ امام حسین علیہ السلام کے کسی مسلمان عاشق کے گھر میں تنہائي میں مرثیہ پڑھنے جا رہا ہے تو وہ اس کا تعاقب کرتے اور کبھی کبھی جیل میں بھی ڈال دیتے تھے۔ ان حالات میں بھی ماتمی انجمنوں نے اپنا کام متوقف نہیں کیا، اس زمانے میں جو لوگ تھے، انھوں نے ہمیں بتایا ہے کہ نویں اور دسویں محرم اور ان دو دنوں کے آگے پیچھے کے ایام میں لوگ، شہروں سے باہر چلے جاتے تھے، صحراؤں میں، شاہراہوں سے دور، کبھی کبھی کھنڈروں میں، رضاخانی پولیس کی رسائی سے دور کے دیہی علاقوں میں، وہاں جا کر ماتمی جلوس نکالتے تھے اور عزاداری کرتے تھے۔ یہ کیسا ایمان ہے؟ کیسا عظیم اور اٹوٹ عقیدہ اور محبت و عقیدت ہے جو ان ماتمی انجمنوں کے توسط سے آگے بڑھتی رہی ہے؟ یہ معاملے کا ایک رخ ہے۔
سنہ انیس سو ترسٹھ کے قیام اور اسلامی انقلاب میں عزاداری کی انجمنوں کا احتجاجی کردار اور انقلابی ماہیت
اس وقت جب تہران اور بعض دوسری جگہوں کے لوگ اور علمائے دین اور تحریک کی قیادت کے دفاع کے لیے بارہ محرم اور پانچ جون سنہ انیس سو ترسٹھ کو احتجاج کرنا چاہتے تھے تو وہ ماتمی انجمنوں کی شکل میں ہی باہر نکلتے ہیں اور تہران کی سڑکوں پر ماتم و سینہ زنی کرتے ہیں، زنجیر کا ماتم کرتے ہیں اور عزاداری کرتے ہیں لیکن ان کے نوحے، ظالم، آمر اور گھناؤنی پہلوی حکومت پر اعتراض پر مبنی ہوتے ہیں جس نے ان کے امام اور رہبر، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو پانچ جون سنہ انیس سو ترسٹھ گرفتار کر لیا تھا، یعنی یہ ماتمی جلوس، ایک انقلابی ماہیت حاصل کر لیتا ہے اور اس میں حیرت کی کوئي بات نہیں ہے، خود امام حسین علیہ السلام کا واقعہ، ایک انقلابی واقعہ ہے، ان کی تحریک کے جو آثار باقی ہیں، انھیں اسی سمت میں اور اسی ہدف کی راہ میں آگے بڑھنا چاہیے۔ تحریک کے آخری سال میں انقلاب کی کامیابی بھی بلاشبہ بڑی حد تک ان ہی ماتمی انجمنوں کی مرہون منت ہے جنھوں نے پورے ملک میں ہر جگہ سنہ انیس سو اناسی کے عاشورا اور عشرۂ محرم کو لوگوں نے اس خبیث حکومت کے خلاف عوام کے بھرپور اعتراض و احتجاج، امام خمینی کی حمایت اور اسلامی نظام کے مطالبے کے اظہار کے لیے ان ماتمی انجمنوں کو ایک وسیلے میں تبدیل کر دیا۔ تو یہ ماتمی انجمنوں کی توانائی ہے۔ گھٹن کے دور میں، لوگوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ رضاخانی پولیس کی نظروں سے دور، گوشوں میں اور سڑکوں پر تشکیل پاتے تھے اور پھر سنہ انیس سو اناسی میں اور اس کے بعد کے برسوں میں پوری دنیا کے لوگوں کی نظروں کے سامنے اور دنیا بھر کے ٹی وی کیمروں کے سامنے یہ انجمنیں اپنا کام کرتی رہی ہیں، یہ ایرانی قوم کے رجحان اور اس کی خواہش کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ انجمنیں کتنی عظیم ہیں۔
ماتمی انجمنیں، اہلبیت پیغمبر پر لوگوں کے ایمان و اعتقاد کی حفاظت کا ذریعہ
ان سب کے علاوہ اہلبیت پیغمبر علیہم السلام سے عشق و محبت، امام حسین علیہ السلام سے عشق، سید الشہداء کے اصحاب و انصار سے عشق و عقیدت، عاشورا کے واقعے کے سلسلے میں غم و حزن، ان ماتمی انجمنوں کی روح ہے۔ یہ معمولی چیزیں نہیں ہیں۔ کوئي یہ نہ سوچے کہ ماتمی انجمن یونہی ایک چیز ہے، اگر ہوئي تو ہوئي، نہ ہوئي تو نہ ہوئی، ایسا نہیں ہے۔ ماتمی انجمنیں دراصل اہلبیت پیغمبر پر ہماری عظیم قوم کے ایمان و اشتیاق کی حفاظت کا ستون ہیں، آج کے دور کو عاشورائے حسینی کے دن سے جوڑنے والی مضبوط کڑیاں ہیں، اس دن کے جذبے کو ہمارے آج کے دور تک منتقل کرتی ہیں، امام حسین کی یاد کو تازہ کرتی ہیں۔ برسہا برس سے اسلام، قرآن اور اہلبیت پیغمبر کے دشمن سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ معاشرے کے ماحول کو، غیر ماتمی بنا دیں لیکن جب محرم کا عشرہ آتا ہے، عاشورا کے ایام آتے ہیں، یہ حسینی انجمنیں کام کرنے لگتی ہیں، سڑکوں پر، گلی کوچوں میں، لوگوں کی زندگي کے ماحول میں بارش کے پانی کی طرح جو گندگي اور غلاظت کو دھو دیتا ہے اور ماحول کو پاکیزہ بنا دیتا ہے، اسی طرح یہ انجمنیں بھی سماج کے ماحول کو دھو دیتی ہیں اور ماحول میں دشمن کی جانب سے تیار کی گئی اور پھیلائي گئي غلط باتوں کو دھو کر ماحول کو پاکیزہ بنا دیتی ہیں۔
انجمنوں کے عہدیداروں اور عوام کی جانب سے موکبوں اور ماتمی دستوں کی قدردانی کی ضرورت
ان انجمنوں کی بہت زیادہ قدر کیجیے، آپ بھی، جو ان انجمنوں کے عہدیدار ہیں، واقعی اس کام کو ایک اہم اور بنیادی کام سمجھیے، عقیدے اور محبت کی بھی ذمہ داری سمجھیے اور عقیدت و عطوفت کی بھی ایک بڑی ذمہ داری سمجھیے اور سنجیدگي کے ساتھ ماتمی انجمنوں کے موضوع کو دیکھیے اور ان کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے جو بھی کام ممکن ہو، کیجیے۔ اسی طرح عوام بھی ان انجمنوں کی قدر کریں۔ لوگ فطری طور پر ماتمی انجمنوں کے رکن ہوتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ عزاداری کے ان موکبوں میں چل پڑتے ہیں – ہر کوئي اپنے اپنے طور پر – ان انجمنوں میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان کے ساتھ عزاداری کرتے ہیں، ان کی عزاداری کو دیکھتے ہیں، آنسو بہاتے ہیں اور ان کی حالت مصیبت اور عزاداری والی ہو جاتی ہے۔ بہت بڑا واقعہ ہے۔
ماتمی انجمنوں کو کمزور اور ختم کرنے کی پہلے اور دوسرے پہلوی حکمراں کی کوشش
دنیا میں کہیں بھی ایسا کوئي ذریعہ نہیں ہے کہ دشمن کی تمام تلواریں اس کے سامنے کند پڑ جائیں، دشمن کے تمام پروپیگنڈے اس وسیلے کے سامنے بے اثر ہو جائیں۔ بہت کوشش کی گئي کہ اسے ختم کر دیا جائے لیکن دشمن کے ہاتھ ناکامی ہی لگي۔ یہ رضا خان کے زمانے کی بات ہے۔ اس کے بعد بہت کوشش کی گئي کہ اسے راستے سے ہٹا دیا جائے، منحرف کر دیا جائے۔ میں نے دوسرے پہلوی کی طاغوتی سلطنت کے زمانے میں دیکھا تھا اور جانتا تھا کہ معاشرے کے مختلف گوشوں میں ان ماتمی انجمنوں کو بدنام افراد کے ہاتھوں میں سونپا جاتا تھا تاکہ انجمنوں کو لوگوں کی نظروں سے گرا دیا جائے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے۔ ماتمی انجمنیں، ماتمی انجمنیں ہی رہیں، عزاداری کی انجمنیں، عزاداری کی انجمنیں ہی رہیں۔ یہ مانا جا سکتا ہے کہ کچھ دنوں تک کچھ خراب لوگ کسی انجمن میں رہے ہوں لیکن وہ ختم ہو گئے، نابود ہو گئے مگر انجمنیں بدستور، باقی رہیں جیسا کہ کلمۂ حق کی فطرت ہے۔ بہت زیادہ کوششیں کی گئيں تاکہ ان انجمنوں کو حسینی ماحول سے نکال دیا جائے لیکن اس میں ناکامی ہی ہاتھ لگي۔
تحریک حسینی کے علمبرداروں کی فہرست میں بزرگ مراجع تقلید، عرفاء اور عام لوگ سب شامل
آپ براداران عزیز سے میری درخواست یہ ہے کہ اپنے آپ کو حسینی تحریک کا عملدار سمجھیں۔ حسینی عزاداری کا عَلَم آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ بہت بڑا مرتبہ ہے، یہ بہت مقدس عہدہ ہے۔ اگر عاشورا کے دن امام حسین علیہ السلام کی تحریک ختم ہو گئي ہوتی تو امام حسین کو پھر علمدار کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن بات یہ ہے کہ حسینی تحریک، ان کے فرزند معصوم حضرت بقیۃ اللہ الاعظم امام زمانہ ارواحنا فداہ و عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے قیام تک باقی ہے، یہ تحریک ختم ہونے والی تو نہیں ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرا ہے، ویسے ویسے حسینی تحریک زیادہ پھیلتی گئي ہے، اس کی گہرائياں مزید واضح ہوتی گئي ہیں، اس تحریک کے ہر حصے کا ایک علمدار ہے۔ فقاہت کی دنیا، تحریک حسینی کا ایک حصہ ہے، اس کے علمدار بزرگ مراجع تقلید ہیں، روحانیت اور عرفان کی دنیا، تحریک حسینی کا ایک حصہ ہے، اس کے علمدار، عرفاء ہیں، عوامی زندگي کا وسیع میدان جو اسلام کی طرف بڑھ رہا ہے اور اسلامی تحریک، اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت، امام حسین علیہ السلام کی تحریک کا ایک حصہ ہے، اس کے بھی اپنے خاص علمدار ہیں، عوام کے درمیان اس تحریک کی ثقافت کی بقا بھی اس تحریک کا ایک حصہ ہے، اس کے علمدار وہ لوگ ہیں جو حسینی عزاداری کا انعقاد کرتے ہیں، امام حسین کے شایان شان طریقے سے یہ کام انجام دیتے ہیں۔
اسلامی انقلاب سے پہلے اور بعد میں عوام کے ایمان کو باقی رکھنے اور اسے بہتر بنانے میں ماتمی انجمنوں کا مثبت کردار
آپ نے دیکھا کہ سنہ انیس سو اناسی میں آپ کی ان ہی ماتمی انجمنوں نے عوام کے درمیان حقائق کو واضح کرنے میں کتنا بڑا کردار ادا کیا۔ لوگ سڑکوں پر راستہ چلتے تھے اور عزاداری کی انجمنوں کے نوحے ان کے لیے اس وقت کے بہترین سیاسی اور انقلابی تبصرے ہوا کرتے تھے جو حقائق کو بیان کرتے تھے، سنہ انیس سو ترسٹھ میں بھی ایسا ہی تھا، مسلط کردہ جنگ کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ عالم اسلام کو کس طرح کے دشمنوں کا سامنا ہے؟ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ پلید اور خبیث صیہونی، دنیا میں کیا کر رہے ہیں؟ آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکا، عالمی غنڈے اور ڈکٹیٹر کی حیثیت سے آج کس طرح اسلام اور اسلامی تحریک کا دشمن بنا ہوا ہے؟ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بھر کے طاغوت آج اسلام کے تئیں کتنا کینہ رکھتے ہیں؟ کیونکہ اسلام اور قرآن نے انھیں طمانچہ رسید کیا ہے۔ دوسری جانب آپ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح دنیا میں ہر جگہ مسلم اقوام کے جذبات، اسلامی احکام، اسلامی تعلیمات اور اسلامی حکومت کے لیے مچل رہے ہیں؟ ماضی میں اسلامی ملکوں کے عوام بے حس تھے، کوئي قدم نہیں اٹھاتے تھے، کوئي اقدام نہیں کرتے تھے، اسلام کے لیے ان کا دل نہیں تڑپتا تھا لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ آج دنیا میں ہر جگہ مسلم اقوام، چاہے وہ شیعہ ہوں یا غیر شیعہ، یہ چیز شیعوں سے مختص نہیں ہے، اس قبۃ الاسلام یعنی ایران اسلامی میں اسلام کے لہراتے پرچم سے وابستگی اور محبت کا احساس کرتے ہیں اور آپ دشمن کی خواہش کے برخلاف دنیا میں اسلام کی روز افزوں پیشرفت اور بڑھتے اثر و رسوخ کو دیکھ رہے ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ بحمد اللہ ایران اسلامی دنیا میں روز بروز زیادہ عزیز ہوتا گيا ہے اور زیادہ معتبر و معزز ہوتا جا رہا ہے اور اسی طرح امت مسلمہ بھی زیادہ پروقار ہوتی جا رہی ہے۔ یہ ساری وہ باتیں ہیں جنھیں آپ کی ماتمی انجمنیں ببانگ دہل بیان کر سکتی ہیں۔
عزاداری سے قمہ زنی کی بدعت کو دور کرنے میں امام حسین کے عاشق نوجوانوں کی بصیرت کا کردار
عزاداران حسینی کا ماتم وہی وسیلہ ہے جو اہلبیت علیہم السلام کی محبت اور ولایت کو ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچا سکتا ہے۔ دشمن، آپ کے عزاداری کے پروگراموں کو آپ کو ہاتھوں سے چھیننے نہ پائيں۔ دشمنوں کا ایک راستہ یہ ہے کہ انھیں خرافات اور توہمات سے آلودہ کر دیں کہ اس سال آپ لوگوں کی بیداری اور امام حسین علیہ السلام کے عاشق اور مومن نوجوانوں کے گہرے ایمان کی بدولت، دشمن کے ہاتھوں کا وسیلہ اور بہانہ بننے والی ایک چیز کا بڑا حصہ پوری طرح سے ختم ہو گيا، وہ قمہ زنی کا مسئلہ تھا۔ حسینی انجمنوں کی عزاداری – یعنی یہی عام عزاداری جو صدیوں سے جاری ہے اور لوگ گھروں سے باہر نکل آتے ہیں، سڑکوں پر عزاداری کرتے ہیں اور مصیبت کے طور پر سینہ زنی کرتے ہیں – تحریک حسینی کا عظیم پلیٹ فارم ہے جو ہمارے ملک میں ہر جگہ اور جہاں کہیں بھی اہلبیت کے چاہنے والے، ان سے عقیدت رکھنے والے، خاص طور پر شیعہ ہیں، وہاں اس کی رونق ہے اور روز بروز اس کی رونق میں اضافہ ہونا چاہیے۔
امام حسین، ان کا خاندان اور عاشورا کے شہدا، عزاداروں کے ایمان کے پشت پناہ
لوگوں کو انجمنوں کی قدر و قیمت سمجھنی چاہیے۔ خود ماتمی انجمنوں کو اس عظیم سرمائے کی قدر سمجھنی چاہیے اور ان شاء اللہ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام، ان کا خاندان، ان کے اصحاب اور عاشورا کے شہدائے عالی مقام اپنی پاکیزہ روحوں کے ساتھ آپ کے اس ایمانی، اسلامی اور جذباتی قدم کے پشت پناہ ہیں۔
ہمیں امید ہے کہ روز بروز یہ حسینی مراکز فروغ پاتے رہیں گے اور یہ علم اور زیادہ لہرائے گا اور ان شاء اللہ آپ سب امام حسین علیہ السلام سے اپنا اجر حاصل کریں گے اور ہم سب حسین ابن علی علیہ السلام کی عزاداری کے خادموں کی زمرے میں آئيں گے، اپنی عمر امام حسین علیہ السلام اور پیغمبر کے مقدس گھرانے کی محبت کے ساتھ پوری کریں گے اور ان شاء اللہ ان کی راہ میں شہادت کا فیض ہمیں حاصل ہوگا۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) اس ملاقات کی ابتدا میں اسلامی تبلیغات کے ادارے کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین محمود محمدی عراقی نے مختصر تقریر کی