کربلا میں پیاس
محقق : حجت الاسلام والمسلمین حسین الادری
مترجم : سید حسین حیدر زیدی
مقدمہ
زمانہ جاہلیت میں جنگ کے دوران پانی بند کرنے کی دیرینہ رسم
کربلا میں پیاس
کربلا میں پیاس پر دلائل
کربلا میں پیاس کو دور کرنے کی کوشش
مقدمہ جس قدر بھی قیام عاشورا کی عمر بڑھتی جارہی ہے اسی قدر اس کی عظمت و ہیبت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس قیام کے شہداء کی یاد لوں میں تازہ ہوتی جارہی ہے ۔ یہ قیام آزاد منش لوگوں کے لئے نمونہ عمل بن گیا ہے کہ وہ الہی اقدار کو زندہ کرنے کی راہ میں اپنی جان دینے سے دریغ نہیں کرتے اور وہ ظالموں و جابر طاقتوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہوتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس دنیا کے اندھے ظالم (اپنے زعم میں) اس قیام کی جڑوں کو اکھاڑنا چاہتے ہیں اور ہر سال نئے نئے شبہات پیش کرکے اس کو ضعیف کرنا چاہتے ہیں ۔ دشمن ہر سال کتاب، مقالہ، ڈش ٹی وی اور انٹرنٹ کے ذریعہ امام حسین (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب کے قیام کے متعلق شبہات ایجاد کرتے ہیں اور روز بروز اعتراضات کرتے ہیں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ہر سال امام حسین (علیہ السلام) کی عزاداری بہت ہی زور و شور اور قوی عزم و ارادہ کے ساتھ منائی جاتی ہے ۔ ہم نے اس مقالہ میں ''کربلا میں پیاس کے مسئلہ '' کے متعلق جو شبہات بیان کئے جاتے ہیں ان کی تحقیق اور تنقید کرنے کی کوشش کی ہے ۔
زمانہ جاہلیت کی ایک رسم جنگوں میں پانی بند کرنا
بعض علماء کربلا میں پانی بند کرنے کے مسئلہ کو (جو کہ دشمن کی انتہائی خباثت کو بیان کرتا ہے ) بعید سمجھتے ہیں ۔ ہم سب سے پہلے (صدر اسلام میں) پانی بند ہونے کے مصادیق کو بیان کریں گے اور اس کے بعد کربلا میں پیاس کے متعلق شبہات کی تحقیق کریںگے ۔ جنگوں میں پانی بند کرنا جاہلیت کی دیرینہ رسم ہے اور وہ اس کو ایک فوجی حربہ کے طور پر دشمن کو شکست دینے کے لئے استعمال کرتے تھے ، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جنگ بدر میں جب مشرکین ، اسلام کی فوج سے پہلے بدر کے علاقہ میں پہنچ گئے تو انہوں نے بدر کے کنوئوں پر قبضہ کرلیا اور مسلمانوں کے اوپر پانی بند کردیا تاکہ مسلمان سختی میں پڑ کر اپنی شکست کو قبول کرلیں (١) ۔
جنگ خیبر میں بھی ایک یہودی نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس آکر کہا : اگر قلعہ میں جانے والے پانی کو بند کردیا جائے تو وہ اپنی شکست قبول کرلیں گے ۔ لیکن آنحضرت (ص) نے دشمن پر پانی بند کرنے سے منع کردیا (٢) ۔ یہودی شخص کا پانی کو بند کرنے کی پیشنہاد دینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس زمانہ میں جنگ کے دروان پانی بند کرنا رائج تھا ،لیکن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے قبول نہیں کیا ۔
دین اسلام کی وسعت کے ساتھ ساتھ عرب کے نئے مسلمان جاہلیت کی تہذیب اور آداب و رسوم سے دور ہوگئے اور اسلام کی تہذیب سے آشنا ہوگئے ۔ اسلامی تعلیمات میں دشمن کے ساتھ بھی غلط باتوں اور خیانت کی مذمت کی جاتی تھی اور کسی کو اجازت نہیں تھی کہ وہ دشمن کے ساتھ ہر حربہ استعمال کرے ۔
نبی اکرم (ص) کی رحلت اور آپ کی جانشینی کے مسئلہ میں انحراف پیدا ہونے کی وجہ سے اسلامی تہذیب میں شگاف پیدا ہوگیا جس کی وجہ سے منسوخ شدہ جاہلی تہذیب اسلام میں داخل ہونے لگی ، یہاں تک کہ وہ فساد خلافت کے غاصبوں کے دامن پر بھی لگ گیا ۔
جس وقت خلیفہ سوم عثمان بن عفان کی بے عدالتی اور ظلم مسلمانوں کو بیداد کررہا تھا اور ان کے مخالفین نے ان کے گھر کا محاصرہ کرلیا تھا اس وقت مخالفین کے سرکردہ طلحہ وغیرہ نے عثمان پر پانی بند کردیا (٣) اور عثمان پر اتنے دنوں تک پانی بند رہا کہ عثمان نے حجاج (٤، خالد بن عاص (٥) ، امیرالمومنین علی (٦) اور پیغمبر اکرم (ص) کی ازواج (٧) سے مدد کی درخواست کی ۔ اس وقت صرف امیرالمومنین علی (علیہ السلام) اور ام حبیبہ نے عثمان تک پانی پہنچانے کی کوشش کی (٨) ۔
تواریخ میں نقل ہوا ہے کہ امام علی (علیہ السلام) نے محاصرہ کرنے والوں خصوصا طلحہ کی مذمت کی اور آخر کار امام علی اور امام حسن (علیہما السلام) کی کوشش سے پانی پر پابندی کو ختم کیا گیا ۔
سید مرتضی نے روایت کی ہے کہ امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے فرمایا : یہ بات صحیح نہیں ہے کہ عثمان کے جرم میں اس کے اہل خانہ پیاس کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں (٩) ۔ قاضی ابوحنیفہ (١٠) اور ابن کثیر (١١) نے بیان کیا ہے کہ صرف امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے عثمان کے گھر پانی پہنچایا ۔ ابن ابی الحدید نے بھی امام علی (علیہ السلام) کی کوشش کو اس طرح بیان کیا ہے : ” وَ اللهِ لَقَدْ نَصَرَ عُثمانَ لَوْ كانَ الَمحْصُورُ جَعفَرَ بْنِ أبِى طالِب لَمْ يَبْذَلْ لَه إلاّ مِثْلَه” ۔ خدا کی قسم انہوں نے عثمان کی اس قدر مدد کی کہ اگر جعفر بن ابی طالب کا محاصرہ کیا گیا ہوتا تو اس وقت بھی آپ اسی طرح مدد کرتے (١٢) ۔
یہ بات بھی ثابت ہے کہ امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے صرف عثمان کی وجہ سے اس کی حمایت نہیں کی بلکہ سید مرتضی کی روایت کے مطابق آپ نے عثمان کے اہل خانہ سے ظلم کو دور کرنے کے لئے یہ کام انجام دیا ،اس کے علاوہ (پانی بند کرنے والوں کی توبیخ اور مذمت میں آپ کے کلام کو مدنظر رکھتے ہوئے) آپ نے خود اس عمل کی مذمت کی ہے اور اس کی تائید نہیں کی ہے کیونکہ یہ واضح طور پر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سیرت کے خلاف تھا ۔
جنگ صفین کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد اس نظریہ کی بخوبی تحقیق کی جاسکتی ہے ۔ صفین میں دشمن کنوئوںپر قبضہ کرلیتا ہے اور امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی فوج پر پانی بند کردیتا ہے ، لیکن جب جنگ کا ورق پلٹتا ہے اور امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی فوج کنوئوں پر مسلط ہوجاتی ہے تو آپ معاویہ کے فوج کے برخلاف ان پر پانی کو بند نہیں کرتے ۔
جی ہاں ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی سیرت اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے اورجو لوگ اسلام کی تعلیمات کا دم بھرتے ہیں لیکن اس کی خوشبو ان کے مشام تک بھی نہیں پہنچی ہے وہ لوگ جاہلیت کی منسوخ شدہ تہذیب ، خیبر اور بدر میں ہلاک ہونے والوں کے طریقہ پر عمل کرتے ہیں ۔
امام حسین (علیہ السلام) نے بھی کربلا کے راستہ میں جب حر بن ریاحی کے پیاسے لشکر سے ملاقات کی تو اپنے جدامجد اور والد محترم کے طریقہ پر ان سب کو سیراب کیا ، یہاں تک کہ ان کے گھوڑوں کو بھی پانی سے سیراب کیا ۔ تاریخ طبری نے امام علی (علیہ السلام) کی تہذیب کو اس طرح نقل کیا ہے : ”… فقام فتیه و سقوا القوم من الماء حتی أرووهم، و اقبلوا یملأون القصاع و الأتوار و الطساس من الماء و یدنونها من الفرس …:” جوانوں کا ایک گروہ کھڑا ہوگیا اور انہوں نے ان سب کو سیراب کیا ، ان کے پیالوں اور برتنوں کو پانی سے بھر دیا اور ان کے گھوڑوں کو بھی سیراب کیا (١٣) ۔
کربلا میں پیاس
اگر چہ کربلا میں پیاس ثابت اور مسلم ہے اور شہید مطہری نے بھی اپنی کتاب حماسہ حسینی میں امام حسین (علیہ السلام) ا ور ان کے اصحاب پر پیاس کے مسئلہ کو تاریخ کے مسلمات میں سے بیان کیا ہے لیکن دشمن اور شبہات ایجاد کرنے والے کوشش کرتے ہیں کہ اس میں شک و شبہ ایجاد کریں اور حقائق سے آگاہ ہونے والوں کو شک و شبہ میں ڈال دیں۔ اگر چہ کربلا میں پیاس کے متعلق بیان شدہ شبہات کا جواب نقد کے قابل ہے لیکن تاریخی قرائن اور بہت سے دلائل ایسے ہیں جو حقیقت کو بیان کرتے ہیں اور وہ حقیقت یہ ہے کہ کربلا میں شدید پیاس تھی اور پانی بند کردیا گیا تھا ۔
کربلا میں پیاس پر قرائن و دلائل
چند نکتوں کی تحقیق کرنے کے بعد حقیقت واضح ہوجاتی ہے :
١۔ دشمن کے لشکر سے مکاتبات اور خطوط کا مطالعہ
٢۔ دونوں لشکروں کی گفتگو اور محاورات
٣۔ شہدائے کربلا کے حالات اور وہ چیزیں جو مورخین نے ان کے متعلق بیان کی ہیں ۔
٤۔ اہل بیت (ع) اور ان کی پیروی کرنے والوں کی عزاداری کی تہذیب ۔
دشمن کے لشکر سے مکاتبات اور خط و کتابت
دشمن کے لشکر کے ساتھ جو خط و کتابت ہوئی ہے اس میں پیاس اور پانی بند کرنے کا مسئلہ بیان ہوا ہے ،انہی خطوط میں سے حر بن یزید ریاحی کے نام ابن زیاد کے خط کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے ۔ اس خط میں بیان ہوا ہے کہ ابن زیاد نے حر کو حکم دیا ہے کہ وہ حسینی قافلہ کو ایسی جگہ پر لے جائے جہاں پر پانی وغیرہ نہ ہو تاکہ ان پر پانی اور کھانے کی پریشانی طاری ہوجائے ۔
امام حسین (علیہ السلام) نے اس سے اجازت مانگی کہ ہمارے قافلہ کو غاضریہ (کربلا کے شمال مشرق میں جہاں پر پانی اور آبادی تھی) یا نینوا پر اترنے دے (١٤) لیکن حر نے ابن زیاد کے حکم کے مطابق آپ کو اجازت نہیں دی ۔ اس خط کا مضمون یہ ہے : ” امّا بعد فجعجع بحسین، حیث یبلغک کتابی، و یقدم علیک رسولی، و لا تنزله الّا فی العراء فی غیر حصین و علی غیر ماء ” (حسین پر محاصرہ کو تنگ کردو ، جس وقت میرا خط اور میرا فرستادہ تمہارے پاس پہنچے اس وقت تم حسین کو ایسے بیابان میں ٹہرائو جہاں پر پانی وغیرہ نہ ہو (١٥) ۔
اس کے علاوہ عمر بن سعد کے نام ابن زیاد کے خط کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے جس میں ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حکم دیا تھا کہ امام حسین اور ان کے اصحاب پر پانی بند کردے ۔ طبری نے نقل کیا ہے : عمر ابن سعد نے ابن زیاد کا پیغام پہنچتے ہی عمرو بن حجاج کو پانچ سو افراد کے ساتھ دریا کے کنارہ پر کھڑا کردیا اور انہوں نے تین دن تک ا مام حسین کے خیموں میں پانی نہیں جانے دیا ، یہاں تک کہ امام حسین اور ان کے اصحاب شہید ہوگئے ۔ ” بعث عمر بن سعد عمرو بن الحجاج علی خمس مائة فارس فنزلوا علی الشریعه و حالوا بینه و بین الماء ثلاثة ایام الی ان قتل ” (١٦)۔
عمر سعد کی طرف سے عمروبن حجاج کا دریا کے کنارہ پر کھڑے ہونا خود کربلا میں پیاس پر گواہ ہے ۔
ابن شہر آشوب کے نقل کرنے کے مطابق امام حسین (علیہ السلام) نے خیمہ کے نزدیک ایک کنواں کھودا لیکن دشمن کو اس کی خبر ہوگئی اور انہوں نے یہ خبر ابن زیاد تک پہنچا دی ، ابن زیاد نے عمر سعد کو لکھا : ” فقد بلغنی ان الحسین یشرب الماء هو و اولاده و قد حفروا الآبار و نصبوا الاعلام فانظر اذا ورد علیک کتابی هذا فامنعهم من حفر الآبار ما استطعت و ضیق علیهم و لا تدعهم یشربوا من ماء الفرات قطرة واحدة ” ۔ مجھے خبر ملی ہے کہ حسین نے کنواں کھودا ہے اور پانی تلاش کرلیا ہے ، جیسے ہی یہ خط تیرے پاس پہنچے ان کو کنواں کھودنے سے منع کراوران پر سختی کر ،یہاں تک کہ فرات سے پانی کا ایک خطرہ بھی ان کے پاس نہ جانے دے (١٧) ۔
دونوں لشکروں کے درمیان گفتگو
دشمن کے لشکر میں جو کچھ ہو رہا تھا اس کے علاوہ دونوں لشکرکی گفتگو کو غورو فکر سے سننے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ کربلا کے تمام مسائل میں سب سے اہم مسئلہ پانی اور پیاس کا تھا ۔
امام حسین (علیہ السلام)کی فوج نے اتمام حجت کے لئے دشمن کی فوج سے پانی حاصل کرنے کے لئے گفتگو کی ہے ، اگر چہ بعض بزرگ علمانے اس کو تحریف کا ایک جزء شمار کیا ہے ۔ دشمن کی طرف سے بھی بہت زیادہ ایسی باتیں ہوئی ہیں جس سے سامنے کی فوج پر نفسیاتی اثر پڑے اور وہ امام حسین (علیہ السلام) کو قبول کرنے پر مجبور کردیں، اسی وجہ سے عمر سعد نے پانی پر عمروبن حجاج زبیدی (١٨) کو مقرر کرنے کے علاوہ ایک اور شخص کو مامور کیا کہ وہ پانی نہ دینے کی فریاد کرے (١٩) ۔ اس کے علاوہ عبداللہ بن ابی حصین الازدی اورتمیم بن حصین یا شمر کی زبان کے زخموں کی طرف بھی اشارہ کیا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں نے کس طرح امام حسین (علیہ السلام) کو اپنی زبان سے پانی نہ دینے کی باتیں کرکے اذیت پہنچائی ہے ۔
عبداللہ بن ابی حصین الازدی کے متعلق نقل ہوا ہے کہ اس نے امام حسین (علیہ السلام) کو مخاطب کرکے کہا : اے حسین ! کیا تم اس پانی کو دیکھ رہے ہو جو آسمان کی طرح صاف و شفاف ہے ، تمہیں اس میں سے ایک خطرہ بھی پانی کا نہیں دیا جائے گا ، یہاں تک کہ تم پیاس سے مر جائو (٢٠) ۔ امام حسین (علیہ السلام) نے کہا : خدایا ! اس کو پیاس سے قتل کردے اور اس کو کبھی معاف نہ کرنا ۔ حمید بن مسلم سے نقل ہوا ہے کہ خدا کی قسم جب وہ بیمار تھا تو میں اس کی عیادت کے لئے گیا ، میں نے دیکھا کہ وہ پیاس کی وجہ سے اس قدر پانی پیتا تھا کہ اس کا پیٹ بھر جاتا تھا اورپھر وہ قے کے ذریعہ پانی پیٹ سے نکالتا تھا اور پھر دوبارہ پانی پیتا تھا اور پھر قے کرتا تھا لیکن اس کی پیاس نہیں بجھتی تھی اور اسی طرح وہ مرگیا (٢١) ۔
علامہ مجلسی نے تمیم بن حصین خزاری کے مضحکہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس نے امام حسین (علیہ السلام) کو مخاطب کرکے کہا : اے حسین اور اے اصحاب حسین ! کیا تم فرات کے پانی کو دیکھ رہے ہو کہ وہ کس طرح سانپ کے شکم کی طرح چمک رہا ہے ، خدا کی قسم تم اس کا ایک قطرہ بھی نہیں پی سکو گے اور اسی طرح مرجائو گے ! (٢٢) ۔ علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ امام حسین نے اس کے لئے بد دعا کی (٢٣) ۔ یہ تمام باتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ دشمن نے پانی بند کرنے کو ایک جنگی حربہ کے عنوان سے استعمال کیا ہے ۔
امام حسین (علیہ السلام) کے بعض اصحاب نے بھی پانی بند ہونے کے متعلق کہا ہے : حر (٢٤) اور بریر بن حضیر ہمدانی سے نقل ہوا ہے کہ اس نے اباعبداللہ الحسین (علیہ السلام) کی حمایت میں دشن کے لشکر کو خطاب کرکے کہا : تم نے امام حسین (علیہ السلام) ،ان کی عورتوں ،بچوں اور اصحاب کو فرات کا پانی پینے سے منع کیا ہے جبکہ اسی فرات سے یہودی، نصرانی اور مجوسی پانی پی رہے ہیں اور دیہاتوں کے سور اور کتے اس میں نہا رہے ہیں (٢٥) ۔
یزید بن الحصین نے جو کہ مام حسین (علیہ السلام) کے صحابی ہیں ، عمر بن سعد کی فوج سے کہا : یہ فرات کا پانی ہے ،کتے اور سور اس سے پانی پی رہے ہیں اور تم انسانوں کو پانی پینے سے منع کررہے ہو تاکہ فرزند پیغمبر اس پانی کو نہ پی سکے ، کیایہی انسانیت ہے ؟ انہوں نے کہا ، خدا کی قسم ، حسین کو پیاسے ہی مرجانا چاہئے (٢٦) ۔
اپنی بات کی تائید میں نافع بن ہلال اور عمروبن حجاج کی گفتگو کو پیش کیا جاسکتا ہے ۔ جس وقت خیموں میں پانی کمیاب ہوگیا ،امام حسین (علیہ السلام) نے حضرت عباس کو نافع اور دوسرے لوگوں کے ساتھ پانی حاصل کرنے کے لئے روانہ کیا ۔ جس وقت نہر کے نزدیک پہنچے ، عمر بن حجاج نے پوچھا ، کون ہو ؟ ہلال بن نافع نے جو کہ سب سے آگے تھے ، کہا : میں ہلال بن نافع ہوں۔ عمرو نے کہا : تم پانی پی سکتے ہو لیکن ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ حسین تک پانی نہ پہنچے ۔ ہلال نے کہا : تجھ پر خدا کی لعنت ہو ! حسین اور ان کے اصحاب پیاسے رہیں اور میں پانی پی لوں یہ کیسے ہوسکتا ہے (٢٧) ۔اس کے بعد جنگ شروع ہوگئی ۔
اہل بیت (علیہم السلام) کی سیرت
دوسری دلیل جس سے کربلا میں پیاس کے مسئلہ پر انسان اور زیادہ یقین ہوجاتا ہے وہ گفتگو اور ا قوال ہیں جو اہل بیت (علیہم السلام) نے کربلا کے حادثہ میں بیان کئے ہیں ،اس مسئلہ کو صرف اہل بیت (ع) ہی نے اپنے اقوال میں بیان نہیں کئے بلکہ جبرئیل نے بھی بعض انبیاء کو کربلا کا واقعہ سناتے ہوئے بیان کیا ہے ۔ نقل ہوا ہے کہ جبرئیل نے حضرت آدم کے ترک اولی اور ان کی توبہ کے بعد پیاس کے مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے ،انہوں نے حضرت آدم سے فرمایا : ”یُقتَل عَطْشَاناً غَریباً وَحیداً فَریداً ، لَیسَ لَهُ نَاصِرٌ وَ لَا مُعینٌ وَ لَوْ تَرَاهُ یا آدَمُ وَ هُوَ یَقُولُ وَا عَطَشَاهْ وَا قِلَّةَ ناصِراه حَتّی یَحُول الْعَطَشُ بَینَهُ وَ بَینَ السَّمَاءِ كَالدُّخان فَلَمْ یُجِِبهُ أحَدٌ الَّا بالسُّیوفِ وَ شُربِ الْحُتُوف” ۔
ان کو اس حالت میں قتل کیا جائے گا کہ وہ پیاسے ہوں گے اور کوئی ان کا یار ومددگار نہ ہوگا ، اے آدم اگر تم ان کودیکھوگے تو وہ یہ کہہ رہے ہوں گے (و اعطشاہ و اقلہ ناصراہ) کبھی کبھی ان کے آنکھوں کے سامنے ایسا اندھیرا چھا جائے گا کہ وہ آسمان کی طرف بھی نہیں دیکھ سکیں گے اور کوئی ان کی بات کا جواب نہیں دے گا مگر تلوار اورموت کی زبان میں جواب دے گا ۔
ایک دوسری جگہ پر جبرئیل نے کربلا کا حادثہ ، پیغمبر اکرم (ص) سے بھی نقل کیا اور وہاں پھی پیاس کے مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
رسول اکرم (ص) کے بیان میں پیاس
سب سے پہلے پیغمبر اکرم (ص) نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے ،جس کو امام حسین (علیہ السلام) نے شب عاشورا بیان کیا ہے ۔ کتاب ”الدمعة الساکبة” نے کتاب ”نور العین” سے نقل کیا ہے کہ حضرت سکینہ نے فرمایا : ایک رات میں نے دیکھا کہ میرے والد ایک محفل میں اپنے اصحاب کے درمیان بیٹھے ہوئے فرما رہے ہیں : ” قَدْ قالَ جَدِّي رَسُولُ اللّهِ(ص): وَلَدي حُسَيْنٌ يُقْتَلُ بِطَفِّ كَرْبَلاَءَ غَريباً وَحيداً عَطْشاناً فَريداً ” میرا بیٹا حسین کربلا میں غریب و تنہا اور بھوکا پیاسا شہید کیا جائے گا ،گویا کہ رسول اسلام(ص) علم غیب کے ذریعہ اس مسئلہ سے واقف تھے اور انہوں نے یہ بات امام حسین (علیہ السلام) سے بتائی تھی ۔
پیغمبر اکرم (ص) سے روایت ہوئی ہے کہ آنحضرت (ص) نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ (علیہا السلام) سے فرمایا : ”أَتَانِي جَبْرَئِيلُ فَبَشَّرَنِي بِفَرَحَينِ يَكُونَانِ لَكَ ثُمَّ عَزِيَّتُ بِأَحَدِهِمَا وَ عَرَفَتُ اَنَّهُ يُقْتَلُ غَرِيباً عَطْشَاناً ، فَبَكَتْ فَاطِمَةُ حَتّي عَلَا بُكاؤُها ، ثُمَّ قَالَتْ : يَا اَبَه لِمَ يَقْتُلُوهُ وَ أَنْتَ جَدُّه وَ أَبُوهُ عَليٌّ وَ أَنَا أُمُّهُ ؟ ! قَالَ(ص) : يَا بُنَيَّةُ لِطَلَبِهِم الْمُلكَ أَمَّا إِنَّهُ سَيَظْهَرُ عَلَيْهِمْ سَيْفٌ لَا يَغمِدُ الَّا عَلی يَدِ الْمَهْدِي مِنْ وُلدِكَ” ۔
میرے پاس جبرئیل آئے تھے اور انہوں نے مجھے میرے دو بیٹوں کی بشارت دی ہے جو تمہارے بطن سے ہوں گے، پھر انہوں نے مجھے ان دونوں میں سے ایک کی تعزیت پیش کی اور مجھے بتایا کہ اس کو پیاسا اور غریب شہید کیا جائے گا ۔ اس وقت حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) نے اس طرح گریہ کیا کہ آپ کی آواز بلند ہوگئی ، پھر فرمایا : ائے بابا ، اس کو کیوں قتل کیا جائے گا جب کہ آپ ان کے نانا اور علی مرتضی ان کے والد اور میں ان کی والدہ ہوں ؟ ! پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : حکومت کی وجہ سے ، لیکن بہت جلد ان کے لئے تلوار غلاف سے باہر آئے گی جو کبھی غلاف میں نہیں رکھی جائے گی مگر جب تمہارا بیٹا مہدی ظہور کریگا (٨) ۔
ابن عباس سے بھی نقل ہوا ہے کہ مدینہ میں پانی کی کمی ہوگئی ،یہاں تک کہ لوگوں کو پیاس کا سامنا کرنا پڑ گیا اسی وجہ سے حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) امام حسن اورامام حسین (علیہماالسلام) کو پیغمبر اکرم (ص) کے پاس لائیں اور فرمایا : والد گرامی ، حسن اور حسین (علیہما السلام) کو پیاس برداشت نہیں ہے ، پیغمبر اکرم (ص) نے ان کے دہان میں اپنی ز بان رکھ کر ان کی پیاس کو ختم کردیا ۔ پھر پیغمبر اکرم (ص) نے ان کو اپنے زانو پر بٹھایا … اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا : ” إِنَّ هذا وَلَدَكَ الْحَسَن يَمُوتُ مَسْمُوماً مَظْلُوماً ، وَ هَذَا وَلَدُكَ الْحُسَيْنُ يَمُوتُ عَطْشَاناً مَذْبُوحاً ” ۔
تمہارا یہ بیٹا حسن مسموم اور مظلوم اس دنیا سے جائے گا اور یہ بیٹا حسین (ع) ایسی حالت میں دنیا کو وداع کہے گا کہ ان کوبھوکا اور پیاسا ذبح کیا جائے گا (٢٩) ۔
امام علی (ع) کے کلام میں کربلا کی پیاس
کہا گیا ہے کہ جنگ صفین میں جب ابوایوب اعور سلمی نے امام علی (علیہ السلام) کی فوج پر پانی بند کردیا اور لوگوں نے العطش العطش کی صدائیں بلند کیں تو امام علیہ السلام نے کچھ گھڑ سواروں کو پانی لانے کے لئے بھیجا ، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے ، یہاں تک کہ امام حسین (علیہ السلام) اپنے والد گرامی کی اجازت سے پانی لینے کے لئے گئے ، جس وقت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کو خبر ملی کہ امام حسین (ع) پانی لانے میں کامیاب ہوگئے تو آپ نے گریہ فرمایا ۔ جب آپ سے رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا ط ” ذَكَرتُ أَنَّهُ سَيُقْتَلُ عَطْشَاناً بِطَفِّ كَربَلا، حَتَّى يَنْفَرَّ فَرَسُهُ وَ يُحَمحِم ” ۔ مجھے یاد آگیا کہ یہی میرا بیٹا حسین (ع) کربلا کی زمین پر پیاسا شہید کیا جائے گا اور اس وقت اس کا گھوڑا ہنہنا رہا ہوگا اور آوازیں نکال رہا ہوگا (٣٠) ۔
امام حسین (ع) کی زبانی پیاس
ابوحمزہ ثمالی نے امام زین العابدین (ع) سے ایک روایت میں امام حسین (ع) کے اصحاب اور خاندان کی وفاداری کو بیان کیا ہے ، جس وقت امام حسین (ع) نے شب عاشور اپنے تمام اصحاب کو ان کی شہادت کی خبر دی تو قاسم نے شیرخوار بچہ عبداللہ کی شہادت کے بارے میں سوال کیا،امام علیہ السلام نے فرمایا : ” فِداكَ عَمُّكَ يُقْتَلُ عَبْدُاللّهِ اِذْ جَفَّتْ رُوحي عَطَشاً وَ صِرْتُ اِلى خِيَمِنا فَطَلَبْتُ ماءً وَ لَبَنَاً فَلا أَجِدُ قَطُّ ” ۔ تمہارے چچا تم پر قربان ہوجائے ! عبداللہ کو اس وقت قتل کیا جائے گا جب میں پیاس سے بیتاب ہوں گا اور خیموں میں پانی یا دودھ کو تلاش کروں گا لیکن کوئی چیز نہیں ملے گی (٣١) ۔ روز عاشورا جس وقت علی اصغر (ع) کو اپنے ہاتھوں پر لئے تھے ، فرمایا : ” يا قومُ، قَتَلْتُم شِيعَتي و أهلَ بَيْتِي و قَد بَقِيَ هَذا الطِفلُ يَتَلَظَّى عَطَشاً فاسقُوه شَربةً مِنَ المَاء ” ۔
اے قوم ! تم نے میرے شیعہ اور اہل بیت کو قتل کردیا اور فقط یہ بچہ باقی بچا ہے جو پیاس سے بیتاب ہے ، اس کو ایک گھونٹ پانی سے سیراب کردو (٣٢) ۔
امام سجاد کے کلام میں پیاس
امام سجاد علیہ السلام نے جو کہ خود کربلا کے ہولناک واقعہ کو دیکھ رہے تھے ، متعدد جگہ پر پیاس کی طرف اشارہ کیا ہے ،واقعہ کربلا کے بعد شہدائے کربلا کے لاشوں کو دفن کرنے کے متعلق نقل ہوا ہے کہ جس وقت امام سجاد (علیہ السلام) نے امام حسین (علیہ السلام) کے جسم اطہر کو دفن کیا تو اپنی انگلی سے قبر کے اوپر اس طرح لکھا : ” هذا قَبْرُ الحُسَيْنِ بنِ عَلِيِّ بنِ أبي طالِب اَلَّذِي قَتَلُوهُ عَطْشاناً غَريباً ” ۔
یہ حسین بن علی (ع) کی قبر ہے جن کو تشنہ لب اور غربت میں قتل کیا گیا ہے (٣٣) ۔
اسی طرح جب اہل بیت کے واپس آنے (اسیری) کی خبر محمد حنفیہ کو ملی تو آپ قافلہ کے استقبال کے لئے آئے ، جس وقت محمد حنفیہ نے امام سجاد (ع) سے امام حسین علیہ السلام کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا : ” یا عَمّاهُ! قَتَلُوهُ عَطشاناً و کُلُّ الحَیواناتِ رَیّانٌ ” ۔
چچا جان ! میرے بابا کو تشنہ لب قتل کردیا جب کہ وہ تمام حیوانات کو سیراب کررہے تھے (٣٤) ۔
امام محمد باقر کے کلام میں پیاس
راوی نے امام محمد باقر (علیہ السلام) کے ایک قول میں پیاس کے مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے : ” عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر(ع) قال: إنَّ الْحسينَ صاحِبَ كَرْبَلاءَ قُتِلَ مَظْلوما مَكْروبا عَطْشانا لَهْفانا وَحَقٌّ عَلى اللّه ـ عَزّوجلَّ ـ أَنْ لايَأتِيَه لَهْفانٌ وَلا مَكْروبٌ ولا مُذْنبٌ وَلا مَغْمومٌ وَلا عَطْشانٌ وَلا ذُو عاهَةٍ ثُمَّ دَعا عِنْدَهُ وَتَقَرّبَ بِالْحسينِ عليه السلام إلى اللّه ـ عَزَّوجَلَّ ـ إلاّ نَفَّسَ اللّه كُرْبتَهُ وَأعطاهُ مَسْأَلتَهُ وَغَفَرَ ذُنوبَهُ وَمَدَّ فِي عُمْرِهِ وَبَسَطَ في رِزْقِه. فَاعْتَبِرُوا يا أولِي الأبْصارِ” ۔
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں : امام حسین (علیہ السلام) جب کربلا میں داخل ہوئے تو مظلوم، غمگین ، پیاسے اور ناراض تھے اور اسی حالت میں شہید ہوگئے ، لہذا کوئی بھی پریشان ، غمگین ، گنہگار ، پیاسا اور بیمار ان کی زیارت کے لئے نہیں آتا اوران کے ذریعہ خدا سے دعا نہیں کرتا مگر یہ کہ خداوند عالم اس کے غم و اندوھ کو دور کرتا ہے ،اس کی ضرورت کو پور ا کرتا ہے ، اس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے ، عمر کو زیادہ اور رزق و روزی میں وسعت دیتا ہے ، پس اے اہل بصیرت عبرت حاصل کرو ۔
امام صادق (علیہ السلام) کے کلام میں پیاس
امام صادق (علیہ السلام) نے بھی پیاس کے مسئلہ کو امام سجاد (ع) کی زبانی نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے : ” اِنَّ زَيْنَ الْعَابِدِينَ بَكَى عَلَى أَبِيهِ أَربَعِينَ سَنَةً، صَائِماً نَهَارَهِ، قَائِماً لَيْلَهُ، فاذا حَضَرَ الاِفطارُ جَاءَ غُلَامُهُ بِطَعَامِهِ وَ شَرَابِهِ فَيَضَعُهُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَيَقُولُ: كُلْ يَا مولاىَ، فَيَقُولُ(ع): قُتِلَ اِبْنَ رَسُولِ اللَّهِ(ص) جَائِعاً ، قُتِلَ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ(ص) عَطْشَاناً، فَلَا يَزَالُ يُكَرِّرُ ذَلِكَ وَ يَبْكِى حَتَّى يَبِلَّ طَعَامُهُ بِدُمُوعِهِ ، وَ يُمْزَجُ شَرَابُهُ بِدُمُوعِهِ فَلَمْ يَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ عَزَّوجَلَّ” ۔
امام زین العابدین چالیس سال تک اپنے والد محترم کے لئے گریہ کرتے رہے ، دن میں روزہ رکھتے تھے اور رات کو شب بیداری کرتے تھے ، افطار کے وقت جب غلام آپ کے سامنے کھانا اور پانی لاتا تھا اور کہتا تھا تناول فرمائیے ، آپ فرماتے تھے : فرزند رسول (ص) کو بھوکا اور پیاس شہید کردیا گیا ، اس جملہ کو بار بار دہراتے تھے اور گریہ کرتے تھے ، یہاں تک کہ ان کا کھانا ،آنکھوں کے آنسوئوںسے بھر جاتا تھا ۔ آپ ہمیشہ ایسا ہی کرتے تھے ،یہاں تک کہ آپ کی شہادت ہوگئی (٣٦) ۔
ایک دوسری جگہ پر امام صادق (علیہ السلام) نے اپنے کلام میں ”کرام بن عمرو” سے پیاس کے مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے : ” قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ(ع) لِكَرَّامٍ إِذَا أَرَدْتَ أَنْتَ قَبْرَ الْحُسَيْنِ(ع) فَزُرْهُ وَ أَنْتَ كَئِيبٌ حَزِينٌ شَعِثٌ مُغْبَرٌّ فَإِنَّ الْحُسَيْنَ(ع) قُتِلَ وَ هُوَ كَئِيبٌ حَزِينٌ شَعِثٌ مُغْبَرٌّ جَائِعٌ عَطْشَانُ’ ‘(٣٧) ۔
اس حدیث کی اسناد بھی صحیح ہیں سعد بن عبداللہ نے موسی بن عمر سے اور انہوں نے صالح بن سندی جمال سے اورانہوں نے کرام بن عمرو سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : حضرت ابوعبداللہ (علیہ السلام) نے فرمایا : اے کرام ! جب بھی تم امام حسین (علیہ السلام) کی قبر کی زیارت کا ارادہ کرو تو غمگین اور ناراضگی کی حالت میں ان کی زیارت کرو کیونکہ جس وقت آپ کو شہید کیا گیا آپ ناراض اور غمگین ، بھوکے اور پیاسے تھے ۔
اسی طرح آپ نے ایک دوسری جگہ فرمایا : ” مَنْ أَرَادَ أَنْ يَكُونَ فِي كَرَامَةِ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ فِي شَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ ص فَلْيَكُنْ لِلْحُسَيْنِ زَائِراً يَنَالُ مِنَ اللَّهِ الْفَضْلَ وَ الْكَرَامَةَ (أَفْضَلَ الْكَرَامَةِ) وَ حُسْنَ الثَّوَابِ وَ لَا يَسْأَلُهُ عَنْ ذَنْبٍ عَمِلَهُ فِي حَيَاةِ الدُّنْيَا وَ لَوْ كَانَتْ ذُنُوبُهُ عَدَدَ رَمْلِ عَالِجٍ وَ جِبَالِ تِهَامَةَ وَ زَبَدِ الْبَحْرِ إِنَّ الْحُسَيْنَ ع قُتِلَ مَظْلُوماً مُضْطَهَداً نَفْسُهُ عَطْشَاناً هُوَ وَ أَهْلُ بَيْتِهِ وَ أَصْحَابُهُ” (٣٨) ۔
جو شخص بھی قیامت کے روز کرامت ا لہی کو حاصل اور حضرت محمد (ص) کی شفاعت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت کرے ! خداوند عالم کی طرف سے اس کو افضل ترین کرامتیں اور بہترین ثواب ہدیہ کیا جائے گا اور دنیا کی زندگی میں اس سے کردار کے گناہ کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا ! اگر چہ اس کے گناہوں کی تعداد بہت زیادہ ریت ، مکہ کے پہاڑوں اور دریا کے جھاگ کے برابر ہو ۔ یقینا امام حسین (علیہ السلام) مظلوم قتل ہوئے اور ان پر بہت زیادہ ظلم ہوا جب کہ وہ اور ان کا خاندان پیاسا تھا ۔
امام رضا (علیہ السلام) کے کلام میں پیاس
امام رضا (علیہ السلام) نے ”مدارس آیات” دعبل کے قصیدہ پر آنسوئوں بہاتے ہوئے پیاس کے مسئلہ پر تائید کی مہر لگائی ہے ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب دعبل امام رضا (علیہ السلام) کے سامنے مرثیہ کے اشعار پڑھ رہے تھے ،ان میں سے ایک بیت یہ ہے :
أَفاطِمُ لَوْ خِلْتِ الْحُسَيْنَ مُجَدَّلا وَ قَدْ ماتَ عَطْشاناً بِشَطِّ فُراتِ(39)
اے فاطمہ ! کاش کہ تم اپنے حسین کے ساتھ کربلا میں ہوتیںاور دیکھتیں کہ ان کو کس طرح فرات کے کنارے پیاساقتل کردیا گیا ۔
امام زمانہ (عج) کے کلام میں پیاس
امام زمانہ (علیہ السلام) نے بھی غم و اندوھ سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ فرمایا: ” فَمَنَعُوكَ المَاءَ وَ وُرودَهُ” ۔ آپ پر پانی کو بند کیا گیا اور نہر فرات کے پاس جانے سے منع کیا گیا (٤٠) ۔
حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کے کلام میں پیاس
جس وقت اسراء کو قتل گاہ کے پاس سے گزارا گیا تو حضرت زینب (س) نے اس طرح فریاد کی : ” بِأَبِي مَنْ نَفْسي لَهُ الْفِداءُ، بِأبِي الْمَهْمُومَ حَتّى قَضى، بِأبي الْعَطْشانَ حَتّى مَضى، بِأَبِي مَنْ شَيْبَتُهُ تَقْطُرُ بِالدِّماءِ ” (٣٨) ۔ میرے والد قربان ہوجائیں اس پر جس پر میں قربان ہوتی ہوں ، میرے والد قربان ہوجائیں اس پر جو غم و اندوھ اور ناراض شہید ہوا ، میرے والد قربان ہوجائیں اس پر جن کو تشنہ لب شہید کردیا گیا ، میرے والد قربان ہوجائیں اس پر جس کے محاسن سے خون ٹپک رہا تھا (٤١) ۔
حضرت عباس (علیہ السلام) کے کلام میں پیاس
جس وقت عباس بن علی (ع) نے امام حسین (علیہ السلام) سے میدان میں جانے کی اجازت طلب کی توامام علیہ السلام) نے اس طرح فرمایا : ” إِذا غَدَوْتَ إِلَى الْجِهادِ فَاطْلُبْ لِهؤُلاءِ الاَْطْفالِ قَليلا مِنَ الْماءِ ” ۔ اب جبکہ تم میدان میں جانے کا ارادہ رکھتے ہو تو ان بچوں کے لئے پانی لادو ۔ حضرت عباس (علیہ السلام) بچوں کے رونے اور العطش العطش کی صدائیں سن رہے تھے ، لہذا فورا مشک کو اٹھایا اور گھوڑے پر سوار ہوگئے اور دشمنوں کو قتل کرتے ہوئے نہر کے کنارے پہنچ گئے ۔ جس وقت آپ ایک گھونٹ پانی پینا چاہتے تھے تو آپ کوامام حسین (ع) اور ان کے اہل بیت کی یاد آگئی ، پانی کو پانی کے منہ پر مارا ،مشک کو پانی سے بھرا ” فَلَمّا أَرادَ أَنْ يَشْرَبَ غُرْفَةً مِنَ الْماءِ ذَكَرَ عَطَشَ الْحُسَيْنِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ فَرَضَّ الْماءَ وَمَلاََ الْقِرْبَةَ ” ۔ پھر مشک کو اپنے داہنے کندھے پر رکھا اور خیمہ کی طرف روانہ ہوگئے … (٤٢) ۔
حضرت علی اکبر (علیہ السلام) کے کلام میں پیاس
حضرت علی اکبر (ع) نے رجز پڑھتے ہوئے اموی فوج پر حملہ کیا اور جب ان میں سے بہت سے لوگوں کو واصل جہنم کردیا تو آپ پر پیاس کا غلبہ شدید ہوگیا ، اپنے والد کے پاس آئے اور عرض کیا : ” يا أبَهْ! ألْعَطَشُ قَدْ قَتَلَني، وَ ثِقْلُ الْحَديدِ أَجْهَدَني، فَهَلْ إِلى شَرْبَة مِنْ ماء سَبِيلٌ أَتَقَوّى بِها عَلَى الاَْعْداءِ ” (٤٣) ۔ والد گرامی ! پیاس مجھے مارے جارہی ہے ،زرہ اور ڈھال کے بوجھ نے مجھے کمزور کردیا ہے ۔ کیا ایک گھونٹ پانی ہے تاکہ میں اس کو پی کر دوبارہ جنگ کرسکوں ؟ !
امام حسین (علیہ السلام) کے کلام میں پیاس
روایت میں بیان ہوا ہے کہ امام حسین (علیہ السلام)نے علی اصغر کے متعلق ام کلثوم کی بات سن کر اپنے بچہ کو گود میں لیا اور دشمن کی طرف روانہ ہوگئے اور فرمایا : ” يا قَوْمِ قَدْ قَتَلْتُمْ أَخي وَ أَوْلادي وَ أَنْصارِي وَ ما بَقِي غَيْرُ هذَا الطِّفْلِ، وَ هُوَ يَتَلَظّى عَطَشَاً مِنْ غَيْرِ ذَنْب اَتاهُ إِلَيْكُمْ، فَاسْقُوهُ شَرْبَةً مِنَ الْماءِ ” اے لوگو ! تم نے میرے بھائیوں، بچوں اور اصحاب کو قتل کردیا ہے اور اس بچہ کے علاوہ کوئی نہیں بچا ہے، یہ بھی پیاس سے بیتاب ہے ،اس کو ایک گھونٹ پانی سے سیراب کردو (٤٤) ۔
کربلا میں پیاس کو دور کرنے کی کوشش
بعض علماء نے کہا ہے کہ اگر کربلا میں امام حسین (علیہ السلام) کے اوپر پانی بند کردیا گیا تھا تو امام حسین اور ان کے اصحاب نے پانی لانے کی کوشش کیوں نہیں کی ، آیا قافلہ میں بچے اور عورتیں نہیں تھیں؟ پانی بند ہونے کے بعد آپ نے کنواں کیوں نہیں کھودا تاکہ ضرورت بھر پانی حاصل کرسکیں؟ کیا کربلا کی زمین ہموار نہیں ہے جس کو چند میٹر کھود کر پانی تک پہنچا جاسکتا ہے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اپنے پانی کے ذخیرہ کو تنظیم کیوں نہیں کیا تاکہ بعد میں پانی کی مشکل نہ ہوسکے ؟ شب عاشور اور صبح عاشور ،نظافت، غسل اور لباس کو دھونے میں پانی کو خرچ کیوں کیا ؟ کیا یہ نہیں معلوم تھا کہ آئندہ پیاس کا سامنا ہوگا؟ یا نہر فرات کی طرف حملہ کیوں نہیں کیا تاکہ پانی لایا جاسکے ، آیا دشمن نے پورے کنارے کا محاصرہ کر رکھا تھا ؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام اور ان کے اصحاب نے حسینی قافلہ کی پیاس کو دور کرنے کے لئے بہت کوشش کی ۔
کنواں کھودنا بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں : امام حسین (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب نے پانی بند ہونے کے بعد پانی حاصل کرنے کے لئے کنواں کیوں نہیں کھودا ؟ آیا کربلا کی زمین ہموار نہیں ہے ؟ کیا ایسی جگہ پر چند میٹر زمین کھود کر پانی تک نہیں پہنچا جاسکتا ؟! جبکہ یہ زمین پانی سے بھری ہوئی نہر سے نزدیک ہے ، لہذا اگر کوشش کرتے تو پانی کی کمی نہ پڑتی ۔ ابن اعثم اور ابن شہر آشوب کے نقل کے مطابق امام حسین (علیہ السلام) عورتوں کے خیمہ کی طرف گئے اور قبلہ کی طرف انیس قدم گِن کر رکھے ، پھر زمین کو کھودنا شروع کیا اور وہاں سے ایک چشمہ ظاہر ہوا جس کا پانی بہت زیادہ میٹھا تھا ۔ نے اپنے اصحاب و انصار کو حکم دیا کہ اس پانی کو پی لو اور مشکوں کو بھر لو (٤٥)۔ لیکن جو بات اس سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ایک معجزہ اور امتحان سے مشابہ ہے جس کا ہدف اپنے اصحاب و انصار کی تقویت تھا ۔ کیونکہ کنواں کھود کر پانی تک پہنچنے سے پہلے چشمہ اُبلنے کی بات درمیان میں آتی ہے وہ بھی ایسا چشمہ جس کا پانی میٹھا اور ٹھنڈا تھا ! اسی روایت میں نقل ہوا ہے کہ پانی پینے اور مشکوں کو بھرنے کے بعد یہ چشمہ خشک ہوگیا اور غائب ہوگیا (٤٦) ۔ اور شب عاشورا کے متعلق جو کچھ نقل ہوا ہے شاید وہ بھی اسی چشمہ سے مربوط ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے انصار کی طرف رخ کرکے فرمایا : '' قُومُوا فَاشْرَبُوا مِنَ الْماءِ يَكُنْ آخِرَ زادِكُمْ، وَ تَوَضَّأُوا وَاغْتَسِلُوا وَ اغْسِلُوا ثِيابَكُمْ لِتَكُونَ أَكْفانَكُمْ '' (٤٧) ۔کھڑے ہوجائو اور اس پانی کو پی لو یہ تمہارا آخری پانی ہے ، وضو اور غسل کرلو ، اپنے کپڑوں کو دھو لو تاکہ یہ تمہارا کفن بن جائیں ۔ امام حسین (علیہ السلام) کے کلام مں غور وفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین (ع) نے اپنے اصحاب کو صاف و شفاف اور پینے کے پانی کی طرف جانے کا حکم دیا تھا جو کہ ''الف و لام '' عہد ذکری کی طرف اشارہ ہے ''فاشربوا من الماء'' ۔ اوراسی عبارت کے آخر میں فرمایا ہے : ''یکن آخر زادکم'' ۔ یعنی یہ پانی پینے کے لئے ہے ، اس کا آخری گھونٹ پی لو ، اس کے بعد حکم دیا گیا ہے کہ غسل کرلو اور اپنے لباسوں کو دھو لو ۔ لیکن یہ اعتراض کہ کربلا کی زمین ہموار ہے اور چند میٹر زمین کھودنے سے پانی تک پہنچا جاسکتا ہے ، غلط ہے کیونکہ جغرافیا سے آشنائی رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہر ہموار اور سرسبز زمین آب خیز نہیں ہوتی ،بلکہ ہموار زمینوں کی ایک قسم یہ ہے کہ ان میں آب و ہوا گرم اور خشک ہوتی ہے اوران کو ''دشت'' کہتے ہیں (٤٨) ۔ لیکن جن علاقوں کی آب و ہوا گرم اور خشک ہوتی ہے ان میں ہمیشہ پانی سے بھری ہوئی نہروں کی وجہ سے کھیتی ، زندگی اور اقتصادی پریشانیاں نہیں ہوتی (٤٩) ۔ اس وجہ سے کسی زمین کا ہموار ہونا اور اس کے خشک و گرم ہونے میں کوئی منافات نہیں ہے ، کربلا بھی زمینوں کی قسموں میں سے اسی قسم میں شمار ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ کربلا کی زمین کا ایک نام ''طف'' ہے ،امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے ایک بیان میں فرمایا ہے : '' قال جدّی رسول الله: ولدی حسین یقتل بطفّ کربلا غریبا وحیدا عطشانا ...'' (٥٠) ۔
اسی طرح دوسری حدیث (٥١) میں کربلا کی زمین کو ”طف” کے نام سے یاد کیا گیا ہے ۔
لغت کی کتابوں میں ”طف” کے معنی کو بیان کرنے کے لئے اس طرح کی عبارتیں ذکر ہوئی ہیں : ” الشاطی ” ۔ دریا کا ساحل یا کنارہ (٥٢) ۔ المکان المرتفع : بلند وبالا جگہ (٥٣) ۔ ”طفت بفلان موضع کذا ، ای رفعہ الیہ ” … یعنی فلاں کو فلاں مقام پر بلندی عطا کی (٥٤) ۔ پس ”طف” کے معنی کنارہ، ساحل اور بلند جگہ کے ہوسکتے ہیں ۔ اگر زمین کربلا کو ”طف” کہا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو کربلا ، دریا کے کنارہ پر واقع ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کی پوری جگہ بلندی پر ہے ، تاج العروس فی من جوھر القاموس کی عبارت سے بھی یہی معنی ذہن میں آتے ہیں ”طف الفرات : ما ارتفع منہ من الجانب ” (٥٥) ۔
لہذا اگر کربلا کو بلندی کی وجہ سے ”طف” کہا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پانی کی سطح سے بلندی پر ہے اور ممکن نہیں ہے کہ چند میٹر کھودنے سے پانی تک پہنچا جائے ۔ اس کے علاوہ اہل بیت (علیہم السلام) کے خیام ایسی جگہ پر تھے جو قتل گاہ سے بلندجگہ تھی اور اگر کربلا کو دریا کے نزدیک ہونے کی وجہ سے ”طف” کہا جاتا ہے تو کربلا نہر علقمہ سے نزدیک ہے جو کہ نہر فرات کی ایک چھوٹی نہر ہے اور اس سے پوری زمین کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچتا ۔
نتیجہ یہ ہے کہ کنویں کو کھود کر پانی تک پہنچنا اس قدر آسان نہیں تھا کیونکہ امام حسین (علیہ السلام) کے اصحاب نے پشت خیمہ پر خندق کھود کر اس میں لکڑیاں بھر دی تھیں تاکہ اگر دشمن حملہ کرے تو خندق اور اس میں جلتی ہوئی آگ ، دشمن کو اندر آنے سے روک سکے (٥٦) ۔ لیکن کسی نے نقل نہیں کیا ہے کہ اس خندق کو کھودنے کے بعد پانی جاری ہوگیا ہو ۔ اگر زمین کربلا ہموار اور آب خیز تھی (جیسا کہ اعتراض اور اشکال کرنے والوں نے بیان کیا ہے ) تو پوری خندق کو پانی سے بھر جانا چاہئے تھا اور پھر اس میں لکڑیاں جمع کرنے اور آگ جلانے کی بھی ضرورت نہ ہوتی ۔
بالفرض اگر کنواں بھی کھودتے اور پانی تک پہنچ جاتے تو وہ پانی جو حاصل ہوتا پینے کے قابل بھی ہوتا یا نہیں ؟ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ کربلا سے چند کیلو میٹر کے فاصلہ پر نمک کا عظیم دریا ہے ۔بعید ہے کہ وہ پانی پینے کے قابل ہوتا ؟ ”بحیرة الملح”نے جو کہ کربلا سے نزدیک ہے ، اس پورے علاقہ کے پانی کو نمکین کررکھا ہے اور نمکین پانی پینا مفید نہیں ہے ارو اس سے پیاس کئی گنا زیادہ ہوجاتی ہے ۔ لہذا اگر امام حسین (علیہ السلام) کے اصحاب ، کنویںکے ذریعہ پانی تک پہنچتے تو اس کے نمکین ہونے یا مٹی میں ملا ہونے یا کسی اور وجہ سے صرف دوسری چیزوں میں استعمال ہوسکتا تھا ، پینے میں استعمال کرنا مفید نہیں تھا ۔
نتیجہ یہ ہوا کہ اگر امام حسین (علیہ السلام) ا ور آپ کے اصحاب پانی فراہم کرنے کے لئے کنواں کھودنے والا راستہ انتخاب کرتے اور کوشش کرتے تو یہ بھی ایک انتخاب نہیں تھا بلکہ دشمن نے اس راستہ کو بھی بند کردیا تھا ، یا اس کے شرایط فراہم نہیں تھے ۔
نہر سے پانی لانا
پانی لانے کے لئے ایک دوسرا راستہ جو امام حسین (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب نے انتخاب کیا وہ دریا سے مشک بھر کر پانی لانا تھا، پانی بند ہونے کے بعد ایک مرتبہ حضرت علی اکبر (علیہ السلام) چند اصحاب کے ساتھ دریا کے کنارے گئے اور پانی لائے (٥٧) ،ایک مرتبہ حضرت عباس ، نافع بن ہلال اور تیس سوار اور بیس پیادہ پانی لینے کے لئے دریا کے کنارے گئے اور عمرو بن حجاج کے لشکر سے جنگ کرنے کے بعد بیس مشکیں پانی کی بھر کر امام حسین (علیہ السلام) کے پاس لائے (٥٨) ۔
طبری نے اس واقعہ کو اس طرح نقل کیا ہے : جب نافع کے دوست دریا کے نزدیک پہنچے تو انہوں نے پیدل چلنے والوں سے کہا : مشکوں کو پانی سے بھر لو ، پیدل چلنے والوں نے مشکوں کو بھر لیا ۔ عمرو بن حجاج اور اس کے اصحاب دوڑے تو عباس بن علی بن ابی طالب اور نافع بن ہلال نے ان پر حملہ بول دیا جس کی وجہ سے انہیں پیچھے ہٹنا پڑا ۔ نافع نے کہو چلو، لیکن ان کا راستہ بند ہوچکا تھا ،عمروبن حجاج ان کی طرف آیا اور مختصر سی جنگ ہوئی ، عمروبن حجاج کا ایک صحابی جو کہ طائفہ صداء سے تھا ، زخمی ہوگیا ، نافع نے اس کے تلوار ماری تھی ، وہ سوچ رہا تھا کہ کوئی خاص زخم نہیں ہے لیکن اس کے بعد اس کا زخم بڑھتا گیا اور اسی سے وہ مرگیا ، امام حسین (علیہ السلام) کے اصحاب آگے بڑھے اور امام حسین (ع) کے پاس پانی لے گئے (٥٩) ۔ ” فلما دنا منه اصحابه قال لرجاله: املئوا قربكم، فشد الرجاله فملئوا قربهم، و ثار اليهم عمرو بن الحجاج و اصحابه، فحمل عليهم العباس بن على و نافع بن هلال فكفوهم، ثم انصرفوا الى رحالهم، فقالوا: امضوا، و وقفوا دونهم، فعطف سنه (٦٠) عليهم عمرو بن الحجاج و اصحابه و اطردوا قليلا ثم ان رجلا من صداء طعن من اصحاب عمرو بن الحجاج، طعنه نافع بن هلال، فظن انها ليست بشيء، ثم انها انتقضت بعد ذلك، فمات منها، و جاء اصحاب حسين بالقرب فادخلوها عليه (٦١) ۔
دعا اور امداد الہی
شاید یہ اعتراض کیا جائے کہ امام حسین (علیہ السلام) امام تھے انہوں نے اپنی امامت کی کرامت کے ذریعہ پانی فراہم کیوں نہیں کیا ؟
جواب : اس کا جواب یہ ہے کہ دینی راہنمائوں کو اجازت نہیں ہے کہ وہ سب جگہ معجزہ اور کرامت کو استعمال کریں ، صرف خاص جگہوں پر جہاں ضرورت ہوتی ہے وہاں معجزہ یا کرامت دکھاتے ہیں جیسے انبیاء الہی دین کی حقانیت اور اپنی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے معجزہ دکھاتے تھے ، اس کے علاوہ یہ تمام امور خداوندعالم کے ارادہ سے واقع ہوتے ہیں اور الہی رہبروں کو خود کوئی اختیار نہیں ہوتا ۔
سورہ انعام کی ١٠٩ ویں آیت میں خداوندعالم نے پیغمبر اکرم (ص) سے کہا ہے : ” قُلْ ِنَّمَا الْآیاتُ عِنْدَ اللَّہِ ” ۔ آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں تو سب خدا ہی کے پاس ہیں۔(اور میرے اختیار میں نہیں ہے) ۔ اس بناء پر واضح ہوجاتا ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) نے معجزہ کے ذریعہ پانی فراہم کیوں نہیں کیا ۔
اس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ کربلا میں امام حسین (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب کی شہادت سے اسلامی امت بیدار ہوگئی ، لہذا پیاس کے مسئلہ نے دشمن کے خبیث چہرہ کو ظاہر اور لوگوں کو بیدار کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا اور اس کے ذریعہ ظلم کے ساتھ جنگ کرنے کا راستہ ہموار ہوگیا ۔
اس کے علاوہ امام حسین (علیہ السلام) نے شہدائے کربلا کو بہشت میں ان کا مقام دکھادیا تھا ، لہذا شہدائے کربلا بھی ظلم سے مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ تھے کیونکہ امام حسین (علیہ السلام) نے ان سے شہادت کا وعدہ کیا تھا اور ان کے لئے کوئی فرق کی بات نہیں تھی کہ وہ پیاسے شہید ہوں یا پانی سے سیراب ہو کر شہید ہوں ۔
نتیجہ :
جی ہاں ، کربلا میں پیاس اور پانی بند کرنے کا مسئلہ ایک تلخ حقیقت ہے جس نے اہل بیت (ع) کے منحوس دشمنوں کے چہرہ سے نقاب اٹھایا ہے ، امام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب نے پانی فراہم کرنے کے لئے اپنے اعتبار سے پوری کوشش کی تھی لیکن آخر کار تشنہ لب شہید ہوگئے ۔ اس بناء پر ہمارے لئے پیاس کا مسئلہ ایک غم انگیز مسئلہ ہے ، لیکن شہدائے کربلا کے لئے اس زمانہ میں بہت اہم مسئلہ تھا اور وہ ظلم و ستم کے ساتھ جنگ تھی جو لب تشنہ انجام پائی ۔
_______________________
حوالہ جات:
(1) – تفسیر صافی ج1، چاپ دو جلدی، ص640 در تفسیر آیه 12 سوره انفال.
(2) – ناسخ التواریخ ،ج2،ص299 .
(3) – الامامة و السياسة، ج 1، ص 40 و الجمل، ص 72 و تاريخ طبرى، ج 3، ص 416 و انساب الاشراف، ج 5، ص 71 و الفتوح ابن اعثم، ج 1، ص 415 و الكامل فى التاريخ، ج 3، ص 87.
(4) – الامامة و السياسة، ج 1، ص 38.
(5) – تاريخ طبرى، ج 3، ص 434.
(6) – تاريخ طبرى، ج 3، صص 416 – 417; تاريخ المدينة المنورة، ج 4، ص 1303; انساب الاشراف، ج 5، صص 68 – 69.
(7) – تاريخ طبرى، ج 3، صص 416 – 417.
(8) – تاريخ طبرى، ج 3، ص 417 و الكامل فى التاريخ، ج 3، ص 87 و البداية و النهاية، ج 7، ص 187.
(9) – شرح نهج البلاغة، ج 3، ص 25.
(10) – شرح الاخبار، ج 2، ص 78.
(11) – البداية و النهاية، ج 7، ص 187.
(12) – شرح نهج البلاغة، ج 4، ص 67.
(13) – تاریخ طبری، ج 5، ص401.
(14) – دایرة المعارف تشیّع، ج12، ص18 . و سالوه ان ینزلوا بنینوی و الغاضریه فابی ذلک علیهم. انساب الاشراف. انساب الاشراف، الجزء الثالث، خروج الحسین بن علی. من مکه الی الکوفه.
(15) – انساب الاشراف، الجزء الثالث، خروج الحسین بن علی من مکه الی الکوفه.
(16) – تاريخ طبري، ج5، ص:413. تاريخ طبري، (هشت جلد) ج 4، ص 311. منتهي الامال ، ج 1، ص 625، چاپ هجرت.
(17) – الفتوح، ج 5، ص 91.
(18) – منتهي الامال ، ج 1، ص 625، چاپ هجرت، و تاريخ طبري (هشت جلدي) ج 4، ص 311.
(19) – ابن اعثم كوفى، ابومحمد احمد بن على، الفتوح، ص 83.
(20) – ابن اثير، عزالدين على، كامل تاريخ بزرگ اسلام و ايران، ج 5، ص 158 و طبرى، محمد بن جرير، تاريخ طبرى، ج 7، ص 3006 و بلاذرى، احمد بن يحيى بن جابر، انساب الاشراف، ج 2، جزء 3، ص 181 و ابو الفرج اصفهانى، مقاتل الطالبيين، مصحح على اكبر غفارى، مترجم سيّدهاشم رسولى محلاتى، نشر صدوق، چاپ تابش، بى تا، ص 118 و مفيد، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد، ج 2، ص 88. بحار، ج 44، ص 389.
(21) – ارشاد شیخ مفید، ج 2، ص 86.
(22) – بحارالانوار، ج 44، ص 317.
(23) – اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص86، به نقل از:بحارالانوار، ج 45، ص 51.
(24) – تاريخ طبري، ج 4، ص 325.
(25) – طبرى، محمد بن جرير، همان، ج 7، ص 3029 و ابن اثير، عزالدين على همان، ج 5، ص 173 و بلاذرى، احمد بن يحيى بن جابر، انساب الاشراف، ج 2، جزء 3، ص 189، ابن اعثم كوفى، ابو محمد احمد بن على، الفتوح، ص 902 و مفيد، محمد بن نعمان، الارشاد، ج 2، ص 104.
(26) – بحار ج 44، ص 318.
(27) – مقتل خوارزمى، ج 1، ص 244 و 245.
(28) – دلائل الامامة، ص 102؛ نوادر المعجزات، ص 96؛ ابن عقده كوفى، احمد بن محمد، فضائل أمير المؤمنين علي(ع)، 1جلد، ص108، دليل ما – ايران ، قم، چاپ: اول، 1424 ق؛ رياض الأبرار في مناقب الأئمة الأطهار، ج1، ص174.
(29) – بحارالانوار ، علّامه مجلسی، جلد43، ص283، (با عبارت رُوی عن علی (ع)؛ و مناقب، ابن شهر آشوب، ج3، ص 156(با عبارت قال الربیع بن خیثم)؛ المنتخب، ص 187و188.
(30) – بحار الانوار، علّامه مجلسی، ج 44، ص 266؛ مدينة معاجز الأئمة الإثني عشر، ج3، ص 14.
(31) – مدينة المعاجز، سيّد هاشم بحرانى، ج 4، ص 214-216، حدیث 295. همچنين رجوع كنيد به : نفس المهموم، ص 116.
(32) – به نقل از: لهوف، ابن طاووس، ترجمه مير ابو طالبى؛ شجرة طوبى، الشيخ محمد مهدي الحائري، ج2، ص403.
(33) – رجوع شود به: ارشاد مفيد، ص470 و 471، و مقتل الحسين مقرّم، ص320.
(34) – ناسخ التواریخ، ج3، ص178.
(35) – كامل الزيارات، باب 69، ص 313؛ مستدرك الوسائل، ج 10، ص 239.
(36) – مراجعه کنید به: ملهوف (لهوف)، ص233.
(37) – وسائل الشيعة، ج10، ص 414؛ و کامل الزیارات.
(38) – كامل الزيارات، ابن قولويه، ص 153، دار المرتضوية – نجف اشرف، چاپ: اوّل، 1356ش؛ بحالارانوار، ج 98، ص 27.
(39) – بحارالانوار، ج 45، ص 257.
(40) – زيارت ناحيه مقدسه.
(41) – بحارالانوار، ج 45، ص 58 و اعيان الشيعة، ج7، ص 138 و ملهوف (لهوف)، ص 181.
(42) – مقتل الحسين أبى مخنف، ص 179 .
(43) – اعيان الشيعة، ج 1، ص 607، و فتوح ابن اعثم، ج 5، ص 207، 208، و بحارالانوار، ج 45، ص 42، 43.
(44) – معالى السبطين، ج 1، ص 418.
(45) – ابن شهرآشوب، ابى جعفر رشيدالدين محمد بن على، مناقب آل ابى طالب، ج 4، ص 50 و ابن اعثم كوفى، ابو محمد احمد بن على، الفتوح، ص 893. و مجلسى، محمد باقر، بحارالانوار، ج 44، ص 337. ابن اعثم كوفي، كتاب الفتوح، مصحح: طباطبايي مجد، مترجم: مستوفي هروي، آموزش و پرورش، تهران، 1372ش، ص 893. ابن شهراشوب، مناقب آل ابي طالب، مصحح: رسولي محلاتي، موسسه انتشارات علامه، بيتا، ج4، ص50.
(46) – ابن اعثم كوفى، ابو محمد احمد بن على، الفتوح، ص 893. و مجلسى، محمد باقر، بحارالانوار، ج 44، ص 337.
(47) – بحارالانوار، ج 44، ص 316.
(48) – ویکی پدیا، واژه جلگه.
(49) – ژئوتوریسم خوزستان، مریم السادات میرکاظمیان، ص8.
(50) – عاشورا، ریشه ها، انگیزه ها، رویدادها، پیامدها، ص394. به نقل از کتاب الدمعة الساکبة، به نقل از کتاب نور العین.
(51) – ابن عباس می گوید:«ما کنّا نشکّ اهل البیت و هم متوافرون انّ الحسین بن علی(ع) یقتل بالطفّ: ما اهل بیت همگی تردیدی نداشتیم که امام حسین(ع) در سرزمین طفّ به شهادت خواهد رسید»(مقتل خوارزمی، ج1، ص160).
(52) – تهذيب اللغة، أبو منصور محمد بن أحمد الأزهري، دار إحياء التراث العربي، ذیل واژه طفّ.
(53) – المحيط في اللغة، الصاحب بن عباد، ذیل واژه طفّ.
(54) – مقاييس الغة، أبي الحسين أحمد بن فارِس بن زكَرِيّا، اتحاد الكتاب العرب، ذیل واژه طفّ.
(55) – تاج العروس من جواهر القاموس، ط ف ف .
(56) – امالى صدوق، مجلس 30 و بحارالانوار، ج 44، ص316.
(57) – امالی شیخ صدوق، مجلس 30.
(58) – وقعة الطف، ص 152.
(59) – تاريخالطبري، ترجمه، ج7، ص3007.
(60) – تاريخالطبري، ج5، ص413.
(61) – خوشدل تهرانى.