خطبہ فدک متن:5
حَتَّى تَفَرََّى اللَّیْلُ عَنْ صُبْحِهِ،
یہاں تک کہ شب دیجور میں صبح امید کی روشنی پھیل گئی
وَ اَسْفَرَ الْحَقُّ عَنْ مَحْضِهِ،
اور حق اپنی بے آمیزی کے ساتھ نکھر کر سامنے آ گیا
و نَطَقَ زَعیمُالدّینِ،
اور دین کے پیشوا نے زبان کھولی(۴۷)
وَ خَرَسَتْ شَقاشِقُ الشَّیاطینِ،
اور شیاطین کی زبانوں کو لگام دے دی۔
وَ طاحَ وَ شیظُ النِّفاقِ،
نفاق کی بے وقعت جماعت بھی ہلاک ہو گئی۔
وَ انْحَلَّتْ عُقَدُ الْکُفْرِ وَ الشَّقاقِ،
اور کفر و شقاوت کے بند ٹوٹ گئے،
وَ فُهْتُمْ بِکَلِمَةِ الْاِخْلاصِ فی نَفَرٍ مِنَ الْبیضِ الْخِماصِ.
چند معزز فاقہ کش ہستیوں کی معیت میں تم کلمۂ توحید کا اقرار کرنے لگے،(۴۸)
وَ کُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ،
جبکہ تم آگ کے گڑھے کے دہانے پر تھے
تشریح کلمات
اَلھام:
بزرگان قوم
تفری، الَفْ:
ریُ:
کاٹنا چیرنا۔
شقاشق :
شقشقہ کی جمع اونٹ کا بلبلانا۔
طاح :
ہلاکت۔
وشیظ :
بے وقعت جماعت۔
فُہتُمُ :
تم نے اقرار کیا، زبان پر لایا۔
بیض :
سفید رنگ ہستیاں۔ یعنی معززین۔
خماص:
گرسنہ شکم، زاہد۔
۴۷۔یعنی اللہ تعالیٰ کے رسولؐ نے اپنی زبان گوہر افشاں سے دنیائے انسانیت کے لئے دستور حیات اور آئین زندگی بیان فرمائے جس سے انسانیت بلوغت کے مرحلے میں داخل ہو گئی۔ آپ نے دنیا کو تہذیب سکھائی اور تمدن دیا۔
۴۸۔وہ زہد و تقوی کی پیکر ہستیاں جو دنیا کی تمام آلائشوں سے بے نیاز تھیں اور اکثر اوقات فاقے میں رہتی تھیں۔ وہ کون ہیں وہ صرف اور صرف اہل بیت اطہار ؑکے افراد ہی ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام اہلبیتؑ کے بارے میں فرماتے ہیں:
ہم دعائم الاسلام وولائج الاعتصام بہم عاد الحق فی نصابہ و انزاح الباطل عن مقامہ و انقطع لسانہ عن منبتہ (نہج البلاغۃ خطبہ نمبر۲۳۶مطبوعہ مصر)
وہ اسلام کے ستون اور نجات کا مرکز ہیں ان کی وجہ سے حق اپنے اصلی مقام پر پلٹ آیا اور باطل اپنی جگہ سے ہٹ گیا اور اس کی زبان جڑ سے کٹ گئی۔
مُذْقَةَ الشَّارِبِ، وَ نُهْزَةَ الطَّامِعِ، وَ قُبْسَةَ الْعِجْلانِ، وَ مَوْطِیءَ الْاَقْدامِ،
تم (اپنے دشمنوں کے مقابلے میں) پینے والے کے لئے گھونٹ بھر پانی، طمع و لالچ والے (استعمار گروں کے لیے) ایک تر نو آلہ، جلدی بجھ جانے والی چنگاری اور قدموں کے نیچے پامال ہونے والے خس و خاشاک تھے (یعنی اس سے زیادہ تمہاری حیثیت نہ تھی۔)(۴۹)
تشریح کلمات
مذقہ:
گھونٹ بھر پانی۔
نہزۃ :
فرصت ۔
قبسۃ:
معمولی شعلہ۔
۴۹۔ چنانچہ مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
والدنیا کاسفۃ النور ظاہرۃ الغرور علی حین اصفرار من ورقہا و ایاس من ثمرھا و اغورار من مائھا قد درست منار الہدی وظہرت اعلام الردی فہی متجہمۃ لا ھلھا عابسۃ فی وجہ طالبھا ثمرھا الفتنۃ و طعامہا الجیفۃ وشعارہا الخوف و دثارھا السیف (نہج البلاغہ ج ۱ خطبہ نمبر ۸۷)۔
رسالتمابؐ جب مبعوث ہوئے تو اس وقت دنیا بے رونق و بے نور تھی اور اس کی فریب کاریاں کھلی ہوئی تھیں اس وقت اس کے پتوں میں زروی دوڑی ہوئی تھی اور پھلوں سے ناامیدی تھی۔ پانی زمین میں تہ نشین ہو گیا تھا، ہدایت کے مینار مٹ گئے تھے۔ ہلاکت کے پرچم کھلے ہوئے تھے اس کا پھول فتنہ تھا اور اس کی غذا مردار تھی، اندر کا لباس خوف باہر کا پہناوا تلوار تھا۔‘‘
تَشْرَبُونَ الطَّرْقَ،
تم کیچڑ والے بدبو دار پانی سے پیاس بجھاتے تھے،
وَ تَقْتاتُونَ الْوَرَقَ،
اور گھاس پھونس سے بھوک مٹاتے تھے۔
اَذِلَّةً خاسِئینَ،
تم (اس طرح) ذلت و خواری میں زندگی بسر کرتے تھے۔ (۵۰)
تَخافُونَ اَنْ یَتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِکُمْ،
تمہیں ہمیشہ یہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ آس پاس کے لوگ تمہیں کہیں اچک نہ لیں۔
فَاَنْقَذَکُمُ اللَّهُ تَبارَکَ وَ تَعالی بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَ الِهِ بَعْدَ اللَّتَیَّا وَ الَّتی،
ایسے حالات میں اللہ نے تمہیں محمدؐ کے ذریعے نجات دی۔ (۵۱)
تشریح کلمات
الطرق:
تعفن والا پانی۔ اونٹ کے پیشاب سے ملا ہوا پانی۔
قوت سے یعنی غذا ۔
خاسئین، خاسیٔ ؟؟:
ذلیل۔
یتخطفکم،الخطف:
اچک کر لے جانا، اغوا کرنا۔
انقذ :
نجات بخشی۔
۵۰۔اس بات کو مولائے متقیان حضرت علی ؑ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
ان اللّہ بعث محمداً صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم نذیراً للعالمین و امیناً علی التنزیل و انتم معشر العرب علی شر دین وفی شردار منیخون بین حجارۃ خشن و حیات صم، تشربون الکدر و تأکلون الجشب وتسفکون دمائکم وتقطعون ارحامکم (نہج البلاغۃ خطبہ۲۶طبع مصر)
اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تمام جہانوں کو تنبیہ کرنے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا۔ اے گروہ عرب !اس وقت تم بد ترین دین پر اور بدترین گھروں میں تھے۔ کھردرے پتھروں اور زہریلے سانپوں میں تم بود باش رکھتے تھے۔ گدلا پانی پیتے تھے اور بد ترین غذا کھاتے تھے۔ اپنا خون بہایا کرتے تھے اور قطع رحمی کرتے تھے۔
۵۱۔اشارہ سورہ انفال کی آیت نمبر۲۶ کی طرف ہے، جس میں فرمایا:
واذکروا اذ انتم قلیل مستضعفون فی الارض تخافون ان یتخطفکم الناس فآواکم وایدکم بنصرہ ورزقکم من الطیبات لعلکم تشکرون۔
وہ وقت یاد کرو جب تم تھوڑے تھے تمہیں زمین میں کمزور سمجھا جاتا تھا اور تمہیں خوف رہتا تھا کہ کہیں لوگ تمہیں اچک کر نہ لے جائیں تو اللہ نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہیں تقویت پہنچا دی اور تمہیں پاکیزہ روزی عطا کی تاکہ تم شکر کرو۔
وَ بَعْدَ اَنْ مُنِیَ بِبُهَمِ الرِّجالِ، وَ ذُؤْبانِ الْعَرَبِ، وَ مَرَدَةِ اَهْلِ الْکِتابِ.
(اس سلسلے میں) انہیں زور آوروں، عرب بھیڑیوں اور سرکش اہل کتاب کا مقابلہ کرنا پڑا۔
کُلَّما اَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ اَطْفَأَهَا اللَّهُ،
دشمن جب بھی جنگ کے شعلے بھڑکاتے اللہ انہیں بجھا دیتا۔
اَوْ نَجَمَ قَرْنُ الشَّیْطانِ، اَوْ فَغَرَتْ فاغِرَةٌ مِنَ الْمُشْرِکینَ،
جب بھی کوئی شیطان سر اٹھاتا یا مشرکین میں سے کوئی اژدھا منہ کھولتا،
قَذَفَ اَخاهُ فی لَهَواتِها،
رسول اپنے بھائی(علی ؑ) کو اس کے حلق کی طرف آگے کرتے تھے۔
فَلا یَنْکَفِیءُ حَتَّى یَطَأَ جِناحَها بِأَخْمَصِهِ،
اور وہ (علی ؑ) ان لوگوں کے غرور کو اپنے پیروں تلے پامال کیے بغیر
وَ یَخْمِدَ لَهَبَها بِسَیْفِهِ،
اور اپنی تلوار سے اس آتش کو فرد کیے بغیر نہیں لوٹتے تھے۔(۵۲)
تشریح کلمات
مُنِیَ:
دوچار ہونا پڑا۔
بُہم الرجال:
زور آور لوگ
مردۃ :
سرکش
نجم:
ظاہر ہونا
فغرت:
فاغرۃ، منہ کھولنے والا۔
لہوات:
حلق کا دھانا۔
لاینکفی:
نہیں لوٹتے تھے
صماخ:
کان کے سوراخ پر مارنا۔
اخمص:
تلوے کا وہ حصہ جو زمین سے نہ لگے پورا قدم بھی مراد لیتے ہیں
اخماد:
خاموش کرنا۔
۵۲۔اس سلسلہ میں خود حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
ولقد واسیتہ بنفسی فی المواطن التی تنکص فیھا الابطال وتتأخر فیھا الاقدام (نہج البلاغہ خطبہ۱۹۵)
میں نے پیغمبرؐ کی مدد ان موقعوں پر کی جن موقعوں پر بہادر بھی بھاگ کھڑے ہوتے تھے اور قدم پیچھے ہٹ جاتے تھے۔
علامہ ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغۃ میں جنگ احد کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جنگ احد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب زخمی ہو گئے تو لوگوں نے کہا: محمدؐ شہید ہو گئے۔ اس وقت مشرکین کے ایک لشکر نے دیکھا کہ پیغمبرؐ ابھی زندہ ہیں چنانچہ وہ حملہ آور ہوئے۔ رسول ؐخدا نے فرمایا: اے علی اس لشکر کو مجھ سے دور کرو۔ علی ؑ نے اس لشکر پر حملہ کیا اور اس لشکر کے سربراہ کو قتل کیا اسی طرح دوسرے اور تیسرے لشکر نے پھر رسول ؐ اللہ پر حملہ کیا۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اے علی ؑ! اس لشکر کو مجھ سے دور کرو۔ علی ؑ نے اس لشکر کے سربراہ کو قتل کیا اور دور بھگا دیا۔ رسول ؐ اللہ نے فرمایا: اس موقع پر جبرئیل نے مجھ سے کہا: علی ؑ کا یہ دفاع حقیقی مواساۃ اور مدد ہے ۔میں نے جبرائیل سے کہا: ایسا کیوں نہ ہو علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔ جبرائیل نے کہا: میں آپ دونوں سے ہوں۔‘‘








