شہادت امام حسین (ع) کا اصلی مقصد
ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان‘ شیعہ بھی اور سنی بھی امام حسین (ع) کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ ان غم گساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں جس کے لئے امام نے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔ کسی شخص کی مظلومانہ شہادت پر اس کے اہل خاندان کا اور اس خاندان سے محبت و عقیدت یا ہمدردی رکھنے والوں کا اظہار غم کرنا تو ایک فطری بات ہے۔ ایسا رنج و غم دنیا کے ہر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی کوئی اخلاقی قدرو قیمت اس سے زیادہ نہیں ہے کہ یہ اس شخص کی ذات کے ساتھ اس کے رشتہ داروں کی اور خاندان کے ہمدردوں کی محبت کا ایک فطری نتیجہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسین (ع) کی وہ کیا خصوصیت ہے جس کی وجہ سے اتنی صدیاں گزر جانے پر بھی ہر سال ان کا غم تازہ ہوتا رہتاہے؟ اگر یہ شہادت کسی مقصد عظیم کے لئے نہ تھی تو محض ذاتی محبت و تعلق کی بناپر صدیوں اس کا غم جاری رہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ لہذا اگر ہم اس مقصد کے لئے کچھ نہ کریں‘ بلکہ اس کے خلاف کام کرتے رہیں‘ تو محض ان کی ذات کے لئے گریہ وزاری کرکے اور ان کے قاتلوں پر لعن کرکے قیامت کے روز نہ تو ہم امام ہی سے کسی داد کی امید رکھ سکتے ہیں اور نہ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ خدا اس کی کوئی قدر کریگا۔
اب دیکھنا چاہئے کہ وہ مقصد کیا تھا؟ کیا امام تخت و تاج کے لئے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعوی رکھتے تھے اور اس کے لئے انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگائی؟ کوئی شخص بھی جو امام حسین (ع) کے گھرانے کی بلند اخلاق سیرت کو جانتا ہے یہ بدگمانی نہیں کر سکتا کہ یہ لوگ اپنی ذات کے لئے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر مسلمانوں میں خون ریزی کرسکتے تھے۔ اگر تھوڑی دیر کے لئے ان لوگوں کا نظریہ ہی صحیح مان لیا جائے جن کی رائے میں یہ خاندان حکومت پر اپنے ذاتی استحقاق کا دعوی رکھتا تھا‘ تب بھی حضرت ابوبکر سے لے کرامیر معاویہ تک پچاس برس کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکومت حاصل کرنے کے لئے لڑنا اور کشت و خون کرنا ہرگز ان کا مسلک نہ تھا۔ اس لئے لامحالہ یہ ماننا ہی پڑے گا کہ امام عالی مقام کی نگاہیں اس وقت مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح اور اس کے مزاج اور اس کے نظام میں کسی بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں‘ جسے روکنے کی جدوجہد کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا حتی کہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت بھی آجائے تو وہ اسے نہ صرف جائز بلکہ فرض سمجھتے تھے۔
اس چیز کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لئے ہمیں دیکھنا چاہئے کہ رسول اللہ اور خلفائے راشدین کی سربراہی میں ریاست کا جو نظام چالیس سال تک چلتا رہا تھا اس کے دستور کی بنیادی خصوصیات کیا تھیں اور یزید کی ولی عہدی سے مسلمانوں میں جس دوسرے نظام ریاست کا آغاز ہوا اس کے اندر کیا خصوصیات دولت بنی امیہ وبنی عباس اور بعد کے بادشاہوں میں ظاہر ہوئیں؟ اس تقابل سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ یہ گاڑی پہلے کس لائن پہ چل رہی تھی اور اس نقطہ انحراف پرپہنچ کر آگے کس لائن پر چل پڑی۔
اسلامی ریاست کی خصوصیات
اسلامی ریاست کی خصوصیت یہ تھی کہ اسمیں صرف زبان ہی سے یہ نہیں کہاجاتا تھا بلکہ سچے دل سے یہ مانا بھی جاتا تھا اور عملی رویہ سے اس عقیدہ و یقین کا پورا ثبوت بھی دیا جاتا تھا کہ ملک خدا کا ہے‘ باشندے خدا کی رعیت ہیں اور حکومت اس رعیت کے معاملے میں خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔ حکومت اس رعیت کی مالک نہیں ہے اور رعیت اس کی غلام نہیں ہے۔ حکمرانوں کا کام سب سے پہلے اپنی گردن میں خدا کی بندگی و غلامی کا قلادہ ڈالنا ہے‘ پھر یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی رعیت پر اس کا قانون نافذ کریں۔ لیکن یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا اس میں خدا کی بادشاہی کا تصور صرف زبانی اعتراف تک محدود رہ گیا۔ عملاً اس نے وہی نظریہ اختیار کر لیا جو ہمیشہ سے ہر انسانی بادشاہی کا رہا ہے۔ یعنی ملک بادشاہ اور شاہی خاندان کا ہے اور وہ رعیت کی جان‘ مال‘ آبرو‘ ہر چیز کامالک ہے۔ خدا کے قانون سے ان کے خاندان اور امرا اور حکام زیادہ تر سے مستثنی ہی رہے۔
تقوی اسلامی ریاست کی روح
تقوی اور خدا ترسی اورپرہیز گاری کی روح تھی جس کا سب سے بڑا مظہر خود ریاست کا سربراہ تھا۔ حکومت کے عمال اور قاضی اور سپہ سالار‘ سب اس روح سے سرشار ہوتے تھے اور پھر اسی روح سے وہ پورے معاشرے کو سرشار کرتے تھے۔ لیکن بادشاہی کی راہ پرپڑتے ہی مسلمانوں کی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں نے قیصرو کسری کے سے رنگ ڈھنگ اور ٹھاٹھ باٹھ اختیار کرلئے۔ عدل کی جگہ ظلم و جور کا غلبہ ہوتا چلا گیا۔ حرام و حلال کی تمیز سے حکمرانوں کی سیرت و کردار خالی ہوتی چلی گئی۔ سیاست کا رشتہ اخلاق سے ٹوٹتا چلا گیا۔ خدا سے خود ڈرنے کے بجائے حاکم لوگ بندگان خدا کو اپنے آپ سے ڈرانے لگے اور لوگوں کے ایمان و ضمیر بیدار کرنے کے بجائے ان کو اپنی بخششوں کے لالچ سے خریدنے لگے۔
مشاورت دوسرا اہم اصول
دوسرا اہم ترین قاعدہ اس دستور کایہ تھا کہ حکومت مشورے سے کی جائے اور مشورہ ان لوگوں سے کیا جائے جن کے علم‘ تقوی اور اصابت رائے پر عام لوگوں کو اعتماد ہو۔ خلفائے راشدین کے عہد میں جو لوگ شوری کے رکن بنائے گئے اگرچہ ان کو انتخاب عام کے ذریعہ سے منتخب نہیں کرایا گیا تھا‘ جدید زمانے کے تصور کے لحاظ سے وہ نامزد کردہ لوگ ہی تھے‘ لیکن خلفاء نے یہ دیکھ کر ان کو مشیر نہیں بنایا تھا کہ یہ ہماری ہاں میں ہاں ملانے اور ہمارے مفاد کی خدمت کرنے کے لئے موزوں ترین لوگ ہیں بلکہ انہوں نے پورے خلوص اور بے غرضی کے ساتھ قوم کے بہترین عناصر کو چناتھا جن سے وہ حق گوئی کے سوا کسی چیز کی توقع نہ رکھتے تھے‘ جن سے یہ امید تھی کہ وہ ہر معاملے میں اپنے علم و ضمیر کے مطابق بالکل صحیح ایماندارانہ رائے دیں گے‘ جن سے کوئی شخص بھی یہ اندیشہ نہ رکھتا تھا کہ وہ حکومت کو کسی غلط راہ پر جانے دیں گے۔ اگر اس وقت ملک میں آج کل کے طریقے کے مطابق انتخابات بھی ہوتے تو عام مسلمان انہی لوگوں کو اپنے اعتماد کا مستحق قرار دیتے لیکن شاہی دور کا آغاز ہوتے ہی شوری کا یہ طریقہ بدل گیا۔ اب بادشاہ استبداد اور مطالق العنانی کے ساتھ حکومت کرنے لگے۔ اب شہزادے اور خوشامدی اہل دربار‘ صوبوں کے گورنر اور فوجوں کے سپہ سالار ان کی کونسل کے ممبر تھے۔ اب وہ لوگ ان کے مشیر تھے جن کے معاملہ میں اگر قوم کی رائے لی جاتی تو اعتماد کے ایک ووٹ کے مقابلہ میں لعنت کے ہزار ووٹ آتے اس کے برعکس وہ حق شناس و حق گو اہل علم و تقوی جن پر قوم کو اعتماد تھا وہ بادشاہوں کی نگاہ میں کسی اعتماد کے مستحق نہ تھے بلکہ الٹے معتوب یا کم از کم مشتبہ تھے۔
اظہار رائے کی آزادی
اس دستور کا تیسرا اصول یہ تھا کہ لوگوں کو اظہار رائے کی پوری آزادی ہو۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو اسلام نے ہر مسلمان کا حق ہی نہیں بلکہ فرض قرار دیا تھا۔ اسلامی معاشرے اور ریاست کے صحیح راستہ پر چلنے کا انحصار اس بات پر تھا کہ لوگوں کے ضمیر اور ان کی زبانیں آزاد ہوں‘ وہ ہر غلط پر بڑے سے بڑے آدمی کو ٹوک سکیں اور حق بات برملاکہ سکیں۔ خلافت راشدہ میں صرف یہی نہیں کہ لوگوں کا یہ حق پوری طرح محفوظ تھا‘ بلکہ خلفائے راشدین سے ان کا فرض سمجھتے اور اس فرض کے ادا کرنے میں ان کی ہمت افزائی کرتے تھے۔ ان کی مجلس شوری کے ممبروں ہی کو نہیں قوم کے ہر شخص کو بولنے اور ٹوکنے اور خود خلیفہ سے باز پرس کرنے کی مکمل آزادی تھی۔ اس کے استعمال پر لوگ ڈانٹ اور دھمکی سے نہیں بلکہ داد اور تعریف سے نوازے جاتے تھے۔ یہ آزادی ان کی طرف سے کوئی عطیہ اور بخشش نہ تھی جس کے لئے وہ قوم پر اپنا احسان جتاتے‘ بلکہ یہ اسلام کا عطا کردہ ایک دستوری حق تھا جس کا احترام کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے اور اسے بھلائی کے لئے استعمال کرنا ہر مسلمان پر خدا اوررسول کا عائدکردہ ایک فریضہ تھا جس کی ادائیگی کے لئے معاشرے اور ریاست کی فضا کو ہر وقت سازگار رکھنا ان کی نگاہ میں فرائض خلافت کا ایک اہم جز تھا۔ لیکن بادشاہی دور کا آغاز ہوتے ہی ضمیروں پر قفل چڑھا دیئے گئے اور منہ بند کردیئے گئے۔ اب قاعدہ یہ ہوگیا کہ زبان کھولو تو تعریف میں کھولو‘ ورنہ چپ رہو اور اگر تمہارا ضمیر ایسا زور آور ہے کہ حق گوئی سے تم باز نہیں رہ سکتے تو قید یا قتل کے لئے تیار ہوجاؤ۔ یہ پالیسی رفتہ رفتہ مسلمانوں کو پست ہمت‘ بزدل اور مصلحت پرست بناتی چلی گئی۔ خطرہ مول لے کر سچی بات کہنے والے ان کے اندر کم سے کم ہوتے چلے گئے۔ خوشامد اور چاپلوسی کی قیمت مارکیٹ میں چڑھتی اور حق پرستی اور راست بازی کی قیمت گرتی چلی گئی۔ اعلی قابلیت رکھنے والے ایماندار اور آزاد خیال لوگ حکومت سے بے تعلق ہوگئے اور عوام کا حال یہ ہوگیا کہ کسی شاہی خاندان کی حکومت برقرار رکھنے کے لئے ان کے دلوں میں کوئی جذبہ باقی نہ رہا۔ ایک کو ہٹانے کے لئے جب دوسرا آیا تو انہوں نے مدافعت میں انگلی تک نہ ہلائی اور گرنے والا جب گرا تو انہوں نے ایک لات اور رسید کرکے اسے زیادہ گہرے گڑھے میں پھینکا۔ حکومتیں جاتی اور آتی رہیں‘ مگر لوگوں نے تماشائی سے بڑھ کر اس آمدورفت کے منظر سے کوئی دلچسپی نہ لی۔
خدا اور خلق خدا کے سامنے جوابدھی
چوتھا اصول جو اس تیسرے اصول کے ساتھ لازمی تعلق رکھتا تھا‘ یہ تھا کہ خلیفہ اور اس کی حکومت خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہے۔ جہاں تک خدا کے سامنے جواب دہی کا تعلق ہے اس کے شدید احساس سے خلفائے راشدین پر دن کا چین اور رات کا آرام حرام ہوگیا اور جہاں تک خلق کے سامنے جواب دہی کا تعلق ہے ”وہ ہر وقت“ ہر جگہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے جواب دہ سمجھتے تھے۔ ان کی حکومت کا یہ اصول نہ تھا کہ صرف مجلس شوری (پارلیمنٹ) میں نوٹس دے کر یہیں ان سے سوال کیا جاسکتا ہے۔ ہر ہر روز پانچ مرتبہ نماز کی جماعت میں اپنے عوام کا سامنا کرتے تھے۔ وہ ہر ہفتے جمعہ کی جماعت میں عوام کے سامنے اپنی کہتے اور ان کی سنتے تھے۔ وہ شب و روز بازاروں میں کسی باڈی گارڈ کے بغیر‘ کسی ہٹوبچو کی آواز کے بغیر عوام کے درمیان چلتے پھرتے تھے۔ ان کے گورنمنٹ ہاؤس (یعنی ان کے کچے مکان) کا دروازہ ہر شخص کے لئے کھلا تھا اور ہر ایک ان سے مل سکتا تھا۔ ان سب مواقع پر ہر شخص ان سے سوال کر سکتا تھا اور جواب طلب کرسکتا تھا۔ یہ محدود جواب دہی نہ تھی بلکہ کھلی اور ہمہ وقتی جواب دہی تھی۔
یہ نمائندوں کے واسطہ سے نہ تھی بلکہ پوری قوم کے سامنے براہ راست تھی۔ وہ عوام کی مرضی سے برسر اقتدار آئے تھے اور عوام کی مرضی انہیں ہٹا کر دوسرا خلیفہ ہر وقت لاسکتی تھی۔ اس لئے نہ تو انہیں عوام کا سامنا کرنے میں کوئی خطرہ تھا کہ وہ اس سے بچنے کی کبھی فکر کرتے۔ لیکن بادشاہی دور کے آتے ہی جواب دہ حکومت کا تصور ختم ہوگیا۔ خدا کے سامنے جواب دہی کا خیال چاہے زبانوں پر رہ گیا ہو‘ مگر عمل میں اس کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں۔ رہی خلق کے سامنے جواب دہی کون مائی کا لال تھاجو ان سے جواب طلب کرسکتا۔ وہ اپنی قوم کے فاتح تھے۔ مفتوحوں کے سامنے کون فاتح جواب دہ ہوتا ہے۔ طاقت سے برسر اقتدار آئے تھے اور ان کا نعرہ یہ تھا کہ جس میں طاقت ہو وہ ہم سے اقتدار چھین لے۔ ایسے لوگ عوام کا سامنا کب کیا کرتے ہیں اور عوام ان کے قریب کہاں بھٹک سکتے ہیں۔ وہ نماز بھی پڑھتے تھے تو نتھو خیرے کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی محفوظ مسجدوں میں‘ یا باہر اپنے نہایت قابل اعتماد محافظوں کے جھرمٹ میں۔ ان کی سواریاں نکلتی تھیں تو آگے اور پیچھے مسلح دستے ہوتے تھے اور راستے صاف کردیئے جاتے تھے۔ عوام کی اور ان کی مڈبھیڑ کسی جگہ ہوتی ہی نہ تھی۔
بیت المال خدا اور مسلمانوں کی امانت
پانچواں اصول اسلامی دستور کا یہ تھا کہ بیت المال خدا کا مال اور مسلمانوں کی امانت ہے‘ جس میں کوئی چیز حق کی راہ کے سوا کسی دوسری راہ میں آنی نہ چاہئے۔ خلیفہ کا حق اس مال میں اتنا ہی ہے جتنا قرآن کی رو سے مال یتیم میں اس کے ولی کا ہوتا ہے کہ۔
من کان غنیا فلیستعفف ومن کان فقیرا فلیا کل بالمعروف)جو اپنے ذاتی ذرائع آمدنی اپنی ضرورت بھر رکھتا ہو وہ اس مال سے تنخواہ لیتے ہوئے شرم کرے اور جو واقعی حاجت مند ہو وہ اتنی تنخواہ لے جسے ہر معقول آدمی مبنی برانصاف مانے)
خلیفہ اس کی ایک ایک پائی کے آمد وخرچ پر حساب دینے کا ذمہ دار ہے اور مسلمانوں کو اس سے حساب مانگنے کاپورا حق ہے۔ خلفائے راشدین نے اس اصول کو بھی کمال درجہ دیانت اور حق شناسی کے ساتھ برت کر دکھایا۔ ان کے خزانے میں جو کچھ بھی آتا تھا ٹھیک ٹھیک اسلامی قانون کے مطابق آتا تھا اور اس میں سے جو کچھ خرچ ہوتا تھا بالکل جائز راستوں میں ہوتا تھا۔ ان میں سے جو غنی تھا اس نے ایک جبہ اپنی ذات کے لئے تنخواہ کے طور پر وصول کئے بغیر مفت خدمت انجام دی‘ بلکہ اپنی گرہ سے قوم کے لئے خرچ کرنے میں بھی دریغ نہ کیا اور جو تنخواہ کے بغیر ہمہ وقتی خدمت گار نہ بن سکتے تھے انہوں نے اپنی ضروریات زندگی کے لئے اتنی کم تنخواہ لی کہ ہر معقول آدمی اسے انصاف سے کم ہی مانے گا زیادہ کہنے کی جرات ان کا دشمن بھی نہیں کر سکتا۔ پھر اس خزانے کی آمدو خرچ کا حساب ہر وقت ہر شخص مانگ سکتا تھا اور وہ ہر وقت ہر شخص کے سامنے حساب دینے کے لئے تیار تھے۔ ان سے ایک عام آدمی بھر ے مجمع میں پوچھ سکتا تھا کہ خزانے میں یمن سے جو چادریں آئی ہیں ان کا طول و عرض تو اتنا نہ تھا کہ جناب کا یہ لمبا کرتا بن سکے‘ یہ زائد کپڑا آپ کہاں سے لائے ہیں؟ مگرجب خلافت بادشاہی میں تبدیل ہوئی تو خزانہ خدا اور مسلمانوں کا نہیں بلکہ بادشاہ کا مال تھا۔ ہر جائز و ناجائز راستے سے اس میں دولت آتی تھی اورہر جائز و ناجائز راستے میں بے غل و غش صرف ہوتی تھی۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کے حساب کا سوال اٹھا سکے۔ سارا ملک ایک خوان یغما تھا جس پر ایک ہر کارے سے لے کر سربراہ مملکت تک‘ حکومت کے سارے کل پرزے حسب تو فیق ہاتھ مار رہے تھے اور ذہنوں سے یہ تصور ہی نکل گیا تھا کہ اقتدار کوئی پروانہ اباحت نہیں ہے جس کی بدولت یہ لوٹ مار ان کے لئے حلال ہو اور پبلک کا مال کوئی شیر مادر نہیں ہے جسے وہ ہضم کرتے رہیں ا ور کسی کے سامنے انہیں اس کا حساب دینا نہ ہو۔
قانون الہی کی حکمرانی
چھٹا اصول اس دستور کا یہ تھا کہ ملک میں قانون (یعنی خدا اور رسول کے قانون) کی حکومت ہونی چاہئے۔ کسی کو قانون سے بالاتر نہ ہونا چاہئے۔ کسی کو قانون کی حدود سے باہر جا کر کام کرنے کا حق نہ ہونا چاہئے۔ ایک عامی سے لے کر سربراہ مملکت تک سب کے لئے ایک ہی قانون ہونا چاہئے اور سب پر اسے بے لاگ طریقے سے نافذ ہونا چاہئے۔ انصاف کے معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ ہونا چاہئے اور عدالتوں کو انصاف کرنے کے لئے ہر دباؤ سے بالکل آزاد ہونا چاہئے۔ خلفائے راشدین نے اس اصول کی پیروی کا بھی بہترین نمونہ یپش کیا تھا۔ بادشاہوں سے بڑھ کر اقتدار رکھنے کے باوجود وہ قانون الہی کی بندشوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ نہ ان کی دوستی اور رشتہ داری قانون کی حد سے نکل کر کسی کو کچھ نفع پہنچا سکتی تھی اورنہ ان کی ناراضی کسی کو قانون کے خلاف کوئی نقصان پہنچا سکتی تھی۔ کوئی ان کے اپنے حق پر دست درازی کرتا تو وہ ایک عام آدمی کی طرح عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے اور کسی کو ان کے خلاف شکایت ہوتی تو وہ استغاثہ کرکے انہیں عدالت میں کھینچ لاسکتا تھا۔ اسی طرح انہوں نے اپنی حکومت کے گورنروں اور سپہ سالاروں کو بھی قانون کی گرفت میں کس رکھا تھا۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ عدالت کے کام میں کسی قاضی پر اثر انداز ہونے کا خیال بھی کرتا۔ کسی کا یہ مرتبہ نہ تھا کہ قانون کی حد سے قدم باہر نکال کر مواخذہ سے بچ جاتا۔ لیکن خلافت سے بادشاہی کی طرف انتقال واقع ہوتے ہی اس قاعدے کے بھی چیتھڑے اڑگئے۔ اب بادشاہ اور شاہزادے اور امراء اورحکام اور سپہ سالار ہی نہیں‘ شاہی محلات کے منہ چڑھے لونڈی غلام تک قانون سے بالاتر ہوگئے۔ لوگوں کی گردنیں اور پیٹھیں اور مال اور آبروئیں‘ سب ان کے لئے مباح ہوگئیں۔ انصاف کے دو معیار بن گئے۔ ایک کمزور کے لئے اور دوسرے طاقت ور کے لئے۔ مقدمات میں عدالتوں پر دباؤ ڈالے جانے لگے اور بے لاگ انصاف کرنے والے قاضیوں کی شامت آنے لگی۔ حتی کہ خدا ترس فقہاء نے عدالت کی کرسی پر بیٹھنے کے بجائے کوڑے کھانا اور قید ہو جانا زیادہ قابل ترجیح سمجھا تاکہ وہ ظلم وجور کے آلہ کار بن کر خدا کے عذاب کے مستحق نہ بنیں۔
کامل مساوات:
مسلمانوں میں حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات‘ اسلامی دستور کا ساتواں اصول تھا‘ جسے ابتدائی اسلامی ریاست میں پوری قوت کے ساتھ قائم کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے درمیان نسل‘ وطن ‘ زبان وغیرہ کا کوئی امتیاز نہ تھا۔ قبیلے اور خاندان اور حسب و نسب کے لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ تھی۔ خدا اور رسول کے ماننے والے سب لوگوں کے حقوق یکساں تھے اور سب کی حیثیت برابر تھی۔ ایک کو دوسرے پر ترجیح اگر تھی تو سیرت و اخلاق اور اہلیت و صلاحیت اور خدمات کے لحاظ سے تھی۔ لیکن خلافت کی جگہ جب بادشاہی نظام آیا تو عصبیت کے شیاطین ہر گوشے سے سر اٹھانے لگے۔ شاہی خاندان اور ان کے حامی خانوادوں کا مرتبہ سب سے بلند و برتر ہوگیا۔ ان کے قبیلوں کو دوسرے قبیلوں پر ترجیحی حقوق حاصل ہوگئے۔ عربی اور عجمی کے تعصبات جاگ اٹھے۔ خود عربوں میں قبیلے اور قبیلے کے درمیان کشمکش پیدا ہوگئی۔ ملت اسلامیہ کو اس چیز نے جو نقصان پہنچایا اس پر تاریخ کے اوراق گواہ ہیں۔
خلاصہ کلام یہ تھے وہ تغیرات جو اسلامی خلافت کو خاندانی بادشاہت میں تبدیل کرنے سے رونما ہوئے۔ کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ یزید کی ولی عہدی ان تغیرات کا نقطہء آغاز تھی اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس نقطے سے چل کر تھوڑی مدت کے اندر ہی بادشاہی نظام میں وہ سب خرابیاں نمایاں ہوگئیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ انقلابی قدم اٹھایا گیا تھا اس وقت یہ خرابیاں اگرچہ بہ تمام و کمال سامنے نہ آئی تھیں‘ مگر ہر صاحب بصیرت آدمی جان سکتا تھا کہ اس اقدام کے لازمی نتائج یہی کچھ ہیں اور اس سے ان اصلاحات پر پانی پھر جانے والا ہے جو اسلام نے سیاست و ریاست کے نظام میں کی ہیں۔ اسی لئے امام حسین (ع) اس پر صبر نہ کر سکے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو بدتر سے بدتر نتائج بھی انہیں ایک مضبوط جمی جمائی حکومت کے خلاف اٹھنے میں بھگتنے پڑیں‘ ان کا خطرہ مول لے کر بھی انہیں اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کوشش کا جو انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے‘ مگر امام نے اس عظیم خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو انگیز کرکے جو بات ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں جسے بچانے کے لئے ایک مومن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے‘ اور ان خصوصیات کے مقابلے میں وہ دوسرے تغیرات جنہیں اوپر نمبر وار گنایاگیا ہے‘ دین اور ملت کے لئے وہ آفت عظمی ہیں جسے روکنے کے لئے ایک مومن کو اگر اپنا سب کچھ قربان کردینا پڑے تو اس میں دریغ نہ کرنا چاہئے۔ کسی کا جی چاہے تو اسے حقارت کے ساتھ ایک سیاسی کام کہہ لے۔ مگر حسین (ع) ابن علی(ع) کی نگاہ میں تو یہ سراسر ایک دینی کام تھا‘ اسی لئے انہوں نے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھ کر جان دی۔