کتاب آسمانی سے مراد کیا ہے؟
كتاب آسمانی سے مراد توریت، انجیل بھی ھوسكتی ہے اور قرآن بھی۔ ھرحال میں حق التلاوۃ سے مراد قرآن پرعمل ہے۔ امام صادق (ع) اس آیت كے بارے میں فرماتے ہیں: “یعنی قرآنی آیات كو ترتیل سے پڑ ہیں، اس میں غور و فكر كریں، اس كے احكام پر عمل كریں اس كے وعدوں سے پرامید اور اس كے عذاب سے ڈریں، اس كے قصوں سے عبرت حاصل كریں اور جس چیز كا اس میں حكم دیا گیا ہے اس پر عمل كریں اور جس چیز سے روكا گیا ہے اس سے پرھیز كریں۔ خداكی قسم حق تلاوت كامعنیٰ اس كی آیات كو حفظ اور اس كو پڑھنے كان ہیں ہے ۔۔۔، بلكہ اس كی آیات میں غور و فكر كركے اس پرعمل كریں۔ خداوند متعال فرما تا ہے:
اے پیغمبر! قرآن، مبارك كتاب ہے جسے آپ كے پاس بھیجا تاكہ لوگ اس كی آیات میں تدبر كریں۔”
قرآن، پر عمل كے سلسلہ میں آیات وروایات كو آپ نے ملاحظہ فرمایا اس كے علاوہ ایسی روایات بھی پائی جاتی ہیں جوقرآن پرعمل نہ كرنے كی مذمت كرتی ہیں۔
تائید اور تاكید مطلب كے لئے ان كی طرف اشارہ كرتے ہیں۔ رسول خدا (ص) فرماتے ہیں:
“یأتی علی الناس زمانٌ، القرآن فی وادٍ و ھم فی وادٍ غیرہ” ایك زمانہ ایسا آئے گا جب لوگ اور قرآن دو مختلف وادی میں ھونگے (جوقرآن كھتا ہے اس پرعمل ن ہیں كریں گے)۔
دوسری روایت میں پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں: “جو كوئی قرآن سیكهے لیكن اس پرعمل نہ كرے اور دنیا كی محبت اور اس كی زینت اس پر غالب ھو جائے، ایسا شخص عذاب الھی كا مستحق ہے اور یھود و نصاری كاھم مرتبہ ہے جنھوں نے كتاب (خدا) سے روگردانی كی۔”
مذكورہ بالا روایات كے علاوہ اور بھی روایات پائی جاتی ہیں جو قرآن پر عمل نہ كرنے سے روكتی ہیں۔ اس بخش كو، ختم قرآن كے سلسلہ میں موجود دعائے امام سجاد (ع) كے كچھ برگزیدہ فراز سے ختم كرتے ہیں۔
“اے اللہ! محمد (ص) اور ان كی آل پر رحمت نازل فرما اور ھمیں ان لوگوں میں سے قرار دے جو قرآن كے عھد و پیمان كی ریسمان سے وابستہ اور مشتبہ امور میں اس كی محكم پناہ گاہ كا سھارا لیتے ہیں اور اس كے پروں كے زیر سایہ منزل كرتے ہیں اس كی صبح درخشاں كی روشنی میں سے ھدایت پاتے اور اس كے نور ھدایت كی درخشندگی كی پیروی كرتے اور اس كے چراغ سے چراغ جلاتے ہیں اور اس كے علاوہ كسی سے ھدایت كے طالب نہیں ھوتے”۔