1⬅(عزاداریِ ائمہ علیہم السلام و شیعیان از آغازِ محرم کیوں؟)

کسی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا:”مولا! فدایتان جاؤں، جب کوئی فوت ہوتا ہے یا شہید ہوتا ہے تو چند دن سوگ منایا جاتا ہے،لیکن میں دیکھتا ہوں کہ آپ اور آپ کے شیعہ ماہِ محرم کے آغاز سے ہی غم و ماتم شروع کر دیتے ہیں، ایسا کیوں؟ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:”یہ کیسی بات ہے؟ جب ماہِ محرم آتا ہے، تو فرشتے امام حسین علیہ السلام کی قمیص لٹکاتے ہیں وہی قمیص جو تلواروں کے زخموں سے چاک چاک اور خون میں تر ہےلزا ہم اور ہمارے شیعہ اس قمیص کو بصارت سے نہیں بلکہ بصیرت سے دیکھتے ہیں،لہٰذا ہمارے آنسو بہنے لگتے ہیں۔” ثمرۃ الأعواد، ج1, ص 36-37

2⬅(قاتلانِ امام حسین علیہ السلام کا مذہب (مخالفین کی روایت کے مطابق)

1 یحییٰ بن ہانی روایت کرتا ہے:نافع بن ہلال جملی (رضوان اللہ علیہ) کربلا کے میدان میں دشمنوں کو قتل کر رہے تھے اور رجز پڑھتے جاتے تھے، اور فرماتے تھے:”میں ہلال جملی کا بیٹا ہوں، میرا دین، دینِ علیؑ ہے! اتنے میں ایک شخص سامنے آیا جس کا نام مزاحم بن حریث تھا، اس نے بلند آواز میں کہا:میں دینِ عثمان پر ہوں!نافع نے جواب دیا: "تو دینِ شیطان پر ہے!پھر نافع بن ہلال اُس پر حملہ آور ہوئے اور اسے قتل کر دیا۔تاریخ الطبری، جلد 5، صفحہ 435

2 امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے میدان میں ابن سعد (لعنت اللہ علیہ) کے لشکروں کو خطاب کرتے ہوئے اُن کے مذہب، اخلاق اور حقیقتِ ایمان کو یوں بے نقاب فرمایا:«ويحكم يا شيعة آل أبي سفيان! إن لم يكن لكم دين، وكنتم لا تخافون المعاد، فكونوا أحرارا في دنياكم هذه.(مقتل الحسین للخوارزمی، ج2، ص38)”افسوس ہے تم پر اے آلِ ابوسفیان کے شیعو! اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے، اور تم قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے، تو کم از کم اس دنیا میں تو آزاد مرد بنو!”

3⬅(نفسِ عزادار تسبیح ہے)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَیٰ(سورہ اعلیٰ: آیت 1)

غمِ اہل بیت علیہم السلام میں ڈوبا ہوا دل، درحقیقت ایک جاری تسبیح ہے

عَنْ الإمام أَبِی عَبْدِ اللَّهِ صلوات الله علیه قَالَ: نَفَسُ الْمَهْمُومِ لِظُلْمِنَا تَسْبِیحٌ، وَ هَمُّهُ لَنَا عِبَادَةٌ، وَ کِتْمَانُ سِرِّنَا جِهَادٌ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ الإمام أَبُو عَبْدِ اللَّهِ صلوات الله علیه: یَجِبُ أَنْ یُکْتَبَ هَذَا الْحَدِیثُ بِمَاءِ الذَّهَبِ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "جو شخص ہمارے مظلوم ہونے کے سبب غمگین ہو، اس کی ہر سانس تسبیح ہے؛اور جو ہمارے لیے کوشش کرتا ہے، وہ عبادت کر رہا ہے؛ اور جو ہمارے راز کو چھپاتا ہے، وہ راہِ خدا میں جہاد کر رہا ہےپھر امام علیہ السلام نے تاکید کے ساتھ فرمایا:واجب ہے کہ اس حدیث کو سونے کے پانی سے لکھا جائے

ماخذ: الأمالي للشیخ المفید، ص 338

4⬅(مخالفین، عزاداریِ حسینی سے کیوں ڈرتے ہیں؟)

عزاداری ایک ایسا نعرہ ہے جس کا تیر براہِ راست معاویہ پر لگتا ہے!اسی لیے سید الشہداءؑ، واقعۂ کربلا اور عزاداری سے دشمنی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جیسے ہی امام حسینؑ اور ان کی شہادت کا ذکر ہوتا ہے، بالآخر معاویہ پر تنقید لازم آتی ہے۔پس وہ عزاداری کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ معاویہ، یزید اور ان کے صحابہ جو یزید کے ساتھ بیعت پر قائم تھے — پر کوئی حرف نہ آئے! ناگفتہ حقائقِ عاشورا، ص 21 — آیت اللہ سید علی حسینی میلانی

5⬅(قیامت کے دن کی مسکراہٹ | امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر گریہ کی فضیلت:)

رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ سے روایت ہے کہ آپ نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا:یا فاطِمَة! كُلُّ عَيْنٍ بَاكِيَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا عَيْنًا بَكَتْ عَلَى مُصَابِ الْحُسَيْنِ، فَإِنَّهَا ضَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ بِنَعِيمِ الْجَنَّةِ.:اے فاطمہ! قیامت کے دن ہر آنکھ اشکبار ہوگی، سوائے اُس آنکھ کے جو دنیا میں حسین علیہ السلام کے مصائب پر گریہ‌کناں رہی؛ایسی آنکھ خوشحال اور جنت کی نعمتوں سے سرشار مسکرا رہی ہوگی ! بحار الأنوار، جلد 44، صفحہ 293 ثمرات الأعواد، جلد 1، ص 31

6⬅(خداوند متعال، عزائے سید الشہداء علیہ السلام کا پہلا بانی:)

خداوند عالم وہ پہلی ہستی ہے جس نے امام حسین علیہ السلام کے لیے عزاداری کا سلسلہ شروع کیا۔ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی تاریخ خود پروردگار عالم سے شروع ہوتی ہے۔ خداوند متعال نے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا بساط آسمانوں میں، زمین کے کناروں پر اور تمام عوالمِ وجود میں بچھا دیا۔ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا دائرہ صرف ان حسینیوں اور شہروں تک محدود نہیں ہے یہاں سے ایک نہایت اہم اور عظیم نکتہ سامنے آتا ہے، اور وہ یہ ہے:جب ہم منطقی اور عقلی انداز سے دیکھتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ چونکہ سید الشہداء، حسین بن علی علیہما السلام نے اپنی تمام ہستی کو اسمِ خدا کے احیاء کے لیے فنا کر دیا، اس لیے خداوند متعال نے بھی تمام عالَم کو اُن کے اثر کو زندہ رکھنے کے لیے مسخر کر دیا۔یہاں سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ قیامِ امام حسین علیہ السلام کا اثر کیا ہے اور وہ قیام کائنات میں کس درجے کا اثر رکھتا ہے: ماخذ: مصباح الهدی، جلد دوم — حضرت آیت اللہ وحید خراسانی

7⬅(عاشورا کی مصیبت پر گریہ)

امام حسین علیہ السلام پر گریہ صرف آنکھوں کے آنسو نہیں، بلکہ دلوں کی تسکین، احساسات کی بیداری اور روح کی نرمی کا ذریعہ ہے۔ یہ ایک باطنی کیفیت ہے جو بعض اوقات بغیر کسی عقلی یا فطری دلیل کے دل کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ یہ کیفیت عقل و منطق سے نہیں، بلکہ بیدار ضمیر اور زندہ وجدان سے سمجھی جاتی ہے۔منبرِ حسینی دلوں میں گہرائی تک اثر ڈالنے، نفوس کو پاک کرنے اور ایمان کو دنیا کی آلودگیوں سے بچانے کا طاقتور ذریعہ ہے۔ایسا ایمان جو دل کو صاف، قلب کو زلال اور انسان کے اندر تبدیلی نہ لائے، وہ ایمان نہیں بلکہ صرف ایک خیال ہے۔ حقیقی ایمان وہی ہے جو فداکاری، ایثار، اور جہاد جیسے عظیم مفاہیم کی بنیاد بنے۔ہمیں چاہیے کہ اگر ہم میں احساسِ ذمہ داری ہے، تو امام حسین علیہ السلام کی یاد میں گریہ کا ماحول فراہم کریں؛ کیونکہ یہی گریہ دلوں کو زندہ کرتا ہے، عقل کو خواہشات کی غلامی سے آزاد کرتا ہے اور انسان کو غفلت و گمراہی سے نکالتا ہے ائمہ اطہار علیہم السلام نے بھی عزاداری کے ذریعہ یہی راستہ دکھایا۔ امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپؑ نے دعبل خزاعی کے ایک غمگین مرثیے میں شرکت فرمائی اور خود دو اشعار کا اضافہ فرما کر اس فضا کو اور زیادہ پراثر بنایا

⬅(امام زین العابدین علیہ السلام کا عزادارانِ سیدالشہداء کے لیے کھانا پکانا)

جب امام حسین علیہ السلام شہید کیے گئے، تو بنی ہاشم کی خواتین نے سیاہ لباس پہن لیا، اور عزاداری کے دوران سردی و گرمی کی پرواہ نہ کی۔ اس دوران حضرت علی بن الحسین (علیہ السلام) ان خواتین کے لیے خود کھانا تیار کرتے تھے تاکہ وہ امام حسین علیہ السلام کا سوگ منا سکیں۔ وسائل الشیعہ، جلد 3، ص237 چاپ: مؤسسہ آل البیت لإحیاء التراث اس روایت سے تین اہم نکات معلوم ہوتے ہیں:1️⃣سیدالشہداء علیہ السلام کی عزاداری میں سیاہ لباس پہننا مستحب ہے2️⃣ مجالسِ عزا میں عزاداروں کو کھانا کھلانا باعثِ ثواب عمل ہے3️⃣ جو لوگ مجالسِ حسین میں کھانے کی خدمت انجام دیتے ہیں، وہ بہت عظیم مقام کے حامل ہیں

9⬅(عاشورا: عید یا عزا؟)

شبہ:کیا یہ بات درست ہے کہ چونکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے دین زندہ ہوا، اس لیے عاشورا عید ہے، عزا نہیں؟

اگر امامؑ "فتح” و "کامیابی” سے ہمکنار ہوئے، تو ہم جشن کیوں نہیں مناتے؟ گریہ و ماتم کیوں کرتے ہیں؟ (1)بعض صوفی مشرب افراد کا کہنا ہے: جب سالک سلوک کی تمام منازل طے کر کے "فنا فی الله” کے مقام تک پہنچتا ہے، تو پھر اس کے لیے کوئی غم باقی نہیں رہتا۔ (2) جواب:شہادتِ امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل بیت و باوفا اصحاب کی قربانی ایسی سکہ ہے جس کے دو رُخ ہیں:1️⃣ ان کے لیے یہ سراسر قرب، وصال اور خوشی ہے، کیونکہ انہوں نے مقامِ شہادت پا کر وہ مقام حاصل کیا جو بغیر شہادت ممکن نہ تھا2️⃣ لیکن ہمارے لیے یہ فراق، درد، مصیبت اور غم کا دن ہے، کیونکہ ہم نے ان جیسے انوارِ الٰہی کو کھو دیا۔ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت ہمیں یہی بتاتی ہے کہ یہ دن عزا و ماتم کا دن ہے۔ وہ خود بھی اس دن غمگین ہوتے اور گریہ کرتے تھے۔ بلکہ اسے اسلام اور انسانیت کی سب سے بڑی مصیبتوں میں شمار کرتے تھے۔یہ تو دشمنانِ اہل بیت تھے جو اس دن کو عید بناتے تھے، تبرک سمجھتے تھے۔لہٰذا، اس شبہے کا روایات اور سیرتِ معصومین علیہم السلام سے کوئی تعلق نہیں۔گریہ ہمارا شعور ہے، محبت کا اظہار ہے، اور ظلم کے خلاف بیداری ہے حوالہ:(1) مثنوی مولوی، دفتر ششم، بیت 960 (2) روح مجرد، ص 85(3) عزاداری رمزِ محبت، جلد 2, ص 82

(10)⬅امام حسین علیہ السلام پر گریہ)

1 حضرت اُمّ البنین سلام اللہ علیہا کی بینائی، امام حسین علیہ السلام کے غم میں رونے سے چلی گئی:امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:حضرت امام حسین علیہ السلام پر مسلسل 5 سال تک گریہ (رونا) کیا گیا۔حضرت اُمّ البنین سلام اللہ علیہا، جن کا اصل نام اُمّ جعفر کلابیہ تھا، امام حسین علیہ السلام کے غم میں ہمیشہ روتی اور فریاد کرتی تھیں۔اتنا زیادہ روتی رہیں کہ ان کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی (یعنی وہ نابینا ہو گئیں)مروان (جو مدینہ کا حاکم تھا اور جس پر خدا کی لعنت ہو)، رات کے وقت چھپ کر آتا تھا اور حضرت اُمّ البنین سلام اللہ علیہا کی گریہ و زاری سن کر متاثر ہوتا تھا۔حوالہ: الصحيح من مقتل سيد الشهداء و أصحابه علیهم السلام، مصنف: ری شہری، ص1345

2 سید الشہداء علیہ السلام پر گریہ کرنے کے اسباب:

دشمنانِ اہل بیت علیہم السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق کو پامال کیا اور خدا و رسول کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کی محبت اور اطاعت کے متعلق کی گئی سفارش کو نظر انداز کر دیا، یہاں تک کہ انہیں پانی تک دینے سے دریغ کیا۔ اور حجت خدا کو، جن کے مقامات الٰہی انسانی فکر سے ماوراء ہیں، مظلومانہ اور تنہائی میں، ان کے خاندان کی آنکھوں کے سامنے شہید کر دیا اور ان کے جسم کو بیابان میں چھوڑ دیا۔

عن الإمام الصادق:«زِيَارَةُ جَدِّيَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ فَإِنَّهُ غَرِيبٌ بِأَرْضِ غُرْبَةٍ يَبْكِيهِ مَنْ زَارَهُ وَ يَحْزَنُ لَهُ مَنْ لَمْ يَزُرْهُ وَ يَحْتَرِقُ لَهُ مَنْ لَمْ يَشْهَدْهُ وَ يَرْحَمُهُ مَنْ نَظَرَ إِلَى قَبْرِ ابْنِهِ عِنْدَ رِجْلِهِ فِي أَرْضِ فَلَاةٍ لَا حَمِيمَ قُرْبَهُ وَ لَا قَرِيبَ ثُمَّ مَنَعَ الْحَقَّ وَ تَوَازَرَ عَلَيْهِ أَهْلُ الرِّدَّةِ حَتَّى قَتَلُوهُ وَ ضَيَّعُوهُ وَ عَرَضُوهُ لِلسِّبَاعِ وَ مَنَعُوهُ شُرْبَ مَاءِ الْفُرَاتِ الَّذِي يَشْرَبُهُ الْكِلَابُ وَ ضَيَّعُوا حَقَّ رَسُولِ الله وَ وَصِيَّتَهُ بِهِ وَ بِأَهْلِ بَيْتِهِ فَأَمْسَى مَجْفُوّاً فِي حُفْرَتِهِ صَرِيعاً بَيْنَ قَرَابَتِهِ وَ شِيعَتِهِ بَيْنَ أَطْبَاقِ التُّرَابِ»

(یعنی: میرے جدّ حسین بن علی علیھم السلام کی زیارت کرو، کیونکہ وہ ایک اجنبی کی طرح سرزمین غربت میں دفن ہیں، جو ان کی زیارت کرتا ہے وہ ان پر گریہ کرتا ہے، اور جو زیارت نہیں کرتا وہ بھی ان کے غم میں افسردہ ہوتا ہے، اور جو ان کے واقعے کو نہیں پا سکا وہ بھی ان پر دل سے جلے بغیر نہیں رہ سکتا، اور جو ان کے قدموں کے پاس ان کے بیٹے کی قبر کو دیکھتا ہے اس پر رحم کرتا ہے۔ وہ ایسی بیابان زمین پر ہیں جہاں نہ کوئی دوست ہے نہ کوئی قریب، پھر اہلِ ارتداد نے ان کا حق چھین لیا اور ان کے خلاف ایک ہو گئے یہاں تک کہ انہیں قتل کر دیا، ان کو ضائع کیا، درندوں کے سامنے ڈال دیا، اور انہیں فرات کے اس پانی سے بھی محروم رکھا جسے کتے تک پیتے ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق اور ان کی وصیت جو ان کے اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں تھی ضائع کر دی گئی، پس وہ اپنے رشتہ داروں اور شیعوں کے درمیان مٹی میں اکیلے پڑے ہوئے مظلوم ہو گئے۔)

4. امام زین العابدین علیہ السلام نے بیس سال تک سیدالشہداء علیہ السلام پر گریہ فرمایا۔ آپ کے خادم نے عرض کیا: "میری جان آپ پر قربان ہو، میں آپ کے لیے خطرہ محسوس کرتا ہوں، کیا اب گریہ بند کرنے کا وقت نہیں آ گیا؟”

امامؑ نے فرمایا: حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے جن میں سے ایک ان کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا، تو انہوں نے اتنا گریہ کیا کہ ان کی آنکھیں نابینا ہو گئیں اور ان کی کمر جھک گئی، حالانکہ ان کا بیٹا زندہ تھا۔ لیکن میں نے اپنے والد، بھائی، چچا اور اپنے خاندان کے سترہ افراد کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھا، تو میرا غم کیسے ختم ہو سکتا ہے؟!

کتاب حلية الأولياء میں روایت ہے کہ امام سجاد علیہ السلام نے اتنا گریہ فرمایا کہ لوگوں کو آپ کی بینائی کا خوف لاحق ہو گیا۔ جب بھی آپ پانی دیکھتے، رونے لگتے۔ جب آپ سے رونے کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا:

"کیسے نہ روؤں جبکہ میرے پدر بزرگوار کو پانی سے محروم رکھا گیا، جبکہ جانوروں اور درندوں کو پانی سے نہیں روکا گیا تھا۔”«بكى علي بن الحسين عشرين سنة و ما وضع بين يديه طعام إلّا بكى حتّى قال له مولى له جعلت فداك يا ابن رسول الله إني أخاف أن تكون من الهالكين- قال إنما أشكوا بثي و حزني إلى الله و أعلم من الله ما لا تعلمون إني لم أذكر مصرع بني فاطمة إلّا خنقتني العبرة و في رواية أ ما آن لحزنك أن ينقضي فقال له ويحك إن يعقوب النبي كان له اثنا عشر ابنا فغيب الله واحدا منهم فابيضت عيناه من كثرة بكائه عليه و احدودب ظهره من الغم و كان ابنه حيا في الدنيا و أنا نظرت إلى أبي و أخي و عمي و سبعة عشر من أهل بيتي مقتولين حولي فكيف ينقضي حزني و قد ذكر في الحلية نحوه و قيل إنه بكى حتّى خيف على عينيه‏ و كان إذا أخذ إناء يشرب ماء بكى حتّى يملأها دمعا فقيل له في ذلك فقال و كيف لا أبكي و قد منع أبي من الماء الذي كان مطلقا للسباع والوحوش و قيل له إنك لتبكي دهرك فلو قتلت نفسك لما زدت على هذا فقال نفسي قتلتها و عليها أبكي‏»حاصل یہ ہے کہ سید الشہداء علیہ السلام پر عزاداری اور گریہ، تمام انحرافات اور بدعتوں پر ایک واضح خطِ بطلان ہے جو رسول اللہؐ کے بعد ایجاد ہوئیں۔ان پر حزن و عزاداری، بنی امیہ کے ظلم و ستم سے برائت کا اعلان ہے، جو خلفاء کے ذریعہ اقتدار پر قابض ہوئے۔ اور یہ عزاداری تمام دنیا کے حق طلب انسانوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ حق اسلام وہی علوی اسلام ہے جو خدا اور اس کے رسول کا مطلوب ہے، نہ کہ وہ اسلام جس کا نتیجہ اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام پر ظلم، ستم اور قتل و غارت گری کی صورت میں ظاہر ہوا.; بنی امیہ نے چونکہ جان لیا تھا کہ سیدالشہداءؑ کی عزاداری ان کے اقتدار کے لیے زہر ہے، اس لیے ابتدا سے ہی انہوں نے اس کی مخالفت کی، اور افسوس کہ صوفیہ کے بعض گروہ ان کے ہمنوا بن گئے مراجع:

1 کامل الزیارات، ص325

2 بحارالانوار، ج46، ص108

3حضرت زین العابدین علیہ السلام کا غم اور گریہ اپنے عظیم والد حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی مصیبت پر: جناب ابوحمزہ ثمالی رحمہ اللہ امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیکھا کہ حضرت مسلسل گریہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے عرض کیا:فقال سیدی القتل لکم عادة و کرامتکم من الله الشهادة(اے میرے مولا! قتل تو آپ کے اہل بیت کے لیے ایک معمول بن چکا ہے، اور شہادت آپ کے لیے اللہ کی جانب سے عطا کردہ عزت و کرامت ہے۔)

امام سجاد علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:فقال صلوات‌ الله‌ علیه: و هل سبی النساء لنا عادة ؟! یا ابا حمزة و الله ما نظرت الی عماتی و اخواتی الا و ذکرت فرارهن فی البیداء من خیمة الی خیمة و المنادی ینادی احرقوا بیوت الظالمین(تو کیا عورتوں کا اسیر کیا جانا بھی ہمارے لیے ایک معمول بن چکا ہے، اے ابوحمزہ؟خدا کی قسم! جب بھی میں اپنی پھوپھیوں اور بہنوں کی طرف دیکھتا ہوں، مجھے وہ منظر یاد آتا ہے کہ وہ بیابان میں ایک خیمے سے دوسرے خیمے کی طرف بھاگ رہی تھیں، اور دشمن کا منادی اعلان کر رہا تھا:”ظالموں کے خیموں کو جلا دو!”) ماخذ: مجمع مصائب أهل البیت علیہم السلام، جلد 1, ص103

4چالیس سال کا گریہ

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:«قطعاً امام زین العابدین صلوات الله علیه چهل سال در مصیبت پدرشان گریه کردند»یقیناً امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے والد ماجد حضرت امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر چالیس سال تک گریہ فرمایا آپ دن کو روزہ رکھتے اور رات بھر عبادت میں مشغول رہتے۔جب افطار کا وقت آتا، تو خادم آپ علیہ السلام کے سامنے پانی اور کھانا رکھتا اور عرض کرتا: یا مولای، تناول فرمایئے!تو امام علیہ السلام فرماتے:«قُتِلَ ابنُ رَسُولِ اللهِ جائعاً، قُتِلَ ابنُ رَسُولِ اللهِ عطشاناً» رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند کو بھوکا شہید کر دیا گیا،رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند کو پیاسا شہید کر دیا گیا!” پھر یہ جملے دہراتے جاتے اور اتنا گریہ کرتے کہ آنکھوں کے آنسو پانی اور کھانے میں شامل ہو جاتے۔یہی کیفیت آپ علیه السلام پر عمر بھر طاری رہی، یہاں تک کہ آپ علیه السلام کی شهادت ہو گئی۔ :اللهوف، ص121

5جواز_لطمہ_زنی

جب امام رضا علیہ السلام نے دعبل خزاعی سے فرمایا کہ امام حسین علیہ السلام کی مصیبت میں کوئی شعر پڑھو، تو دعبل نے گریہ کرتے ہوئے اس حکم پر لبیک کہا اور یہ اشعار پڑھے:أَ فَاطِمُ لَوْ خِلْتِ الْحُسَیْنَ مُجَدَّلًا وَ قَدْ مَاتَ عَطْشَاناً بِشَطِّ فُرَاتِ.اے فاطمہ! اگر تمہیں گمان ہوتا کہ تمہارا حسین زمین پر گرا پڑا ہے، اور فرات کے کنارے پیاسا جان دے چکا ہے…!اذاً لَلَطَمْتِ الْخَدَّ فَاطِمُ عِنْدَهُ وَ أَجْرَیْتِ دَمْعَ الْعَیْنِ فِی الْوَجَنَاتِ.تو یقیناً (اے فاطمہ!) تم اپنے چہرے پر لطمہ مارتی اور تمہاری آنکھوں کے آنسو رخساروں پر بہنے لگتے!أَ فَاطِمُ قُومِی یَا ابْنَةَ الْخَیْرِ وَ انْدُبِی نُجُومَ سَمَاوَاتٍ بِأَرْضِ فَلَاةٍاے فاطمہ! اٹھو، اے خیر البشر کی بیٹی! نوحہ کرو اور گریہ کرو کہ آسمان کے ستارے بیابانِ کربلا میں خاک و خون میں تڑپ رہے ہیں! بحار الانوار، ج 45، ص 257جب دعبل نے یہ اشعار حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں پڑھے، تو امام نے نہ یہ فرمایا کہ تم نے غلط کہا! نہ یہ اعتراض کیا کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا لطمہ نہیں مارتی، یا یہ کام حرام ہے۔ بلکہ امام رضا علیہ السلام نے ان اشعار کو سراہا۔ لہٰذا امام کا تقریر (یعنی کسی بات پر خاموشی اختیار کرنا اور رد نہ کرنا) خود اس بات کی دلیل ہے کہ لطمہ زنی جائز ہے عزاداری رمز محبت، ص 153

تحریر:محمد موسی احسانیٰ

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے