حجت الاسلام والمسلمین سید علیرضا تراشیون نے اس سوال کا تفصیلی جواب دیا ہے کہ "اگر بچہ فحش یا نازیبا مناظر دیکھ لے تو والدین کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟”
سوال:
میرا بیٹا پانچ سال کا ہے اور میں اس کے بارے میں بہت حساس ہوں۔ لیکن ایک رات جب ہم مصروف تھے، وہ کسی ایسے شخص کے ساتھ بیٹھ گیا جس کے بارے میں ہمیں بالکل گمان نہیں تھا کہ وہ غلط حرکت کرے گا، اور اسی دوران اس نے فحش فلم دیکھ لی۔ اب بچے کے ذہن میں کئی سوال پیدا ہو گئے ہیں، میں نہیں جانتی اسے کس طرح بھلاؤں یا اس کے ذہن سے یہ بات کیسے مٹاؤں؟
جواب:
آپ نے کہا کہ آپ اپنے بچے کے بارے میں "بہت حساس” ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تربیت میں دو چیزوں سے ہمیشہ بچنا چاہیے:
۱. لاپرواہی
۲. ضرورت سے زیادہ حساسیت
یہ کہنا کہ "میں اپنے بچے پر بہت حساس ہوں” دراصل ایک غلط تربیتی طرزِ عمل ہے۔ ہمیں بے پرواہ نہیں ہونا چاہیے، لیکن جذباتی انداز کے بجائے سلیقے اور اصول کے ساتھ تربیت کرنی چاہیے۔
وہ والدین جو حد سے زیادہ حساس ہوتے ہیں مگر تربیتی اصول نہیں جانتے، بعض اوقات خود اپنے بچے کو ایک "تربیتی بحران” میں دھکیل دیتے ہیں۔
اگر حساسیت کے بجائے صحیح تربیتی طریقہ اپنایا جائے تو اکثر ایسے مسائل سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے۔
تربیت کا ایک بنیادی اصول:
بچوں کو کبھی بھی ایسی جگہ نہیں چھوڑنا چاہیے جہاں والدین موجود نہ ہوں، خاص طور پر ان عمر کے بچوں کو جن کی تربیت ابھی تشکیل پا رہی ہو۔
لیکن اب جب یہ واقعہ ہو چکا ہے، تو کیا کیا جائے؟
دو باتیں بہت اہم ہیں:
۱. اس شخص سے مکمل طور پر تعلق ختم کریں جس کے ذریعے یہ حادثہ پیش آیا۔
کیونکہ وہ شخص بچے کے ذہن میں ان نازیبا مناظر کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ جب بھی وہ اسے دیکھے گا، وہی مناظر ذہن میں آئیں گے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ یہ تعلق فوراً ختم کر دیا جائے۔
۲. بچے سے اس واقعے پر بات نہ کریں۔
اسے خود وقت کے ساتھ بھولنے دیں۔ والدین اگر بار بار اس بات کو چھیڑیں گے تو بچے کا ذہن دوبارہ اسی طرف جائے گا اور وہ بات کبھی نہیں بھول پائے گا۔
مثلاً بار بار یہ کہنا کہ: "آج اس کے ساتھ تو نہیں گیا؟”
"کہیں دوبارہ وہ فلم تو نہیں دیکھی؟”
یہ سوالات بچے کے ذہن میں وہ منظر دوبارہ زندہ کر دیتے ہیں۔
ایسے بچے کو بازپُرسی نہیں بلکہ سکون اور اطمینان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر موضوع کو دوبارہ نہ چھیڑا جائے تو بچہ وقت کے ساتھ خود بخود اس کو بھول جاتا ہے۔
خوش قسمتی سے کم عمری میں یادداشت کی فراموشی زیادہ تیز ہوتی ہے۔ جیسا کہ رسولِ خدا ص نے فرمایا: "میں بچوں سے محبت کرتا ہوں، کیونکہ ان کے دل میں کینہ نہیں ہوتا۔”
اسی لیے امید ہے کہ اگر آپ اوپر بتائے گئے دو اصولوں پر عمل کریں تو وہ ناپسندیدہ یادیں اس کے ذہن سے مٹ جائیں گی:
1. اس شخص سے قطعِ تعلق،
2. واقعے کا تذکرہ نہ کرنا۔
یہاں تک کہ اگر کبھی بچہ دوبارہ اس شخص سے مل بھی جائے تو غصہ، چیخ یا سزا دینے کے بجائے خاموشی اور نرمی اختیار کریں۔ وقت خود اس زخم کو بھر دے گا۔
آخر میں ایک عمومی اصول یاد رکھیں: بچوں کے تربیت پانے کے دور میں انہیں کبھی ایسی جگہ تنہا نہ چھوڑیں جہاں بڑے موجود نہ ہوں۔ اس کا مطلب سخت نگرانی نہیں، بلکہ محبت بھری اور سمجھدار نگرانی ہے۔
مثلاً اگر بچہ کھیلنا چاہتا ہے تو اسے ایسے کمرے میں کھیلنے دیں جہاں آپ کی موجودگی ہو، نہ کہ بند کمرے میں۔ خصوصاً جب دو بچے چار یا پانچ سال کی عمر سے زیادہ ہوں اور اکیلے کمرے میں ہوں، والدین کو محتاط رہنا چاہیے کیونکہ ایسے مواقع پر غلط حرکات یا تقلیدِ نامناسب کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
یہ نگرانی بداعتمادی نہیں بلکہ والدین کی ذمہ دار تربیت کی علامت ہے۔