جب امام حسين (ع) کو معلوم تھا کہ کربلاء جائیں گئے تو شھید کر دئیے جائیں گئے تو پھر کربلاء کیوں گئے اور قیام کیوں کیا؟
سوال:
جب امام حسين (ع) کو معلوم تھا کہ کربلاء جائیں گئے تو شھید کر دئیے جائیں گئے تو پھر کربلاء کیوں گئے اور قیام کیوں کیا ؟
سوال کی وضاحت:
بعض نادان لوگ اور بعض جان بوجھ کر امام حسین علیہ السلام کے کارنامہ و واقعہ کربلاء پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر امام حسین(ع) کو شھید ہونے کا علم تھا تو کیوں کربلاء گئے ۔ اگر علم تھا تو حرام کام کیا ہے کیونکہ اپنی اور اہل عیال کی جان کو خطرے میں ڈالا ہے اگر علم نہیں تھا تو امام بھی ہم جیسا ہوتا ہے اور امام کو بھی آئندہ کا ہماری طرح علم نہیں ہوتا۔
کیا یہ سوال اور اعتراض ٹھیک ہے ؟
جواب:
ممکن ہے ایک شبھہ انسان کے ذھن کو یہ سوچنے پر مجبور کرے کہ امام حسین(ع) نے یہ قیام کر کے خود، اپنے اہل بیت اور اپنے اصحاب کو ہلاکت میں ڈالا ہے کہ جس سے خداوند نے قرآن میں منع کیا ہے کہ “وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَي التَّهْلُكَةِ “
خود اپنے ہاتھوں سے اپنے آپکو ہلاکت میں نہ ڈالو۔
یعنی اپنے ہاتھوں سے خود کشی نہ کرو۔ کیسے ممکن ہے کہ امام حسين عليه السلام كہ فرزند رسول گرامي اسلام و امير المؤمنين عليه السلام ہیں اور دین اسلام سے کامل طور پر آگاہ ہونے کے باوجود قرآن کی اس آیت پر عمل نہ کریں۔ ایسا ہر گز ممکن نہیں ہے۔
سب سے پہلے ہم ہلاکت کے معنی کو بیان کرتے ہیں تا کہ ہلاکت حرام واضح ہو جائے۔ پھر خود بخود واضح ہو جائے گا کہ کیا یہی معنی امام حسین(ع) کے عظیم انقلاب و قیام کے بارے میں صحیح ہے یا صحیح نہیں ہے ؟
خداوند در قرآن في فرمايند :
وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَي التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ. البقره / 195.
خداوند کی راہ میں انفاق کرو اور اپنے ہاتھوں سے اپنے آپکو ہلاکت میں نہ ڈالو اور دوسروں سے نیکی کرو کہ خداوند نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
تھلکہ سے مراد اس آیت میں ہلاکت ہے اور ہلاکت سے مراد ہر وہ کام ہے کہ جس کے کرنے سے انسان کو اتنا زیادہ نقصان ہو کہ عام طور پر اس نقصان کا جبران نہ کیا جا سکے، جیسے فقر یا مریض ہو جانا یا وہ کام کرنے سے مر جانا۔
اس آیت کی ابتداء میں خداوند کی راہ میں انفاق یعنی اس کی راہ میں ایسا ایثار و فداکاری کہ جس کا خداوند نے حکم دیا ہو اور اس ایثار و فداکاری کو پسند بھی کرتا ہو پھر اس کے بعد خود کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا ہے۔ پس اس آیت میں ہلاکت سے مراد وہ ہلاکت ہے جو ایثار و فداکاری کو خداوند کی راہ میں ترک کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
پھر خداوند فرماتا ہے کہ: نیکی کرو، یعنی ایثار و فداکاری کر کے خداوند کی راہ میں تم بھی نیک کام کرنے والوں سے ہو جاؤ۔ واضح ہے کہ ہر طرح کی فداکاری، نیک فداکاری نہیں ہوتی اور ہر طرح کی بخشش بھی خداوند کو محبوب و پسند نہیں ہوتی کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پاگل اور کم عقل والوں کی فداکاری و بخشش بھی خداوند کے نزدیک محبوب اور پسند ہوتی حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
ایثار و فداکاری کہ جو خداوند کو پسند ہوتی ہے اسکی چند شرائط ہیں کہ ان میں سے دو بہت مھم ہیں:
1۔ وہ ایثار و فداکاری ایسی راہ اور ایسے ھدف کے لیے ہو کہ عقل مند لوگ اس کو ٹھیک کہتے ہوں اور اگر وہ ایثار و فداکاری عقل کے دائرے سے خارج ہو تو اور پاگل و کم عقل لوگوں کے دائرے میں داخل ہو تو ایسا ایثار و فداکاری خداوند کو محبوب و پسند نہیں ہو گی۔
2۔ جو شئ خداوند کی راہ میں ایثار اور قربان کی جا رہی ہے، وہ شئ اھمیت اور اس قابل بھی ہو کہ جسکو قربان کرنا عام لوگوں کے لیے بہت ہی مشکل و سخت ہوتا ہے لیکن یہ بندہ پھر بھی اپنے ھدف کے لیے ہر طرح چیز کو آرام سے قربان کر دیتا ہے۔ جیسے مال خرچ کرنا علم اور اپنی تندرستی کے لیے وغیرہ۔ خلاصہ یہ کہ انسان کا ھدف جس قدر بھی بلند و با ارزش ہو اسکے لیے ایثار و فداکاری بھی اتنی ہی بلند و بالا ہونی چاہیے۔
یہ دو مطلب اور یہ دو اساسی و بنیادی شرطیں ہیں کہ جن کو لازمی طور پر ہر قسم کی بخشش اور فداکاری میں ملاحظہ کرنا ہو گا تا کہ وہ فداکاری اور قربانی اس قابل ہو سکے کہ جس کو خداوند کی راہ میں کہا جا سکے۔
اس مقدمے کی روشنی میں بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ امام حسين عليه السلام کا قيام بطور كامل خدا کے لیے اور خدا کی راہ میں تھا کیونکہ اس قیام میں دو مذکورہ شرائط مکمل طور پر پائی جاتی ہیں۔ پس امام حسين عليه السلام نے روز عاشورا جو جو بھی فداکاری اور قربانی دی ہے وہ خداوند کی راہ میں اور مورد رضایت خداوند تھی۔
خلاصه و نتیجہ:
آیت ہلاکت یا ہر وہ دلیل جو خودکشی کو حرام قرار دیتی ہے وہ ہر طرح کے اپنے آپکو خطرے میں ڈالنے کو شامل نہیں ہوتی۔ جان، اولاد اور مال کی قربانی دینا اگر ایک ھدف مقدس کے لیے ہو جیسا کہ امام حسين عليه السلام کا قیام تھا، وہ آیت اور دلیل اس طرح کی فداکاری و قربانی کو حرام قرار دیتی کیونکہ اس فداکاری و قربانی میں وہ دو شرائط بنحو احسن پائی جاتی ہیں۔
اگر امام حسين عليه السلام اور انکے اصحاب کی فداكاري روز عاشورا نہ ہوتی تو اسلام ،قرآن اور تمام انبیاء کی تمام زحمات اور تعلیمات ضائع و دفن ہو جاتیں۔ جس طرح کے گذشتہ ادیان میں تحریف ہوئی اور آج وہ ادیان اپنی اصلی و الھی شکل کھو چکے ہیں۔ اب ان کا فقط نام باقی ہے۔ اگر کربلاء نہ ہوتی تو یزید اور یزیدی اسلام کے ساتھ کیا کرتے اسکو فقط خدا کی ذات جانتی ہے۔
پس امام حسين عليه السلام کا قيام عقلائي بھی ہے اور جو امام کا بلند و مقدس ھدف تھا (حفظ اسلام، قرآن اور سنت پیغمبر) وہ اپنی جان، اولاد، مال اور اصحاب سے افضل و بالا تر تھا۔
رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے :
تمہارے پاس تین چیزیں ہیں جان، مال اور دین،
جب جان پر مصیبت آئے تو مال دے کر جان کی حفاظت کرو اور جب دین پر مصیبت آئے تو جان اور مال دے کر دین کی حفاظت کرو۔
One Response
Jazakallah