کیا امام حسین علیہ السلام کے لیے عزا داری کرنا بدعت ہے؟ (حصہ اول)
وھابیت کی طرف سے ہمیشہ قيام حضرت امام حسين عليه السلام اور ان کی عزاداری کے بارے میں شبھات بیان ہوتے رہے ہیں۔ ان شبھات میں سے ایک یہ ہے کہ امام حسين عليه السلام کے لیے عزاداری کرنا حرام و بدعت ہے۔ اس بارے میں ابن تیمیہ ایسے کہتا ہے کہ:
1 ـ ومن حماقتهم إقامه المأتم والنياحه علي من قد قتل من سنين عديده.
شیعوں کی حماقت میں سے ہے کہ مجلس عزا، ماتم اور نوحہ برپا کرنا ایک ایسے بندے پر کہ جو کئی سو سال پہلے قتل ہو چکا ہے۔
منهاج السنه النبويه، ابن تيميه، ج 1، ص 52.
2 ـ وصار الشيطان بسبب قتل الحسين رضي الله عنه يحدث للناس بدعتين، بدعه الحزن والبكاء والنوح يوم عاشوراء… وبدعه السرور والفرح.
شیطان نے حسین(ع) ک قتل ہونے کی وجہ سے لوگوں کے لیے دو بدعتیں ایجاد کی ہیں: 1۔ بدعت گریہ و حزن روز عاشورا۔ 2۔ بدعت خوشی و جشن منانا۔
منهاج السنه، ابن تيميه، ج 4، ص 334 تا 553.
وہی مطلب اس عبارت میں ذکر ہیں:
3 ـ الروافض لما ابتدعوا إقامه المأتم وإظهار الحزن يوم عاشوراء لكون الحسين قتل فيه…
رافضیوں نے ایک بدعت ایجاد کی ہے وہ یہ کہ حسین(ع) کے روز عاشورا قتل ہونے کی وجہ سے مجالس عزا، گريہ اور ماتم برپا کرتے ہیں۔
حاشيه رد المحتار ابن عابدين، ج 2، ص 599.
اس شبھے کا جواب ہم چند فصلوں میں آپ کی خدمت میں بیان کرتے ہیں:
فصل اول: معنی بدعت اور اس کے اركان۔
فصل دوم:
قرآن اور انبياء کے نزدیک گرئیے اور اشک کا مقام و منزلت۔
فصل سوم:
سنت و سیرت نبوی میں گرئیے اور اشک کا مقام و منزلت۔
فصل چهارم:
سنت نبوی میں امام حسين عليه السلام کی عزاداری۔
فصل پنجم:
سیرت آئمہ معصومین(ع) میں امام حسين عليه السلام کی عزاداری۔
فصل ششم:
سيرت صحابه میں عزاداري.
فصل هفتم:
اهل سنت میں عزاداري ۔
مقدّمه:
خوشی کے مواقع پر خوشی منانا اور غم کے مواقع پر غمگین ہونا یہ ایک فطری عمل ہے ۔ اس فطری عمل پردنیا کے تمام عقلاء اور اقوام کا اتفاق ہے۔ تمام ادیان آسمانی نے بھی اس فطری عمل کی تائید اور تصدیق کی ہے۔
اب دیکھنا اور جاننا یہ ہے کہ جو لوگ عزاداری سيد الشهداء عليه السلام کو بدعت کہتے ہیں کس بنیاد اور کس دلیل کی بنا پر وہ یہ بات کرتے ہیں۔
کیا یہ دعوی ثابت کرنے کے قابل ہے یا نہیں؟اہل بیت(ع) کے لیے عزاداری اور خاص طور سيد الشهداء امام حسین عليه السلام کے لیے عزاداری کرنا کیا یہ عمل صحیح ہے یا نہ؟
فصل اول: معنی بدعت اور اس کے اركان:
1 ـ معنی بدعت کے متعلق غلط فہمی:
آسان اور صاف بات یہ ہے کہ وہابیت نے کیونکہ بدعت کے معنی کو صحیح طور پر نہیں سمجھا اس لیے اپنے وہم و گمان میں جو بات اور جو کام خود ان کے عقیدے و فکر کے خلاف ہوتا ہے وہ اس کو بدعت کہتے ہیں اور اسی بنیاد پر دوسروں کے خلاف فتوے دیتے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے بدعت کے لغوی اور اصطلاحی معنی کو بیان کیا جائے اور پھر قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھا جائے کہ بدعت کس کو کہتے ہیں۔
2 ـ معنی لغوی «بدعت»
اہل لغت ہر اس چیز کو بدعت کہتے ہیں کہ جو پہلے بالکل موجود نہ ہو اور بعد میں وجود میں آئی ہو۔
جوهري لکھتا ہے کہ:
البدعه: إنشاء الشيء لا علي مثال سابق، واختراعه وابتكاره بعد أن لم يكن.
بدعت یہ ہے کہ اک چیز جو پہلے موجود نہ ہو اس کو وجود میں لانا اور ایسا عمل و کام کہ جو پہلے انجام نہ پاتا ہو اس کو انجام دینا۔
صحاح اللغه، جوهري، ج3، ص113
واضح طور بدعت کے اس معنی کو آیات اور روایات نے حرام قرار نہیں دیا کیونکہ اسلام نئی نئی چیزوں کے انسانی زندگی میں ایجاد کرنے کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ کام انسانی فطرت کے مطابق ہیں ۔ اسلام نے انسان کو اپنی فردی اور اجتماعی زندگی میں ہمیشہ ترقی اور بہتر سے بہتر ہونے کا حکم دیا ہے۔
بدعت کے اس معنی میں وہ بڑے بڑے موجد کہ جو نئی نئی چیزیں ایجاد کرتے ہیں، بھی آ جاتے ہیں حالانکہ کوئی ان کی مذمت نہیں کرتا بلکہ سب ان کی تعریف کرتے ہیں اور کوئی بھی صاحب عقل سلیم ان کی ایجاد کو بدعت نہیں کہتا۔
3 ـ معنی اصطلاحی «بدعت» نزد علماء شيعه و سنی:
علماء کے نزدیک بدعت کا ایک دوسرا معنی ہے جو لغوی معنی سے مختلف ہے کیونکہ بدعت یہ ہے کہ نسبت دینا اور داخل کرنا ایک چیز کو دین میں کہ شارع دین نے اس کو دین کا جز نہیں کہا اور نا ہی وہ اس چیز کو دین میں داخل کرنے پر راضی ہے۔
بدعت کا ہر وہ معنی دین میں قابل بحث ہے جس کو دین میں دین کے نام پر کم یا زیادہ کیا جائے۔ یہ معنی غیر از معنی لغوی ہے کہ جو پہلے بیان ہوا ہے۔
راغب اصفهانی کہتا ہے کہ:
والبدعه في المذهب: إيراد قول لم يستنَّ قائلها وفاعلها فيه بصاحب الشريعه وأماثلها المتقدّمه وأصولها المتقنه.
دین میں بدعت ہر وہ قول اور فعل ہے جس کی نسبت صاحب دین کی طرف نہ ہو اور وہ قول اور فعل احکام دین سے بھی نہ لیا گیا ہو۔
مفردات ألفاظ القرآن، راغب أصفهاني، ص 39.
ابن حجر عسقلانی کہا ہے کہ:
والمُحْدَثات بفتح الدال جمع مُحْدَثَه، والمراد بها: ما أحدث وليس له أصل في الشرع ويسمّي في عرف الشرع بدعه، وما كان له أصل يدلّ عليه الشرع فليس ببدعه.
ہر وہ نئی چیز کہ جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہ ہو دین کی رو سے بدعت کہلاتی ہے اور ہر وہ نئی چیز جس کا دین سے تعلق ہو اور دین نے اس سے منع بھی نہ کیا ہو وہ، دین کی رو وہ بدعت نہیں کہلاتی۔
فتح الباري، ج 13، ص 212.
اسی تعريف کو عيني نے شرح صحيح بخاري(1) ،مباركفوري نے شرح صحيح ترمذي (2) ، عظيم آبادي نے شرح سنن ابوداود(3) اور ابن رجب حنبلي نے جامع العلوم(4)میں ذكر کیا ہے۔
1) عمده القاري، ج 25، ص 27.
2) تحفه الأحوذي، ج 7، ص 366.
3 ) عون المعبود، ج 12، ص 235.
4 ) جامع العلوم والحكم، ص 160، چاپ هند.
سيّد مرتضی متکلم اور فقیہ شيعه بدعت کی کرتے ہیں کہ:
البدعه زياده في الدين أو نقصان منه، من إسناد إلي الدين.
دین کی طرف نسبت دیتے ہوئے دین میں کسی چیز کا اضافہ کرنا یا دین سے کسی چیز کو کم کرنا بدعت کہلاتا ہے۔
رسائل شريف مرتضي، ج 2، ص 264، نشر دار القرآن الكريم ـ قم.
طريحی کہتا ہے کہ:
البدعه: الحدث في الدين، وما ليس له أصل في كتابٍ ولا سنّه، وإنّما سُمّيَتْ بدعه؛ لأنّ قائلَها ابتدعها هو نفسه.
بدعت، دین میں ہر وہ نئا کام ہے کہ جسکی تائید و دلیل قرآن و سنت میں موجود نہ ہو۔ اسکو بدعت اسلیے کہتے ہیں کہ کہنے والے نے اس کو نئا ایجاد کیا ہے۔
مجمع البحرين، ج 1، ص 163، مادّه «بدع»
4 ـ اركان بدعت:
بدعت کے معنی اصطلاحی کی روشنی میں بدعت کے دو اصلی رکن ہیں:
1 ـ دين میں رد و بدل:(زیادہ یا کم کرنا)
ہر طرح کا رد و بدل کہ جس کا ھدف دین کو خراب کرنا ہو یعنی چیز کا دین میں اضافہ کرنا یا کم کرنا اس شرط کے ساتھ کہ وہ بندہ اپنے اس عمل کو خدا اور پيغمبر صلي الله عليه و آله کی طرف نسبت دے۔
2 ـ عدم دلیل از قرآن و سنت:
بدعت کے معنی اصطلاحی کی روشنی میں واضح ہوا ہے کہ وہ چیز بدعت شمار ہوتی ہے کہ جس پر قرآن و سنت میں کوئی خاص یا عام دلیل نہ ہو۔
لیکن ہر وہ چیز جس پر قرآن و سنت میں سے دلیل موجود ہو یا وہ چیز دین اسلام و دوسرے ادیان الھی میں موجود ہو اور مطابق فطرت سلیم بشر ہو ایسی چیز بدعت نہیں کہلائے گی۔
5 ـ سبب انحراف وهابيت در معنی «بدعت»
بدعت کے معنی لغوی و اصطلاحی اور اس کے ارکان کی روشنی میں واضح ہوا کہ کسی شخص یا کسی گروہ کی طرف بدعت کی نسبت دینا اتنا آسان نہیں ہے جتنا وھابی سمجھتے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف، اسلام اور انسانیت ہے کہ ہر نئی چیز یا نئے کام کو فورا بدعت اور اسلام کے خلاف کہہ دیا جائے۔ بلکہ ہر چیز کی شرائط ہوتی ہیں جن کا ہر وقت خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
جو چیز باعث بنی ہے کہ بعض لوگ اتنی آسانی سے دوسروں کی طرف بدعت کی نسبت دیں، وہ ایک حديث ہے جو رسول خدا صلّي الله عليه و آله وسلّم سے نقل ہوئی ہے:
كلّ بدعه ضلاله.
هر بدعت گمراهی ہے۔
صحيح مسلم، ج 3، ص11 ـ مسندأحمد، ج 3، ص310.
کیا اس روایت کے مطابق ہر نئی چیز کہ جو معاشرے میں موجود ہو وہ بدعت شمار ہو گی اور اس پر عقیدہ رکھنے والے گمراہ اور دین سے خارج ہوں گئے؟
6 ـ دلیل شرعی کا لازم ہونا ایک چیز کو بدعت کے عنوان سے نکالنے کے لیے:
گذشتہ مطالب کی روشنی میں واضح ہوا کہ حقيقت بدعت یہ ہے کہ کوئی خداوند، رسول خدا(ص) اور دین کی طرف جھوٹی نسبت دے کر کوئی چیز کم یا زیادہ کرے۔ جب معیار بدعت و عدم بدعت معلوم ہو گیا تو وہ چیز کے جس کے وجود پر دلیل شرعی موجود ہو گی وہ چیز بدعت کے عنوان سے خارج ہو گی۔
یہ دلیل شرعی دو قسم کی ہے:
1- قرآن اور سنت نبوی سے کوئی خاص دلیل ہو کسی چیز کے بارے میں جیسے عید فطراور عید قربان پر خوش ہونا اور جشن منانا یا حج کے موقع پر مقام عرفہ و منی میں جمع ہونا۔ یعنی ان مواقع پر جشن منانا اور اجتماع کرنا حرام و بدعت نہیں ہے۔
2- قرآن اور سنت نبوی سے کوئی عام دلیل ہو کہ یہ نئی چیز اور نئا کام اس دلیل عام کے تحت آ جائے گا اس شرط کے ساتھ کہ یہ نئی چیز اس چیز کے ساتھ کہ جو رسول خدا(ص) کے زمانے میں موجود تھی حقیقت و ماھیت میں ایک ہو۔ اگرچہ ظاہری شکل و صفات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔ وہ دلیل عام ان دونوں موارد کو شامل ہو گی اور ان دونوں کے لیے دلیل شرعی شمار ہو گی۔
لھذا اس طرح کے موارد میں دلیل عام اور قاعدہ تمام چیزیں حلال و مباح ہیں جب تک دلیل سے حرمت ثابت نہ ہو جائے، استعمال ہوتے ہیں۔
ان قواعد شرعی کے مطابق بات کرتے ہیں نہ یہ کہ ہر نئی چیز کو دیکھ کر بدعت کہہ دیا جائے۔
فصل دوم:
قرآن اور انبياء کے نزدیک گرئیے اور اشک کا مقام و منزلت:
1 ـ گريه و اشک مورد تأيید قرآن کریم:
قرآن کریم کی بہت سی آیات میں گرئیے کا ذکر ہوا ہے اور خداوند نے گریہ کرنے والوں کی آیات میں مدح بھی کی ہے۔ اس مدح سے گرئیےو اشک پر تائید بھی ثابت ہو جاتی ہے۔ ہم چند نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
آیت کہ گرئیے کی طرف اشارہ کر رہی ہے:
فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلا وَلْيَبْكُوا كَثِيراً جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ التوبه (9): 82
پس وہ کم ہنسا کریں اور زیادہ رویا کریں۔
اس آیت میں خداوند ایک کام کا حکم دے رہا ہے کہ اگر خداوند اس فعل پر راضی نہ ہوتا تو کبھی بھی اس کے کرنے کا حکم نہ دیتا۔
خداوند متعال أنبياء کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
إِذَا تُتْلَي عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَنِ خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيّاً مريم (19): 58
جب ان پر آیات قرآن پڑھی جاتی ہیں تو وہ سجدہ کرتے ہوئے اور گریہ کرتے ہوئے گر جاتے ہیں۔
خداوند تعالی جن لوگوں کو نعمت علم دی گئی ہے ان کے بارے میں فرماتا ہے کہ:
وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً الإسراء (17): 109
وہ منہ کے بل گرتے ہیں، گریہ کرتے ہیں اور انکی عاجزی میں اضافہ ہوتا ہے۔
يا خداوند آیات کے نازل ہوتے وقت مؤمنوں کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں:
تَرَي أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنْ الدَّمْعِ المائده (5): 83
آپ دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں اشکوں سے پر ہو جاتی ہیں۔
پس جیسا کہ بیان ہوا قرآن کریم میں گریہ اور اشک بہانا نہ یہ کہ مورد مذمت نہیں بلکہ مورد مدح و تعریف خداوند ہے کیونکہ یہ فعل فطری اور انسان کی ذاتیات میں شمار ہوتا ہے۔
2 ـ گريه و اشک در سيرت انبياء:
انبیاء کرام کی سیرت عملی کی پیروی کرنا بے شک یہ ہمارے موضوع بحث(عزاداری و گريه بر امام حسين عليه السلام ) سے مربوط ہے اور خود عزاداری کے جائز ہونے پر دلیل عقلی و نقلی بھی ہے کیونکہ انبیاء کرام کی سیرت عملی ہمارے اعمال کے صحیح و شرعی ہونے پر قوی ترین دلیل ہے۔ اس لیے کہ خداوند نے ان کی سیرت و سنت کی اتباع و پیروی سب پر واجب قرار دی ہے:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَهٌ حَسَنَهٌ فِي إِبْرَهِيمَ. الممتحنه (60): 4
بے شک تمہارے لیے حضرت ابراہیم(ع) کی ذات بہترین عملی نونہ ہے۔
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَهٌ حَسَنَهٌ. ألاحزاب (33): 21
بے شک تمہارے لیے رسول خدا(ص) کی ذات بہترین عملی نونہ ہے۔
اس طرح کے مزید نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
الف ـ حضرت یعقوب(ع) کا اپنے بیٹے کی جدائی پر گریہ کرنا:
حضرت یوسف(ع) کا پورا قصہ ایک غمگین داستان کی صورت میں اول سے آخر تک بیان ہو ہے۔ جب حسد کی آگ حضرت یوسف کے بھائیوں کے دلوں میں جل رہی تھی تو اپنے بھائی کو کنویں میں پھینک دیا اور پھٹی ہوئی قمیص کر خون لگا کر لے آئے۔ اس واقعے پر حضرت یعقوب کا متاثر ہو کر بیٹے کی جدائی پر صبح و شام گریہ کرنا حتی کہ خداوند حضرت یعقوب کی زبان سے ایسے بیان کر رہے ہیں:
وَقَالَ يَأَسَفَي عَلَي يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ يوسف(6): 84
کہا کہ ہائے افسوس بر یوسف اور حزن و غم کی وجہ سے انکی آنکھیں سفید ہو گئی وہ بہت صبر کرنے والے تھے۔
حضرت یعقوب بیٹے کے غم میں حالانکہ وہ جانتے تھے کہ وہ زندہ ہے لیکن پھر بھی جدائی کی وجہ سے ان کی روح اذیت و غم میں تھی۔ اپنی روح کی تسکین کے لیے خداوند کی پناہ تلاش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
قَالَ إِنَّمَآ أَشْكُواْ بَثِّي وَحُزْنِي إِلَي اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَاتَعْلَمُونَ.يوسف(6): 86.
اپنی شکایت اور غم کو خداوند کی بار گاہ میں عرض کرتا ہوں اور جو کچھ خدا وند کی طرف سے جانتا ہوں تم لوگ نہیں جانتے۔
اس دلیل قرآنی سے خداوند کے اولیاء پر گریہ و زاری اور ظالموں کی شکایت خداوند کی بارگاہ میں کرنا ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سیرت انبیاء کہ جو بعنوان دلیل محکم و قرآنی ہے، سے اصل عزاداری کا جائز و شرعی ہونا بھی ثابت ہو جاتا ہے۔
ب ـ گريه حضرت يوسف (ع):
نہ فقط باپ بلکہ بیٹا بھی باپ کی جدائی پر صبح و شام گریہ کرتا تھا۔
ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ:
عند ما دخل السجن، يبكي حتّي تبكي معه جدر البيوت وسقفها والأبواب.
حضرت يوسف (ع) جب زندان میں تھے اور گریہ کرتے تھے تو زندان کے در و دیوار حتی چھت بھی ان کے ساتھ گریہ کرتے تھے۔
تفسير قرطبي، ج 9، ص 88.
امام صادق عليه السلام سے نقل نقل ہوا ہے کہ :
البكّائون خمسه، آدم، و يعقوب و… و أمّا يوسف فبكي علي يعقوب حتّي تأذّي به أهل السجن، وقالوا: إمّا أن تبكي نهاراً وتسكت الليل، وإمّا أن تبكي الليل وتسكت النهار، فصالحهم علي واحد منهما.
زیادہ گریہ کرنے والے پانچ بندے تھے:
حضرت آدم (ع) کہ جنت کی جدائی پر ہمیشہ گریہ کرتے تھے، حضرت یعقوب(ع)…….. اور حضرت یوسف(ع) باپ سے جدائی پر دن رات گریہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ زندان کے باقی افراد نے مجبور ہر کہا کہ اتنا گریہ نہ کیا کریں۔ حضرت یوسف نے ان کا مشورہ مان لیا۔
كشف الغمه، ابن أبي الفتح الإربلي، ج 2، ص 120ـ الخصال، صدوق، ص 272 ـ الأمالي، صدوق، ص 204 ـ روضه الواعظين، نيشابوري، ص 451 ـ المناقب، ابن شهرآشوب، ج 3، ص 104.
ج ـ گريه و اشک در سنت رسول خدا (ص)
اشک بہانے والی آنکھوں کی آرزو کرنا:
رسول خدا(ص) نے اپنی دعا میں خداوند سے زیادہ گریہ کرنے والی آنکھیں مانگی ہیں:
اللّهمّ اجعلني من الباكين إليك، والخاشعين لك.
خداوندا مجھے گریہ کرنے اور تیرے سامنے خشوع کرنے والوں سے قرار دے۔
تفسير قرطبي، ج11، ص 215.
ایک دوسری دعا میں ہے کہ:
اللّهمّ ارزقني عينين هطالتين.
خداوندا مجھے اشک بہانے والے آنکھیں عطا فرما۔
فيض القدير، ج 2، ص 181.
آنکھیں کہ آگ ہر گز ان کو نہیں جلائے گی:
رسول خدا صلّي الله عليه و آله وسلّم سے دو گروہوں کی تعریف نقل ہوئی ہے:
عينان لا تمسّهما النار؛ عين بكت من خشيه اللّه، وعين باتت تحرس في سبيل اللّه.
دو آنکھیں آتش جھنم سے محفوظ رہے گئیں، وہ آنکھ جو خوف خداوند سے گریہ کرتی ہے۔ اور وہ آنکھ جو خدا کی راہ میں لوگوں کی جان، مال اور آرام کے لیے بیدار رہے۔
سنن ترمذي، ج 3، ص96.
خداوند کی یاد میں گریہ:
رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلّم سے روایت ہے کہ:
سبعه يظلّهم اللّه… رجل ذكر اللّه ففاضت عيناه.
سات گروہ ایسے ہیں کہ قیامت میں خداوند اپنی رحمت کا سایہ ان پر کرے گا…… جو یاد خدا میں اشک بہائے گا۔
صحيح بخاري، ج7، ص 185.
گریہ از خوف خداوند:
ترمذی نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے کہ:
عن رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلّم: لا يلج النار رجل بكي من خشيه اللّه.
جو خداوند کے خوف سے گریہ کرے گا وہ جھنم میں داخل نہیں ہو گا۔
سنن ترمذي، ج 3، ص 380.
دنیا میں گریہ مانع از گریہ در آخرت:
حافظ اصفهانی رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلّم سے روایت کرتا ہے کہ:
من بكي علي ذنبه في الدنيا حرّم اللّه ديباجه وجهه علي جهنّم.
جو دنیا میں اپنے گناہوں پر گریہ کرے گا، خداوند آتش جھنم کو اس پر حرام کر دے گا۔
حافظ اصبهاني، ذكر أخبار اصبهان، ج2، ص171.
فصل سوم:
سنت و سیرت نبوی میں گرئیے اور اشک کا مقام و منزلت:
1 ـ شھادت حضرت حمزہ پر رسول خدا(ص) کا گریہ کرنا:
حمزه ابن عبدالمطلب اسلام کی اہم شخصیات میں سے ہیں کہ جو جنگ احد میں شھید ہوئے۔ رسول خدا صلّي الله عليه و آله وسلّم اپنے چچا حمزہ کی شھادت پر بہت غمگین ہوئے، کیونکہ وہ اسلام و توحید کے حامی و مدافع تھے، ان کی جدائی پر گریہ کیا اور ان کو سید الشھداء کا نام دیا۔
رسول خدا(ص) کا اپنے چچا کی شھادت پر رد عمل ان کے سب پیروکاروں کے لیے عملی نمونہ ہے۔
حلبی اپنی کتاب سيرۃ النبی میں لکھتا ہے کہ:
لما رأي النبي حمزه قتيلا، بكي فلما راي ما مثّل به شهق.
جب پیغمبر(ص) نے حضرت حمزہ کا مردہ بدن دیکھا تو گریہ کیا و وقتی بدن کو مثلہ کرنے سے آگاہ ہوئے تو زور زور سے گریہ کیا۔
السيره الحلبيه، ج 2، ص 247.
یہ گریہ رسول خدا اس قدر شدید تھا کہ ابن مسعود کہتا ہے کہ:
ما رأينا رسول اللّه صلّي الله عليه و آله وسلّم باكياً أشدّ من بكائه علي حمزه، وضعه في القبله، ثمّ وقف علي جنازته، وانتحب حتّي بلغ به الغشي، يقول: يا عمّ رسول اللّه! يا حمزه! يا أسد اللّه! وأسد رسوله! يا حمزه! يا فاعل الخيرات! يا حمزه! يا كاشف الكربات! يا حمزه! يا ذابّ عن وجه رسول اللّه!.
ہم نے آج تک رسول خدا کو اس قدر شدید کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ بدن حضرت حمزہ کو قبلے کی طرف رکھا ہو تھا اس قدر زیادہ گریہ کیا کہ رسول خدا پر غشی طاری ہو گئی۔ وہ پکار پکار کر بدن پر بین کر رہے تھے۔اے پیغمبر خدا کے چچا، اے حمزه! اے شير خدا و شير پيغمبر خدا، اے حمزه! اے کہ جو نیک کام انجام دیتے تھے ، اے حمزه! اے کہ جو مشكلات کو دور کرتا تھا ، اے حمزه! جو رسول خدا سے سختیوں کو دور کرتا تھا۔
ذخائر العقبي، ص 181.
حضرت حمزہ پرتمام غم کے مواقع پر گریئے و عزا کا جاری رہنا:
ابن کثیر کہتا ہے کہ:
آج تک انصار کی خواتین اپنے مردوں پر گریہ کرنے سے پہلے حمزہ پر روتی ہیں:
أحمد بن حنبل عن ابن عمر أن رسول الله صلي الله عليه وسلم لما رجع من اُحد فجعلت نساء الأنصار يبكين علي من قتل من أزواجهن قال فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم ولكن حمزه لا بواكي له قال ثم نام فاستنبه وهن يبكين.
ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم جب جنگ احد سے واپس آ رہے تھے تو دیکھا کہ انصار کی خواتین اپنے مردوں پر گریہ کر رہی ہیں۔ رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ حمزہ پر کوئی رونے والا نہیں ہے ۔ پھر رسول خدا (ص) بعد میں متوجہ ہوئے کہ عورتیں حضرت حمزہ کے لیے بھی گریہ کر رہی ہیں۔
اس دن سے آج تک عورتیں پہلے حمزہ کے لیے اور پھر اپنے شھداء کے لیے عزاداری کرتی ہیں۔
البدايه والنهايه، ابن كثير، ج 4، ص 55.
ابن کثیر اس کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ:
وهذا علي شرط مسلم.
یہ روایت مسلم کے نزدیک بھی صحیح ہونے کی شرائط رکھتی ہے۔
البدايه والنهايه، ج 4، ص 55.
واقدی نے بھی اسی مطلب کو ذکر کیا ہے:
قال الواقدي فلم يزلن يبدأن بالندب لحمزه حتي الآن.
اس دن سے آج تک عورتیں پہلے حمزہ کے لیے اور اپنے شھداء کے لیے عزاداری کرتی ہیں۔
أسد الغابه، ج 2، ص 48.
ابن سعد نے بھی اسی مطلب کو ذکر کیا ہے:
فهن إلي اليوم إذا مات الميت من الأنصار بدأ النساء فبكين علي حمزه ثم بكين علي ميتهن.
اس دن سے آج تک عورتیں پہلے حمزہ کے لیے اور اپنے شھداء کے لیے عزاداری کرتی ہیں۔
الطبقات الكبري، ج 2، ص 44.
کیا رسول خدا صلّي الله عليه و آله وسلّم کا یہ عمل گرئیے و عزاداری کے جائز و شرعی ہونے پر دلیل نہیں ہے؟
اہل ایمان پيغمبر اكرم صلّي الله عليه و آله وسلّم کی سنّت عملی کو اپنے اعمال کے لیے معیار و میزان قرار دیتے ہیں۔
لھذا سیرت و سنت عملی رسول خدا (ص) گریہ و عزاداری حمزہ کے لیے یہ دوسرے اولیاء و بزرگان دین پر گرئیے و عزاداری کی دلیل ہو سکتی ہے۔
2 ـ شهادت جعفر بن أبی طالب پر رسول خدا(ص) کا گریہ کرنا:
جعفر بن أبی طالب جنگ موتہ میں شھید ہوئے تھے۔ رسول خدا صلّي الله عليه و آله وسلّم نے ان کی شھادت کی خبر سنی تو ان کے بیٹے کو ملنے ان کے گھر گئے۔ جب حضرت جعفر کے بچوں کو دیکھا تو گریہ کرنا شروع کیا۔ حضرت جعفر کی بیوی اسماء سمجھ گئی کہ جعفر کو کچھ ہو گیا ہے۔ رسول خدا سے سوال کیا کہ:
بأبي وأمّي ما يبكيك؟ أبلغك عن جعفر وأصحابه شئ؟
میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں جعفر کو کیا ہوا ہے؟
قال: نعم، أصيبوا هذا اليوم.
قرمایا: ہاں آج وہ شھید ہو گئے ہیں۔
أسماء زور سے چلاّئی۔ فاطمه زهراء سلام الله عليها ان کے گھر آئیں اور گریہ کرنا شروع کیا: «وا عمّاه». ہائے میرے چچا کو کیا ہو گیا ہے؟
فقال رسول اللّه صلّي الله عليه و آله وسلّم: علي مثل جعفر فلتبك البواكی۔
رسول خدا(ص) نے فرمایا: رونے والوں کو جعفر کی طرح کے انسانوں پر رونا چاھیے۔
الاستيعاب، ج 1، ص 313 ـ أسد الغابه، ج 1، ص 241 ـ الاصابه، ج2، ص 238 ـ الكامل في التاريخ، ج2، ص 420.
3 ـ شهادت زيد بن حارثه پر رسول خدا کا گریہ کرنا:
زيد بن حارثه جنگ موتہ کے سپہ سالاروں میں سے تھے جو رسول خدا(ص) کے حکم کے مطابق جعفر بن أبي طالب، عبد اللّه بن رواحه کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے۔ جب ان کی شھادت کی خبر رسول خدا صلّي الله عليه و آله وسلّم کو ملی تو آپ ان کے گھر گئے۔ زید کی بیٹی رسول خدا کو دیکھتے ہی رونے لگی۔ پیغمبر بھی رونے لگے۔
سؤال کیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟فرمایا:
شوق الحبيب إلي حبيبه.
دوست کی محبت کی وجہ سے رو رہا ہوں۔
فيض القدير، ج3، ص 695.
4 ـ اپنے بیٹے ابراهيم کی وفات پر رسول خدا(ص) کا گریہ کرنا:
ابراهيم مدینے میں دنیا میں آیا تھا اور ایک سال کی عمر میں فوت ہوئے اور اپنے والدین کو غم کی حالت میں تنھا چھوڑ گئے۔ ابراهيم کی ماں کا نام ماریہ تھا۔
رسول خدا اپنے بیٹے کی وفات پر رو رہے تھے کہ عبد الرحمن نے تعجب کی حالت میں سوال کیا «وأنت يا رسول اللّه؟». آپ بھی رو رہے ہیں؟فرمایا: «يا ابن عوف، إنّها رحمه». یہ گریہ کرنا رحمت کی علامت ہے۔ پھر فرمایا:
إنّ العين تدمع، والقلب يحزن، ولانقول إلّا ما يرضي ربّنا، وإنّا بفراقك يا إبراهيم لمحزونون.
آنکھ رو رہی ہے دل غمگین ہے لیکن میں وہی بات کروں گا جس پر خدا راضی ہو گا۔ اے ابراھیم ہم تیری وفات پر غمگين ہیں۔
صحيح بخاري، ج 2، ص 85، صحيح مسلم، ج 4، ص 1808، كتاب الفضائل، باب رحمته بالصبيان ـ العقد الفريد، ج 3، ص 19، كتاب التعزيه ـ سنن ابن ماجه، ج 1، ص506، ش 1589، باب ما جاء في البكاء علي الميت ـ مصنف عبد الرزاق، ج 3، ص552، ش 6672، باب الصبر والبكاء والنياحه
5 ـ عبدالمطلب کی وفات پر رسول خدا(ص) کا گریہ کرنا۔
حضرت عبدالمطلب کی وفات پر رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلّم نے اپنے دادا کی وفات پر گریہ کیا۔ ام ایمن کہتی ہے کہ:
انا رايت رسول اللَّه يمشی تحت سريره و هو يبكی.
میں نے رسول خدا کو دیکھا کہ حضرت عبد المطلب کے جنازے کے نیچے چلتے جا رہے ہیں اور گریہ کرتے جا رہے ہیں۔
تذكره الخواص، ص 7.
6 ـ حضرت ابوطالب کی وفات پر رسول خدا(ص) کا گریہ کرنا:
حضرت ابوطالب با ایمان اور حامی رسول خدا(ص) کی موت بھی پیغمبر پر بہت گران ثابت ہوئی۔ امير المؤمنين عليه السّلام فرماتے ہیں کہ:
جب میرے والد کی وفات ہوئی خبر رسول خدا نے سنی تو انھوں نے گریہ کیا اور فرمایا:
اذهب فاغسله و كفّنه و واره غفراللَّه له و رحمه.
ان کو غسل دو اور کفن دو اور دفن کرو۔ خداوند ان پر رحمت کرے اور انکی مغفرت فرمائے۔
الطبقات الكبري، ابن سعد، ج 1، ص 105.
7 ـ رسول خدا کا اپنی والدہ حضرت آمنہ کی وفات پر گریہ کرنا:
ایک دن رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلّم اپنی ماں کی قبر کی زیارت کے لیے ابواء کے مقام پر تشریف لے گئے۔ مؤرخان کہتے ہیں کہ حضرت اپنی ماں کی قبر پر اس طرح روئے کہ جو بھی ان کے ساتھ تھا وہی گریہ کر رہا تھا۔
المستدرك، ج 1،ص 357 ـ تاريخ المدينه، ابن شبّه، ج 1، ص 118.
8 ـ فاطمه بنت اسد کی وفات پر رسول خدا(ص) کا گریہ کرنا:
فاطمه بنت اسد حضرت ابو طالب کی زوجہ اور امير المؤمنين عليه السّلام کی والدہ محترمہ کا رسول خدا بہت احترام کرتے تھے۔
جب وہ سال سوم ھجری کو فوت ہویں تو رسول خدا بہت ہی زیادہ غمگین ہوئے اور گریہ کیا۔
مؤرخان لکھتے ہیں:
صلّي عليها و تمرغ في قبرها و بكي.
رسول نے ان پر نماز پڑھی، انکی قبر میں لیٹے اور ان پر گریہ کیا۔ ذخائر العقبي، ص 56.
9 ـ عثمان بن مظعون کی وفات پر رسول خدا(ص) کا گریہ کرنا:
حاكم در مستدرك کہتا ہے کہ:
إن النبي قبّل عثمان بن مظعون وهو ميت وهو يبكي…
رسول خدا صلي الله عليه وآله نے عثمان بن مظعون کی وفات کے بعد ان کو بوسہ دیا اور ان کے لیے گریہ کیا۔
المستدرك علي الصحيحين، ج 1، ص 514، ش 1334ـ سنن ترمذي، ج 3، ص 314، ش 989، كتاب الجنائز باب ما جاء في تقبيل الميت ـ المعجم الكبير، ج24، ص 343، ش 855، باب عائشه بنت قدامه بن مظعون الجمحيه ـ سنن البيهقي الكبري، ج 3، ص 407، ش 6503 ـ ربيع الأبرار، ج 4، ص 187ـ جامع الأصول، ج 11، ص 105.
10 ـ سعد بن ربيع شهيد اُحد کی وفات پر رسول خدا(ص) کا گریہ کرنا:
حاكم در مستدرک کہتا ہے کہ جابر بن عبد الله انصاري لکھتا ہے:
لما قتل سعد بن ربيع بأحد، رجع رسول الله صلي الله عليه وآله إلي المدينه… فدخل رسول الله صلي الله عليه وآله ودخلنا معه، قال جابر: والله ما ثمّ وساده ولا بساط. فجلسنا ورسول الله يحدثنا عن سعد بن ربيع، يترحم عليه… فلما سمع ذلك النسوه، بكين فدمعت عينا رسول الله وما نهاهن عن شيء.
جب سعد بن ربيع جنگ اُحد میں شھید ہوا تو رسول الله صلي الله عليه وآله مدینے واپس آئے اور سعد کے گھر گئے ہم بھی حضرت کے ساتھ تھے۔ جابر کہتا ہے کہ:
خدا کی قسم سعد کے گھر کوئی چیز نہیں تھی کہ ہم اس پر بیٹھتے۔ رسول خدا(ص) سعد کی شخصیت کے بارے میں بیان کر رہے تھے۔ جب عورتوں نے ان باتوں کو سنا تو گریہ کرنا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر حضرت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور رسول خدا(ص) نے عورتوں کو گریہ کرنے سے منع نہیں کیا۔
11 ـ پيغمبر(ص)، عمر کو عورتوں کو گریہ کرنے سے منع کرنے پر روکتے ہیں:
عمر نے رسول خدا صلي الله عليه وآله کے سامنے وہ عورتیں کہ جو ایک جنازے میں شریک تھیں ان کو گریہ کرنے سے منع کیا۔ رسول خدا صلي الله عليه وآله نے عمر سے کہا ان کو گریہ کرنے سے منع نہ کرو۔
خرج النبي علي جنازه ومعه عمر بن الخطاب، فسمع نساء يبكين، فزبرهن عمر فقال رسول الله (ص) يا عمر، دعهن، فإن العين دامعه والنفس مصابه والعهد قريب.
رسول خدا صلي الله عليه وآله ایک جنازے میں شریک تھے عمر بھی ان کے ساتھ تھا۔ عمر نے رسول خدا صلي الله عليه وآله کے سامنے وہ عورتیں کہ جو ایک جنازے میں شریک تھیں ان کو گریہ کرنے سے منع کیا۔ رسول خدا صلي الله عليه وآله نے عمر سے کہا: ان کو چھوڑ دو ان پر ابھی مصیبت کا وقت ہے اور وہ گریہ کر رہی ہیں۔
المستدرك علي الصحيحين، ج 1، ص 381،ش 1406،كتاب الجنائز ـ سنن النسائي (المجتبي)، ج4، ص19، ش 1850، كتاب الجنائز باب الرخصه في البكاء علي الميت ـ مسند أحمد بن حنبل، ج2، ص444، ش 9729، باب مسند أبي هريره ـ سنن ابن ماجه، ج1،ص505، ش 1587، كتاب الجنائز باب ما جاء في البكاء علي الميت.
12 ـ رسول خدا(ص) اشک بہانے کو خداوند کی طرف سے رحمت کہتے ہیں:
عن أسامه بن زيد قال:أرسلت بنت النبي (ص) أن ابنا لي قبض، فأتنا، فأرسل يقرأ السلام ويقول: إن الله له ما أخذه وله ما أعطي وكل شيء عنده بأجل مسمي، فلتصبر ولتحتسب. فأرسلت إليه تقسم عليه ليأتينها، فقام ومعه سعد بن عباده ومعاذ بن جبل وأبي بن كعب وزيد بن ثابت ورجال، فرفع رسول الله (ص) الصبي ونفسه تقعقع، ففاضت عيناه، فقال سعد: يا رسول الله، ما هذا؟ قال: رحمه يجعلها في قلوب عباده، إنما يرحم الله من عباده الرحماء.
رسول خدا صلي الله عليه وآله کی بیٹی نے حضرت کے لیے پیغام بیجھا کہ میری مرنے کے نزدیک ہے آپ جلدی آئیں۔ رسول خدا صلي الله عليه وآله نے کسی کو اس کے پاس بیجھا اور کہا کہ اس سے کہے کہ سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے جو چاہے لے لیتا ہے اور جو چاہے دیتا ہے ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر ہے پس بہتر ہے کہ صبر کرو۔
رسول خدا کی بیٹی نے دوبارہ پیغام بیجھا کہ آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ ضرور آئیں۔ پیغمبر تشریف لائے سعد بن عباده و معاذ بن جبل و أبی بن كعب و زيد بن ثابت اور کچھ دوسرے افراد بھی ان کے ساتھ تھے۔ رسول الله صلي الله عليه وآله نے بچے کی حالت دیکھ کر رونا شروع کر دیا۔ سعدنے کہا: يا رسول الله! کیوں گریہ کر رہے ہیں؟
فرمایا کہ: یہ رحمت خداوند ہے کہ وہ دلوں میں ڈالتا ہے۔خدا اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے تا کہ وہ دوسروں پر بھی رحم کریں۔
صحيح بخاري، ج 1، ص 431، ش 1224، كتاب الجنائز باب قول النبي يعذب الميت ببعض بكاء أهله و ج 5، ص 2141، ش 5331، كتاب المرضي باب عياده الصبيان و ج 6، ص 2452، ش 6279، كتاب الأيمان والنذور باب قول الله تعالي «وأقسموا بالله» ـ صحيح مسلم، ج 2، ص635، ش 923، كتاب الجنائز باب البكاء علي الميت ـ سنن النسائي (المجتبي)، ج 4، ص 22، ش 1868، كتاب الجنائز باب الأمر بالاحتساب والصبر عند نزول المصيبه ـ سنن النسائي الكبري، ج 1، ص 612، ش 1995، كتاب الجنائز باب الأمر بالاحتساب والصبر عند نزول المصيبه ـ سنن أبي داود، ج 3، ص193، ش 3125، كتاب الجنائز باب في البكاء علي الميت ـ مصنف عبد الرزاق، ج 3، ص551، ش6670، باب الصبر والبكاء والنياحه۔
جاری…