فاطمہ بنت موسی بن جعفر، حضرت معصومہؑ کے نام سے مشہور، امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹی اور امام علی رضا علیہ السلام کی بہن ہیں۔ جب آپ کے بھائی امام رضا علیہ السلام مامون رشید کے حکم پر مدینہ سے طوس تشریف لے گئے تو کچھ مدت بعد حضرت معصومہ اپنے بھائی سے ملنے کے لئے مدینہ سے ایران کے سفر پر نکلے؛ لیکن راستے میں بھائی سے ملاقات سے پہلے قم میں آپ کی وفات ہوئی اور وہیں پر دفن ہیں۔

اہل تشیع کے یہاں آپ اور آپ کی زیارت خاص اہمیت کی حامل ہیں یہاں تک کہ ائمہؑ سے منقول احادیث کے مطابق قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے شیعہ جنت میں جائیں گے اور آپ کی زیارت کرنے والوں کیلئے بہشت واجب قرار دی گئی ہے۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کے بعد صنف نسواں میں صرف آپ ہی کے لئے ائمہؑ معصومین کی طرف سے زیارت نامہ نقل ہوا ہے۔
حرم حضرت معصومہ قم میں واقع ہے۔

حضرت معصومہ کے بارے میں اطلاعات کی کمی:

ذبیح‌ اللہ محلاتی اپنی کتاب ریاحین الشریعہ میں لکھتے ہیں کہ حضرت معصومہ کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات ہماری دسترس میں نہیں ہیں؛ جیسے آپ کی تاریخ ولادت، تاریخ وفات، آپ کی عمر، کب مدینہ سے روانہ ہوئیں، کیا امام رضاؑ کی شہادت سے پہلے وفات پائی یا بعد میں۔ اس حوالے سے تاریخ میں کچھ درج نہیں ہے۔[1]

حسب و نسب:

موسی کاظمؑ کی دو بیٹیاں فاطمہ کبرا اور فاطمہ صغرا کا نام ذکر کرتے ہیں لیکن یہ ذکر نہیں ہے کہ ان میں سے کون سی بیٹی حضرت معصومہ ہیں۔[2] ساتویں صدی کے اہل سنت عالم ابن‌ جوزی نے بھی لکھا ہے کہ امام کاظمؑ کی چار بیٹیوں کے نام فاطمہ تھے؛ لیکن انہوں نے بھی نہیں بتایا ہے کہ حضرت معصومہ ان میں سے کون سی ہیں۔[3] محمد بن جریر طبری صغیر، اپنی کتاب دلائل‌ الامامہ میں لکھتے ہیں کہ آپ کی مادر گرامی کا نام نجمہ خاتون ہے جو امام رضاؑ کی والدہ بھی ہیں۔[4]

تاریخ ولادت و وفات:

قدیمی کتابوں میں حضرت معصومہؑ کی ولادت اور وفات کا ذکر نہیں ہوا ہے لیکن آیت اللہ استادی کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے جس کتاب میں ان تاریخوں ذکر کیا ہے وہ جواد شاہ عبد العظیمی کی کتاب “نور الآفاق” ہے[5] جو سنہ 1344 ہجری میں نشر ہوئی ہے۔[6] اس کتاب میں آپ کی تاریخ ولادت پہلی ذیقعدہ سنہ 173 ہجری اور تاریخ وفات 10 ربیع الثانی سنہ 201 ہجری ذکر ہوئی ہے وہاں سے پھر دوسری کتابوں میں منتقل ہوئی ہے۔[7] اسی کی بنیاد پر جمہوری اسلامی ایران کے سرکاری کلینڈر میں 1 ذی القعدہ کو روز دختر کا عنوان دیا گیا ہے۔[8]

بعض علماء نے شاہ عبد العظیمی کے اس نظریئے کی مخالفت کی ہے اور ان کی کتاب میں مذکورہ ان تاریخوں کو جعلی قرار دیا ہے؛ منجملہ آیت‌ اللہ شہاب‌ الدین مرعشی،[9] آیت اللہ موسی شبیری زنجانی،[10] رضا استادی[11] و ذبیح‌ اللہ محلاتی[12] قابل ذکر ہیں۔

القاب:

معصومہ اور کریمہ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ کے مشہور القاب ہیں۔[13] کہا جاتا ہے کہ لفب معصومہ، امام رضاؑ سے منسوب ایک روایت سے اخذ کیا گیا ہے۔[14] محمد باقر مجلسی کی کتاب زاد المعاد کی روایت میں امام رضاؑ نے آپ کو معصومہ کے نام سے یاد کیا ہے۔[15]

آج کل آپ کا مشہور لقب کریمہ اہل بیت ہے۔[16] کہا جاتا ہے کہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی کے والد سید محمود مرعشی نجفی کو ائمہؑ میں سے کسی ایک نے حضرت معصومہ کے لئے کریمہ اہل بیتؑ سے تعبیر کیا ہے۔[17]

شادی:

ریاحین الشریعہ نامی کتاب کے مطابق یہ معلوم نہیں ہے کہ حضرت معصومہؑ نے شادی کی ہے یا نہیں، اور اولاد ہے یا نہیں؛[18] اس کے باوجود یہ مشہور ہے کہ حضرت معصومہؑ نے شادی نہیں کی ہے[19] اور شادی نہ کرنے کے بارے میں بعض دلائل بھی ذکر ہوئے ہیں؛ جیسے کہا کیا ہے کہ آپ نے کفو نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کی۔[20] اسی طرح یعقوبی لکھتا ہے کہ امام موسی کاظم نے اپنی بیٹیوں کو شادی نہ کرنے کی وصیت کی تھی؛[21] لیکن اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ اس طرح کی کوئی بات امام کاظمؑ کی کتاب الکافی میں مذکور وصیت نامے[22] میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔[23]

ایران کا سفر، قم میں ورود اور وفات:

تاریخ قم نامی کتاب کے مطابق حضرت معصومہ نے سنہ 200 ہجری میں اپنے بھائی امام رضاؑ سے ملاقات کے لئے مدینہ سے ایران کا سفر کیا۔ اس وقت امام رضا کا مامون عباسی کی ولی عہدی کا دور تھا اور امامؑ خراسان میں تھے؛ لیکن آپ راستے میں بیماری کی وجہ سے وفات پاگئیں۔[24] سید جعفر مرتضی عاملی کا کہنا ہے کہ حضرت معصومہؑ کو ساوہ میں دشمنان اہل بیت نے زہر سے مسموم کیا تھا اور اسی زہر کی وجہ سے کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد آپ شہید ہو گئی تھیں۔[25]

حضرت معصومہ کے قم جانے کے بارے میں دو قول ہیں:

ایک قول کے مطابق جب آپ ساوہ میں بیمار ہوگئیں تو آپ نے اپنے ہمراہ افراد سے قم چلنے کے لئے کہا۔[26] دوسرے قول جسے تاریخ قم کے مصنف زیادہ صحیح سمجھتے ہیں، کے مطابق خود قم کے لوگوں نے آپ سے قم آنے کی درخواست کی۔[27]

قم میں حضرت فاطمہ معصومہ نے موسی بن خزرج اشعری کے گھر پر قیام کیا اور 17 دن کے بعد آپ کی وفات ہوئی۔[28] آپ کا جنازہ موجودہ حرم کی جگہ، بابلان قبرستان میں دفن کیا گیا۔[29]

شیعوں کے یہاں آپ کا مقام و منزلت:

شیعہ علماء آپ کے لئے بہت عظیم مقام کے قائل ہیں اور وہ آپ کی منزلت و زیارت کی اہمیت کے بارے میں روایات نقل کرتے ہے: علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں امام صادقؑ سے روایت کی ہے کہ شیعہ ان کی شفاعت کی بنا پر بہشت میں داخل ہو نگے۔[30] ان کے زیارت نامے میں ان سے شفاعت کی درخواست کی گئی ہے۔[31]

شوشتری قاموس الرجال میں لکھتے ہیں کہ موسی بن جعفر ؑ کی اولاد میں امام رضاؑ کے بعد کوئی بھی حضرت معصومہؑ کا ہم رتبہ نہیں ہے۔[32] شیخ عباس قمی کہتے ہیں: آپؑ امام موسی کاظمؑ کی بیٹیوں میں سب سے افضل ہیں۔[33]

امام صادقؑ، امام کاظمؑ اور امام محمد تقیؑ سے منقول روایات کے مطابق حضرت معصومہ کی زیارت کا ثواب بہشت قرار دی گئی ہے۔[34] البتہ بعض روایات میں بہشت ان لوگوں کی پاداش قرار دی گئی ہے جو معرفت اور شناخت کے ساتھ آپ کی زیارت کریں۔[35]

زیارت نامہ:

علامہ مجلسی نے کتاب زاد المعاد، بحار الانوار اور تحفۃ الزائر میں جناب فاطمہ معصومہؑ کے لئے امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ایک زیارت نامہ ذکر کیا ہے۔[36] البتہ انہوں نے کتاب تحفۃ الزائر میں زیارت نامہ نقل کرنے کے بعد احتمال دیا ہے کہ ممکن ہے کہ اس روایت میں زیارت نامے کا متن امام کے کلام کا حصہ نہ ہو بلکہ اسے علماء نے اضافہ کیا ہو۔[37] نقل ہوا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ و حضرت فاطمہ معصومہ تنہا وہ خواتین ہیں جن کے سلسلہ میں ماثور زیارت نامہ (وہ زیارت نامہ جس کی سند معصومین علیہم السلام تک منتہی ہو) ذکر ہوا ہے۔[38]

حضرت معصومہ کی یاد میں کانفرنس:

سنہ 2005 ء میں حضرت فاطمہ معصومہ کی شخصیت اور قم کی ثقافتی منزلت کے بارے میں ایک کانفرنس آستانہ حضرت معصومہ کے متولی علی اکبر خمینی مسعودی کے حکم سے منعقد ہوئی[42] یہ کانفرنس حرم حضرت معصومہ میں منعقد ہوئی جس میں آیت اللہ مکارم شیرازی اور آیت اللہ جوادی آملی جیسے مراجع تقلید نے خطاب کیا۔[43]

اس کانفرنس کے سیکریٹری احمد عابدی کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کے ذریعہ حضرت معصومہ، حرم حضرت معصومہ، حوزہ علمیہ قم، قم اور اسلامی انقلاب کے موضوعات پر 54 کتابیں لکھی گئیں۔[44]
__________________________

حوالہ جات:

  1. محلاتی، ریاحین الشریعہ، ۱۳۷۳ ہجری شمسی، ج۵، ص۳۱۔
  2. ملاحظہ کریں: مفید، الارشاد، ۱۴۰۳ھ، ج۲، ص۲۴۴۔
  3. ملاحظہ کریں: ابن‌ جوزی، تذکرة الخواص، ص۳۱۵۔
  4. ملاحظہ کریں: طبری، دلائل‌ الامامہ، ص۳۰۹۔
  5. استادی، آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌ حال او، ص۳۰۱۔
  6. استادی، «آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌ حال او»، ص۲۹۷۔
  7. استادی، آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌ حال او، ص۳۰۱۔
  8. شورای مرکز تقویم مؤسسہ ژئوفیزیک دانشگاه تهران، تقویم رسمی کشور سال ۱۳۹۸ هجری شمسی، ص۹۔
  9. محلاتی، ریاحین الشریعہ، ۱۳۷۳ ہجری شمسی، ج۵، ص۳۲۔
  10. شبیری زنجانی، جرعہ‌ای از دریا، ۱۳۹۴ ہجری شمسی، ج۲، ص۵۱۹۔
  11. استادی، آشنایی با حضرت عبدالعظیم و مصادر شرح‌ حال او، ص۳۰۱۔
  12. محلاتی، ریاحین الشریعہ، ۱۳۷۳ ہجری شمسی، ج۵، ص۳۱و۳۲۔
  13. مہدی ‌پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ ہجری شمسی، ص۲۳و۴۱؛ نیز ملاحظہ کریں: اصغری‌ نژاد، «نظرى بر اسامى و القاب حضرت فاطمہ معصومہؑ»۔
  14. مہدی‌ پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ ہجری شمسی، ص۲۹۔
  15. مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ھ، ص۵۴۷۔
  16. ملاحظہ کریں: مہدی‌ پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ش، ص۴۱و۴۲۔
  17. مہدی‌ پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ش، ص۴۱و۴۲۔
  18. محلاتی، ریاحین الشریعہ، ۱۳۷۳ش، ج۵، ص۳۱۔
  19. ملاحظہ کریں: مہدی‌ پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ش، ص۱۵۰۔
  20. مہدی ‌پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ش، ص۱۵۱۔
  21. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۳۶۱۔
  22. ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۱۷۔
  23. قرشی، حیاةالامام موسی بن جعفر، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۴۹۷۔
  24. قمی، تاریخ قم، توس، ص۲۱۳۔
  25. عاملی، حیاة السیاسی للامام رضا(ع)، ج۱، ص۴۲۸۔
  26. قمی، تاریخ قم، توس، ص۲۱۳۔
  27. قمی، تاریخ قم، توس، ص۲۱۳۔
  28. قمی، تاریخ قم، توس، ص۲۱۳۔
  29. قمی، تاریخ قم، توس، ص۲۱۳۔
  30. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۹۹، ص۲۶۷۔
  31. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۹۹، ص۲۶۷؛ مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ھ، ص۵۴۸-۵۴۷۔
  32. تواریخ النبی و الآل، ص۶۵۔
  33. منتہی الآمال، ج۲، ص۳۷۸۔
  34. ملاحظہ کریں: ابن ‌قولویہ، کامل‌ الزیارات، ۱۳۵۶ ہجری شمسی، ص۵۳۶؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۹۹، ص۲۶۵-۲۶۸۔
  35. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۹۹، ص۲۶۶۔
  36. نگاه کریں مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ق، ص۵۴۸-۵۴۷؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۹۹، ۱۴۰۳ق، ص۲۶۶-۲۶۷؛ مجلسی،‌ تحفة الزائر،‌۱۳۸۶ش، ص۴۔
  37. مجلسی،‌ تحفة الزائر،‌۱۳۸۶ش، ص۶۶۶۔
  38. مهدی ‌پور، کریمہ اهل بیتؑ، ۱۳۸۰ش، ص۱۲۶۔
  39. قمی، تاریخ قم، توس، ص۲۱۳؛ سجادی، «آستانہ حضرت معصومہ»، ص۳۵۹۔
  40. سجادی، «آستانہ حضرت معصومہ»، ص۳۵۸۔
  41. سجادی، «آستانہ حضرت معصومہ»، ص۳۵۸۔
  42. کنگرہ بزرگداشت حضرت فاطمہ معصومہ، مجموعہ مقالات، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۲۔
  43. شرافت، «کنگرہ بزرگداشت حضرت فاطمہ معصومہؑ و مکانت فرہنگی قم»، ص۱۳۹و۱۴۵۔
  44. شرافت، «کنگرہ بزرگداشت حضرت فاطمہ معصومہؑ و مکانت فرہنگی قم»، ص١٤٢۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے