طلاق صرف ایک رشتے کا اختتام نہیں ہوتی، بلکہ یہ اُن بچوں کے لیے نئی مشکلات کی شروعات ہوتی ہے، جو اس سارے معاملے میں بے قصور اور بے بس ہوتے ہیں۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ طلاق کے روحانی اثرات بچوں پر بھی پڑتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے والدین انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں، جبکہ ایسے وقت میں بچوں کو سب سے زیادہ محبت، توجہ اور سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

طلاق کا دکھ اور نقصان صرف میاں بیوی تک محدود نہیں رہتا۔ اگر کوئی بچہ درمیان میں ہو، تو وہ بھی نہ چاہتے ہوئے اس جدائی کے اثرات کا شکار ہو جاتا ہے۔

بدقسمتی سے والدین کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں بچہ کچھ نہیں سمجھتا، یا وقت کے ساتھ سب کچھ بھول جائے گا۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بچہ سب کچھ محسوس کرتا ہے، سمجھتا ہے، لیکن وہ اپنے جذبات کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔

تو پھر کیا کرنا چاہیے؟

1. بچے کو اپنی لڑائی میں نہ گھسیٹو!

بچہ نہ وکیل ہے، نہ جج۔ اُسے یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ طلاق کا قصوروار کون تھا۔ اُسے صرف یہ یقین ہونا چاہیے کہ اُس کے ماں باپ دونوں اب بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔

2. اپنے شریکِ حیات کی برائیاں نہ کرو، چاہے تم حق پر ہو۔

بچہ اپنی شخصیت کا آدھا حصہ تم سے اور آدھا حصہ تمہارے شریکِ حیات سے لیتا ہے۔ جب تم دوسرے فریق کی توہین کرتے ہو، تو گویا تم اپنے بچے کی آدھی شخصیت کو زخمی کر رہے ہو۔

3. بچے کے جذبات کو سنو اور تسلیم کرو۔

اُسے رونے دو، سوال کرنے دو، ناراض ہونے دو۔ اگر تم اُس کے جذبات کو دباتے ہو، تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کھلے زخم پر زبردستی پٹی باندھ دو—زخم ٹھیک نہیں ہوگا، بلکہ مزید خراب ہو جائے گا۔

4. بچے کے لیے ماہرِ نفسیات کی مدد لینا ضروری سمجھو۔

اگر بچہ چپ چپ رہنے لگے، تنہا ہو جائے، یا غصے والا رویہ اختیار کرے، تو یہ اس کے بگڑنے کی علامت نہیں، بلکہ طلاق کی تکلیف کا ردعمل ہے۔

یاد رکھو: تم نے اپنی زندگی کے ساتھی سے علیحدگی اختیار کی ہے، لیکن وہ شخص اب بھی تمہارے بچے کا ماں یا باپ ہے۔

اور سب سے اہم بات:

اپنے بچے کو اپنے آپسی جھگڑوں کی ڈھال نہ بناؤ۔

وہ صرف ایک معصوم بچہ ہے، کوئی ہتھیار یا بدلہ لینے کا ذریعہ نہیں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے