حالات زندگی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ
محمد بن عبد اللہ بن عبد المطّلب بن ہاشم (عام الفیل–11ھ) اللہ کے آخری نبی، پیغمبر اسلامؐ اور اولو العزم انبیاء میں سے ہیں۔ آپ کا اہم ترین معجزہ قرآن ہے۔ آپ یکتا پرستی کے منادی اور اخلاق کے داعی ہیں۔
آپ عرب کے مشرک معاشرے میں پیدا ہوئے تھے تاہم بتوں کی پرستش اور معاشرے میں رائج اخلاقی برائیوں اور قباحتوں سے پرہیز کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپؐ چالیس سال کی عمر میں مبعوث برسالت ہوئے۔ آپ کا اہم ترین پیغام توحید اور یکتا پرستی تھا۔ مکارم اخلاق اور اچھائیوں کی تکمیل آپ کی بعثت کے اہداف میں سے تھے۔ مکہ کے مشرکین نے اگرچہ کئی سال تک آپ اور آپ کے پیروکاروں کو اذیت اور آزار کا نشانہ بنایا مگر آپ اور آپ کے پیروکار کبھی بھی اسلام سے دستبردار نہیں ہوئے۔ مکہ میں تیرہ سال تک تبلیغ کے بعد آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی۔ مدینے کی طرف آپ کی ہجرت کو اسلامی تاریخ کا آغاز قرار دیا گیا۔ مشرکین مکہ کی طرف سے آپ کو مدینے میں متعدد جنگوں کا سامنا کرنا پڑا اور مجموعی طور پر ان جنگوں میں فتح نے مسلمانوں کے قدم چومے۔
رسول خداؐ کی کوششوں سے عربوں کا جاہلیت زدہ معاشرہ مختصر سے عرصے میں ایک توحیدی معاشرے میں بدل گیا اور تقریباً پورے جزیرہ نمائے عرب نے آپ کی حیات طیبہ کے دوران ہی اسلام قبول کیا۔ بعد کے ادوار میں بھی آج تک اسلام کا فروغ جاری ہے اور آج دین اسلام مسلسل فروغ پانے والا دین سمجھا جاتا ہے۔ جب آپ دنیا سے جا رہے تھے تو مسلمانوں کی ہدایت کیلئے اپنے بعد قرآن اور اہل بیتؑ کا دامن تھامے رکھنے کی وصیت فرمائی۔ واقعہ غدیر سمیت مختلف مواقع پر امام علی علیہ السلام کو اپنے جانشین کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا۔
نسب:
مُـحـمّـد بـن عـبـد الله بن عبد المطّلب (شَيبة الحمد، عامر) بن هاشم (عَمرو العُلى) بن عبد مَناف (مُـغيره) بن قُصَىّ (زيد) بن كلاب (حكيم) بن مُرّة بن كَعب بن لُؤىّ بن غالب بن فِهر (قریش) بن مالك بن نَضر (قَيس) بن كنانة بن خُزَيمة بن مُدركة (عمرو) بن الياس بن مضر بن نِزار (خلدان) بن مَعَدّ بن عدنان عليهم السلام [1]
ابھی آپ 6 سال 3 مہینے یا ایک قول کی بنا پر 4 سال کے تھے کہ آپ کی والدہ ماجدہ آمنہ بنت وہب نے آپ کو آپ کے نھنیال والوں سے ملاقات کے لئے مدینہ لے گئیں تھیں لیکن مکہ واپسی کے وقت ابواء کے مقام پر آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا اور وہیں سپرد خاک کی گئیں۔[2]
شیعہ امامیہ کے نزدیک ابو طالب، آمنہ بنت وہب، عبداللہ بن عبدالمطلب اور حضرت آدم تک رسول خداؐ کے اجداد کے مؤمن ہونے پر اجماع قائم ہے۔[3]
کنیت و القابات:
ابو القاسم اور ابو ابراہیم آپ کی کنیتیں ہیں۔[4]
آپ کے بعض القاب کچھ یوں ہیں: مصطفیٰ، حبیب اللہ، صفی اللہ، نعمۃ اللہ، خیرة خلق اللہ، سید المرسلین، خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین، نبی امّی۔[5]
ولادت:
رسول اکرمؐ کی ولادت باسعادت کا سال بطور دقیق معلوم نہیں ہے۔ ابن ہشام اور دیگر مورخین کے مطابق آپ عام الفیل (وہ سال جس میں ابرہہ ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ کعبہ کو منہدم کرنے آیا تھا) میں اس دنیا میں تشریف لائے لیکن انہوں نے یہ مشخص نہیں کیا ہے کہ آپؐ عام الفیل کے کون سے سال متولد ہوئے۔ البتہ تاریخ نگاروں نے آپ کی تاریخ وفات کو عام الفیل سنہ632 اور وفات کے وقت آنحضرتؐ کی عمر 63 برس ذکر کی ہیں اس لحاظ سے آپ کا سال ولادت سنہ 569 اور 570 کے درمیان ہونا چاہئے۔[6]
رسول اللہؐ کا یوم ولادت مشہور شیعہ قول کے مطابق 17 ربیع الاول اور اہل سنت کے مشہور قول کے مطابق 12 ربیع الاول ہے۔[7] آپ کا محل ولادت مکہ اور بعض مآخذ میں شعب ابی طالب میں محمد بن یوسف کا گھر مذکور ہے۔[8]
12 سے 17 ربیع الاول کے دوران مسلمانوں کے درمیان اظہار وحدت کی خاطر ہفتۂ وحدت منایا جاتا ہے۔
بچپن:
مؤرخین نے آپ کی زندگی سے متعلق مختلف قسم کی داستانیں لکھی ہیں لیکن تاریخی حقیقت کو داستانوں سے جدا کرنا صرف اس وقت ممکن ہے کہ ہم اس قطعی سند کا سہارا لیں جو سند ان سالوں کے واقعات کو واضح کر سکے۔ وہ سند قرآن کریم اور سنت (احادیث) ہی ہیں لیکن قرآن مجید نے اس سلسلے میں بہت مختصر اشارے ہی دیئے ہیں۔ جن اشاروں اور مؤرخین کے منقولہ واقعات پر سب کا اتفاق ہے ان کی بنا پر یہ سمجھنا ممکن ہو جاتا ہے کہ محمدؐ نے اپنے بچپن کے ایام یتیمی میں گذارے ہیں۔[9]
عبداللہ آپ کے والد تھے اور وہ قبیلۂ بنی زہرہ کے زعیم (وہب) کی دختر آمنہ بنت وہب کو بیاہ لینے کے چند ماہ بعد شام کے ایک کاروباری دورے سے واپس آتے ہوئے یثرب میں انتقال کرگئے۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ عبداللہ محمدؐ کی ولادت کے چند ماہ بعد انتقال کر گئے۔ بہرحال محمدؐ نے اپنی شیر خوارگی کے ایام قبیلۂ بنی سعد کی ایک خاتون حلیمہ کے ہاں بسر کئے اور 6 سال کی عمر میں والدہ کے سائے سے محروم ہوئے اور آپ کے دادا عبدالمطلب نے آپ کی سرپرستی کی۔ آپ کی عمر ابھی آٹھ برس ہی تھی کہ عبد المطلب بھی دنیا سے رخصت ہوئے اور محمدؐ کو اپنے چچا ابو طالبؑ کی سرپرستی حاصل ہوئی؛[10] جو آپؐ کے والد عبداللہ کے سگے بھائی تھے۔
مروی ہے کہ ایک دن عبدالمطلب خانہ کعبہ کے صحن میں اکابرین قریش کے ساتھ بیٹھے تھے کہ اسی اثنا میں محمدؐ آتے ہوئے دکھائی ديئے چنانچہ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ راستہ کھولو، اور جب آپؐ قریب پہنچے تو عبدالمطلب نے آپ کو اپنے مخصوص بچھونے پر اپنے قریب بٹھایا مگر یہ حالات زیادہ دیر تک پائیدار نہ رہ سکے اور آپؐ آٹھ سال کے تھے کہ آپ کے مہربان جدِّ رحلت کر گئے۔[11] عبدالمطلبؑ نے اپنی وفات سے قبل حضرت محمدؐ کو ابو طالبؑ کے سپرد کیا جو اگرچہ زيادہ صاحب ثروت نہ تھے مگر بھائیوں میں سب سے زيادہ با صلاحیت، نیک اور لائق تھے اور علاوہ ازیں محمدؐ کے والد ماجد کے سگے بھائی بھی تھے اور ان دو بھائیوں کی والدہ ایک تھیں چنانچہ ابو طالب اور ان کی زوجہ مکرمہ حضرت فاطمہ بنت اسد(س) محمدؐ سے دلی محبت کرتے تھے۔ یہ دو بزرگوار آپؐ کی پرورش اور آپ کی ضروریات پوری کرنے میں بہت زیادہ کوشاں تھے اور آپ کو اپنی اولاد پر مقدم رکھتے تھے؛ یہاں تک کہ محمدؐ ابو طالب کی زوجہ اور امام علی علیہ السلام کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کو ماں سمجھتے تھے اور جب انھوں نے وفات پائی تو آپؐ نے فرمایا: “آج میں اپنی ماں کے سائے سے محروم ہو گیا ہوں”۔[12]
نیز منقول ہے کہ ابو طالبؑ کے گھر میں آپ کی زوجۂ مکرمہ، فاطمہ بنت اسد محمدؐ سے بہت زیادہ محبت کرتی تھیں یہاں تک کہ جب فاطمہ بنت اسد انتقال کر گئیں تو رسول اللہؐ نے فرمایا “آج میری ماں چل بسیں”۔ اور انہیں اپنا کرتا کفن کے عنوان سے پہنایا، ان کی قبر میں اترے، ان کی لحد میں لیٹ گئے اور جب آپ سے عرض کیا گیا کہ “اے رسول خدا! آپ فاطمہ کے لئے سخت بے چین ہوگئے ہیں” تو آپ نے فرمایا: “حقیقتاً وہ میری ماں تھیں کیونکہ وہ اپنے بچوں کو بھوکا رکھتی تھیں لیکن مجھے کھانا کھلاتی اور انہیں گرد و غبار میں اٹا ہوا چھوڑ دیتی تھیں لیکن مجھے نہلا دھلا کر آراستہ کر دیتی تھیں، بے شک وہ میری ماں تھیں”۔[13]
شام کا پہلا سفر اور راہب کی پیش گوئی:
محمدؐ بچپن کے زمانے میں اپنے چچا ابوطالب کے ہمراہ ایک کاروباری سفر میں شام چلے گئے اور راستے میں بصریٰ نامی علاقے میں بحیرا نامی ایک مسیحی راہب نے آپؐ کے چہرے پر نبوت کی نشانیاں دیکھیں اور آپ کے چچا ابو طالب سے آپ کے متعلق سفارش کی اور بطور خاص کہا کہ “اس بچے کو یہودیوں کی گزند سے محفوظ رکھیں کیوں یہ لوگ آپؐ کے دشمن ہیں۔ مؤرخین کے مطابق جب قافلہ بحیرا کے ہاں سے چلے گئے تو بحیرا نے محمدؐ کو اپنے یہاں روک لیا اور کہا: میں آپ کو لات و عُزی کی قسم دیتا ہوں کہ میں جو پوچھتا ہوں آپ اس کا جواب دیں۔ اس وقت آپ نے جواب دیا: مجھ سے لات و عزی کے نام پر کچھ نہ پوچھو کیونکہ میرے نزدیک کوئی چيز ان دونوں سے زيادہ قابل نفرت نہيں ہے۔ اس کے بعد بحیرا نے آپ کو خدا کی قسم دی۔[14]
حِلفُ الفضول:
محمدؐ کی شادی سے پہلے کے اہم واقعات میں سے حلف الفضول نامی معاہدے میں آپ کی شرکت ہے جس کے تحت بعض اہل مکہ نے قسم اٹھائی کہ وہ ہر مظلوم کی حمایت کریں گے اور اس کو اس کا حق دلا دیں گے۔ رسول اللہؐ بعد میں اس معاہدے کی تعریف کرتے اور فرماتے کہ اگر انہیں ایک بار پھر اس طرح کے معاہدے میں شرکت کی دعوت دی جائے تو آپ اس میں شامل ہوجائیں گے۔[15]
شام کا دوسرا سفر:
محمدؐ 25 برس کے تھے کہ ابو طالبؑ نے آپ سے کہا: قریش کا تجارتی قافلہ شام جانے کے لئے تیار ہے خدیجہ بنت خویلد نے اپنے بعض اعزاء و اقارب کو سرمایہ دیا کہ وہ ان کے لئے تجارت کریں اور منافع میں شریک ہوں۔ اگر آپ چاہیں تو وہ آپ کو بھی شریک کے طور پر قبول کریں گی۔ اس کے بعد ابو طالب نے اس سلسلے میں خدیجہ سے بات چیت کی اور خدیجہ مان گئیں۔ ابن اسحٰق سے مروی ہے کہ چونکہ خدیجہ محمدؐ کی امانت داری اور بزرگواری کو پہچان گئی تھیں چنانچہ انھوں نے آپ کو پیغام بھجوایا کہ “اگر آپ میرے سرمائے پر تجارت کرنے کے لئے تیار ہیں تو میں آپ کو منافع میں سے دوسروں کی نسبت زیادہ حصہ دونگی”۔[16]۔[17]
شادی:
اس سفر سے خدیجہ نے بڑا منافع کمایا کیونکہ انھوں نے ایسی شخصیت کو تجارت کی ذمہ داری سونپی تھی جو امانت داری اور صداقت و دیانت داری میں شہرت رکھتے تھے۔ اس تجارتی سفر کے بعد خدیجہ محمدؐ کے حبالۂ نکاح میں آئیں۔ محمدؐ ـ جیسا کہ ہم نے لکھا ـ اس وقت 25 سالہ نوجوان تھے اور مؤرخین کا کہنا ہے کہ اس وقت خدیجہ کی عمر 40 سال تھی؛ تاہم حضرت خدیجہ سے پیدا ہونے والے بچوں کو مد نظر رکھا جائے تو یہ امکان ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ ان کی عمر چالیس سال سے کم تھی اور عرب مؤرخین نے اس لئے ان کی عمر چالیس سال بتائی ہے کہ یہ ایک مکمل عدد ہے۔[18]
خدیجہ سے رسول اللہؐ کی کئی اولاد ہوئی جن میں سے بیشتر نے بچپن ہی میں وفات پائی اور آپ کی بیٹیوں میں سے سب سے عظیم و مشہور حضرت فاطمہ(س) ہیں۔
خدیجہ(س) نے تقریباً 25 سال کا عرصہ رسول خداؐ کے ساتھ گذارا اور سنہ 10 بعثت میں 65 سال کی عمر میں شعب ابی طالب سے بنی ہاشم کے باہر آنے کے اٹھارہ مہینے بعد وفات پاگئیں۔ ان کے انتقال کے بعد رسول اللہؐ سودہ بنت زمعۃ بن قیس کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ رسول اللہؐ نے بعد میں جن خواتین سے نکاح کیا ان کے نام یہ ہیں: عائشہ، حفصہ، زینب بنت خزیمہ، ام حبیبہ بنت ابی سفیان،ام سلمہ، زینب بنت جحش، جویریہ بنت حارث، صفیہ بنت حیی بن اخطب، میمونہ بنت حارث بن حزن۔[19]
اولاد:
حضرت فاطمہ (س) کے سوا رسول اللہؐ کے دوسرے بچے آپ کی زندگی میں ہی دنیا سے رخصت ہوئے اور آپ کی نسل صرف اور صرف سیدہ فاطمہ(س) سے چلی۔ مجموعی طور پر آپ کے 3 بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں:
قاسم: پہلے فرزند جن کا انتقال دو سال کی عمر میں مکہ میں ہوا۔
عبد اللہ: بعثت کے بعد مکہ میں پیدا ہوئے اور وہیں وفات پاگئے۔
زینب: سنہ 8 ہجری کو مدینہ میں وفات پاگئیں۔
رقیہ: سنہ 2 ہجری کو مدینہ میں انتقال کرگئیں۔
ام کلثوم: سنہ 9 ہجری کو مدینہ میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔
حضرت فاطمہ: جن کی شہادت سنہ 11 ہجری کو رسول اللہ کے وصال کے کچھ عرصہ بعد مدینہ میں ہوئی۔
ابراہیم: سنہ 10 ہجری کو مدینہ میں انتقال کرگئے۔ [20]
حجر اسود کا نصب کرنا:
محمدؐ کی بعثت سے قبل مکہ میں حجر اسود نصب کرنے کااہم واقعہ پیش آیا۔ یہ واقعہ مکہ کی عوام میں آپ کی منزلت کا اظہار کرتا ہے۔ خانۂ کعبہ دوران جاہلیت بھی عرب کے ہاں قابل احترام تھا۔ ایک دفعہ کعبہ کے اندر تک سیلاب سرایت کرگیا اور خانہ کعبہ کی دیواریں گر گئیں۔ قریش نے دیواریں تعمیر کر دیں۔ جب حجر اسود کے نصب کی باری آئی تو قریش کے عمائدین میں اختلاف ظاہر ہوا۔ ہر قبیلے کا زعیم اس شرف کو اپنے نام کرنا چاہتا تھا اور آخر کار جب اختلاف بہت آگے بڑھا تو ایک قبیلے کے بزرگ خون بھرا طشت لے آئے اور اس میں اپنے ہاتھ ڈبو دیئے، یہ عمل حقیقت میں قسم کھانے کے مترادف تھا کہ اب انہیں لڑ لڑ کر اپنا مقصد حاصل کرنا پڑے گا۔ اس کے باوجود صلاح مشورے جاری رہے اور آخرکار سب نے اتفاق کرلیا کہ جو بھی سب سے پہلے دروازہ بنی شیبہ سے مسجد الحرام میں داخل ہوگا اس کو قاضی و منصف قرار دیا جائے گا اور وہ جو بھی کہے گا سب کے لئے قابل قبول ہوگا۔
جو سب سے پہلے باب بنی شیبہ سے مسجد میں داخل ہوئے وہ محمدؐ کے سوا کوئی اور نہ تھا چنانچہ قریش کے بزرگوں نے کہا: وہ امین اور صادق ہیں، ہمیں ان کا فیصلہ قبول ہے۔ انھوں نے اپنا قصہ محمدؐ کو کہہ سنایا۔
محمدؐ نے فرمایا: ایک چادر بچھا دو۔ اور جب چادر بچھا دی گئی تو آپ نے حجر اسود اس چادر پر رکھ دیا اور فرمایا ہر قبیلے کا بزرگ چادر کا ایک گوشہ تھام لے اور چادر کو اٹھائیں؛ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اٹھا لیا اور آپ نے خود حجر الاسود کو چادر سے لے کر مقررہ مقام پر رکھ دیا اور آپ کے اس حکیمانہ فیصلے نے عظیم جنگ اور خونریزی کا راستہ روک لیا۔[21]
بعثت:
شیعہ امامیہ کے مشہور قول کے مطابق رسول اللہؐ 27 رجب المرجب کو نبوت پر مبعوث ہوئے۔[22]
بعثت جس قدر قریب تر آرہی تھی آپ لوگوں سے دور اور خدائے یکتا کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ آپ ہر سال ایک مہینہ حرا نامی پہاڑی میں غار حراء میں گوشہ نشینی اختیار کرکے عبادت میں مصروف رہتے۔ (دیکھئے: تحنّث) اس زمانے میں جو غریب افراد آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے آپ انہیں کھانا کھلاتے۔ عبادت کا مہینہ ختم ہونے کے بعد مکہ تشریف لاکر گھر واپس جانے سے پہلے سات یا کچھ زیادہ مرتبہ خانۂ کعبہ کا طواف فرماتے اور اس کے بعد اپنے گھر تشریف لے جاتے تھے۔[23]
گوشہ نشینی کے ان ہی برسوں کے دوران ایک سال آپ حرا میں نبوت پر مبعوث ہوئے۔ حضرت محمدؐ فرماتے ہیں: جبرائیل میرے پاس آئے اور کہا: پڑھو۔ میں نے کہا: میں پڑھنا نہیں جانتا۔ جبرائیل نے ایک بار پھر کہا: پڑھو۔ میں نے کہا: کیا پڑھوں؟ جبرائیل نے کہا: إقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ[24](ترجمہ: پڑھئے اپنے پروردگار کے نام کے سہارے سے جس نے پیدا کیا۔ جیسا کہ مشہور ہے بعثت کے وقت رسول اللہؐ کی عمر چالیس سال ہو چکی تھی۔[25]
رسول خداؐ نبوت پر مبعوث ہونے والی سورہ علق کی ابتدائی آیات کریمہ کے نازل ہونے کے بعد اپنی خلوت گاہ سے مکہ اپنے گھر تشریف لائے۔ آپ کے گھر میں تین افراد: آپ کی زوجۂ مکرمہ سیدہ خدیجہ، آپ کے چچا زاد بھائی علی بن ابیطالب اور زید بن حارثہتھے۔[26] پیغمبرؐ نے توحید کی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا اور جو سب سے پہلے آپ پر ایمان لائے وہ آپ کی زوجہ مکرمہ سیدہ خدیجہ اور مردوں میں آپ کے چچا زاد بھائی علی بن ابیطالب(ئ) تھے جو اس وقت رسول اللہؐ کے زیر سرپرستی تھے۔[27] بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ کہ ابوبکر اور زید بن حارثہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔[28] (دیکھئے: سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے)۔
تاہم حاكم نیشابوری رقمطراز ہے: “لا أعلم خلافاً بین أصحاب التواریخ أنّ علی بن أبیطالبؑ أوّلهم اًّسلاماً و اًّنّما اختلفوا فی بلوغه”۔ (ترجمہ: اصحاب میں سب سے پہلے علی بن ابیطالبؑ کے اسلام لانے کے حوالے سے مؤرخین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے تاہم انھوں نے اسلام لاتے وقت آپ کے بلوغ میں اختلاف کیا ہے)۔[29] حالانکہ اگر امیرالمؤمنینؑ پر نابالغ ہونے کے حوالے سے ہونے والے اعتراض کو درست مانا جائے تو حقیقت میں اسے رسول اللہؐ پر اعتراض گردانا جائے گا کیونکہ آپؐ نے “یوم الدار” کے موقع پر اپنے خاندان اور قبیلے کو اسلام کی دعوت دی اور امیرالمؤمنینؑ کے سوا کسی نے بھی یہ دعوت قبول نہیں کی؛ علی اٹھے اور اپنے ایمان و اسلام کا اعلان کیا اور رسول خداؐ نے نہ صرف آپ کے اسلام کو قابل قبول قرار دیا بلکہ اعلان کیا کہ “اے علی تم میرے بھائی اور وصی اور میرے بعد میرے خلیفہ اور جانشین ہو۔ اور حاضرین سے بھی کہا کہ ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔[30]
گوکہ ابتدائی دعوت بہت محدود تھی لیکن مسلمانوں کی تعداد روز افزوں تھی اور بہت کم عرصے میں مسلمانوں کا ایک گروہ مکہ کے اطراف میں جاتا تھا اور رسول اللہؐ کے ساتھ نماز بجا لاتا تھا۔[31] (دیکھئے: خفیہ دعوت)
اعلانیہ تبلیغ دین:
مشہور ہے کہ نبوت و رسالت پر مبعوث ہونے کے بعد محمدؐ کی تبلیغ کا سلسلہ تین سال تک خفیہ رہا؛ تاہم بعض مؤرخین قرآنی آیات کی ترتیب نزول کے پیش نظر کہتے ہیں کہ عمومی تبلیغ بعثت کے تھوڑے عرصے بعد ہی شروع ہوگئی تھی۔[32]
پیغمبر خداؐ ابتدا میں لوگوں کو بتوں کی پرستش ترک کرنے اور صرف خدائے واحد کی پرستش کی دعوت دیتے تھے۔ ابتدا میں نمازیں دو رکعتی ہوتی تھیں۔ بعد میں حاضرین پر چار رکعت اور مسافرین پر دو رکعت نماز واجب ہوئی۔ مسلمان نماز اور خدا کی پرستش کے وقت لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوجاتے تھے اور پہاڑیوں کی کھائیوں، شگافوں اور لوگوں کی آمد و رفت سے دور نماز ادا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ اسلام مکہ میں پھیل گیا۔[33]
روایت مشہور ہے کہ: جب آپ کی دعوت کو تین سال ہوئے تو پروردگار نے آپ کو مأمور کیا کہ لوگوں کو اعلانیہ طور پر خدا کی طرف بلائیں اور اعلانیہ دعوت بنی عبدالمطلب سے شروع ہوئی جب ارشاد ہوا:
“وَأَنذِرْ عَشِيرَ تَكَ الْأَقْرَ بِينَ۔ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ۔ فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِ يءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ”۔[34]
ترجمہ: اور اپنے قریبی خاندان والوں کو ڈرا دیجئے۔ اور اپنا بازو جھکایئے مؤمنین سے اس کے لیے جو آپ کا پورا پورا پیرو ہے۔ تو اگر وہ آپ کی نافرمانی کریں تو کہہ دیجئے کہ میں بے تعلق ہوں اس سے جو تم کرتے ہو۔
ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ جب یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں تو رسول اللہؐ نے علیؑ سے فرمایا: اے علی! خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اس کی پرستش اور بندگی کی دعوت دوں۔ ایک بکرا ذبح کرو، کچھ روٹی اور ایک کاسہ دودھ کا فراہم کرو۔ علیؑ نے ایسا ہی کیا اور اس دن خاندان عبدالمطلب کے چالیس یا [تقریبا چالیس] افراد اکٹھے ہوئے اور سب نے خوب سیر ہوکر کھانا کھایا لیکن جونہی رسول اللہؐ نے جب اپنے کلام کا آغاز کیا تو ابولہب نے کہا: “اس نے تم پر جادو کیا”؛ اور یوں مجلس بدنظمی کا شکار ہوئی۔ رسول خداؐ نے دوسرے روز پھر بھی انہیں بلایا اور فرمایا: اے فرزندان عبدالمطلب! میرا خیال نہيں ہے کہ عرب میں کوئی اپنی قوم کے لئے اس سے بہتر چیز لایا ہو جو میں تمہارے لئے لے کر ایا ہوں۔ میں تمہارے لئے دنیا اور آخرت لے کر آیا ہوں۔[35]
طبری لکھتا ہے: رسول خداؐ نے افراد خاندان کو اپنا پیغام پہونچانے کے بعد فرمایا: تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میری مدد کرے تاکہ وہ میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ اور جانشین ہو؟ سب خاموش رہے اور علیؑ نے کہا:
اے رسول خدا! وہ میں ہوں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: یہ (علی) میرے وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں؛ ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔[36]۔[37]
یہ روایت اسی صورت میں دوسرے مؤرخین اور سیرت نگاروں نے بھی نقل کی ہے اور مشہور احادیث کے زمرے میں آتی ہے۔[38]
قریش کی دشمنی اور اس کے نتائج:
رفتہ رفتہ مسلمانوں کی تعداد روز افزوں ہوئی اور قریش کے عمائدین کی فکرمندی میں اضافہ ہوا۔ وہ (رسول اللہؐ کے چچا اور حامی و سرپرست حضرت) ابو طالبؑ کے پاس آئے اور ان سے درخواست کی کہ اپنے بھتیجے کو اس دعوت و تبلیغ سے باز رکھیں۔ ایک دن انھوں نے ابو طالبؑ سے درخواست کی محمدؐ کو ان کے سپرد کریں تاکہ وہ آپ کو قتل کریں اور آپؐ کے عوض وہ عمارة بن ولید نامی نوجوان ان کے سپرد کریں گے جو ایک خوبصورت اور مشرکین کے بقول عقل مند نوجوان تھا۔ ابو طالبؑ نے جواب دیا: کیا میں اپنا بیٹا تمہارے حوالے کردوں کہ تم اسے مار ڈالو اور میں تمہارے بیٹے کو پالوں اور پروان چڑھاؤں؟ کیا دشوار فریضہ ہے یہ؟۔[39]۔[40]
قریش قبائلی معاہدوں کی بنا پر رسول خداؐ کو جانی نقصان پہونچانے سے عاجز تھے کیونکہ ایسی صورت میں انہيں بنی ہاشم کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا اور دوسرے قبائل کی مداخلت کا امکان بھی پایا جاتا تھا جس کی وجہ سے ان کا کام مزید دشوار ہوجاتا۔ چنانچہ وہ صرف بدگوئی اور جزوی طور پر نقصان پہنچانے کے سوا کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے تاہم نہتے نو مسلموں کو ۔جہاں تک ممکن تھا۔ نقصان پہونچا دیتے تھے۔[41]
رفتہ رفتہ جھگڑا نمایاں ہوا۔ قریشی ایک بار پھر ابو طالب کے پاس پہنچے اور ان سے درخواست کی کہ اپنے بھتیجے کو اس راستے پر مزید آگے بڑھنے سے باز رکھیں جس پر وہ چل نکلے تھے۔ ابو طالبؑ نے ان کے مطالبات کے سلسلے میں اپنے بھتیجے اور نور چشم محمدؐ سے بات کی اور آپؐ نے جواب میں فرمایا: خدا کی قسم! اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پرچاند رکھ دیں تو بھی اپنی دعوت سے دستبردار نہیں ہونگا۔ ابو طالب نے بھی رسول اللہؐ سے کہا: اب جب بات یہ ہے تو آپ اپنا کام جاری رکھيں اور میں بھی آپ کو کوئی نقصان نہیں پہونچنے دونگا۔ اس کے بعد قریشی رسول اللہؐ اور مسلمانوں کو نقصان اور آزار و اذیت پہنچانے کے لئے زیادہ کوشاں ہوئے۔[42]
ہجرت حبشہ:
جیسے جیسے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا محمدؐ کے ساتھ قریش کی دشمنی اور مخالفت میں اسی انداز سے اضافہ ہو رہا تھا؛ تاہم پیغمبرؐ کو ابو طالبؑ کی حمایت حاصل تھی اور قریش قبائلی معاہدوں کی وجہ سے آپ کو جانی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے لیکن آپ کے نہتے اور کمزور مسلمانوں سمیت آپکے پیروکاروں کو کسی قسم کی اذیت و آزار پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ ان نو مسلموں کو پہنچنے والی اذیت پیغمبرؐ پر بہت گراں گذرتی تھی۔ چنانچہ آپ نے انہیں بامر مجبوری حکم دیا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کریں۔
آپ نے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: اس سرزمین میں ایک بادشاہ ہے جس کی طرف سے کسی پر ظلم نہيں کیا جاتا۔ وہیں چلے جاؤ اور وہیں رہو حتی کہ خداوند متعال تمہیں اس مصیبت سے نجات دلائے۔ قریش کو جب جب معلوم ہوا کہ نومسلم حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے ہیں تو انھوں نے عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس روانہ کیا تاکہ انہیں وہاں سے لوٹا دیں۔ نجاشی نے قریش کے نمائندوں کا موقف اور مسلمانوں کا جواب سننے کے بعد مسلمانوں کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کیا اور یوں قریش کے نمائندے خالی ہاتھوں مکہ واپس آگئے۔[43]
بنی ہاشم کا محاصرہ:
قریش نے جب مکہ میں مسلمانوں کی مسلسل پیش قدمی کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ نجاشی نے ان کے نمائندوں کی حبشہ کے مہاجرین کو حوالے کرنے کی درخواست مسترد کردی ہے، تو انھوں نے محمدؐ اور بنی ہاشم پر معاشی دباؤ ڈالنے کا فیصلہ کیا اور ایک عہدنامہ لکھا کہ “اس کے بعد کوئی بھی ہاشم اور عبدالمطلب کی اولاد کو رشتہ نہ دے گا اور ان سے رشتہ نہ لے گا، کوئی بھی انہیں کچھ نہ بیچے گا اور ان سے کچھ نہ خریدے گا۔ اس کے بعد انھوں نے یہ عہدنامہ خانہ کعبہ میں لٹکا دیا۔ اس کے بعد بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب شعب ابی یوسف نامی درے میں محصور کئے گئے جو بعد میں شعب ابی طالب کے نام سے مشہور ہوا۔[44]
بنو ہاشم کا محاصرہ 2 یا 3 سال تک جاری رہا۔ بنو ہاشم کی دشواریوں کے ایام میں ان کے ایک یا دو رشتہ دار رات کے وقت کچھ گندم یا دیگر اشیائے خورد و نوش ان تک پہنچا دیتے تھے۔ ایک رات بنو ہاشم کے ساتھ شدید دشمنی برتنے والے ابوجہل کو معلوم ہوا تو اس نے حکیم بن حزام کا راستہ روکا جو خدیجہ کے لئے گندم لے کر جارہا تھا۔ دوسروں نے مداخلت کی اور ابو جہل پر لعنت ملامت کی۔ رفتہ رفتہ لوگ اپنے کئے پر نادم ہوئے اور بنو ہاشم کی حمایت کرنے لگے اور کہنے لگے کہ (ابو جہل کا قبیلہ) بنو مخزوم کیوں نعمتوں میں کھیلے جبکہ بنو ہاشم و بنو عبدالمطلب کو سختی میں رکھا جارہا ہے۔ آخر کار انھوں نے کہا کہ بنو ہاشم کے خلاف لکھا ہوا عہدنامہ منسوخ ہونا چاہئے۔ معاہدے کے بعض فریقوں نے اسے پھاڑنے کا فیصلہ کیا۔
ابن ہشام نے ابن اسحاق کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھوں نے دیکھا کہ معاہدہ دیمک نے چاٹ کھایا ہے اور صرف جملہ “باسمک اللهم” باقی ہے۔[45]
ابن ہشام نے بعض اہل علم کے حوالے سے لکھا ہے کہ: ابو طالبؑ قریش کے پاس گروہ بنا کر پہنچے اور ان سے کہا: میرے بھتیجے نے مجھے بتایا ہے کہ تمہارا لکھا ہوا عہدنامہ دیمک نے کھا لیا ہے اور صرف اللہ کا نام باقی ہے؛ جاؤ دیکھو! اگر ان کی بات صحیح ہے تو ہماری ناکہ بندی ختم کرو اور اگر صحیح نہیں ہے تو میں انہیں تمہاری تحویل میں دونگا۔ جب قریش کعبہ کے اندر پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ دیمک نے خدا کے نام کے سوا پورا عہدنامہ کھا لیا ہے۔ اور یوں محاصرہ اٹھ گیا اور بنو ہاشم شعب ابی طالب سے باہر نکل کر مکہ پلٹ آئے۔[46]
طائف کا سفر:
پیغمبرؐ شعب ابی طالب سے نکلے تو کچھ ہی عرصہ بعد آپ کے دو اہم ترین حامی، قریب ترین مددگار اور ہمدرد خدیجہ اور ابو طالب انتقال کرگئے۔[47] (دیکھئے: عام الحزن) ابو طالبؑ کی وفات پر رسول خداؐ سنجیدہ ترین حامی سے محروم ہوگئے اور مشرکین نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر رسول اللہؐ اور مسلمانوں کو ایذائیں پہنچانے اور ہراساں کرنے کے سلسلے کو شدت بخشی۔ مکہ سے باہر کے علاقوں ـ خاص طور پر طائفـ کے رہنے والوں کو اسلام کی دعوت دینے کے سلسلے میں آپ کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہوئیں اور آپ آزردہ خاطر اور بے سکون ہوکر مکہ واپس پلٹ آئے۔[48]۔[49] (دیکھئے: رسول خداؐ کا سفر طائف)
ہجرت سے پہلے کے واقعات:
بعثت کے گیارہویں سال حج کے موقع پر بنی خزرج کے چھ افراد نے رسول اللہ سے ملاقات۔ آپ نے انہیں دیں الہی کا پیغام پہنچایا انہوں نے اسے قبول کیااور رسول اللہ سے عہد کیا کہ وہ اس پیغام کو اپنے قبیلے کے افراد تک پہنچائیں گے۔ اگلے سال مدینے کے 12 افراد نے عقبہ نامی جگہ پر رسول اللہ کی بیعت کی۔ انہوں نے شرک، چوری، زنا، تہمت نہ لگانے اور اپنی اولاد کے قتل نہ کرنے اور رسول اللہ کی جانب سے امور خیر میں دیے گئے احکامات کی پیروی کرنے پر بیعت کی۔ رسول اللہ نے مصعب بن عمیر کو مبلغ اور لوگوں کو تعلیم قرآن دینے کے عنوان سے ان کے ساتھ یثرب روانہ کیا۔ اس کے ذریعے آپؐ اس شہر کے حالات اور لوگوں کی طرف سے اسلام کے استقبال سے مطلع ہونا چاہتے تھے۔[50]
عقبہ کا دوسرا عہد نامہ:
بعثت کے 13 ویں سال بنی خزرج قبیلے کے 73 افراد حج سے فارغ ہونے کے بعد عقبہ میں اکٹھے ہوئے۔ رسول خدا اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کے ہمراہ انکے پاس گئے ۔مؤرخین کے مطابق پہلے عباس بن عبد المطلب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
اے بنی خزرج! محمد ہم میں سے ہے۔ جہاں تک ہم میں توان و سکت تھی ہم نے اسے کسی قسم کی تکلیف پہنچنے سے محفوظ رکھا۔ اب وہ آپ کے پاس آنا چاہتا ہے اگر تم اس کی حمایت اور اسکے مخالفین کے شر سے دفاع کی قدرت رکھتے ہو تو بہت خوب و گرنہ ابھی سے ہی اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔
بنی خزرج نے جواب میں کہا:
عباس! ہم نے تمہاری گفتگو سن لی ہے۔ اے رسول خدا! آپ کے اپ کے خدا کے نزدیک پسندیدہ کیا ہے؟
رسول اللہ نے جواب میں قرآن کی آیات کی تلاوت کی اور فرمایا:
میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم میری حمایت کرو گے۔
بنی خزرج کے نمائندوں نے آپ کی اس بات پر بیعت کی کہ وہ آپ کے دشمنوں کے دشمن اور دوستوں کے دوست ہونگے، جو کوئی بھی آپ سے جنگ کرے گا وہ بھی ان سے جنگ کریں گے۔ اسی وجہ سے اس بیعت کو بیعت الحرب کہتے ہیں۔ اس بیعت کے بعد رسول اللہ نے مسلمانوں کو یثرب جانے اجازت دی۔تاریخ اسلام میں مکہ سے مدینہ جانے والوں کو مہاجر اور انہیں قبول کرنے والوں کو انصار کہا جاتا ہے ۔
دار الندوۃ کی سازش:
قریش جب یثرب کے لوگوں سے رسول اللہ کے عہد و پیمان سے مطلع ہوئے تو انہوں نے اپنے قبیلوں کے عہد و پیمان کی پرواہ کئے بغیر رسول خدا کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ لیکن آپ ؐ کو قتل کرنا آسان کام نہ تھا کیونکہ آپ ؐ کے قتل ہو جانے کی صورت میں بنو ہاشم خونخواہی کا مطالبہ کرتے۔ قریش نے اس کے مناسب حل کیلئے دار الندوۃ میں ایک میٹنگ بلائی باہمی صلاح و مشورہ سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ہر قبیلہ سے ایک نوجوان لیا جائے تمام افراد یک لخت رسول اللہ پر حملہ آور ہوں اور انہیں اکٹھے قتل کر دیں۔ اس صورت میں قاتل ایک شخص نہیں ہوگا اور بنی ہاشم کیلئے تمام قبیلوں سے انتقام لینا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ تمام قبائل سے جنگ کرنا ان کیلئے ناممکن ہو گا اور وہ مجبور ہو کر خون بہا پر راضی ہو جائیں گے۔
اس نقشے پر عمل درآمد کی رات خدا کے فرمان کے مطابق رسول اللہ علی کو اپنی جگہ سلا کر مکہ سے نکل گئے۔(دیکھیں:شب ہجرت)رسول خدا ابو بکر بن ابی قحافہ کے ساتھ مدینہ کی جانب عازم سفر ہوئے اور 3 دن تک مکہ کے نزدیک غار ثور میں ٹھرے رہے تا کہ ان کا پیچھا کرنے والے نا امید ہو جائیں۔ اس کے بعد آپؐ نے غیر معروف راستے سے یثرب کی طرف ہجرت فرمائی۔[51]
ہجرت مدینہ:
رسول خدا کے مکہ سے نکلنے اور مدینے پہنچنے کی تاریخ میں مؤرخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ابن ہشام جس نے رسول اللہ کی ہجرت کا مکمل نقشہ بیان کیا وہ لکھتا ہے ہے کہ رسول اللہ ربیع الاول کی 12ویں تاریخ بروز سوموار ظہر کے بعد قبا پہنچے۔ابن کلبی نے رسول اللہ کے مکہ سے باہر نکلنے کی تاریخ 1 ربیع الاول اور قبا پہنچنے کی تاریخ اسی مہینے کی 12 بروز جمعہ ذکر کی ہے۔بعض نے وہاں پہنچنے کی تاریخ 8 ربیع الاول لکھی ۔متاخرین اور یورپین مؤرخین نے کہا ہے کہ آپ بعثت کے 12ویں سال ربیع الاول کے 9 دن سفر میں رہے اور 12 تاریخ بمطابق 24 ستمبر622سن عیسوی مدینے کے نزدیک قبا کے مقام پر پہنچے۔(حوالہ درکار ہے)۔
پیغمبر کی مکہ سے مدینہ ہجرت مسلمانوں کیلئے اسلامی تاریخ کا مبدا اور آغاز قرار پائی۔ رسول خدا نے قبا میں توقف کے دوران مسجد تعمیر کی اسے مسجد قبا کہا جاتا تھا ۔[52]۔
حضرت علی رسول اللہ کی ہجرت کے بعد تین دن تک مکہ رہے اور آپؑ نے رسول خدا کے پاس موجود لوگوں کی امانتیں ان کے مالکوں کو واپس کیں۔ پھر حضرت فاطمہ سمیت بنی ہاشم کی خواتین لے کر مدینہ کی طرف گئے اور قبا میں کلثوم بن ہدم کے گھر رسول اللہ سے ملحق ہو گئے ۔ [53]۔
رسول خدا 12 ربیع الاول کو بنی نجار کے ہمراہ مدینے روانہ ہوئے ۔پہلی نماز جمعہ قبیلۂ بنی سالم میں پڑھائی۔آپ کے مدینہ میں داخلے کے موقع پر وہاں ہر قبیلہ کا سربراہ اپنے اہل خانہ سمیت چاہتا تھا کہ وہ آپ کو اپنے گھر لے جائے تا کہ دوسروں کی نسبت آپکی مہمان نوازی کا شرف اسے حاصل ہو جائے ۔ رسول اللہ دعوت دینے والوں کے جواب میں کہتے میرا اونٹ حکم دے دیا گیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ کس جگہ جانا ہے ؟ بنی مالک بن نجار کے گھروں کے درمیان دو یتیموں کی زمین پر بیٹھ گیا ۔رسول خدا نے ان یتیموں کے سرپرست معاذ بن عقراء سے زمین خرید لی اور اس میں مسجد بنائی گئی جو مسجد النبی کی بنیاد ہے ۔ابوایوب انصاری رسول اللہ کا سامان اپنے گھر لے گئے اور آپ کے حجرے کی تعمیر تک انہی کے گھر رہے ۔
رسول خدا مسجد کی تعمیر میں صحابہ کی مدد فرماتے تھے ۔مسجد کی ایک طرف ایک چبوترہ صفہ بنایا گیا تا کہ وہاں مستمد حضرات رہ سکیں۔ وہاں رہنے والوں کو اصحاب صفہ کہا گیا۔[54]۔
دن بدن مہاجروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور انصار انہیں اپنا مہمان بناتے رہے ۔رسول اللہ نے ان کے درمیان صیغۂ اخوت قائم کیا اور رسول اللہ نے حضرت علی کو اپنا بھائی بنایا۔[55]
ایک چھوٹی سی جماعت جو دلی طور پر ایمان نہیں لائے تھے ظاہری طور ایمان لائے انہیں منافقان کہتے تھے۔ مدینے میں کچھ دیر قیام کے بعد آپؐ نے مدینے کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تا ایک دوسرے کے معاشرتی حقوق کی رعایت کی جاسکے ۔[56] (ر ک: اسلام کا پہلا عمومی معاہدہ)
منافقین اور یہودی:
اس کے باوجود کہ اکثر یثربی عوام یا تو مسلمان تھے یا پھر رسول اللہؐ کے حامی تھے، ایسا بھی نہیں تھا کہ پورا شہر اور اس کے نواحی علاقے مکمل طور پر مطیع اور پرسکون ہوں۔ عبداللہ بن ابی ـ جس کی بادشاہت کا انتظام مدینہ میں مکمل ہوچکا تھا اور محمدؐ کے مدینہ پہنچنے پر وہ اس منصب سے محروم ہو چکا تھا ـ چین سے نہيں بیٹھا تھا اور اس کے باوجود کہ بظاہر مسلمان کہلواتا تھا، خفیہ طور پر محمدؐ اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا اور یہودیوں کے ساتھ بھی ساز باز میں مصروف تھا۔[57]
اس گروہ نے ـ جنہيں قرآن کی پہلی مدنی آیات میں منافقین کے نام سے پکارا گیا ہے ـ رسول اللہؐ اور مسلمانوں کی راہ میں بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ ان لوگوں کا علاج مشرکین اور یہودیوں کے علاج کی نسبت بہت مشکل تھا کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کے ہاں مسلمان کہلواتے تھے اور پیغمبر اسلام، خدا کے ظاہری حکم کے تحت، ان کے خلاف جنگ نہيں لڑ سکتے تھے۔[58]
خداوند متعال کبھی قرآنی آیات کے ذریعے انہيں ڈراتا اور خبردار کرتا تھا کہ خدا اور اس کے پیغمبر تمہارے کرتوتوں کی خبر رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ تم نے مسلمانی کو اپنے تحفظ کے لئے ڈھال قرار دیا ہے:
“إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَ سُولُ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَ سُولُهُ وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ”۔(منافقون 1)
ترجمہ: جب منافق لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں یقینا آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ آپ ضرور اسکے پیغمبر ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں۔ ترجمہ سید علی نقی نقوی آیت 1۔
اسلام کی راہ میں عبداللہ بن ابی کی طرف سے روڑنے اٹکانے اور خلل اندازی کا سلسلہ سنہ 9 ہجری میں اس کی موت کے لمحات تک جاری رہا۔ یہودی بھی ـ جنہیں میثاق مدینہ کے تحت کافی حقوق اور مراعاتوں سے سے نوازا گیا تھا، یہاں تک کہ جنگی غنائم میں بھی حصہ پاتے تھے، وہ ابتدائی طور پر مسلمانوں کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے تھے اور کئی یہودیوں نے اسلام بھی قبول کیا تھا لیکن آخر کار ناسازگاری و بےآہنگی کے راستے پر گامزن ہوئے۔ سبب یہ تھا کہ وہ نہ صرف یثرب کی معیشت پر مسلط تھے بلکہ صحرائی عربوں اور مشرکین مکہ کے ساتھ بھی لین دین کرتے تھے؛ انہیں توقع تھی کہ عبداللہ بن ابی مدینے کا حکمران بنے گا اور یوں مدینہ کی معیشت پر ان کے اثر و نفوذ میں مزید اضافہ ہوگا؛ لیکن جب محمدؐ اس شہر میں تشریف لائے اور اسلام کو مدینہ میں فروغ ملا تو یہ امر یہودیوں کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر ورسوخ کے راستے میں رکاوٹ بن گیا۔
علاوہ ازیں یہودی اپنی نسل سے باہر کسی شخص کو ہرگز نبی کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے چنانچہ انھوں نے کچھ عرصہ بعد محمدؐ کے ساتھ اپنی مخالفت آشکار کردی۔ بظاہر عبداللہ بن ابی کا کردار بھی ان کو اکسانے اور مشتعل کرنے میں مؤثر تھا۔
یہودیوں نے کہا: جس پیغمبر کا ہم انتظار کررہے تھے وہ محمدؐ نہیں ہیں اور وہ قرآنی آیات کے مقابلے میں تورات اور انجیل کے حوالے دیتے اور ان پر فخر و مباہات کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جو کچھ ہماری کتابوں میں ہے اور جو کچھ قرآن میں ہے، وہ ایک نہیں ہے۔ اس یہودی سازش کے جواب مین قرآن مجید کی متعدد آیات نازل ہوئیں اور ان آیات کے ضمن میں کہا گیا کہ تورات اور انجیل وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ تحریف کا شکار ہوئی ہیں اور یہودی علماء نے اپنے خاص مقاصد اور مفادات کی خاطر ان کی آیات میں تحریف اور تبدیلی کی ہے۔
بالآخر قرآن نے یکبارگی یہود و نصاریٰ کے ساتھ اسلام کا ربط توڑ کر رکھ دیا تا کہ عرب کو سمجھا سکے کہ وہ یہودیوں سے بالکل الگ ایک جداگانہ امت ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
عرب ابراہیم کے دین پر ہیں اور ابراہیم اسرائیل کے جد اعلیٰ ہیں:
“يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَ اهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّوْرَ اةُ وَالْإِنجِيلُ إِلَّا مِن بَعْدِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿65﴾ هَا أَنتُمْ هَـٰؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿66﴾ مَا كَانَ إِبْرَ اهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَ انِيًّا وَلَـٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ كِينَ”۔
ترجمہ: اے کتاب والو! ابراہیم کے بارے میں کیوں خوامخواہ تکرار کرتے اور جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل دونوں تو ان کے بعد اتریں، تو کیا تم عقل سے کام نہیں لو گے؟ ٭ اچھا! اب تک تو تم ان سے ایسی باتوں میں بحث اور حجت کر رہے تھے جن کا تمہیں کچھ علم ہے اب کیوں تم ان باتوں میں حجت کرتے ہو جن سے تمہیں کوئی بھی واقفیت نہیں ہے اللہ علم رکھتا ہے اور تم علم نہیں رکھتے ٭ ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو نرے کھرے مسلم تھے اور وہ مشرکین میں سے نہیں تھے۔[59]۔[60]۔[61]
قبلہ کی تبدیلی:
پیغمبرؐ مدینہ پہنچنے کے بعد سترہ مہینوں تک (قبلۂ اول ) مسجد اقصی کی طرف رخ کرکے نماز کے لئے کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔ یہودی کہتے تھے: محمد کا کوئی قبلہ نہ تھا حتی کہ ہم نے انہيں سکھا دیا۔ رسول اللہؐ اس یہودی سرزنش سے آزردہ خاطر تھے۔ ایک روز آپ مسجد بنی سلمہ میں نماز ظہر ادا کررہے تھے اور یہ 2 ہجری سال کا ماہ شعبان تھا کہ نماز کے دوران ہی آپ پر یہ آیت نازل ہوئی:
“قَدْ نَرَ ىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْ ضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ امِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَ هُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّ بِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ”۔؛
ترجمہ: بہت دیکھ رہے ہیں ہم آپ کے چہرے کی گردش کو آسمان کی طرف، تو اب ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑدیں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں گے۔ بس اب مسجد الحرام کی طرف اپنا رخ موڑ دیجئے اور تم لوگ جہاں کہیں ہو اپنے منہ اسی طرف کیا کرو، اور وہ جنہیں کتاب دی گئی ہے یقینا بخوبی جانتے ہیں کہ یہ ان کے پروردگار کی طرف کا حقیقی فیصلہ ہے اور اللہ اس سے، جو وہ کرتے ہیں، بے خبر نہیں ہے۔[62]
پیغمبرؐ نے اسی حال میں اپنا رخ بیت المقدس کی طرف سے کعبہ کی طرف موڑ لیا۔ یہ مسجد تاریخ اسلام میں مسجد ذوالقبلتین کے نام سے مشہور ہوئی ہے۔ مسجد الاقصی سے مکہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی یہود اور منافقین پر گراں گذری۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں پر تنقید کرنے لگے کہ “اب تک تو مسجد میں تم مسجد الاقصی کی طرف رخ کرتے رہے ہو اب کیوں تمہارا قبلہ تبدیل ہوا؟”۔ چنانچہ یہ آیت ملامت کرنے والوں کے جواب میں نازل ہوئی:
“سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّـهِ الْمَشْرِ قُ وَالْمَغْرِ بُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَ اطٍ مُّسْتَقِيمٍ۔؛
ترجمہ: بہت جلد بے وقوف لوگ یہ کہیں گے کہ کس چیز نے ان لوگوں کو پھیر دیا ان کے اس قبلہ سے جس پر وہ تھے، کہہ دیجئے کہ اللہ ہی کا ہے مشرق بھی اور مغرب بھی۔ جسے وہ چاہتا ہے سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے۔[63]۔[64]
جنگ بدر:
جس روز سے رسول اللہؐ نے عقبہ کا دوسرا معاہدہ مدینہ والوں کے ساتھ منعقد فرمایا اس روز سے یہ پیش گوئی کی جاسکتی تھی کہ قریش کے ساتھ جنگ حتمی طور پر وقوع پذیر ہوگی۔[65] سب سے پہلا غزوہ ماہ صفر سنہ 2 ہجری کو انجام پایا جس کو غزوة الابواء یا ودّان کہا گیا ہے۔ اس لشکر کشی کے دوران کوئی جھڑپ نہيں ہوئی۔ اس کے بعد غزوہ بُواط ربیع الاول کے مہینے میں تھا اور اس میں بھی کوئی جھڑپ نہیں ہوئی۔ جمادی الاولٰی میں خبر ملی کہ قریش کا قافلہ ابوسفیان کی سرکردگی میں مکہ سے شام کی طرف روانہ ہورہا ہے۔ پیغمبرؐ نے ذات العشیرة تک اس قافلے کا تعاقب کیا۔ لیکن قافلہ پہلے ہی اس مقام سے گذر چکا تھا۔ یہ غزوات اس لئے بے نتیجہ رہ جاتے تھے کہ مدینہ میں قریش کے جاسوس رسول اللہؐ کے فیصلوں سے آگاہ ہوجاتے تھے اور مسلمانوں کے فوجی دستوں کے روانہ ہونے سے قبل ہی قریشی قافلوں تک پہنچ جاتے تھے اور انہیں خطرے سے آگاہ کردیتے تھے چنانچہ ان کے قافلے یا تو راستہ بدل دیتے تھے یا پھر تیزرفتاری کے ساتھ مسلمانوں کی پہنچ سے نکل جاتے تھے۔[66]
آخر کار ہجرت کے اسی دوسرے سال کے دوران مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان اہم ترین لڑائی ہوئی۔ یہ لڑائی غزوہ بدر کے نام سے مشہور ہے۔ اس جنگ میں گو کہ مسلمانوں کی تعداد مکیوں سے بہت کم تھی، مگر وہ فتح یاب ہوئے اور بڑی تعداد میں مکی مشرکین مارے گئے یا پھر قید کرلئے گئے اور باقی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔[67] اس جنگ میں ابوجہل اور قریش کے دوسرے اکابرین اور ان کے بیٹوں میں سے (70) افراد ہلاک ہوگئے اور اتنی ہی تعداد قید کرلی گئی۔ اس جنگ میں 14 مسلمان بھی شہید ہوئے۔ جنگ بدر میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام، نے بڑی جانفشانیاں کیں اور رسول اللہؐ کی خوب مدد کی اور شجاعت کے حوالے سے مکہ کے کئی مشہور جنگجو پہلوان آپ کے ہاتھوں ہلاک ہوئے اور امیرالمؤمنین علی کی شجاعت ہی تھی جس نے مسلمانوں کے لشکر کی فتح و کامیابی کو یقینی بنایا۔[68]
یہودیوں کے ساتھ تنازعہ:
یہودیوں کے ساتھ پہلی جھڑپ جنگ بدر اور مسلمانوں کی عظیم فتح کے چند ہفتے بعد ہوئی۔ بنی قینقاع کے یہودی مدینہ سے باہر ایک قلعے میں سکونت پذير تھے اور سُنار اور لوہار کے پیشے سے وابستہ تھے۔ منقول ہے کہ ایک دن ایک عرب خاتون بنی قینقاع کے بازار میں گئی اور اپنا سامان ان کے بازار میں فروخت کیا اور ایک سُنار کی دکان پر بیٹھ گئی۔ ایک یہودی نے اس کے لباس کا کنارہ اس کی لاعلمی میں اس کی پشت پر باندھ لیا اور جب وہ اٹھی تو اس کا لباس ایک طرف ہٹ گیا اور گویا اس کا جسم عریاں ہوا جس پر یہودی ہنس پڑے۔ مسلم خاتون نے مسلمانوں کو مدد کے لئے بلایا؛ تنازعے کا آغاز ہوگیا اور ایک مسلمان مرد اس خاتون کی مدد کو لپکا اور اس یہودی شخص کو ہلاک کردیا جس نے شرارت کی تھی۔ یہودیوں نے اٹھ کر مسلمان مرد کو قتل کر ڈالا اور فتنہ اگے بڑھ گیا۔ اس کے بعد رسول اللہؐ نے یہودیوں کو قریش کے انجام کا حوالہ دے کر خبردار کیا اور فرمایا: اگر تم یہاں رہنا چاہتے ہو تو تمہیں اطاعت گزار ہونا پڑے گا۔ بنی قینقاع کے افراد نے گستاخی کرتے ہوئے کہا: مکی عوام کی شکست کہیں آپ کو فریفتہ نہ کرے۔ وہ جنگی افراد نہیں تھے۔ اگر ہم آپ کے خلاف لڑیں تو بتا دیں گے کہ ہم ہیں کون اور کس کام کے!۔ خداوند متعال نے ان یہودیوں کے جواب میں یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:
قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُ وا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ﴿12﴾ قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَأُخْرَ ىٰ كَافِرَةٌ۔۔۔ (13)
کافروں سے کہہ دو کہ بہت جلد تم مغلوب ہو گے اور سمیٹ کے لے جائے جاؤ گے دوزخ کی طرف اور وہ کیا برا ٹھکانا ہے ٭ تم لوگوں کے لیے ایک معجزہ تھا ان دونوں گروہوں میں جن کی مڈبھیڑ ہوئی تھی ایک گروہ اللہ کی راہ میں جنگ کر رہا تھا اور دوسرا کافر تھا۔۔۔)۔[69]
رسول اللہؐ نے مجبور ہو کر ان کا محاصرہ کرلیا اور ان کا محاصرہ 15 شب و روز تک جاری رہا اور جب ہتھیار ڈال کر باہر آئے تو رسول اللہؐ نے [عبداللہ بن ابیّ]] کے شدید اصرار پر ان کی جان بخشی فرمائی تاہم انہيں شام کی طرف جلاوطن کیا۔ یہودیوں کے اس گروہ کا محاصرہ دوسرے ہجری سال کے ماہ شوال میں انجام پایا۔[70]
جنگ احد:
سنہ 3 ہجری میں قریشیوں نے اپنے حلیف قبائل کو مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے مدد کے لئے بلوایا اور وہ ابوسفیان کی سرکردگی میں ہر قسم کے ہتھیاروں اور ساز و سامان سے لیس لشکر لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ رسول اللہؐ نے ابتدا میں فیصلہ کیا تھا کہ مدینہ میں رہ کر حملہ آور مشرکین کا مقابلہ کریں لیکن بعد میں آپ نے اپنا فیصلہ بدل دیا اور مدینہ سے باہر آئے۔ کوہ احد کے قریب ایک جگہ دو لشکروں کا آمنا سامنا ہوا۔ اگرچہ اس جنگ میں ابتدائی طور پر مسلمان فتح مندی سے ہمکنار ہوئے لیکن خالد بن ولید مخزومی نے ایک چال چلی اور مشرکین نے مسلمانوں کے ایک گروہ کی غفلت اور نافرمانی سے فائدہ اٹھا کر مسلم مجاہدین پر پشت سے حملہ کرکے ان کا قتل عام شروع کیا۔
اس جنگ میں رسول اللہؐ کے چچا (اسد اللہ اور اسد رسول اللہ) حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؑ بھی شہید ہوئے۔ اس جنگ میں رسول اللہؐ بھی زخمی ہوئے اور آپ کے مارے جانے کے تشہیری ہتھکنڈے نے بھی مسلمانوں کا حوصلہ کمزور کردیا۔ مسلمان غمگین ہوکر مدینہ لوٹ کر آئے۔ اور اس واقعے کے حوالے سے نازل ہونے والی آیات کریمہ در حقیقت مسلمانوں کے لئے تعزیتی اور تسلیتی پیغام کی حامل تھیں۔
بنی نضیر اور دومۃ الجندل کی جنگیں:
سنہ 4 ہجری میں مدینہ کے نواحی علاقوں کے قبائل سے اکا دکا جھڑپیں ہوئیں یہ وہ قبائل تھے جو نئے دین کو اپنے لئے مفید نہيں سمجھتے تھے اور ممکن تھا کہ وہ آپس میں متحد ہوکر مدینہ پر حملہ کردیں۔ رجیع اور بئر معونہ کے دو واقعات، ـ جن کے دوران متحدہ قبائل کے جنگجؤوں نے مسلم مبلغین کو قتل کیا، اسی قبائلی اتحاد نیز مدینہ میں اسلام کے فروغ کے سلسلے میں رسول اللہؐ کی مسلسل کوششوں کی دلیل، ہیں۔[71] اس سال رسول اللہؐ کی ایک اہم جنگ مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلے بنی نضیر کے ساتھ ہوئی۔ رسول اللہؐ نے یہودیوں کے ساتھ مذاکرات شروع کئے لیکن یہودیوں نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن بنی نضیر کے یہودیوں کو آخر کار علاقے سے جلاوطن ہوکر کوچ کرنا پڑا۔[72] (دیکھئے: غزوہ بنی نضیر)
اگلے سال، رسول اللہؐ اور مسلمان شام کی سرحدوں کے قریب دومۃ الجَندَل نامی مقام پر پہنچے۔ جب سپاہ اسلام اس مقام پر پہنچی تو دشمن بھاگ کھڑا ہوا تھا اور وہ واپس مدینہ پلٹ آئے۔[73]۔[74]
احزاب، بنی قریظہ اور بنی مصطلق کی جنگیں:
سنہ 4 ہجری کو ابوسفیان ایک گروہ کے ساتھ بدر کے مقام پر آيا لیکن راستے کے درمیان پشیمان ہوا اور مکہ لوٹ کر چلا گیا۔ اس واپسی نے قریش کے اکابرین کی نظر میں ابو سفیان کی سپہ سالارانہ صلاحیت کو مخدوش کردیا چنانچہ اس نے مجبور ہوکر بڑی ـ اور زيادہ وسائل اور اسلحے سے لیس ـ منظم فوج کی تیاری کا تہیہ کیا۔ آخر کار اس نے سنہ 5 ہجری میں 7 سے 10 ہزار افراد پر مشتمل فوج تیار کرلی جن میں سے صرف سواروں کی تعداد 600 تھی۔
اس لشکر جرار نے مدینہ کا رخ کیا۔ چونکہ یہ لشکر مختلف عرب اقوام و قبائل سے تشکیل پایا تھا اسی لئے اس جنگ کو جنگ احزاب کا نام دیا گیا۔ [گوکہ اس کو جنگ خندق بھی کہا جاتا ہے]۔ اس جنگ میں خیبر میں سکونت پذیر یہودی قبیلے بنی نضیر کا ایک گروہ بھی قریش اور قبیلہ بنی غطفان کے ساتھ پیغمبر اسلامؐ کے خلاف متحد ہوا۔ مدینہ کے اطراف میں سکونت پذیر بنی قریظہ کے یہودیوں نے بھی ـ قریش کا ساتھ نہ دینے کا عہد کرنے کے باوجود ـ پیمان شکنی کردی اور مکی قریشیوں کے ساتھ متحد ہوئے۔ اس لشکر جرار کے مقابلے میں رسول اللہؐ کے پاس تین ہزار افراد کا لشکر تھا جن میں چند افراد کے سوا باقی پیادہ تھے۔
مدینہ کے عوام جنگ احد کے برعکس، اس بار دفاعی حالت اپنانے پر آمادہ ہوئے۔ اس جنگ میں رسول اللہؐ نے سلمان فارسی، کے مشورے پر شہر کے تحفظ کے لئے ایک خندق کھدوائی۔ مدینہ تین اطراف سے نخلستانوں اور عمارتوں کے پیش نظر محفوظ تھا اور دشمن ان تین اطراف سے شہر پر حملہ نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس شہر کے شمال میں خندق کھود کر شہر کو دشمن کے سوار جنگجؤوں کے حملوں سے محفوظ بنایا۔
مکی فوج کے مدینہ کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی خندق کی کھدائی کا کام مکمل ہوچکا تھا۔ جب دشمن وہاں پہنچا تو خندق کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوا کیونکہ اس نے اس سے قبل جنگی پیشقدمی روکنے کے لئے اس طرح کی رکاوٹ کو قریب سے نہیں دیکھا تھا۔ سوار جنگجؤوں کے لئے خندق پھلانگنا ممکن نہ تھا کیونکہ جب وہ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تو تیرانداز مسلمان انہيں ہلنے جلنے کا موقع نہيں دیتے تھے۔
عمرو بن عبدود اور عکرمہ بن ابی جہل نے خندق کو پھلانگنے کا فیصلہ کیا۔ نامور اور شجاع عمرو امیرالمؤمنین علیؑ کے ہاتھوں ہلاک ہوگیا۔ جنگ خندق بظاہر مسلمانوں کے لئے نقصان دہ تھی۔ مسلمانوں کا مختصر لشکر دشمن کے عظیم لشکر کے سامنے کر ہی کیا سکتا تھا؟۔
ایک روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے قبیلہ بنی غطفان کو اس لشکر سے الگ کرنے کا منصوبہ بنایا اور غطفانیوں کو پیغام بھجوایا کہ اگر وہ قریش کے ساتھ تعاون نہ کریں تو مدینہ کی پیداوار کا ایک تہائی حصہ انہيں دے دیا جائے گا۔ لیکن ۔ انصار نے کہا: یا رسول اللہؐ کیا یہ فیصلہ آسمانی وحی اور یہ مصالحت آسمانی مصالحت ہے؟ فرمایا: نہیں! انصار نے کہا: اس صورت میں ہم اس قسم کی شکست قبول نہيں کریں گے؛ جن دنوں خدا نے دین اسلام کی طرف ہماری راہنمائی نہيں فرمائی تھی ہم اس قسم کی ذلت قبول کرنے کے لئے تیار نہيں ہوتے تھے؛ آج جبکہ خدا نے آپ کے ذریعے ہمیں فلاح و رستگاری عطا فرمائی ہے یہ کیونکر ممکن ہے کہ ہم اپنے آپ کو ذلیل کریں؟ بہر حال یہ مصالحت انجام نہ پاسکی۔
بقول دیگر: جنگ احزاب میں رسول اللہؐ نے بنو غطفان کو مدینہ کے پھلوں کا ایک تہائی حصہ دینے کی پیشکش کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کے فیصلے سے دستبردار ہوجائیں چنانچہ آپ نے اوس و خزرج کے سربراہوں سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ سے مشورہ کیا۔ انھوں نے کہا: آپ نے خود ایسا کرنے کا فیصلہ کیا ہے یا پھر خدا نے اس کا حکم دیا ہے جس پر ہر حال میں ہمیں عمل کرنا پڑے گا؟ پیغمبرؐ نے کہا: آپؐ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں یہ کام نہیں کرتا مگر اس لئے کہ دیکھ رہا ہوں کہ عرب سب مل کر تمہارے خلاف متحد ہوکر تمہارے خلاف لڑنے کے لئے آئے ہیں اور ہر طرف سے تم (مسلمانوں) پر ٹوٹ پڑے ہیں؛ میں نے چاہا کہ اس طرح ایک خطرہ تم سے دور کروں۔ سعد بن معاذ نے کہا: اے رسول خداؐ! خدا کی قسم! ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ان کا جواب صرف شمشیر ہے۔ پیغمبرؐ نے فرمایا: جو مناسب سمجھو، وہی کرو۔[75]
بہرحال ایک دو مسلم افراد جو اپنا اسلام ظاہر نہیں کررہے تھے، ایک طرف سے بنو قریظہ اور دوسری طرف سے بنو غطفان کے ساتھ متصل ہوئے اور ان کے درمیان بدگمانی پیدا کردی۔ قضائے الہی نے بھی مسلمانوں کا ساتھ دیا اور شدید آندھیاں چلیں؛ سردی کی شدت نے مکی فوج کو شدید مشکلات سے دوچار کیا۔ ابوسفیان نے مکی افواج کو پسپائی کی ہدایت کی اور یوں مدینہ کا پندرہ روزہ محاصرہ اٹھ گیا اور اس شہر کو درپیش خطرہ ٹل گیا۔
جنگ احزاب کا خاتمہ ایک طرف سے مسلمانوں کے لئے امید افزا تھی جبکہ دوسری طرف سے مکہ کے لئے بےشمار مصائب کا سبب بنی۔ مسلّم ہوچکا کہ مکہ کے تاجر مدینہ کی منڈی ہمیشہ کے لئے کھو چکے تھے؛ علاوہ ازیں مدینہ کی طاقت نے مکہ اور شام کے درمیان تجارتی راستے کو غیر محفوظ کردیا ہے چنانچہ واضح ہوچکا تھا کہ قریشی تاجر مزید اطمینان کے ساتھ کاروبار تجارت نہيں کرسکتے تھے۔ ابوسفیان کی سپہ سالارانہ پوزیشن قریش کے ہاں متزلزل ہوگئی؛ دوسرے قبائل کے ہاں قریش کی حشمت ٹوٹ گئی۔ بعض غیر متوقع واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے اتنے بڑے لشکر کو مدینہ کے دروازوں سے ناکام و نامراد ہوکر واپس پلٹنا پڑا جن کو دیکھ کر بہت سے بدوی عرب قبائل اسلام کی طرف راغب ہوگئے اور انھوں نے یقین کرلیا کہ ایک ماوراء الطبیعت قوت مسلمانوں کی مدد کررہی ہے اور اس جنگ کے بعد ہی تمام کے تمام امور و معاملات مسلمانوں کے حق میں پلٹ گئے۔[76]
جنگ احزاب کے خاتمے کے بعد رسول خداؐ بنی قریظہ کے یہودیوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ یہ یہودی میثاق مدینہ کے تحت ـ جب تک کہ مسلمانوں کے خلاف بغاوت کا ارتکاب نہ کرتے ـ امن سے رہ سکتے تھے؛ لیکن وہ جنگ احزاب میں دشمنان اسلام کے ساتھ متحد ہوئے۔ ظاہر ہے کہ اس گروہ سے بھی بآسانی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی تھی۔ رسول اللہؐ نے ان کا محاصرہ کیا۔ یہ محاصرہ 25 دن تک جاری رہا جس کے بعد بنو قریظہ کے یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور قلعے سے باہر نکلے۔ بنی قریظہ کے ساتھ ایک معاہدے سے منسلک قبیلۂ اوس نے رسول اللہؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ “بنی قریظہ ہمارے حلیف ہیں اور وہ اپنے کئے پر نادم ہوچکے ہیں؛ ہمارے حلیفوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں جو آپ نے بنو خزرج کے حلیفوں (بنی قینقاع) کے ساتھ روا رکھا تھا”۔ چنانچہ پیغمبر اکرمؐ نے بنو قریظہ کے قیدیوں کا فیصلہ اوس کے سربراہ سعد بن معاذ کے سپرد کیا۔ بنو قریظہ نے بھی سعد بن معاذ پر اعتماد کا اظہار کیا۔ سعد نے کہا: میرا فیصلہ یہ ہے کہ ان کے مرد مارے جائیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قید کیا جائے۔ سعد کے فیصلے کے مطابق خندقیں کھود لی گئیں اور بنی قریظہ کے مردوں کے سر ان خندقوں کے کنارے قلم کردیئے گئے۔[77]
تاہم مؤرخین کے درمیان اس داستان کے بارے میں اختلاف ہے۔ ڈاکٹر سید جعفر شہیدی لکھتے ہیں: لگتا ہے کہ بنو قریظہ کی داستان ـ اس واقعے کے برسوں بعد ـ جب اس محاصرے میں موجود نسل کا خاتمہ ہوا تھا خزرج کے کسی افسانہ گو شخص کے توسط سے ـ تحریف کا شکار ہوکر دوبارہ لکھی گئی ہے، تاکہ اس طرح وہ یہ جتا سکے کہ رسول اللہؐ نے خزرج کے حلیفوں کو نہیں مارا لیکن اوس کے حلیفوں کو قتل کروایا۔ نیز وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ گویا قبیلہ اوس کے سربراہ نے اپنے حلیفوں کا لحاظ نہیں رکھا ہے، [78] جبکہ عہد شکنی معیوب اور مذموم تھی۔
سنہ 6 ہجری میں مسلمانوں نے بنو المصطلق نامی قوم کو ـ جو پیغمبر خداؐ کے خلاف اکٹھی ہونا چاہتی تھی ـ شکست دی۔[79] (دیکھئے: غزوہ بنی مصطلق)
صلح حدیبیہ:
ذیقعد سنہ 6 ہجری کو رسول اللہؐ مدینہ کے پندرہ سو مردوں کے ہمراہ عمرہ کی ادائیگی کی غرض سے مکہ روانہ ہوئے۔ قریش کو رسول اللہؐ کے ارادے کا علم ہوا تو انھوں نے آپ کو مکہ پہنچنے سے روکنے کی تیاری کی۔ ابتداء میں خالدبن ولید(مخزومی) اور عکرمہ بن ابی جہل (مخزومی) کو روانہ کیا تاکہ وہ آپ کو مکہ آنے سے روک لیں۔ رسول اللہؐ حدیبیہ نامی مقام پر اترے جہاں سے حدود حرم کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ نے وہیں سے اہالیان مکہ کو پیغام بھجوایا کہ “ہم جنگ کے لئے نہیں بلکہ زیارت کے لئے آئے ہیں”، مگر قریشی نہ مانے اور آخرکار آپؐ اور اہالیان مکہ کے نمائندے کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت “آنے والے دس برسوں کے دوران فریقین کے درمیان کوئی جنگ نہ ہوگی، اس سال مسلمان لوٹ کر واپس مدینہ جائیں گے لیکن اگلے سال اسی موقع پر مکہ کے مکین تین دن تک شہر چھوڑ کر چلے جائیں گے اور اسے مسلمانوں کے سپرد کریں گے تا کہ وہ زیارت کریں”۔
اس مصالحت نامے میں طے کیا گیا کہ “اہل مکہ میں سے جو بھی محمدؐ کے پاس آجائے گا آپ اسے مکہ لوٹا دیں گے لیکن اگر کوئی مدینہ سے مکہ چلا گیا تو مکیوں کے لئے اسے مدینہ لوٹانا لازم نہ ہوگا”۔ نیز اس معاہدے میں قرار پایا کہ تمام قبائل کو یہ فیصلے کرنے کا پورا اختیار ہوگا کہ وہ قریش کے حلیف ہوں یا پھر محمدؐ کے”۔[80]
اس معاہدے کی وجہ سے رسول اللہؐ کے بعض اصحاب غضبناک ہوئے اور اس معاہدے کو مسلمانوں کی شکست قرار دینے لگے؛ لیکن حقیقت میں یہ معاہدہ مسلمانوں کے لئے عظیم کامیابی کا سبب بنا کیونکہ مشرکین مکہ اب نہ صرف انہیں تسلیم کررہے تھے بلکہ ان کے ساتھ ایک ہم منصب اور فریق مقابل کے عنوان سے معاملہ کررہے تھے۔ [81]
غزوہ خیبر:
سنہ 7 ہجری میں رسول اللہؐ خیبر کے یہودیوں کے ساتھ جنگ کے فاتح ہوئے جو اس سے قبل کئی بار آپ کے خلاف آپ کے دشمنوں کے ساتھ متحد ہوئے تھے اور آپؐ ان کی طرف سے مطمئن نہ تھے۔ قلعۂ خیبر جو مدینہ کے قریب واقع ہوا تھا، پر مسلمانوں نے قبضہ کیا اور پیغمبرؐ نے اجازت دے دی کہ یہودی اس علاقے میں زراعت کا کام جاری رکھیں اور ہر سال اپنی پیداوار کا کچھ حصہ مسلمانوں کو ادا کریں۔[82]۔[83]
جنگ خیبر میں ایک قلعے کو فتح کرنے کا کام دشوار ہوا اور رسول اللہؐ نے بالترتیب ابوبکر اور عمر کو اس کی فتح کے لئے روانہ کیا لیکن وہ دونوں عاجز رہے اور رسول اللہؐ نے فرمایا:
حدیث: “اُعطينّ هذه الرايةَ غداً رجلاً يَفتح اللهُ علی يديه، يحبُّ اللهَ ورسولَه، ويحبُّه اللهُ ورسولُه”۔
میں کل قطعی طور پر پرچم اس مرد کے سپرد کررہا ہوں جس کے ہاتھوں اللہ اس فتح کو سرانجام تک پہنچائے گا وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کو دوست رکھتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس کو دوست رکھتے ہیں۔[84]۔[85]۔[86]۔[87]۔[88]۔[89]
اگلے روز صبح آپ نے علیؑ کو بلوایا اور ان کی آنکھوں کا علاج اپنے لعاب دہن سے فرمایا اور ہدایت کی: یہ پرچم اٹھاؤ اور آگے بڑھو تاکہ خداوند متعال تمہیں کامیاب کر دے۔
ابن اسحاق، ابورافع سے نقل کرتے ہیں کہ: علیؑ قلعہ کے قریب پہنچے اور جنگ میں مصروف ہوئے۔ ایک یہودی نے وار کیا تو ڈھال آپ کے ہاتھ سے گر گئی چنانچہ آپ نے قلعے کے کا ایک دورازہ اکھاڑ کر اسے ڈھال قرار دیا اور جب تک فتح سرانجام کو نہ پہنچی تھی وہ دروازہ بدستور آپ کے ہاتھ میں تھا اور جب جنگ سے سے فارغ ہوکر میدان کارزار سے باہر آئے تو دروازے کو پھینک دیا۔ ابو رافع کہتا ہے: میں نے سات دیگر افراد کے ساتھ مل کر اس دروازے کو اٹھانے کی بہتیری کوشش کی لیکن ناکام رہا۔[90]
خانۂ خدا کی زیارت:
ذوالقعدہ سنہ 7 ہجری کو رسول اللہؐ میثاق حدیبیہ کے تحت مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مسجدالحرام میں رسول اللہؐ اور مسلمانوں کی آمد اور اعمال عمرہ کی انجام دہی، عمرہ کے مراسمات کی شان و شوکت اور مسلمانوں کی طرف سے رسول اللہؐ کی شان و منزلت کی تکریم و تعظیم، قریش کے لئے بہت گراں تھی اور ان کے لئے تقریبا مسلّم ہوگیا کہ ان کے پاس محمدؐ کا سامنا کرنے کی مزید کوئی قوت نہیں تھی؛ جو زیادہ دوراندیش تھے وہ جان گئے کہ کہ قبیلے کے عمائدین اور تاجروں کا سنہری دور گذر چکا ہے اور لوگوں کے لئے نیا دروازہ کھل گیا ہے۔ چنانچہ جب رسول اللہؐ مدینہ واپس چلے گئے تو قبیلۂ قریش کے دو سرکردہ افراد خالد بن ولید و عمرو بن عاص، فوری طور پر مدینہ پہنچے اور مسلمان ہوگئے۔[91]
فتح مکہ:
میثاق حدیبیہ کے تحت قرار پایا تھا کہ ہر قبیلہ قریش یا مسلمانوں میں سے کسی ایک کے ساتھ معاہدہ منعقد کرسکتا ہے۔ چنانچہ خزاعہ نے حضرت محمدؐ کے ساتھ اور بنوبکر نے قریش کے ساتھ عہدنامے لکھے۔ سنہ 8 ہجری میں بنوبکر اور خزاعہ کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور قریش نے خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی مدد کی اور یوں میثاق حدیبیبہ منسوخ ہوگیا ۔ ابوسفیان فوری طور پر تجدید عہد کیلئے مدینہ پہنچا لیکن اسے ناکامی کے سوا کچھ نہ ملا۔
رسول اللہؐ ماہ رمضان سنہ 8 ہجری کو 10 ہزار افراد کے ہمراہ مکہ روانہ ہوئے۔ آپؐ نے نقل و حرکت کا منصوبہ اس طرح سے ترتیب دیا تھا کہ کوئی بھی اس عزیمت سے باخبر نہ ہو۔ جب مسلمانوں کا لشکر مرُّ الظہران کے علاقے میں پہنچا، تو آپ کے چچا عباس نے رات کو خیمے سے باہر نکل کر مکہ کے لوگوں سے ملنے کا ارادہ کیا۔ وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ قریش ہلاک ہونے سے قبل رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں۔ اس رات عباس ابن عبد المطلب نے ابوسفیان کو پناہ دی اور رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر کیا۔ ابو سفیان [بامر مجبوری] مسلمان ہوگیا۔ مسلمانوں اور مکہ کی عوام کے درمیان اِکّا دُکّا جھڑپیں ہوئیں۔ پیغمبرؐ مسجد میں داخل ہوئے اور سوار ہوکر ہی سات مرتبہ کعبہ کا طواف کیا اور کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر فرمایا:
حدیث: لا اله الا الله وحده لا شریك له صدق وعده ونصر عبده وهزم الاحزاب وحده
کوئی بھی معبود نہیں ہے سوائے خدائے یکتا کہ جو اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہيں ہے، اس نے اپنا (غلبہ اسلام کے سلسلے میں) اپنا وعدہ پورا کرکے دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے تمام احزاب (اور لشکروں) کو بھگا دیا۔
رسول اللہؐ دو ہفتوں تک مکہ میں رہے اور انہوں نے شہر کے امور و معاملات کو سدھارا۔ آپ نے کچھ افراد مکہ کے اطراف میں بھجوا کر بت خانوں کو منہدم کروادیا اور کعبہ میں موجود بت بھی منہدم کر وادئے۔آپ نے مکیوں کے ساتھ ایسا رویہ رکھا جس کے بموجب اسلام کی بردباری اور اس دین مبین کے پیغمبر کی عظمت و کرامت مخالفین کی نظروں کے سامنے جلوہ گر ہوئی۔ جب انھوں نے رسول اللہؐ سے سنا کہ “آج میں نے تم سب کو آزاد کردیا”، تو اسی لمحے انہوں نے اسلام دشمنوں کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیا۔[92]
جنگ حنین:
ابھی مکہ میں رسول اللہؐ کے قیام کو پندرہ روز بھی نہيں ہوئے تھے کہ جزیرہ نمائے عرب کے بعض بڑے قبائل آنحضرتؐ کے خلاف متحد ہوئے۔ رسول خداؐ مسلمانوں کا ایک بڑا لشکر لے کر مکہ سے باہر نکلے اور جب حُنَین نامی مقام پر پہنچے تو اطراف کے دروں میں گھاتے لگائے دشمنوں نے مسلمانوں پر تیراندازی کا آغاز کیا۔ تیراندازی کی شدت اتنی تھی کہ مسلمان پسپا ہونے لگے۔ تھوڑے سے مسلمانوں نے استقامت کی اور ڈٹے رہے۔ تاہم آخر کار بھاگنے والے مسلمان بھی واپس آئے اور دشمن کی سپاہ پر حملہ آور ہوئے اور انہیں شکست دی۔[93]
جنگ تبوک:
سنہ 9 ہجری کے اہم واقعات میں سے ایک جنگ تبوک ہے۔منقول ہے کہ غزوہ تبوک میں لشکر کی تعداد 30000 تھی۔[94]۔[95] اور یہ اسلامی غزوات میں نکلنے والا سب سے بڑا لشکر تھا بلکہ جزیرہ نمائے عرب میں اس دن تک اتنا بڑا لشکر کبھی بھی اکٹھا نہيں کیا جاسکا تھا۔
جنگ تبوک رسول اللہؐ کی حیات مبارکہ ميں غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کی آخری لڑائی تھی۔ اس کے بعد پورا جزیرہ نمائے عرب اطاعت گزار ہوا اور اس جنگ کے بعد ہر قبیلے کی طرف سے نمائندے اسلام قبول کرنے کی غرض سے رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا جاسکتا ہے کہ تقریبا تمام عرب قبائل نے اسلام قبول کیا۔ اس سال کو اسی بنا پر سَنَۃُ الوفود کا نام دیا گیا۔[96]
سَنَۃُ الوفود:
جنگ تبوک کے بعد اسلام جزیرۂ عرب کے تمام علاقوں میں تیزی سے فروغ پانے لگا۔ مختلف قبائل کے نمائندوں کے وفود مدینے آکر اسلام قبول کرتے تھے۔ رسول اللہؐ 9 ہجری کا پورا سال عملی طور پر مدینہ میں رہے اور قبائل کے وفود سے ملتے رہے۔ اس سال کو کثرت وفود کی وجہ سے سنۃ الوفود کہا گیا ہے ۔
مباہلہ:
نویں صدی ہجری میں رسول اللہ نے مختلف حکومتوں کے سربراہوں کو خطوط لکھے۔ایک خط نجران کے ساکنین کے نام بھی لکھا جس میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔اس کے جواب میں انہوں نے ایک 30افراد پر مشتمل ایک وفد تحقیق کیلئے مدینہ بھیجا ۔ وہ رسول خدا سے گفت و شنید سے کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو بات مباہلے پر ختم ہوئی ۔ طرفین مدینے سے باہر صحرا میں اکٹھے ہوطے پایا ۔مباہلے کے روز رسول خدا اپنے ہمراہ حضرت علی ،حضرت فاطمہ ، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہم السلام کو لے کر آئے ۔جب نصارا نے انہیں دیکھا تو انہوں نے مباہلہ سے انکار کیا اور صلح کی پیش کش کی ۔ رسول خدا نے اسے قبول کیا۔ رسول خدا اور نجران کے وفد کے درمیان ایک صلحنامہ لکھا گیا ۔[97]
حجۃ الوداع اور غدیر خم کا واقعہ:
رسول اللہؐ ذو القعدہ سنہ 10 ہجری کو اپنے آخری حج کے لئے مکہ روانہ ہوئے۔ اسی سفر کے دوران آپؐ نے لوگوں کو احکام حج کی تعلیم دی۔ قریش نے اسلام سے قبل اپنے لئے بعض مراعاتوں کا تعین کیا تھا۔ وہ خانہ کعبہ کی کلید داری، پردہ داری، ضیافتیں دینے اور حاجیوں کو پانی دینے (سقایت) جیسے عہدوں کو اپنے لئے مختص کرچکے تھے اور علاوہ ازیں آداب زیارت میں بھی اپنے لئے دوسرے قبائل کی نسبت جدا اور ممتاز حیثیت کے قائل تھے۔ اس سفر کے دوران پیغمبرؐ نے ان تمام چيزوں کا خاتمہ کیا جنہيں قریش زیارت خانۂ خدا میں، اپنے لئے، امتیازی خصوصیت سمجھتے تھے۔ ان مراعاتوں میں سے ایک یہ تھی کہ جاہلیت کے زمانے میں یہ لوگ سمجھتے تھے کہ خانہ کعبہ کا طواف پاکیزہ لباس پہن کر بجا لانا چاہئے تھا اور کپڑا صرف اس وقت پاک ہوتا ہے جب وہ قریش سے خریدا جاتا ہے۔ اگر قریش کسی کو طواف کا کپڑا نہ دیتے تو اس کو برہنہ ہوکر طواف کرنا پڑتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ قریشی دیگر حجاج کی مانند عرفات سے حج کے لئے کوچ نہیں کرتے تھے بلکہ مزدلفہ سے کوچ کیا کرتے تھے اور اس عمل کو اپنے لئے فخر و اعزاز سمجھتے تھے۔ قرآن نے یہ امتیازی خصوصیت قریش سے چھین لی اور فرمایا:
ثُمَّ أَفِيضُواْ مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ۔ اور پھر چل کھڑے ہو جس طرح کہ اور لوگ چل کھڑے ہوتے ہیں۔[98]
اور لوگوں نے دیکھا کہ محمدؐ جو خود قریش میں سے ہیں دوسرے لوگوں کے ہمراہ عرفات سے کوچ کررہے ہیں۔ اسی سفر میں رسول اللہؐ نے فرمایا: اے لوگو! نہ جانے کہ میں اگلے سال کو دیکھ سکوں گا یا نہيں! اے لوگو! میں جاہلیت کے زمانے میں بہایا گیا خون پاؤں تلے روندتا ہوں [اور پرانے بدلے منسوخ کرتا ہوں]؛ تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر حرام ہے اس وقت تک کہ اپنے خدا کی ملاقات کرلو۔
غدیر خم:
مدینہ لوٹتے وقت مصر، حجاز اور عراق کے راستوں کی جداہونے کے مقام جحفہ پر غدیر خم کے نام سے مشہور جگہ پر آپؐ کو اللہ کا حکم ملا کہ “اپنے جانشین کے طور پر علیؑ کے نام اعلان کریں ، اور واضح تر یہ کہ رسول اللہؐ کے بعد حکومت اسلامی کی قسمت کا فیصلہ اور تعین ہونا چاہئے۔ رسول اللہؐ نے مسلمانوں کے 10 ہزار ،[99] 12 ہزار،[100] 17 ہزار،[101] 70 ہزار[102] 11400[103] کے عظیم اجتماع میں اعلان فرمایا:
من كنت مولاه فهذا على مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه واحبّ من احبّه وابغض من ابغضه وانصر من نصره واخذل من خذله وأدار الحق معه حیث دار۔
میں جس پر بھی ولایت رکھتا ہوں، علی بھی اس پر ولایت رکھتے ہیں اور اس کے مولا ہیں۔ خداوندا! اس کا ساتھ دے جو علی کا ساتھ دے اور دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے۔ اور دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور دشمنی کر اس سے جو علی کی دشمنی کرے۔ اور تنہا چھوڑ دے اسے جو اس کو تنہا چھوڑ دے اور حق کو اس کے ساتھ پلٹا دے جس طرف کہ وہ پلٹتا ہے)۔
اور فرمایا کہ حاضرین غائبین کو خبر دیں۔[104]
حج سے واپسی کے بعد اسلام کی قوت و شوکت روز افزوں ترقی ہو رہی تھی کہ رسول اللہؐ کی صحت خطرے میں پڑگئی۔ لیکن بیماری کے باوجود جنگ موتہ میں مسلمانوں کی شکست کی تلافی کی غرض سے اسامہ بن زید کی سرکردگی میں ایک لشکر تشکیل دیا لیکن لشکر کی عزیمت سے قبل ہی رسول اللہؐ رحلت فرما گئے۔ اور ایسے وقت دیدار رب کی طرف روانہ ہوئے کہ آپ نے جزیرہ نمائے عرب میں وحدت اسلامی قائم کررکھی تھی اور اسلام کو دو بڑی سلطنتوں یعنی ایران اور روم کے سنگم تک پہنچا دیا تھا۔
وفات:
سنہ 11 ہجری کے ابتدائی مہینوں میں رسول اللہؐ بیمار ہوئے اور وفات پا گئے۔ جب آپ کی بیماری شدت اختیار کرگئی تو منبر پر رونق افروز ہوئے اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی کی سفارش فرمائی اور فرمایا: اگر کسی کا مجھ پر کوئی حق ہے تو وہ مجھ سے وصول کرے یا بخش دے اور میں نے کسی کو آزردہ کیا ہے تو میں تلافی کے لئے تیار ہوں۔[105]
حدیث قرطاس:
صحیح بخاری کی نقل کے مطابق رسولخدا کے آخری ایام میں آپ کے اصحاب عیادت کیلئے موجود تھے ۔آپ نے ان سے فرمایا : قلم اور کاغذ لاؤ تا کہ میں تمہارے لئے ایسی چیز لکھ دوں جس کی برکت سے تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے ۔حاضرین میں سے بعض نے کہا :بیماری نے پیغمبر پر غلبہ کر لیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہذیان کہہ رہے ہیں۔ہمارے پاس قرآن ہے اور وہ ہی ہمارے لئے کافی ہے ۔صحابہ کے درمیان اختلاف ہوا اور شور وغوغا بلند ہوا بعض کہہ رہے تھے کاغذ اور قلم لائیں بعض نفی کر رہے تھے ۔ یہانتک کہ رسول اللہ نے کہا:اٹھ جاؤ اور میرے قریب سے چلے جاؤ۔[106] صحیح مسلم میں اس شخص کا نام عمر بن خطاب لیا گیا جس نے کہا تھا کہ رسول ہذیان کہہ رہا ہے ۔بخاری اور مسلم میں یہ بھی مذکور ہے کہ ابن عباس مسلسل افسوس کرتے رہتے اور اسے ایک بہت بڑی مصیبت کہتے تھے۔[107]
ایک روایت کے مطابق پیغمبر اکرمؐ اسی سال 28 صفر سنہ 11ہجری اور دوسری روایت کے مطابق 12 ربیع الاول کو 63 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے۔ جیسا کہ نہج البلاغہ میں مذکور ہے وفات کے وقت آپ کا سر امام علیؑ کے سینے اور گردن کے درمیان تھا۔[108]
اس وقت حضرت سیدہ فاطمہ(س) کے سوا آپ کے فرزندوں میں سے کوئی بھی زندہ نہ تھا۔ آپ کی وفات سے ایک یا دو سال قبل متولد ہونے والے ابراہیم سمیت آپ کے تمام فرزند وفات پاچکے تھے۔ آپ کے جسم مطہر کو حضرت علیؑنے اپنے خاندان کے چند افراد کے ساتھ مل کر غسل اور کفن دیا اور مسجد النبی میں موجود آپ کے اپنے گھر میں سپرد خاک کیا۔
پیغمبرؐ کا جانشین:
ابھی علی بن ابیطالب اور بنو ہاشم رسول اللہؐ کے غسل و تکفین میں مصروف تھے کہ قوم کے بعض سرکردگان نے صرف دو مہینے قبل پیغمبرؐ کے فرامین کو نظرانداز کیا؛ (رجوع کریں:عید غدیر) اور انہیں فکر لاحق ہوئی کہ امت کے سربراہ کا تعین ہونا چاہئے!مہاجرین میں سے تین افراد اور انصار کا ایک گروہ سقیفۂ بنی ساعدہ کے نام سے مشہور مقام پر اکٹھے ہوا۔ وہ مسلمانوں کے لئے حکمران کا جلد از جلد تعین کرنا چاہتے تھے؛ بات باہمی نزاع اور دست و گریبان ہونے تک پہنچی اور آخر کار ابوبکر کی خلافت پر راضی ہوگئے۔اس کے بعد جبری بیعت لینے کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔[109]
آپ کی شخصیت:
نیک نامی:
پیغمبرؐ نے بعثت سے قبل 40 سال تک عوام کے درمیان بسر کئے تھے۔ آپ کی زندگی ہر قسم کی منافقت اور ناپسندیدہ خصوصیات و کیفیات سے خالی تھی۔ آپ لوگوں کے نزدیک صادق اور امین سمجھے جاتے تھے۔ جب آپ نے ابلاغ رسالت کا آغاز کیا تو مشرکین کبھی بھی آپ کی ذات کو نہیں جھٹلاتے تھے بلکہ آیات کا انکار کردیتے تھے؛ جیسا کہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:
قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَ
ہمیں معلوم ہے کہ جو وہ کہتے ہیں، وہ آپ کو یقینا رنج پہنچاتا ہے تو وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے ہیں بلکہ وہ ظالم اللہ کی آیتوں کا جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں)۔ ۔[110]
منقول ہے کہ ابوجہل نے آپؐ سے کہا: “ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ ان آیات کو نہیں مان سکتے”۔[111] رسول اللہؐ نے اعلان رسالت کے آغاز پر قریش سے مخاطب ہوکر فرمایا: “اگر میں تم سے کہہ دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے لشکر ہے تو کیا میری بات مان لوگے؟”، سب نے کہا: ہاں، ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے کبھی بھی آپ کو جھوٹ بولتے ہوئے نہيں دیکھا۔ اور اس کے بعد آپ نے فرمایا: تو پھر جان لو کہ میں خداوند متعال کی طرف سے لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔[112]
خاندانی پس منظر:
نیک اور مثبت و روشن پس منظر کے علاوہ، آپ کا خاندان بھی بہت اہم اور قابل احترام تھا اور آپ عربوں کے لئے بھی “اپنے” تھے اور ان خصوصیات نے بھی آپؐ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ قبیلۂ “قریش” برس ہا برس پہلے سے عربوں کے درمیان جانا پہچانا اور اہم قبیلہ تھا۔ یہ قبائلی اہمیت بھی سبب بنی کہ بہت سے قبائل نے اس قبیلے کی برتری کو تسلیم کیا اور کسی حد تک بعض امور میں اس قبیلے کی پیروی بھی کی۔
ادھر رسول اللہؐ کے اجداد (قُصَی بن کلاب، ہاشم اور عبدالمطّلب) وہ لوگ تھے جو عربوں کے درمیان بزرگی، شان و منزلت اور شرافت و عظمت کے حوالے سے پہچانے گئے تھے۔ اس خاص زمانے میں جزیرةالعرب کا معاشرہ ایک محدود معاشرہ تھا اور دوسرے علاقوں کے ساتھ اس کا کوئی خاص تہذيبی رابطہ نہیں تھا۔ اس صورت حال نے فطری طور پر ان کے درمیان “عربیت” (عربی تعصب) کا کافی طاقتور احساس پیدا کردیا تھا۔ اور اسی احساس کی وجہ سے وہ دوسروں کی باتیں قبول نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں وہ “دوسرے (دیگر)” تھے اور صرف وہ بات قبول کرتے تھے جو “اپنی” ہوتی تھی۔ قرآن مجید میں رب متعال کا ارشاد ہے:
وَلَوْ نَزَّلْنَاهُ عَلَى بَعْضِ الْأَعْجَمِينَ ٭ فَقَرَأَهُ عَلَيْهِم مَّا كَانُوا بِهِ مُؤْمِنِينَ۔
اور اگر ہم اسے اتارتے غیر عرب کسی شخص پر اور وہ اسے ان کے سامنے پڑھتا تو یہ اس پر ایمان نہ لاتے۔ [113] جو شاید اسی عربی عصبیت کی طرف اشارہ ہو۔
پیغمبر کا “اپنا” ہونا آپ کے پیغام کی پذیرائی کے امکان میں اضافہ کردیتا تھا۔ قرآن نے بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔[114]
اخلاق:
رسول اللہؐ کی اعلی ترین اور نمایاں ترین خصوصیت آپ کی اخلاقی خصوصیت تھی۔ خداوند متعال اس بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ
اور بلاشبہ آپ عظیم اخلاق کے درجے پر فائز ہیں۔[115]
رسول اللہؐ کے طرز سلوک اور صفات کے بیان میں منقول ہے کہ آپ اکثر خاموش رہتے تھے اور ضرورت سے زیادہ نہيں بولتے تھے۔ کبھی بھی پورا منہ نہيں کھولتے تھے، زیادہ تر تبسم فرماتے تھے اور کبھی بھی اونچی آواز میں (قہقہہ لگا کر) نہيں ہنستے تھے، جب کسی کی طرف رخ کرنا چاہتے تو اپنے پورے جسم کے ساتھ اس کی طرف پلٹتے تھے۔ صفائی، نظافت اور خوشبو کو بہت زيادہ پسند کرتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ کہیں سے گذرتے تو فضا میں خوشبو پھیل جاتی تھی۔ اور راہگیر خوشبو محسوس کرکے سمجھتے تھے کہ آپ یہاں سے گذرے ہیں۔ انتہائی سادہ زندگی گذارتے تھے، زمین پر بیٹھتے تھے اور زمین پر ہی بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے تھے، کبھی بھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے تھے اور بہت سے مواقع پر خاص طور پر جب آپ ابتدا میں مدینہ تشریف فرما ہوئے تھے اکثر بھوکے رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اس کے باوجود راہبوں کی طرح زندگی نہيں گذارتے تھے اور خود بھی فرماتے تھے کہ “میں نے اپنی حد تک دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھایا ہے اور روزہ بھی رکھا ہے اور عبادت بھی کی ہے”۔ مسلمانوں حتا کہ دیگر ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ بھی آپ کا طرز سلوک شفقت، کرامت و درگذر اور مہربانی پر مبنی ہوتا تھا۔ آپ کی سیرت اور روشِ حیات مسلمانوں کو اس قدر پسند تھی کہ وہ آپ کی حیات کریمہ کے نہایت چھوٹے چھوٹے واقعات کو سینہ بہ سینہ منتقل کیا کرتے تھے اور آج تک مسلمان ان نکات کو اپنے دین اور زندگی کے لئے مشعل راہ کے طور پر بروئے کار لاتے ہیں۔[116]
حضرت امام علی علیہ السلام حضرت رسول اکرم للہؐ کی سیرت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “جو بھی پیشگی آشنائی کے بغیر آپ کو دیکھتا، وہ ہیبت زدہ ہوجاتا تھا اور جو بھی آپ کے ساتھ معاشرت کرتا اور آپ کو پہچان لیتا اور وہ آپ کا حبدار بن جاتا تھا”۔[117]
“رسول اللہؐ اپنی نگاہ اور توجہ کو اپنے اصحاب کے درمیان تقسیم فرمایا کرتے تھے اور سب پر یکسان انداز سے نظر ڈال دیا کرتے تھے”۔[118] “رسول اللہؐ نے جب کسی کے ساتھ مصافحہ کرتے اس وقت تک اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے تھے جب تک کہ دوسرا شخص اپنا ہاتھ نہ کھینچ لیتا ۔[119]
رسول اللہؐ ہر شخص کے ساتھ اس کے ظرف اور عقل کے مطابق گفتگو فرمایا کرتے تھے۔[120] آنحضرتؐ کی عفو و بخشش ـ ہر اس شخص کے لئے جس نے آپ پر ظلم و ستم روا رکھا ہوتا تھا ـ بھی آپ کی وجۂ شہرت تھی،[121] حتی کہ آپ نے اپنے چچا حمزہ کے قاتل “وحشی” اور اسلام کے دیرینہ دشمن ابو سفیان تک کو بخش دیا۔ آپ مختلف افراد کے ساتھ اس قدر مخلصانہ انداز سے پیش آتے تھے کہ ہر شخص گمان کرلیتا تھا کہ پیغمبرؐ اس کو بے انتہا پسند فرماتے ہیں اور اس کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں۔[122]
زہد:
پیغمبر اکرمؐ زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ نے پوری حیات میں اپنے لئے کوئی خانہ و کاشانہ بنانے کا اہتمام نہیں کیا اور مسجد کے گرد آپ کی زوجات کے گارے کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے کمرے تھے ان کی چھتیں کھجور کی لکڑی سے بنی ہوئی تھیں اور دروازوں کے بجائے ان پر بکری یا اونٹ کی پشم کے بنے پردے لٹک رہے تھے۔ آپ ایک تکيہ سونے کے لئے استعمال کرتے تھے جسے کھجور کے پتوں سے بھر دیا گیا تھا۔ کھجور کے پتوں سے بھری ہوئی چمڑے کی ایک گدی تھی جسے آپ اپنی پوری عمر کے دوران سونے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ آپ کا زیریں لباس کھردرے کپڑے کا بنا ہواتھا جو بدن کو کھا لیتا تھا اور آپ کی ایک ردا تھی جو اونٹ کی پشم سے بنی ہوئی تھی۔ حالانکہ جنگ حنین، کے بعد آپ نے چار ہزار اونٹ، 40 ہزار سے زیادہ بھیڑ بکریاں اور بہت بڑی مقدار میں چاندی اور سونا لوگوں کو بخش دیا۔
منزل اور گھر کے ساز و سامان کے حوالے سے آپ کا کھانا پینا آپ کی زاہدانہ روش سے بھی زیادہ زاہدانہ تھا۔ بسا اوقات کئی مہینوں تک آپ کے گھر میں چولہا بجھا رہتا تھا اور سب کا کھانا کھجوروں اور جو کی روٹی تک محدود رہتا تھا، آپ نے کبھی بھی دو روز مسلسل پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا، کبھی بھی ایک روز دو بار پیٹ بھر کر دسترخوان سے نہیں اٹھے۔ بارہا اور بارہا آپ اور آپ کے اقرباء راتوں کو بھوکے سوتے تھے۔
ایک روز فاطمہ(س) جَو کی ایک روٹی آپ کے لئے لے آئیں اور عرض کیا: بابا جان یا رسول اللہؐ! میں نے روٹی پکائی اور میرا دل راضی نہ ہوا کہ یہ روٹی آپ کے لئے نہ لے کر آؤں؛ رسول اللہؐ نے وہ روٹی تناول فرمائی اور فرمایا: “جان پدر! یہ پہلا کھانا ہے جو تمہارا باپ گدشتہ تین دنوں میں کھا رہا ہے!”۔ ایک دن ایک انصاری کے نخلستان میں کھجور تناول فرما رہے تھے، فرمایا: “آج چوتھا دن ہے کہ میں نے کچھ نہيں کھایا ہے”۔ کبھی تو آپ حتی نہایت بھوک کے عالم میں سو جاتے ۔
وفات کے وقت آپ کی زرہ جَو کے تیس پیمانوں کے عوض ایک یہودی کے ہاتھ گروی تھی۔[123]
نظم و انضباط اور آراستگی:
رسول اللہؐ زندگی کے امور میں بہت زيادہ منظم تھے۔ آپ نے مسجد بنانے کے بعد ہر ستون کے لئے ایک نام متعین کیا تاکہ معلوم ہو کہ ہر ستون کے پاس کس قسم کے معاملات انجام پاتے ہیں؛ جیسے ستون وفود (وفدوں کے بیٹھنے کا مقام)، تہجد کا ستون وغیرہ۔۔۔[124]
نماز کی صفوں کو اس طرح سے منظم فرمایا کرتے تھے کہ گویا تیروں کی لکڑیوں کو منظم کررہے ہیں اور فرماتے تھے: “اے بندگان خدا! اپنی صفوں کو منظم کرو ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پڑ جائے گا”۔[125]
شب و روز کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کرتے تھے؛ کچھ وقت عبادت الہی کے لئے مختص فرمایا کرتے تھے، کچھ وقت اہل خانہ کو دیتے تھے اور کچھ وقت اپنے لئے قرار دیتے تھے اور پھر اپنے وقت کو لوگوں کے ساتھ بانٹ لیتے تھے۔[126]
آپؐ آئینہ دیکھتے تھے، اپنے سر کے بالوں کو منظم کرتے اور ان میں کنگھی لگایا کرتے تھے اور نہ صرف اپنے خاندان کے افراد کو آراستہ پیراستہ کردیتے تھے بلکہ اپنے اصحاب کی آراستگی کا اہتمام بھی فرمایا کرتے تھے۔[127]
آپ سفر کے دوران بھی اپنی ظاہری صورت کی طرف توجہ دیا کرتے تھے اور پانچ چیزیں ہر وقت آپ کے پاس موجود رہتی تھیں: آئینہ، سرمہ دان، کنگھی، مسواک اور قینچی۔[128]
اُمّی ہونا:
پیغمبر اکرمؐ قرآن کے مطابق امی تھے اور یہ وہ اصطلاح ہے جو عام طور پر ان لوگوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے ہیں۔ رسول اللہؐ پڑھتے تھے اور نہ ہی لکھتے تھے۔ خداوند متعال قرآن مجید میں آپ سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:
وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذاً لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ[129]
اور آپ اس سے پہلے کوئی نوشتہ نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے اسے لکھتے تھے اس صورت میں باطل پرستوں کو شک کا موقع ہوتا۔
منتخب کلام:
لایشبع المؤمن دون جاره۔
ترجمہ: مؤمن کو پڑوسی کا خیال رکھے بغیر کھانا نہیں کھانا چاہئے۔[130]
لایفتك المؤمن۔
ترجمہ: مؤمن چھپ کر (بےخبری میں) وار نہیں کرتا۔[131]
لا يقبل إيمان بلا عمل و لا عمل بلا إيمان۔
ترجمہ: ایمان عمل کے بغیر اور عمل ایمان کے بغیر قابل قبول نہيں ہے۔[132]
ثلاث من لم يكنّ فيه لم يتمّ عمله ورع يحجزه عن معاصي اللَّه و خلق يداري به النّاس و حلم يردّ به جهل الجُهّال”۔
ترجمہ: تین چیزیں ہیں جو اگر کسی میں نہ ہوں تو اس کا کام سرانجام کو نہیں پہنچتا: پرہیزگاری، جو اس کو اللہ کی نافرمانی سے باز رکھے؛ اخلاق جس کے ذریعے لوگوں کے ساتھ وہ حسن سلوک اور رواداری اپنائے اور حلم و بردباری جس کے ذریعے وہ جاہلوں کا جہل ٹال دے)۔ [133]
اسمح یسمح لك”۔
ترجمہ: مسامحت سے کام لو تا کہ لوگ تمہارے ساتھ مسامحت سے پیش آئیں۔[134]
أسرع الخير ثوابا البرّ و صلة الرّحم و أسرع الشّرّ عقوبة البغى و قطيعة الرّحم”۔
ترجمہ: نیکی کرنے اور اعزاء واقارب کے ساتھ رشتہ قائم رکھنے (صلہ رحمی) کا صلہ دوسری نیکیوں سے جلدی ملتا ہے اور ظلم اور رحم منقطع کرنے کی سزا دوسرے گناہوں کی سزا سے جلد ملتی ہے۔[135]
آفَةُ الدِّينِ ثَلاثَةٌ: فَقيهٌ فاجِرٌ و إمامٌ جائرٌ و مُجتَهِدٌ جاهِلٌ”۔
ترجمہ: دین کو درپیش آفتیں تین ہیں: بدکار عالم، ظالم راہنما اور نادان مجتہد۔[136]
أبغض الحلال الی الله الطلاق۔
ترجمہ: خدا کے نزدیک سب سے زیادہ قابل نفرت حلال فعل، طلاق ہے۔[137]
إنّ الله تعالى يبغض الطلاقَ”۔
ترجمہ: بےشک اللہ طلاق سے نفرت رکھتا ہے۔[138]
إتَّخِذُوا عِندَ الفُقَراءِ أيادِي فَإنَّ لَهُم دَولَةٌ يَومَ القِيامَةِ۔
ترجمہ: غرباء (فقراء) کے ساتھ دوستی کرو کیونکہ قیامت کے دن وہ صاحب دولت (و حکومت) ہونگے۔[139]
ایها الناس ان دِماءَکم و اعراضَکم علیکم حرامٌ الی آن تلقوا ربَکم”۔
ترجمہ: لوگو! تمہارا خون اور تمہاری آبرو قیامت تک تم پر حرام ہے۔ [140]
خیاركم خیاركم لنسائهم۔
ترجمہ: تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے لئے بہتر ہوں۔[141]
الركعتان فى جوف اللیل احب الى من الدنیا و مافیها”۔
ترجمہ: میرے نزدیک رات کی تاریکی میں دو رکعت نماز دنیا و ما فیہا سے زیادہ محبوب ہے۔[142]
نحن معاشر الأنبياء والامناء والأتقياء براء من التكلف”۔
ترجمہ: ہم انبیاء اور امناء اور پرہیزگار تکلف (اور بےجا زحمت اٹھانے) سے بیزار ہیں۔ [143]
إنَّ أثقل شیءٍ یُوضَعُ فِی المیزانِ هُوَ حُسنُ الخُلُقِ”۔
ترجمہ: مؤمن کے ترازوئے اعمال میں سب سے بھاری چیز حسنِ خُلق (خوش اخلاقی) ہے۔[144]۔[145]
أحبّ عباد اللَّه إلى اللَّه أحسنهم خلقاً”۔
ترجمہ: اللہ کے نزدیک بہترین بندہ وہ ہے جس کا اخلاق زیادہ اچھا ہے۔[146]
ما اَكرَمهُنّ الا َكريمٌ وما اَهانهُنّ الا لَئيمٌ”۔
ترجمہ: جوانمردوں کے سوا کوئی عورتوں کی تکریم نہیں کرتا اور پست انسانوں کے سوا کوئی ان کی تذلیل نہيں کرتا۔[147]
حُسنُ الخُلقِ وحُسنُ الجَوارِ یَعمرانِ الدیارِ”۔
ترجمہ: حسنِ خُلق اور حُسنِ مجاورت (پڑوسیوں کا باہمی حسن سلوک) ملکوں کی آبادی کا سبب ہیں۔[148]
الجَنّةُ حرامٌ علی کلِّ فاحِش ان یَدخُلَها”۔
ترجمہ: جنت میں داخلہ ہر بد زبان اور فحش گو انسان پر حرام ہے۔[149]
شیعہ عقائد میں رسول اللہؐ کا مقام و مرتبہ:
شیعہ عقائد کے مطابق حضرت محمدؐ نبی اور رسول ہیں۔ چونکہ آپ خاتم الانبیاء ہیں اسی لئے آپ کے بعد کوئی پیغمبر نہيں آئے گا۔ حضرت محمد اولوالعزم انبیاء میں سے ہیں اور ایک نئی شریعت خدا کی طرف سے بنی نوع انسان کے لئے لائے ہیں۔ پیغمبرؐ چہاردہ معصوم میں سب سے پہلے ہیں۔ شیعہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہؐ نہ صرف وحی کی وصولی اور ابلاغ میں معصوم تھے بلکہ آپ زندگی کے تمام شعبوں میں صاحب عصمت تھے۔ نیز رسول خداؐ سے متعدد معجزات نقل ہوئے ہیں جن میں سے اہم ترین قرآن ہے۔(دیکھئے: معجزات پیغمبر)
حدیث نبوی کے مصادر و مآخذ:
شیعیان آل رسولؐ کے عقیدے کے مطابق بنیادی اصول یہ ہے کہ ائمہؑ سے منقولہ روایات رسول اللہ ؐ سے منقولہ روایات کی مانند “حجت” ہیں اور ان پر کاربند ہونا چاہئے اور اس لحاظ سے ان روایات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی بنا پر بنیادی شیعہ منابع حدیث کی حیثیت سے کتب اربعہ (یعنی الکافی، تہذیب الاحکام، من لایحضرہ الفقیہ،الاستبصار) میں رسول اللہؐ اور ائمہؑ کی احادیث کو اکٹھا ذکر کیا گیا ہے اور مختلف موضوعات کے سانچے میں ان سب سے گوناگوں حدیثیں منقول ہیں۔
اس کے باوجود ایسے منابع بھی موجود ہیں جن میں رسول اللہؐ کی حدیثوں کا مجموعہ اکٹھا کیا گیا ہے یا پھر احادیث نبوی کو مستقل باب مخصوص کیا گیا ہے۔ ان منابع میں سے ذیل کی چند کتابوں کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے:
تحف العقول عن آل الرسول: یہ کتاب چوتھی صدی ہجری کے مشہور اور بزرگ عالم و فقیہ ابن شعبہ حرانی نے تألیف کی ہے۔ یہ کتاب حضرت رسول اکرمؐ اور اہل بیت طاہرینؑ کے کلام اور نصائح کا عمدہ اور نفیس مجموعہ ہے اور اس میں رسول اللہؐ کی حدیثوں کو ایک مستقل باب مخصوص کیا گیا۔
المَجازات النبویه: یہ کتاب سید رضى نے تألیف کی ہے۔ حدیث کے اس مجموعے میں کلام نبوی کے ادبی پہلو یعنی احادیث نبوی میں پائے جانے والے اشارات، تنبیہات، کنایات اور تشبیہات پر بحث کی گئی ہے۔
مکاتیب الرسول: یہ کتاب مرحوم آیت اللہ احمدى میانَجى نے تألیف کی ہے۔ یہ کتاب بادشاہوں، ذمہ دار حکام، کارگزاروں وغیرہ کے نام رسول اللہؐ کے مراسلات و مکاتیب نیز عہدناموں اور قراردادوں اور بعض متفرقہ موضوعات سے متعلق بعض مکتوبات پر مشتمل ہے۔
سنن النبی: یہ کتاب علامہ سید محمد حسین طباطبائی نے تألیف کی ہے۔ یہ کتاب رسول اللہؐ کے اخلاقیات اور سیر و سلوک کی روش اور وہ سب کچھ جسے مجموعی طور پر “سنت نبوی” کہا جاتا ہے، پر مشتمل ہے۔
نہج الفصاحہ: یہ کتاب ابوالقاسم پائندہ نے تألیف کی ہے جو دو حصوں پر مشتمل ہے: احادیث اور خطبات؛ اور رسول اللہؐ سے منقولہ روایات اور کلمات۔
______________________
حوالہ جات:
- آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص42۔
- آیتی، ایضا۔
- مجلسی، بحار الانوار، ج 15، ص 117۔
- طبرسی، اعلام الوری، ص43
- مقدسی، بازپژوہی تاریخ ۔۔۔، ص91۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص37۔
- آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص43۔
- کلینی، الكافى، ج1، ص439؛ ابن شہر آشوب، المناقب، ج1، ص172؛ عاملی، الصحيح من السيرة النبي الأعظم، ج2، ص68
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص37۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، صص 37-38۔
- سبحاني، فروغ ابدیت ص169۔
- سبحاني، فروغ ابدیت ص171،آيتي، تاریخ پیامبر اسلام ص61۔
- ترجمہ تاریخ یعقوبی، صص 368-369، بہ نقل آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص49۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص38۔
- ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1، ص141-142۔
- ابن اسحاق، السيرة النبويہ، جزو 1، ص59۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص39۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، صص 39-40۔
- آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص 56-60۔
- آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص 60-61۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص40۔
- آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص67۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص41۔
- سورہ علق آیت 1
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص41۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص41۔
- ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1، ص262۔
- ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1، ص264، 266۔
- مستدرك علی الصحیحین، كتاب المعرفہ، ص22۔ رجوع کریں: تفسیر قرطبی، ج5، ص3075۔
- فقیہ برهان الدین، انباء نجباء الابناء 46ـ48،ابن کثیر، السيرة النبويہ، ج1، ص455-456،الخفاجی، “شرح الشفاء”، قاضی عیاض۔ ج3، ص37،الطبری، تاریخ الامم والملوك، ج2، ص217-216،ابو جعفر الاسكافی، نقض العثمانیہ، فقیہ برہان الدین، انباء نجباء الابناء ص46ـ48،ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج1، ص586،الخفاجی، شرح الشفاء قاضی عیاض، ج3، ص37،علاء الدين بغدادی، لباب التأویل (تفسير الخازن)، ج1، ص459، سیوطی، جمع الجوامع، ج6، ص392 بحوالہ طبری جنہوں نے یہ حدیث چھ حافظین حدیث سے نقل کی ہے: ابن اسحاق، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، ابی نعیم اور البیہقی،ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج3، ص263۔254، احمد حنبل، المسند ج1، ص111 صحیح اسناد کے حوالے سے، مزید تفصیل کے لئے رجوع کریں: علامہ عبد الحسین امینی، ج2 ص 279 ـ280،الطبری، تاریخ الامم والملوك، ج2، ص217،رسولی محلاتی، ﺩﺭس ھﺎﯾﯽ ﺍﺯ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺗﺤﻠﯿﻠﯽ ﺍﺳﻼﻡ، ج3، ص32 بحوالہ الاسکافی: نقض العثمانیہ۔
- ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1، ص281-282۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص41۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، صص 44-41۔
- سورہ شعراء آیات 214 تا216۔
- سیره ابن اسحاق، ص127،شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص44۔
- تاریخ الرسل و الملوک، ج3، ص1172۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص44۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص44۔
- ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1، ص279۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص45۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص49۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص49۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 51-52۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص53۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص53۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص53۔
- طبری، ج2، ص343۔
- ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج2، ص60 اور بعد کے صفحات۔
- طبری، تاریخ، ج2، ص344-346۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص ۵۶۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص ۵۹۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، صص ۵۹-۶۰۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص ۶۰۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، صص ۶۳-۶۰۔
- ابن ہشام، ج۲، ص ۱۵۰-۱۵۳
- ابن ہشام، ج ۲، ص ۱۴۷ به بعد۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 68-67۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص68۔
- سوره آل عمران (3) آیات 65 تا 67۔
- نیز رجوع کریں: سورہ حج، آیت 78۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، صص 69-68۔
- سوره بقرہ (2) آیت 144۔
- سورہ آل عمران (2) آیت 142، سورہ بقرہ (2) آیت 142۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، صص 69-71۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص72۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص73۔
- واقدی، ج1، ص19 اور بعد کے صفحات۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص75۔
- سورہ آل عمران (3) آیات 12 و 13۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، صص 79-80۔
- طبری، ج2، ص538-555۔
- واقدی، ج1، ص363 اور بعد کے صفحات۔
- واقدی، ج1، ص402-404۔
- ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج3، ص224۔
- زرگری نژاد، تاریخ صدر اسلام: عصر نبوت، ص494۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، صص 86-87۔
- شہیدی، وہی ماخذ، صص 88-87۔
- شہیدی، وہی ماخذ، ص90۔
- ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج3، ص336 اور بعد کے صفحات۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، صص 90-91۔
- ملخص:شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص91۔
- واقدی، ج2، ص633 اور بعد کے صفحات۔
- طبری، ج3، ص9 اور بعد کے صفحات۔
- ابن ہشام، سیرة النبویہ ج2، ص334۔
- حاکم نیشابوری، مستدرک علی الصحیحین ج4، ص356۔
- ابن حجر ہیثمی، صواعق المحرقہ ج9، ص108۔
- احمد بن حنبل، المسند، ج1، ص23۔
- متقی ہندی، کنزالعمال، ج5، ص284۔
- حافظ ابو نعیم،حلیة الاولیاء، ج4، ص356۔
- آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، صص 410-411۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص92۔
- شہیدی، وہی ماخذ، صص 94-95۔
- واقدی، ج3، ص885 اور بعد کے صفحات۔
- مغازی واقدی، ج3، ص996۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص97۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، صص 97-98۔(وفود، وفد کی جمع ہے اور وفد یعنی نمائندوں یا مہمانوں کا ایک گروہ)۔
- ملخص :الارشاد، الشيخ المفيد ، جلد : 1 صفحه : 166 تا 168
- سورہ بقرہ (2) آیت 199۔
- عیاشی، ج ۱، ص۳۳۲
- عیاشی، ج ۱، ص۳۲۹
- شعیری، ص۱۰
- طبرسی، احتجاج، ج ۱، ص۵۶
- عصامی مکی، عبد الملک بن حسین، سمط النجوم العوالی فی أنباء الأوائل و التوالی، ج 2، ص 305، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ اول، 1419ق۔
- شیعہ ارو سنی حدیثی مآخذ۔ اہل سنت کے ہاں اس حدیث کو 110 اسناد سے نقل کیا گیا ہے۔
- ابن سعد، ج2، ص255۔
- بخاری،صحیح بخاری، جلد ۶، باب مرض النّبیؐ و وفاتہ، ص ۱۲، چاپ دارالجیل بیروت۔
- صحیح مسلم، ج ۳، کتاب الوصیہ، باب ۵، ص ۱۲۵۹، چاپ داراحیاء التراث العربی۔
- نہج البلاغہ، ترجمہ سیدجعفر شہیدی، خطبہ 202، ص237۔
- شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص106۔
- سورہ اعراف(6) آیت 33۔
- طبرسی، مجمع البیان، ج4، ص43۔
- ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1۔
- سوره شعراء، آیات 198 و 199، سورہ حم سجدہ (فصلت)، آیت 44۔
- سورہ توبہ (10)، آیت 128: تمہارے پاس آیا ہے تم ہی میں سے ایسا پیغمبر جس پر تمہاری زحمت و تکلیف شاقّ ہے، جسے تمہاری ہر وقت فکر ہے…، آل عمران، آیه 164: اللہ نے احسان کیا ہے ایمان لانے والوں پر جب کہ اس نے ان میں ایک پیغمبر بھیجا ان ہی میں سے…
- سورہ قلم، آیت 4۔
- مقالہ «اسلام» در “دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی”
- الفسوي، المعرفہ والتاريخ، ج3، ص283، ابن کثیر، البدايہ والنہايہ، ج6، صص33۔
- مجلسی، بحارالانوار، ج16، ص260، طباطبائی، سنن النبیؐ، ص37۔
- مجلسی، بحارالانوار، ج16، ص237، ابن کثیر، البدايہ والنہايہ، ج6، ص39۔
- مجلسی، بحار الانوار، ج16، ص287۔
- کاندھلوی، حیاة الصحابہ، ج1، ص46 تا 52۔
- هیثمی، مجمع الزوائد، ج9، ص15۔
- مجلسی، بحار الانوار، ج16، ص219۔
- تهرانی، سیره نبوی «منطق عملی»، ج3، ص352۔
- مسلم، صحیح مسلم، ج2، ص31، بیهقی، سنن الکبری، ج2، ص21۔
- ابن سعد، طبقات الکبری، ج1، ص423، ثعالبی، جواهر الحسان فی تفسیر القرآن، ج4، ص306۔
- طبرسی، مکارم اخلاق، قم: شریف رضی، چاپ ششم، 1392، صص35-34۔
- حلبی، السیرة الحلبیة، ج3، ص352۔
- عنکبوت، آیه 48۔
- پاینده، نهج الفصاحه، ص683، ح2545۔
- وہی ماخذ ح2550۔
- پاینده، وہی ماخذ ح2553۔
- پاینده، وہی ماخذ ح 1287۔
- پاینده، وہی ماخذ ح 293۔
- پاینده، وہی ماخذ ح 291۔
- پاینده، وہی ماخذ ح 4۔(نادان مجتہد سے مراد وہ شخص ہے جو کچھ سوچے سمجھے بغیر کوشش کرتا ہے)۔
- پاینده، وہی ماخذ ح 16۔
- خرمشاهی، پیام پیامبر، ص574-575۔
- پاینده، وہی ماخذ ح 29۔
- ابن شعبہ حرانی، تحفالعقول، ص30 یعنی ہر مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کا خون اور عزت و آبرو حرام ہے۔
- پاینده، وہی ماخذ ح 1477۔
- طباطبائی، سنن النبی، ص288۔
- طباطبائی، وہی ماخذ، ص129۔
- وَرّام بن ابی فراس، تنبیه الخواطر، ج1، ص89۔
- پاینده، نهج الفصاحه ح 2397، خرمشاهی، پیام پیامبر، ص701۔
- پاینده، وہی ماخذ ح 84۔
- خرمشاهی، پیام پیامبر، ص432-433۔
- خرمشاهی، پیام پیامبر، ص773-772۔
- خرمشاهی، پیام پیامبر، ص378-379۔