ابو الحسن علی بن موسی الرضا (148-203ھ)، امام رضا علیہ السلام کے نام سے معروف، شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔ امام محمد تقیؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق امام رضا علیہ السلام کو “رضا” کا لقب خدا کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ اسی طرح آپ عالم آل محمد کے نام سے بھی مشہور ہیں۔

امام رضاؑ 183ھ سے 20 سال کی مدت تک منصب امامت پر فائز رہے۔ آپ کی امامت تین عباسی خلفاء ہارون الرشید (10 سال)، محمد امین (تقریبا 5 سال) اور مأمون عباسی (5 سال) کی حکومت پر محیط تھی۔

امام رضاؑ عباسی خلیفہ مامون کے حکم پر خراسان کا سفر کرنے سے پہلے مدینہ میں مقیم تھے۔ 200 یا 201ھ کو مامون کے حکم پر آپ کو مدینہ سے خراسان لایا گیا اور مامون کی ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ امامؑ نے مدینہ سے خراسان جاتے ہوئے نیشاپور کے مقام پر ایک حدیث ارشاد فرمائی جو حدیث سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور ہے۔ مامون نے اپنے خاص مقاصد کی خاطر مختلف ادیان و مذاہب کے اکابرین کے ساتھ آپ کے مناظرے کروائے جس کے نتیجے میں یہ سارے اکابرین آپ کی فضیلت کے معترف ہوئے۔ ان مناظروں میں سے بعض طبرسی کی کتاب الاحتجاج میں نقل ہوئے ہیں۔

مشہور یہ ہے کہ امام رضاؑ 203ھ ماہ صفر کے آخری ایام میں 55 سال کی عمر میں مأمون عباسی کے ہاتوں شہر طوس میں شہادت کے عظیم مقام پر فائز ہوئے اور آپ کو شہر طوس کے ایک گاؤں سناباد میں بقعہ ہارونیہ میں دفن کیا گیا۔ اس وقت امام رضا کا حرم ایران کے شہر مشہد میں لاکھوں مسلمانوں کی زیارت گاہ ہے۔

نسب، کنیت اور لقب

آپ کا نسب علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی‌ طالب، کنیت ابو الحسن اور سب سے زیادہ مشہور لقب “رضا” ہے۔ بعض منابع میں آیا ہے کہ آپ کو یہ لقب مأمون نے دیا تھا؛[1] لیکن امام محمد تقیؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ کا یہ لقب خداوند عالم کی طرف سے آپ کے والد ماجد حضرت امام کاظمؑ کی طرف الہام ہوا تھا۔[2] صابر، رضی اور وفی آپ کے دیگر القاب میں سے ہیں۔[3] اسی طرح آپؑ عالم آل محمد کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امام کاظمؑ اپنے دوسرے بیٹوں سے کہا کرتے تھے: “تمہارا بھائی علی، عالم آل محمد ہیں”۔[4]

انگشتری کا نقش

امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی انگشتری کے لئے ایک نقش منقول ہے: “ما شاءَ اللہُ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ  (ترجمہ: وہی ہوتا ہے جو خدا چاہے، نہیں کوئی قوت سوائے خدائے بلند و برتر کے۔)”[5]

ولادت اور شہادت

آپ کی تاریخ پیدائش جمعرات یا جمعہ 11 ذی القعدہ، ذی‌ الحجہ یا ربیع الاول 148 یا 153ھ نقل ہوئی ہے۔[6] کلینی نے آپ کی تاریخ پیدائش سنہ 148ھ ذکر کی ہیں۔[7] اور اکثر علماء و مورخین اس بات میں شیخ کلینی کے ہم عقیدہ ہیں۔[8]

آپ کی شہادت کے بارے میں بھی مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اسی بنا پر بروز جمعہ یا پیر، ماہ صفر کی آخری تاریخ، یا 17 صفر، 21 رمضان، 18 جمادی‌الاولی، 23 ذی القعدہ، یا ذی القعدہ کی آخری تاریخ سنہ 202، 203 یا 206 نقل ہوئی ہیں۔[9] کلینی کے مطابق آپ صفر کے مہینے میں سنہ 203 ہجری میں 55 سال کی عمر میں شہادت کے مقام پر فائز ہوئے ہیں۔[10] اکثر علماء اور مورخین کے مطابق آپؑ کی شہادت سنہ 203 ہجری میں واقع ہوئی ہے۔[11] طبرسی آپؑ کی شہادت کو ماہ صفر کی آخری تاریخ میں نقل کرتے ہیں۔[12]

ولادت و شہادت کی تاریخ میں اختلاف کی وجہ سے آپ کی عمر مبارک کے بارے میں بھی علماء و مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اسی بنا پر آپ کی عمر 47 سال سے 57 سال تک ذکر کیا گیا ہے۔[13] اکثر علماء اور مورخین کے مطابق آپ کی عمر شہادت کے وقت 55 سال تھی۔

والدہ

امام رضاؑ کی مادر گرامی نوبہ کی رہنے والی ایک کنیز تھیں۔[14] آپ کو تاریخی منابع میں مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب آپ امام کاظمؑ کی ملکیت میں آگئیں تو امام نے آپ کا نام تکتم رکھا[15] اور جب امام رضاؑ کی ولادت ہوئی تو امام کاظمؑ نے آپ کو طاہرہ کے نام سے یاد کرنے لگے۔[16] شیخ صدوق کہتے ہیں کہ بعض مورخین نے امام رضاؑ کی والدہ گرامی کو سَکَن نوبیہ کے نام سے یاد کیا ہے۔ اسی طرح آپ کو اروی، نجمہ اور سمانہ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے آپ کی کنیت ام البنین تھی۔[17]

ایک روایت میں آیا ہے کہ امام رضاؑ کی مادر گرامی نجمہ، ایک پاک و پاکیزہ اور پرہیزگار کنیز تھیں جنہیں امام کاظمؑ کی والدہ حمیدہ نے خرید کر اپنے بیٹے کو بخش دیا تھا جس کے بعد جب امام رضاؑ کی ولادت ہوئی تو آپ کا نام طاہرہ رکھا گیا۔”[18]

ازواج

آپ کی ایک زوجہ کا نام سبیکہ [19] تھا جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ ام المؤمنین ماریہ قبطیہ کے خاندان سے تھیں۔[20]

بعض دیگر منابع میں سبیکہ کے علاوہ ایک زوجہ کا بھی ذکر ملتا ہے: مامون عباسی نے امام رضاؑ کو اپنی بیٹی ام حبیب سے شادی کی تجویز دی جسے امامؑ نے قبول کیا۔ طبری نے اس واقعے کو سنہ 202 ہجری کے واقعات کے ضمن میں بیان کیا ہے۔[21] اس کام کے ذریعے مامون زیادہ سے زیادہ امام رضاؑ کے نزدیک ہونا چاہتا تھا تاکہ آپ کے گھر میں رسوخ پیدا کرکے آپ کے خفیہ منصوبوں سے باخبر ہوتا رہے۔[22] سیوطی نے بھی امام رضاؑ سے مامون کی بیٹی کی تزویج کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن اس کا نام ذکر نہيں کیا ہے۔[23]

اولاد

امام رضاؑ کی اولاد کی تعداد اور ان کے اسماء کے بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے آپ کے پانچ بیٹے ہیں: “محمد قانع، حسن، جعفر، ابراہیم، حسین اور ایک بیٹی: عائشہ” کا ذکر کیا ہے۔[24] سبط بن جوزی نے آپ کے چار بیٹے: “محمد تقی (ابو جعفر ثانی)، جعفر، ابو محمد حسن، ابراہیم، اور ایک بیٹی کا تذکرہ کیا ہے لیکن اس کا کا نام ذکر نہیں کیا ہے۔[25] کہا گیا ہے کہ امامؑ کے ایک بیٹے جو دو سال یا اس سے کم عمر میں وفات پا چکے تھے، “قزوین” میں مدفون ہیں جو اس وقت امام زادہ حسین کے نام سے مشہور ہیں۔ ایک روایت کے مطابق سنہ 193 ہجری میں امام رضاؑ نے قزوین کا سفر کیا۔[26] شیخ مفید، امام رضاؑ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ نے ابو جعفر محمد بن علی التقی الجواد جو آپ کے بعد (نویں) امام تھے، کے سوا کوئی اولاد نہيں چھوڑی جن کی عمر سات سال اور چند مہینے تھی۔[27] ابن شہر آشوب اور امین الاسلام طبرسی، کی رائے بھی یہی ہے۔[28] بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپ کی ایک بیٹی بھی تھیں جن کا نام فاطمہ تھا۔[29]

امامت

امام رضاؑ اپنے والد ماجد امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد 20 سال (183-203 ھ) تک امامت کے عہدے پر فائز رہے۔ آپ کی امامت کے ابتدائی دور میں ہارون رشید خلافت پر قابض تھا اس کے بعد اس کے بیٹے امین نے تین سال اور 25 دن حکومت کی جس کے بعد ابراہیم بن مہدی عباسی المعروف ابن شکلہ نے 14 روز حکومت کی جس کے بعد امین عباسی نے ایک بار پھر اقتدار سنبھال کر ایک سال اور سات مہینے حکومت کی۔ آپؑ کی امامت کے آخری 5 سال مامون عباسی کے دور خلافت میں گذرے ہیں۔[30]

دلائل امامت

متعدد راویوں جیسے: داود بن کثیر الرقي، محمد بن اسحاق بن عمار، علی بن یقطین، نعیم قابوسی، حسین بن مختار، زیاد بن مروان، أبو لبید یا ابو ایوب مخزومي، داؤد بن سلیمان، نصر بن قابوس، داود بن زربی، یزید بن سلیط اور محمد بن سنان وغیرہ نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے امام رضاؑ کی امامت کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں۔[31] اس سلسلے میں بطور مثال بعض احادیث کا تذکرہ کرتے ہیں:

داود رقی کہتے ہیں: میں نے امام موسی کاظمؑ سے پوچھا: … آپ کے بعد امام کون ہے؟ امام کاظمؑ نے اپنے فرزند علی بن موسیؑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میرے بعد یہ تمہارے امام ہیں۔[32]

اس کے علاوہ رسول اللہ ؐ سے متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں 12 ائمۂ معصومین کے اسماء گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سمیت تمام ائمہؑ کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔[33] جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 اطیعوا الله واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے 12 ائمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعت اور اولو الامر ہیں؛[34] امام علیؑ سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کے مصداق ہیں؛[35] ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہ ؐ کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپ ؐ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔[36]

متعدد احادیث اور نصوص کے علاوہ امام رضاؑ اپنے زمانے میں شیعوں کے درمیان مقبولیت عام رکھتے تھے اور علم و اخلاق میں اپنے خاندان کے افراد اور تمام امت کے افراد پر فوقیت اور برتری رکھتے تھے۔ یہ خصوصیات بھی آپ کی امامت کے اوپر دلیل بن سکتی ہیں۔ گوکہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں امامت کا مسئلہ کافی حد تک پیچیدہ ہو چکا تھا لیکن امام کاظم علیہ السلام کے اکثر اصحاب اور پیروکاروں نے امام رضا علیہ السلام کو امام کاظمؑ کا جانشین اور آپ کے بعد امام تسلیم کر لیا تھا۔[37]

امام رضا کے دور میں شیعوں کے اعتقادات

امام کاظمؑ کی شہادت کے بعد شیعوں کی اکثریت نے ساتویں امام کی وصیت اور دوسرے قرائن و شواہد کی بنا پر ان کے بیٹے علی بن موسی الرضاؑ کو آٹھویں امام کے طور پر قبول کر لیا تھا۔ آپؑ کی امامت کو قبول کرنے والے شیعہ جن میں امام کاظمؑ کے بزرگ اصحاب شامل تھے، قطعیہ کے نام سے مشہور تھے۔[38] لیکن امام کاظمؑ کے اصحاب میں سے ایک گروہ نے بعض دلایل کی بنیاد پر علی بن موسی الرضاؑ کی امامت کو قبول کرنے سے انکار کیا اور امام موسی کاظمؑ کی امامت پر توقف کیا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ موسی بن جعفرؑ آخری امام ہیں جنہوں نے کسی کو امام متعین نہیں کیا ہے یا کم از کم ہمیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ یہ گروہ واقفیہ (یا واقفہ) کے نام سے جانے جاتے تھے۔

مدینہ میں آپ کا مقام

امام رضاؑ نے اپنی امامت کے تقریبا 17 سال (183-200 یا 201 ہجری) مدینے میں گزارے جہاں پر آپؑ لوگوں کے درمیان ایک ممتاز مقام کے حامل تھے۔ مأمون کے ساتھ اپنی ولایت عہدی کے بارے میں ہونے والی گفتگو میں امامؑ خود اس بارے میں فرماتے ہیں:

میرے نزدیک اس ولایت عہدی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جس وقت میں مدینے میں ہوتا تھا تو میرا حکم مشرق و مغرب میں نافذ تھا اور جب میں اپنی سواری پر مدینے کے گلی کوچوں سے گزرتا تو لوگوں کے یہاں مجھ سے زیاده محبوب شخصیت کوئی نہیں تھی۔[39]

مدینے میں آپؑ کی علمی مرجعیت کے بارے میں بھی خود امامؑ فرماتے ہیں:

میں مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھتا تھا اور مدینے میں موجود صاحبان علم جب بھی کسی مسئلے میں پھنس جاتے تھے تو میری طرف رجوع کرتے تھے اور اپنے اپنے مسائل کو میری طرف ارجاع دیتے تھے اور میں ان کا جواب دیتا تھا۔[40]

خراسان کا سفر

روایت ہے کہ امام رضاؑ کی مدینہ سے مرو کی طرف ہجرت سنہ 200 ہجری میں انجام پائی۔[41] رسول جعفریان لکھتے ہیں: امام رضاؑ سنہ 201 کو مدینہ میں تھے اور اسی سال رمضان کے مہینے میں مرو پہنچ گئے۔[42] اس قول کے مطابق امام رضاؑ سنہ 201 کو مدینہ میں تھے اور اسی سال رمضان میں مرو پہنچ گئے۔[43]

یعقوبی کے مطابق مامون کے حکم سے امام رضاؑ کو مدینہ سے مرو بلایا گیا۔ امامؑ کو مدینہ سے خراسان لانے کے لئے جانے والا شخص مامون کے وزیر فضل بن سہل کا قریبی رشتہ دار، رجاء بن ضحاک تھا۔ آپ کو بصرے کے راستے مرو لایا گیا۔[44] امامؑ کی مرو منتقلی کے لئے مامون نے ایک خاص راستہ منتخب کیا تھا تا کہ آپ کو شیعہ اکثریتی علاقوں گذرنے نہ دیا جائے، کیونکہ وہ ان علاقوں میں لوگوں کے اجتماعات سے خوفزدہ تھا جو امام کے ان علاقوں میں پہنچنے پر متوقع تھا۔ اس نے حکم دیا تھا کہ امامؑ کو کوفہ کے راستے سے نہیں بلکہ بصرہ، خوزستان اور فارس کے راستے سے نیشابور لایا جائے۔[45] کتاب اطلسِ شیعہ کے مطابق امام رضاؑ کو مرو لانے کے لئے مقررہ راستہ کچھ یوں تھا: مدینہ، نقرہ، ہوسجہ، نباج، حفر ابو موسی، بصرہ، اہواز، بہبہان، اصطخر، ابرقوہ، دہ شیر (فراشاہ)، یزد، خرانق، رباط پشت بام، نیشابور، قدمگاہ، دہ سرخ، طوس، سرخس، مرو.[46]

شیخ مفید کہتے ہیں: مامون نے خاندان ابو طالبؑ کے بعض افراد کو مدینہ سے بلوایا جن میں امام رضاؑ بھی شامل تھے۔ وہ یعقوبی کے برعکس، لکھتے ہیں کہ مامون نے امامؑ کی خراسان منتقلی کے لئے عیسی جلودی کو ایلچی کے طور پر مدینہ بھجوایا تھا اور کہتے ہیں کہ جلودی امامؑ کو بصرہ کے راستے مامون کے پاس لے آیا۔ مامون نے آل ابی طالب کو ایک گھر میں جگہ دی اور امام رضاؑ کو دوسرے گھر میں اور آپ کی تکریم و تعظیم کی۔[47]

مامون کی ولی عہدی

امام رضاؑ کا مرو میں قیام پذیر ہونے کے بعد مأمون نے امام رضاؑ کے پاس اپنا قاصد بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ میں خلافت سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں اور اسے آپ کے حوالے کرتا ہوں، لیکن امامؑ نے اس کی شدید مخالفت کی۔ اس کے بعد مأمون نے آپؑ کو اپنی ولیعہدی کی تجویز دی تو امام نے اسے بھی ٹھکرایا۔ اس موقع پر مأمون نے تہدید آمیز لہجے میں کہا: عمر بن خطاب نے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں سے ایک آپ کے دادا علی بن ابی طالب تھا۔ عمر نے یہ شرط رکھی تھی کہ ان چھ افراد میں سے جس نے بھی مخالفت کی اس کی گردن اڑا دی جائے۔ آپ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ جو کچھ میں آپ سے طلب کر رہا ہوں اسے قبول کریں۔ اس وقت امامؑ نے فرمایا: پس اگر ایسا ہے تو میں قبول کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ میں نے کوئی حکم جاری کروں گا اور نہ کسی کو کسی چیز سے منع کروں گا، نہ کسی چیز کے بارے میں کوئی فتوی دوں گا اور نہ کسی مقدمے کا فیصلہ سناوں گا، نہ کسی کو کسی عہدے پر نصب کروں گا اور نہ کسی کو اس کے عہدے سے عزل کروں گا اور نہ کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹا دوں گا۔ مأمون نے ان شرائط کو قبول کیا۔[50]

مناظرے

امام رضاؑ کو مرو منتقل کرنے کے بعد مامون نے مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے دانشوروں اور امامؑ کے درمیان مختلف مناظرات ترتیب دئے جن میں زیادہ تر اعتقادی اور فقہی مسائل بحث و گتفگو ہوتی تھی۔ ان ہی میں سے بعض مناظرات کو ابو على، فضل بن حسن بن فضل طبرسى، جو امین الاسلام طبرسی کے نام سے معروف ہیں نے کتاب الاحتجاج میں نقل کیا ہے،[51] ان میں سے بعض احتجاجات اور مناظرات کی فہرست کچھ یوں ہے:[52]

• توحید و عدل کے موضوع پر امام رضاؑ کا مناظرہ

• امامت کے موضوع پر امام رضاؑ کا مناظرہ

• سلیمان مروزی کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ

• ابی قرہ کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ

• جاثلیق کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ

• رأس الجالوت کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ

• زرتشتیوں کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ

• صابئین کے زعیم کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ

مناظرات کا تجزیہ

مامون امام رضاؑ کو مختلف مکاتب فکر کے دانشوروں کے ساتھ بحث اور مناظرات میں الجھا کر لوگوں کے درمیان آئمۂ اہل بیت کے بارے میں قائم عمومی سوچ جو انہيں علم لدنی کے مالک سمجھتے تھے، کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ شیخ صدوق لکھتے ہیں: مامون مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے بلند پایہ دانشوروں کو امامؑ کے سامنے لایا کرتا تھا تاکہ ان کے ذریعے امامؑ کے دلائل کو ناکارہ بنا دے۔ یہ سارے کام وہ امامؑ کی علمی اور اجتماعی مقام و منزلت سے حسد کی وجہ سے انجام دیتا تھا۔ لیکن نتیجہ اس کی برخلاف نکل آیا اور جو بھی امام کے سامنے آتا وہ آپ کے علم و فضل کا اقرار کرتا اور آپ کی طرف سے پیش کردہ دلائل کے سامنے لاجواب اور بے بس ہوکر انہیں تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے۔[53]

جب مامون کو اس بات کا علم ہوا کہ ان محفلوں اور مناظروں کا جاری رکھنا اس کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے، تو اس نے امامؑ کو محدود کرنا شروع کیا۔ ابا صلت سے روایت ہے کہ جب مامون کو اطلاع دی گئی کہ امام رضاؑ نے کلامی اور اعتقادی مجالس تشکیل دینا شروع کی ہیں جس کی وجہ سے لوگ آپ کے شیدائی بن رہے ہیں تو اس نے محمد بن عمرو طوسی کی ذمہ داری لگائی کہ وہ لوگوں کو امامؑ کے مجالس دور رکھیں۔ اس کے بعد امامؑ نے مامون کو بد دعا دی۔[54]

نماز عید

امام رضاؑ کو اپنا ولی عہد بنانے کے بعد (7 رمضان سنہ 201 ہجری) عید کے موقع پر (بظاہر اسی رمضان کی عید فطر) مأمون نے امام رضاؑ سے کہا کہ جاکر نماز عید پڑھائیں۔ لیکن امامؑ نے ولیعہدی کے لئے مقرر کردہ شرائط کا حوالہ دے کر مأمون سے کہا کہ “مجھےاس کام سے معاف رکھو”۔ مامون نے اصرار کیا چنانچہ امامؑ کو قبول کرنا پڑا اور فرمایا: ٹھیک ہے تو میں پھر رسول اللہؑ کی طرح نماز عید قائم کروں گا۔ مامون نے بھی امام کی شرط مان لی۔
لوگوں کو توقع تھی کہ امام رضاؑ بھی دوسرے خلفاء کی طرح خاص قسم کے آداب و رسوم کے ساتھ نماز کے لئے نکلیں گے لیکن سب نے حیرت کے ساتھ دیکھا کہ امامؑ ننگے پاؤں تکبیر کہتے ہوئے گھر سے باہر آئے؛ سرکاری اہلکار جو اس طرح کے مراسمات کے لئے رائج لباس پہن کر آئے تھے، یہ حالت دیکھ کر اپنی سواریوں سے نیچے آئے اور سب نے اپنے جوتے اتار لئے اور روتے ہوئے اور اللہ اکبر کہتے ہوئے امامؑ کے پیچھے پيجھے [عیدگاہ کی طرف] روانہ ہوئے۔ امامؑ ہر قدم پر تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ فضل بن سہل نے مامون سے کہا: اگر امام رضاؑ اسی حالت میں عید گاہ پہنچ جائیں تو لوگ انکے شیدائی بن جائیں گے۔ پس بہتر ہے کہ امام سے کہیں کہ وہ واپس آجائیں۔ چنانچہ مامون نے اپنا ایک ایلچی روانہ کرکے امامؑ سے واپس آنے کی خواہش کی۔ چنانچہ امامؑ نے اپنے جوتے منگوائے اور اپنی سواری پر بیٹھ کر واپس چلے آئے۔[55]

شہادت

تاریخی منابع میں امام رضاؑ کی شہادت سے متعلق مختلف اقوال ذکر ہوئیں ہیں:

• چنانچہ تاریخ یعقوبی میں آیا ہے کہ مامون سنہ 202 میں عراق روانہ ہوا اس سفر میں علی بن موسی الرضا اور فضل بن سہل بھی ان کے ساتھ تھے؛ [56] جب طوس پہنچے تو سنہ 203 ہجری کے اوائل میں امام رضاؑ بیمار ہوئے اور صرف تین دن بعد “نوقان” نامی محلے میں وفات پائی۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ علی بن ہشام نے آپ کو زہریلا انار کھلا کر مسموم کیا اور مامون نے اس واقعے پر سخت بےچینی کا اظہار کیا۔ یعقوبی مزید لکھتے ہیں: “مجھ سے ابو الحسن بن ابی عباد نے کہا: میں نے دیکھا مامون سفید قبا پہنے، سر برہنہ، تابوت کے دستوں کے بیچ جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا: آپ کے بعد میں کس سے سکون پاؤںگا۔ مامون نے تین دن تک قبر کے پاس قیام کیا اور ہر روز ایک روٹی اور تھوڑا سا نمک اس کے پاس لایا جاتا تھا اور یہی اس کا کھانا تھا اور چوتھے روز وہاں سے واپس آیا۔[57]

• شیخ مفید روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن بشیر نے کہا: مجھے مامون نے حکم دیا کہ اپنے ناخن نہ تراشوں تاکہ معمول سے زیادہ بڑھ جائیں اور اس کے بعد اس نے مجھے تمر ہندی (املی) جیسی چیز دے دی اور کہا کہ اسے اپنے ہاتھوں سے گوندہ لوں۔ اس کے بعد مامون امام رضاؑ کے پاس گیا اور مجھے آواز دے کر بلوایا اور کہا کہ انار کا شربت نکالو۔ میں نے انار کو دباکر شربت نکالا اور مامون نے وہی شربت امامؑ کو پلایا اس کے دو روز بعد امامؑ رحلت کرگئے۔[58]

• شیخ صدوق نے اس سلسلے میں بعض روایتیں نقل کی ہیں جن میں سے بعض میں ہے کہ زہریلے انگور جبکہ بعض میں زہریلے انار اور انگور دونوں کا ذکر ہے۔[59] جعفر مرتضی حسینی، نے امام رضاؑ کے انتقال کے متعلق 6 نظریات بیان کی ہیں۔[60]

• چوتھی صدی ہجری کے محدث اور رجال شناس ابن حبّان نے “علی بن موسی الرضا” کے نام کے ذیل میں لکھا ہے: علی بن موسی الرضا اس زہر کے نتیجے میں وفات پاگئے جو مامون نے انہیں کھلایا تھا۔ یہ واقعہ روز شنبہ آخرِ صفر المظفر سنہ 203ہجری کو پیش آیا۔[61]

شہادت کی پیشین گوئیاں اور زیارت کا ثواب

رسول اللہؐ نے فرمایا: بہت جلد میرے وجود کا ایک ٹکڑا خراسان میں دفن ہوگا، جس نے اس کی زیارت کی خداوند متعال جنت کو اس پر واجب اور جہنم کی آگ اس کے جسم پر حرام کرے گا۔[62]

امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بہت جلد میرا ایک فرزند خراسان میں مسموم کیا جائے گا جس کا نام میرا نام ہے اور اس کے باپ کا نام موسی بن عمرانؑ کا نام ہے۔ جس نے غریب الوطنی میں اس کی زیارت کی خداوند اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دے گا خواہ وہ ستاروں اور بارش کے قطروں اور درختوں کے پتوں جتنے ہی کیوں نہ ہوں۔ [63]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: خداوند میرے بیٹے موسی کو ایک فرزند عطا کرے گا جو طوس میں مسموم کرکے شہید کیا جائے گا اور غریب الوطنی میں دفن کیا جائے گا۔ جو اس کے حق کو پہچانے اور اس کی زیارت کرے خداوند متعال اس کو ان لوگوں کا ثواب عطا کرے گا جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے انفاق کیا ہے اور خیرات دی ہے اور جہاد کیا ہے۔[64]

شہادت کے علل و اسباب

مأمون نے امام کو کیوں قتل کروایا؟ اس حوالے سے مختلف علل و اسباب ذکر کئے گئے ہیں:

• مختلف ادیان و مذاہب کے دانشوروں کے ساتھ ہونے والے مناظروں میں امامؑ کی برتری اور فوقیت؛[65]

• امام رضاؑ کی اقتداء میں نماز عید ادا کرنے کیلئے لوگوں کا جوق در جوق شرکت؛ اس واقعے سے مامون بہت خائف ہوا اور سجھ گیا تھا کہ امام رضاؑ کو ولیعہد بنانا اس کی حکومت کیلئے کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اس نے امامؑ کی نگرانی کرنا شروع کیا کہ کہیں اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کرے۔[66]

• دوسری طرف سے امامؑ مامون سے کسی خوف و خطر کا احساس نہیں فرماتے تھے اسی وجہ سے اکثر اوقات ایسے جوابات دے دیتے تھے جو مامون کیلئے سخت ناگوار گذرتے تھے۔ یہ چیز مامون کو امام کے خلاف مزید بھڑکانے اور امام کے ساتھ مامون کی دشمنی کا باعث بنتی تھی اگرچہ مامون اس کا برملا اظہار نہیں کرتا تھا۔[67] چنانچہ منقول ہے کہ مأمون ایک عسکری فتح کے بعد خوشی کا اظہار کر رہا تھا کہ امامؑ نے فرمایا: اے امیر الممؤمنین! امت محمد اور اس چیز سے متعلق خدا سے ڈرو جسے خدا نے تیرے ذمے لگائی ہے، تم نے مسلمانوں کے امور کو ضائع کر دیا ہے۔[68]

حرم

امام رضاؑ کی شہادت کے بعد مامون نے آپ کو سناباد نامی محلے میں واقع حمید بن قحطبۂ طائی کے گھر (بقعۂ ہارونیہ) میں سپرد خاک کیا۔[69] اس وقت حرم رضوی ایران کے شہر مشہد میں واقع ہے جہاں ایران اور دوسرے مسلمان ممالک سے سالانہ لاکھوں مسلمان زیارت کیلئے آتے ہیں۔[70]

عبادات میں آپ کی سیرت

امام رضاؑ کی عملی سیرت میں آیا ہے کہ آپؑ مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے دانشوروں کے ساتھ ہونے والے گرما گرم مناظرات کے دوران بھی جیسے ہی اذان سنائی دیتی مناظرے کو متوقف فرماتے تھے اور جب مناظرے کو جاری رکھنے سے متعلق لوگ اصرار کرتے تو فرماتے: نماز پڑھ کر دوبارہ واپس آتا ہوں۔[71] رات کی تاریکی میں عبادات کی انجام دہی اور آپؑ کی شب بیداری سے متعلق متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔[72] دعبل خزاعی کو اپنا کرتہ ہدیہ کے طور پر دیتے وقت اس سے مخاطب ہو کر فرمایا: اس کرتے کی حفاظت کرو! میں نے اس کرتے میں ہزار راتوں میں ہزار رکعت نماز اور ہزار ختم قرآن انجام دیئے ہیں۔[73] آپ کے طولانی سجدوں کے بارے میں بھی روایات نقل ہوئی ہیں۔[74]

اخلاق میں آپ کی سیرت:

لوگوں کے ساتھ آپؑ کی حسن معاشرت کے متعدد نمونے تاریخ میں نقل ہوئے ہیں۔ حتی مامون کی ولیعہدی قبول کرنے کے بعد بھی غلاموں اور ماتحتوں کے ساتھ محبت آمیز رویہ اختیار کرنا اور ان کو دسترخوان پر ساتھ بٹھانا[75] اس سلسلے کی چند ایک مثالیں ہیں۔ابن شہرآشوب نقل کرتے ہیں کہ ایک دن امامؑ حمام تشریف لے گئے اور وہاں پر موجود افراد میں سے ایک جو امام کو نہیں پہچانتا تھا، امام سے مالش کرنے کی درخواست کی جسے آپ نے قبول فرمایا اور مالش کرنا شروع کیا جب لوگوں نے یہ دیکھا تو اس شخص کیلئے آپ کی معرفی کی، جب وہ شخص اپنے کیے پر شرمندہ ہوا اور مغذرت خواہی کی تو امام نے اسے خاموش کرایا اور مالش جاری رکھی۔[76]

تربیتی امور میں آپ کی سیرت:

آپؑ کی سیرت میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے خاندان کے کلیدی کردار پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اسی تناظر میں صالح اور نیک بیوی سے شادی کی ضرورت،[77] حمل کے ایام میں خصوصی توجہ،[78] اچھے ناموں کا انتخاب،[79] اور بچوں کے احترام[80] وغیرہ پر تاکید ہوئی ہے۔

اسی طرح رشتہ داروں کے ساتھ رفت و آمد اور ان کے ساتھ انس پیدا کرنا بھی آپ کی سیرت میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے منقول ہے کہ جب بھی امام کو فراغت حاصل ہوتی تو آپ اپنے رشتہ داروں؛ چھوٹے بڑے سب کو جمع کرتے اور ان کے ساتھ گفتگو میں مشغول ہوتے تھے۔[81]

تعلیم و تعلم میں آپ کی سیرت:

مدینے میں قیام کے دوران امام رضاؑ مسجد نبوی میں تشریف فرما ہوتے اور مختلف سوالات اور مسائل میں جواب دینے سے عاجز آنے والے حضرات آپ سے رجوع کرتے تھے۔[82] “مرو” پہنچنے کی بعد بھی مناظرات کی شکل میں بہت سارے شبہات اور سوالوں کے جواب مرحمت فرماتے تھے۔ اس کے علاوہ امامؑ نے اپنی اقامت گاہ اور مرو کے مسجد میں ایک حوزہ علمیہ بھی قائم کیا ہوا تھا لیکن جب آپ کی علمی محفل رونق پیدا کرنے لگا تو مامون نے انقلاب کے خوف سے ان محفلوں پر پابندی لگا دی جس پر آپ نے مامون کو بد دعا دی۔[83]

طب اسلامی اور حفظان صحت کے اصولوں پر خصوصی توجہ دینا امام رضاؑ کی احادیث میں نمیاں طور پر دیکھا جاتا سکتا ہے۔ ان احادیث میں اسی موضوع سے مربوط مفاہیم کی تبیین کے ساتھ ساتھ پرہیز، مناسب خوراک، حفظان صحت کی رعایت اور مختلف بیماریوں کے علاج کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے۔ رسالہ ذہبیہ نامی کتاب طب الرضا کے نام سے آپ کی طرف منسوب ہے جس میں اس حوالے سے مختلف تجاویز پائی جاتی ہیں۔

امامت کی بحث میں تقیہ نہ کرنا:

امام رضاؑ کے دور امامت میں کسی حد تقیہ کی خاص ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی؛ کیونکہ واقفیہ کی پیدائش جیسے واقعے نے شیعوں کو ایک سنگین خطرے سے دوچار کیا تھا۔ اس کے علاوہ فطحیہ فرقے کے بچے کھچے افراد بھی امام رضاؑ کے دور امامت میں فعال تھے۔

ان شرایط کو مد نظر رکھتے ہوئے امامؑ نے کسی حد تک تقیہ کی حکمت عملی اپنانے سے پرہیز کرتے ہوئے امامت کے مختلف ابعاد کو صراحت کے ساتھ بیان فرماتے تھے۔ مثلا امام کی اطاعت کا واجب ہونا، اگرچہ امام صادقؑ کے دور سے دینی اور کلامی محافل میں مطرح ہوتے تھے لیکن اس مسلئے میں ائمہ معصومین تقیہ کرتے تھے۔ لیکن امام رضاؑ جیسا کہ احادیث میں آیا ہے “ظالم و جابر حکمرانوں سے کسی خوف کا احساس کئے بغیر” اپنے آپ کو واجب الطاعۃ امام معرفی کرتے تھے۔[84] جیسا کہ “علی بن ابی حمزہ بطائنی” (جو کہ واقفیہ کے بنیاد گزاروں میں سے تھا)‌ نے جب امام سے سوال کیا: آیا کیا آپ واجب الاطاعت امام ہیں؟ تو امام نے فرمایا: ہاں (کشی، ۱۳۴۸، ص۴۶۳) اسی طرح ایک اور شخص جس نے یہی سوال دہراتے ہوئے کہا: کیا آپ علی بن ابی طالب (ع) کی طرح واجب الاطاعت ہیں؟ نیز آپ نے یہی جواب دیا ہاں میں اسی طرح واجب الاطاعت ہوں(کلینی، (۱۳۶۳ش)، ج۱، ص۱۸۷) لیکن ساتھ ساتھ امامؑ اپنے چاہنے والوں سے فرماتے تھے کہ تقوا اختیار کرو اور ہماری احادیث کو ہر کس و ناکس کے سامنے بیان کرنے سے پرہیز کرو۔[85]

اسی طرح جب مأمون نے امامؑ سے اسلام ناب محمدی کے بارے میں بتانے کا مطالبہ کیا تو آپ نے توحید اور پیغمبر اسلام کی نبوت کے بعد امام علیؑ کی جانشینی پھر آپ کے بعد آپ کی نسل سے گیارہ اماموں کی امامت پر تصریح فرماتے ہوئے فرمایا کہ امام القائم بامر المسلمین یعنی امام مسلمانوں کے امور کا اہتمام کرنے والا ہے۔[86]

امام رضا علیہ السلام سے منسوب کتابیں

امام رضاؑ سے متعدد حدیثیں نقل ہوئی ہیں اور جن لوگوں نے علوم و معارف کے مسائل سمجھنے کے لئے جو سوالات آپ سے پوچھے تھے جن کے جوابات کتب حدیث میں نقل ہوئے ہیں؛ مثال کے طور پر شیخ صدوق نے ان حدیثوں اور جوابات کو اپنی کتاب عیون اخبار الرضا میں جمع کیا ہے۔ علاوہ ازیں بعض تالیفات اور کتب بھی آپ سے منسوب کی گئی ہیں گوکہ اس انتساب کے اثبات کے لئے کافی و شافی دلیلوں کی ضرورت ہے چنانچہ ان میں سے بعض تالیفات کا انتساب ثابت کرنا ممکن نہیں ہے جیسے:

• فقہ الرضا: علماء و محققین نے امام رضاؑ سے اس کتاب کے انتساب کی صحت تسلیم نہیں کی ہے۔[87]

• رسالہ الذہبیہ :امام رضاؑ سے منسوب ہے جس کا موضوع علم طبّ ہے۔ مروی ہے کہ امامؑ نے یہ رسالہ سنہ 201 ہجری میں لکھ کر مأمون کے لئے بھجوایا اور مأمون نے رسالے کی اہمیت ظاہر کرنے کی غرض سے ہدایت کی کہ اسے سونے کے پانی سے تحریر کیا جائے اور اسے دارالحکمہ کے خزانے میں رکھا جائے اور اسی بنا پر اسے رسالہ ذہبیہ کہا جاتا ہے۔ بہت سے علماء نے اس رسالے پر شرحیں لکھی ہیں۔[88]

• صحیفہ الرضا:امام رضاؑ سے منسوب دیگر تالیفات میں سے ہے جو فقہ کے موضوع پر لکھی گئی ہے گوکہ علماء کے نزدیک یہ انتساب ثابت نہيں ہو سکا ہے۔[89]

• محض الاسلام و شرائع الدین: جسے امام رضاؑ سے منسوب کیا گیا ہے لیکن بظاہر امامؑ سے اس کا انتساب قابل اعتماد نہیں ہے۔[90]

اصحاب

بعض اہل قلم نے 367 افراد کو آپ کے اصحاب اور راویان حدیث کے زمرے میں قرار دیا ہے۔[91] ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:

• یونس بن عبدالرحمن
• موفق (خادم امام رضا)
• علی بن مہزیار
• صفوان بن یحیی
• محمد بن سنان
• زکریا بن آدم
• ریان بن صلت
• دعبل بن علی

اہلسنت کے یہاں امام کا مقام

اہل‌ سنت کے بعض بزرگوں نے امام رضاؑ کے نسب اور علم و فضل کی تعریف اور زیارت کیلئے حرم امام رضاؑ جایا کرتے تھے۔[92] ابن حبان کہتے تھے کہ وہ کئی دفعہ مشہد میں علی بن موسی کی زیارت کیلئے گئے اور آپ سے توسل کے نتیجے میں ان کی مشکلات برطرف ہوئی ہیں۔[93] اسی طرح ابن حجر عسقلانی نقل کرتے ہیں کہ ابوبکر بن خزیمہ (جو اہل حدیث کا امام ہے) اور ابو علی ثقفی اہل سنت کے دیگر بزرگان کے ساتھ امام رضاؑ کی زیارت کو گئے ہیں۔ راوی (جس نے خود اس حکایت کو ابن حجر کیلئے بیان کیا) کہتے ہیں:

ابوبکر بن خزیمہ نے اس قدر اس روضے کی تعظیم اور وہاں پر راز و نیاز اور فروتنی کا اظہار کیا کہ ہم سب حیران ہو گئے۔[94]

ابن نجار امام رضاؑ کے علمی کمالات اور دینی بصیرت کے حوالے سے کہتے ہیں:

آپؑ علم اور فہم دین میں ایک ایسے مقام پر فائز تھے کہ 20 سال کی عمر میں مسجد نبوی میں بیٹھ کر فتوا دیا کرتے تھے۔[95]

__________________________

حوالہ جات

1.  مفید، الارشاد، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۲۶۱؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، نشر علامہ، ج۴، ص۳۶۳.
2. صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۳
3. مین، سید محسن، اعیان الشیعہ، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۵۴۵.
4. طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۶۴
5. کلینی، الکافی، ج 6، ص 474۔
6. فضل اللہ، تحلیلی از زندگانی امام رضاؑ، ۱۳۷۷ش، ص۴۳.
7. کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۴۸۶.
8. عاملی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الرضا، ۱۴۳۰ق، ص۱۶۸.
9. فضل اللہ، تحلیلی از زندگانی امام رضاؑ، ۱۳۷۷ش، ص۴۳.
10. کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۴۸۶.
11. عاملی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الرضا، ۱۴۳۰ق، ص۱۶۹.
12. طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۴۱.
13. ر.ک: القرشی، حیاة الامام علی بن موسی الرضا، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۵۰۳-۵۰۴.
14. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۸۱ش، ص۴۲۵.
15. صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۴.
16. صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۵.
17. صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۶.
18. صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۴۱.
19. طبرسی، 1417 ص 91.
20. کلینی، الکافی، مصحح محمد آخوندی، بی تا، ج 1، ص 492۔
21. طبری، محمد بن جریر، التاریخ، ج 7، ط بیروت: مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، بی تا، ص 149 (مکتبۃ اہل البیت ای۔ لائبریری۔ نسخہ نمبر2)
22. قرشی، ج 2، 1429ه، ص 408.
23. تاريخ الخلفاء سیوطی، ص 307۔
24. فضل اللہ، محمد جواد، ایضا، ص 44.
25. سبط بن الجوزی، تذکرۃالخواص، ص 123.
26. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ (علیہم السلام)، ط 1381، ص 426.
27. مفید، الارشاد مؤسسہ ال البيتؑ لتحقيق التراث دار المفيد 1413، ج2، ص 271.
28. فضل الله،ایضا ط 1377، ص 44.
29. رجوع کریں: قمی، 1379، ص 1725-1726.
30. طبرسی، اعلام الوری ج2، 1417 ہجری۔، صص 41-42.
31. مفید، الارشاد، ص 448.
32. مفید، الارشاد ص 448.
33. مفید، الاختصاص، ص211؛ صافی، شیخ لطف اللہ، منتخب الاثر باب ہشتم ص97؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص182-181؛ عاملی، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص285۔
34. بحار الأنوار ج23 ص290؛ اثبات الہداة ج3،‌ ص123؛ مناقب ابن شہر آشوب، ج1، ص283۔
35. مجلسی، بحار الأنوار ج36 ص337؛ علی بن محمد خزاز قمى، كفاية الأثر في النص على الأئمة الإثنی عشر، ص157۔
36.  سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، ج2، ص387 – 392، باب 76۔
37.  جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۸۱ش، ص۴۲۷.
38. نوبختی، فرق الشیعہ، ۱۳۵۵ق، ص۷۹.
39. كلينی، الكافى، ۱۳۶۳ش، ج۸، ص۱۵۱
40.  طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۶۴.
41. صدوق، عیون اخبار الرضا، ج2، ص473؛ مسعودي، اثبات الوصيہ، ص391۔
42. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہؑ 1381، ص 426.
43. ایضا ص426۔
44. یعقوبی، التاریخ ج 2، 1378، ص 465.
45.  مطہری، مجموعہ آثار، ج 18، 1381، ص 124.
46. جعفریان، 1387، ص 95.
47. مفید، الارشاد، ص 455۔
48. صدوق، معانی الاخبار‏،۱۴۰۳ق، ص۳۷۱.
49.  فضل اللہ، تحلیلی از زندگانی امام رضاؑ، ۱۳۷۷ش، ص۱۳۳.
50. مفید، الارشاد، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۲۵۹.
51. جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ‏1381، ص 442۔
52. رجوع کریں: طبرسی، الاحتجاج، ج 2، 1403ہجری، ص 396 اور بعد کے صفحات۔
53. عیون اخبار الرضا، ج1، ص 152۔
54. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہؑ 1381، ص 442-443.
55. جعفریان، 1381، ص 443-444.
56. یعقوبی، ایضا، ص 469.
57. یعقوبی ،تاريخ اليعقوبي ج2 453۔
58. مفید، الارشاد، ص 464.
59.  ر.ک: صدوق، ج2، 1373، صص 592 و 602.
60. رجوع کریں جعفر مرتضی حسینی عاملی، زندگی سیاسی هشتمین امام ، 1381، صص 202-212.
61.  ابن حبان، الثقات، ج 8، 1402، صص 456-457؛ جعفریان، ایضا 1376، ص 460.
62. بحار الانوار، ج 49، ص 284، ح 3 بحوالہ صدوق، عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 255۔
63. بحار الانوار، ج 49، ص 284، ح 11. بحوالہ عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 258- 259۔
64. بحار الانوار، ج 49، ص 286، ح 10. بحوالہ عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 255
65. جعفریان، ایضا 1376، ص 443.
66. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۷۶ش، ص۴۴۴.
67. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۷۶ش، ص۴۴۴-۴۴۵.
68. عطاردی، 1413،مسند الامام الرضا، ص 84-85.
69. مفید، الارشاد، ص 464.
70.  دخیل، ۱۴۲۹ه‍.ق.، صص۷۶-۷۷.
71.  صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۷۲.
72. صدوق، عيون أخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۲، ص۱۸۴.
73. طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ق، ص۳۵۹.
74. صدوق، عيون أخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۲، ص۱۷.
75. صدوق، عيون أخبار الرضاؑ، ۱۳۷۸ق، ج۲، ص۱۵۹.
76. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، نشر علامہ، ج۴، ص۳۶۲
77. کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۵، ص۳۲۷.
78. کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۶، ص۲۳
79. کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۶، ص۱۹
80. نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج۱۵، ص۱۷۰.
81. شيخ صدوق، عيون أخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۲، ص۱۵۹.
82. طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۶۴.
83. صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۲، ص۱۷۲.
84.  کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۱۸۷.
85.  کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۲۲۴
86. صدوق، عيون أخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج‏۲، ص۱۲۲.
87. فضل الله، 1377، تحلیلی از زندگانی امام رضاؑ، ترجمہ محمد صادق عارف، ص 187.
88. فضل الله، ایضا، 1377، صص 191-196.
89. فضل الله، ایضا 1377، ص 196.
90. فضل اللہ، ایضا 1377، ص 197-198.
91. ر.ک: قرشی، 1429ہجری حیاۃ الامام علی بن موسی الرضا۔/2008م.
92. عسقلانی، تہذیب التہذیب، دار صادر، ج۷، ص۳۸۹؛ یافعی، مرآۃ الجنان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۰.
93. ابن حبان، الثقات، ۱۴۰۲ق، ج۸، ص۴۵۷.
94. عسقلانی، تہذیب التہذیب، دار صادر، ج۷، ص۳۸۸.
95. ابن النجار، ذیل تاریخ بغداد، ۱۴۱۷ق، ج۴، ص۱۳۵؛ نیز ر.ک: عسقلانی، تہذیب التہذیب، دار صادر، ج۷، ص۳۸۷.

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے