باب 8 – قسمت کا کھیل
دوستو! جب بھی کسی کو کوئی ناکامی ہوتی ہے تو وہ کہہ اٹھتا ہے کہ قسمت میں یہی لکھا تھا۔ یوں سستی اور کاہلی کو اپنی عادت بنا لیتا ہے۔ محنت اور کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے اور یہی سمجھتا ہے کہ قسمت میں ہو تو مل جائے گا مجھے محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر ہم سوچیں کہ اگر سارے کام تقدیر کے بل بوتے پر ہوتے تو قرآن میں خدا یہ کیوں فرماتا:
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی (سورہ نجم،39)
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
ایک اور جگہ فرمایا:
لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَامَا اکْتَسَبَتْ۔ (سورہ البقرہ،286)
ہر شخص جو نیک عمل کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو بدی کرتا ہے اس کا انجام بھی اسی کو بھگتنا ہے۔
یہی وہ حقیقت ہے جسے شاعر مشرق علامہ اقبالؒ اپنے کلام میں یوں فرماتے ہیں؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
قرآنی آیات سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ انسان کو اپنی محنت کا پھل ضرور ملتا ہے۔ اور انسان جس طرح محنت کرتا ہے اسے وہی اجر ملے گا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان نے جو کچھ کرنا ہوتا ہے خدا اسے پہلے سے جانتا ہے۔ خدا جانتا ہے کہ کون اچھا کام کرے گا اور کون برائی کرے گا۔
کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ جب خدا جانتا ہے کہ کون اچھا کام کرے گا اور کون برائی کرے گا۔ تو پس ہم برائی ہی کریں گے اور ہم مجبور ہیں کہ ہم برائی کریں۔ اگر خدا جانتا ہے کہ ہمیں ناکامی ملے گی تو پس ہمیں ناکامی ہی ملے گی محنت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اس سوال کا جواب بہت ہی آسان ہے کہ جب کلاس کا استاد یہ جانتا ہے کہ امتحان میں کون فیل ہو گا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ طالب علم فیل ہونے پر مجبور ہے۔ یعنی استاد کے جاننے اور استاد کے علم رکھنے کی وجہ سے شاگردوں کا مجبور ہونا لازم نہیں آتا بلکہ استاد کو فقط پڑھائی میں اس کی عدم دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔ استاد کا علم اور اندازہ غلط بھی ہو سکتا ہے لیکن خدا کا علم کامل علم ہے جو کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔
پس جب خدا ہمارے مستقبل کے بارے میں جانتا ہے تو خدا کے اس علم سے ہمارا مجبور ہونا لازم نہیں آتا۔ پس ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کوشش کرے۔ عموماً یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان جب سستی کرتا ہے اور ناکامی ہوتی ہے۔ تو سارا الزام قسمت کے سر تھوپتا ہے اور کہتا ہے کہ میری قسمت میں خدا نے یہی لکھا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
یَمْحُوْا اللّٰہُ مَا یَشَآئُ وَ یُثْبِتُ وَ عِنْدَہٗٓ اُمُّ الْکِتٰابِ (سورہ رعد:39)
اللہ جسے چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے۔ اسی کے پاس ام الکتاب ہے۔
اس آیت سے ہم یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہمارے اعمال، ہماری محنت کی وجہ سے ہماری قسمت خدا تبدیل کرتا رہتا ہے۔ اسی بات کی تائید بہت ساری احادیث سے بھی ہوتی ہے کہ اگر ایک انسان نیک کام کرے تو اس کی زندگی خدا بڑھا دیتا ہے۔انسان کی دعا اور عبادت سے بھی انسان کی تقدیر بدلتی رہتی ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآؤُکُمْ۔ (سورہ فرقان:77)
کہ دیجئے!اگر تمھاری دعائیں نہ ہوتیں تو میرا رب تمھاری پرواہ ہی نہ کرتا۔
پس اسلام میں اہمیت انسان کی محنت اور کوشش کی ہے۔ انسان کی قسمت بھی محنت کوشش، دعا اور عبادت سے تبدیل ہو سکتی ہے۔