مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہوں، بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کون حق پر ہے۔ چنانچہ پیغمبر اسلامؐ نے نجران کے نصارٰی کو مباہلہ کی تجویز دی جسے انہوں نے قبول تو کر لیا لیکن مقررہ وقت پر مباہلے سے پیچھے ہٹ گئے کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ پیغمبرؐ اپنے قریبی ترین افراد یعنی اپنی بیٹی، فاطمۂ زہراءؑ، اپنے داماد امام علیؑ، اپنے نواسے حسنؑ اور حسینؑ کو ساتھ لے کر آئے ہیں اور یہ امر آپؐ کی صداقت اور سچائی کی علامت قرار پایا۔ یوں رسول اللہؐ اس مباہلہ میں کامیاب ہوئے۔
شیعہ عقائد کی رو سے نصارٰی نجران اور رسول خداؐ کے درمیان پیش آنے والا واقعۂ مباہلہ نہ صرف نبی اکرمؐ کی رسالت کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے بلکہ آپؐ کے ساتھ آنے والے افراد کی فضیلت خاصہ پر بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ آپؐ نے تمام اصحاب اور اعزاء و اقارب کے درمیان اپنے قریبی ترین افراد کو مباہلے کے لئے منتخب کرکے دنیا والوں کو ان کا اس انداز سے تعارف کرایا ہے۔ یہ واقعہ 24 ذی الحجہ سنہ 9 ہجری کو رونما ہوا، اور قرآن کریم کی سورہ آل عمران آیت نمبر 61 میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
“مباہلہ” کے لغوی معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں[1] “بہلہ اللہ” یعنی اس پر لعنت کرے اور اپنی رحمت سے دور کرے۔[2] لفظ “مباہلہ” مفہوم کے حوالے سے آیت مباہلہ سے ماخوذ ہے۔[3]
اصطلاحی معنی
ابتہال کے معنی میں دو اقوال ہیں: 1۔ ایک دوسرے پر لعن کرنا، اگر دو افراد کے درمیان ہو؛ 2۔ کسی کی ہلاکت کی نیت سے بددعا کرنا۔[4]
مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کونسا فریق حق بجانب ہے۔
آیت مباہلہ
آیت مباہلہ سورہ آل عمران کی 61ویں آیت ہے جو واقعۂ مباہلہ کی طرف اشارہ کرتی ہے:
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
ترجمہ: چنانچہ اب آپ کو علم (اور وحی) پہنچنے کے بعد، جو بھی اس (حضرت عیسیؑ) کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں، اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں، اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو، بلالیں، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔
شیعہ اور سنی مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اکرمؐ کے ساتھ نجران کے نصارٰی کے مناظرے کی طرف اشارہ کرتی ہے؛ کیونکہ نصارٰی (عیسائیوں) کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیؑ تین اقانیم میں سے ایک اقنوم ہے؛ وہ عیسیؑ کے بارے میں قرآن کریم کی وحیانی توصیف سے متفق نہیں تھے جو انہیں خدا کا پارسا بندہ اور نبی سمجھتا ہے؛ حتی کہ آپؐ نے انہیں للکارتے ہوئے مباہلے کی دعوت دی۔[5]
اہل سنت کے مفسرین (زمخشری،[6] فخر رازی،[7] بیضاوی[8] اور دیگر) نے کہا ہے کہ “ابناءنا” [ہمارے بیٹوں] سے مراد حسنؑ اور حسینؑ ہیں اور “نساءنا” سے مراد فاطمہ زہراءعلیہا السلام اور “انفسنا” [ہمارے نفس اور ہماری جانوں] سے مراد حضرت علیؑ ہیں۔ یعنی وہ چار افراد جو آنحضرتؐ کے ساتھ مل کر پنجتن آل عبا یا اصحاب کساء کو تشکیل دیتے ہیں۔ اور اس آیت کے علاوہ بھی زمخشری اور فخر رازی، کے مطابق آیت تطہیر اس آیت کے بعد ان کی تعظیم اور ان کی طہارت پر تصریح و تاکید کے لئے نازل ہوئی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
نَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً۔
ترجمہ: اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر پلیدی اور گناہ کو دور رکھے اور تم کو پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے”۔ (سورہ احزاب آیت 33)
نصارائے نجران نے رسول اللہؐ اور آپؐ کے ساتھ آنے والے افراد کے دلیرانہ صدق و اخلاص کا مشاہدہ کیا خائف و ہراساں اور اللہ کی عقوبت و عذاب سے فکرمند ہوکر مباہلہ کرنے کے لئے تیار نہيں ہوئے اور آپؐ کے ساتھ صلح کرلی اور درخواست کی کہ انہیں اپنے دین پر رہنے دیا جائے اور ان سے جزیہ وصول کیا جائے اور آنحضرتؐ نے ان کی یہ درخواست منظور کرلی۔[9] بالفاظ دیگر عیسائی جان گئے کہ اگر رسول خداؐ مطمئن نہ ہوتے تو اپنے قریب ترین افراد کو میدان مباہلہ میں نہ لاتے چنانچہ وہ خوفزدہ ہوکر مباہلے سے پسپا اور جزیہ دینے پر آمادہ ہوئے۔
روز مباہلہ
شیخ مفید نے اس واقعے کو فتح مکہ کے بعد اور حجہ الوداع سے پہلے (یعنی سنہ 9 ہجری قمری) قرار دیا ہے۔[10] نصارٰی کے ساتھ رسول خداؐ اور عیسائیوں کے درمیان واقعۂ مباہلہ 24 ذوالحجہ (سنہ 631 عیسوی) کو رونما ہوا۔[11] صاحب کشف الاسرار کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ 21 ذوالحجہ کو واقع ہوا ہے۔[12] شیخ انصاری کا کہنا ہے کہ مشہور یہی ہے کہ واقعۂ مباہلہ 24 ذوالحجہ کو رونما ہوا ہے اور اس روز غسل کرنا مستحب ہے۔[13] شیخ عباس قمی، اپنی مشہور اور شریف کتاب مفاتیح الجنان میں 24 ذوالحجہ کے لئے بعض اعمال ذکر کئے ہیں جن میں غسل اور روزہ شامل ہیں۔[14]
جو کچھ شیعہ اور سنی مؤرخین و محدثین کے ہاں مسلّم ہے یہ ہے کہ یہ واقعہ رسول اکرمؐ اور نجران کے عیسائیوں کے درمیان رونما ہوا ہے۔
مباہلے میں شامل افراد
یہ بھی تفاسیر اور تواریخ و حدیث کے علماء کے ہاں امر مسلّم ہے کہ رسول اللہؐ جن لوگوں کو مباہلہ کے لئے ساتھ لائے تھے وہ امیرالمؤمنینؑ، حضرت فاطمہؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ تھے؛ تاہم یہ کہ اس واقعے کی تفصیلات کیا تھیں، عیسائیوں میں سے کون لوگ رسول اللہؐ کے حضور آئے تھے اور عیسائیوں اور رسول اللہؐ کے درمیان کن کن باتوں کا تبادلہ ہوا تھا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات مختلف روایات اور کتب میں اختلاف کے ساتھ نقل ہوئے ہیں۔
واقعۂ مباہلہ
روز مباہلہ کی صبح کو حضرت رسول اکرمؐ امیرالمؤمنینؑ کے گھر تشریف فرما ہوئے؛ امام حسنؑکا ہاتھ پکڑ لیا اور امام حسینؑکو گود میں اٹھایا اور حضرت امیرؑ اور حضرت فاطمہؑ کے ہمراہ مباہلے کی غرض سے مدینہ سے باہر نکلے۔
جب نصارٰی نے ان بزرگواروں کو دیکھا تو ان کے سربراہ {اور آج کے عیسائی انتظامات کے مطابق کارڈینل} ابوحارثہ نے پوچھا: یہ لوگ کون ہیں جو محمدؐ کے ساتھ آئے ہیں؟ جواب ملا کہ:وہ جو ان کے آگے آگے آرہے ہیں، ان کے چچا زاد بھائی، ان کی بیٹی کے شریک حیات اور مخلوقات میں ان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں؛ وہ دو بچے ان کے فرزند ہیں ان کی بیٹی سے؛ اور وہ خاتون ان کی بیٹی فاطمہ ہیں جو خلق خدا میں ان کے لئے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔
آنحضرتؐ مباہلے کے لئے دو زانو بیٹھ گئے۔ پس سید اور عاقب (جو وفد کے اراکین اور عیسائیوں کے راہنما تھے) اپنے بیٹوں کو لے کر مباہلے کے لئے روانہ ہوئے۔
ابو حارثہ نے کہا: خدا کی قسم! محمدؐ کچھ اس انداز میں زمین پر بیٹھے ہیں جس طرح کہ انبیاءؑ مباہلے کے لئے بیٹھا کرتے تھے، اور پھر پلٹ گیا۔سید نے کہا: کہاں جارہے ہو؟ابو حارثہ نے کہا: اگر محمدؐ بر حق نہ ہوتے تو اس طرح مباہلے کی جرئت نہ کرتے؛ اور اگر وہ ہمارے ساتھ مباہلہ کریں تو ہم پر ایک سال گذرنے سے پہلے پہلے ایک نصرانی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ ابو حارثہ نے کہا: میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے التجا کریں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑ دے تو بےشک وہ اکھاڑ دیا جائے گا۔ پس مباہلہ مت کرو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور حتی ایک عیسائی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔اس کے بعد ابو حارثہ آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:اے ابا القاسم! ہمارے ساتھ مباہلے سے چشم پوشی کریں اور ہمارے ساتھ مصالحت کریں، ہم ہر وہ چیز ادا کرنے کے لئے تیار ہیں جو ہم ادا کرسکیں۔ چنانچہ آنحضرتؐ نے ان کے ساتھ مصالحت کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں ہر سال دو ہزار حلے (یا لباس) دینے پڑیں گے اور ہر حلے کی قیمت 40 درہم ہونی چاہئے؛ نیز اگر یمن کے ساتھ جنگ چھڑ جائے تو انہیں 30 زرہیں، 30 نیزے، 30 گھوڑے مسلمانوں کو عاریتا () دینا پڑیں گے اور آپؐ خود اس ساز و سامان کی واپسی کے ضامن ہونگے۔ اس طرح آنحضرتؐ نے صلحنامہ لکھوایا اور عیسائی نجران پلٹ کر چلے گئے۔رسول اللہؐ نے بعدازاں فرمایا: “اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، کہ ہلاکت اور تباہی نجران والوں کے قریب پہنچ چکی تھی؛ اگر وہ میرے ساتھ مباہلہ کرتے تو بےشک سب بندروں اور خنزیروں میں بدل کر مسخ ہوجاتے اور بے شک یہ پوری وادی ان کے لئے آگ کے شعلوں میں بدل جاتی اور حتی کہ ان کے درختوں کے اوپر کوئی پرندہ باقی نہ رہتا اور تمام عیسائی ایک سال کے عرصے میں ہلاک ہوجاتے۔[15]
نصرانیوں کی نجران واپسی کے کچھ عرصہ بعد ہی سید اور عاقب کچھ ہدایا اور عطیات لے کر رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے۔[16]
واقعۂ مباہلہ سے استدلال
تاریخ میں متعدد بار اہل بیتؑ کی حقانیت کے اثبات کے لئے واقعۂ مباہلہ سے استناد و استدلال کیا گیا ہے اور اس واقعے سے استدلال امیرالمؤمنینؑ، امام حسنؑ، امام حسینؑ اور باقی ائمۂ طاہرینؑ و دیگر کے کلام میں ملتا ہے۔ یہاں چند نمونے قارئین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں:
سعد بن ابی وقاص کا استدلال
عامر بن سعد اپنے والد سعد بن ابی وقاص سے نقل کرتے ہیں کہ معاویہ نے سعد سے کہا: تم کیوں علیؑ پر سب و شتم نہیں کرتے ہو؟
سعد نے کہا:
جب تک تین چیزیں میرے ذہن میں ہوں میں کبھی بھی ان پر دشنام طرازی نہیں کروں گا؛ اور اگر ان تین چیزوں میں سے صرف ایک کا تعلق مجھ سے ہوتا تو میں اس کو سرخ بالوں والے اونٹوں سے زیادہ دوست رکھتا”۔ بعد ازاں سعد ان تین باتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: منجملہ یہ کہ جب آیت فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ… نازل ہوئی، تو رسول خداؐ نے علی، فاطمہ اور حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: اللهم هؤلاء اهل بيتي یعنی بار خدایا! یہ میرے اہل بیت ہیں۔[17]
امام موسی کاظمؑ کا استدلال
ہارون عباسی نے امام کاظمؑ سے کہا: آپ یہ کیونکر کر کہتے ہیں “ہم نبیؐ کی نسل سے ہیں حالانکہ نبیؐ کی کوئی نسل نہیں ہے، کیونکہ نسل بیٹے سے چلتی ہے نہ کہ بیٹی سے، اور آپ رسول خداؐ کی بیٹی کی اولاد اولاد ہیں؟
امام کاظمؑ نے فرمایا: مجھے اس سوال کے جواب سے معذور رکھنا۔
ہارون نے کہا: اے فرزند علیؑ، آپ کو اس بارے میں اپنی دلیل بیان کرنا پڑے گی، اور آپ اے موسیؑ! ان کے سربراہ اور ان کے زمانے کے امام ہیں ـ مجھے یہی بتایا گیا ہے ـ اور میں جو کچھ بھی پوچھتا ہوں آپ کو اس کے جواب سے معذور نہيں رکھوں گا حتی کہ ان سوالات کی دلیل قرآن سے پیش کریں؛ اور آپ فرزندان علیؑ دعوی کرتے ہیں کہ قرآن میں کوئی بھی ایسی بات نہیں ہے جس کی تاویل آپ کے پاس نہ ہو، اور اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ (ترجمہ: ہم نے اس کتاب میں کوئی چیز لکھے بغیر نہیں چھوڑی)۔ اور یوں اپنے آپ کو رأی اور قیاس کے حاجتمند نہیں سمجھتے ہیں۔[18]
امام کاظمؑ نے فرمایا: مجھے جواب کی اجازت ہے؟
ہارون نے کہا: کہہ دیں۔
امامؑ نے فرمایا:أَعُوذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ٭ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمـَنِ الرَّحِيمِ وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ كُلاًّ هَدَيْنَا وَنُوحاً هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ٭ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ”۔
ترجمہ: اور ہم نے عطا کیے انہیں اسحاق اور یعقوب، ہر ایک کو ہم نے راستہ دکھایا اور نوح کو اس کے پہلے ہم نے راستہ دکھایا اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسٰی اور ہارون کو اور اسی طرح ہم صلہ دیتے ہیں نیک اعمال رکھنے والوں کو ٭ اور زکریا اور یحیی اور عیسی اور الیاس کو، سب صالحین اور نیکو کاروں میں سے تھے۔[19]عیسیؑ کا باپ کون ہیں؟
ہارون نے کہا: ان کا کوئی بات نہیں؟
امامؑ نے فرمایا:پس خداوند متعال نے مریمؑ کے ذریعے انہیں انبیاءؑ کی نسل سے محلق فرمایا ہے اور ہمیں بھی ہماری والدہ فاطمہؑ کے ذریعے رسول اللہؐ کی نسل سے ملحق فرمایا ہے؛ کیا پھر بھی بتاؤں؟
ہارون نے کہا: کہہ دیں۔
چنانچہ امامؑ نے آیت مباہلہ کی تلاوت فرمائی اور فرمایا:کسی نے بھی یہ نہیں کیا کہ رسول اللہؐ نجران کے نصارٰی کے ساتھ مباہلے کے لئے علی بن ابی طالب، فاطمہ اور حسن و حسین، کے سوا کسی اور کو کساء کے کے نیچے جگہ دی ہے! پس آیت میں ہمارے بیٹوں (“ابنائنا”) سے مراد حسن و حسین، ہماری خواتین (“نسائنا”) سے مراد فاطمہ اور ہماری جانوں (“انفسنا”) سے مراد علی بن ابی طالب ہیں۔[20] [پس خداوند متعال نے آیت مباہلہ میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو رسول اللہؐ کے بیٹے قرار دیا ہے اور یہ صریح ترین ثبوت ہے اس بات کہ امام حسنؑاور امام حسینؑ اہل بیتؑ رسول اللہؐ کی نسل اور ذریت ہیں]۔
امام رضاؑ کا استدلال
مأمون عباسی نے امام رضاؑ سے کہا: امیرالمؤمنینؑ کی عظیم ترین فضیلت ـ جس کی دلیل قرآن میں موجود ہے ـ کیا ہے؟
امام رضاؑ نے کہا: امیرالمؤمنینؑ کی فضیلت مباہلہ میں؛ اور پھر آیت مباہلہ کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا:رسول خداؐ، نے امام حسنؑاور امام حسینؑ ـ جو آپؐ کے بیٹے ہیں ـ کو بلوایا اور حضرت فاطمہؑ کو بلوایا جو آیت میں “نسائنا” کا مصداق ہیں اور امیرالمؤمنینؑ کو بلوایا جو اللہ کے حکم کے مطابق “انفسنا” کا مصداق اور رسول خداؐ کا نفس اور آپؐ کی جان ہیں؛ اور ثابت ہوا ہے کہ کوئی بھی مخلوق رسول اللہؐ کی ذات با برکات سے زیادہ جلیل القدر اور اور افضل نہیں ہے؛ پس کسی کو بھی رسول خداؐ کے نفس و جان سے بہتر نہیں ہونا چاہئے۔
بات یہاں تک پہنچی تو مامون نے کہا: خداوند متعال نے “ابناء” کو صیغہ جمع کے ساتھ بیان کیا ہے جبکہ رسول خداؐ صرف اپنے دو بیٹوں کو ساتھ لائے ہیں، “نساء” بھی جمع ہے جبکہ آنحضرتؐ صرف اپنی ایک بیٹی کو لائے ہیں، پس یہ کیوں نہ کہیں کہ “انفس” کو بلوانے سے مراد رسول خداؐ کی اپنی ذات ہے، اور اس صورت میں جو فضیلت آپؐ نے امیرالمؤمنینؑ کے لئے بیان کی ہے وہ خود بخود ختم ہوجاتی ہے!
امام رضاؑ نے جواب دیا:نہیں، یہ درست نہیں ہے کیونکہ دعوت دینے والا اور بلوانے والا اپنی ذات کو نہیں بلکہ دوسروں کو بلواتا ہے، آمر (اور حکم دینے والے) کی طرح جو اپنے آپ کو نہیں بلکہ دوسروں کو امر کرتا اور حکم دیتا ہے، اور چونکہ رسول خداؐ نے مباہلہ کے وقت علی بن ابیطالبؑ کے سوا کسی اور مرد کو نہیں بلوایا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ علیؑ وہی نفس ہیں جو کتاب اللہ میں اللہ کا مقصود و مطلوب ہے اور اس کے حکم کو خدا نے قرآن میں قرار دیا ہے۔
پس مامون نے کہا: جواب آنے پر سوال کی جڑ اکھڑ جاتی ہے۔[21]
_______________
حوالہ جات:
1. الجوہری، اسمعیل بن حماد، الصحاح، 1407۔ ذیل مادہ بہل۔
2. الزمخشری، محمود، 1415 ق، ج1، ص: 368۔
3. شیرازی، مکارم، تفسیر نمونه، ج2، ص580۔
4. طبرسی، مجمع البیان، انتشارات ناصرخسرو، ج2، ص 762 تا 761۔
5. قرآن کریم، توضیحات و واژه نامه از بهاءالدین خرمشاهی، 1376.ذیل آیه مباهله، ص 57۔
6. الزمخشری، تفسیر الکشاف، ذیل آیه 61 آل عمران۔
7. الرازی، التفسیر الکبیر، ذیل آیه 61 آل عمران۔
8. البیضاوی، تفسیر انوار التنزیل واسرار التأویل، ذیل آیه 61 آل عمران۔
9. قرآن کریم، توضیحات و واژه نامه از بهاءالدین خرمشاهی، 1376، ذیل آیه مباهله، ص 57۔
10. المفید، الارشاد، ج1، صص166-171
11. ابن شهرآشوب، 1376ق، ج 3، ص: 144۔
12. میبدی، کشف الاسرار وعدة الابرار، ج2، ص147۔
13. انصاری، مرتضی، کتاب الطهارة، ج3، قم، کنگره جهانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، صص48-49۔
14. رجوع کریں: ذو الحجہ کے واقعات و اعمال
15. قمی، شیخ عباس، 1374، ج1، صص: 182-184۔
16. الطبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، 1415، ج 2، ص 310۔
17. الطباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل آیت 61 آل عمران؛ المیزان کے مؤلف کے مطابق یہ روایت صحیح مسلم، سنن ترمذی، أبو المؤید الموفق بن أحمد کی “فضائل علی”، ابو نعیم اصفہانی کی “حلیۃ الاولیاء” میں اور حموینی کی “فرائد السمطین” میں بھی نقل ہوئی ہے۔
18. سورہ انعام، انعام 38۔
19. سورہ انعام آیات 83 و 84۔
20. الطباطبائي، سید محمد حسین، وہی ماخذ، صص: 230-229۔
21. المفید، الفصول المختاره، التحقیق: السید میرعلی شریفی، بیروت: دار المفید، الطعبة الثانیة، 1414، ص 38۔