حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی زندگی علم، تقویٰ، صبر اور ہدایت کا وہ روشن باب ہے، جو امتِ مسلمہ کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ رہے گا۔ مدینہ میں ولادت سے لے کر سامرا کی قید و نظر بندی تک، آپؑ نے ہر لمحہ صعوبتوں کو برداشت کیا، مگر اپنے ماننے والوں کو علم و معرفت کے فیض سے محروم نہ ہونے دیا۔ قرآن کی تفسیر، فلسفیوں کو ہدایت دینا اور اخلاق و کردار کی وہ بلندی جو آپؑ کے خاندان کی پہچان تھی، یہ سب آپ کی حیات کے نمایاں نقوش ہیں۔ سب سے بڑی الہٰی امانت آپ ؑکے ذریعے پوری ہوئی کہ آپؑ کے صلب سے حجتِ آخر، حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ولادت ہوئی۔ مدینہ منورہ کی فضاؤں میں ایک پرنور دن تھا۔ دسویں ربیع الثانی 232 ہجری کی صبح، وہ گھڑی جب اہلِ مدینہ کے گھروں میں خوشبو اور روشنی کی لہر دوڑ گئی۔ خاندانِ عصمت و طہارت میں ایک نئی کرن طلوع ہوئی۔ وہ کرن جس کا اسمِ گرامی حسن تھا، کنیت ابو محمد اور جس کا لقب بعد میں عسکری قرار پایا۔ آپؑ کے والد بزرگوار وہ عظیم ہستی ہیں، جنہیں دنیا حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے نام سے پہچانتی ہے اور والدہ ماجدہ کا نام باوقار خاتون، حدیثہ ہے۔

حالات کی کروٹ کچھ یوں بدلی کہ جب متوکل عباسی کی ظلمتوں نے آسمان کو گھیر لیا تو امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ اس وقت ابو محمد حسن عسکری کی عمر صرف چار برس تھی۔ ننھی آنکھوں نے مدینہ کی گلیوں اور در و دیوار کو الوداع کہا اور سامرا کی اجنبی فضاؤں میں قدم رکھا۔ وہیں کے بنجر آسمان اور سخت دل حکمرانوں کے سائے میں زندگی کا سفر جاری رہا۔ پھر خاندانِ رسالت کو دوبارہ اپنے وطنِ مدینہ لوٹنے کی مہلت نہ مل سکی۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے بچپن ہی سے مصائب اور آزمائشوں کی راہوں پر چلنا شروع کیا، لیکن یہ مصائب ان کے عزم کو متزلزل کرنے کے بجائے ان کے حوصلے کو اور بھی پختہ کرتے گئے۔ وہ آزمائشیں جو دوسروں کے لیے بوجھ تھیں، ان کے لیے سعادت اور کرامت کے زینے بن گئیں۔

اسی بچپن کا ایک واقعہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ مدینہ کی ایک گلی میں چند بچے کھیل میں مگن تھے۔ ہنسی کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں، چھوٹے چھوٹے قدم خاک اڑاتے پھر رہے تھے۔ مگر ان بچوں کے بیچ ایک بچہ خاموش کھڑا تھا، آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر سنجیدگی کا نور۔ وہ ابو محمد حسن تھے۔ اسی لمحے وہاں سے بہلول دانا کا گزر ہوا۔ انہوں نے دیکھا کہ سب بچے کھیل میں خوش ہیں، مگر یہ بچہ اکیلا اور غمگین ہے۔ بہلول قریب آئے اور نرمی سے بولے: "بیٹا۔۔ شاید تم اس لیے رو رہے ہو کہ باقی بچے کھیلنے کی چیزوں میں مصروف ہیں اور تمہارے پاس کچھ نہیں۔ اگر ایسا ہے تو میں تمہیں بھی ویسی چیزیں لا کر دے دیتا ہوں۔”

امام حسن عسکری علیہ السلام نے اشکوں کو پلکوں کے پیچھے سمیٹا اور نرم لہجے میں جواب دیا: "ہم کھیلنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ ہمارا مقصد علم اور عبادت ہے۔” بہلول نے تعجب سے پوچھا: "یہ تمہیں کس نے بتایا؟” ننھے امام ؑنے گہری سنجیدگی کے ساتھ فرمایا: "کیا تم نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں عبث پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف واپس نہیں لوٹو گے؟” یہ الفاظ سنتے ہی بہلول کی آنکھوں میں حیرت اور عقیدت کا سمندر امڈ آیا۔ وہ جان گئے کہ یہ بچہ عام بچہ نہیں، بلکہ خدا کی وہ حجت ہے، جس کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ ہدایت کی مشعل ہے۔

سامرا کی تنگ گلیوں میں ایک دن ایسا آیا، جب ظلم و جبر کے ایوان لرز گئے۔ امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت نے نہ صرف اہلِ بیت کے ماننے والوں کو غم میں ڈبو دیا بلکہ ظلم کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیا۔ اب منصبِ ہدایت کی ذمہ داری براہِ راست فرزندِ امام علی نقی (ع)، امام حسن عسکری علیہ السلام کے کاندھوں پر آگئی۔ لیکن جیسے ہی آپؑ اس منصب پر فائز ہوئے، حکومت کی سازشوں کا رخ آپؑ کی طرف اور بھی تیز ہوگیا۔ حکمرانوں کو یہ گوارا نہ تھا کہ لوگ آزادانہ آپؑ کے در سے ہدایت پائیں۔ چنانچہ آپؑ کو نظر بندی کی سختیوں میں جکڑ دیا گیا۔ مگر قید کی دیواریں علم و حکمت کی روشنی کو کیسے روک سکتی تھیں۔؟ آپؑ کی علمی اور فکری کوششیں نہ صرف جاری رہیں بلکہ پہلے سے زیادہ اثر ڈالنے لگیں۔

انہی کوششوں میں ایک عظیم کارنامہ تفسیر قرآن مجید ہے، جو تاریخ میں تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام کے نام سے جانی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وہ دروس ہیں، جو آپؑ نے اپنے شاگردوں کو ارشاد فرمائے تھے اور بعد میں انہی شاگردوں نے انہیں ایک کتابی صورت دی۔ اگرچہ اس کے انتساب پر محققین کے درمیان اختلاف ہے، لیکن اس کے علمی اور روحانی اثرات سے انکار ممکن نہیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام فرمایا کرتے تھے: "ہم وہ ہیں، جنہیں خدا نے صاحبِ قلم قرار دیا ہے۔” قلم کی عظمت سے کون انکار کرسکتا ہے۔؟ دنیا کی تمام تہذیبیں، علوم اور ترقی قلم کی کوشش سے جڑی ہیں۔ مگر ہر قلم انسانیت کی نجات کا ضامن نہیں ہوتا۔ وہی قلم بابرکت ہے، جو انسان کو خدا کے قریب لے جائے، جو تہذیبِ اسلامی کا پرچم بلند کرے اور ظلم و باطل کو مٹا دے۔

امام علیہ السلام کی علمی خدمات میں ایک واقعہ بڑا مشہور ہے۔ بغداد کے مشہور فلسفی اسحاق کندی کا۔ وہ فلسفہ اور منطق کا مانا ہوا عالم تھا، مگر قرآن کے بارے میں اس کے دل میں ایک وسوسہ جاگزیں تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ قرآن کی آیات آپس میں متصادم ہیں۔ اسی بنیاد پر وہ ایک کتاب لکھ رہا تھا، جس کا نام تھا”تناقض القرآن۔” یہ خبر جب امام حسن عسکری علیہ السلام تک پہنچی تو آپؑ نے براہِ راست اسحاق سے مناقشہ نہ کیا۔ آپؑ نے حکمت کے ساتھ اس کے ایک شاگرد کو وسیلہ بنایا۔ شاگرد کو فرمایا: "استاد سے یہ سوال کرو کہ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ جس مفہوم کو تم قرآن کی آیت سے سمجھ رہے ہو، وہ دراصل وہ نہ ہو، جو اس کے خالق کا اصل منشا ہے۔؟ اگر یہ امکان موجود ہے تو پھر قرآن پر تناقض کا الزام کیسے درست ہوسکتا ہے۔؟ تناقض ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا فہم عین منشائے خداوندی کے برابر ہو اور چونکہ ایسا نہیں ہے، اس لیے تمہاری بنیاد ہی غلط ہے۔”

شاگرد نے یہ سوال اپنے استاد کے سامنے رکھا۔ اسحاق کندی، جو اپنی علمی دیانت اور ذہانت میں معروف تھا، لمحوں میں سوچ میں ڈوب گیا۔ یہ سوال اس کے ذہن کی جمی ہوئی گرد ہٹا گیا۔ اس نے مان لیا کہ قرآن میں کوئی تضاد نہیں بلکہ اس کی سمجھ ناقص تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے اپنی کتاب کا مسودہ جلا دیا اور سجدہ شکر بجا لایا کہ خدا نے اسے گمراہی سے بچا لیا۔ یوں امام حسن عسکری علیہ السلام کا یہ کارنامہ تاریخ میں ایک روشن چراغ کی مانند ثبت ہوا کہ علم اور حکمت کی ایک کرن نے ایک فلسفی کی گمراہی کو ایمان کے نور میں بدل دیا۔ امامت کا سفر ہمیشہ علم، تقویٰ اور قربانی سے جڑا رہا ہے۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام بھی اسی روشن سلسلے کی کڑی تھے۔ آپ وہ ہستی تھے، جن کے علم و تقویٰ کی روشنی نے وقت کے اندھیروں کو چیر کر حق کا چراغ روشن رکھا۔

علم آپؑ کے خاندان کی میراث تھی۔ جیسے شمس کی کرنوں میں روشنی چھپی نہیں رہ سکتی، ویسے ہی آلِ محمد علیہم السلام کے وجود میں علم و معرفت چھپ نہیں سکتے۔ یہ وہی علم تھا، جو امامت کے منصب کے لیے لازمی ہے اور یہی علم امام حسن عسکری علیہ السّلام کی زبان اور کردار سے جھلکتا رہا۔ آپؑ کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد تھا لوگوں کو دینِ خدا کی معرفت عطا کرنا اور انہیں علم و ہدایت سے فیضیاب کرنا۔ لیکن آپؑ کی ذمہ داری صرف تدریس اور تبلیغ پر ہی نہیں تھی۔ آپؑ ایک ایسی امانت کے بھی امین تھے، جس کی حفاظت کے لیے آسمان و زمین کو حکم ملا تھا۔ وہ امانت تھی آخری حجتِ خدا، قائم آلِ محمد حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ولادت۔

عباسی حکمران طبقہ اور خود غرض گروہ اس فکر میں تھے کہ یہ سلسلہ یہیں ختم کر دیا جائے۔ اسی مقصد کے لیے امام حسن عسکری علیہ السّلام پر قید و بند کی سختیاں ڈھائی گئیں۔ آپؑ کی نگرانی کی جاتی، آپؑ کے گھر کے حالات پر کڑی نظر رکھی جاتی۔ لیکن تقدیر کا فیصلہ انسانوں کے ہاتھوں میں کب ہوا ہے۔؟ حکمِ خدا پورا ہوا۔ وہ نور وجود میں آیا، جس کے بارے میں انبیاء و اوصیاء بشارتیں دیتے آئے تھے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نہ صرف علم کے امام تھے بلکہ شجاعت اور سخاوت کے پیکر بھی تھے۔ آپؑ کے نزدیک عبادتِ خدا اور بندوں کے حقوق دونوں برابر تھے۔ آپؑ کی اخلاقی بلندی کا یہ عالم تھا کہ آپؑ اس ہستی کے حقیقی جانشین تھے جس نے فرمایا تھا: "میں اس لیے مبعوث ہوا ہوں کہ اخلاقِ حسنہ کو مکمل کروں۔”

لیکن افسوس کہ یہ روشن چراغ زیادہ دیر اس دنیا میں نہ جل سکا۔ عباسی خلیفہ معتمد نے آپؑ کو زہر دلوا دیا۔ وہ وجود جس نے 28 سالوں میں انسانیت کے لیے علم، حلم اور سخاوت کا پیغام دیا تھا، دنیا سے پردہ فرما گیا۔ تاریخ نے اس دن کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا: آٹھ ربیع الاول 260 ہجری سامرا کی فضاؤں میں غم اور اندوہ کی بارش ہوئی۔ مگر اس غم کی گھڑی میں ایک امید بھی تھی۔ وہ امید جسے خدا نے غیبت کی پردوں میں چھپا دیا، تاکہ ایک دن وہ ظاہر ہو کر ظلم کو جڑ سے اکھاڑ دے اور عدل کا پرچم لہرا دے۔ یوں امام حسن عسکری علیہ السلام کی مختصر مگر بابرکت زندگی ہمیشہ کے لیے امت کے لیے ہدایت کا چراغ بن گئی۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے