جس طرح انسان کا بدن مختلف اعضاء سے مل کر بناہے اوران اعضاء کے درمیان فطری رابطہ موجود ہے اسی طرح معاشرہ بھی چھوٹے بڑے خاندانوں سے مل کر بنتاہے ۔جب کسی خاندان کے افراد میں اتحاد اور یگانگت ہوتی ہے تو اس سے ایک مضبوط اور سالم معاشرہ بنتا ہے ۔اس کے بر خلاف اگر ان افرادمیں اختلاف ہو تو معاشرے کا پہیہ پورا نہیں گھومتا اورتشتت و پراگندگی کا شکار ہوجاتا ہے ۔ انسان فطری طور پر زندہ رہنا چاہتا ہے اور اپنی اس خواہش کو پوری کرنے کے لئے ہر قسم کی کوشش کرتا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے سب سے آسان طریقہ ایجاد نسل ہے کیونکہ جب تک نسل انسانی رہے گی ، زندگی رہے گی اور ایجاد نسل کے لۓ ایک خانوادے کی تشکیل کی ضرورت ہے۔زندگی کی گاڑی چلانے کیلئے اقتصاد کی ضرورت ہوتی ہےایجاد خانوادے میں بھی مختلف نظریات کارفرماہیں کچھ لوگ تاجرانہ ذہنیت رکھتے ہیں انکا خیال ہے کہ اقتصادیات کوحل کرنے کے لئے خانوادے کی تشکیل کی جاتی ہے اور شادی بیاہ بھی دو خاندانوں کے درمیان ایک قسم کا تجارتی مسئلہ ہے۔مگر یہ طرز فکر اجتماع کی واقعی غرض ــــــــــــــ یعنی شادی بیاہ کا مقصد بقائے نسل ہے ــــــــــــــ سے دور ہے ۔ مولرلیور لکھتا ہے کہ شادی بیاہ کے تین اسباب ہوتے ہيں : (1)اقتصادی ضرورت (2) اولاد کی خواہش (3) عشق ۔ یہ اسباب اگر چہ ہر معاشرے میں موجود ہيں مگر مختلف زمانوں میں ان کے اندرمختلف تغیر ہوا ہے ۔ ابتدائی معاشروں میں اقتصادی علت کی اہمیت زیادہ تھی اور آج کے دور میں عشق کی اہمیت زیادہ ہے ۔ (جامعہ شناسی ساموئیل کینگ) اسلام نے تشکیل خانوادہ ــــــــــــــ جو عفت عمومی کے حفاظت کابہترین ذریعہ ہے ــــــــــــــ کی طرف تشویق دلانے کے ساتھ ساتھ فطری مانگ کابھی مثبت جواب دیا ہے اورشادی بیاہ کوبقائے نوع انسانی اوراولادصالح کی پیدائش کاواحد ذریعہ قراردیا ہے چنانچہ قرآن کہتا ہے خدانے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لئے بیویاں بنائيں اور ان سے تمہارے لئے اولاد دراولاد کاسلسلہ قرار دیا۔اور پاک چیزوں کو تمہاری روزی قراردی ۔(نحل 72) اسلام نےجوانوں کوجنسی بے راہ روی سے روکنے کیلئے خاندان کے ذمہ داروں کوابھارا ہے کہ جوانوں کی شادی جلد ازجلد کریں کیونکہ جوجوان شخصی طور پراپنی شادی کرنے پرقادرنہیں ہے کہیں ایسانہ ہو کہ شہوانی جذبے سے مجبور ہوکرخودکو تباہی کے غارمیں گرادے،اس لئے بچوں کی شادی بیاہ کی ذمہ داری والدین کے سر ڈال دی اوروالدین کواس انسانی فریضہ کی ادائیگی کیطرف ضرورت سے زیادہ تشویق دلائی ۔کیونکہ جلد از جلد شادی کردینا بچوں کے اخلاق وایمان کومحفوظ رکھےگا۔ اسلام کاعقیدہ ہے کہ جنسی افراط و تفریط سے بچانے اور خوش بختی کی زندگی بسر کرنے کے لئے شادی بیاہ کرنا اور خاندان کی تشکیل کرنا ضروری ہے ۔ رسول اسلام (ص) نے ایک دن منبر سے اعلان فرمایامسلمانو!تمہاری لڑکیاں درختوں پر پکے ہوئے میوے کیطرح ہیں اگرانکو بروقت توڑانہ گیا (یعنی لڑکیوں کی شادی نہ کی گئی) توآفتاب کی حرارت اورفضائی عوامل اسے تباہ وبرباد کردینگے اسی طرح لڑکیوں کی فطری خواہش کو پورا نہ کیا گیا اور ان کی بروقت شادی نہ کی گئی تو ان کے فاسدہونے کا خطرہ ہے کیونکہ وہ بھی انسان ہيں اورانکی ضرورتوں کوپورا کر نا ہی چاہئے ۔(وسائل باب 22 ) امام محمد باقر (ع) کے صحابی “علی بن اسباط “نے حضرت کوایک خط لکھا اس میں تحریر کیا : مناسب ومعقول لڑکے ہماری لڑکیوں کے لئےنہیں ملتے اب بتائے ہم کیا کر یں ؟ حضرت نے جواب دیا ہر لحاظ سے مناسب جوان کاانتظارمت کرو کیونکہ رسول اکرم(ص)نے فرمایا: اگرایسے جوان تمہاری لڑکیوں کی خواستگاری کریں جو مذہبی واخلاقی لحاظ سے تم کوپسندہوں تواپنی لڑکیوں کی شادی کردواسکے علاوہ صورت میں اپنے لڑکے اورلڑکیوں کی بے راہ روی سے مطمئن نہ ہو ۔(وسائل باب 27) پس اسلام نہ صرف یہ کہ شادی بیاہ میں کوئی اڑچن نہيں پیدا کرتا ،بلکہ اس فطری قوت سے شخصی زندگی اوراجتماع کوفائدہ حاصل کرنے پرآمادہ بھی کرتاہے ۔شادی بیاہ سے جسمانی سکون کے علاوہ روحانی، فکری ، اخلاقی سکون بھی ملتاہے۔ کیونکہ جوشخص وحشت واضطراب کے عالم میں ہووہ واقعی سعادت کودرک نہیں کرسکتا ۔اسلام کی نظرمیں یہ انسانی پیوند ــــــــــــــ شادی ــــــــــــــ دلوں کامقدس عہدو پیمان ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ طرفین سکون و آرام کی زندگی بسر کرسکیں۔قرآن میں ارشاد ہے خدا کے وجود کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی نوع سے تمہارے لۓ بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام حاصل کرو اور تمہارے درمیان مہر و محبت قرار دی اور جو لوگ اس محبت و دوستی میں غورو فکر کریں گے ان کے لئے بہت سی نشانیاں اس میں موجود ہيں ۔(سورہ روم 21) افراد خاندان میں استحکام روابط کے لئے اسلام نے کچھ معاشرتی اصول و قوانین بھی بتائے ۔اسلام نے شادی کو” پیمان محکم ” کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ۔( نساء 25) اور تمام مادی وسائل کو اپنے مقصد سے بالکل الگ رکھاہے ۔ خاندان کے افراد میں اتحادوہم آہنگی برقراررکھنے کے لئے ہرایک کے فرائض عادلانہ طریقے سے بتادئے تا کہ ہر شخص اپنے فنی استعداد کے لحاظ سے اپنے امور زندگی کو پورا کرسکے ۔چنانچہ ارشاد ہے عورت ومردایک دوسرے کے ساتھ برابرحقوق رکھتے ہيں۔(بقرہ 228) تقسیم کار کے سلسلے میں بھی عورت و مرد کی فطرت کا بہت ہی دقیق نظر سے مطالہ کیا ہے ۔مرد پر اقتصادیات کی فراہمی اوران سے متعلق امور لازم کئے گئے اور عورتوں سے بچوں کی تربیت و پرورش اورامور خانہ داری کا انتظام متعلق کیاگيا ۔ اسلام نے عورت کے ذمے اسکے فطری فرائض ہی رکھےاوراس سلسلے میں معمولی سی بھی فروگذاشت نہیں رکھی اوراس بات کالحاظ رکھاہے کہ اسکے فطری رجحانات ضا ئع و برباد نہ ہوجائيں ۔البتہ کسی شخصی یا اجتماعی امر کی بناپر عورت کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ گھر سے باہروالے کام بھی انجام دے سکے لیکن معاشرے میں اس بات کی اجازت ہرگز نہیں ہےدی کہ وہ دوسرے مردوں سے غلط روابط قائم کرسکے ۔ ہرانتظامیہ کاایک سربراہ ہوناضروری ہے گھراورگھرداری بھی ایک قسم کا انتظامیہ ہے جس کا ایک سربراہ ہونا ضروری ہے کیونکہ بغیرسر براہ انتظامیہ ہرج و مرج میں مبتلا ہوسکتا ہے ۔اسی لئے گھریلو انتظامیہ کی سربراہی مرد یا عورت کے ہاتھ میں ہونی چاہئے ۔ آ ئیے ذرا دیکھیں یہ کام کس کے سپرد ہوناچاہئے ۔اس انتظامیہ کی ذمہ داری بچوں کی تربیت نگرانی۔خانوادے کا سنگین بار اٹھانے کے لۓ عورت سے زیادہ مرد لائق و سزاوار ہے صرف مرد ہی ہے جواتنی بڑی ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر اٹھاسکتا ہے ۔ اپنی جگہ پر یہ بات طے شدہ ہے کہ عورت اپے جذبات کی تابع ہوتی ہے اور اس کی خلقت ہی کچھ اسطرح کی گئی ہے کہ فطری طورپروہ مردہ سے زیادہ زود حس ہے، بر خلاف مرد کے کہ وہ فطری طور پرعقل کا تابع ہوتا ہے۔اس بناپر عاطفہ کے مقابلے میں فکرکی زیادہ اہمیت ہوئی اسی لئے اسلام نے خانوادے کی ریاست مرد کے ہاتھوں میں رکھی۔(فرانس کے جدید قانون مادہ صفحہ 213میں تصریح کی گئی ہے کہ خانوادے کی سرپرستی مرد سے متعلق ہے ۔ ) لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت سے کسی قسم کا مشورہ نہ لیا جائے اورمرد حسب خواہش ایک مطلق العنان ڈکٹیٹر بن جائے ۔ اسلا م نے مرد کو سرپرست بنانے کے ساتھ اس کو عورتوں پرہر قسم کی زیادتی و ظلم سے روک دیا ہے ۔ قرآن اعلان کرتا ہے ظلم و تعدی سے الگ ہوکر شائستہ اور معقول طریقے سے عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کرو ۔ (نساء 19) گھریلو امور کی ذمہ داری مرد کے سپرد ہونے باوجود گھرکے داخلی معاملات میں عورت مستقل ہے اوروسائل زندگی کی ذمہ داری اس پر ہے۔رسول اکرم(ص) نے فرمایا : خانوادے کا نگہبان مرد ہے مگرعورت بھی گھر، شوہر ، بچوں کے بارے میں مسئول ہے ۔(مجموعہ ورام صفحہ 6) ہمارے یہاں آج کل جو شادی بیاہ کی قدروقیمت گھٹ گئی ہے کہ معمولی معمولی باتوں پرعلیحدگی ہوجاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل شادی بیاہ میں واقعیات زندگی کا خیال نہیں رکھا جاتا اس قسم کی شادیاں عموما رومانی اوربچکانہ و کچے تصورات کی بناء پرکی جاتی ہیں ۔ بہت سے لوگ ہم آہنگی اتحاد نظریات کے بغیر محض دولت و شہرت اورظاہری نمائش پرشادی کرلیتے ہیں اس کے نتیجے میں یہ شادیاں ناکامیاب ہوتی ہیں ان کا مستقبل تاریک ہوتا ہے کیونکہ عورت و مرد کے اختلاف نظریات روزبروزوسیع سے وسیع ترہوتے جاتے ہیں اورآخری نتیجہ علیحدگی کی صورت میں ظاہرہوتاہے ۔جب تک لوگ اصولی اور صاحب فکرونظر نہ ہوں گے زندگی کے واقعی مسائل کاصحیح مطالعہ نہيں کریں گے اس قسم کےحالات روز بروز بڑھتےجائيں گےاسیوجہ سےاسلام نےایسے طرزفکرــــــــــــــجوبد بختی اور کشمکش کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیتا ــــــــــــــ کو رد کردیاہے ۔ اسلام کی نظر میں تشکیل خانوادے کے لئے دولت ، شہرت ،مادی ، امور کی کوئی قیمت نہيں ہے بلکہ شادی کا دارومدار ایمان و فضیلت عفت و پاک دامنی پر ہے مرد وعورت کے تقوی و پرہیز گاری کیطرف خصوصی دیتاہے پیغمبر اسلام (ص) فرماتےہيں : جو شخص کسی عورت سے خوبصورتی کی بناء پر شادی کرے گا اپنی محبوب چیز اس میں نہيں پائے گا اور جو کسی عورت سے محض دولت کی خاطر شادی کرے گا خدا اس کو اسی کے حوالے کردے گا ۔ اس لئے تم لوگ باایمان و پاک دامن عورت سے شادی کرو ۔(وسائل جلد3 صفحہ 6) اسلام نے تشکیل معاشرے کی طرف بہت تشویق وترغیب دلائی ہے ۔حدیہ ہے کہ شادی سے زیادہ پسندیدہ کسی چیز کو نہيں قراردیا ۔(من لا یحضرہ الفقیہ 409) جولوگ نامعقول اسباب کی بناء پر شادی نہيں کرتے ان کی مذمت کی ہے اور ہر اس بہانے کوجوجنسی روکو غلط راستے پر ڈال دے سختی سے روکتا ہے فرماتے ہيں : نکاح میری سنت ہے جو میری سنت سے اعراض کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ (سفینۃ البحارجلد1صفحہ561)اسی طرح ایسے لوگوں سے اسلام شادی کو روکتا ہے جن کے اندر نفسانی کمالات اورروحانی فضائل نہ پائے جائيں اورجو خاندان نجیب نہ ہو، یا اخلاقی و مذبہی تربیت سے بےبہرہ ہواس سے بھی شادی کو روکتا ہے گھورے کی سرسبزی سے بچو! لوگوں نے پوچھا اس سے کیامرادہے ؟فرمایاایسی خوبصورت عورت جس کا خاندانی ماحول خراب ہو ۔(وسائل کتاب نکاح باب 7) ظاہر ہے کہ جو بیویاں اخلاقی ومذہبی اصول وقوانین کی پابندی نہيں ہیں وہ خاندان کوخوش بخت وسعادت مند نہيں بناسکتیں،اورایسی شادیوں کانتیجہ بدکار، شہوت پرست اولاد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔اسی لئے اسلام دونوں کی نیک بختی کی طرف عقلی واخلاقی لحاظ سے خاص نظررکھتا ہے اوربری وفاسد نسلوں سے شادی کو منع کرتا ہے ۔ اگر نوجوان بیوی کومنتخب کرتے وقت ظاہری ٹھاٹھ باٹھ کونہ دیکھتے ہوئے اسلامی اصول کی پابندی کریں اورخواہشات نفس کے بجائے عقل سے کام لیں تو بدبختی سےبچ سکتے ہيں ۔ ہمارے آج کل کے نوجوان بیوی کے انتخاب کے لئے صحیح راستہ یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ دنوں تک عورت کےساتھ باقاعدہ نشست برخاست رکھی جائے ۔ساتھ رہا جائے تاکہ اس کے اخلاق وعادات سے جانکاری کے بعداقدام کیا جائے تاکہ پوری زندگی خوشگوار طور سے گزرے حالانکہ یہ طریقہ اپنے مفاسد ونقصانات کےساتھ بیوی کے صفات وخصائص پرپوری طرح سبب اطلاع نہيں ہے کیونکہ اس کے لئے بہت طولانی معاشرت کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ ” خبث نفس نگردد بسالہا معلوم” تھوڑے دنوں کی آمدورفت نشست و برخاست سے کافی معلومات نہیں حاصل ہوسکتے ۔ بلکہ جوں جوں زندگی میں واقعات و حادثات رونما ہوتے رہیں گے اسی طرح انسان کی شخصیت آشکاراہوگی درحقیقت کسی کے صبروشکیبائی، متانت، بردباری،قناعت، درگزر، فداکاری وغیرہ کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی جاں گداز واقعہ پیش آجائے ورنہ خوشی و آسائش و تفریح کے وقت ان اخلاقی صفات کا اندازہ نہيں لگایا جاسکتا ۔ کیا تفریح گاہ یا سینمامیں ملاقات سے طرفین کی حقیقت معلوم ہوسکتی ہے ؟ جبکہ ابتدامیں دونوں طرف کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی کمیوں کا اظہار نہ ہونے پائے ، بلکہ تصنع کرکے اپنے کونیک خصلت ، پسندیدہ صفت ظاہر کرنےکی کوشش کرتے ہيں ایسی صورت میں صحیح حالات کاعلم کیونکر ہوسکتا ہے ؟ بھلا سوچئے تو جو نوجوان عمر کے شدید جذباتی دور میں ہیں وہ محض چند دنوں ساتھ رہ کر کس طرح سے پتہ لگاسکتے ہیں کہ روحانی اوراخلاقی لحاظ سے دونوں میں کوئی اختلاف نہيں ہے ؟اس شہوانی دوراورخواب دیکھنے کی عمرنوجوان جنسیات کے علاوہ کچھ سوچتا ہی نہيں۔! کیاوہ نوجوان مختصر سی مدت ساتھ رہنے کے بعد اپنی بیوی کاانتخاب کریں گےاور اس سے شادی کریں گے ، وہ آخری عمرتک لڑائی جھگڑے کشمکش سے بچے رہیں گے؟ ان کےاوران کی بیوی میں کسی قسم کااختلاف نہیں ہوگا ؟ اور یہ دونوں قابل غبطہ زندگی بسر کرسکیں گے ؟ ہرگز نہيں ۔ ! تجربات اس کے برخلاف موجود ہيں ! کیونکہ اس قسم کی شادی میں شروع شروع تومیاں بیوی بہت خوش خوش رہتے ہیں لیکن رفتہ فتہ ایک دوسرے کی کمی کی گرفت کرنےلگتے ہیں اور پھرنتیجہ طلاق کی صورت میں ظاہرہوتاہے ــــــــــــــ ہر جوان کویہ بات یادرکھنی چاہئے کہ دو آدمیوں میں روحی تطابق ہرجہت سے اس طرح مشکل کیابلکہ محال ہے جس طرح کہ ظاہری قیافہ میں اتحاد اورشکل و صورت میں مطابقت مشکل ہے۔اس کے علاوہ عورتوں کااندازہ فکر اوران کے احساسات کچھ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ خواہ مخواہ ان کومرد سے الگ صورت میں مشخص کرتے ہیں ۔ اسلام شادی بیاہ میں جس اہمیت کاقائل ہےاسی کے پیش نظراس نے ہرفردکواجازت دی ہے کہ نکاح سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کودیکھ لےاوراس کےاخلاقیات ودیگر خصوصیات کا علم جانکارافراد کے ذریعے بہت آسانی سے حاصل کرسکتا ہے ۔ خاندان کی نیک بختی سب سےپہلے مردوعورت کے روابط ویگانگت پرموقوف ہوا کرتی ہےاس گھر کے دواصلی افرادمیں روحانی روابط جتنے زیادہ استوارہوں گے اسی قدراس گھر کی خوش قسمتی بھی ہوگی۔جب مردعورت میں ایک دوسرے پرفدا کاری کا جذبہ جتنا زیادہ موجودہوگا تو ماحول اتنا ہی اچھاہوگااور یہی جذبہ فدا کاری خاندان کوتباہ وبرباد ہونے سے بچالیتی ہے ۔ معاشرتی حقوق و قوانین کے علاوہ بھی اسلام نے گھریلو زندگی میں بھی ایسے مبنی برانصاف قانون بنائے ہیں جس سے ہر ایک کے فریضے الگ الگ ہوجاتے ہيں۔