خطبہ فدک متن:3
وَ الزَّکاةَ تَزْکِیَةً لِلنَّفْسِ وَ نِماءً فِی الرِّزْقِ،
زکوۃ کو نفس کی پاکیزگی اور رزق میں اضافے کا،(۳۲)
وَ الصِّیامَ تَثْبیتاً لِلْاِخْلاصِ،
روزہ کو اخلاص کے اثبات کا،(۳۳)
وَ الْحَجَّ تَشْییداً لِلدّینِ،
حج کو دین کی تقویت کا،
وَ الْعَدْلَ تَنْسیقاً لِلْقُلُوبِ،
عدل و انصاف کو دلوں کو جوڑنے کا،
۳۲۔جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے:
خذ من امو آلہم صدقۃ تطہرھم و تزکیہم (سورۃ توبہ آیت ۱۰۳)
اے رسول آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجئے اس کے ذریعہ آپ ان کو پاکیزہ اور بابرکت بنائیں۔
یعنی زکوۃ وصول کرکے ان کو بخل، طمع، بے رحمی اور دولت پرستی جیسے برے اوصاف سے پاک کریں۔ وتزکیۃ :یعنی سخاوت، ہمدردی اور ایثار و قربانی جیسے اوصاف کو پروان چڑھانا۔ اس طرح زکوۃ اوصاف رذیلہ کی تطہیر اور اوصاف حمیدہ کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ واضح رہے کہ زکوۃ ’’انفاق‘‘ ایک عنوان ہے اس کی کئی اقسام ہیں مثلاً فطرہ، مالی کفارہ،عشر، خمس، صدقہ واجب اور صدقہ مستحب۔ البتہ فقہی اصطلاح میں زکوۃ کا لفظ معینہ نصاب پر عائد ہونے والے مالی حقوق کے ساتھ مختص ہے۔
۳۳۔ عبادات میں روزہ اخلاص کی خصوصی علامت اس لئے ہے کہ باقی عبادات کا مظاہرہ عملاً ہوتا ہے جن میں ریاکاری کا امکان رہتا ہے مگر روزہ دار کے بارے میں صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اس نے روزے کی حالت میں کچھ کھایا پیانہیں ہے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
الصوم لی وانا اجزی بہ (الوافی ازفیض کاشانی ج۲ص۵طبع تہران
روزہ میرے لئے ہے اور میںخود اس کی جزا دوں گا۔
وَ طاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ،
ہماری اطاعت کو امت کی ہم آہنگی کا، (۳۴)
وَ اِما مَتَنا اَماناً لِلْفُرْقَةِ،
ہماری امامت کو تفرقہ سے بچانے کا،(۳۵)
وَ الْجِهادَ عِزّاً لِلْاِسْلامِ،
جہاد کو اسلام کی سربلندی کا، (۳۶)
وَ الصَّبْرَ مَعُونَةً عَلَی اسْتیجابِ الْاَجْرِ
صبر کو حصول ثواب کا،
۳۴۔اطاعتنا: ہماری اطاعت ۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی اہل بیت کی اطاعت مراد ہے جیسا کہ فرمایا:
یا ایہا الذین آمنوا اطیعوا اللّہ و اطیعواا لرسول ولا تبطلوا اعمالکم (سورہ محمد آیت۳۲)
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو۔
۳۵۔ اگر امت اسلامیہ ائمہ اہل بیتؑ کی امامت پر مجتمع ہو جاتی تو اس امت میں تفرقہ وجود میں نہ آتا۔ امت محمدیہ میں جو بھی تفرقہ وجود میں آیا ہے وہ بنی ہاشم کے ساتھ محض حسد و عداوت کی وجہ سے آیا ہے۔ اس کی صرف ایک مثال پیش خدمت ہے کہ جب مکہ میں عبد اللہ بن زبیر کی حکومت قائم ہوئی تو اس کا یہ موقف بناکہ رسالتمآب ؐپر درود بھیجنے سے کچھ لوگوں کی ناک اونچی ہوتی ہے اس لئے میں درود نہیں بھیجتااس قسم کے کئی واقعات پیش کیے جاسکتے ہیں آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی اطاعت تفرقہ اور ہلاکت سے محفوظ رہنے کا سبب ہے چنانچہ اہل بیت کا اہل زمین کے لئے امان ہونے کے بارے میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ مثلاً فرمایا:اہل بیتؑ سفینہ نوح ؑکے مانند ہیں، اہل ارض کے لئے امان اور باب حطّہ ہیں۔
(ملاحظہ ہو: صواعق محرقہ ابن حجر مکی صفحہ۱۷۸ طبع قاہرہ)
۳۶۔جہاد کی دو قسمیں ہیں:
i۔جہاد برائے دعوت اسلام۔ii۔جہاد برائے دفاع۔
جہاد برائے دعوت میں امام کی اجازت شرط ہے۔ امام خاص شرائط کے تحت دعوت کے لئے جہاد کا حکم صادر فرماتے ہیں اور جہاد برائے دفاع اس وقت واجب ہو جاتا ہے جب دشمن کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ اس میں اذن امام شرط نہیں ہے اور یہ جہاد ہر ایک پر واجب ہو جاتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام جہاد کے بارے میں فرماتے ہیں : واللہ ما صلحت دین ولا دنیا الا بہ’’ قسم بخدا دین اور دنیا کی بہبودی صرف جہاد ہی کے ذریعہ ممکن ہے‘‘۔
وَ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلِحَةً لِلْعامَّةِ،
امر بالمعروف کو عوام کی بھلائی کا،(۳۷)
وَ بِرَّ الْوالِدَیْنِ وِقایَةً مِنَ السَّخَطِ،
والدین پر احسان کو قہرِ الٰہی سے بچنے کا،(۳۸)
وَ صِلَةَ الْاَرْحامِ مَنْساءً فِی الْعُمْرِ وَ مَنْماةً لِلْعَدَدِ،
صلۂ رحمی کو درازی عمر اور افرادی کثرت کا،(۳۹)
تشریح کلمات
سخط :
ناراض ہونا۔
منماۃ :
رشد اور نمو۔
۳۷۔ امر باالمعروف اور نہی از منکر اصلاح معاشرہ کے لئے اسلام کا ایک زرین اصول ہے جس پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں ایک متوازن سوچ کا حامل با شعور معاشرہ وجود میں آتا ہے، جس میں کسی ظالم کو ظلم کرنے اور کسی استحصالی کو استحصال کرنے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ ایک آگاہ اور باشعور معاشرہ ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ بصورت دیگر ایک تاریک اور شعور سے خالی معاشرے میں ہر قسم کی ظالم اور استحصالی قوتوں کے لیے کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔ حدیث میں مروی ہے : تم اگرامربالمعروف اور نہی از منکر کے عمل کو ترک کرو گے تو تم پر ایسے ظالم لوگ مسلط ہو جائیں گے جن سے نجات کے لئے تم دعا کرو گے لیکن تمہاری دعا قبول نہ ہو گی۔
۳۸۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے :
من اسخط والدیہ اسخط اللہ ومن اغضبھما فقد اغضب اللہ (مستدرک الوسائل)
جس نے والدین کو ناراض کیا اس نے اللہ کو ناراض کیا اور جس نے والدین کو غصہ دلایا اس نے اللہ کو غصہ دلایا۔
۳۹۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
واتقو اللہ الذی تساء لون بہ والارحام (نساء ؍ ۱)
اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (خوف کرو۔)۔
اس آیت مبارکہ میں صلہ ٔ رحمی کو خوف خدا کے ذکر کے ساتھ رکھا گیا ہے جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
وَ الْقِصاصَ حِقْناً لِلدِّماءِ،
قصاص کو خون کی ارزانی روکنے کا، (۴۰)
وَ الْوَفاءَ بِالنَّذْرِ تَعْریضاً لِلْمَغْفِرَةِ،
وفا با لنذرکو مغفرت میں تأثیر کا،
وَ تَوْفِیَةَ الْمَکائیلِ وَ الْمَوازینِ تَغْییراً لِلْبَخْسِ
پورے ناپ تول کے حکم کو کم فروشی سے بچنے کا،
وَ النَّهْىَ عَنْ شُرْبِ الْخَمْرِ تَنْزیهاً عَنِ الرِّجْسِ،
شراب نوشی کی ممانعت کو آلودگی سے بچنے کا، (۴۱)
تشریح کلمات
حقن :
محفوظ رکھنا، روکنا ۔
بخس :
کم دینا۔
۴۰۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب (بقرہ؍۱۷۹)
اے صاحبان عقل ! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے۔
یعنی قانون قصاص کے ذریعے قتل کا عمل رک سکتا ہے۔ اس طرح اس قانون کے نفاذ سے تمہاری زندگیاں محفوظ ہو جائیں گی۔ چنانچہ اسلام کا قانون قصاص نافذ نہ ہونے کی وجہ سے بعض قبائل میں آج بھی قتل کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
۴۱۔ شراب کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دس افراد پرلعنت بھیجی ہے:
لعن رسول اللہ فی الخمر عشرۃ غارسھا و حارسھا و عاصرھا، وشاربھا وساقیھا و حاملھا، والمحمول لہ و بایعھا ومشتریھا و آکل ثمنھا (الکافی ۶؍۴۲۹)
وہ دس افراد یہ ہیں: اس کی زراعت کرنے والا، اس کی حفاظت کرنے والا، اس کو کشید کرنے والا، اس کو پینے والا، اس کو پلانے والا، اس کو حمل و نقل کرنے والا، اس کو وصول کرنے والا، اس کو فروخت کرنے والا، اس کو خریدنے والا اور اس کی قیمت کھانے والا۔
جس شخص میں بھی یہ خصائل پائے جائیں وہ اس لعنت کا مستوجب قرار پاتا ہے۔
وَ اجْتِنابَ الْقَذْفِ حِجاباً عَنِ اللَّعْنَةِ،
بہتان تراشی سے اجتناب کو نفرت سے بچنے کا،(۴۲)
وَ تَرْکَ السِّرْقَةِ ایجاباً لِلْعِصْمَةِ،
چوری سے پرہیز کو شرافت قائم رکھنے کا،
وَ حَرَّمَ اللَّهُ الشِّرْکَ اِخْلاصاً لَهُ بِالرُّبوُبِیَّةِ
اور شرک کی ممانعت کواپنی ربوبیت کو خالص بنانے کا ذریعہ بنایا۔
فَاتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ، وَ لا تَمُوتُنَّ اِلاَّ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُونَ،
اے ایمان والو! اللہ کا خوف کرو جیسا کہ اس کا خوف کرنے کا حق ہے اور جان نہ دینا مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ (سورہ آل عمران؍۱۰۳)
وَ اَطِیْعُوا اللَّهَ فِیْمَا اَمَرَکُمْ بِهِ وَ نَهَاکُمْ عَنْهُ، فَاِنَّهُ اِنَّمَا یَخْشَی اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ.
اس نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے اور جن چیزوں سے روکا ہے ان میں اللہ کی اطاعت کرو کیونکہ بندوں میں سے صرف علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔
۴۲۔تہمت لگانے کی مذمت کرتے ہوئے اللہ تعالی نے سورۃ نور آیت نمبر۲۳ میں فرمایا:
ان الذین یرمون المحصنات الغافلات المؤمنات لعنوا فی الدنیا و الآخرۃ ولھم عذاب عظیم
جو لوگ بے خبرپاک دامن مؤمنہ عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لئے عذاب عظیم ہے۔








