باب: 16 – مہدویت
تاریخ مذاہب عالم کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مذہب یہود ہو یا نصاریٰ ہو یا ہندو یا زرتشت غرض یہ کہ تمام مذاہب و ادیان میں کسی نہ کسی شکل میں ایک عظیم مصلح کے آنے کا نظریہ موجود ہے۔ خصوصاً اہل اسلام کا حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کے عقیدہ پر اتفاق ہے کہ قیامت سے پہلے جب دنیا ظلم و ستم سے بھر جائے گی تو حضرت مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے اور عقل بھی یہی کہتی ہے کہ جس مذہب کی بنیاد خدا کی قدرت اور عدالت پر ہے اس پر ایک ایسا وقت دنیا میں آنا چاہیے کہ جب ظالموں ستم گروں اور باطل پرستوں کا قتل عام کیا جائے اور باطل کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے اور عدل و انصاف کا دور دورہ ہو اور یہ مقصد ظہور امام زمانہؑ ہی سے کماحقہ پورا ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے۔
اگر دنیا کا فقط ایک ہی دن رہ جائے تو خدوند عالم اسے اس قدر لمبا کر دے گا کہ میرے اہل بیتؑ میں سے ایک شخص قیام کرے گا جو میرا ہم نام ہو گا جو زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح وہ پہلے ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔
دنیا کو ہے اس مہدیؑ برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ زلزلہ عالم افکار
ہر زمانے میں حجت خدا کا ہونا ضروری ہے
اللہ تعالیٰ نے موجودہ عالم کو ایسے قانون اور نظام کے تحت بنایا ہے کہ اس کی ہر چیز علل و اسباب کی پابند ہے صحت و مرض، موت و حیات، فقر و امیری میں یہی قانون جاری ہے کہ ہر چیز اپنے مخصوص علت اور سبب کی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔ اور یہ سلسلہ تمام مادیات و غیر مادیات کو شامل ہے۔ لہٰذ ا اس سنت کے تحت خدائے حکیم نے اس عالم کی بقاء کی خاطر اپنی حجت (یعنی نبی اور امام) کے وجود کے ساتھ منحصر کر دیا ہے۔ اگر ایک لمحہ کے لیے بھی حجت خدا زمین سے اٹھ جائے تو نظام کائنات درہم برہم ہو جائے۔
اس طرح کی متعدد روایات اس مطلب پر شاہد ہیں جیسا کہ اصول کافی میں حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام سے حدیث منقول ہے کہ اگر حجت خدا کا وجود نہ ہو تو دنیا اپنے اہل سمیت دھنس جائے۔
اسی طرح آپؐ کا فرمان ہے:
میرے اہل بیتؑ زمین والوں کو ہلاکت سے بچانے کا سبب ہیں جس طرح ستارے اہل آسمان کے لیے باعث امان ہیں۔
اسی طرح صادق آل محمدؑ فرماتے ہیں
اگر بالفرض تمام روئے زمین پر صرف دو ہی شخص رہ جائیں تو ان میں ضرور ایک حجت خدا ہو گا کیونکہ حجت خدا کے بغیر کوئی شخص زندہ نہیں رہ سکتا۔ حجت خدا کا وجود مخلوق سے قبل مخلوق کے ساتھ اور مخلوق کے بعد ہونا ضروری ہے۔
اور بالاتفاق وہ بابرکت ہستی جناب حضرت مہدی دوراں صاحب العصر والزمان عج اللہ فرجہ الشریف کی ہے اور کوئی نہیں ہے۔ جس طرح کہ حدیث میں وارد ہے اس کے صدقے سے ہی رزق مل رہا ہے۔
اگر کوئی یہ اشکال کرے کہ امام نظر کیوں نہیں آتے؟ تو جواب یہ ہو گا کہ ہر موجود چیز کے لیے نظر آنا ضروری نہیں ہے۔ خدا نظر نہیں آتا کیا توحید کا انکار کر دیں؟ نہیں بلکہ غیب پر تو ایمان رکھنا متقیوں کی علامت ہے۔ اسی طرح انسان اپنی عقل نہیں دیکھ سکتا مگر اسے یقین ہے کہ اللہ نے اسے عقل کی نعمت عطا کی ہے۔ ایمان بالغیب رکھتے ہیں۔
اسی طرح یہ سوال بھی ہو سکتا ہے کہ جب امامؑ غائب ہیں تو ان کے وجود کا کیا فائدہ؟ سوال کا بہت ہی سادہ جواب ہے کہ امام کے وجود کا فائدہ فقط یہ نہیں کہ وہ دینی مسائل کو بیان کریں۔ بلکہ امام کے وجود کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انہی کے وجود اقدس سے یہ ساری کائنات باقی ہے۔ اس لیے امام کا وجود بہت ضروری ہے۔
جب اعتراض کرنے والا یہ اعتراض کرتا ہے کہ امام غائب ہو کر ہماری ہدایت نہیں کر سکتے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ہدایت دینے والا آپ کو نظر بھی آرہا ہو جیسے خدا ہدایت دیتا ہے لیکن نظر نہیں آتا اسی طرح گمراہ کرنے والے کے لیے بھی نظر آنا ضروری نہیں جیسے شیطان گمراہ کرتا ہے اور ہمیں نظر نہیں آتا۔ پس امامؑ مخفی اور غائب رہ کر بھی ہماری ہدایت کر سکتے ہیں۔ جب خود امام العصر ؑسے پوچھا گیا کہ آپؑ کی غیبت کے زمانہ میں آپؑ کے وجود مبارک سے لوگ کس طرح استفادہ کریں گے؟ تو امامؑ نے فرمایا: جس طرح لوگ سورج سے فائدہ حاصل کرتے ہیں جبکہ وہ بادلوں کے پیچھے غائب ہوتا ہے۔