امام حسن مجتبیٰ ع کی دس اخلاقی خصوصیات
موجودہ مضمون امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی دس اخلاقی خصوصیات کے بیان پر مبنی ہے کہ جسے شیعوں کے دوسرے امام و پیشوا حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر (خلاصۃً) پیش کیا جا رہا ہے:
1- عبادت:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ان کی معنوی حالت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “امام مجتبیٰ علیہ السلام اپنے وقت کے سب سے زیادہ متقی انسان تھے۔ انہوں نے کئی حج پیدل کئے اور کبھی تو ننگے پاؤں حج کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ انہیں ہمیشہ ذکر کرتے دیکھا گیا اور جب بھی وہ آیہ قرآن «یا أَیهَا الَّذینَ آمَنُو» کو سنتے تو جواب میں کہتے: «لَبَّیک اللَّهُمَّ لَبَّیک» (خدایا! تمہارے حکم کا مطیع ہوں و حاضر ہوں۔) [1]
امام علیہ السلام ہمیشہ اپنی نمازوں کے قنوت میں بہت زیادہ دعا کیا کرتے اور خدا کو اس طرح پکارا کرتے: “اے بے سہاروں کی پناہ! عقلیں تمہیں درک کرنے سے عاجز ہیں اور علم و دانش تمہارے مقابلے میں ناتوان ہے ………… بے شک تو سننے والا، جاننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
بارخدایا! تو خود بہتر جانتا ہے کہ میں نے تب تک سعی کوشش کرنے سے ہار نہیں مانی جب تک میرے دم میں دم تھا۔ اس وقت ، میں نے اپنے بزرگوں کی اتباع کی (صبر کیا) تاکہ اس سرکش دشمن کا مقابلہ کر سکوں اور شیعوں کا خون بہنے سے روک سکوں۔ میرے لئے جہاں تک ممکن تھا میں نے اس چیز کا پاس رکھا کہ جسے میرے اولیاء اور بزرگان نے محفوظ رکھا تھا……..تو حق کا واحد مددگار اور اس کا بہترین حامی ہے۔ اگرچہ اس مدد میں تاخیر بھی ہو جائے اور دشمن کی تباہی میں کچھ زیادہ وقت لگ جائے۔ »[2]
2- خوفِ خدا:
جب بھی امام مجتبیٰ علیہ السلام وضو کیا کرتے تو خوفِ خدا سے ان کا پورا جسم کانپنے لگ جاتا اور ان کے چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا۔ جب ان سے اس بارے میں پوچھا جاتا تو کہتے: “خدا کا بندہ جب بندگی کے لئے اس کی درگاہ میں جانا چاہے تو اسے اس کے لئے آمادہ ہو کر جانا چاہئے، اس کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو جائے اور اس کے اعضاءِ بدن لرزنے چاہئیں۔” [3]
آپ علیہ السلام جب بھی نماز کے لئے مسجد جایا کرتے تو مسجد کے دروازے کے پاس کھڑے ہوکر درج ذیل دعا کو دہرایا کرتے:
«إِلَهِی ضَیفُک بِبَابِک یا مُحْسِنُ قَدْ أَتَاک الْمُسِی ءُ فَتَجَاوَزْ عَنْ قَبِیحِ مَا عِنْدِی بِجَمِیلِ مَا عِنْدَک یا کرِیم؛ [4] خدایا! تمہارا مہمان تمہارے پاس آیا ہے۔ اے محسن و نیکوکار! ایک بدکار تمہارے پاس آیا ہے۔ پس جو بدی اور گناہ میرے پاس ہیں انہیں اپنی خوبصورتی سے درگذر فرما دے، اے رحم کرنے والے! ”
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
«کانَ إِذَا ذَکرَ الْمَوْتَ بَکی وَ إِذَا ذَکرَ الْقَبْرَ بَکی وَ إِذَا ذَکرَ الْبَعْثَ وَ النُّشُورَ بَکی وَ إِذَا ذَکرَ الْمَمَرَّ عَلَی الصِّرَاطِ بَکی وَ إِذَا ذَکرَ الْعَرْضَ عَلَی اللَّهِ تَعَالَی ذِکرُهُ شَهَقَ شَهْقَةً یغْشَی عَلَیهِ مِنْهَا وَ کانَ إِذَا قَامَ فِی صَلَاتِهِ تَرْتَعِدُ فَرَائِصُهُ بَینَ یدَی رَبِّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ کانَ إِذَا ذَکرَ الْجَنَّةَ وَ النَّارَ اضْطَرَبَ اضْطِرَابَ السَّلِیمِ وَ سَأَلَ اللَّهَ الْجَنَّةَ وَ تَعَوَّذَ بِهِ مِنَ النَّار؛[5]
“جب بھی امام حسن علیہ السلام موت کو یاد کرتے تو شدید گریہ کرتے۔ جب بھی قبر کو یاد کرتے تو شدید گریہ کرتے۔ جب بھی قیامت کو یاد کرتے تو نالہ و فریاد کرتے۔ جب بھی پل صراط سے عبور کرنے کو یاد کرتے تو شدید گریہ کرتے۔ جب بھی اپنے اعمال خدا کے سامنے پیش ہونے کو یاد کرتے تو شدید گریہ کرتےاور بےہوش ہو جایا کرتے۔ جب وہ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے رب کے سامنے ان کا جسم کانپنے لگتا۔ جب بھی انہیں جنت اور دوزخ کی یاد آتی تو سانپ کے ڈسے شخص کی طرح مضطرب ہو جایا کرتے اور خدا سے جنت کو طلب کرتے اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگتے”۔
جب ان کے چہرے پر موت کے آثار نمودار ہوئے اور اطرافیوں نے انہیں روتے دیکھاتو انہوں نے پوچھا: “آپ کیوں رو رہے ہیں؟ جب کہ آپ کا خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں اعلیٰ مقام ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی شان میں کیسے عظیم الفاظ کہے ہیں۔ “آپ کہ جس نے بیس بار پیدل حج کئے اور تین بار اپنا سارا مال خدا کی راہ میں تقسیم کر دیا؟” تو انہوں نے جواب میں کہا: «إِنَّمَا أَبْکی لِخَصْلَتَینِ: لِهَوْلِ الْمُطَّلَعِ وَ فِرَاقِ الْأَحِبَّة؛[6] میرے رونے کے دو سبب ہیں: قیامت کا خوف اور اپنے دوستوں سے دوری”۔
3- قرآن سے ہم نشینی:
امام حسن علیہ السلام خوبصورت آواز میں قرائت قرآن کیا کرتے تھے اور بچپن سے ہی علوم قرآن سے واقف تھے۔ ہمیشہ سونے سے پہلے سورۂ کہف کی تلاوت کرتے اور پھر سوتے۔ کہا جاتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور ایک شخص سے “شاہد و مشہود کی تفسیر” پوچھی [7]؛ اس شخص نے جواب دیا: “شاہد روز جمعہ ہے اور مشہود روز عرفہ ہے”۔ اس نے ایک دوسرے آدمی سے پوچھا تو اس نے کہا: شاہد روز جمعہ ہے اور مشہود روز قربان ہے”۔ پھر وہ مسجد کے کونے میں بیٹھے ایک بچے کے پاس گیا۔ اس نے جواب دیا:
«أَمَّا الشَّاهِدُ فَمحمد (ص) وَ أَمَّا الْمَشْهُودُ فَیوْمُ الْقِیامَةِ أَمَا سَمِعْتَهُ سُبْحَانَهُ یقُولُ یا أَیهَا النَّبِی إِنَّا أَرْسَلْناک شاهِداً وَ مُبَشِّراً وَ نَذِیراً؛ [8]
“شاہد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشہود روز قیامت ہے۔ کیا تم نے نہیں پڑھا کہ خدا (اپنے رسول کے بارے میں )کہتا ہے: اے پیغمبر! ہم نے آپ کو گواہ ، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے” ۔ نیز وہ قیامت کے بارے میں فرماتا ہے: «ذلِک یوْمٌ مَجْمُوعٌ لَهُ النَّاسُ وَ ذلِک یوْمٌ مَشْهُود»؛ [9] ” یہ وہ دن ہے کہ جب لوگوں کو جمع کیا جائے گا اور یہ “یوم مشہود” ہے۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے پوچھا کہ جواب دینے والا پہلا شخص کون تھا؟ انہوں نے کہا: ابن عباس۔ میں نے پوچھا کہ دوسرا کون تھا؟۔ انہوں نے کہا: ابن عمر۔ پھر میں نے کہا کہ وہ بچہ کون تھا جس نے بہترین اور درست جواب دیا؟ کہنے لگے کہ وہ حسن بن علی ابن ابی طالب علیہما السلام تھے۔ [10]
4- مہربانی:
خدا کے بندوں پر مہربانی ان کی اہم خصوصیت تھی۔ انس کہتے ہیں کہ ایک دن میں امام علیہ السلام کی خدمت میں موجود تھا۔ ان کی ایک کنیز ہاتھ میں پھول لئے داخل ہوئی اور اسے امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا۔ امام علیہ السلام نے اس سے پھول لئے اور مہربانی سے کہا: “جاؤ تم آزاد ہو” میں جو امام علیہ السلام کے اس رویے سے حیران تھا، ان سے کہا: “اے فرزندِ رسول خدا! “اس کنیز نے تو صرف آپ کو پھولوں کا ایک گلدستہ پیش کیا اور آپ نے اسے آزاد کر دیا؟” امام علیہ السلام نے جواب دیا: “خداوندعظیم و مہربان نے ہم سے کہا ہے: «وَ إِذا حُییتُمْ بِتَحِیةٍ فَحَیوا بِأَحْسَنَ مِنْه»؛ [11] “جس نے بھی تم پر مہربان کی اسے اس کا دو برابر اچھائی سے جواب دو”۔ پھر امام علیہ السلام نے فرمایا: “اس کی مہربانی کے بدلہ اس کی آزادی تھی۔[12]
5- عفو و درگذشت:
امام علیہ السلام بہت زیادہ معاف کرنے والے اور عظیم انسان تھے اور ہمیشہ دوسروں کے ظلم و ستم سے چشم پوشی کیا کرتے۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ دوسروں کی بدتمیزی کے بدلے میں ان کا رد عمل اس شخص کے رویہ میں تبدیلی کا باعث بنتا۔
ان کے پڑوس میں ایک یہودی خاندان رہتا تھا۔ ایک بار یہودی کے گھر کی دیوار میں دراڑ پڑ گئی اور اس کے گھر سے نجاست امام علیہ السلام کے گھر تک آنے لگی۔ یہودی کو اس بات کا علم نہیں تھا یہاں تک کہ ایک دن اس یہودی کی بیوی امام علیہ السلام کے گھر کسی کام کے لئے آئی اور دیکھا کہ دیوار میں دراڑ پڑنے سے امام علیہ السلام کے گھر کی دیوار نجس ہو گئی ہے۔ وہ فورا اپنے شوہر کے پاس گئی اور اسے اطلاع دی۔ یہودی شخص امام علیہ السلام کے پاس آیا اور اپنی غفلت پر معافی مانگی اور امام علیہ السلام کے اس دوران خاموش رہنے اور کچھ نہ کہنے پر انتہائی شرمندہ ہوا ۔
6- عاجزی:
امام علیہ السلام اپنے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح بغیر کسی تکبر کے زمین پر بیٹھا کرتے اور فقیر لوگوں کے ساتھ ہم سفرہ ہو جاتے۔ ایک دن آپ علیہ السلام گھوڑے پر سوار ایک محلے سے گزرے۔ دیکھا کہ کچھ فقیر لوگ زمین پر بیٹھے ہیں اور انہوں نےاپنے سامنے کچھ مقدار میں روٹی رکھی ہوئی ہے اور اسے کھا رہے ہیں۔ جب انہوں نے امام حسن علیہ السلام کو دیکھا تو انہوں نے ان کو بھی تعارف کیا اور انہیں اپنی سفرہ پر مدعو کیا۔ امام علیہ السلام اپنی سواری سے اترے اوراس آیت کی تلاوت کی: «إِنَّهُ لا یحِبُّ الْمُسْتَکبِرین»؛ “بے شک وہ متکبروں کو پسند نہیں کرتا”۔ (نحل / 23) پھر وہ ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور ان کے ساتھ کھانے لگے۔ جب وہ سب سیر ہو گئے تو امام علیہ السلام نے انہیں اپنے گھر مدعو کیا اور ان کی خوب خاطر مدارت کی اور انہیں لباس دیا۔ [13]
7- مہمان نوازی:
وہ ہمیشہ مہمانوں کو خوش آمد کہا کرتے۔ بعض اوقات وہ ایسے افراد کی پزیرائی کیا کرتے تھے جنہیں وہ جانتے تک بھی نہیں تھے۔ خاص طور پر امام علیہ السلام غریبوں کی پزیرائی اور انہیں اپنے گھر لے جانے کو بہت پسند کرتے اور ان کا گرمجوشی سے استقبال کرتے اور انہیں لباس اور مال عطا کرتے۔ [14]
8- رواداری و بردباری:
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی زندگی کا ایک مشکل ترین دور معاویہ کے ساتھ صلح کے بعد کا دور تھا۔ آپ علیہ السلام نے ان برسوں کی سختیوں کو اپنے صبر و بردباری سے گزارا۔ ان برسوں میں آپ علیہ السلام کے بہت سے دوستوں نے آپ سے منہ موڑ لیا تھا۔ یہ وقت ان کے لئے واقعی بہت مشکل تھا۔ اس دوران امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام کی توہین کرنا ہر ایک کا وطیرہ بن گیا تھا۔ جب بھی وہ امام علیہ السلام کو دیکھتے تو کہتے: «السَّلَامُ عَلَیک یا مُذِلَّ الْمُؤْمِنِین؛ [15] ” اے مومنوں کی تذلیل و رسوائی کرنے والے تم پر سلام ہو”۔ لیکن اس کے باوجود آپ علیہ السلام بڑے صبر اور بردباری کے ساتھ ان کی یہ سب توہین برداشت کیا کرتے۔
یہ صبر اتنا عظیم تھا کہ امام علیہ السلام کے سخت ترین دشمن مروان ابن حکیم نے بھی غمزدہ حالت میں آپ علیہ السلام کے جنازے میں شرکت کی اور ان لوگوں کے جواب میں جو اسے کہتے کہ تم کل تک تو امام کے دشمن تھے، اس نے کہا: “یہ وہ تھا جس کا صبر و بردباری پہاڑوں سے بھی پرکھی نہیں جا سکتی”۔ [16]
9- بخشش اور دوسروں کی ضروریات کو پورا کرنا:
حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی سب سے نمایاں خصوصیت کہ جو ان کے چاہنے والوں کے لئے بہترین نمونہ بھی ہے، ان کا سخی و کریم ہونا اور دوسروں کی مدد کرنا ہے۔ وہ ہمیشہ مختلف بہانوں سے سب کو اپنی کرامت سے فائدہ پہنچایا کرتے اور اتنی بخشش کیا کرتے کہ ضرورت مند شخص بے نیاز ہو جاتا۔چونکہ تعلیمات اسلام کے مطابق بخشش اس طرح ہونی چاہئے تاکہ گداگری کو معاشرے سے ختم کیا جا سکے۔
ایک دن آپ علیہ السلام عبادت میں مصروف تھے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص آپ علیہ السلام کے پاس بیٹھا ہے اور خدا سے کہہ رہا ہے: “خدایا! مجھے ایک ہزار درہم عطا کر۔ امام علیہ السلام گھر آئے اور دس ہزار درہم اسے بھجوا دئے”۔ [17]
امام حسن علیہ السلام کسی سائل کو اپنے سے دور نہیں کیا کرتے اور کبھی کسی ضرورت مند کو “نہ” نہیں کہتے تھے۔
10۔ شجاعت:
شجاعت امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی پائیدار میراث تھی اور امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اسے وراثت میں پایا۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے امام مجتبیٰ علیہ السلام کو ابتدائی عمر سے ہی تلوار بازی اور عسکری مہارتیں سکھائیں اور انہیں ہمیشہ سچ کی حمایت کرنا سکھائی۔
جب جنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام نے محمد بن حنفیہ کو حضرت عائشہ کے شتر کو نحر کرنے بھیجا اور وہ شتر کے اطرافیان کی وجہ سے ناتوان لوٹے تو امیرالمومنین علیہ السلام نے حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو بھیجا جو تھوڑی ہی دیر بعد کامیابی سے واپس لوٹے جب کہ ان کی تلوار سے ابھی خون ٹپک رہا تھا۔ یہ دیکھ کر محمد بن حنفیہ شرمندہ ہوئے تو امیرالمومنین علیہ السلام نے اسے فرمایا: “شرمندہ مت ہو چونکہ وہ فرزند پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور تم فرزند علی ہو”۔ [18]
امام مجتبیٰ علیہ السلام نے اس وقت کی دوسری جنگوں میں بھی حصہ لیا اور اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔ معاویہ ان کی بہادری کے بارے میں کہتا ہے: “وہ اس شخص کا فرزند ہے کہ جو جہاں بھی جاتا موت ہمیشہ اس کا پیچھا کرتی”۔ (اس بات سے کنایہ تھا کہ وہ نڈر تھا اور موت سے نہیں ڈرتا تھا)۔ [19]
___________________
حوالہ جات:
[۱] بحارالانوار، محمد باقر مجلسی، مؤسسة الرساله، بیروت، ۱۴۰۳ ق، ج ۴۳، ص ۳۳۱.
[۲] مهج الدعوات، سید بن طاووس، دار الذخائر، قم، ۱۴۱۱ ق، ص ۱۴۵.
[۳] مناقب آل ابیطالب، ابن شهرآشوب، دارالأضواء، بیروت، ۱۴۰۸ ق، ج ۴، ص ۱۴ و بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۳۳۹.
[۴] مناقب ابن شهر آشوب، ج ۴، ص ۱۷ و بحارالانوار، ایضا.
[۵] بحارالانوار، ایضا.
[۶] ایضا، ص ۳۳۲.
[۷] بروج/ ۳.
[۸] احزاب/ ۴۵.
[۹] هود/ ۱۰۳.
[۱۰] بحارالانوار، ج ۴۳، ص ۳۴۵.
[۱۱] نساء/ ۸۶.
[۱۲] مناقب، ابن شهر آشوب، ج ۴، ص ۱۸.
[۱۳]« وَ جَعَلَ یأْکُلُ حَتَّی اکْتَفَوْا دَعَاهُمْ إِلَی ضِیافَتِهِ وَ أَطْعَمَهُمْ وَ کَسَاهُمْ» بحارالانوار، ج ۴۳، ص ۳۵۲.
[۱۴]مناقب، ابن شهر آشوب، ج ۴، ص ۱۶ و ۱۷.
[۱۵]بحارالانوار ، ج ۷۵، ص ۲۸۷.
[۱۶] زندگی دوازده امام، هاشم معروف الحسینی، امیر کبیر، تهران، ۱۳۷۳ ش، ج ۱، ص ۵۰۶.
[۱۷]مناقب، ابن شهر آشوب، ج ۴، ص ۱۷.
[۱۸]شرح نهج البلاغه، ابن ابی الحدید، دار الفکر، بیروت، بی تا، ج ۴، ۷۳.
[19] مقالات، ۲۸جلد، مجمع.