کتاب کشف الغمۃ میں روایت نقل ہوئی ہے: ایک دن امیرالمؤمنین امام علی علیہ‌السلام مختصر قیلولہ فرما رہے تھے؛ جب بیدار ہوئے تو بھوک محسوس ہوئی اور اپنی زوجہ حضرت فاطمہ زہرا سلام‌اللہ‌علیہا سے کھانے کا مطالبہ کیا۔ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام نے فرمایا: خدا کی قسم! جس نے میرے والد کو نبوت اور آپ کو وصایت کے لیے منتخب کیا ہے، آج ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کر سکوں، بلکہ دو دن سے میں نے خود بھی کچھ نہیں کھایا ہے، جو کچھ گھر میں تھا وہ آپ اور بچوں کو پیش کر چکی ہوں۔

 

امیر المومنین امام علی علیہ‌السلام نے فرمایا: اے فاطمہ! تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا، تاکہ میں تمہارے لیے کچھ مہیا کرتا؟

 

حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام نے عرض کیا: اے ابوالحسن! میں اپنے پروردگار سے شرم کرتی ہوں کہ آپ سے وہ چیز مانگوں جو آپ کے لیے مشکل کا سبب ہو۔ یہ سن کر امیر المومنین امام علی علیہ‌السلام خدا سے دلی امید اور توکل کے ساتھ گھر سے نکلے اور ایک دینار قرض لیا، تاکہ گھر والوں کے لئے کچھ خرید سکیں۔ واپس آتے ہوئے دیکھا کہ جناب مقداد بن اسود رضوان اللہ تعالی علیہ دھوپ میں پریشان بیٹھے ہیں۔ امیر المومنین امام علی علیہ‌السلام نے فرمایا: اے مقداد! یہ کیا حالت ہے؟

 

جناب مقداد نے عرض کیا : اے امیر المومنین! مجھ سے میرا حال نہ پوچھئے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اصرار کرتے ہوئے فرمایا: نہیں، مجھے حالات سے آگاہ کرو۔

 

جناب مقداد نے عرض کیا: جب آپ اصرار فرما رہے ہیں تو بتاتا ہوں کہ خدا کی قسم! میری یہ حالت فقر و تنگدستی کی وجہ سے ہے۔ میرے گھر والے بھوکے تھے، ان کے رونے کی آواز برداشت نہ ہوئی تو دل گرفتہ ہو کر گھر سے نکل آیا۔

 

یہ سن کر امیر المومنین امام علی علیہ‌السلام کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ فرمایا: خدا کی قسم! یہی حال میرا بھی ہے، اسی سبب سے میں بھی گھر سے نکلا ہوں۔ میں نے ایک دینار قرض لیا تھا، اب وہ تمہیں دیتا ہوں، تمہیں اپنے اوپر ترجیح دیتا ہوں۔

 

یہ کہہ کر وہ دینار جناب مقداد کو دے دیا اور خود نماز کے لئے مسجد تشریف لے گئے۔ نمازِ ظہر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتدا میں ادا کی اور مسجد میں ہی رکے رہے یہاں تک کہ مغرب بھی آپ کی اقتدا میں ادا کی۔نماز کے بعد رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا: اے علی! کیا تم چاہتے ہو کہ آج کی شب میں تمہارا مہمان بنوں؟

 

امیر المومنین امام علی علیہ‌السلام شرم کے باعث خاموش رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ کو وحی کے ذریعہ معلوم تھا کہ علی و فاطمہ علیہما السلام اور ان کے بچے بھوکے ہیں اور علی علیہ السّلام نے قرض لیا دینار بھی راہِ خدا میں دے دیا ہے، اس لئے خدا نے حکم دیا تھا کہ وہ آج علی علیہ السّلام کے گھر جائیں۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ‌ علیہا نے عرض کیا: الحمدللہ۔ بہتر گذرا۔ پھر آپ نے اس پیالے کو اٹھا کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھ دیا۔

امیرالمومنین امام علی علیہ‌ السلام نے جب وہ کھانا دیکھا، جس کی خوشبو سے پورا گھر معطر ہو گیا تھا، تو تعجب کیا اور فرمایا: اے فاطمہ! تم نے تو کہا تھا دو دن سے کچھ نہیں کھایا ہے؟

 

حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام نے آسمان کی جانب نظر اٹھائی اور فرمایا: اللہ بہتر جانتا ہے جو کچھ آسمان و زمین میں ہے، اور وہ جانتا ہے کہ میں نے سچ کہا تھا۔

امیرالمومنین امام علی علیہ‌السلام نے پوچھا: تو یہ کھانا کہاں سے آیا، کہ ایسا کھانا نہ کبھی دیکھا نہ اس سے بہتر خوشبو سونگھی؟

 

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمومنین امام علی علیہ‌السلام کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: یہ وہی کھانا ہے جو اس دینار کے بدلے میں آسمان سے نازل ہوا ہے جو تم نے خدا کی راہ میں ایثار کیا تھا۔ حالانکہ خود بھی اس کے محتاج تھے۔

اس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا: الحمد لله الذي اءبى لكما أن تخرجا من الدنيا حتى يجريك يا علي مجرى زكريا، ويجري فاطمة مجرى مريم بنت عمران.”تمام حمد اس خدا کے لئے ہے جس نے یہ پسند نہ کیا کہ تم دونوں (علی و فاطمہ علیہما السلام) دنیا سے جاؤ جب تک کہ تمہیں، اے علی، زکریا کی طرح اور تمہیں، اے فاطمہ، مریم بنت عمران کی طرح نہ قرار دے۔”

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابوالحسن! کیوں نہیں کہتے نہیں تاکہ میں واپس چلا جاؤں، یا ہاں تاکہ تمہارے ساتھ چلوں؟ امیر المومنین امام علی علیہ‌السلام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! خوشی کے ساتھ تشریف لائیے، ہم کمال اشتیاق سے آپ کا استقبال کرتے ہیں۔

چنانچہ دونوں ایک ساتھ گھر پہنچے۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اپنے مصلی پر عبادت میں مشغول تھیں۔ ان کے پیچھے ایک پیالہ رکھا تھا جس میں گرم غذا تھی اور اس سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔

جب حضرت فاطمہ علیہا السلام نے اپنے بابا کی آواز سنی تو مصلی سے اٹھ کر سلام کیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا، ان کے سر پر دستِ مبارک پھیرا اور فرمایا: بیٹی! آج کا دن کیسا گذرا؟ خدا تم پر رحمت کرے۔

ترجمہ و ترتیب: سید علی ہاشم عابدی

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے