امام حسین علیہ السلام کی چالیس حدیثیں

قال السيدالشهداء الامام الحسين عليه السلام:

تین لوگوں سے حاجت طلب کرو

لاتـَرفع حــاجَتَك إلاّ إلـى أحـَدٍ ثَلاثة: إلـى ذِى دیـنٍ، اَو مُــرُوّة اَو حَسَب۔

تین افراد کے سوا کسی سے اپنی حاجت مت مانگو: دیندار سے، صاحب مروت سے اور خاندانی آدمی سے۔

(تحف العقول ، ص 251)

دو میں سے ایک سابق الجنہ ہے

أیما اثنَین جَرى بینهما كلام فطلب أحدهما رضَـى الاخر كانَ سابقة الىَ الجنّة

اگر دو افراد مین جھگڑا ہو تو جو دوسرے کو راضي کرنے کے لئے پہلے اقدام کرے گا جنت جانے میں سبقت جاصل کرنے والا ہے۔

(محجة البیصاء ج 4،ص 228)

اللہ کی خوشنودی کی بجائے مخلوق کی خوشنودی

لاأفلَحَ قـَومٌ اشتَـروا مَـرضـاتِ المَخلـُوق بسَخَطِ الخـالِق

وہ قوم ہرگز فلاح اور رستگاری نہ پائے گی جو مخلوق کی خوشنودی کی خاطر اللہ کو ناراض کرتی ہے۔

(تاریخ طبرى،ص 1،ص 239)

جس نے اللہ کی ناراض کرکے

من طلب رضی الناس بسخط الله وكله الله إلی الناس .

جس نے اللہ کی ناراض کرکے لوگوں کی خوشنودی طلب کی خدا اس (سے اپنی نظریں پھیر دیتا ہے اور اس) کو لوگوں کے سپرد کرتا ہے۔

(بحارالانوار،ج78،ص126)

شیعیان امام حسین (ع) کے دل

إنَّ شِیعَتَنا مَن سَلمَت قُلُوبُهُم مٍن كلِّ غَشٍّ وَ غِلٍّ وَ دَغَلٍ

بتحقیق کہ ہمارے پیروکاروں کے دل ہر ناخالصی اور مکر و تزویر اور فریب سے پاک ہیں۔

(فرهنگ سخنان امام حسین ص/ 476 ـ بحارالانوار 68/156/11)

خوف خدا قیامت میں امان

لا یأمَن یومَ القیامَةِ إلاّ مَن خافَ الله فِی الدُّنیا

قیامت میں کسی کے لئے بھی امان نہ ہوگی سوائے ان لوگوں کے جو دنیا میں خدا سے ڈرتے ہیں۔

(مناقب ابن شهر آشوب ج/4 ص/ 69 ـ بحار الانوار، ج 44، ص 192)

عاجز ترین شخض

أَعجَزالنّاسٍ مَن عَجَزَ عَنِ الدُّعاء

بے بس ترین اور عاجز ترین شخص وہ لے جو دعا نہ کرسکے۔

(بحارالانوارج/ 93 ص/ 294)

خوف خدا اور گریہ

اَلبُكاءُ مِن خَشیةِ اللهِ نَجآةٌ مِنَ النّارِ

خدا کے خوف سے گریہ جہنم کی آگ سے نجات ہے

(کشف ‌الغمّة، ج2، صفحه 239 ـ حیات امام حسین ج 1 /ص 183)

نافرمانی ناامیدی کا سبب

مَن حاوَلَ اَمراً بمَعصِیهِ اللهِ كانَ اَفوَتَ لِما یرجُو وَاَسرَعَ لِمَجئ ما یحذَرُ

جو شخص ایسے کام کی کوشش کرے جس میں اللہ کی نافرمانی ہو ان سب چیزوں سے سب سے زیادہ ناامید ہوگا جن کی وہ امید رکھتا ہے اور تیزرفتاری سے ان چیزوں سے دوچار ہوگا جن کے آنے سے وہ فکرمند ہوتا ہے۔

(بحار الانوار ، ج 3 ، ص 397 ج78،ص120)

10۔ عفو و درگذر طاقت کے باوجود

اِنّ اَعفَی النّاسِ مَن عَفا عِندَقُدرَتِهِِ

سب سے زیادہ بخشنے والا شخص وہ ہے جو طاقت رکھتے ہوئے بھی بخش دے۔ (یعنی وہ جو طاقت کے باوجود انتقام لینے کی بجائے، بخش دے وہ سب سے زیادہ بخشنے والا ہے)۔

(الدرة الباهرة ، ص24)

11۔ وعدہ دینا ذمہ داری ہے

المسؤول حر حتی یعد ، ومسترق المسؤول حتی ینجز.

ذمہ دار انسان آزاد ہے جب تک اس نے وعدہ نہیں پس جب اس نے وعدہ دیا وہ اس وقت مسئول اور جوابدہ ہے جب تک اس نے وعدہ نبھایا نہیں۔

(بحار الانوار،ج78،ص113)

12۔ دوست اور دشمن کی پہچان

من اَحبك نهاك و من اَبغضك اَغراك.

جو تم سے محبت کرتا ہے وہ تم پر تنقید کرتا اور تمہیں روک لیتا ہے اور جو تمہارا دشمن ہے وہ تمہاری تعریف و تمجید کرتا ہے۔

(بحار الانوار،ج75،ص128)

13۔ عالم کی نشانی کیا ہے

من دلائل العالم إنتقادة لحدیثه و علمه بحقائق فنون النظر.

عالم کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے بیان پر خود ہی تنقید کرتا ہے اور مختاز نشانه های عالم ، نقد سخن و اندیشه خود و آگاهی از نظرات مختلف نظریات اور آراء سے آگاہ ہے۔ (یعنی مطالعہ کرتا ہے اور اپنی بات کو آخری بات نہیں سمجھتا اور لوگوں کی تنقید کو اہمیت دیتا اور ان کی رائے معلوم کرتا اور سنتا ہے۔

(بحارالانوار،ج78،ص119)

14۔ زبان اور بے وقعتی

لا تقولوا باَلسنَتكم ما ینقُص عَن قَدَرَكم

ایسی بات زبان پر ایسی بات جاری نہ کرو جو تمہاری قدر و قیمت گھٹا دیتی ہو۔

(جلاءالعیون،ج۲ص۲۰۵)

15۔ اتباع حق کمال عقل

لا یكمل العقل إلا باتباع الحق .

عقل حق کی پیروی کے بغیر مکمل نہیں ہوگی۔

(بحار الانوار، ج 78، ص 127)

16۔ غلطی اور معذرت مؤمن کا کام نہیں

إیاك و ما تعتذر منه، فإن المؤمن لا یسيئ و لا یعتذر، و المنافق كل یوم یسيئ و یعتذر

اجتناب کرو ایسے افعال سے جس کی وجہ سے تمہیں معذرت کرنی پڑتی ہے، کیونکہ مؤمن کبھی بھونڈا عمل نہيں کرتا اور نہ ہی اس کو معذرت خواہی نہین کرنی پڑتی۔ لیکن مناقق ہر روز غلطیاں کرتا اور معذرت خواہیاں کرتا پھرتا ہے۔

( بحار الانوار، ج 78، ص120 )

17۔ گنہگاروں اور فاسقوں کی ہم نشینی

مُجالَسَةِ أهلِ الدِنَاءَة شَر، وَ مُجَالَسَةِ أَهلِ الفُسُوقِ ریبَة

بے آبرو اور  پست و رذیل افراد کے ساتھ ہم نشینی شر اور بدی ہے اور گنہگاروں کے ساتھ ہمدم و رفیق ہونا لوگوں کی بدگمانی اور اعتماد اور اعتبار کھونے کے مترادف ہے۔

(بحارالانوار، ج78، ص 122)

18۔ ظالموں کے ساتھ جینے سے موت بہتر

الا ترون الى الحق لا يعمل به، والى الباطل لا يتناهى عنه، ليرغب المؤمن في لقاء ربه حقا حقا، فاني لا ارى الموت الا سعادة، والحياة مع الظالمين الا برما.

(تحف العقول ، ص 245 ـ بحارالانوار ج 44 ص 192)

کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہین ہورہا اور باطل سے پرہیز نہیں کیا جاتا حتی کہ مؤمن اور حق طلب انسان اس راہ میں موت اور لقائے پروردگار کی طرف راغب ہوجائے۔ پس میں اس راہ میں موت کو سعادت کے سوا کچھ نہيں سمجھتا اور ظالمین و جابرین کے ساتھ جینے کو رنج و مصیبت کے سوا کچھ نہیں سمجھتا۔

19۔ عبادت کا حق اور آرزوئیں

مَن عَبَدَ اللهَ حَقَّ عِبادَتِهِ آتاهُ اللهُ فَوقَ أمانِیهِ وَ كفایتِهِ

جس نے خدا کی عبادت اور بندگی کرتے ہوئے عبادت کا حق ادا کیا خداوند متعال اس کی آرزؤوں سے کہيں بڑھ کر اور اس کی ضرورت سے کہیں زیادہ اس کے عطا کرے گا۔

(بحار الأنوار، ج 71، ص 183)

20۔ زيارت امام حسین (ع)

من زارنى بعد موتى زرته يوم القيامة ولولم يكن الا فى النار لاخرجته ؛

جو میری موت کے بعد میری زیارت کے گا میں قیامت کے دن اس کے دیدار کو آؤں گا اور حتی اگر وہ دوزخ میں بھی ہو تو میں اس کا باہر نکالوں گا۔

(المنتخب للطريحى ص 70.)

21۔ شکر نعمتوں کا ضامن

شكرك لنعمة سالفة يقتضى نعمة آنفة؛( نزهة الناظر ص 80.)

گذشتہ نعمت پر تمہارا شکر آنے والی نعمت کے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔

22۔ عقلمند عقل سے چارہ جوئی کرتا ہے

اذا وردت على العاقل لمة قمع الحزن بالحزم و قرع العقل للاحتيال؛(نزهة الناظر ص /84/13)

جب کسی عقلمند شخص کے لئے کوئی مشکل پیش آتی ہے تو وہ اس کو ہوشیاری اور دوراندیشی کے ذریعے حل کرتا ہے اور عقل کو چارہ جوئی کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔

23۔ رواداری کنجی ہے

من أحجم عن الرأي وعييت به الحيل كان الرفق مفتاحه؛(بحار الانوار، ج 78، ص 128)

جو کسی امر میں کوئی رائے اور نظر نہیں رکھتا اور چارہ کار نہيں جانتا تو اس کے امور کی کنجی صرف رواداری اور نرم رویہ اپنانا ہے۔

24۔ پاکدامنی اور حرص

ليست العفة بمانعة رزقا و لا الحرص بجالب فضلا وان الرزق مقسوم والاجل محتوم واستعمال الحرص طالب المأثم؛( اعلام الدين ص 428)

نہ تو حرام سے پرہیز اور پاکدامنی رزق میں رکاوٹ ہے اور نہ ہی حرص و لالچ سے رزق میں اضافہ ہوتا ہے، اور بے شک رزق تقسیم ہوچکا ہے اور اجل حتمی ہے اور حرص گناہوں کی طرف کھینچ لیتا ہے۔

25ـ حصول عزت کے لئے موت کس قدر آسان ہے

ما أهون الموت على سبيل نيل العز واحياء الحق ليس الموت فى سبيل العز الا حياة خالدة و ليست الحياة مع الذل الا الموت الذى لاحياة معه؛( احقاق الحق 11/601)

کتنی آسان ہے موت جب وہ عزت کے حصول اور حق کے احیاء کے راستے میں ہو؛ بے شک عزت کے راستے میں موت دائمی حیات ہے اور ذلت کے ساتھ زندگی ایسی دائمی موت ہے جس کے بعد کوئی زندگی نہيں۔

26۔ اگر تمہارا کوئی دین نہيں ہے تو …

ان لم يكن لكم دين و كنتم لا تخافون المعاد فكونوا أَحراراً فى دنياكم؛(بحارالانوار 45/51)

[اے افواج شام و کوفہ!] اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے تو کم از کم دنیا میں آزاد اور جوانمرد رہو۔

27۔ راہ حق میں ناہمواریوں پر صبر

إصبر علي ما تكره فيما يلزمك الحق ، واصبر عما تحب فيما يدعوك اليه الهوي . (نزهة الناظر و تنبيه الخاطر، ص 85)

حق و ہدایت کے راستے میں ان واقعات و حادثات پر صبر کرو جو تمہيں ناپسند ہیں اور صبر کرو ان لذتوں کی طرف جانے سے جن کی طرف تمہارا نفس تمہیں بلاتا ہے۔

28۔ ہمارا حبدار ہم اہل بیت میں سے ہے

قال أبان بن تغلب: قال الإمام الشهيد عليه السلام: من أحبنا كان منا أهل البيت؛ فقلت: منكم أهل البيت؟ فقال (عليه السلام): منا أهل البيت، حتي قالها ثلاثا. ثم قال (عليه السلام): أما سمعت قول العبد الصالح “فمن تبعني فإنه مني؟”۔ (نزهة الناظر و تنبيه الخاطر، ص 40)

ابان بن تغلب کہتے ہیں: امام شہید علیہ السلام نے فرمایا: جو ہم سے محبت کرے وہ ہم اہل بیت میں سے ہے۔ میں نے عرض کیا: آپ کا محب آپ اہل بیت میں سے ہے؟ فرمایا: ہاں! وہ ہم اہل بیت (ع) میں سے ہے حتی کہ آپ (ع) نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا اور فرمایا: کہ آپ نے بندہ صالح (ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام) کی یہ بات نہيں سنی کہ “جس نے میری پیروی کی وہ مجھ سے ہے؟”۔

29۔ امام حسین امیرالمؤمنین کا جواب دیتے ہیں

أقبل أميرالمؤمنين علی ابنه الحسين عليهما السلام فقال: يا بني ما السؤدد؟ قال : إصطناع العشيرة و احتمال الجريرة؛ فما الغني ؟ قال (ع ): قلة أمانيك ، و الرضا بما يكفيك فما الفقر؟ قال (ع ): ألطمع و شدة القنوط. فما اللؤم ؟ قال (ع ): إحراز المرء نفسه و إسلامه عرسه۔ فما الخرق ؟ قال حسين (ع ): معاداتك أميرك و من يقدر علي ضرك و نفعك۔ (بحار الانوار، ج 78، ص 102)

اميرالمؤمنين علیہ السلام نے اپنے فرزند حسین علیہ السلام سے پوچھا: بیٹا! برتری اور بزرگواری کس عمل میں ہے؟ امام حسین (ع) نے عرض کیا: “اہل خاندان اور قرابتداروں سے نیکی کرنے اور ان کے نقصانات کا بوجھ اٹھانے میں۔

امیرالمؤمنین (ع) نے فرمایا: فرمایا توانگری اور بے نیازی کس چیز میں ہے؟ امام حسین (ع) نے عرض کیا: خواہشوں کو کم کرنے میں اور جتنا آپ کے لئے کافی ہے اسی پر راضي و خوشنود ہونے میں۔

امیرالمؤمنین (ع) نے پوچھا: فقر اور احتیاج کن چیزوں میں ہے؟ امام حسین (ع) نے عرض کیا: لالچ اور نا امیدی میں۔

فرمایا پستی کس چیز میں ہے؟ امام حسین (ع) نے عرض کیا: انسان کی پستی کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچائے اور اہل و عیال کو ناہمواریوں اور مشکلات و خطرات میں ڈال دے۔

فرمایا: حماقت اور بے وقوفی کس چیز میں ہے؟ عرض کیا: حماقت اور بے وقوفی اس میں ہے کہ انسان اپنے سالار اور کمانڈر سے دشمنی کرے اور اپنے سے زیادہ طاقتور انسان سے لڑ پڑے جو اس کو نفع اور نقصان پہنچانے کی قوت رکھتا ہے۔

30۔  اپنا گھر ڈھاکر دوسروں کا گھر تعمیر کرنا

قال له عليه السلام رجل: بنيت دارا أحب أن تدخلها و تدعو الله، فدخلها فنظر إليها. ثم قال عليه السلام : أخربت دارك ، و عمرت دار غيرك ، غرك من في الأرض ، و مقتك من في السماء. (مستدرك الوسايل ، ج 3، ص 467)

ایک شخص نے امام حسین علیہ السلام سے عرض کیا: میں نے ايک گھر بنایا ہوا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ اس میں داخل ہوجائیں اور بارگاہ الہی میں [ہمارے لئے] دعا کریں۔ امام حسین علیہ السلام گھر میں داخل ہوئے اور ایک نظر ڈالنے کے بعد فرمایا: تم نے اپنا گھر ویراں کردیا ہے اور دوسروں کے لئے گھر تعمیر کیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ زمین والے تمہیں عزیز رکھتے اور تمہيں عزت دیں گے لیکن ملأ اعلی اور آسمان والے تم سے دشمنی برتیں گے۔

31۔  ہمارا دشمن رسول اللہ (ص) کا دشمن ہے

من عادانا فلرسول صلي الله عليه و آله و سلم يعادي . احقاق الحق ، ج 11، ص 592

جو شخص ہم ( اہل بیت رسول (ص)) سے دشمنی کرے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دشمن ہے۔

32۔ ہم عرش کے گرد نور کے سائے تھے

عن حبيب بن مظاهر الأسدي أنه قال للحسين (عليه السلام): أي شيئ كنتم قبل أن يخلق الله عز و جل آدم (عليه السلام)؟ فقال عليه السلام : كنا أشباح نور ندور حول عرش الرحمن ، فنعلم للملائكة التسبيح و التهليل و التحميد. (بحار الانوار، ج 60، ص 311)

حبیب بن مظاہر اسدی (ع) سے روایت ہے کہ انھوں نے امام حسین (ع) سے پوچھا: قبل اس کے کہ اللہ تعالی حضرت آدم علیہ السلام کو خلق فرمائے، آپ کس حالت میں تھے؟ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ہم نور کے سائے تھے اور عرش کے گرد سیر کیا کرتے تھے اور فرشتوں کو تسبیح (سبحان اللہ) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ) اور تحمید (الحمد للہ) سکھاتے تھے۔

33۔ میرے نویں فرزند مہدی (عج)

منا إثنا عشر مهديا أولهم أميرالمؤمنين علي بن ابي طالب و آخرهم التاسع من ولدي، و هو: الإمام القائم بالحق يحيي الله به الأرض بعد موتها، و يظهر به دين و يحب الحق علي الدين كله و لو كره المشركون ، له غيبة يرتد فيها أقوام و يثبت علي الدين فيها آخرون فيؤذون و يقال لهم : “متي هذا الوعد إن كنتم صادقين “؟ أما إن الصابر في غيبته علي الأذي و التكذيب بمنزلة المجاهد بالسيف بين يدي رسول الله صلي الله عليه و آله۔ (بحار الانوار، ج 51، ص 133)

ہمارے خاندان میں سے بارہ مہدی (ہدایت یافتہ امام) ہیں جن میں اول امیرالمؤمنین علي علیہ السلام ہیں اور آخری میرے نویں فرزند ہیں جو حق کے ساتھ قیام فرمائے گا اور زمین کو عدل و انصاف کے قیام سے زندہ کرے گا جب یہ ظلم و ستم کی وجہ سے مرچکی ہوگی؛ اور دین کو ـ جو مہجور اور تنہا ہوچکا ہوگا ـ دوسرے ادیان پر غلبہ دیں گے، حق و ح‍قیقت کو روشن کریں گے، مہدی طویل عرصے تک غائب رہیں گے جس کے نتیجے میں بعض اقوام اور بعض جماعتیں مرتد ہوجائیں گی اور کفر اختیار کریں گی اور بعض لوگ دین پر ثابت قدم رہیں گے اور جو ثابت قدم رہيں گے ان کو آزار و اذیت کا نشانہ جائے گا اور اذيت دینے والے ان سے پوچھیں گے: اگر تم سچ بولتے ہو تو یہ بتاؤ کہ تمہارے امام کے ظہور کا وعدہ کب ہے؟ لیکن جان لو کہ جو لوگ غیبت کے زمانے میں لوگوں کی اذيت اور تکذيب و تردید کے مقابلے میں صبر و استقامت کریں گے اجر و ثواب کے حوالے سے اللہ کی راہ میں ان مجاہدوں کی مانند ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رکاب میں تلوار لے کر جہاد کرچکے ہیں۔

34۔ میرے نویں فرزند مہدی (عج)

قيل له (عليه السلام) ما الفضل ؟ قال (عليه السلام): ملك اللسان و بذل الإحسان . قيل فما النقص ؟ قال (عليه السلام): ألتكلف لما لا يعنيك. (مستدرك الوسايل ، ج 9، ص 24)

امام حسین علیہ السلام سے پوچھا گیا؟ فضل اور فضیلت کیا ہے؟ فرمایا: اپنی زبان کو قابو میں رکھنا اور لوگوں پر احسان اور نیکی کرنا۔ عرض ہوا: پس نقص کیا ہے؟ فرمایا: کسی بیہودہ کام کے لئے اپنے آپ کو زحمت میں ڈالنا۔

35۔ سخی ترین شخص

إنَّ أجْوَدَ النّاسِ مَنْ أعْطى مَنْ لا یَرْجُوهُ، … وَ إنَّ أَوْصَلَ النّاسِ مَنْ وَصَلَ مَنْ قَطَعَهُ. (نهج الشّهادة: ص 39، بحارالأنوار: ج 75، ص 121، ح 4)

بتحقیق سب سے زیادہ سخی شخص وہ ہے جو عصا کرے ایسے شخص کو جو اس سے عطا کی توقع ہی نہيں رکھتا۔ اور سب سے زيادہ سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا شخص وہ ہے جو قرابتداروں میں سے ان لوگوں کے ساتھ رابطہ بحال کرے جنہوں نے اس سے رابطہ اور رشتہ توڑ رکھا تھا۔

36۔ لوگ دنیا کے بندے ہیں اور ان کا دین

النّاسُ عَبیدُالدُّنْیا، وَ الدّینُ لَعِبٌ عَلى ألْسِنَتِهِمْ، یَحُوطُونَهُ ما دارَتْ بِهِ مَعائِشَهُمْ، فَإذا مُحِصُّوا بِالْبَلاء قَلَّ الدَّیّانُونَ.   (محجّة البیضاء: ج 4، ص 228، بحارالأنوار: ج 75، ص 116، ح 2)

معاشرے کے لوگ دنیا کے بندے اورغلام ہیں اور دین ان کی زبانوں کا بازیچہ ہے اور وہ دین کو اپنے معاش کا وسیلہ قرار دیتے ہیں اور صرف رفاہ و آسائش کی زندگی میں یہ دین کے ساتھی اور ہمراہ ہیں

لیکن آزمائش کی گھڑی میں (جب ان کی جان و مال و منصب و عہدے کو خطرہ لاحق ہونے کا امکان ہو تو) دیندار بہت کم ہوجاتے ہیں۔

37. جزا و سزا کو مد نظر رکھو

إعْمَلْ عَمَلَ رَجُل یَعْلَمُ أنّه مأخُوذٌ بِالاْجْرامِ، مُجْزى بِالاْحْسانِ.(بحارالأنوار: ج 2، ص 130، ح 15 و ج 75، ص 127، ح 10۔)

اپنے کام اور اپنے امور و معاملات کو اس فرد کی مانند انجام دو جس کو معلوم ہوتا ہے کہ خلاف ورزی کی صورت میں اس کی گرفت ہوگی اور اگر صحیح کام انجام دے گا تو اس کے جزا اور پاداش دی جائے گی۔

38. قبر عمل صالح کا گھر ہے

عِباداللهِ! لا تَشْتَغِلُوا بِالدُّنْیا، فَإنَّ الْقَبْرَ بَیْتُ الْعَمَلِ، فَاعْمَلُوا وَ لا تَغْفُلُوا. (نهج الشّهادة: ص 47)

اے بندگان خدا! دنیا اور اس کی چمک دمک میں مشغول ہونے سے بچو کیونکہ اس میں شک نہيں ہے کہ قبر ایسا گھر ہے جہاں صرف عمل ـ صالح ـ ہی فائدہ  دیتا اور نجات دلاتا ہے پس خیال رکھو کہ کہيں غفلت تمہیں آنہ لے۔

39. کہو جو سننا چاہتے ہو

لا تَقُولَنَّ فى أخیكَ الْمُؤمِنِ إذا تَوارى عَنْكَ إلاّ مِثْلَ ماتُحِبُّ أنْ یَقُولَ فیكَ إذا تَوارَیْتَ عَنْهُ. (نهج الشّهادة: ص 47)

اپنے مؤمن بھائی کے بارے میں جب وہ تم سے دور اور اوجھل ہے مت کہو سوائے ایسی بات کہ جو اگر تم اس سے اوجھل ہوجاؤ تو پسند کرتے ہو کہ وہ تمہارے بارے میں کہے۔

40. میں اشکوں کا شہید ہوں

أنَا قَتیلُ الْعَبَرَةِ، لایَذْكُرُنى مُؤْمِنٌ إلاّ اِسْتَعْبَرَ. (أمالى شیخ صدوق: ص 118، بحارالأنوار: ج 44، ص 284، ح 19)

میں گریہ و بکاء اور اشک و آہ کا شہید ہوں کوئی بھی مؤمن مجھے یاد نہیں کرتا مگر یہ کہ عبرت حاصل کرتا ہے اور اس کی آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔

ترتیب و ترجمہ: ف۔ح۔مہدوی

 

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے