کیا آپ کے بچوں کی روزانہ کی لڑائیاں آپ کو پریشان کر رہی ہیں؟ کیا آپ اپنے نوجوان بہن بھائیوں کے مسلسل جھگڑوں سے بے بس محسوس کرتے ہیں؟ یہ سوال اکثر والدین کے ذہن میں آتا ہے: "کیا یہ جھگڑے معمول کے ہیں یا یہ ہمارے خاندان میں کسی گہرے مسئلے کی علامت ہیں؟”
اس گفتگو میں محترمہ زہرا ابراہیمی، محقق اور دفتر تبلیغات اسلامی میں اخلاق و تربیت کی ماہر، نے اس مسئلے کی علمی اور عملی طور پر پڑتال کی ہے۔ یہ انٹرویو عملی تجاویز پیش کرکے ایک پرسکون اور ترقی پذیر خاندان کی بنیاد رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ تربیتی گفتگو، خاندانوں کی تربیتی علمیت میں بہتری لانے کی امید میں، ماہرین، والدین اور عزیر قارئین کے سامنے پیش کی جا رہی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نوجوانی میں بہن بھائیوں کے درمیان جھگڑوں کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے اس دور کی خصوصیات کو جاننا ضروری ہے۔ اگر ہم نوجوان کو صحیح طور پر سمجھ لیں تو ہم ان کے درمیان اختلافات اور جھگڑوں کی جڑوں کو بہتر طور پر جان سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر، نوجوانوں کی ایک خصوصیت خود مختاری کا احساس ہے۔ جہاں کہیں بھی نوجوان کو محسوس ہو کہ اس کی خود مختاری کو خطرہ ہے، وہاں جھگڑا ہو سکتا ہے۔
اسی طرح، جذباتی رد عمل اس دور کی دوسری خصوصیت ہے۔ یعنی نوجوان چھوٹی سے چھوٹی بات پر شدید جذباتی رد عمل دے سکتا ہے۔
یہ رد عمل جو اس عمر کے لیے بالکل فطری اور مخصوص ہیں، بعض اوقات جھگڑے کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے مواقع پر، ہو سکتا ہے کہ اس کا بہن یا بھائی نے کوئی خاص کام نہ کیا ہو یا کوئی خاص تکلیف نہ دی ہو، لیکن انہیں جذباتی حساسیت کی وجہ سے جھگڑا ہو جاتا ہے۔
والدین کا مرکزی کردار: اختلاف پیدا کرنے میں
جب ہم بہن بھائیوں کے درمیان جھگڑے اور لڑائی کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف نوجوانوں کو ہی مرکزی مجرم نہیں سمجھنا چاہیے۔ بعض اوقات نوجوان خود ان جھگڑوں میں قصوروار نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں ایک اہم عنصر والدین کا مسلسل موازنہ کرنا ہے۔ جب ماں باپ بار بار بچوں کا آپس میں موازنہ کرتے ہیں تو ان کے درمیان ایک غیر صحت مند مقابلے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح بہن بھائی آہستہ آہستہ ایک دوسرے کی نظروں سے گر جاتے ہیں۔
بہت سے معاملات میں، والدین اپنے بچوں کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ ایک کو پسندیدہ، بہتر یا زیادہ پیارا بچہ قرار دیتے ہیں اور دوسرے کو نادانستہ طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہی رویہ ان کے درمیان جھگڑے اور اختلافات کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔
اگر ہم معاملے کو گہرائی میں دیکھیں تو ان جھگڑوں کی ایک وجہ نوجوان میں "توجہ کی ضرورت” کا احساس ہے۔ نوجوان چاہتا ہے کہ اسے دیکھا جائے اور وہ توجہ حاصل کرنے کے راستے ڈھونڈتا ہے۔ یہ معاملہ بھی خاندان کے کام کرنے کے طریقے سے جڑا ہوا ہے۔ جب ماں باپ اپنے بچے کو صحیح طور پر نہیں دیکھتے، اس کی تعریف نہیں کرتے، ضروری پیار نہیں دیتے اور مسلسل ڈانٹتے ہیں تو نوجوان اس جذباتی خلا کو پر کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ ایسی صورت حال میں، لڑائی اپنا وجود منوانے اور توجہ حاصل کرنے کے لیے ایک علامتی عمل بن سکتی ہے۔
جیسا کہ بتایا گیا، بہن بھائیوں کے جھگڑے میں والدین کا کردار بہت اہم ہے کیونکہ نوجوان اس عمر میں بہت حساس ہوتا ہے اور جلد ناراض ہو جاتا ہے۔ یہ حساسیت اس دور کی خاص نفسیاتی حساسیت کی وجہ سے ہے۔ نتیجے کے طور پر، نوجوان معمولی سی ناانصافی یا بے انصافی پر بھی شدید رد عمل دیتا ہے چاہے والدین کے نقطہ نظر سے اس کی منطقی وجہ ہی کیوں نہ ہو، اور پریشان ہو جاتا ہے۔
دوسری طرف، کچھ جھگڑے بہن بھائیوں کے اپنے رویے اور ایک دوسرے کی حدود سے ناواقفیت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ جسمانی اور نفسیاتی حدود جیسے پرائیویسی، تنہائی اور خاموشی کی ضرورت، اکثر نوجوانوں کے ہاں سنجیدہ ہوتی ہیں۔ جب ان میں سے کوئی اپنے کمرے میں تنہا رہنا چاہتا ہو، اپنے موبائل فون پر بات کر رہا ہو یا کسی سے نجی طور پر چیٹ کر رہا ہو، تو دوسرے بہن یا بھائی کا بغیر اجازت کے داخل ہونا یا محض تجسس میں دیکھنا اس کی پرائیویسی پر حملہ سمجھا جا سکتا ہے اور جھگڑے کا باعث بن سکتا ہے۔
ان حدود سے ناواقفیت اور ہر فرد کی ذاتی حدود کا احترام نہ کرنا، ایک اہم عنصر ہے جو نوجوانوں کے درمیان تنازعات کا باعث بن سکتا ہے۔
عمر کے فرق کا جھگڑوں پر اثر
ایک اور بات جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ ہے عمر کے فرق کا اثر۔ بچوں کے درمیان عمر کا فرق جتنا کم ہو گا، ان کے درمیان جھگڑے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہو گا۔ یہ ایک فطری بات ہے۔ کیونکہ جن بچوں کی عمر میں تھوڑا سا فرق ہوتا ہے (مثلاً ایک یا دو سال)، ان کی سمجھ، شناخت اور پختگی کا معیار ایک جیسا ہوتا ہے اور کوئی بھی اتنا بڑا نہیں ہوتا کہ اس سے زیادہ سمجھدار رویے کی توقع کی جا سکے۔ اس کے برعکس، جب عمر کا فرق زیادہ ہو اور ایک بڑا ہو اور دوسرا چھوٹا ہو تو والدین کے لیے معاملے کو سنبھالنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ لہٰذا، جن بچوں کی عمر میں تھوڑا سا فرق ہو یا وہ جڑواں ہوں، ہم ان کے درمیان زیادہ جھگڑے دیکھیں گے۔
جھگڑا: نشوونما کا ایک ناگزیر حصہ
یہ توقع کہ بہن بھائیوں کے درمیان جھگڑا مکمل طور پر ختم ہو جائے، ایک غیر حقیقی آرمان اور ناجائز توقع ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا، ان لڑائیوں کی بہت سی جڑیں بچپن اور نوجوانی کی فطری اور نشوونما کی خصوصیات سے جڑی ہیں۔ یہ جھگڑے نوجوان کی شناخت کی تشکیل اور نشوونما کے عمل کا ایک ناگزیر حصہ ہیں۔
ان جھگڑوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کی توقع درحقیقت انسان کی فطری نشوونما کی نوعیت کو نظر انداز کرنا ہے۔
میں بطور والد ان تضادات کی طرف کیسے توجہ دلاؤں؟
جب نوجوان جھگڑے کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ جذبات کے زیرِ اثر ہوتا ہے، اور اس کا دماغ صرف اپنے دفاع یا جیت پر مرکوز ہوتا ہے، اس لیے اس وقت کسی نصیحت یا منطق کی بات مؤثر نہیں ہوتی۔
اصل مسئلہ ہماری تربیت کے طریقے میں ہے۔ ہم بچوں کو ایک دوسرے جیسا بنانے پر زور دیتے ہیں، بجائے اس کے کہ ان کے باہمی فرق کو سمجھیں اور قبول کرنا سکھائیں۔
بطور والد، بہتر طریقہ یہ ہے کہ بچوں کو یہ سکھایا جائے کہ وہ ایک دوسرے کے اختلافات کو پہچانیں اور احترام کریں۔ اگر انہیں یہی سمجھ دی جائے کہ سب کو ایک جیسا ہونا چاہیے، تو ان کے جھگڑے کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ درست تربیت یہ ہے کہ ہر بچے کو اس کی انفرادیت کے ساتھ قبول کیا جائے۔
جھگڑے کے وقت والدین کو سمجھنا چاہیے کہ اس لمحے نصیحت یا تعلیم کا وقت نہیں ہوتا، کیونکہ جذباتی شدت کے باعث بچہ سننے یا سوچنے کی حالت میں نہیں ہوتا۔
ایسے میں والدین کا اصل فریضہ جذبات کو سنبھالنا ہے، نہ کہ فوری مداخلت کرنا۔ اگر جھگڑا معمولی ہو تو بہتر ہے کہ والدین براہِ راست مداخلت نہ کریں اور ماحول کو پرسکون ہونے دیں۔
جب جذبات ٹھنڈے ہو جائیں تو اس کے بعد بچے سے پرسکون اور تعمیری گفتگو کی جائے۔
اگر بچے جھگڑے کے وقت معافی یا نرمی نہیں دکھا پاتے تو اس کا مطلب ہے کہ اخلاقی اقدار ابھی ان کے دل میں راسخ نہیں ہوئیں — شاید اس لیے کہ والدین نے خود بھی ان اقدار کو عملی طور پر اپنی زندگی میں مضبوطی سے نہیں اپنایا۔
جاری ہے…..