ہر بچہ ایک منفرد راستے پر چلتا اور منفرد خصوصیات کا حامل ہوتا ہے؛ اس کا دوسروں سے موازنہ کرنا صرف اس کی نفسیات کو مجروح کرتا ہے اور اس کی روح پر کاری ضرب لگاتا ہے ۔ بہتر ہے خود کو اس کی عمر میں تصور کریں اور محبت و نرمی کے ساتھ اپنے رشتے کی راہ ہموار کریں۔

ہر بچے کی اپنی ایک کہانی ہوتی ہے؛ موازنہ نہ کریں

بجائے اس کے کہ آپ اپنے بچے کو اس کے دوستوں سے موازنہ کریں، اپنے بچپن کو اس کے سامنے پیش کریں:

مثلا "جب میں تمہاری عمر کا تھا تو صبح دیر سے اٹھتا تھا یہاں تک کہ میرے والد (تمہارے نانا) نے میرے لیے ایک الارم والی گھڑی خریدی۔ میں روز اسے سیٹ کرتا اور پھر شاذ و نادر ہی اسکول دیر سے پہنچتا۔ کیا تم بھی ایسی گھڑی لینا چاہو گے؟”

ہم سب چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد کامیابی کی راہ پر گامزن ہو اور ہر محفل میں ممتاز نظر آئے۔ یہ خواہش بذات خود کوئی بری بات نہیں۔ لیکن جب یہ خواہش موازنہ کی شکل اختیار کر لے تو یہ ایک اذیت ناک تجربہ بن جاتی ہے اور بچوں کی روح و روان پر بھاری دباؤ ڈالتی ہے۔

ذیل میں چند عام غلط موازنوں کی مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:

"علی کو دیکھو! جب تک اس کے سبق مکمل نہ ہوں، وہ کمرے سے باہر نہیں نکلتا۔”

"جب تمہارے دوست کو دیکھتا ہوں تو دل چاہتا ہے کاش میرا بیٹا بھی ایسا محنتی ہوتا!”

"تمہارے دوست کے نمبر دن بہ دن بہتر ہوتے جا رہے ہیں اور تم وہیں کے وہیں ہو!”

"تم تو ایک نوالہ کھانے میں جان نکال دیتے ہو، فلاں کو دیکھو کیسے خوشی سے کھانا کھاتا ہے اور اپنے ماں باپ کو پریشان نہیں کرتا!”

"دیکھا تمہارے فلاں دوست کا کمرہ کتنا صاف ستھرا ہے؟ اور تمہارا؟!”

"واقعی دل خوش ہوتا ہے جب حسن کی شائستگی دیکھتا ہوں؛ تمہارا ہی ہم عمر ہے!”

ہر موازنہ، والدین اور اولاد کے تعلق کے انہدام کی جانب ایک قدم

تعلیمی ماہرین اس طرح کے رویوں کے منفی اثرات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ موازنہ بچوں کی روح پر کاری ضرب لگاتا ہے اور وہ بار بار اس تکلیف دہ رویے کا شکار ہوتے ہیں۔

جب آپ بچوں کا موازنہ کرتے ہیں تو ان کے جسم میں کورٹیزول (تناؤ کا ہارمون) معمول سے زیادہ پیدا ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ تناؤ ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس کا تسلسل ان کا خوداعتمادی کا ڈھانچہ بھی تباہ کر دیتا ہے اور وہ ہمیشہ خود کو دوسروں کے مقابلے میں کمزور اور ناکام سمجھتے ہیں۔ اس ہارمون کی حد سے زیادہ افزائش طویل مدت میں پیٹ کے گرد چربی کے اضافے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

شاید اگر والدین جان لیں کہ وہ ان موازنوں کے ذریعہ کس قدر خطرناک ہتھیار خود اپنی اولاد کی طرف تان رہے ہوتے ہیں تو کبھی اس طرح کا رویہ اختیار نہ کریں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے