حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی چالیس حدیثیں
امام أبو جعفر محمّد تقی الجواد بن علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) نے فرمایا:
1۔ تین خصلتوں کی حاجت
“الْمُؤمِنُ يَحْتاجُ إلى ثَلاثِ خِصالٍ: تَوْفيقٍ مِنَ اللّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَواعِظٍ مِنْ نَفْسِهِ، وَقَبُولٍ مِمَّنْ يَنْصَحُهُ؛
مؤمن ہر حال میں تین خصلتوں کا محتاج ہے؛ توفیق اللہ کی جانب سے، واعظ اپنے اندر سے، اس شخص کی نصیحت و خیرخواہی قبول کرنا جو اس کو نصیحت کرے”۔
2۔ بھائیوں سے ملاقات
“مُلاقاةُ الإخوانِ نَشْرَةٌ، وَتَلْقيحٌ لِلْعَقْلِ وَإنْ كانَ نَزْرا قَليلا؛
ایمانی بھائیوں سے ملاقات دل کی طراوت اور نورانیت کا باعث اور عقل و درایت کی پھلنے پھولنے کا سبب ہے خواہ وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو”۔
3۔ اشرار سے دور رہو
“إيّاكَ وَمُصاحَبَةُ الشَّريرِ، فَإنَّهُ كَالسَّيْفِ الْمَسْلُولِ، يَحْسُنُ مَنْظَرُهُ وَيَقْبَحُ أثَرُهُ؛
خیال رکھو شریر اور شرپسند افراد کی رفاقت و مصاحبت سے، کیونکہ یہ مصاحبت سونتی ہوئی تلوار کی مانند ہے جو بظاہر خوبصورت ہے لیکن اس کے اثرات قبیح اور خطرناک ہیں”۔
4۔ نا امید بھی مت ہونا اوروں کی طرف بھی مت بھاگنا
“كَيْفَ يُضَيَّعُ مَنِ اللّهُ كافِلُهُ، وَكَيْفَ يَنْجُو مَنِ اللّه طالِبُهُ، وَمَنِ انْقَطَعَ إلى غَيْرِاللّهِ وَكَّلَهُ اللّهُ إلَيْهِ؛
وہ شخص کیونکر گمراہ و لاچار ہو سکتا ہے جس کا سرپرست اللہ ہے؛ اور کیونکر نجات پائے گا وہ جس کی گرفت کا خواہاں اللہ ہے؛ جو خدا سے نا امید ہو کر اوروں کسی اور کی پناہ لے گا خدا اسے ان ہی کو واگذار کردے گا”۔
5۔ آنکھیں کھول کر کسی کام کا آغاز کرنا
“مَنْ لَمْ يَعْرِفِ الْمَوارِدَ أعْيَتْهُ الْمَصادِرُ؛
جو کسی کام میں داخل ہونے کے راستوں سے ناواقف ہوگا، اس سے نکلنے کا راستے تلاش کرتے کرتے درماندہ و لاچار ہوجائے گا”۔
6۔ قالَ الإمام الجواد عليه السلام:
“مَنْ عَتَبَ مِنْ غَيْرِ اِرْتِيَابٍ أَعْتَبَ مِنْ غَيْرِ اِسْتِعْتَابٍ؛
جو کسی [بھائی] کو بلا وجہ جھڑک دے، [جبکہ اسے اس کی پاک دلی کا یقین بھی ہے]، اسے کسی کے موعظے کے بغیر ہے اس [بھائی] سے معذرت مانگنا چاہئے”۔
7۔ اخلاص شرط بندگی
“أفْضَلُ الْعِبادَةِ الإخْلاصُ؛
بہترین عبادت اخلاص ہے؛ (یا وہ عبادت جو مخلصانہ اور، دکھاوے کے بغیر ہو)”۔
8۔ امام عصر (علیہ السلام) کی توصیف
“يَخْفى عَلَى النّاسِ وِلادَتُهُ، وَيَغيبُ عَنْهُمْ شَخْصُهُ، وَتَحْرُمُ عَلَيْهِمْ تَسْمِيَتُهُ، وَهُوَ سَمّيُ رَسُول اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ وَكَنّيهِ۔
امام عصر (علیہ السلام) کی ولادت لوگوں سے مخفی ہے، اور آپ کی شخصیت لوگوں سے اوجھل ہوگی، اور آپ کا نام زبان پر لانا حرام ہے، اور آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ہم نام اور ہم کنیت ہیں”۔
9۔ مؤمن کی عزت و عظمت کا راز
“عِزُّ الْمُؤْمِنِ غِناه عَنِ النّاسِ؛
مؤمن کی عزت اور عظمت لوگوں سے بے نیازی (اور ان کے مال و دولت پر نظر نہ رکھنے) میں مضمر ہے”۔
10۔ پرستاری بندگی ہے!
“مَنْ أصْغى إلى ناطِقٍ فَقَدْ عَبَدَهُ، فَإنْ كانَ النّاطِقُ عَنِ اللّهِ فَقَدْ عَبَدَ اللّهَ، وَإنْ كانَ النّاطِقُ يَنْطِقُ عَنْ لِسانِ إبليس فَقَدْ عَبَدَ إبليسَ؛
اگر کوئی شخص کسی مقرر کا پرستار [Fan] ہو وہ اسی کا بندہ ہے؛ تو اگر وہ مقرر خدا کے لئے اور خدا کے معارف اور احکام کے بارے میں بولتا ہو تو اس شخص نے اللہ کی بندگی کی ہے اور اگر مقرر ابلیس کی زبان سے [ہویٰ و ہوس اور مادیات اور دنیا پرستی اور دنیاوی لذتوں کی] بات کرے تو وہ ابلیس کا بندہ ہے”۔
11۔ جابر کی ناراضگی نقصان دہ نہیں ہے
“لا يَضُرُّكَ سَخَطُ مَنْ رِضاهُ الْجَوْرُ؛
ظالم و جابر کی دشمنی اور ناراضگی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی (جب تم اللہ کی رضامندی کے خواہاں ہو)۔
12۔ دیندار اور امانت دار کو رشتہ دو ورنہ ۔۔۔
“مَنْ خَطَبَ إلَيْكُمْ فَرَضيتُمْ دينَهُ وَأمانَتَهُ فَزَوِّجُوهُ، إلّا تَفْعَلُوهُ تَكْنُ فِتْنَةٌ فِى الأرْضِ وَفَسادٌ كَبيرْ۔
جس نے تم سے [بیٹی یا بہن کا] رشتہ مانگا اور تمہیں اس کی دین داری اور امانت داری پسند آئے تو اسے رشتہ دے دو، ورنہ تو تمہارا یہ عمل روئے زمان پر عظیم فتنے اور فساد (برائی) کا سبب بن سکتا ہے”۔
13۔ جاہل کی خاموشی میں عافیت ہے
“لَوْسَكَتَ الْجاهِلُ مَا اخْتَلَفَ النّاسُ؛
اگر جاہل [نادان] لوگ خاموش رہیں تو لوگ اختلاف سے دوچار نہیں ہونگے”۔
14۔ برائی کی تعریف کا انجام
“مَنِ اسْتَحْسَنَ قَبيحاً كَانَ شَرِيكاً فِيهِ؛
جو شخص کسی برے عمل کی تحسین و تعریف کرے وہ اس برائی میں شریک ہے”۔
15۔ آزما لو، اعتماد کرو
“مَنِ انْقادَ إلَى الطُّمَأنينَةِ قَبْلَ الْخِيَرَةِ فَقَدْ عَرَضَ نَفْسَهُ لِلْهَلَكَةِ وَالْعاقِبَةِ الْمُغْضِبَةِ؛
جو آزمانے [اور سوچ بچار کرنے] سے پہلے اعتماد و اطمینان تک پہنچے، تو اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے اور رنج و غضب کا باعث بننے والے انجام سے دوچار کیا ہے”۔
16۔ توکل اور تقویٰ کے دنیاوی اثرات
“مَنِ اسْتَغْنى بِاللّهِ إفْتَقَرَالنّاسُ إلَيْهِ، وَمَنِ اتَّقَى اللّهَ أحَبَّهُ النّاسُ وَإنْ كَرِهُوا؛
جو شخص خدا کے وسیلے سے اور خدا پر توکل کے سائے میں اپنے آپ کو بے نیاز و غنی سمجھے، تو لوگ اس کے محتاج ہوں گے اور جو تقویٰ اور پرہیزگاری اپنائے، (اور للہ کا خوف کرے) لوگ اس سے محبت کریں گے خواہ اس کی طرف مائل راغب نہب بھی ہوں”۔
17۔ امیر المؤمنین (علیہ السلام) کا عِلم
“عَلَّمَ رَسُولُ اللّهِ صلّى اللّه عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ عَلّيا عَلَيْهِ السَّلامُ ألْفَ كَلِمَةٍ، كُلُّ كَلِمَةٍ يَفْتَحُ ألْفُ كَلِمَةٍ۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو ایک ہزار کلمات سکھائے، ہر کلمے سے علم کے ہزار باب کھلتے ہیں”۔
18۔ نعمت کی شکر گزاری ضروری ہے
“نِعْمَةٌ لا تُشْكَرُ كَسِيَّئَةٍ لَا تُغْفَرُ؛
جس نعمت کا شکریہ ادا نہ کیا جائے وہ اس خطا کی مانند ہے جسے نہ بخشا جائے”۔
19۔ گناہ کی وجہ سے مرنے والے سب سے زیادہ
“مَوْتُ الإنْسانِ بِالذُّنُوبِ أكْثَرُ مِنْ مَوْتِهِ بِالأجَلِ، وَحَياتُهُ بِالْبِرِّ أكْثَرُ مِنْ حَياتِهِ بِالْعُمْرِ؛
انسان گناہوں کی وحہ سے زیادہ اور اجل کی بنا پر (طبعی موت) کم مرتے ہیں، اور ان کی زندگی تقدیر میں لکھی ہوئی زندگی سے زیادہ، اعمال صالحہ کے بدولت، ہوتی ہے”۔
20۔ نفسانی خواہشات کمال حقیقت تک پہنچنے میں رکاوٹ
“لَنْ يَسْتَكْمِلَ الْعَبْدُ حَقيقَةَ الإيمانِ حَتّى يُؤْثِرَ دينَهُ عَلى شَهْوَتِهِ، وَلَنْ يَهْلِكَ حَتّى يُؤْثِرَ شَهْوَتَهُ عَلى دينِهِ؛
کوئی بھی بندہ حقیقتِ ایمان کے کمال پر ہرگز فائز نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے دین کو اپنی شہوت اور نفسانی خواہشوں پر مقدم نہیں رکھتا، اور کبھی ہلاک (اور نیست و نابود) نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات کو اپنے دین پر ترجیح نہیں دیتا (دین کی نفسانی خواہشوں پر ترجیح ایمان کی تکمیل کا سبب، اور نفسانی خواہشوں کو دین پر مقدم رکھنا، تباہی اور بربادی کا سبب ہے)۔
21۔ حصول علم عبادت ہے
“عَلَيْكُمْ بِطَلَبِ الْعِلْمِ، فَإنَّ طَلَبَهُ فَريضَةٌ وَالْبَحْثَ عَنْهُ نافِلَةٌ، وَهُوَ صِلَةُ بَيْنَ الإخْوانِ، وَدَليلٌ عَلَى الْمُرُوَّةِ، وَتُحْفَةٌ فِى الْمَجالِسِ، وَصاحِبٌ فِى السَّفَرِ، وَأنْسٌ فِى الْغُرْبَةِ؛
علم و معرفت حاصل کرنا تم پر واجب ہے، بے شک طلبِ علم (اور حصول علم) فریضہ ہے اور علم کے حصول کے لئے بحث و جستجو اور تحقیق نافلہ (اور سنت) ہے۔ علم دوستوں اور بھائیوں کو مدد پہنچانے کا وسیلہ ہے، مروت اور جوانمردی کی علامت ہے، مجالس و محافل کے لئے تحفہ ہے اور سفر کے دوران قابل اعتماد ساتھی ہے اور غریب الوطنی اور تنہائی میں مونس اور ہم دم ہے”۔
22۔ خاکساری علم کی زینت
“خَفْضُ الْجَناحِ زينَةُ الْعِلْمِ، وَحُسْنُ الاْدَبِ زينَةُ الْعَقْلِ، وَبَسْطُ الْوَجْهِ زينَةُ الْحِلْمِ؛
منکسر المزاجی اور تواضع علم و دانش کی زینت ہے، حسنِ ادب اور خوش اخلاقی عقل کی زینت ہے اور لوگوں کے ساتھ خوش روئی اور ہنس مسکراہٹ کے ساتھ پیش آنا حلم و بردباری کی زینت ہے”۔
23۔ صبر کا سہارا اور فقر و تنگ دستی کے ساتھ ہم نشینی
“تَوَسَّدِ الصَّبْرَ، وَاعْتَنِقِ الْفَقْرَ، وَارْفَضِ الشَّهَواتِ، وَخالِفِ الْهَوى، وَاعْلَمْ إنَّكَ لَنْ تَخْلُو مِنْ عَيْنِ اللّهِ، فَانْظُرْ كَيْفَ تَكُونُ؛
[اپنی زندگی میں] صبر کو اپنا سہارا قرار دو، فقر و تنگدستی کو گلے لگا دو [اور ہم نشین قرار دو]، اور نفسانی خواہشات کی مخالفت کرو اور جان لو کہ کسی صورت میں بھی اللہ تعالی کی نگاہوں سے مخفی نہیں رہ سکتے ہو، پس خیال رکھو کہ کس حالت میں ہو”۔
24۔ رکوع اور قبر کی وحشت
“مَنْ أتَمَّ رُكُوعَهُ لَمْ تُدْخِلْهُ وَحْشَةُ الْقَبْرِ؛
جس نے نماز کا رکوع مکمل اور صحیح طور پر انجام دیا وہ قبر میں خوف و وحشت سے دوچار نہیں ہوگا”۔
25۔ خشوع نماز کی زینت
“الْخُشُوعُ زينَةُ الصَّلاةِ، وَ تَرْكُ مالايُعْنى زينَةُ الْوَرَعِ؛
خشوع و خضوع نماز کی زینت و خوبصورتی ہے اور بے مقصد و بے فائدہ امور (جو تمہاری دنیا اور دین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے) کا ترک کرنا؛ ورع اور پرہیزگاری کی زینت ہے”۔
26۔ امر اور نہی اللہ کی مخلوقات
“الأمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْىُ عَنِ الْمُنْكَرِ خَلْقانِ مِنْ خَلْقِ اللّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَمْن نَصَرَهُما أعَزَّهُ اللّهُ، وَمَنْ خَذَلَهُما خَذَلَهُ اللّهُ عَزَّ وَجَلَّ۔
امر بالمعروف اور نہى عن المنكر خدائے عزّوجلّ کی دو مخلوقات ہیں، تو جو ان دو کی مدد کرے خداوند متعال اس کو عزت و عظمت عطا کرتا ہے اور جو انہیں بے یار و مددگار چھوڑتے خداوند متعال اس کو [دنیا اور آخرت میں] بے یار و مددگار چھوڑ دیتا ہے”۔
27۔ اللہ مال و اولاد لے لیتا ہے
“إنَّ اللّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَخْتارُ مِنْ مالِ الْمُؤْمِنِ وَمِنْ وُلْدِهِ أنْفَسَهُ لِيَأجُرَهُ عَلى ذلِكَ؛
یقیناً خدائے متعال مؤمن کے مال میں سے اور اس کی اولاد میں سے، بہترین کو چن لیتا ہے، تاکہ اس کے بدلے اسے اجر عظیم عطا فرمائے”۔
28۔
“قالَ لَهُ رَجُلٌ: أوصِنى بَوَصِيَّةٍ جامِعَةٍ مُخْتَصَرَةٍ؟ فَقالَ الحَوَادُ عَليهِ السَّلَامُ: صُنْ نَفْسَكَ عَنْ عارِ الْعاجِلَةِ وَنارِ الْآجِلَةِ؛
ایک شخص نے درخواست کی: مجھے ایک جامع – مختصر نصیحت فرمایئے؛ تو امام جواد (علیہ السلام) نے فرمایا: اپنے آپ کو [اور اپنے ظاہر و باطن کو] قلیل المدت شرم و ذلت [یعنی عارضی لذتوں کے لئے گناہ کے ارتکاب] اور [اس کے بدلے ملنے والے] طویل المدت عذاب دوزخ سے بچائے رکھو”۔
29۔ نادانوں اور اور داناؤں کی معاشرت
“فَسادُ الاْخْلاقِ بِمُعاشَرَةِ السُّفَهاءِ، وَصَلاحُ الاْخلاقِ بِمُنافَسَةِ الْعُقَلاءِ؛
نادانوں اور احمقوں کی معاشرت اخلاق کی بربادی اور عقلمندوں اور داناؤں کی معاشرت و ہم نشینی اخلاق کی نشوونما اور صلاح و فلاح کا سبب بنتی ہے”۔
30۔ ادب کیا ہے؟
“الاْدَبُ عِنْدَ النّاسِ النُّطْقُ بِالْمُسْتَحْسَناتِ لا غَیْرُ، وَهذا لا یُعْتَدُّ بِهِ ما لَمْ یُوصَلْ بِها إلی رِضَا اللّهِ سُبْحانَهُ، وَالْجَنَّةِ، وَالاْدَبُ هُوَ ادَبُ الشَّریعَةِ، فَتَادَّبُوا بِها تَکونُوا ادَباءَ حَقّا؛
لوگوں کے نزدیک ادب کا مفہوم کلام کی خوبصورتی اور بدزبانی سے پرہیز، ہے؛ حالانکہ یہ لیکن یہ نظریہ قابل توجہ نہیں ہے جب تک کہ یہ انسان کو اللہ سبحانہ کی خوشنودی اور جنت کے قریب نہ پہنچا دے؛ چنانچہ ادب در حقیقت شریعت [اور اللہ، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) کے احکام پر عامل ہونے] کا ادب ہے، تو تم اس ادب کی رعایت کرو، حقیقتاً با ادب ہوجاؤگے”۔
31۔ ہر دلعزیز بننے کے تین اصول
“ثَلاثُ خِصالٍ تَجْتَلِبُ بِهِنَّ الْمَحَبَّةُ: الإنْصافُ فِى الْمُعاشَرَةِ، وَالْمُواساةُ فِى الشِّدِّةِ، وَالإنْطِواعُ وَالرُّجُوعُ إلى قَلْبٍ سَليمٍ؛
تین خصلتیں ایسی ہیں جن سے محبت کمائی جا سکتی ہے: لوگوں کے ساتھ معاشرت میں انصاف کی رعایت کرو، شدتوں اور سختیوں ميں لوگوں کے غم خوار اور ان کے دکھ درد میں شریک ہو رہو، قلب سلیم سے رجوع کرکے معنویات اور نیک اعمال کی طرف توجہ دیا کرو”۔
32۔ توبہ کے چار ستون
“التَّوْبَةُ عَلى أرْبَع دَعائِم: نَدَمٌ بِالْقَلْبِ، وَاسْتِغْفارٌ بِاللِّسانِ، وَعَمَلٌ بِالْجَوارِحِ، وَعَزْمٌ أنْ لايَعُودَ؛
چار چیزیں توبہ کے ستون [اور اس کی قبولیت کی شرطیں] ہیں: [گناہ و معصیت سے] قلبی طور پر پشیمانی اور ندامت، زبان سے مغفرت اور بخشش طلب کرنا، اعضاء و جوارح سے نیک اعمال انجام دینا [اور خطاؤں کی تلافی کرنا، چاہے گناہ حق اللہ سے تعلق رکھتا ہو یا پھر حق الناس سے]، اور اس بات کا پکا عزم کرنا کہ [تائب شخص] دوبارہ گناہ کی طرف نہیں لوٹے گا”۔
33۔ نیک لوگوں کے تین اعمال:
“ثَلاثٌ مِنْ عَمَلِ الاْبْرارِ: إقامَةُ الْفَرائِض، وَاجْتِنابُ الْمَحارِم، واحْتِراسٌ مِنَ الْغَفْلَةِ فِى الدّين؛
تین چیزیں نیک لوگوں کے عمل میں شامل ہیں: فرائض اور واجبات پر قائم رہنا، حرام اعمال سے پرہیز کئے رکھنا، دین میں غفلت سے ہوشیار رہنا، [خیال رکھنا کہ کہیں احکام دین سے غفلت سے دوچار نہ ہوں]”۔
34۔ ادب کی حقیقت کیا ہے
“وَحَقيقَةُ الأدَبِ: إِجْتِماعُ خِصالِ الْخيْرِ، وَتَجافِى خِصَالِ الشَّرِ، وَبِالأدَبِ يَبْلُغُ الرَّجُلُ الْمَكارِمَ الأخْلاقِ فِى الدُّنْيا وَالآخِرَةِ، وَيَصِلُ بِهِ إِلَى الْجَنَّةِ؛
اور ادب کی حقیقت، نیک خصلتوں کو اپنے وجود میں جمع کرنے، اور بدی کی خصلتوں سے اپنے آپ کو خالی کرنا ہے؛ اور ادب و اخلاق سے ہی انسان دنیا اور آخرت میں اخلاقی عظمتوں اور کرامتوں پر فائز ہوتا ہے اور جنت تک پہنچتا ہے”۔
35۔ مشہد مقدس جنت کا ٹکڑا
“إنَّ بَيْنَ جَبَلَىْ طُوسٍ قَبْضَةٌ قُبِضَتْ مِنَ الْجَنَّةِ، مَنْ دَخَلَها كانَ آمِنا يَوْمَ الْقِيامَةِ مِنَ النّار۔
بے شک شہر طوس [مشہد مقدس] کے دو پہاڑوں کے درمیان ایک ٹکڑا ہے جو جنت سے لے لیا گیا ہے؛ جو زمین کے اس جنتی ٹکڑے میں داخل ہوگا [اور معرفت کے ساتھ وہاں مدفون امام کی زیارت کرے گا] قیامت کے روز جہنم کی آگ سے محفوظ رہے گا”۔
36۔ قم میں زیارت سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کا ثواب
“مَنْ زارَ قَبْرَ عَمَّتى بِقُمْ، فَلَهُ الْجَنَّةُ؛
جو بھی [معرفت و مودت کے شرطوں پر پورا اتر کر] شہر قم میں میری پھوپھی سیدہ فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی زیارت کرے تو جنت اسی کے لئے ہے”۔
37۔ مؤمن بھائی کی قبر پر سورہ قدر کی تلاوت
“مَنْ زارَ قَبْرَ أخيهِ الْمُؤْمِنِ فَجَلَسَ عِنْدَ قَبْرِهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْقَبْرِ وَقَرَءَ: “إنّا أنْزَلْناهُ فى لَيْلَةِ الْقَدْرِ” سَبْعَ مَرّاتٍ، أمِنَ مِنَ الْفَزَعَ الأكْبَرِ؛
جو شخص اپنے مؤمن بھائی کی قبر کی زیارت کرے اور قبلہ رو ہو کر بیٹھ جائے اور اپنا ہاتھ قبر پر رکھے اور سات مرتبہ سورہ “إنّا أنْزَلْناهُ فى لَيْلَةِ الْقَدْرِ” کی تلاوت کرے وہ قیامت کے عظیم خوف و ہراس اور سختیوں سے محفوظ رہے گا”۔
38۔ تین چیز منزل رضوان کی ضامن
“ثَلاثٌ يَبْلُغْنَ بِالْعَبْدِ رِضْوانَ اللّهِ: كَثْرَةُ الإسْتِغْفارِ، وَخَفْضِ الْجْانِبِ، وَكَثْرَةِ الصَّدَقَةَ؛
تین چیزیں بندے کو رضوان الٰہی تک پہنچا دیتی ہیں:
1۔ بکثرت استغفار کرنا
2۔ تواضع اور خاکساری،
3۔ بہت صدقہ دینا اور بہت زیادہ کار خیر کرنا
39۔ ظلم کے شرکاء
“الْعامِلُ بِالظُّلْمِ، وَالْمُعينُ لَهُ، وَالرّاضى بِهِ شُرَكاءٌ؛
جو ظلم و ستم کا ارتکاب کرے، اور جو ظلم کرنے والے کو مدد بہم پہنچائے، اور جو اس ظلم پر خوش اور راضی ہو، یہ سب ظلم میں شریک ہیں”۔
40۔ کونسی چیز کس چیز کی زینت ہے؟
“التَّواضُعُ زينَةُ الْحَسَبِ، وَالْفَصاحَةُ زينَةُ الْكَلامِ، وَ الْعَدْلُ زينَةُ الاْيمانِ، وَالسَّكينَةُ زينَةُ الْعِبادَةِ، وَالْحِفْظُ زينُةُ الرِّوايَةِ؛
خاکساری اور تواضع حسب و نسب کی زینت ہے، فصاحت کلام کی زینت ہے، عدل ایمان و اعتقاد کی زینت ہے، وقار و ادب اعمال و عبادات کی زینت ہے، اور حفظ [قوت حافظہ] نقل روایت و حدیث کی زینت ہے”۔
_______________________
حوالہ جات:
1- بحار الا نوار، علامہ محمد باقر مجلسی، ج72، ص65، ح3، مستدرک الوسائل، میرزا حسین نوری طبرسی، ج8، ص329، ح9576۔
2- الأمالی، شیخ مفید، ص328، ح13، مستدرک الوسائل، نوری طبرسی، ج8، ص324، ح9562۔
3- أعلام الدّین، حسن بن ابی الحسن الدیلمی، ص309؛ مستدرک الوسائل، نوری طبرسی، ج8، ص351، ح9634۔
4- بحارالا نوار، مجلسی، ح68، ص155، ح69۔
5- أعلام الدّین، ص309؛ بحار الا نوار، ج75، ص364، ضمن ح5۔
6- بحار الانوار، ج71، ص181؛ أعیان الشّیعۃ، سید محسن امین العاملی، ج2، ص36، س14۔
7- تنبیه الخواطر، ورام ابن ابی فراس، ح2، ص109؛ بحار الا نوار، ج67، ص245، ح19۔
8- وسائل الشّیعۃ، شیخ محمد بن الحسن حُرّ عاملی، ج16، ص242، ح21466؛ بحار الانوار، ج51، ص32، ح6۔
9- بحار الا نوار، ج72، ص109، ح12، مستدرک الوسائل، ج7، ص230، ح8114۔
10- مستدرک الوسائل، ج17، ص308، ح5۔
11- بحارالا نوار، ج75، ص380، ح42۔
12- تہذیب الاحکام، شیخ محمد بن حسن الطوسی، ج7، ص396، ح9۔
13- کشف الغمّۃ، شیخ علی بن عیسیٰ الاربلی، ج2، ص349، بحار الا نوار، ج75، ص81، ح75۔
14- کشف الغمّۃ، الاربلی، ج2، ص349، بحار الا نوار، ج75، ص82، ح79۔
15- بحار الا نوار، ج75، ص364۔
16- کشف الغمۃ، الاربلی، ج3، ص139؛ بحار الا نوار، ج75، ص79، ح62۔
17- الخصال، محمد بن علي بن الحسین بن بابويہ المعروف بہ شیخ صدوق، ج2، ص650، ح46۔
18- بحار الا نوار، ج68، ص53، ح69۔
19- کشف الغمّۃ، ج2، ص350، س11۔
20- بحار الا نوار، ج75، ص80، ح63۔
21- حلیۃ الا برار، سید ہاشم بن سلیمان التوبِلی بحرانی معروف بہ سید ہاشم البحرانی، ج4، ص599، س11۔
22- کشف الغمّۃ، ج2، ص347۔
23- بحارالا نوار، ج75، ص358، ح1۔
24- الکافى، شیخ محمد بن یعقوب الکلینی، ج3، ص321، ح7۔
25- نور الا بصار، ص331، س12، بحار الا نوار، ج75، ص80، س12۔
26- الخصال، الصدوق، ص42، ح32۔
27- الکافى، الکلینی، ج3، ص218، ح3۔
28- احقاق الحقّ، الشہید القاضی السید نور اللہ الحسینی المرعشی التستری (شوشتری)، ج12، ص439، س11۔
29- کشف الغمّۃ، ج2، ص349، بحار الا نوار، ج75، ص82، ح78۔
30- ارشاد القلوب، الدیلمى، ج1، ص160۔
31- کشف الغمّۃ، ج2، ص349، س13۔
32- بحار الا نوار، ج75، ص81، ح74۔
33- کشف الغمّۃ، ج2، ص349، س3۔
34- ارشاد القلوب، الدیلمی، ص160، س15۔
35- عیون اخبارالرّضا علیہ السلام، الصدوق، ج2، ص256، ح6۔
36- کامل الزیارات، جعفر بن محمد بن محمد “بن قولویہ القمی”، ص536، ح827، بحارالانوار، ج99، ص265۔
37- اختیار معرفۃ الرّجال، الطوسی، ص564، ح1066۔
38- کشف الغمّۃ، ج2، ص349، س7۔
39- کشف الغمّۃ، ج2، ص348، س18، بحار الانوار، ج75، ص81، ح69۔
40- کشف الغمّۃ، ج2، ص347، س19، بحار الانوار، ج75، ص80، ح65۔