مقدمہ:
آسمانی اور قرآنی ثقافت میں انسان کے کمال کا تنہا راستہ معرفت کے ساتھ عبادت ہے۔ جن و انس کی خلقت اسی عظیم مقصد کے متعلق ہے ۔ (۱)
انسان کے رحمان کے ساتھ، روشن ارتباط کا نام ’’عبادت‘‘ہے۔ اللہ تعالی اپنی تمام مخلوقات پر احاطہ رکھتا ہے اور اس پر حاضر اور ناظر ہے۔اللہ اپنی تمام مخلوق میں سے انسان کوسب سے زیادہ پسند کرتا ہے۔ اور انسان سے سب سے زیادہ قریب ترین ذات پروردگار کی ہے۔وہ انسان کے دل و دماغ سے آگاہ ہے اور اس کے مخفی ارادوں کو بھی جانتا ہے۔
عرفان کے حقیقی بانی، مولای متقیان، امیر المومنین، علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: قد علم السرائر وخبر الضمائر، له الاحاطة بکل شي ء، والغلبة لکل شي ء والقوة علي کل شي ء (2) اللہ تعالی تمام اسرار سے واقف ہے، وہ ہر چیز کے باطن جو جانتا ہے، وہ ہر چیز پر احاطہ رکھتا ہے اور ہر چیز پر غالب ہے۔
قرآن کی نظر میں انسان کا اپنے قادر، عالم اورغالب پروردگار سے رابطہ بہت آسان ہے۔ ہرشخص، ہر جگہ، ہر حالت میں اپنے خالق، مالک اور مہربان پروردگار سے رازونیاز کر سکتا ہےاور اسے اپنا درد، دل سنا سکتا ہے۔ اس سے مناجات، نماز اور دعا کے ذریعہ رابطہ بحال کر سکتا ہے تاکہ اس کی رحمت کے دروازوں کو کھلوا سکے۔
واذا سالک عبادي عني فاني قريب اجيب دعوة الداع اذا دعان (3)اور اے پیغمبر! اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں. پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں جب بھی پکارتا ہے۔
اس بنا پر کمزور انسان، جب عبادت گذار بندہ بنتا ہے اور اللہ تعالی کے ساتھ رابطہ رکھنے والا بن جاتا ہے، خود کو لاچار جان کر، اس قادراورمغلوب نہ ہونے والی ہستی کی پناہ میں آتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس ذات کے وسیلہ، اس کی قدرت بے پایاں کے ذریعہ، اس کا کھویا ہوا، سکون اورقرار اسے واپس مل گیا ہے۔اوروہ جان جاتا ہے کہ معرفت کے ساتھ عبادت کر کے، نیکی کے سر چشمہ سے رابطہ جوڑ کر اس نے زندگی گذارنے کے درست راستہ کا انتخاب کیا ہے۔
عبادت، عرفان اور سلوک، انسان کو باارزش تحفہ دیتے ہیں۔ رضائے پروردگار،روحانی اور معنوی مقام، تقوی کا ملکہ(جو، ہرانسان کی اعلی منزل ہے) باطن کی پاکیزگی اور روح کی آزادی، برائیوں سے دوری اور نیکیوں کا قرب،جسمانی صحت اور تندرستی، فردی اور اجتماعی کامیابی۔ یہ سب نمونہ ہیں، عبادت کے راستہ پر چلنے کا۔ اس کے علاوہ دوسرے معنوی مقامات جیسے، خلوص، توکل، پروردگار کی اطاعت، حضور قلبی اور اس جیسی دوسری چیزیں بھی اسی عبادت اور پروردگار سے مناجات کا پھل ہیں۔
اگر عبادت اور عرفان حقیقی کا ایک عبارت میں خلاصہ کیا جائے تووہ ہوگا ’’آزادی‘‘ تمام چیزوں سے، ہر قسم کی، بغیر کسی قید اور شرط کے آزادی۔ اللہ تعالی کےعلاوہ سب سے تعلق توڑنا، ان سے امیداور توقع نہ رکھنا۔ اللہ تعالی کی پناہ میں آنا۔ اور یہ پناہ انسان کوتمام مخلوقات سے عظیم بناتی ہیں کہ انسان فرشتوں پر بھی سبقت لے جاتا ہے۔وہ اس عشق کے ذریعہ،اپنے دل و دماغ سے، پوری کائنات میں تصرف کرسکتا ہے اور اسے تسخیر کر سکتا ہے اور اور نتیجہ میں اس کا وجود زمین اورآسمان پر جگمگانے لگتا ہے۔
راہ عبادت اور وادی عرفان کو طے کرنے کیلئے ایک رہبر اور رہنما کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بغیر ہادی کے انسان اس راستہ میں حیران اور پریشان پھرتا رہے گا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کوئی شیطانی گروہ اسے صراط مستقیم سے گمراہ کرکے ہمیشہ کیلئے ہلاکت میں مبتلا کردے۔ یعنی سالک کیلئے ضروری ہے کہ عبادت اور عرفان کیلئےبہترین رہنما کا انتخاب اور اس کی پیروی کرے۔
اس سے بہتر کیا ہوگا کہ ہم اس کٹھن راستہ میں سعادت تک پہنچنے کیلئے الہی رہبر، ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت اور اقوال سے جو تمام بشریت کیلئے نمونہ عمل ہے، نصرت طلب کریں۔
اس مقدمہ کی بنا پر، انسانی زندگی میں عبادت اور عرفان کی اہمیت کی وجہ سے ہم نے چاہا کہ اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، امام حسن عسکری علیہ السلام کی زندگی اور ان کی سیرت میں عبادت اور عرفان کو ملاحظہ کریں اور اس پر ایک اجمالی نظر ڈالیں۔ اس امید کے ساتھ کہ ان کا عرفانی کردار، رفتار اور گفتار جو کہ مظہر رحمت الہی ہیں۔ ہمارے لئے اس حساس اور پر خطر راستہ میں مشعل راہ ثابت ہوں۔

عبادت کا معنی:
لفظ ’’عبادت‘‘ ایک بہت زیادہ وسیع مفہوم کا حامل ہے۔ جو ہر اس عمل صالح، ہر نیکی،خوبی اور فائدہ کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے جو انگیزہ الہی سے انجام پائے۔ یعنی عبادت کے اساسی دو، رکن ہیں: ایک نیت۔ دوسرا عمل صالح۔
بنیادی طور پر اسلام کی نظر میں عبادت کا وقت بلوغ سے لے کر موت تک ہے۔واعبد ربک حتي ياتيک اليقين(4)
اور اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہئے جب تک کہ موت نہ آجائے۔
اس نکتہ کو نظر میں رکھتے ہوئے، اگر انسان اپنے تمام اعمال صالح کوبلکہ اپنے تمام کاموں کو قصد قربت سے انجام دےتو اس کی حیات کے تمام لمحات عبادت میں شمار ہو سکتے ہیں۔ وہ انسان رحمت الہی کے پھیلے ہوئے دسترخوان سے فائدہ اٹھا کر خود کو، نورانی، معنوی، ملکوتی اور عبادی فضا میں داخل کر کے کمال تک پہنچ سکتا ہے۔ اس طرح وہ محبوب خدا بن جاتا ہے اور اس کا پورا وجود خدائی بن جاتا ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: ما يزال عبدي يتقرب الي بالنوافل حتي احبه فاذا احببته کنت سمعه الذي يسمع به و بصره الذي يبصر به ويده الذي يبطش بها ورجله التي يمشي بها; (5) ان دعاني اجبته وان سالني اعطيته (5)
انسان نوافل کے ذریعہ مسلسل میرے قریب ہو تا جاتا ہے، کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں، اور جب میں اسے محبوب بناتا ہوں تو میں اس کا، کا ن بن جاتا ہوں جس کے ذریعہ وہ سنتا ہے،اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعہ وہ دیکھتا ہے، اور میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعہ وہ کام کرتا ہے، اور میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ذریعہ وہ چلتا ہے۔اگر وہ دعا مانگتا ہے تو میں مستجاب کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں عطا کرتا ہوں۔
ایسے انسان کی ہر چیز عبادت ہے۔ لیکن اس کے باوجود کچھ نیکیاں خاص ہیں، جو انسان کو منزل مقصود کے بہت جلد اور تیزی سے نزدیک کر دیتی ہیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: الوصول الي اللّٰه سفر لا يدرک الا بامتطاء الليل; اللہ سے ملاقات اور اللہ تک پہنچنا ایک ایسا سفر ہے جو انسان راتوں کو جاگے بغیر طے نہیں کر سکتا۔
ایک بہت بڑے عارف نے اس حدیث سے چند نکتےسمجھے ہیں، جن کابیان بے فائدہ نہیں ہے۔ وہ بزرگوار فرماتے ہیں: اس حدیث سے سمجھ میں آتا ہے:
۱۔ اللہ تعالی سے ملاقات اور اللہ تعالی تک پہنچنا ممکن ہے محال نہیں۔
۲۔ اللہ تعالی سے ملاقات اور اللہ تعالی تک پہنچنا حرکت اور سفر کے ذریعہ ممکن ہےسکون کے ذریعہ نہیں۔
۳۔ اس منزل کا راستہ بڑا، سخت، کٹھن اور طولانی ہے۔جس کیلئے مرکب اور سواری کی ضرورت ہے۔ اور اس سفر کی سواری، سحر خیزی (سویرے جاگنا)ہے۔
۴۔ انسان کو اس مقصد تک رسائی کیلئے،راتوں کو جاگ کر مناجات کرنا، دنوں کی عبادات سے زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے۔(۷) اس وجہ سے امام حسن عسکری علیہ السلام نے جو خط شیخ صدوق کے والد گرامی علی ابن بابویہ قمی کو لکھا، اس میں اس نکتہ کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وعليک بصلاة الليل، فان النبي صلي اللّٰه عليه وآله اوصي علياعليه السلام فقال: ياعلي عليک بصلاة الليل، ومن استخف بصلاة الليل فليس منا، فاعمل بوصيتي وآمر جميع شيعتي حتي يعملوا عليه (8)
تمہارے لئے نماز شب پڑھنا ضروری ہے۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کو نماز شب کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے علی! تمہارے لئے نماز شب پڑھنا ضروری ہے؛ کیونکہ جو بھی نماز شب کو کم اور حقیرسمجھے، وہ ہم میں سے نہیں۔(اے علی ابن بابویہ) میری وصیت پر تم خود بھی عمل کرنا اور تمام شیعوں تک میری یہ وصیت پہنچانا تا کہ وہ بھی عمل کر سکیں!

شب زندہ داری کے اثرات
پوری تاریخ ایسے بزرگ علماءاور سچے مومنین سے بھری پڑی ہے، جنہوں نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی اس وصیت پر عمل کیا۔ اور شب زندہ داری اور سحر خیزی کے ذریعہ بہت اچھا نتیجہ حاصل کیا اورکامیابی کو اپنے مقدر میں تحریر کیا۔ ہم یہاں پرچند بزرگ علماء کے واقعات کے ذکر سے اپنے ذہن میں انکی یاد کو تازہ کرتے ہیں:
۱۔ بزرگ عالم مرحوم تقی مجلسی، علامہ محمد باقر مجلسی کے والد گرامی اپنی زندگی کےیادگار واقعات میں ارشاد فرماتے ہیں:ایک رات نماز شب اور صبح کے نوافل سے فارغ ہونے سے پہلے میں نے ایک عجیب سی خوشی محسوس کی۔ اور میں نے اس خوشی سے اندازہ لگایا کہ اس وقت جو بھی حاجت طلب کی جائے پوری ہوگی اور جو بھی دعا مانگی جائے مستجاب ہوگی۔ میں نے بہت سوچا کہ امور دنیا اور آخرت میں سے کیا مانگوں ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں گہوارہ میں سوئے ہوئے میرے بیٹے محمد باقر کے رونے کی آواز آئی۔ میں نے ناگہاں اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی: پروردگارا! محمد و آل محمد علیہم السلام کے صدقہ میں میرے اس بچہ کو دین کو پھیلانے والا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شریعت کے احکامات کو پہنچانے والا قرار دے اسے ہر کام میں کامیاب ہونے کی توفیق عطا فرما(9)
اور اس طرح سحر خیزی کی وجہ سے اس عارف کی دعا قبول ہوئی۔ اور اس کا دانشمند بیٹا، دین کی ترویج میں اورشریعت کے احکامات پہنچانے میں اس قدر کامیاب ہوا کہ دوست اور دشمن تعجب میں پڑ گئے۔ یہاں تک کہ علوم اسلامی اور حوزہ دین کا کوئی محقق اس عالم کی محنت اور زحمت بھری تالیفات سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
۲۔ میراث اہلبیت علیہم السلام کے عظیم محافظ، آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی۔ اکثر علوم اسلامی میں صاحب نظر تھے، جس کی روشن دلیل مختلف موضوعات پر انکی ۱۵۰قیمتی کتابیں ہیں۔معنوی کرامات، ۱۴۰۰اسلامی بزرگ علماء کا اجتہادی اور روایتی اجازہ،۶۷ سال سے زیادہ حوزہ علمیہ قم اور نجف میں تدریس،ہزاروں شاگردوں کی تربیت،سیکڑوں علمی مدرسوں، مسجدوں، امام بارگاہوں، ہاسپٹلز اور ثقافتی مراکز کا سنگ بنیاد، خصوصا اسلامی دنیا کا سب سے بڑا، مشہور اور معروف کتابخانہ۔ یہ سب اس نابغ فقیہ کی کا میابیاں اور کارنامے ہیں۔ اور وہ ان تمام توفیقات کواہلبیت علیہم السلام کی کرامت، ۷۰ سالہ مناجات سحری اور نصف شعبان کی دعائوں کا حاصل سمجھتے ہیں۔ اور بہت تاکید کے ساتھ وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:وہ مصلی جس پر میں نے ۷۰ سال نماز شب ادا کی ہے اس کو میرے ساتھ دفن کرنا۔(10)

نماز کو اہمیت دینا
نماز کا امام حسن عسکری علیہ السلام کی سیرت اور کلام میں ان کے اجداد کی طرح ایک خاص مقام اور منزلت ہے۔ ہم اس بارے میں چند روایات ذکر کرتے ہیں:
الف) ابو ہاشم جعفری بیان کرتے ہیں: میں ایک دن امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے دیکھا کہ امام لکھنے میں مشغول ہیں۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا، امام نماز پڑھنے کیلئے اٹھے۔میں نے تعجب سے دیکھا کہ قلم اسی طرح لکھ رہا ہے یہانتک کہ وہ تحریر پوری ہو گئی۔میں اس کرامت کو دیکھ کر شکر کے سجدہ میں گر گیا۔ جب امام نماز ادا کر کے پلٹے، قلم کو ہاتھ میں لیا اور لوگوں کو ملاقات کی اجازت مرحمت کی۔
ب) شیخ طوسی، امام حسن عسکری علیہ السلام سے ایک روایت میں نقل کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا:روزانہ، دن اور رات میں،۵۱ رکعتیں ادا کرنا سچے شیعہ کی نشانی ہے۔ اس روایت کے مطابق ایک حقیقی مومن صرف واجب ۱۷ رکعتوں پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ مستحب ۳۴ رکعتوں کو بھی اپنے لئے ضروری جانتا ہے۔ اس روایت کا متن کچھ اس طرح ہے: علامات المؤمنين خمس: صلوة الاحدي والخمسين، وزيارة الاربعين، والتختم في اليمين، وتعفير الجبين، والجهر ببسم اللّٰه الرحمن الرحيم (11)
مومن کی پانچ علامتیں ہیں۔روزانہ ۵۱ رکعتیں ادا کرنا، زیارت اربعین کرنا،سیدھے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، خاک پر سجدہ کرنا اور نماز میں بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنا۔
روایت کے پہلے جملہ کی تشریح میں اس نکتہ کو ذکر کرنا ضروری ہے کہ۵۱ رکعتوں سے مراد،۱۷ رکعتیں واجب اور۳۴ رکعتیں مستحب ہے۔ نماز واجب کی نوافل کیلئے قرآن میں تاکید کی گئی ہے۔ خصوصا رات کی نوافل جسے نماز شب کہا جاتا ہےاس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے، اس وجہ سے اس روایت میں واجب نمازوں کے ساتھ نفل نمازوں کو مومن کی نشانی شمار کیا گیا ہے۔
جن کی ترتیب فقہ، حدیث اور دعا کی کتابوں میں اس طرح بیان ہوئی ہے: جمعہ کے دن کے علاوہ یہ ترتیب ہے: نماز صبح کے نوافل دو رکعتیں ہیں، جو واجب نماز سے پہلے ادا کی جائیں گی۔نماز ظہر کے نوافل ۸ رکعتیں ہیں، جو واجب نماز سے پہلےادا کی جائیں گی۔ اسی طرح نماز عصر کے نوافل ۸ رکعتیں ہیں جو واجب نماز سے پہلے ادا کی جائیں گی۔نماز مغرب کے نوافل ۴ رکعتیں ہیں، جو واجب نماز کےبعد ادا کی جائیں گی۔ نماز عشاء کے نوافل۲ رکعتیں ہیں، جو واجب نماز کے بعد بیٹھ کر ادا کی جائیں گی اور ایک رکعت شمار ہوں گی۔۱۱ رکعتیں نماز شب کی ہیں،جس کاوقت آدھی رات سے صبح کی اذان تک ہے۔
اس طرح ۳۴ رکعتیں نوافل اور ۱۷ رکعتیں واجب، کل ۵۱ رکعتیں مکمل ہوئیں۔ روایت کے مطابق، جن کی روزانہ ادائیگی، مومن کی نشانی ہے۔
ج) امام حسن عسکری علیہ السلام ایک روایت میں اہل نماز کی منزلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:جب انسان نماز پڑھنے کی جگہ طرف کی جاتا ہے تا کہ نماز ادا کر سکے۔ اللہ تعالی اپنے فرشتوں سے خطاب فرماتا ہے:کیا میرے بندہ کو نہیں دیکھ رہے، جو تمام مخلوقات کو چھوڑ کر میری بارگاہ میں آیا ہے،اس حالت میں کہ میری رحمت،کرامت،جود اور سخاوت کا امیدوار ہے۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی رحمت اور کرامت سے اس کو نوازا!(12)
بہترین نماز ادا کرنے والوں کی یادیں
امام حسن عسکری علیہ السلام سےاس آیت «ويقيمون الصلوة» کے ذیل میں ابوذر کی نماز کے متعلق ایک داستان نقل ہے، جس کا ذکر یہاں بے مورد نہیں ہے۔ امام فرماتے ہیں: ایک دن ابو ذر غفاری، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہ! میرے پاس ۶۰ بھیڑیں ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ ان کی وجہ سے ہمیشہ جنگل میں گذاروں اور آپ سے دور رہوں۔ اور یہ بھی نہیں چاہتا کہ ان کو کسی اور کے حوالہ کروں جو ان پر ظلم کرے اور ان کے حق کا خیال نہ کرے۔ میں کیا کروں؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ابھی جاؤ! اپنی بھیڑوں کو چراؤ!ابوذر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان مطابق جنگل میں اپنی بھیڑیں چرانے لگا۔ ایک ہفتہ بعد وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابوذر سے پوچھا: اپنی بھیڑوں کا کیا کیا؟اس نے جواب دیا: میری بھیڑیں بہت تعجب آور ہیں۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا: وہ کیسے؟ ابوذر نے جواب میں کہا: یا رسول اللہ ! میں نماز پڑھ رہا تھااتنے میں بھیڑیا نے میری بھیڑوں پر حملہ کیا۔ میں نے کہا: پروردگارا! میری نماز! میری بھیڑیں!میں حیران اور پریشان ہو گیا۔ کیا کروں۔اگر نماز بچاتاہوں تو بھیڑیا بھیڑیں کھا جائے گا۔ اور اگر بھیڑوں کو بچاتا ہوں تو نماز باطل ہو جائے گی۔آخر میں نے نماز کو بچانے کا فیصلہ کیا۔ اتنے میں شیطان نے وسوسہ کرنا شروع کیا:ابوذر یہ کیا کر رہے ہو؟ اگر یونہی نماز کو جاری رکھو گے تو بھیڑیا ساری بھیڑیں کھا جائے گا؟ یہ تیرا کل سرمایہ ہے، اب کیا کرو گے؟ کیسے گذر سفر ہوگا؟ میں نے شیطان کے جواب میں کہا: میرے لئے سب سے بہترین سرمایہ،اللہ تعالی کی وحدانیت، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت، ان کے بھائی امیر المومنین علی علیہ السلام کی ولایت اور ان کے دشمنوں سے دشمنی کا عقیدہ ہے، جو ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔اس کے علاوہ کوئی بھی چیز جائے، مجھے فرق نہیں پڑتا۔میں نے اپنی نماز جاری رکھی۔ بھیڑیا نے ایک بھیڑ پر حملہ کیا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ کہیں سے ایک شیر نمودار ہوااوراس نےبھیڑیا پر حملہ کیا اور میری بھیڑوں کو نجات دی اور میرے گلہ میں چھوڑ گیا۔ اور اس کے بعد شیر نے مجھے مخاطب کر کے فصیح زبان میں کہا:اے ابوذر! آرام اور سکون سے اپنی نماز ادا کرو۔ اللہ تعالی نے تمہاری بھیڑوں کی حفاظت کیلئے مجھے مامور کیا ہےیہاں تک کہ تم اپنی نماز سے فارغ ہو جاؤ۔ میں نے نماز کو تمام کیا اس حال میں کہ بہت حیرت زدہ تھا اوربہت تعجب کر رہا تھا۔ اللہ ہی میرا حال جانتا ہے۔اتنے میں وہ شیر میرے قریب آیا۔ اور کہنے لگا: امض الي محمدصلي اللّٰه عليه وآله فاخبره ان اللّٰه تعالي قد اکرم صاحبک الحافظ لشريعتک ووکل اسدا بغنمه يحفظها
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جاؤ۔ اور انہیں اطلاع دو کہ کیسے اللہ تعالی نے اس کے دوست، جوشریعت کا حفاظت کر رہا تھا، عزت بخشی، اور اس کی بھیڑوں کی حفاظت کیلئے شیر کو مقرر کیا۔ یہ پورا ماجرا سن کر تمام حاضرین محفل نے بہت تعجب کیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:اے ابوذر! تم سچے ہو۔مجھ پر،علی پر، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام پر ایمان کی وجہ سے تیرایہ واقعہ بھی سچا ہے۔ لیکن منافقین میں سے ۲۰ افراد نے یقین نہیں کیا اور کہا: یا رسول اللہ! ابوذر جھوٹ بول رہا ہے۔ہمیں خود اس کا پیچھا کرنا چاہیے اور اس جھوٹ کا پردا فاش کرنا چاہیے۔انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جب نماز کا وقت ہوا اور ابوذر نے تکبیر کہی۔ایک شیر نے اس کے گلہ کو چرانا اور اس کی حفاظت کرنا شروع کیا۔جب دوبارہ ابوذر، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و االہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئےتو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و االہ و سلم نے ان سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: يا اباذر انک احسنت طاعة الله، فسخر اللّٰه لک من يطيعک في کف العوادي عنک، فانت افضل من مدحه اللّٰه عزوجل بانه يقيم الصلاة۔
اے ابوذر! تم اللہ تعالی کی بہترین اطاعت کرنے والے ہو۔ اس لئے اللہ تعالی نے تمہارے لئے جنگل اور بیابان میں اطاعت کرنے والا کو مسخر کردیا۔جنافراد کی اللہ تعالی نےنماز کو قائم کرنے والے کہہ کہ اس آیت میں مدح کی ہے، تم ان میں سب سے افضل ہو(13)

حوالہ جات:
1) وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون ; «میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگرعبادت کیلئے» (ذاريات/56)
2) نهج البلاغه، خطبه 86 .
3) بقره/186 .
4) حجر/99 .
(5) بحارالانوار، ج 72، ص 155 .
7) بحارالانوار، ج 75، ص 380; الانوار البهيه، ص 319 .
8) مستدرک الوسائل، ج 3، ص 63; الامامہ و التبصره، علي بن بابويه قمي، ص 162 .
9) الفيض القدسي، ص 11 .
10) وصيتنامه الهي – اخلاقي، ص 22 .
(11) مصباح المتهجد، ص 788; وسائل الشيعه، ج 14، ص 478 . لیکن وسائل الشیعہ میں حدیث کے پہلے جملہ میں«صلوة الخمسين» ۵۰ رکعتوں کا ذکر ہے۔
(12) جامع احاديث الشيعه، ج 4، ص 22 .
(13) تفسير امام العسکري عليه السلام، ص 72 اور اس کے بعد; بحارالانوار، ج 81، ص 231، 232، 233، خلاصہ کے ساتھ .

https://erfan.ir/urdu/85321.html#:~:text=%

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے