یَعْقُوب یا اسرائیل حضرت اسحاقؑ کے بیٹے، حضرت ابراہیمؑ کے پوتے اور ان انبیائے الہی میں سے ہیں جن کے اسما قرآن مجید میں ذکر ہوئے ہیں۔

شیعہ مفسرین کے مطابق اسرائیل، عبداللہ کے معنی میں ہے؛ جبکہ توریت کے مطابق انہیں فرشتہ کو شکست دینے کی وجہ سے یعقوب نام دیا گیا ہے۔ اسلامی منابع میں غیر خدا سے توسل کے جواز کے اثبات کے سلسلہ میں حضرت یوسف کے بھائیوں کا حضرت یعقوب کے واسطہ قرار دینے کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ اسی طرح سے بعض نے اسلام سے پہلے دو بہنوں کے ساتھ شادی کے جواز میں ان کی شادی سے استناد کیا ہے۔ انہوں نے 147 برس کی عمر میں مصر میں وفات پائی اور ان کی وصیت کے مطابق ان کے جنازہ کو مصر سے منتقل کرکے فلسطین کے شہر الخلیل (حبرون) کے غار مکفیلہ میں دفن کیا گیا۔

شخصیت و خاندان

حضرت یعقوبؑ، حضرت اسحاقؑ کے بیٹے، حضرت ابراہیمؑ کے پوتے اور انبیائے الہی میں سے تھے۔[1] وہ فدان آرام نامی شہر میں اپنے ماموں کے پاس گئے اور کچھ عرصے تک وہاں چوپانی میں مشغول رہے اور وہیں انہوں نے اپنے ماموں کی دو بیٹیوں سے شادی کی۔[2] البتہ قرآن کریم کی آیات کے مطابق، دو بہنوں سے شادی اسلام سے پہلے جائز تھی۔[3] البتہ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے دوسری بہن کے ساتھ شادی پہلی بہن کے انتقال کے بعد کی تھی۔

ان کے بارہ فرزند تھے جن میں سے حضرت یوسف و بنیامین کی ماں راحیل تھیں۔[4] اسی طرح سے قرآن کریم نے ان کے نابینا ہونے کی داستان کا اس طرح سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے فرزند یوسف کے گم ہو جانے کے بعد ان کے فراق میں سالہا اس قدر گریہ کیا کہ ان کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی۔[5]

یعقوب کی ولادت کی بشارت

خداوند عالم نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم (ع) کو حضرت اسحاق و حضرت یعقوب کی ولادت کی بشارت دی ہے۔[6] قران کے 10 سورہ میں 16 مرتبہ کلمہ یعقوب ذکر ہوا ہے اور سورہ آل عمران و سورہ مریم میں دو بار اسرائیل نام ذکر ہوا ہے۔[7] طبرسی نے تفسیر مجمع البیان میں اسرائیل کو یعقوب تسلیم کیا ہے اور ان کے بقول اسرا یعنی عبد و ئیل یعنی اللہ گویا اسرائیل عبد اللہ کے معنی میں ہے۔[8]

اسی طرح سے قرآن کریم نے یعقوب کے بیٹوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے: جس وقت حضرت یوسف کے بھائی اپنی غلطی پر نادم ہوئے تو انہوں نے بجای اس کے وہ خدا سے طلب عفو کرتے انہوں نے حضرت یعقوب کو واسطہ قرار دیا اور ان کے گزارش کی وہ اللہ سے ان کے لئے طلب مغفرت کریں۔[9]

خدا سے یعقوب کی شکایت

شیعہ روایات میں اپنے فرزند حضرت یوسف کے فراق میں حضرت یعقوب کے غم و اندوہ کا سبب جناب یعقوب و ان کے اہل خانہ کی طرف سے بھوکے فقیر کی درخواست پر توجہ نہ کرنا قرار دیا گیا ہے۔[10] بعض دیگر روایات میں ان کے صبر و شکایت کی طرف اشارہ ہوا ہے اور حضرت یعقوب سے ایک دعا نقل ہوئی ہے جس میں وہ کہتے ہیں: میں اپنے غم و اندوہ کو فقط خدا سے بیان کرتا ہوں۔ اسے مطلوب صبر کے معنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ صبر یعنی یہ کہ انسان اپنی سختی و مشکل کو عوام سے بیان نہ کرکے صرف اللہ سے بیان کرے۔ جیسا کہ حضرت یعقوب نے دعا میں بیان کیا کہ میں اپنی مشکلات کی شکایت فقط اللہ سے کرتا ہوں۔[11]

اسرائیل کی توریت

توریت نے حضرت یعقوب کے بارے میں مختلف داستان نقل کی ہے۔ ان میں سے ایک داستان وہ ہے جس میں انہیں اسرائیل کا نام دیا گیا۔ توریت میں ذکر ہوا ہے کہ فرشتہ الہی نے حضرت یعقوب سے کشتی لڑنے کے بعد ان سے کہا: صبح ہونے والی مجھے جانا ہوگا، یعقوب نے کہا: ہرگز میں جانے نہیں دوں گا مگر یہ کہ تم میرے لئے دعا کرو۔ فرشتے نے ان سے پوچھا: تہمارا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یعقوب، اس نے کہا چونکہ تم میں انسان میں اور فرشتہ میں کشمکش رہی اور تم جیت گئے اس لئے اب سے تمہارا نام یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہوگا۔[12]

وفات و مقام دفن

ان کے فرزند جناب یوسف کے مل جانے کے بعد انہوں نے مصر کی طرف ہجرت کی اور کچھ مدت تک وہیں زندگی بسر کی۔[13] انہوں نے اپنی وفات سے قبل اپنے تمام بیٹوں کو جمع کیا اور انہیں ان کے جد کے دین و مذہب کی نصیحت کی اور ان سے اس کا اقرار لیا۔[14]

147 برس کی عمر میں انہوں نے وفات پائی[15] اور ان کی وصیت کے مطابق ان کے جنازہ کو مصر سے فلسطین منتقل کیا گیا اور وہاں شہر الخلیل (حبرون) میں مکفیلہ نامی غار میں دفن کیا گیا۔[16]

_______________________

حوالہ جات :

  1. شوقی ابوخلیل، اطلس قرآن، ۱۳۸۹ش، ص ۶۸.
  2. مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ۱۳۶۸ش، ج ۱۴، ص ۲۵۲.
  3. سوره نساء، آیہ ۲۳.
  4. جزایری، داستان پیامبران، ۱۳۸۰ش، ص ۳۰۴.
  5. سوره یوسف، آیہ ۸۴
  6. سوره انعام، آیہ ۸۴.
  7. شوقی ابوخلیل، اطلس قرآن، ۱۳۸۹ش، ص ۶۸.
  8. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج ۱، ص ۲۰۶.
  9. سوره نساء، آیہ ۶۴
  10. حر عاملی، الجواهر السنیة فی الأحادیث القدسیة، ۱۳۸۰ش، ص ۵۴.
  11. طبرسی، مشکاة الأنوار، ۱۳۷۹ش، ص ۵۸۵.
  12. کتاب مقدس، کتاب پیدایش، سوره ۳۲، آیات ۲۷- ۲۹.
  13. شوقی ابوخلیل، اطلس قرآن، ۱۳۸۹ش، ص ۶۹.
  14. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج ۱، ص ۴۶۲.
  15. مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ۱۳۶۸ش، ج ۱۴، ص ۲۵۲.
  16. شوقی ابوخلیل، اطلس قرآن،۱۳۸۹ش، ص ۶۹.

 

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے