مرحوم آیت اللہ سید محمد ضیاءآبادی نے اپنے ایک درسِ اخلاق میں "والدین کی طرف سے اولاد کو دینی تربیت دینے” کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے نہایت اہم نکتہ بیان فرمایا، جسے ہم یہاں قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
اگر ہم بزرگانِ دین کی زندگیوں پر نگاہ ڈالیں تو یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے معاملے میں نہایت حساس اور محتاط تھے۔
مثال کے طور پر، مشہور عالمِ دین سید بن طاوؤس نے اپنی تحریروں میں اس حوالے سے ایک نہایت دلچسپ واقعہ نقل کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ایک دن میں نے اپنے کمسن بیٹے سے کہا: "بیٹے! اب تم سنِ بلوغ کو پہنچ چکے ہو۔ اس مقام پر تمہیں خدا کی طرف سے شرفِ تکلیف عطا ہوا ہے۔ اب تم اس لائق ہو گئے ہو کہ خدا سے براہِ راست گفتگو کرو، کیونکہ یہ وہ دن ہے جس دن انسان کو خدا کے ساتھ ذمہ دارانہ تعلق حاصل ہوتا ہے۔ یہی دن تمہاری زندگی کا سب سے باعزت دن ہے۔”
سید ابن طاوؤس نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی: "جس دن تم بالغ ہوئے، اس تاریخ کو ہمیشہ یاد رکھو اور ہر سال اس دن کو جشنِ بلوغ کے طور پر مناؤ۔
یہ جشن صرف خوشی یا تفریح کا دن نہیں، بلکہ اس میں خدا کا شکر ادا کرو، صدقہ دو، عبادت کرو، اور اس عظیم نعمت پر خدا کے حضور سجدۂ شکر بجا لاؤ۔”
انہوں نے مزید فرمایا کہ اگر خدا نے انہیں زیادہ عمر عطا کی تو وہ بھی اپنے بیٹے کے دنِ تکلیف پر اسی طرح صدقہ دیں گے اور عبادت کریں گے۔
بلکہ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ: "جب میرا بیٹا پندرہ برس کا ہو جائے گا تو میں اس کے ہر سال کے بدلے دس دینار طلا صدقہ دوں گا، یعنی کل ایک سو پچاس دینار۔
اور اگر میں اس وقت زندہ نہ رہوں تو میں اپنے وصی کو وصیت کرتا ہوں کہ میری طرف سے وہ یہ عمل انجام دے۔”
سید ابن طاوؤس نے اپنے بیٹے کو یہ بھی ہدایت کی کہ میری وفات کے بعد میرے مزار پر آ کر مجھ سے بات کرنا، تاکہ تمہیں احساس ہو کہ خدا نے تمہارے ساتھ کیسا سلوک کیا اور میرے وصی نے میری وصیت پوری کی یا نہیں۔
یہ طرزِ تربیت بتاتا ہے کہ دین کے یہ عظیم عالم اپنے بچے سے بچپن ہی میں روحانی سطح پر بات کرتے تھے اور اسے خدا سے تعلق قائم کرنے کی اہمیت سکھاتے تھے۔
اب اگر ہم اپنے آج کے معاشرے سے موازنہ کریں تو دکھ ہوتا ہے کہ ہم عموماً سالگرہ تو بڑے اہتمام سے مناتے ہیں، لیکن جشنِ بلوغ یا دینی ذمہ داری کے آغاز کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔
والدین بچوں کی مادی خوشیوں پر توجہ دیتے ہیں، لیکن ان کے روحانی و دینی ارتقاء کی فکر بہت کم کی جاتی ہے۔
اسی لیے بزرگانِ دین کی سیرت کا مطالعہ ہمارے لیے نہایت سبقآموز ہے۔
جس طرح ہم فقہی احکام سیکھنے کے لیے رسالۂ عملیہ پڑھتے ہیں، اسی طرح ہمیں اپنے علماء اور بزرگان کے طرزِ عمل سے بھی سبق لینا چاہیے، جنہوں نے دین کے احترام، معرفت اور دینی تربیت کو اپنی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ بنایا۔
یہی فرق ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم اپنی نسلوں کو خدا سے جوڑنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے جشنِ بلوغ کو ایک روحانی عید بنائیں، ایک ایسا دن جو ان کے اور خدا کے درمیان ذمہ داری، شکر اور قربت کا آغاز بن جائے۔