سوال:
کیا امام حسین (ع) کا زائر قیامت کے دن گناہ کاروں کی شفاعت کر سکے گا ؟
عالم بزرگ شیعہ ابن قولويہ نے اپنی عظیم الشان کتاب کامل الزیارات میں ایک روایت مندرجہ ذیل سند کے ساتھ نقل کی ہے :
حدثنى ابى رحمه الله و محمد بن الحسن و على بن الحسين جميعا عن سعد بن عبد الله عن محمد عيسى بن عبيد عن صفوان بن يحيى عن رجل عن سيف التمار عن ابى عبد الله عليه السلام قال: سمعته يقول: زائر الحسين عليه السلام مشفع يوم القيامة لمائة رجل كلهم قد وجبت لهم النار ممن كان فى الدنيا من المسرفين.
جواب:
یہ روایت سند کے لحاظ سے صحیح و معتبر ہے، اسکے علاوہ خود مرحوم ابن قولویہ قمی نے بھی اپنی اسی کتاب کامل الزیارات کے مقدمہ میں واضح لکھا ہے کہ:
میں نے اپنی اس کتاب میں صرف ان روایات کو ذکر کیا ہے کہ جنکے راوی ثقہ ہیں:
… قد علمنا أنا لا نحيط بجميع ما روي عنهم في هذا المعنى و لا في غيره لكن ما وقع لنا من جهة الثقات من أصحابنا رحمهم الله برحمته و لا أخرجت فيه حديثا روي عن الشذاذ من الرجال يؤثر ذلك عنهم عن المذكورين غير المعروفين بالرواية المشهورين بالحديث و العلم.
ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ رسول خدا اور اہل بیت کی زیارت وغیرہ کے بارے میں آئمہ سے نقل ہوا ہے، وہ ہم تک نہیں پہنچا، لیکن میں نے جو بھی نقل کیا ہے، وہ موثق و معتبر شیعہ راویوں سے ہمارے لیے نقل ہوا ہے ۔۔۔۔۔ ،
ابن قولويه، جعفر بن محمد، كامل الزيارات – نجف اشرف، چاپ: اول، 1356ش، ص 4، مقدمه مولف.
کیا یہ روایت، شیعہ کلامی (اعتقادی) مسائل کے ساتھ تعارض و تضاد رکھتی ہے ؟
اس سوال کے دو معنی ہیں:
1- کیا ممکن ہے کہ ایسا بندہ کہ جس پر عذاب واجب و ضروری ہو چکا ہو تو وہ شفاعت کے ذریعے سے نجات حاصل کر لے ؟
2- کیا صرف آئمہ اور انبیاء ہی شفاعت کرتے ہیں یا کسی دوسرے شخص جیسے زائر امام حسین (ع) کو بھی شفاعت کرنے کا حق حاصل ہے ؟
اب ان دونوں معانی کے جواب:
1- کیا ممکن ہے کہ ایسا بندہ کہ جس پر عذاب واجب و ضروری ہو چکا ہو تو وہ شفاعت کے ذریعے سے نجات حاصل کر لے ؟
جواب:
یہ روایت شیعہ اعتقادی مسائل کے ساتھ کسی قسم کا تضاد نہیں رکھتی، حتی یہ روایت اہل سنت کے عقائد کے ساتھ تضاد نہیں رکھتی۔
دلیل اول:
شفاعت کے معنی میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شفاعت انسانوں کی عذاب سے نجات کے لیے، رحمت خداوندی ہے:
اس دلیل کی بناء پر شفاعت خداوند کا ایک خاص لطف ہے کہ جسکی وجہ سے خداوند کی طرف سے رسول خدا، آئمہ معصومین اور بعض نیک مؤمنین کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ گناہ کاروں کو عذاب اور آتش جہنم سے نجات دیں۔
مفسر شیعہ مرحوم طبرسی نے اپنی تفسیر مجمع البیان میں شفاعت کے مفہوم کو ایسے بیان کیا ہے:
«أصل الشفاعة من الشفع الذي هو ضد الوتر فإن الرجل إذا شفع بصاحبه فقد شفعه أي صار ثانيه … و اختلفت الأمة في كيفية شفاعة النبي صلی الله علیه و آله يوم القيامة فقالت المعتزلة و من تابعهم: يشفع لأهل الجنة ليزيد الله درجاتهم و قال غيرهم من فرق الأمة: بل يشفع لمذنبي الأمة ممن ارتضى الله دينهم ليسقط عقابهم بشفاعته.»
شفاعت لغت کے لحاظ سے شفع (بمعنی ملانے) کے مصدر سے بنا ہے کہ یہ وتر (بمعنی مفرد) کے مقابلے پر ہے اور جب کوئی کسی بندے کی شفاعت کرتا ہے تو وہ اسے اپنے ساتھ ملا کر دوسرا بنا لیتا ہے۔۔۔۔۔ اور رسول خدا کی شفاعت کرنے کے طریقے کےبارے میں، امت اسلام کا آپس میں اختلاف ہے، معتزلی (اہل سنت کا ایک فرقہ) اور انکے پیروکار کہتے ہیں کہ رسول خدا اہل جنت کی شفاعت کریں گے تا کہ انکے درجات و مقامات بلند ہوں اور معتزلہ کے علاوہ امت اسلامی کے دوسرے فرقوں نے کہا ہے کہ رسول خدا اپنی امت کے گناہ کاروں کی شفاعت کریں گے تا کہ شفاعت کی وجہ سے انکا عذاب ان سے دور کر دیا جائے۔
فضل بن حسن الطبرسی، مجمع البيان فى تفسير القرآن، تحقیق: محمد جواد بلاغی، چاپ سوم، تهران، ناصر خسرو، 1373، ج 3، ص 129.
مرحوم طبرسی نے ایک دوسری جگہ پر لکھا ہے کہ:
«و هي ثابتة عندنا للنبي صلی الله علیه و آله و لأصحابه المنتجبين و الأئمة من أهل بيته الطاهرين علیهم السلام و الصالحي المؤمنين و ينجي الله تعالى بشفاعتهم كثيرا من الخاطئين و يؤيده الخبر الذي تلقته الأمة بالقبول و هو قوله: ادخرت شفاعتي لأهل الكبائر من أمتي.»
اور ہمارے (شیعہ) عقیدے کے مطابق جسطرح رسول خدا کو شفاعت کرنے کا حق حاصل ہے، اسی طرح برگزیدہ اصحاب، آئمہ اہل بیت طاہرین اور صالح مؤمنین بھی شفاعت کریں گے اور خداوند انکے ذریعے سے بہت سے گناہ کاروں کو نجات دے گا۔ ہمارے اس عقیدے کی تائید، رسول خدا کی ایک روایت کرتی ہے کہ جس روایت کو تمام امت اسلامی قبول کرتی ہے، وہ روایت یہ ہے: میں نے اپنی شفاعت کو اپنی امت کے گناہ کار افراد کے لیے ذخیرہ کیا ہوا ہے۔
فضل بن حسن الطبرسی، مجمع البيان فى تفسير القرآن، تحقیق: محمد جواد بلاغی، چاپ سوم، تهران، ناصر خسرو، 1373، ج 1 ، ص 223.
پس شفاعت، خداوند کا ایک خاص لطف و کرم ہے کہ جسکے ذریعے سے بعض گناہ کار مسلمانوں کو عذاب سے نجات دے گا، البتہ شیعہ اور اہل سنت کی یہی متفقہ رائے ہے، اس بارے میں معتزلہ اور خوارج کی رائے، شیعہ اور اہل سنت کی رائے کے خلاف ہے۔
جیسے اہل سنت کے مفسر قرطبی نے لکھا ہے کہ:
«أصل الشفاعة والشفعة ونحوها من الشفع و هو الزوج في العدد و منه الشفيع لأنه يصير مع صاحب الحاجة شفعا … فالشفاعة إذا ضم غيرك إلى جاهك و وسيلتك فهي على التحقيق إظهار لمنزلة الشفيع عند المشفع و إيصال المنفعة إلى المشفوع له.»
شفاعت اور شفعہ دونوں شفع سے بنے ہیں اور یہ عدد کے لحاظ سے جفت عدد ہے، شفیع بھی اسی مصدر سے بنا ہے، کیونکہ شفیع شفاعت کے نیاز مند شخص کے ساتھ مل کر دو بن جاتے ہیں (یعنی جفت بن جاتے ہیں) ۔۔۔۔۔ لہذا شفاعت اس وقت ہوتی ہے کہ دوسرا شخص جب تمہارے مقام و وسیلے سے توسل کرتا ہے اور شفاعت در حقیقت شفیع (شفاعت کرنے والا) کے مقام و مرتبے کا مشفع ( جسکی شفاعت ہوتی ہے) کے نزدیک ظاہر ہونے اور اسے نفع پہنچانے کا نام ہے۔
الجامع لأحكام القرآن، اسم المؤلف: أبو عبد الله محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي الوفاة: 671 ، دار النشر: دار الشعب – القاهرة، ج 5، ص 295.
قرطبی نے ایک دوسرے مقام پر قاضی عیاض سے ایسے نقل کیا ہے:
«… الثالثة في قوم من موحدي أمته استوجبوا النار بذنوبهم فيشفع فيهم نبينا صلى الله عليه و سلم و من شاء الله أن يشفع ويدخلون الجنة. … الرابعة فيمن دخل النار من المذنبين فيخرجون بشفاعة نبينا صلى الله عليه وسلم وغيره من الأنبياء والملائكة وإخوانهم المؤمنين.»
شفاعت کی تیسری قسم، اس امت کے موحد (خدا پرست) گروہ کے لیے ہے کہ جن پر گناہوں کے انجام دینے کی وجہ سے جہنم کی آگ کا عذاب ان پر واجب ہو چکا ہے، اور رسول خدا انکی شفاعت کریں گے اور اسی طرح جو بھی ان سے شفاعت کرنے کو کہے گا تو وہ اسکی شفاعت کریں گے اور وہ اس شفاعت کیوجہ سے جنت میں داخل ہو جائیں گے۔۔۔۔۔
شفاعت کی چوتھی قسم، ان افراد کے لیے ہے جو گناہوں کی وجہ سے جہنم میں جا چکے ہیں اور رسول خدا، دوسرے انبیاء، ملائکہ اور مؤمنین کی شفاعت کیوجہ سے آتش سے باہر نکل آئیں گے۔
الجامع لأحكام القرآن، اسم المؤلف: أبو عبد الله محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي الوفاة: 671، دار النشر: دار الشعب – القاهرة تفسير، ج 10، ص 310.
یہاں تک واضح ہو گیا کہ شفاعت شیعہ اور اہل سنت کی نگاہ میں، خداوند کی طرف سے ایک خاص قسم کی رحمت ہے کہ جسکی وجہ سے شفاعت کرنے والا گناہ کار انسان کو عذاب جہنم سے نجات دیتا ہے۔
جب شفاعت کا خداوند کی ایک خاص رحمت اور گناہ کار انسانوں کی عذاب سے نجات کے لیے ایک وسیلہ ہونا ثابت ہو گیا تو پھر اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ جو شخص شفاعت کا مستحق ہے، اس نے چھوٹے گناہ انجام دئیے ہوں یا بڑے گناہ، کیونکہ دونوں صورتوں میں خدائے رحیم کی رحمت کے انکے شامل حال ہونے کا امکان ہے۔
ورنہ علم کلام (علم عقائد) کے مطابق جس شخص نے بھی کبیرہ یا صغیرہ گناہ انجام دیا ہو تو جب تک وہ توبہ نہ کرے تو وہ شخص اپنے گناہ کے مطابق عذاب کا مستحق ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے خداوند نے اپنی خاص رحمت کیوجہ سے شفاعت کا دروازہ کھولا ہے تا کہ اپنے گناہ کار بندوں کو جہنم کے عذاب سے نجات دے سکے۔
دلیل دوم: آیات قرآنی کی دلالت:
خداوند نے قرآن میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ شرک جیسے گناہ کو نہیں بخشے گا، لیکن شرک کے علاوہ ہر چھوٹے بڑے گناہ کے بخشے جانے کا امکان ہے:
إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَ يَغْفِرُ ما دُونَ ذلِكَ لِمَنْ يَشاءُ وَ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظيماً ،
بے شک خداوند اپنے ساتھ کیے جانے والے شرک کو معاف نہیں کرتا اور اسکے علاوہ جسکے بھی گناہ کو چاہتا ہے، بخش دیتا ہے اور جو بھی خداوند کے لیے شریک قرار دیتا ہے، وہ عظیم گناہ کو انجام دیتا ہے۔
سورہ نساء آیت 48
إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَ يَغْفِرُ ما دُونَ ذلِكَ لِمَنْ يَشاءُ وَ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً بَعيداً ،
بے شک خداوند اپنے ساتھ کیے جانے والے شرک کو معاف نہیں کرتا اور اسکے علاوہ جسکے بھی گناہ کو چاہتا ہے، بخش دیتا ہے اور جو بھی خداوند کے لیے شریک قرار دیتا ہے، وہ بہت دور کی گمراہی میں گمراہ ہو جاتا ہے۔
سورہ نساء آیت 116
قُلْ يا عِبادِيَ الَّذينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَميعاً إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحيمُ.
کہہ دیں اے میرے وہ بندو کہ جہنوں نے اپنے نفس پر گناہ کرنے میں اسراف (زیادہ روی) کیا ہے، تو اپنے خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہو جانا، اس لیے کہ خداوند تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے، کیونکہ وہ بہت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
سورہ زمر آیت 53
شیعہ اور اہل سنت کے مفسرین نے اس مطلب کو واضح بیان کیا ہے کہ شرک کے علاوہ باقی تمام گناہوں کے بخشے جانے کا امکان ہے۔
مرحوم علامہ طباطبائی نے اپنی تفسیر المیزان میں لکھا ہے کہ:
مغفرته سبحانه و عدم مغفرته لا يقع شيء منهما وقوعا جزافيا بل على وفق الحكمة، و هو العزيز الحكيم، فأما عدم مغفرته للشرك فإن الخلقة إنما تثبت على ما فيها من الرحمة على أساس العبودية و الربوبية، قال تعالى: وَ ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ: «الذاريات: 56»،
و لا عبودية مع شرك، و أما مغفرته لسائر المعاصي و الذنوب التي دون الشرك فلشفاعة من جعل له الشفاعة من الأنبياء و الأولياء و الملائكة و الأعمال الصالحة … فمعنى الآية أنه تعالى لا يغفر الشرك من كافر و لا مشرك، و يغفر سائر الذنوب دون الشرك بشفاعة شافع من عباده أو عمل صالح.»
کیونکہ خداوند حکیم ہے اور کوئی بھی کام فالتو اور حکمت کے بغیر انجام نہیں دیتا، لہذا مشرک کے علاوہ باقی گناہوں کو معاف کرنا بھی حکمت کی وجہ سے ہے۔ گناہ شرک کو معاف نہ کرنے کی حکمت یہ ہے کہ عالم کائنات کہ رحمت خداوندی کا مظہر ہے کہ جسکی بنیاد مخلوقات کی بندگی اور خداوند کے رب ہونے پر رکھی گئی ہے، جسطرح کہ خدا نے فرمایا ہے کہ:
«وَ ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ»
اور واضح ہے کہ شرک کرنے کے ساتھ بندگی باقی نہیں رہتی اور یہ کہ شرک کے علاوہ باقی گناہوں کو خداوند معاف کر دیتا ہے، یہ کام دو راہوں اور دو وسیلوں کے ذریعے سے کیا جاتا ہے، ایک شفاعت کیوجہ سے ہے کہ خداوند نے یہ شفاعت انبیاء، اولیاء، ملائکہ کے لیے قرار دی ہے، اور دوسرا وسیلہ خود گناہ کار انسان کے اپنے اعمال صالحہ ہیں۔۔۔۔۔ پس آیت کا یہ معنی ہو گا کہ خداوند کسی کافر و مشرک کے شرک کو معاف نہیں کرے گا اور اسکے علاوہ جو دوسرے گناہ ہیں، وہ گناہ نیک انسانوں کی شفاعت یا نیک اعمال کے ذریعے سے خداوند معاف فرما دیتا ہے۔
علامه¬ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، چاپ پنجم، قم، انتشارات جامعه¬ مدرسین حوزه¬ علمیه¬ قم، 1417 ق، ج 4، ص 371.
اہل سنت کے بزرگ مفسر قرآن طبری نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ:
«إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَ يَغْفِرُ ما دُونَ ذلِكَ لِمَنْ يَشاءُ يعني بذلك جل ثناؤه: يا أيها الذين أوتوا الكتاب آمنوا بما نزلنا مصدقا لما معكم، و إن الله لا يغفر أن يشرك به، فإن الله لا يغفر الشرك به و الكفر، و يغفر ما دون ذلك الشرك لمن يشاء من أهل الذنوب و الآثام.»
بے شک خداوند اپنے ساتھ شرک کرنے کو معاف نہیں کرتا اور شرک کے علاوہ دوسرے گناہ جسکے لیے بھی چاہتا ہے، معاف کر دیتا ہے، اس آیت سے خداوند کی مراد یہ ہے کہ اے اہل کتاب جو کچھ ہم نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لے آؤ، خداوند اپنے ساتھ شرک کرنے کو معاف نہیں کرتا کیونکہ خداوند شرک اور کفر کو معاف نہیں کرتا اور اسکے علاوہ جس بندے کے بھی چاہتا ہے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔
محمد بن جریر طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن (تفسیر طبری)، چاپ اول، بیروت، دار المعرفة، 1412 ق، ج 5، ص 80.
آلوسی نے بھی اسی آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ:
«وَ يَغْفِرُ ما دُونَ ذلِكَ: … (ذلك) إشارة إلى الشرك، و فيه إيذان ببعد درجته في القبح أي يغفر ما دونه من المعاصي و إن عظمت و كانت كرمل عالج، و لم يتب عنها تفضلا من لدنه و إحسانا.»
اور شرک کے علاوہ گناہ کو بخش دیتا ہے۔۔۔۔۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کتنا پست کام ہے، اسکا معنی یہ ہے کہ خداوند اپنے لطف و رحمت سے شرک سے کم تر گناہوں کو بخش دیتا ہے، اگرچہ وہ گناہ بہت بڑے اور صحرا کے ذروں کی طرح بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہوں اور شخص نے ان گناہوں سے توبہ نہ بھی کی ہو۔
روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، ج 5 ص 52 ، اسم المؤلف: العلامة أبي الفضل شهاب الدين السيد محمود الألوسي البغدادي الوفاة: 1270هـ ، دار النشر : دار إحياء التراث العربي – بيروت.
دلیل سوم: متعدد روایات میں ذکر ہوا ہے کہ ایسے شخص کا بخشا جانا ممکن ہے کہ جس پر عذاب ہونا واجب ہو چکا ہو:
اگر کوئی شیعہ اور اہل سنت کی روایات کو دیکھے تو اسے معلوم ہو گا کہ ایسا شخص کہ جس پر گناہوں کو انجام دینے کیوجہ سے عذاب ہونا واجب ہو چکا ہے، شفاعت کے وسیلے سے نجات پا لے گا اور شفاعت کرنا فقط زائر امام حسین (ع) سے خاص نہیں ہے بلکہ دوسروں کے بارے میں بھی ملتا ہے، جیسے قرآن کے قاری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے 10 ایسے افراد کی شفاعت کرے گا کہ جن پر گناہوں کی وجہ سے عذاب واجب ہو چکا ہو گا۔
قابل توجہ ہے کہ روایات میں ذکر ہوا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا ہے کہ گناہ کاروں کا شفاعت کے ذریعے سے نجات پانا، ایک ممکن کام ہے، اصحاب نے پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہے ؟ تو حضرت نے جواب دیا کہ اس لیے کہ نیک انسان کو شفاعت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ گناہ کار انسانوں کو عذاب سے نجات دینے کے لیے شفاعت کو قرار دیا گیا ہے۔
شفاعت کے بارے میں بعض شیعہ اور اہل سنت روایات:
«وَ مِنْهُ [ثواب الاعمال] عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ سَخْتَوَيْهِ بْنِ شَبِيبٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص: مَا مِنْ عَبْدٍ يُصَلِّي لَيْلَةَ الْعِيدِ سِتَّ رَكَعَاتٍ إِلَّا شُفِّعَ فِي أَهْلِ بَيْتِهِ كُلِّهِمْ وَ إِنْ كَانُوا قَدْ وَجَبَتْ لَهُمُ النَّارُ قَالُوا وَ لِمَ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ- قَالَ لِأَنَّ الْمُحْسِنَ لَا يَحْتَاجُ إِلَى الشَّفَاعَةِ إِنَّمَا الشَّفَاعَةُ لِكُلِّ هَالِكٍ.»
سلمان فارسی نے رسول خدا سے نقل کیا ہے کہ: جب بھی کوئی بندہ شب عید (فطر) 6 رکعت نماز پڑھتا ہے تو اسے اپنے خاندان کے تمام افراد کی شفاعت کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، حتی اگر ان افراد پر آگ کا عذاب حتمی ہو کیوں نہ ہو چکا ہو۔ اس پر اصحاب نے کہا: یا رسول اللہ اس بات پر کیا دلیل ہے ؟ حضرت نے فرمایا: اس لیے کہ نیک انسان شفاعت کا محتاج نہیں ہے اور بے شک شفاعت گناہوں سے ہلاک ہونے والوں کے لیے ہے۔
مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط – بيروت)، بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق، ج 88، ص 131
و شيخ حر عاملى، محمد بن حسن، وسائل الشيعة – قم، چاپ: اول، 1409 ق، ج 8، ص 87
و ابن بابويه، محمد بن على، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال – قم، چاپ: دوم، 1406 ق، النص، ص 77.
واضح ہوا کہ جو شخص بھی شب عید فطر 6 رکعت مستحب نماز پڑھ لیتا ہے، وہ مقام شفاعت پر فائز ہو جاتا ہے۔
تفسیر علی ابن ابراہیم قمی میں ایک دوسری روایت میں ایسے ذکر ہوا ہے کہ:
قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ الْمُكَبِّرِ قَالَ دَخَلَ مَوْلًى لِامْرَأَةِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع عَلَى أَبِي جَعْفَرٍ ع يُقَالُ لَهُ: أَبُو أَيْمَنَ، فَقَالَ: يَا أَبَا جَعْفَرٍ يغرونَ النَّاسَ وَ يَقُولُون: شَفَاعَةُ مُحَمَّدٍ «شَفَاعَةُ مُحَمَّدٍ». فَغَضِبَ أَبُو جَعْفَرٍ ع حَتَّى تَرَبَّدَ وَجْهُهُ ثُمَّ قَالَ: وَيْحَكَ يَا أَبَا أَيْمَنَ أَ غَرَّكَ أَنْ عَفَّ بَطْنُكَ وَ فَرْجُكَ- أَمَا لَوْ قَدْ رَأَيْتَ أَفْزَاعَ الْقِيَامَةِ لَقَدِ احْتَجْتَ إِلَى شَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ ص وَيْلَكَ فَهَلْ يَشْفَعُ إِلَّا لِمَنْ وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ ثُمَّ قَالَ: مَا أَحَدٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِينَ إِلَّا وَ هُوَ مُحْتَاجٌ إِلَى شَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ ص يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع: إِنَّ لِرَسُولِ اللَّهِ ص الشَّفَاعَةَ فِي أُمَّتِهِ- وَ لَنَا الشَّفَاعَةَ فِي شِيعَتِنَا وَ لِشِيعَتِنَا الشَّفَاعَةَ فِي أَهَالِيهِمْ- ثُمَّ قَالَ: وَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيَشْفَعُ فِي مِثْلِ رَبِيعَةَ وَ مُضَرَ فَإِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيَشْفَعُ حَتَّى لِخَادِمِهِ وَ يَقُولُ: يَا رَبِّ حَقُّ خِدْمَتِي كَانَ يَقِينِي الْحَرَّ وَ الْبَرْد.»
ابو العباس المکبر نے نقل کیا ہے کہ امام سجاد (ع) کی زوجہ کا ایک ابو ایمن نامی غلام تھا، وہ غلام امام محمد باقر کے پاس گیا اور عرض کیا: اے ابا جعفر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: محمد شفاعت کریں گے، محمد شفاعت کریں گے (یعنی لوگوں کو یہ غلط بات بتائی جاتی ہے، حالانکہ یہ حقیقت نہیں ہے) یہ سن کر امام محمد باقر (ع) کو سخت غصہ آ گیا اور فرمایا: افسوس ہے تم پر اے ابو ایمن ! کیا اس نے تمہیں دھوکہ دیا ہے کہ جو تم سے کہے کہ اپنے شکم اور اپنی شرمگاہ کو گناہ سے پاک کرو ؟ (یعنی جیسے یہ دینی احکام میں سے ہے اور تم اس پر ایمان رکھتے ہو اور اسکا فائدہ تمہیں پہنچتا ہے تو رسول خدا کا شفاعت کرنا بھی دین کا ایک جز ہے اور اس پر ایمان رکھنا تمہیں فائدہ دے گا) تم اگر قیامت کی مصیبت و عذاب کو دیکھو گے تو جان لو گے کہ واقعا تم کو رسول خدا کی شفاعت کی ضرورت ہے، کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ ان لوگوں کی شفاعت کریں گے کہ جن پر آگ کا عذاب یقینی ہو چکا ہو گا ؟ پھر امام محمد باقر (ع) نے فرمایا کہ: اولین و آخرین میں سے کوئی بھی نہیں مگر یہ کہ وہ رسول خدا کی شفاعت کا محتاج ہو گا، پھر امام محمد باقر (ع) نے فرمایا: رسول خدا (ص) اپنی امت کی شفاعت کریں گے اور ہم بھی اپنے شیعوں کی شفاعت کریں گے اور ہمارے شیعہ بھی اپنے اپنے خاندان والوں کی شفاعت کریں گے، پھر فرمایا کہ: ایک مؤمن انسان قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر کی تعداد کے مطابق لوگوں کی شفاعت کرے گا (یہ عرب کے بہت بڑے دو قبیلے تھے) اور مؤمن انسان حتی اپنی خدمت کرنے والے خادم کی بھی شفاعت کرے گا اور کہے گا: خدایا میرے خادم کا مجھ پر یہ حق ہے کہ وہ میری خدمت کرتا تھا اور مجھے گرمی اور سردی سے بچاتا تھا، (لہذا میں اسکی شفاعت کروں گا)۔
قمى، على بن ابراهيم، تفسير القمي، تحقق: موسوی جزائری، دار الکتاب، قم، چاپ سوم، 1404 ق، ج 2، ص 202.
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ ایسی روایات فقط شیعہ کتب میں ذکر نہیں ہوئیں بلکہ اہل سنت کی روایات میں بھی ذکر ہوا ہے کہ ایسے شخص کی شفاعت ہونا ممکن ہے کہ جس پر جہنم کی آگ کا عذاب واجب ہو چکا ہو اور مؤمن انسان بھی ایسے شخص کی شفاعت کر سکتا ہے۔ اس بارے میں اہل سنت کی چند روایات مندرجہ ذیل ذکر کی جا رہی ہیں:
ابن ماجہ نے اپنی کتاب سنن ابن ماجہ میں ایسے نقل کیا ہے کہ:
حدثنا عَمْرُو بن عُثْمَانَ بن سَعِيدِ بن كَثِيرِ بن دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ ثنا محمد بن حَرْبٍ عن أبي عُمَرَ عن كَثِيرِ بن زَاذَانَ عن عَاصِمِ بن حمزة عن عَلِيِّ بن أبي طَالِبٍ قال قال رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم من قَرَأَ الْقُرْآنَ وَحَفِظَهُ أَدْخَلَهُ الله الْجَنَّةَ وَشَفَّعَهُ في عَشَرَةٍ من أَهْلِ بَيْتِهِ كلهم قد استوجب النَّارَ.
(امام) علی ابن ابی طالب (ع) نے رسول خدا سے نقل کیا ہے کہ ان حضرت نے فرمایا کہ: جو بھی قرآن کو پڑھے اور اسے حفظ کرے تو خداوند اسے جنت میں داخل کرے گا اور اسے اپنے خاندان کے 10 افراد کی شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، حالانکہ ان تمام کے تمام 10 افراد پر آگ کا عذاب قطعی ہو چکا ہو گا۔
سنن ابن ماجه ، اسم المؤلف: محمد بن يزيد أبو عبدالله القزويني الوفاة: 275، دار الفكر، بيروت، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ج 1، ص 78.
یہی روایت تھوڑے فرق کے ساتھ ترمذی نے بھی اپنی کتاب سنن ترمذی میں ذکر کیا ہے:
«حدثنا عَلِيُّ بن حُجْرٍ أخبرنا حَفْصُ بن سُلَيْمَانَ عن كَثِيرِ بن زَاذَانَ عن عَاصِمِ بن ضَمْرَةَ عن عَلِيِّ بن أبي طَالِبٍ قال قال رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم من قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاسْتَظْهَرَهُ فَأَحَلَّ حَلَالَهُ وَحَرَّمَ حَرَامَهُ أَدْخَلَهُ الله بِهِ الْجَنَّةَ وَشَفَّعَهُ في عَشْرَةٍ من أَهْلِ بَيْتِهِ كلهم وَجَبَتْ له النَّارُ.»
ی
(امام) علی ابن ابی طالب (ع) نے رسول خدا سے نقل کیا ہے کہ ان حضرت نے فرمایا کہ: جو بھی قرآن کو پڑھے اور اس سے مطالب کو سمجھے اور اسکے حلال کو حلال اور اسکے حرام کو حرام شمار کرے تو خداوند اسے جنت میں داخل کرے گا اور اسے اپنے خاندان کے 10 افراد کی شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، حالانکہ ان تمام کے تمام 10 افراد پر جہنم کی آگ کا عذاب یقینی ہو چکا ہو گا۔
الجامع الصحيح سنن الترمذي، اسم المؤلف: محمد بن عيسى أبو عيسى الترمذي السلمي الوفاة: 279، دار النشر: دار إحياء التراث العربي، بيروت،تحقيق: أحمد محمد شاكر و آخرون، ج 5، ص 171.
اس روایت کو ان دو کے علاوہ احمد ابن حنبل نے بھی اپنی کتاب مسند احمد میں دو جگہ پر نقل کیا ہے:
مسند الإمام أحمد بن حنبل، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشيباني، الوفاة: 241، دار النشر: مؤسسة قرطبة – مصر، ج 1، ص 148، ح 1267 و ص 149، ح 1277.
اسی طرح اسی روایت کو اہل سنت کے دوسرے بہت سے علماء نے بھی اپنی اپنی کتب میں نقل کیا ہے:
جیسے ابو یعلی نے اپنی کتاب مسند میں، بیہقی نے کتاب شعب الایمان میں، آجری نے کتاب الشریعة، طبرانی نے کتاب المعجم الاوسط و … میں نقل کیا ہے۔
اسی طرح اہل سنت کے بعض علماء جیسے خطیب بغدادی نے کتاب تاریخ بغداد میں اس روایت کو عائشہ سے نقل کیا ہے۔ اسی طرح بیہقی نے کتاب شعب الایمان میں اسی روایت کو جابر سے اور اس نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے۔
قابل توجہ یہ کہ ابن حبان نے اپنی کتاب صحیح ابن حبان میں ابو حاتم سے نقل کیا ہے کہ خداوند کی عفو و بخشش یہ ہے کہ ایسے افراد کہ جن پر جہنم کا عذاب واجب ہو چکا ہے، کو شفاعت یا کسی دوسری چیز کے وسیلے سے نجات دے:
«قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: الْفَرْقُ بَيْنَ الْعَفْوِ وَالْغُفْرَانِ أَنَّ الْعَفْوَ قَدْ يَكُونُ مِنَ الرَّبِّ جَلَّ وَعَلا لَمْنِ اسْتَوْجَبَ النَّارَ مِنْ عِبَادِهِ قَبْلَ تَعْذِيبِهِ إِيَّاهُمْ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْهُ وَقَدْ يَكُونُ ذَلِكَ بَعْدَ تَعْذِيبِهِ إِيَّاهُمُ الشَّيْءَ الْيَسِيرَ ثُمَّ يَتَفَضَّلُ عَلَيْهِمْ جَلَّ وَعَلا بِالْعَفْوِ إِمَّا مِنْ حَيْثُ يُرِيدُ أَنْ يَتَفَضَّلَ وَإِمَّا بِشَفَاعَةِ شَافِعٍ وَالْغُفْرَانُ هُوَ الرِّضَا نَفْسُهُ وَلا يَكُونُ الْغُفْرَانُ.»
ابو حاتم نے کہا ہے کہ عفو اور غفران میں یہ فرق ہے کہ عفو خداوند کی طرف سے ایسے بندوں کے لیے ہے کہ جن پر آتش جہنم کا عذاب قطعی ہو چکا ہو، انکو عذاب سے نجات دے دے، یہ عفو ہے، اور کبھی یہی عفو گناہ کار افراد پر تھوڑا عذاب ہونے کے بعد، انکے شامل حال ہوتی ہے، یہ عفو کبھی خداوند کے اپنے لطف و کرم کے ذریعے سے ہوتی ہے یا کبھی شفاعت کرنے والے کی شفاعت کے ذریعے سے، اس عفو کو غفران کہتے ہیں۔۔۔۔۔ ،
صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، اسم المؤلف: محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم التميمي البستي، الوفاة: 354، مؤسسة الرسالة، بيروت، 1414ق – 1993 م، الطبعة: الثانية، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، ج 4، ص 562.
دلیل سوم کا خلاصہ: یہ ہے کہ وہ لوگ کہ جن پر جہنم اور اسکی آگ کا عذاب یقینی ہو چکا ہو، شفاعت ایسے لوگوں کے شامل حال ہوتی ہے اور وہ نجات حاصل کرتے ہیں اور یہ شفاعت امام حسین (ع) کے زائر کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ شیعہ اور اہل سنت کی روایات میں ذکر ہوا ہے کہ ایک شخص نیک کام انجام دینے کیوجہ سے اور مؤمن شخص اپنے ایمان کیوجہ سے بھی ایسے افراد کو شفاعت کے ذریعے سے نجات دے سکتا ہے کہ جو سو فیصد جہنمی ہو چکے ہوں۔
دلیل چہارم: عذاب کے یقینی ہونے سے کیا مراد ہے ؟
روایات اور اسی طرح شیعہ و سنی علماء کے کلام سے واضح ہو گیا کہ شفاعت، خداوند کی طرف سے ایک لطف و کرم ہے کہ جسکی وجہ سے وہ اپنے بعض نیک بندوں کو اجازت دیتا ہے کہ ان افراد کی شفاعت کریں کہ جن پر عذاب ہونا قطعی ہو چکا ہے، یہاں پر یہ سوال ایجاد ہوتا ہے کہ عذاب کے قطعی و یقینی ہونے سے کیا مراد ہے ؟
جواب: اس سے مراد یہ ہے کہ ان افراد کے گناہ اور اعمال باعث بنے ہیں کہ یہ لوگ عذاب کے مستحق ہوں، مثال کے طور پر اگر کوئی کسی کے خلاف غلط گواہی دے، اور یا جھوٹی قسم کھائے اور یہ شخص اس غلط گواہی و جھوٹی قسم کے ذریعے سے اس شخص کے حق کو ضائع کرتا ہے۔ روایات میں ذکر ہوا ہے کہ اس شخص پر آتش جہنم کا عذاب قطعی ہو جاتا ہے، یعنی یہ بندہ عذاب کا مستحق ہو جاتا ہے، لیکن صرف اس مستحق ہونے کیوجہ سے اس پر عذاب نہیں ہوتا بلکہ اگر یہ بندہ توبہ کرے اور اس شخص کے ضائع شدہ حق کو جبران کرے اور اسے راضی کرے تو اس صورت میں اس بندے پر عذاب نہیں ہو گا۔
ہماری بحث بھی بالکل اسی طرح ہی ہے کہ بعض افراد گناہان کبیرہ انجام دینے کیوجہ سے عذاب الہی کے مستحق ہو جاتے ہیں، یعنی ان میں عذاب ہونے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے، لیکن صرف اسی صلاحیت کیوجہ سے ان پر عذاب نہیں ہوتا، بلکہ خداوند کی بخشش یا رسول خدا (ص) ، آئمہ (ع) اور مؤمن و نیک انسانوں جیسے زائر امام حسین (ع) کی شفاعت کیوجہ سے نجات حاصل کر لیتے ہیں، پس شفاعت عذاب کو دور کرنے میں توبہ کی طرح ہے کہ کبھی کبھی اسی شفاعت کیوجہ سے قطعی و یقینی عذاب گناہ کار سے دور ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے علماء بیان کرتے ہیں کہ اگر شفاعت کے معنی و مفہوم کو صحیح طرح سے سمجھا جائے تو شفاعت پر ہونے والے اعتراضات خود بخود ختم ہو جائیں گے۔
شفاعت ، نہ تو گناہ کی ترغیب ہے ،نہ گنہگار کے لیے گرین لائٹ، نہ عقب ماندگی کا سبب اور نہ ہی آج کل کی دنیا میں رائج پارٹی بازی، بلکہ تربیت کا اہم مسئلہ ہے جو مختلف لحاظ سے مثبت اور مفید آثار لیے ہوئے ہے، منجملہ:
الف۔ امید کی کرن اور مایوسی سے مقابلہ:
بعض اوقات انسان پر ہوائے نفس کا غلبہ ہو جاتا ہے اور بہت سے اہم گناہوں کا مرتکب ہو جاتا ہے، جس سے گنہگار انسان مایوسی اور نا امیدی کا شکار ہو جاتا ہے، جس سے گنہگار کو مزید گناہ انجام دینے میں مدد ملتی ہے کیونکہ ایسے موقع پر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اب تو پانی سر سے گزر گیا ہے، تھوڑا کیا تو زیادہ کیا !
لیکن شفاعت ِاولیاء اللہ ان کو بشارت دیتی ہے کہ بس یہیں رک جاؤ اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو، ممکن ہے ان کے گزشتہ گناہ شافعین کی شفاعت پر بخش دئیے جائیں، لہٰذا شفاعت کی امید انسان کو مزید گناہ سے روکتی ہے اور تقویٰ و اصلاح نفس میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔
ب۔ اولیاء اللہ سے معنوی تعلق پیدا ہونا:
شفاعت کے معنی کے پیش نظر یہ نتیجہ حاصل کرنا آسان ہے کہ شفاعت اسی وقت ممکن ہے جب ” شفیع “ اور ” شفاعت ہونے والے شخص “ کے درمیان ایک قسم کا رابطہ ہو، لہٰذا شفاعت کے لیے ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ معنوی رابطہ ہونا ضروری ہے۔
اگر کوئی شخص کسی کی شفاعت کی امید رکھتا ہو تو اس کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ شفاعت کرنے والے سے بہترین تعلقات قائم رکھے اور ایسے اعمال انجام دے جن سے وہ خوش رہے، بُرے کاموں سے اجتناب کرے، اس کی محبت و دوستی کو بالکل ختم نہ کر ڈالے۔
یہ تمام چیزیں انسانی تربیت کے لیے بہترین اسباب ہیں، جن کے ذریعہ انسان آہستہ آہستہ گناہوں کی گندگی سے باہر نکل آتا ہے، یا کم از کم بعض برائیوں کے ساتھ ساتھ نیک کام بھی انجام دیتا ہے اور شیطان کے جال میں مزید پھنسنے سے بچ جاتا ہے۔
ج۔ شفاعت کے شرائط حاصل کرنا:
قرآن مجید کی متعدد آیات میں شفاعت کے لیے بہت سی شرائط ذکر ہوئی ہیں ان میں سب سے اہم خداوند کی طرف سے اذن و اجازت ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ جو شخص شفاعت کا امیدوار ہے تو اسے خداوند کی رضایت حاصل کرنی ہو گی، یعنی اسے ایسے اعمال انجام دینے ہوں گے جن سے خداوند راضی و خوشنود ہو جائے۔
بعض آیات میں بیان ہوا ہے کہ روز قیامت صرف ان ہی لوگوں کے بارے میں شفاعت قبول کی جائے گی جن کے بارے میں خداوند نے اجازت دی ہو اور اس کی باتوں سے راضی ہو گیا ہے۔
سورہ طٰہٰ، آیت 109
سورہ انبیاء ، آیت نمبر 28 میں بیان ہوا ہے کہ شفاعت کے ذریعہ صرف انھیں لوگوں کی بخشش ہو گی جو مقام ارتضاء (یعنی خوشنودی خدا) تک پہنچ چکے ہوں گے، اور سورہ مریم ، آیت 87 کے مطابق جن لوگوں نے خدا سے عہد کر لیا ہو، اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ یہ تمام مقامات اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب انسان خداوند اور اس کی عدالت پر ایمان رکھتا ہو ، نیکیوں اور برائیوں میں حکم خداوند کو قبول کرتا ہو اور خدا کی طرف سے نازل شدہ تمام قوانین کے صحیح ہونے پر گواہی دے۔
اس کے علاوہ بعض آیات میں بیان ہوا ہے کہ ظالمین کو شفاعت نصیب نہ ہو گی، لہٰذا شفاعت کی امید رکھنے والے کے لیے ظالمین کی صف سے باہر نکل آنا ضروری ہے، (چاہے وہ کسی بھی طرح کا ظلم ہو، دوسروں پر ظلم ہو یا اپنے نفس پر ظلم ہو)۔
یہ تمام چیزیں باعث بنتی ہیں کہ شفاعت کی امید رکھنے والا شخص اپنے گذشتہ اعمال پر تجدید نظر کرے اور آئندہ کے لیے بہتر طور پر منصوبہ بندی کرے، یہ خود انسان کی تربیت کے لیے بہترین اور مثبت پہلو ہے۔
د۔ شافعین پر توجہ:
قرآن کریم میں شافعین کے سلسلہ میں بیان شدہ مطالب پر توجہ، اسی طرح احادیث معصومین علیہم السلام میں بیان شدہ وضاحت پر توجہ کرنا مسئلہ شفاعت کا ایک دوسرا تربیتی پہلو ہے۔
پیغمبر اکرم (ص) نے ایک حدیث میں فرمایا:
الشّفاءُ خَمْسَةٌ: القُرآن، وَالرّحم، والاٴمَانة، وَنبیکُم، وَاٴہلَ بَیتَ نبیکم،
روز قیامت شفاعت کرنے والے پانچ ہیں: قرآن، صلہ رحم، امانت، تمہارے پیغمبر اور اہل بیت پیغمبر (علیہم السلام)۔
میزان الحکمہ، ج 5، ص 122
ایک دوسری حدیث جو کتاب مسند احمد میں نقل ہوئی ہے، پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:
تَعَلّمُوا القرآنَ فَاٴنَّہُ شَافِعٌ یَومَ القیامَة،
قرآن کی تعلیم حاصل کرو کیونکہ وہ روز قیامت تمہاری شفاعت کرنے والا ہے۔
مسند احمد ، ج 5، ص 251
یہی معنی نہج البلاغہ میں امام المتقین حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے بیان ہوئے ہیں:
فَإنَّہُ شَافِعٌ مُشَفِّعٌ،
قرآن کریم ایسا شفاعت کرنے والا ہے جس کی شفاعت بارگاہ الٰہی میں قبول ہے۔
نہج البلاغہ ،کلمات قصار ،کلمہ 371
متعدد روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شفاعت کرنے والوں میں سب سے بہترین شفاعت کرنے والا خود توبہ ہے:
لَا شَفِیْعَ اٴنجَح مِنَ التَّوبَةِ،
توبہ سے زیادہ کامیاب کوئی شفیع نہیں ہے۔
بعض احادیث میں انبیاء، اوصیاء، مومنین اور ملائکہ کی شفاعت کی تصریح کی گئی ، جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) کی حدیث ہے:
الشَّفَاعةُ للِاٴنبیَاءِ وَالاٴوْصِیاءِ وَالمَوٴمِنِینَ وَالمَلائِکَةِ ،وَفِی المَوٴمنِینَ مَنْ یَشفَعُ مِثْلَ رَبیعةَ و مضر ! واٴقلَّ المَوٴمِنِیْنَ شَفَاعة مَنْ یَشْفَعُ ثَلاثِینَ إنسَاناً ،
انبیاء، اوصیاء ،مومنین اور فرشتے شفاعت کرنے والے ہیں اور مومنین کے درمیان شفاعت کرنے والے ایسے بھی ہوں گے جو قبیلہ ربیعہ اور مُضر کے برابر شفاعت کریں گے اور سب سے کم شفاعت کرنے والے مومنین (بھی) تیس افراد کی شفاعت کریں گے۔
بحار الانوار ، جلد 8، ص 58،حدیث 75
حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ خداوند روز قیامت عابد اور عالم کو مبعوث کرے گا، اور جس وقت یہ دونوں عدل الٰہی کے مقابل کھڑے ہوں :
قِیلَ لِلْعَابِدِ اِنطَلِقْ إلیَ الجَنَّة، وَقِیْلَ لِلْعَالِمِ قِفْ، تَشفَع لِلنَّاسِ بِحُسْنِ تَادِیبِکَ لَھُم،
عابد سے کہا جائے گا کہ تم جنت میں چلے جاؤ، اور عالم کو روک لیا جائے گا، اور اس سے کہا جائے گا کہ تم ان لوگوں کی شفاعت کرو جن کی تم نے نیک تربیت کی ہے۔
بحار الانوار ، ج 8، ص 56،حدیث 66
گزشتہ روایات خصوصاً آخری روایات میں ایسے الفاظ بیان ہوئے ہیں جن سے صاف صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ شفاعت کی امید رکھنے والے کے لیے نیک افراد ، مومنین اور علماء سے ایک معنوی رابطہ ہونا ضروری ہے۔
شہداء ِراہ خدا کے بارے میں بھی پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
وَ یَشْفَعُ الرَّجُلُ مِنھُم مِن سَبْعِینَ اٴلفَا مِن اٴہلِ بَیتِہِ وَ جِیرَانِہ،
شہداء میں سے ہر شہید اپنے خاندان اور پڑوسیوں میں سے 70 ہزار افراد کی شفاعت کرے گا۔
مجمع البیان ، ج 2، ص 538، (سورہ آل عمران آیت 171 کے ذیل میں)
یہاں تک بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شفیع انسان، خداوند کی اطاعت اور عمل حق ہے:
شَافِعُ الخَلْقِ :العَمَلُ بِالحَقِّ وَلزومِ الصِّدْقِ ،
غررا لحکم
نتیجہ یہ ہوا کہ شفاعت اسلام کے اہم ترین تربیتی مسائل میں ہے، جس کی شفاعت کرنے والوں کی قسموں کے اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت ہے، اور تمام مسلمانوں کو شفاعت کی اس عظیم منزلت کی طرف اور شفاعت کرنے والوں سے معنوی رابطہ قائم کرنے کی دعوت دی گئی ہے، اور مسئلہ شفاعت کے غلط اور تحریف شدہ شفاعت کے معنی کو الگ کر دیتی ہے۔
تفسیر پیام قرآن ، ج 6، ص 523
شفاعت قرآن کی روشنی میں:
رسول اکرم (ص) کی شفاعت قرآن کریم میں مکمل طور پر تائید شدہ ہے اور کوئی بھی مسلمان اصولی طور پر شفاعت کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں کرتا اور صرف اس کے احکام اور مقام و منزلت پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آیت شریفہ میں ارشاد ہوتا ہے:
وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَاماً مَّحْمُوداً،
اور رات کے کچھ حصہ میں آپ نماز تہجد پڑھیے کہ جو آپ کے لیے ایک اضافہ ہے، نزدیک ہے کہ آپ کو آپ کا پروردگار مقام محمود (اور قابل تعریف موقف) پر کھڑا کرے۔
سوره الإسراء آیت 79
تمام شیعہ اور سنی مفسرین متفق القول ہیں کہ اس آیت میں مقام محمود سے مراد شفاعت ہی ہے جس کا وعدہ خداوند متعال نے اپنے پیغمبر(ص) کو دیا ہے۔
تفسیر الرازی، ج 3، ص 55
قرآن مجید میں شفاعت کے سلسلے میں نازل ہونے والی آیات کی چند قسمیں ہیں: ان میں سے بعض قیامت کے دن شفاعت کی مکمل نفی کرتی ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ۔
اے ایمان لانے والو جو کچھ ہم نے تم کو روزی دی ہے اس میں سے خیرات کرو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ کوئی معاملہ ہو گا نہ دوستی اور نہ سعی سفارش (شفاعت) اور کافر لوگ خود ہی ظلم کرنے والے ہیں۔
سورہ بقرہ آیت 254
وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ،
اور اس دن سے بچنے کا سامان کرو جب نہ کوئی دوسرے کو کوئی فائدہ پہنچا سکے گا اور نہ کسی کی شفاعت (یا سفارش) قبول ہو گی اور نہ کسی کا کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ انہیں کوئی مدد مل سکے گی۔
سورہ بقرہ آیت 48
بعض دوسری آیات شفاعت کو صرف اللہ کی ذات کے لیے مختص و محدود سمجھتی ہیں:
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ۔
اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر عرش پر برقرار ہوا اور اسے چھوڑ کر تمہارا نہ کوئی مالک ہے اور نہ کوئی شفاعت کرنے والا تو کیا تم نصیحت قبول نہ کرو گے ؟
سورہ سجدہ آیت 4
قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعاً لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ۔
کہہ دیں کہ شفاعت پوری کی پوری اللہ کے قبضے میں ہے اسی کے لیے مخصوص ہے سلطنت آسمانوں اور زمین کی اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
سورہ زمر آیت 44
بعض دیگر آیات شفاعت کو فرمان پروردگار سے مشروط قرار دیتی ہیں:
مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاء۔
اللہ ! نہیں کوئی خدا سوا اس کے جو زندہ ہے، بندوبست کرنے والا، اس پر نہ غنودگی غالب ہوتی ہے اور نہ نیند۔ اس کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ کون ہے وہ جو بغیر اس کی اجازت کے اس یہاں شفاعت کرے ؟ وہ جانتا ہے اسے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے ذرا پر بھی حاوی نہیں ہیں مگر وہ جتنا چاہے۔
سورہ بقرہ آیت 255
وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ ،
اور اس کے یہاں شفاعت فائدہ نہیں دیتی مگر اس کی جسے وہ اجازت دے، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دور کر دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ کیا کہا تھا تمہارے پروردگار نے ؟ وہ کہیں گے کہ اس نے حق کہا تھا اور وہ اونچا ہے، بہت بڑا۔
سورہ سباء آیت 23
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَٰى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ۔
اور وہ شفاعت نہیں کرتے مگر اس کے لیے جس سے وہ راضی و خوشنود ہو [اور اس کے حق میں ہونے والی شفاعت کو پسند کرے] اور وہ اس کے خوف سے فکرمند رہتے ہیں۔۔
سورہ انبیاء آیت 28
تمام آیات شفاعت کا جائزہ لینے سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات کریمہ شفاعت کی ایک قسم کی تائید کرتی ہیں اور ایک خاص قسم کی شفاعت کو باطل سمجھتی ہیں اور ان کی نفی کرتی ہیں۔ شفاعت کی نفی کرنے والی آیات سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی خداوند کی ذات سے بے نیاز ہو کر مستقل طور پر شفاعت کا حق نہیں رکھتا اور شفاعت کی تائید کرنے والی آیات سے مراد یہ ہے کہ شفاعت اپنی ذات کی حد تک صرف اور صرف اللہ کے لیے ہے اور غیر اللہ کی شفاعت اللہ کے اذن اور اس کی اجازت سے مشروط ہے۔
وَلا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ عَنْدَهُ إِلاّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ۔
اور اس کے یہاں شفاعت فائدہ نہیں دیتی مگر اس کی جسے وہ اجازت دے۔
سورہ سبأ آیت 23
شفاعت احادیث کی روشنی میں:
رسول اللہ (ص) اور اہل بیت علیہم السلام کی احادیث میں شفاعت کی حقیقت کو واضح طور پر مورد تائید قرار دیا گیا ہے اور اس کے مختلف زاویے بھی بیان کیے گئے ہیں:
رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
اعطیتُ خمساً… واعطیتُ الشفاعة، فادّخرتُها لأُمّتی فهی لِمَن لا یشرک باللّه شیئاً۔
خداوند نے مجھے پانچ امتیازی خصوصیات عطا کی ہیں۔۔۔ جن میں سے ایک شفاعت ہے اور میں نے اسے اپنی امت کے لیے ذخیرہ کر رکھا ہے، شفاعت ان لوگوں کے لیے ہے جو شرک کا ارتکاب نہ کریں۔
مسند احمد، ج 1 ص 301
سنن نسائی، ج 1 ص 201
سنن دارمی، ج 2 ص 873
نیز رسول اکرم (ص) فرماتے ہیں:
ثلاثة يشفعون إلى الله عز وجل فيشفعون: الأنبياء، ثم العلماء، ثم الشهداء۔
تین قسم کے لوگ ہیں جو اللہ کی بارگاہ میں گنہگاروں کی شفاعت کرتے ہیں اور ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے: انبیاء، ان کے بعد علمائے دین اور ان کے بعد شہداء۔
محمد بن يزيد القزويني، السنن ج2 ص1443 ح4313
صدوق، الخصال، ص 142
مجلسی، بحار الأنوار، ج 8، ص 34
شفاعت کے بارے میں وارد ہونے والی روایات کی تین قسمیں ہیں:
وہ روایات جو کہتی ہیں کہ شفاعت کے مستحق گنہگار شخص کو دوزخ میں جانے سے معاف کیا جاتا ہے۔
وہ جو کہتی ہیں کہ بعض گنہگار مدتوں تک جہنم میں رہتے ہیں اور اسکے بعد شفاعت کا مستحق قرار دیا جاتا ہے اور عذاب سے چھوٹ جاتا ہے۔
وہ روایات جو کہتی ہیں کہ بعض لوگ پوری طرح شفاعت سے محروم رہتے ہیں اور انہیں ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا پڑتا ہے۔
پس وہ روایات جو کہتی ہیں کہ جو شخص ذرہ برابر ایمان رکھتا ہو وہ بالآخر شفاعت سے بہرہ ور ہوتا ہے، ان روایات کے منافی نہیں ہیں جو کہتی ہیں کہ جو کوئی نماز سے بے اعتنائی برتے، شفاعت اس کے شامل حال نہيں ہوتی” کیونکہ جو شخص صاحب ایمان ہو وہ بالآخر شفاعت کی نعمت سے بہرہ ور ہو جاتا لیکن ممکن ہے وہ طویل عرصے تک جہنم میں عذاب الہی میں مبتلا رہے حتی کہ اس کی بعض آلودگیاں زائل ہو جائیں اور شفاعت کا لائق ٹہرے۔
صحیح اور باطل شفاعت:
شفاعت باطل:
شفاعت باطل وہ ہے کہ مجرم قانون کی خلاف ورزی کرے اور غیر قانونی و ناجائز راستے سے قانون ساز ارادے اور قانون کے ہدف و مقصد پر غلبہ پائے۔ اس طرح کی شفاعت (یعنی سفارش) دنیا میں ظلم کے زمرے میں آتی ہے اور آخرت میں نا ممکن ہے۔
مطهری، مرتضی، عدل الهی، ص234
جو اعتراضات شفاعت پر وارد ہیں وہ در حقیقت اسی قسم کی شفاعت سے تعلق رکھتے ہیں اور یہی وہ قسم ہے جس کی قرآن مجید میں بھی نفی ہوئی ہے۔
باطل شفاعت:
باطل شفاعت وہ ہے جس کا سر چشمہ، عقیدہ تفویض ہے جو ایک غلط اور باطل عقیدہ ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ خداوند متعال نے خلقت کے بعد اس عالم کا انتظام و بندوبست دوسروں کے سپرد کیا ہے اور وہ خود مزید کوئی کردار ادا نہیں کرتا اور اسی بناء پر دوسرے [جن کو انتظام کائنات سونپ دیا گیا ہے] مستقل طور اور خدا سے بالکل الگ، شفاعت کر سکتے ہیں اور کوئی شفیعوں کا اعتماد حاصل کر سکے تو اس کو مزید خدا کی رضا حاصل کرنے کی ضرورت نہيں ہے!
صحیح شفاعت:
صحیح اور قرآنی شفاعت کہ جو شیعہ عقیدے کے عین مطابق ہے اور رسول اللہ (ص) اور ائمہ اطہار (ع) نے بھی اس کی تائید فرمائی ہے، وہ ہے جس کا تعلق صرف خدا سے ہے اور کوئی بھی اس کے اذن کے بغیر شفاعت نہیں کر سکتا۔ انبیاء (ع) اور ائمہ اطہار (ع) کی شفاعت کا مطلب بھی ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ اس سلسلے میں مستقل کردار کے مالک ہیں یا ان کی شفاعت کے لیے ان اعمال اور لوازم کے سوا دوسرے وسائل و وسائط کی ضرورت ہے جن کا حکم خداوند متعال نے دیا ہے، بلکہ اس کے برعکس وہ صرف ان لوگوں کی شفاعت کرتے ہیں جن سے خداوند متعال راضی و خوشنود ہو۔
وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَٰى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ،
اور وہ شفاعت نہیں کرتے مگر اس کے لیے جس سے وہ راضی و خوشنود ہو [اور اس کے حق میں ہونے والی شفاعت کو پسند کرے] اور وہ اس کے خوف سے فکر مند رہتے ہیں۔
سورہ انبیاء آیت 28
شافعین:
شفاعت تکوینی جس کے معنی اسباب و مسببات کی اثر گذاری کے ہیں، پورے عالم میں جاری و ساری ہے اور عالم وجود کی تمام اشیاء میں رائج و موجود ہے۔ اسی بناء پر روایات مین افراد اور گروہوں کے علاوہ بعض مقامات کے لیے بھی حق شفاعت قرار دیا گیا ہے اور مراد وہ اثر ہے جو یہ امور انسانوں کی ہدایت میں مرتب کرتے ہیں۔ تشریعی شفاعت میں انسان کے شفعاء یا تو فرد کے اعمال صالح کے زمرے میں آتے ہیں یا پھر انبیاء (ع) اور اولیاء (ع) ہیں یا دیگر امور۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ: رسول اکرم(ص) کی شفاعت شفاعت کبری کہلاتی ہے۔ روایات میں منقول ہے کہ آپ کی شفاعت کبائر کا ارتکاب کرنے والوں کے بھی شامل حال ہو گی۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام
ائمۂ طاہرین علیہم السلام
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
قرآن کریم
انبیاء (ع) اور اوصیا (ع)
محمد بن یزید قزوینی (ابن ماجہ)، سنن ابن ماجہ، ج2، ص724 نیز رجوع کریں سید حمیری، قرب الاسناد،ص 64
توبہ:
توبہ کی نسبت انبیاء (ع)، اوصیا (ع) اور ملائکہ کی شفاعت کی امتیازی خصوصیت کہ ہے کہ ان کی شفاعت قیامت کے دن بھی قابل قبول ہے جبکہ توبہ صرف دنیا میں مؤثر ہے۔
ملائکہ،
سورہ انبیاء آیت 28
علماء،
ابن ماجہ، السنن، ج2، ص724
سید حمیری، قرب الاسناد،ص 64
شہداء،
خداوند متعال،
چونکہ خداوند متعال ارحم الراحمین ہے، بعد اس کے کہ شفاعت کرنے والے روز قیامت شفاعت کر چکیں، بہت سے افراد جو شفعاء کی شفاعت سے محروم رہ گئے ہیں، ان کی شفاعت خداوند متعال خود فرماتا ہے اور وہ اس کی رحمت سے بہرہ ور ہونگے۔
بعنوان نمونہ رجوع کریں: علم الیقین، ج 2، ص 1325
صحیح بخاری، ج 4، کتاب توحید، باب 24، ص 392، ح 7439
بحار الانوار، ج 8، ص 362
علامہ طباطبائی کا قول:
علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں:
دنیا کے شافعین:
توبہ، رسول خدا (ص) پر ایمان، قرآن کریم، ملائکہ، مؤمنین اور عمل صالح دنیا کے شافعین میں شامل ہیں۔
جبکہ آخرت کے شافعین دو قسم کے ہیں:
1۔ وہ لوگ جو خداوند متعال کے ہاں مقام شفاعت پر فائز ہیں
2۔ وہ اعمال جو قیامت کے دن مجسم ہوکر افراد کی شفاعت کا سبب بنتے ہیں۔
وہ افراد جن کی شفاعت کو اللہ کی رضا اور پسندیدگی حاصل ہے:
انبیاء (ع)، بطور خاص حضرت رسول خدا (ص)، مولا علی (ع)، بی بی فاطمہ (س) اور ان کے گیارہ معصوم فرزند، قرآن، فرشتے، شہدا، علماء، اقرباء، ہمسائے (پڑوسی) شیعیانِ آل رسول (ص) اور صاحب ایمان افراد۔
علامہ طباطبائی، تفسیر المیزان ج1 ص260
وہ اعمال جنہیں روایات میں شفعاء کے عنوان سے متعارف کرایا گیا ہے:
امانت داری، روزہ، حضرت رسول (ص) اور آل رسول (ص) پر درود و صلوات، حضرت رسول خدا (ص) سے توسل کرنا۔
صحیفہ سجادیہ، ص 165
شافع کے لیے شرائط:
قرآنی آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شفاعت کرنے والے کے لیے دو شرطوں پر پورا اترنا پڑتا ہے:
شافع کے لیے اللہ کے ساتھ عہد و پیمان ہونا چاہیے:
لَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَہْداً،
انہیں شفاعت کا کوئی اختیار نہ ہو گا مگر جس کے لیے خدائے رحمن کی طرف سے عہد و پیمان [اور منصب شفاعت] حاصل ہو گیا ہو۔
سورہ مریم آیت 87
شافع کو حقیقت جان کر سچی گواہی دینا ہو گی:
وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِہِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَن شَہِدَ بِالْحَقِّ وَ ھمْ يَعْلَمُونَ۔
اور جنہیں وہ لوگ پکارتے ہیں اسے چھوڑ کر وہ شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے مگر وہ جو حقیقت کو جان کر، سچائی کے ساتھ گواہی دیتے ہیں۔
سورہ زخرف آیت 86
وہابی اور شفاعت:
اہل سنت کے تمام فرقے حتی وہابی شفاعت پر یقین رکھتے ہیں۔ وہابیوں کا فکری و اعتقادی پیشوا ابن تیمیہ کہتا ہے:
احادیث الشفاعة کثیرة متواترة، منها فی الصحیحین احادیث متعددة، وفی السنن والمسانید ممّا یکثر عدده،
شفاعت کی حدیثیں بہت زيادہ اور متواتر ہیں ان حدیثوں میں سے بعض جو متعدد ہیں، صحیحین (صحیح بخاری اور صحیح مسلم) میں منقول ہیں اور ان میں کثیر احادیث سنن اور مسانید میں موجود ہیں۔
مجموع فتاوی ابن تیمیة، ج 1، ص 314
ابن تیمیہ ہی کا کہنا ہے:
وَلَهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ فِی الْقِیامَةِ ثَلَاثُ شَفَاعَاتٍ… أَمَّا الشَّفَاعَةُ الثَّالِثَةُ: فَیشَفَّعُ فِیمَنْ اسْتَحَقَّ النَّارَ وَهَذِهِ الشَّفَاعَةُ لَهُ وَلِسَائِرِ النَّبِیینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَغَیرِهِمْ فَیشَفَّعُ فِیمَنْ اسْتَحَقَّ النَّارَ أَنْ لَا یدْخُلَهَا وَیشَفَّعَ فِیمَنْ دَخَلَهَا أَنْ یخْرُجَ مِنْهَا۔
پیغمبر اکرم (ص) کے لیے روز قیامت تین شفاعتیں ہیں… تیسری شفاعت ان لوگوں کے حق میں ہو گی جو دوزخ کے مستحق ہیں۔ آنحضرت (ص) اور دوسرے انبیاء (ع) اور صدیقین اور دیگر کی شفاعت اس لیے ہے کہ جو افراد دوزخ کے مستحق ہیں وہ دوزخ میں داخل نہ ہوں نیز ان کی جانب سے ان افراد کی شفاعت ہو گی جو دوزخ میں داخل ہو چکے ہیں [تا کہ وہ جہنم سے نجات پائیں]۔
مجموع الفتاوی، ج3، ص147
وہ مانتے ہیں کہ انبیاء اور صالحین دنیا میں اور اپنے ایام حیات میں نیز روز قیامت شفاعت کریں گے، عبد الرحمن ابن حسن ابن عبد الوہاب (متوفٰی 1285 ہجری) کہتا ہے:
وأمّا الاستشفاع بالرسول فی حیاته فإنّما هو بدعائه (ص) و دعائه مستجاب وأمّا بعد وفاته فلا یجوز الاستشفاع به ،
رسول خدا (ص) سے طلب شفاعت، آپ کے ایام حیات میں، آپ کی دعا کے واسطے ہے اور آپ کی دعا مقبول و مستجاب ہے، لیکن آپ کی وفات کے بعد آپ سے طلب شفاعت جائز نہیں ہے !!
کتاب التوحید وقرّة عیون الموحّدین، ص258
پس اختلاف کہاں ہے ؟
وہابیوں اور مسلم مذاہب و مکاتب کے درمیان نزاع و اختلاف عالم برزخ میں اولیائے الہی سے طلب شفاعت کے موضوع پر ہے اور چونکہ وہابی برزخی حیات کو نہیں مانتے لہذا [دنیا سے رخصت ہونے والی شخصیات کی طرف سے] اس قسم کی شفاعت کو جائز نہيں سمجھتے بلکہ اس کو شرک قرار دیتے ہیں۔
عبد اللہ ابن محمد ابن عبد الوہاب کہتا ہے:
نثبت الشفاعة لنبينا محمد صلی الله عليه وسلم يوم القيامة حسب ما ورد، وكذلك نثبتها لسائر الأنبياء، والملائكة، والأولياء، والأطفال حسب ما ورد أيضا، ونسألها من المالك لها، والإذن فيها لمن يشاء من الموحدين، الذين هم أسعد الناس بها، كما ورد، بأن يقول أحدنا – متضرعا إلی الله تعالی: اللهم شفع نبينا محمدا صلی الله عليه وسلم فينا يوم القيامة، أو: اللهم شفع فينا عبادك الصالحين، أو ملائكتك، أو نحو ذلك، مما يطلب من الله، لا منهم؛ فلا يقال: يا رسول الله، أو يا ولي الله، أسألك الشفاعة، أو غيرها، كأدركني، أو أغثني، أو اشفني، أو انصرني علی عدوي، ونحو ذلك، مما لا يقدر عليه إلا الله تعالی. فإذا طلب ذلك مما ذكر في أيام البرزخ، كان من أقسام الشرك،
ہم شفاعت کو اپنے اپنے پیغمبر (ص) کے لیے بروز قیامت ثابت کرتے ہیں، جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے۔ نیز ہم اس کو روایات و احادیث کی روشنی میں دوسرے انبیاء (ع)، ملائکہ اور اولیاء و اطفال کے لیے ثابت کرتے ہیں، لیکن ہم شفاعت کو اس کے مالک (خدا) ۔۔۔ سے مانگتے ہیں … شفاعت کو خدا سے طلب کرنا چاہیے نہ کہ شفیعوں سے۔ یعنی انسان یہ نہ کہے کہ ” اے رسول خدا (ص) ! اے ولی خدا (ص) ! ہم آپ سے شفاعت یا اس کے مشابہ کوئی چیز مانگتے ہیں … اور اس قسم کی عبارات بروئے کار نہ لائے جن پر خدا کے سوا کوئی بھی قدرت نہیں رکھتا۔ شفیع سے شفاعت مانگنا ایسے حال میں کہ وہ عالم برزخ میں ہو، شرک کی اقسام میں سے ہے۔
الدرر السنيه، ج1، ص231
اہم ترین وہابی اعتراضات:
شفاعت پر وہابیوں کے اہم ترین اعتراضات ان کی پیش کردہ دلیلیں اور ان کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:
غیر خدا سے شفاعت مانگنا شرک ہے:
شفیع سے شفاعت طلب کرنا، غیر اللہ سے دعا کرنے کے مترادف ہے اور یہ ” شرک فی العبادہ ” ہے، کیونکہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:
فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً ۔۔
پس تم اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت بلاؤ [مت پکارو یا کسی اور سے دعا مت کرو)۔
سورہ جن آیت 18
جواب:
توحید اور شرک کی نسبت غلط وہابی تصورات:
اس اعتراض کی بنیاد توحید کے معنی اور شرک کے مفہوم کے بارے میں وہابیوں کے غلط تصورات ہیں۔ مفہوم توحید اور شرک کے صحیح مفہوم کا تجزیہ کر کے وضوح کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے کہ غیر اللہ کو آواز دینا اور پکارنا بذات خود شرک کا لازمہ [یا مصداق] نہیں ہے اور حتی حرام بھی نہیں ہے کیونکہ شرک اس موقع پر لازم آتا ہے کہ کسی چیز کی الوہیت و ربوبیت پیش نظر ہو اور کسی شخص یا چیز کو خدا سے مستقل دیکھا جائے۔ اور شیعیان آل رسول (ص) سوائے ذات باری تعالی کے، ہرگز اپنے ائمہ (ع) یا کسی بھی دوسرے موجود کے لیے اس طرح کی خصوصیات کے قائل نہيں ہیں۔
بے شک مسلمانوں کو پکارنا اور ان سے مدد کی درخواست کرنا ایک مجاز اور مشروع امر ہے اور لازم ہے کہ مسلمان امکان کی حد تک مدد مانگنے والے کی مدد کریں اور دوسری طرف سے ہر گاہ ایک فرد کے توسط سے ایک عمل کی انجام دہی مجاز، جائز اور مشروع ہو یقینا اس امر کی درخواست بھی جائز و مشروع اور مجاز ہو گی۔ ہر گاہ رسول اکرم (ص) اور دوسرے شفیعوں کی شفاعت روز قیامت حق اور مجاز ہو اس مجاز امر کی درخواست بھی مجاز و مشروع ہو گی۔
مسلمانان عالم متفقہ طور پر دوسروں سے دعا کی درخواست کو جائز سمجھتے ہیں، مثلا ہم کسی سے بھی کہہ سکتے ہیں کہ “أُدعُ لي”، (میرے لیے دعا کرنا)، چنانچہ خدا کی طرف شفاعت کا اذن رکھنے والے شفیعوں سے شفاعت کی درخواست کرنا بھی مجاز ہے جس کے لیے درخواست کرتے وقت کہنا پڑے گا: ” إشْفَع لي عِندَ اللهِ ” (درگاہ خداوندی میں میری شفاعت کرنا)۔
خداوند متعال گناہوں کی مغفرت و بخشش کی خاطر لوگوں کو دعوت دیتا ہے کہ رسول خدا (ص) سے درخواست کریں کہ ان کے لیے طلب مغفرت کریں، ارشاد فرماتا ہے:
“وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّاباً رَّحِيماً،
اور جب انہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی تھی، اگر آپ کے پاس آتے اور پھر اللہ سے بخشش طلب کرتے اور پیغمبر ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے تو اللہ کو پاتے بڑا توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان۔
سورہ نساء، آیت 64
بعض لوگوں نے اس آیت کی یوں توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے: ” انھوں نے رسول اکرم (ص) کی ذات بابرکات کو اذیتیں پہنچائی تھیں اور ان پر آپ سے معافی مانگنا اور معذرت کرنا لازم تھا ! لیکن اگر اسی آیت میں تھوڑا سے غور کیا جائے تو اس بات کی نا درستی کا پتا چل جاتا ہے: اگر رسول اکرم (ص) کو اپنے حق سے گزرنا اور اذیت پہنچانے والوں سے در گذر کرنے کا مسئلہ در پیش ہوتا تو آیت میں فرمایا جانا چاہیے تھا کہ ” وَغَفَرَ لَهُمُ الرَّسولُ (اور رسول اکرم (ص) نے انہیں بخش دیا) حالانکہ آیت میں ارشاد رب متعال ہے:
وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسولُ۔
اور پیغمبر (ص) نے ان کے لیے طلب مغفرت کی۔
اور پھر وہابیوں نے جس آیت کریمہ سے استناد کیا ہے اس میں حکم یہ ہے کہ ” خدا کے ساتھ کسی کو نہ پکارو “، اور اس میں معیت سے نہی کا عنصر ہے یعنی کسی کو اللہ کے برابر اور ہم رتبہ اور ہم شان اور متوازی وجود مت سمجھو۔ اس آیت کا خطاب ان مشرکین سے ہے جو واسطوں کے لیے علیحدہ اور مستقل شان و منزلت کے قائل تھے۔ ادھر اگر غیر اللہ سے درخواست شرک ہے تو افراد [شافعین] کی حیات و ممات میں کوئی فرق نہيں ہونا چاہیے اور بوقت حیات بھی رسول خدا (ص) اور دوسروں کو پکارا جائے [اور اگر پکارا جائے تو شرک کے زمرے میں آئے]۔
اہل سنت کی صحیح احادیث میں منقول ہے: ترمذی نے انس ابن مالک سے روایت کی ہے:
“… عن أنس بن مالك قال: سألت النبي صلى الله عليه وسلم أن يشفع لي يوم القيامة، فقال “أنا فاعل”. قلت يا رسول الله فأين أطلبك ؟ قال “أطلبني أول ما تطلبني على الصراط”، قلت فأن لم ألقك على الصراط، قال “فأطلبني عند الميزان”، قلت فإن لم ألقك عند الميزان؟ قال “فأطلبني عند الحوض”…۔
انس ابن مالک کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ (ص) سے التجا کی کہ قیامت کے دن میری شفاعت کریں تو آپ (ص) نے فرمایا: “میں شفاعت کروں گا”، میں نے عرض کیا: میں آپ کو کہاں تلاش کروں ؟ فرمایا: مجھے صراط کے اوپر تلاش کرو، میں نے عرض کیا ” اگر آپ صراط پر نہ ملے تو !”، فرمایا: تو مجھے میزان کے پاس تلاش کرو “۔ میں نے عرض کیا کہ ” اگر آپ میزان کے پاس نہ ملے تو !”، فرمایا: ” تو مجھے حوض کے پاس تلاش کرو…
الصحيح سنن الترمذي، ج5 ص738 ح2433۔ ج4، ص40 ح2550
شفاعت صرف اللہ کے لیے مختص ہے:
قرآن کریم نے شفاعت کو خداوند کا حقّ خاص اور امتیازی خصوصیت قرار دیا ہے:
قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعاً۔
کہہ دیں کہ شفاعت پوری کی پوری اللہ کے اختیار میں ہے۔
سورہ زمر آیت44
چنانچہ شفاعت کی درخواست صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات سے ہونی چاہے۔
جواب:
شفاعت اس لیے کہ عالم وجود میں تاثیر کے زمرے میں آتی ہے، خدا کی ربوبیت کے مظاہر اور جلوؤں میں سے ایک ہے چنانچہ شفاعت اس لحاظ سے خداوند کے لیے مختص ہے لیکن یہ حقیقت ہرگز انبیاء کے لیے حق شفاعت کے قائل ہونے کے منافی نہیں ہے کیونکہ ان کی شفاعت مستقل نہیں ہے بلکہ خدا کے اذن و مشیت سے مشروط ہے، جیسا کہ دوسرے امور و معاملات میں بھی یہی قاعدہ جاری و ساری ہے۔ خداوند قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
أَنَّ الْقُوَّةَ لِلّهِ جَمِيعا۔
تمام قوتیں بس اللہ کے لیے ہیں۔
سورہ بقرہ آیت 165
اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ خداوند عالم وجود کی تمام تر قوتوں اور طاقتوں کا مالک ہے اور باقی موجودات اللہ کی مشیت و اجازت سے اس حد تک صاحب قوت ہو جاتے ہیں جس حد تک کہ خداوند متعال نے تعین فرماتا ہے اور جب خداوند ایک مخلوق کو قوت و طاقت عطا کرے، اس کے بندے بھی اس مخلوق سے مدد کی درخواست کر سکتے ہیں۔ ارشاد الہی ہے:
لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعاً،
چنانچہ اگر اللہ تعالی مصلحت جانے اور کسی مخلوق کو شفاعت کرنے کا اذن دے اس مخلوق سے شفاعت کی درخواست کی جا سکتی ہے کہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے اس اذن سے اس شخص کے حق میں فائدہ اٹھائے۔
مشرکین کے عمل سے تشابہ:
خداوند نے قرآن کریم میں عصر رسالت کے مشرکین کو اس لیے کافر قرار دیا کہ وہ غیر اللہ سے شفاعت طلب کرتے تھے:
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـؤُلاء شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللّهِ،
وہ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نہ انہیں نفع پہنچا سکتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے یہاں ہماری شفاعت کرنے والے ہیں۔
سورہ یونس آیت 18
جواب:
اس میں شک نہیں ہے کہ عصر رسالت کے مشرکین اپنے بتوں اور معبودوں کے لیے شفاعت کے قائل تھے تاہم اس آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ وہ ان بتوں کی پوجا اور عبادت بھی کرتے تھے اور ان کے لیے مقام شفاعت کے بھی قائل تھے اور پھر وہ بتوں سے شفاعت مانگتے تھے چنانچہ بتوں سے شفاعت مانگنا اور ان کی پرستش کرنا دونوں قابل مذمت ہیں اور اگر شفاعت کا عقیدہ بندگی اور عبودیت کے ہمراہ ہو تو یہ شرک ہے۔
مشرکین بتوں کے لیے غیر مشروط اور بلا دلیل، حقِّ شفاعت کے قائل ہیں حالانکہ خدا نے انہیں اس طرح کا کوئی مقام عطا نہیں کیا ہے۔ دوسری طرف سے وہ بتوں کے لیے الوہیت و ربوبیت کے قائل تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے تاہم اگر حقِّ شفاعت کا عقیدہ ایسی ہستیوں کے بارے میں ہو جنہیں یہ حق اللہ تعالی نے عطا فرمایا ہے اور وہ اللہ کے اذن سے اپنا یہ حق استعمال کرتے ہوں:
وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَٰى۔
اور وہ شفاعت نہیں کرتے مگر اس کے لیے جس سے وہ راضی و خوشنود ہو اور اس کے حق میں ہونے والی شفاعت کو پسند کرے۔
سورہ انبیاء آیت 28
تو اس کا کوئی اعتراض وارد نہ ہو گا اور پھر دنیا کا کوئی بھی مسلمان شفیعوں (شفعاء) کے لیے الوہیت و ربوبیت کا قائل نہیں ہے اور ان کا عقیدہ اور عمل آیت مذکورہ میں متذکرہ مشرکین کے عمل سے مشابہت نہیں رکھتا۔
واضح رہے کہ محض احترام و تکریم یا قبر و ضریح چھومنے جیسے اعمال جبکہ صاحب قبر و ضریح کے لیے الوہیت اور ربوبیت کا عقیدہ بھی موجود نہ ہو، عبادت کے زمرے میں نہیں آتے ورنہ والدین کا احترام اور ان کا ہاتھ چھومنا بھی عبادت کے زمرے میں آنا چاہیے!
اہم نکتہ یہ کہ بت لکڑی اور پتھر کے بنے ہوئے ہوتے تھے اور انہیں اللہ کی طرف سے نفع و ضرر پہنچانے کا اذن نہیں ملا تھا اور یہ بت پرستوں کا دعوی تھا جو ان پتھروں اور لکڑیوں کے لیے تاثیر کے قائل تھے اور یہ تصور اللہ کے اذن سے شفیعوں کی شفاعت کی تاثیر سے مکمل طور پر مختلف ہے:
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـؤُلاء شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللّهِ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللّهَ بِمَا لاَ يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلاَ فِي الأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ،
وہ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نہ انہیں نفع پہنچا سکتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے یہاں ہماری شفاعت کرنے والے ہیں، کہئے کہ کیا تم اللہ کو اطلاع دیتے ہو ایک ایسی چیز کی جس کی خود اسے آسمانوں اور زمین میں کوئی خبر نہیں ہے پاک ہے وہ اور بالاتر ہے اس سے کہ جو یہ شریک قرار دیتے ہیں۔
سورہ یونس آیت 18
اس آیت کریمہ میں خداوند بت پرستوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے: تم بتوں کے لیے اس مقام و منزلت کے قائل ہو جو میں نے انہيں دیا، کیا تم اس عمل سے خدا کو کسی چیز بتوں کی تاثیر کی خبر دینا چاہتے جس کی اس کو خبر نہيں ہے ؟! بے شک یہ عمل اولیائے الہی سے شفاعت مانگنے کے عمل سے مکمل طور پر مغایرت رکھتا ہے۔
آخری بات یہ کہ اس آیت کریمہ میں شفاعت کی درخواست کے بارے میں بات ہی نہیں ہوئی ہے بلکہ موضوع کلام بتوں سے کی شفاعت کا عقیدہ ہے، خداوند نے ارشاد فرمایا ہے:
وَيَقُولُونَ هَـؤُلاء شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللّهِ۔
یہ (بت) اللہ کے یہاں ہماری شفاعت کرنے والے ہیں۔
یہ نہیں فرمایا کہ:
یَقُولوُنَ اِشْفَعُوا لَنا عِنْدَ اللّهِ،
وہ بتوں سے کہتے ہیں کہ اللہ کے یہاں ہماری شفاعت کرو۔
چنانچہ اگر فرض کریں کہ اس آیت سے وہابیوں کا استدلال درست ہے کہنا پڑے گا کہ شفاعت کا عقیدہ مطلقا شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ جبکہ وہابی بنیادی طور پر عقیدہ شفاعت کو تسلیم کرتے ہیں۔
بخاری اپنی سند سے پیغمبر اکرم (ص) سے روایت کرتا ہے:
أُعْطِیتُ خَمْساً لَمْ يعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِي الأَرْضُ مَسْجِداً وَطَهُوراً، فَأَيمَا رَجُلٍ فِي أُمَّتِي أَدْرَکَتْهُ الصَّلاةُ فَلْيصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِي الْمَغَانمُ وَلَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِي، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ، وَكان النَّبي يبْعَثُ إلي قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إلي النَّاسِ عَامَّةً”۔
سورہ یونس آیت 18
یہ جملہ کہ “وَلَمْ یلْجِئْك إلی مَنْ یشْفَعُ لَك إلَیهِ”۔
اس نے تمہیں مجبور نہیں کیا ہے کہ تم کسی کے پاس جاؤ تا کہ وہ خدا کے یہاں تمہاری شفاعت کرے،
اس نکتے کی طرف اشارہ ہے اللہ کے کام اور بندوں پر اس کی عنایات، بندوں کی مانند نہیں ہیں جو، اس لیے کہ بعض افراد کو نہیں جانتے، ایسے افراد سے رجوع کرتے ہیں ایسے لوگوں سے رجوع کرتے ہیں جو ان انجانے افراد کا ان سے تعارف کرائیں اور وہ اپنے مقاصد تک پہنچ سکیں، کیونکہ خداوند خفیات و اسرار کا عالم ہے اور تمام انسانوں اور ان کی حاجات کو بغیر کسی واسطے کے، جانتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ انسانوں کو اسباب سے رجوع کرنے کی تلقین کرتا ہے، اس کا سبب بھی یہ ہے کہ کائنات اور عالم فطرت اور معنویات کا نظام علت و معلول اور اسباب و مسببات کا نظام ہے اور اس نظام کا تقاضا اور حکمت یہی ہے کہ اسباب سے رجوع کیا۔