تربیتِ اولاد کے مشکل اور حساس مرحلے میں والدین کی ایک بڑی فکری پریشانی یہ ہے کہ دینی و اخلاقی اقدار کو بچوں تک کس انداز میں منتقل کیا جائے؛ ایسا انداز جو نہ صرف بچے میں ضد اور فاصلے کا باعث نہ بنے بلکہ اس کے ایمان کو مضبوط کرے اور والدین و اولاد کے درمیان محبت اور اعتماد کو بھی بڑھائے۔

اسی حوالے سے "حوزه نیوز” نے حجت الاسلام علی‌اصغر کریم‌خانی، جو کہ خاندانی اور دینی تربیت کے ماہر ہیں، سے تفصیلی گفتگو کی ہے تاکہ والدین کو اس اہم دینی فریضے کے مؤثر اور عملی طریقے بتائے جا سکیں۔

سوال: والدین کی طرف سے بچوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی اہمیت کیا ہے؟

جواب: خاندان انسان کی پہلی اور سب سے پائیدار تربیتی درسگاہ ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں بچے کی شخصیت، عقائد اور اخلاقی اقدار کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ چونکہ انسان کی نشو و نما اسی ماحول میں ہوتی ہے، اس لیے والدین کا تربیتی طریقہ کار نہایت اہمیت رکھتا ہے۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بھی تربیت کے اہم مراحل میں سے ایک ہے۔ اگر یہ عمل خاندان کے اندر درست انداز میں جاری رہے تو گھر کے افراد ایک دوسرے کی تربیت میں کامیاب ہوتے ہیں، کیونکہ ایسے گھر کی بنیاد باہمی خیرخواہی اور اصلاح پر ہوتی ہے۔

اگر والدین تربیت کے مراحل کو صحیح طریقے سے طے کریں تو اکثر اوقات بات اس مقام تک پہنچتی ہی نہیں کہ سختی یا اصرار کی ضرورت پڑے۔ اور اگر کبھی امر بالمعروف کی نوبت آجائے تو وہ محبت اور تربیت کے اثر سے دل میں اتر جاتا ہے۔

لہٰذا ضروری ہے کہ یہ فریضہ والدین کے ذریعے اور حالات کے مطابق انجام پائے، اور اگر کسی مرحلے پر تربیتی مسئلہ پیچیدہ ہو جائے تو کسی قابل اعتماد مشیر یا عالمِ دین کی مدد لی جائے۔

سوال: اگر والدین کسی "منکر” یعنی غلط کام (مثلاً لباس یا میل جول کے طریقے) کے بارے میں آپس میں اختلاف رکھتے ہوں تو کیا کرنا چاہیے؟

جواب: سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ والدین اپنے رویّے میں متحد اور ہم آہنگ ہوں۔ اگر والد ایک بات کہے اور والدہ اس کے برعکس ردِ عمل دکھائے، تو بچہ دینی اصولوں کو سنجیدگی سے نہیں لے گا۔

اس لیے ضروری ہے کہ والدین پہلے آپس میں، بچے کی غیر موجودگی میں، بات کریں اور کسی مشترک رائے پر پہنچیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ پہلے یہ سمجھا جائے کہ آیا یہ اختلاف صرف سلیقے اور ذوق کا ہے یا دینی اصول کا۔

مثلاً کبھی والدین اور بچہ تینوں حجاب کے قائل ہوتے ہیں، مگر لباس کے انداز پر اختلاف ہوتا ہے؛ جیسے والد چادر کو افضل سمجھتا ہے مگر بیٹی مانع نہیں بلکہ مناسب مانٹو کو کافی سمجھتی ہے۔ یہاں ضد یا سختی کے بجائے، سمجھانے اور قناعت دلانے کا طریقہ اپنانا چاہیے۔

اگر اختلاف واقعی دینی اصول میں ہو (یعنی بچہ کم از کم شرعی حدود بھی پامال کر رہا ہو)، تو پھر سب سے مؤثر راستہ عقلی و قلبی قناعت ہے، نہ کہ زور زبردستی۔

اسلامی سیرت میں دیکھا جاتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین کو سختی نہیں بلکہ اخلاق، نرم مزاجی اور محبت کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اتارا۔ والدین کو بھی اسی طریقے پر چلنا چاہیے۔

سوال: والدین کی نگرانی اور دلسوزی کہاں تک درست ہے؟ اور کب یہ "کنٹرول” بچے کی شخصیت کو نقصان پہنچاتا ہے؟

جواب: اسلامی تربیت کے چند واضح مراحل ہیں۔ امر بالمعروف اُس وقت مؤثر ہوتا ہے جب اس سے پہلے ارشاد، تعلیم، اور صبر کے مراحل طے کیے جا چکے ہوں۔

تربیت کے چند اصول اگر والدین ہمیشہ یاد رکھیں تو زیادہ تر مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے:

1. محبت

2. صبر

3. مناسب نگرانی

4. تدریج (یعنی تربیت کا مرحلہ وار ہونا)

مثال کے طور پر نماز کی تعلیم میں اسلام نے بہت خوبصورت تدریج رکھی ہے:

پانچ سال کی عمر میں بچے کو دائیں بائیں کی پہچان سکھائیں۔

چھ سال میں وضو کی تعلیم دیں، مگر نرمی سے۔

سات سال میں نماز کا طریقہ بتائیں۔

آٹھ سال میں اس پر عمل کرنے کی ترغیب دیں۔

دیکھیے! چار سال کا تدریجی عمل ہے جس میں نہ سختی ہے نہ اجبار، بلکہ محبت اور صبر ہے۔

اس کے برعکس، اگر والدین بچے کو دس برس تک آزاد چھوڑ دیں اور پھر یکایک حکم دیں کہ "اب سے نماز پڑھو”، تو وہ قدرتی طور پر مزاحمت کرے گا۔

اس لیے نیکی کا حکم اسی وقت مؤثر ہوگا جب پہلے محبت، تدریج اور صبر کے اصول اپنائے گئے ہوں۔

سوال: والدین ایسا کیا کریں کہ نیکی کا عمل بچے کے دل میں "خدا کے لیے” پیدا ہو، نہ کہ صرف خوف یا انعام کے لیے؟

جواب: یہی دراصل تربیت کا مقصد ہے، کہ عمل دل سے اور خدا کے لیے ہو۔

یہ مقصد تب حاصل ہوتا ہے جب والدین، محبت کے رشتے کو ہمیشہ مضبوط رکھیں، تربیت میں جلدبازی نہ کریں اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔

شروع میں ممکن ہے بچہ صرف والدین کی خوشی کے لیے نیک عمل کرے، مگر یہی عمل وقت کے ساتھ اس کے دل میں الٰہی نیت میں بدل جاتا ہے۔

روایات میں آیا ہے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا: "اگر فرزند کو تنبیہ کرنی ہو تو اس سے ناراض ہو جاؤ، مگر ناراضی کو زیادہ طول نہ دو۔”

یعنی تنبیہ بھی محبت کے دائرے میں ہو۔ اگر محبت موجود نہ ہو، تو ناراضی یا سزا بچے کے لیے "راحت” بن جاتی ہے، نہ کہ اصلاح۔ جبکہ اگر محبت راسخ ہو، تو معمولی ناراضی بھی دل پر اثر ڈالتی ہے۔

آخر میں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ انسان صاحبِ اختیار ہے۔ والدین کی ذمہ داری صرف کوشش ہے، نتیجہ ان کے ہاتھ میں نہیں۔

قرآن میں حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے بیٹے کی مثال بھی یہی بتاتی ہے کہ نبی کی تربیت بھی ہر دل پر اثر نہیں کرتی۔

لہٰذا والدین اپنی ذمہ داری پورے اخلاص سے انجام دیں اور باقی معاملہ خدا پر چھوڑ دیں۔

خلاصہ:

امر بالمعروف و نہی از منکر میں کامیابی کا راز محبت، تدریج، صبر، اور ہم آہنگی میں ہے۔

اگر والدین ان اصولوں پر عمل کریں تو ان کا کلام دل میں اترتا ہے اور نیکی بچے کی فطرت بن جاتی ہے، نہ کہ صرف ظاہری اطاعت۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے