مقالہ نگار: نثار حسین انصاری
چکیدہ
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شخصیت اتنی عظیم ہے کہ جن کی عظمت، خصوصیات اور شان و منزلت کے بارے میں مسلم اور غیر مسلم سب نے کتابیں لکھی ہیں۔ اس مقالہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے چند متضاد صفات تاریخی شواہد اور معصومین علیھم السلام کی روشنی میں بیان کی گئی ہے۔ وہ ایسی شخصیت ہیں جن کے اندر متضاد صفات پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر طاقتور اور مظلوم جو شخص طاقت کے بل بوتے پر زندگی بسر کرتا ہے وہ مظلوم نہیں ہو سکتا، لیکن حضرت علی ؑ وہ شخصیت تھی جو بہادر اور مظلوم تھے، جو ہمیشہ تلوار چلاتا ہو اور منحرف افراد کو سیدھے راستے پر لگاتا ہو وہ لوگوں پر مہربان نہیں ہو سکتا لیکن حضرت امیر المومنین علیہ السلام اس ذات کا نام ہے جس میں رحم دلی اور سختی دونوں متضاد صفات پائی جاتی تھیں۔ وہ دنوں کو روزے رکھتے تھے اور راتوں کو عبادت میں مصروف رہتے تھے، زاہد و پرہیزگار کے ساتھ حکومت بھی چلانا یہ متضاد صفات میں سے ہے، یہ بھی حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالبؑ میں پائی جاتی تھی۔عام طور پر جو شخص تنگدست ہوتا ہے وہ سخی نہیں ہوتا یہ متضاد صفات میں سے ہے لیکن یہ دونوں متضاد صفات حضرت امیرالمومنین ؑ میں موجود تھی۔ اسی طرح حضرت علی ؑ بہت ساری متضاد صفات کے مالک تھے۔ میں نے چند متضاد صفات تاریخی شواہد اور معصومین ؑ کی نظر میں بیان کی ہے۔ امید ہے آپ لوگ اس سے مستفید ہونگے۔کلیدی الفاظ: حضرت علیؑ، امیرالمومنین،متضاد، صفات۔
مقدمہ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْاَنْبِیَآءِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ وَ اٰلِہِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهِرِیْنَ الْمَعْصُوْمِین۔.
حضرت علی ؑ وہ عظیم اور منفرد شخصیت ہیں جن کی عظمت و بلندی کے سب معترف ہیں اور کسی کو ان کے بلند امتیازات اور نمایاں خصوصیات سے انکار نہیں ہے۔ آپ قریش کے ایک ممتاز ترین گھرانے میں پیدا ہوئے۔ نبوت کی آغوش میں آنکھیں کھو لیں۔ رسالت کی فضاؤں میں پلے بڑھے،یوں تو ہر انسان کی زندگی میں کچھ خصوصیات پائے جاتے ہیں اور وہی اس کی شخصیت کی علامات ہوتے ہیں۔ لیکن تاریخ بشریت میں ایک ایسا موڑ بھی آیا، جس نے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا، یہ وہ وقت تھا جب اس دنیا میں حامی و ناصر اسلام و پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم یعنی حضرت علی علیہ السلام نے قدم رکھا۔ حضرت علی علیہ السلام اس ہستی اور ذات والا صفات کا نام ہے کہ قلم جس کی توصیف سے عاجز اور ناتوان ہیں، کیونکہ علی ؑ اس فضیلت کا نام ہے کہ جس کی دنیا کے پیمانوں سے پیمائش نہیں کی جاسکتی، طائر فکرِ انسانی جس قدر بھی اپنی پرواز بلند کرتا ہے، لیکن ذات علیؑ کے سامنے وہ بونا ہی نظر آتا ہے، کیونکہ عقل اور افکار علی ؑکی بے نظیر اور بے مثل ہستی کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس میں کوئی شک اور دو رائے نہیں ہیں کہ پیامبر خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی ذات والا صفات کے بعد بالاتفاق جس ہستی کا مقام اور مرتبہ عظیم الشان ہے، وہ یہی حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام ایسی جامع اضداد ہستی کا نام ہے جنکی توصیف اور مدح و ستائش کے لئے دنیا کے نابغہ اور عظیم انسانوں نے ہر دور میں اپنے قلم کو جنبش دی ہے، لیکن اس ذوابعاد ہستی کی کسی نے عرفانی اور معنوی بعد سے توصیف کی تو کسی نے علیؑ کو ایک عظیم اور بے مثال ادیب ہونے کے ناطے سے دیکھا، کسی نے سیاست اور حکومت کے آئینہ سے علیؑ کی شخصیت کو جانچا، کسی نے اپنا زاویہ نگاہ عدالت اور شجاعت علیؑ کی طرف مرکوز رکھا، ان سب قابل قدر کاوشوں کے باوجود کسی نے ذات علیؑ کو بطور کامل و اکمل نہ خود پہچانا اور نہ دوسروں سے روشناس کرایا۔(جوادی، علامہ سید ذیشان حیدر، کتاب نقوش عصمت، ناشر محفوظ بک ایجنسی مارٹن روڈ کراچی)
حضرت علیؑ وہ ذات ہے جس کے فضائل خود خدا بیان کر رہا ہے۔ حضرت علی ؑ وہ ہستی ہے جس کے فضائل اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائے جو وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی انۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی،(القرآن کریم، سورہ نجم، آیت 3،4)وہ خواہش سے نہیں بولتا یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (اس پر) نازل کی جاتی ہے، کا مصداق ہے۔ پس ہم جیسے عام انسانوں کی کیا جرأت کہ ہم ان کے تمام فضائل کو بیان کر سکے۔حضرت علی علیہ السلام وہ ہستی ہیں کہ جن کو اپنوں اور بیگانوں دونوں نے موضوع بحث بنایا۔ مسلمان مفکرین، دانشوروں، علماء، ادباء اور ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کسی نہ کسی عنوان سے انکی ذات کو محور گفتگو بنایا، لیکن اپنے تو اپنے غیروں نے بھی جب تاریخ کے قرطاس الٹنے اور کتب تاریخ و سیرت کی ورق گردانی شروع کی تو اسلام کی بزرگ ہستیوں میں سے پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے بعد جس ہستی نے ان کو حیرت میں ڈال دیا، وہ حضرت علی علیہ السلام کی ذات گرامی قدر تھی۔ بہت سے ایسے غیر مسلم اسکالر اور دانشور تھے جو مجبور ہوگئے کہ وہ اس ہستی کا ذکر کریں، بہت سوں نے مستقل کتب تحریر کیں اور بہت سوں نے اپنی کتب کے درمیان حضرت علیؑ کا ذکر خیر کیا ہیں۔ ایک غیر مسلم دانشور جارج جرداق مسیحی حضرت علیؑ کا ایک عیسائی عاشق ہے، اس کا تعلق لبنان سے ہے، اس نے ایک مستقل کتاب ”صوت العدالۃ الانسانیہ” حضرت علیؑ کے بارے میں تحریر کی ہے۔
اس کتاب میں جارج جرداق حضرت علیؑ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:علی توصیف سے بلند
جارج جرداق لکھتا ہے کہ حقیقت میں کسی بھی مورخ یا محقق کے لئے چاہے وہ کتنا ہی بڑا زیرک اور دانا کیوں نہ ہو، یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اگر چاہے تو ہزار صفحے بھی تحریر کر دے، لیکن علی جیسی ہستیوں کی کامل تصویر کی عکاسی نہیں کرسکتا، کسی میں یہ حوصلہ نہیں ہے کہ وہ ذات علیؑ کو الفاظ کے ذریعے مجسم شکل دے، لہٰذا ہر وہ کام اور عمل جو حضرت علی ؑنے اپنے خدا کے لئے انجام دیا ہے، وہ ایسا عمل ہے کہ جسے آج تک نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا، اور وہ کارنامے جو انہوں نے انجام دیئے، اس سے بہت زیادہ ہیں کہ جن کو زبان یا قلم سے بیان اور آشکار کیا جائے۔ اس بنا پر ہم جو بھی علیؑ کا عکس یا نقش بنائیں گے، وہ یقیناً ناقص اور نامکمل ہوگا(مؤلف: جرداق، جارج، مترجم: نقوی، محمد باقر، کتاب ندائے عدالت انسانی اشاعت: ١٩٦٥، ناشر: اصلاح پریس، سارن، بہار)
حضرت علیؑ وہ ہستی ہے جو باعث تخلیق کائنات بنی۔ آپ کی شخصیت واضح اور روشن ہیں۔وہ علیؑ جو انسان کامل کا مکمل نمونہ ہے۔ وہ علیؑ جس نے آغوش رسالت میں تربیت پائی جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہی نسبت تھی جو ہارون کو حضرت موسیؑ سے تھی۔
مولائے کائنات کے فضائل کو اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کوئی بیان ہی نہیں کر سکتا یے اس لئے کہ پیغمبر اکرمﷺ فرماتے ہیں۔
"لَوْ أَنَّ الرِّيَاضَ أَقْلَامٌ وَ الْبَحْرَ مِدَادٌ وَ الْجِنَّ حُسَّابٌ وَ الْإِنْسَ كُتَّابٌ مَا أَحْصَوْا فَضَائِلَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِب”
"اگر سارے باغ قلم ہو جائیں اور سارے سمندر روشنائی ہو جائیں اور تمام جنات شمار کرنے والے ہو جائیں اور تمام انسان لکھنے والے ہو جائیں تب بھی علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کے فضائل کو شمار اور بیان نہیں کر سکتے ہیں(مترجم، رضا، سید اصغر، کتاب زندگانی امیرالمومنین و نہج البلاغہ اشاعت رمضان المبارک ١٤٣٠ ٕ بمطابق اگست 2009 ٕ۔ ناشر مرکز فکر اسلامی اسلام آباد پاکستان)”
اس مقالہ میں بندہ حقیر نے حضرت علی ؑ کےچند متضاد صفات تاریخی شواہد اور معصومین ؑ کی نظرمیں جمع کرنے کی کوشش کی ہے امید ہے آپ اس سے مستفید ہونگے۔دعاگو ہے کہ پروردگار اس حقیر سی کاوش کو اپنی بارگاہ اقدس میں قبول و منظور فرمائے۔ آمینامیرالمومنینؑ متضاد صفات کے مالک
امیرالمومنینؑ وہ ہستی ہے جس کےاندر متضاد صفات موجود ہے کسی اور کے اندر یہ صفات یکجا نہیں ملیں گے۔لیکن امیرالمومنینؑ کے اندر اس قسم کے بےشمار صفات موجود ہیں۔ امام علی علیہ السلام کی مدح صفی الدین حلی اس طرح سے کرتے ہیں فرماتے ہیں۔
"جمعت فی صفاتک الاضداد”
"فلهذا عزت لک الانداد”
"زاهد حاکم حلیم شجاع”
"فاتک ناسک فقیر جواد”
"خلق یخجل النسیم من اللطف”
"و بأس یذوب منه الجماد”
"ظهرت منک للوری مکرمات
"فأقرت بفضلک الحساد”
"إن یکذب بها عداک فقد”
"کذب من قبل قوم لوط و عاد”
"جل معناک أن یحیط به الشعر”
"و یحصی صفاته النقاد
1۔آپ کے اندر متضاد صفات پائے جاتے ہیں، جس کہ وجہ سے کوئی بھی آپ کے ہم مثل اور نظیر نہیں ہو سکتا ہے۔
2۔ آپ زاہد بھی ہیں حاکم بھی ہیں حلیم بھی ہیں شجاع بھی ہیں، عبادت گزار بھی ہیں بے باک و بہادر بھی ہیں فقیر و تنگدست بھی ہیں اور جواد و سخی بھی ہیں۔
3۔ آپ کا اخلاق اتنا نرم اور لطیف ہے کہ اس کی لطافت کے سامنے ہوا کی لطافت و نرمی شرمندہ ہوجاتی ہے،اور ساتھ ہی ساتھ اتنا رعب و ہیبت ہے کہ پتھر اور جمادات پگھل جاتے ہیں۔
4۔ آپ کی ذات سے کرامتیں اور فضیلتیں اہل دنیا کے لئے آشکار ہیں کہ آپ سے حسد کرنے والے بھی ان فضائل کا اعتراف اور اقرار کرتے ہیں۔
5۔ اور اگر آپ کے دشمن آپ کے ان فضائل کا انکار کریں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے پہلے بھی قوم عاد اور ثمود نے اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا ہے۔
6۔ آپ کے اندر جو معانی اور مفاہیم پائے جاتے ہیں وہ اس سے بلند و بالا ہیں جنہیں شعر بیان کرے اور نقاد اور شمار کرنے والے انھیں شمار کریں(سفینة البحار، ج 3، ص 10، ناشر: اسوہ قم)
ابن فارض نے آپ کی مدح اس طرح سے کی ہے۔
"هُو البکاءُ فِی المِحرابِ لَیلاً”
هُو الضَحَّاک إذا اشتدَّ الضّرابُ”
آپ رات کو محراب میں بہت زیادہ گریہ کرنے والے اور میدان جنگ میں بہت زیادہ خوش رہنے والے تھے۔(سفینة البحار ، ج ٧، ص 66، ناشر : اسوہ قم)حضرت علیؑ کےچند متضاد صفات درجہ ذیل ہیں۔
طاقت اور مظلومیت
حضرت علی ؑ کی متضاد صفات میں سے ایک صفت طاقتور اور مظلومیت ہیں۔ معمولا ًجو لوگ طاقتور ہوتے ہیں وہ مظلوم نہیں ہوتے لیکن امیرالمومنین علیہ السلام مظلوم بھی واقع ہوئے ہیں۔
آپؑ کی طاقت شجاعت و بہادری بے نظیر تھے۔ آپؑ کے زمانے میں کوئی آپ کی مانند طاقتور نہیں تھا۔آپؑ کی عمر کے آخری حصے تک کسی نے بھی آپؑ کی شجاعت و بہادری کا مقابلہ کرنے کا دعوی نہیں کیا۔ تاریخ اسلام کے جنگوں کی طرف نگاہ کرے تو حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت و بہادری ظاہر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم یہاں پر جنگ خیبر کا تذکرہ کرتے ہیں۔حضرت علیؑ جنگ خیبر میں
خیبر یہودیوں کا آخری مورچہ تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف لوگوں کو ابھارنے اور فساد برپا کرنے کا مرکز شمار ہھوتا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ یہودیوں کا آخری قلعہ بھی تباہ کردیا جائے اور ان کے جنگجوؤں کو ختم کر دیا جائے لہٰذا اس بات کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ خیبر روانہ ہوگئے، اور جب آپ خیبر کے نزدیک پہنچے تو آپ نے اللہ سے دعا مانگی: خدایا تو نے آسمانوں اور زمین کو خلق کرنے کے ساتھ ہوا اور تمام موجودات کو پیدا کیا۔ اب میں تجھ سے آرزو کرتا ہوں کہ تو ہمیں اس بستی اور اس کے رہنے والوں کے شر سے بچا، اور اس کے خیرات وبرکات سے ہمیں بہرہ مند فرما، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعا فرمائی اور اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ لشکر خیبر کے قلعوں پر حملہ کریں۔ مسلمان ایک کے بعد دوسرے قلعے کو فتح کرتے جا رہے تھے۔ اسی دوران محمود بن مسلمہ بھی شہید ہوگئے۔ مسلمان قلعوں کو فتح کرتے کرتے خیبر کے سب سے بڑے قلعے تک پہنچ گئے۔
یہودیوں کا آخری مورچہ قلعہ سلالم تھا کہ جس میں مرحب بھی رہتا تھا۔مرحب یہودیوں کا بڑا پہلوان اور جنگجو تھا اور یہ قلعہ جو خیبر کے مضبوط ترین قلعوں میں سے تھا ۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حملہ کرنے کا حکم دیا اور علَم ابوبکر نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
حضرت ابوبکر قلعے کی طرف حملہ لے گئے مگر تھوڑی دیر ہی میں واپس لوٹ آئے، پھر عمرو بن خطاب نے علَم کو ہاتھ میں لیا اور آپ بھی بغیر کسی پیش قدمی کے واپس لوٹ آئے، تب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کل میں علَم اس شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو خدا اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور خدا اور اس کا رسول بھی اس شخص سے محبت کرتے ہونگے۔ اس موقع پر اصحاب رسول اکرم ؐ بے تابی سے انتظار کرنے لگے کہ رسول اکرم ؐ کل علَم کس شخص کو عطا کریں گے۔ (مترجم، رضا، سید اصغر، کتاب زندگانی امیرالمومنین و نہج البلاغہ اشاعت رمضان المبارک ١٤٣٠ ٕ بمطابق اگست 2009 ٕ۔ ناشر مرکز فکر اسلامی اسلام آباد پاکستان)
اگلے روز حضرت علی ؑ رسول اکرم ؐ کے پاس تشریف لائے۔ اس کے بعد رسول اکرم ؐ نے حضرت علی ؑ کو علَم دے کر جنگ کرنے کے لیے بھیج دیا، علی ابن ابی طالب ؑ نے یہودیوں کے آخری مورچے کی طرف پیش قدمی کی اور اپنے علَم کو ایک دیوار کے ساتھ گاڑھ دیا جب یہ منظر ایک یہودی نے چھت سے دیکھا تو پوچھا کہ تم کون ہو؟
آپؑ نے فرمایا: میں علی ابن ابی طالب ہوں، ابورافع کہتا ہے” ہم جنگ خیبر میں علیؑ کے ساتھ گئے تھے جب ہم لوگ قلعے پہنچے تو ایک یہودی نے آپ ؑ پر ایسا وار کیا کہ ڈھال آپ کے ہاتھ سے چھوٹ گئی تو حضرت علیؑ نے دروازہ کو اپنی ڈھال کی جگہ ہاتھ میں لے لیا اور یہی دروازہ آپ کے ہاتھ رہا یہاں تک کہ آپ نے قلعہ خیبر کو فتح کر لیا۔
جنگ خیبر میں ایک یہودی، جس کا نام مرحب تھا اور بڑا دلیر آدمی تھا حضرت علیؑ کے مقابلے میں آیا اور مرحب کو اپنی ذات پہ بہت زیادہ غرور تھا لیکن علیؑ نے تلوار کے ایک ہی وار سے اس کے یوں دو ٹکڑے کر دیے کہ آپؑ کی تلوار اس کے بدن کو چیرتی ہوئی زمین میں جا ٹکرائی۔
وہ علی جو دروازہ خیبر کو اکھاڑنے کی قدرت و طاقت رکھتے تھے۔ یہ حضرت علیؑ کی طاقت،شجاعت اور بہادری ہیں لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے صرف اپنے بغض و کینہ کی وجہ سے اور اپنی غفلت کی وجہ سے اس عظیم ہستی کو نہ پہچان سکے۔حضرت علیؑ کی مظلومیت
امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات تاریخ کے مظلوم ترین انسان ہیں۔آپ کی زندگی کے ہر پہلو میں یہ مظلومیت نمایاں تھی۔نوجوانی کے دوران مظلوم تھے۔جوانی میں وفات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مظلوم تھے۔بڑھاپے میں مظلوم تھے۔ آپ کی شہادت بھی مظلومانہ تھی۔
حضرت علیؑ کی مظلومیت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اکرمؐ کی وفات کے بعد آپؑ پر کتنے مظالم ڈھائے گئے۔ غصب خلافت ایک طرف تو غصب فدک دوسری طرف، سیدہؑ کے مصائب ایک طرف اور ان کی دردناک شہادت اور اپنی شہادت دوسری طرف ا س کے علاوہ دشمنوں کا اتفاق اور اپنوں کا سرکش ہو جانا ایک اور ظلم تھا۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اُمتِ محمدیہؐ نے بنت رسول سلام اللہ علیہا سے جو رویہ اختیار کیا وہ انتہائی تکلیف دہ اور افسوسناک ہے۔ اگرچہ پیغمبر ﷺ کے اُٹھ جانے کے بعد جناب سیدہ سلام اللہ علیہا چند ماہ سے زیادہ اس دنیا میں نہیں رہیں، مگر یہ قلیل عرصہ بھی رنج و اندوہ کی ایک طویل داستان اپنے اندر رکھتا ہے۔ (مؤلف:رضی،شریف رحمةاللہ علیہ، مترجم: حسین،مفتی جعفر، کتاب نہج البلاغہ، ناشر، امامیہ کتب خانہ مغل حویلی اندرون موچی دروازہ لاہور)حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی شہادت
سیّدۃ النساء حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر امام علیؑ نے فرمایا:
السَّلَامُ اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ عَنِّیْ، وَ عَنِ ابْنَتِكَ النَّازِلَةِ فِیْ جِوَارِكَ، وَ السَّرِیْعَةِ اللَّحَاقِ بِكَ! قَلَّ یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! عَنْ صَفِیَّتِكَ صَبْرِیْ، وَ رَقَّ عَنْهَا تَجَلُّدِیْ، اِلَّاۤ اَنَّ لِیْ فِی التَّاَسِّیْ بِعَظِیْمِ فُرْقَتِكَ، وَ فَادِحِ مُصِیْبَتِكَ، مَوْضِعَ تَعَزٍّ، فَلَقَدْ وَسَّدْتُّكَ فِیْ مَلْحُوْدَةِ قَبْرِكَ، وَ فَاضَتْ بَیْنَ نَحْرِیْ وَ صَدْرِیْ نَفْسُكَ۔
یا رسول اللہؐ! آپؐ کو میری جانب سے اور آپؐ کے پڑوس میں اترنے والی اور آپؐ سے جلد ملحق ہونے والی آپؐ کی بیٹی کی طرف سے سلام ہو۔ یا رسول اللہؐ! آپؐ کی برگزیدہ (بیٹی کی رحلت) سے میرا صبر و شکیب جاتا رہا، میری ہمت و توانائی نے ساتھ چھوڑ دیا، لیکن آپؐ کی مفارقت کے حادثہ عظمیٰ اور آپؐ کی رحلت کے صدمہ جانکاہ پر صبر کر لینے کے بعد مجھے اس مصیبت پر بھی صبر و شکیبائی ہی سے کام لینا پڑے گا جبکہ میں نے اپنے ہاتھوں سے آپؐ کو قبر کی لحد میں اتارا اور اس عالم میں آپؐ کی روح نے پرواز کی کہ آپؐ کا سر میری گردن اور سینے کے درمیان رکھا تھا۔
﴿اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ﴾، فَلَقَدِ اسْتُرْجِعَتِ الْوَدِیْعَةُ، وَ اُخِذَتِ الرَّهِیْنَةُ! اَمَّا حُزْنِیْ فَسَرْمَدٌ، وَ اَمَّا لَیْلِیْ فَمُسَهَّدٌ، اِلٰۤی اَنْ یَّخْتَارَ اللّٰهُ لِیْ دَارَكَ الَّتِیْۤ اَنْتَ بِهَا مُقِیْمٌ۔
انا للہ و انا الیہ راجعون، اب یہ امانت پلٹا لی گئی، گروی رکھی ہوئی چیز چھڑا لی گئی، لیکن میرا غم بے پایاں اور میری راتیں بے خواب رہیں گی، یہاں تک کہ خداوند عالم میرے لئے بھی اسی گھر کو منتخب کرے جس میں آپؐ رونق افروز ہیں۔
و سَتُنَبِّئُكَ ابْنَتُكَ بِتَضَافُرِ اُمَّتِكَ عَلٰی هَضْمِهَا، فَاَحْفِهَا السُّؤَالَ، وَ اسْتَخْبِرْهَا الْحَالَ، هٰذَا وَ لَمْ یَطُلِ الْعَهْدُ، وَ لَمْ یَخْلُ مِنْكَ الذِّكْرُ۔
وہ وقت آ گیا کہ آپؐ کی بیٹی آپؐ کو بتائیں کہ کس طرح آپؐ کی اُمت نے ان پر ظلم ڈھانے کیلئے ایکا کر لیا۔ آپؐ ان سے پورے طور پر پوچھیں اور تمام احوال و واردات دریافت کریں۔ یہ ساری مصیبتیں ان پر بیت گئیں، حالانکہ آپؐ کو گزرے ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہو اتھا اور نہ آپؐ کے تذکروں سے زبانیں بند ہوئی تھیں۔
وَ السَّلَامُ عَلَیْكُمَا سَلَامَ مُوَدِّعٍ، لَا قَالٍ وَّ لَا سَئِمٍ، فَاِنْ اَنْصَرِفْ فَلَا عَنْ مَّلَالَةٍ، وَ اِنْ اُقِمْ فَلَا عَنْ سُوْٓءِ ظَنٍّۭ بِمَا وَعَدَ اللهُ الصَّابِرِین۔ (مترجم نجفی،علامہ محسن علی،کتاب بلاغ القرآن، طبع اول دسمبر ٢٠٠٠ ٕ، ناشر دار القرآن جامعہ الکوثر H8/2 اسلام آباد پاکستان)
آپؐ دونوں پر میرا سلامِ رخصتی ہو، نہ ایسا سلام جو کسی ملول و دل تنگ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اب اگر میں (اس جگہ سے) پلٹ جاؤں تو اس لئے نہیں کہ آپؐ سے میرا دل بھر گیا ہے اور اگر ٹھہرا رہوں تو اس لئے نہیں کہ میں اس وعدہ سے بدظن ہوں جو اللہ نے صبر کرنے والوں سے کیا ہے۔نرم مزاجی اور سختی
امیرالمومنین ؑ انتہائی نرم مزاج تھے اور آپ کا دل محبت و شفقت کے جزبات سے معمور تھا۔ جب کسی مفلوک الحال کو دیکھتے تو تڑپ اٹھتے، کسی بے نوا کی صدا سنتے تو بے چین ہوجاتے اور یتیموں سے اس طرح پیش آتے کہ انہیں یتیمی کا احساس نہ ہونے دیتے۔
ایک دفعہ امام علیؑ ایک گلی سے گزرے تو دیکھا کہ ایک عورت مشکیزہ کاندھے پر اٹھائے جارہی ہے۔ حضرت نے ازراہ ہمدردی مشکیزہ اس سے لے کر خود اٹھا لیا اور اس سے پوچھا کہ تمہارے گھر میں کوئی مرد نہیں ہے جو باہر کے کام انجام دے۔ کہا کہ امیرالمومنین ؑ نے میرے شوہر کو ایک مہم پر بھیجا تھا، وہ وہاں سے شہید ہوگیا اور بچے یتیم رہ گئی۔حضرتؑ نے مشکیزہ اس کے گھر پہنچا کر واپس آئے۔ پھر اگلے دن امیرالمومنین ؑکھانے پینے کا سامان لے کر اسی گھر میں چلا گیا۔ سامان اس عورت کو دے دیا اور فرمایا کہ تم آٹا گوندھوگی یا بچوں کو بہلاؤگی۔ کہا کہ میں آٹا گوندھتی ہوں اور آپ بچوں کو بہلائیں۔ جب وہ آٹا گوندھ چکی تو کہا اے مرد با خدا ! اب آپ تنور روشن کریں۔ حضرتؑ نے تنور میں لکڑیاں ڈالیں اور انہیں آگ لگائی۔ جب شعلے بلند ہوئے تو حضرتؑ نے تپش محسوس کی۔
حضرت علی ؑ غلاموں سے بہت گہری ہمدردی رکھتے تھے۔آپ نے اپنی محنت کی کمائی ان کی آزادی اور فلاح و بہبود کے لیے مخصوص کر دی اور انہیں آزادی سے بہرہ یاب کرکے اس کا موقع دیا کہ وہ ترقی کی منازل طے کرکے معاشرہ میں بلند مقام حاصل کریں۔
امام جعفر صادقؑ کا ارشاد ہے:
امیرالمومنینؑ نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے ایک ہزار غلام خرید کر آزاد کیے۔
اوریہی علی علیہ السلام جنگ نہروان میں بھی ہیں جب کچھ متعصب لوگ بے بنیاد بہانوں سے آپکی حکومت کو ختم کر دینا چاہتے ہیں پہلے آپ انہیں نصیحت کرتے ہیں کہ وہ جسکا مطلقاً اثر نہیں لیتے، احتجاج کرتے ہیں مگر اسکا بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔کسی تیسرے آدمی کو صلح و مصالحت کے لئے واسطہ بناتے ہیں انکی مالی امداد کرتے ہیں ساتھ ساتھ رہنے کا وعدہ دیتے ہیں مگر ان سب سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور آخر کار وہ لوگ لڑنے پر تل جاتے ہیں پھر بھی آپ انہیں نصیحت کرتے ہیں۔ آپ کی یہ نصیحت ان کے لئے بے فائدہ ثابت ہوتی ہے۔ اس وقت فرماتے ہیں ! تم میں سے کل تک جو بھی اس پرچم تلے آجائیگا وہ امان میں رہے گااور جو نہیں آیا اس سے میں جنگ کروں گا۔ ان بارہ ہزار۱۲۰۰۰ افراد میں سے ۸۰۰۰آٹھ ہزار افراد پرچم کے نیچے آگئے اور باوجود یہ کہ ان لوگوں نے آپ سے دشمنی کی ہے، لڑنے میں بر ابھلا کہا ہے پھر بھی فرماتے ہیں جاؤ تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ و ہ لوگ چلے گئے اور پھر حضرت نے انہیں کوئی اہمیت نہیں دی اور انہیں معاف کر دیا، جو دوسرے ۴۰۰۰چار ہزار بچے،فرمایا! اگر تم لڑنے پر تلے ہوتو آؤ پھر جنگ کرو، آپ نے دیکھا وہ لڑنے مرنے پر تیار ہیں فرمایا ! یاد رکھو تم چار ہزار میں سے دس افراد کے علاوہ کوئی باقی نہیں بچے گا۔ جنگ شروع ہوگئی اس ۴۰۰۰ چار ہزار میں ۱۰ لوگ زندہ بچے باقی سب کے سب ہلاک ہوگئے۔ (حسین، علامہ مفتی جعفراعلی اللہ مقامہ، کتاب سیرت امیرالمومنین حضرت علی ؑابن ابی طالب، ایڈیشن جنوری 2010، ناشر امامیہ پبلیکیشنز لاہور پاکستان)پرہیز گاری اور حکومت امیرالمومنین علیہ السلام
آپ کی متضاد صفات کا نمونہ حکومت کے ساتھ ساتھ تقویٰ و پارسائی ہے۔ یہ ایک عجیب چیز ہے؟ ورع و تقویٰ کا کیا مطلب ہے؟ یعنی انسان ہر وہ چیز جس سے دین خدا کی مخالفت کی بو آتی ہو اس سے پرہیز کرے اور اسکے قریب نہ جائے۔پھر ادھر حکومت کا کیا ہو گا؟ آخر ممکن ہے کہ حکومت رکھتے ہوئے کوئی پارسا بھی ہو آج جب ہمارے کاندھوں پر اہم ذمہ داریاں ہیں ہمیں زیادہ احساس ہے کہ اگر یہ خصوصیات کسی کے اندر موجود ہوں تو وہ کس قدر اہمیت کا حامل ہو گا۔حکومت میں رہتے ہوئے صرف اسے کلی قوانین سے سروکار ہوتا ہے اور قانون کا نفاذ اپنی جگہ بہت سے فوائد لئے ہوتا ہے اگرچہ عین ممکن ہے اسی قانون کی وجہ سے مملکت کے کسی گوشہ میں کسی شخص پر ظلم و ستم بھی ہواور ممکن ہے حکومت کے ذمہ دار کی طرف سے خلاف ورزیاں بھی ہوں اور پھر نا محدود جزئیات کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ وہ (حاکم)ہر شعبہ میں زہد و پارسائی کا بھی لحاظ رکھ سکے؟ اسلئے بظاہر لگتا ہے کہ تقویٰ حکومت کے ساتھ اکٹھا ہونا نا ممکن سی بات ہے لیکن قربان جائیں امیرا لمومنین علیہ السلام کی ذات پر کہ اپنے وقت کی بااقتدار حکومت کے ساتھ بھی پارسائی و تقویٰ کو یکجا کرتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں جوایک حیرت انگیز بات نظر آتی ہے۔
وہ اس معاملہ میں کسی کا پاس و لحاظ نہیں کرتے تھے کہ اگر انکی نگاہ میں کوئی کسی منصب کا اہل نہیں ہے تو اسے منصب دے کر بھی بلاتکلف اس عہدے کو واپس لے لیتے ہیں۔ محمد بن ابی بکر کو حضرت امیرعلیہ السلام اپنے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے اور وہ حضرت علی علیہ السلام کو اپنے مہربان باپ کی حیثیت سے جانتے تھے (آپ ابوبکر کے چھوٹے صاحبزادہ اور علی علیہ السلام کے مخلص شاگرد ہیں آپکے دامن پر مہر و محبت میں پروان چڑھے ہیں) مگر مصر کی ولایت دینے کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے ایک خط میں آپکو لکھا میں تم کو مصر کی حکومت کے لائق نہیں سمجھتا اسلئے مالک اشتر کو تمہاری جگہ بھیج رہا ہوں۔اور آپنے انکو معزول کر دیا اگرچہ انسان ہونے کے ناطے محمد بن ابی بکر کویہ بات بری بھی لگی مگر حضرت نے اس معاملہ میں کسی بھی چیز کالحاظ نہیں کیا۔ یہ ہے آپکی پارسائی ایسی پارسائی جسکی ضرورت ایک حکومت اور حاکم کو پڑتی ہے و ہ ذات علی علیہ السلام میں اپنے نقطہ کمال پر نظر آتی ہے۔ (مترجم نجفی،علامہ محسن علی،کتاب بلاغ القرآن، طبع اول دسمبر ٢٠٠٠ ٕ، ناشر دار القرآن جامعہ الکوثر H8/2 اسلام آباد پاکستان)
آپکے زمانے میں نجاشی نامی ایک شاعر تھا جو امیرا لمومنین علیہ السلام کا مداح اور آپکے دشمنوں کے خلاف اشعار کہتا تھا۔ماہ رمضان میں ایک دن کسی گلی سے گذر رہا تھا کہ ایک برے انسان نے اسکو ورغلایا وہ کہتا ہے کہ آؤ آج ہمارے ساتھ میں کچھ وقت گذارو مثلاً اس شاعر نے کہا نہیں میں مسجد جا رہا ہوں قرآن پڑھنے یا نماز پڑھنے بہرحال زبردستی اس شاعر کو اپنے گھر میں بلا لیا! آخر یہ بھی ایک شاعر ہی تو تھا اسکے فریب میں آگیا اور اسکے ددسترخوان پر روزہ خوری کے بعد شراب بھی پی جاتی تھی اور لوگوں کو اس بات کا پتہ چلا تو امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: اس پر حد جاری کرواور اس کو اسی۸۰ تازیانے شراب نوشی کی وجہ سے اور دس۱۰ یا بیس۲۰تازیانے دن میں حرام چیز سے روزہ توڑنے کی بناءپر۔ نجاشی نے کہا میں آپکا اور آپکی حکومت کا مداح ہوں اپنے اشعار سے آپکے دشمنوں کو جواب دیتا ہوں اور آپ مجھے تازیانے مارنے کا حکم دے رہے ہیں؟فرمایا، کہ یہ ساری باتیں اپنی جگہ قابل قبول اور قابل تحسین ہیں مگر میں حکم خدا کو اپنی ذات کی خاطر معطل نہیں کر سکتا، ہر چند انکے قوم و قبیلہ والوں نے اصرار کیا یا امیرالمومنین علیہ السلام اسطرح ہماری عزت چلی جائیگی پھر ہم معاشرے میں سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ آپ معاف کر دیجئے مگر حضرت ؑنے فرمایا نہیں ممکن نہیں کہ میں حد خدا جاری نہ کروں۔ اس شخص کو لٹایا گیا، اور اسے کوڑے مارے گئے ۔سخاوت اور تنگدستی
وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا۔ (ترجم نجفی،علامہ محسن علی،کتاب بلاغ القرآن، طبع اول دسمبر ٢٠٠٠ ٕ، ناشر دار القرآن جامعہ الکوثر H8/2 اسلام آباد پاکستان)
اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔
ایک مرتبہ جب حضرت امام حسنؑ اورامام حسینؑ دونوں بیمار ہوگئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لے گئے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ان کے لئے نذر کرو،منت مانو‘‘۔
امام علیؑ اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے منت مان لی کہ اگر یہ شفا یاب ہوگئے تو ہم تین روزے رکھیں گے۔ چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ ؑ نے شمعون جو خیبر کا یہودی تھا سے کچھ قرض لیا اور ایک روایت میں ہے کہ کام کرکے اجرت کے طور پر کچھ لیا اور ان تھوڑے سے پیسوں سے سحری و افطاری کا اہتمام کیا۔ پہلے دن جب افطار کا وقت ہوا تو دروازے پر آ کر ایک شخص نے آواز دی۔ اے اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھوکا ہوں۔ سیدہ کائنات نے حضرت علی ؑ سے پوچھا اور روٹی کے ساتھ جو کھانا پکا تھا وہ سارا اُٹھا کر مسکین کو دے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کیا۔ اگلے دن روزہ رکھا جوبچا تھا وہ پکایا۔ افطار کا وقت ہوا تو ایک اور سائل آگیا۔ اس نے کہا کہ میں یتیم ہوں تو سارا پکا ہوا کھانا اس یتیم کو دے دیا اورخود پانی سے روزہ افطار کر لیا۔ تیسرے دن روزہ رکھا پھر سائل آگیا۔ اس نے کہا کہ میں قیدی ہوں خدا کے لئے مجھے دیں۔ میں بھوکاہوں۔ پھر سب کچھ اس کو دے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کیا۔ یوں تینوں دن جب روزہ پانی سے افطار ہوتا رہا۔ منت پوری کرنے سے امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ شفایاب ہو گئے تھے۔ (حسین، علامہ مفتی جعفراعلی اللہ مقامہ، کتاب سیرت امیرالمومنین حضرت علی ؑابن ابی طالب، ایڈیشن جنوری 2010، ناشر امامیہ پبلیکیشنز لاہور)
اور اسی موقعے پر اللہ کی طرف سے اہلبیتؑ کی شان میں آیت نازل ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا۔(مترجم نجفی،علامہ محسن علی،کتاب بلاغ القرآن، طبع اول دسمبر ٢٠٠٠ ٕ، ناشر دار القرآن جامعہ کوثر اسلام آباد پاکستان)
اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔(الکوثر، فی تفسیر القرآن، سورہ انسان، آیت نمبر، 8)
ایک روز جب امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے پاس تشریف فرما تھے تو حضرتؑ کو شدید بھوک کا احساس ہوا، حضرت امام علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زہراء علیہا سلام سے کھانے کی درخواست کی تو حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے آپ علیہ السلام سے فرمایا کہ ہم نے خود دو دن سے کھانا نہیں کھایا اور گھر میں جو کچھ بھی تھا اسے آپ کے لئے اور بچوں کے لئے پکا دیا ہے، امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ نے مجھے کیوں نہیں اطلاع دی تاکہ آذوقہ فراہم کرنے کی کوشش کرتا حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے جواب میں فرمایا: مجھے اپنے پروردگار سے شرم آئی کہ میں آپ سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ کروں جس کا فراہم کرنا آپ کے لئے سخت و دشوار ہو کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے نصیحت فرمائی تھی کہ آپ سے کچھ بھی درخواست نہ کروں۔ آنحضرت نے فرمایا تھا: میرے چچا زاد بھائی سے کچھ بھی نہ مانگنا، اگر وہ خود کچھ لیکر آگئے تو قبول کرنا وگرنہ خود کچھ نہ مانگنا۔ (حجازی، علامہ سید فدا حسین، کتاب، معرفت کے پھول، طباعت 2016 ٕ ناشر نورالقرآن اسلام آباد پاکستان)
اگر کوئی شخص سخی ہو تو وہ تنگدست نہیں ہوتا اور اگر کوئی تنگدست ہو وہ سخی نہیں ہوتا لیکن یہ دونوں صفت مولا علی ؑ میں پائے جاتے ہیں۔ یہ حضرت علی ؑ کی متضاد صفات میں سے ہیں۔خلاصہ
جو شخص طاقت کے بل بوتے پر زندگی بسر کرتا ہے وہ مظلوم نہیں ہو سکتا، لیکن حضرت علیؑ وہ شخصیت تھی جو بہادر اور مظلوم تھے، جو ہمیشہ تلوار چلاتا ہو اور منحرف افراد کو سیدھے راستے پر لگاتا ہو وہ لوگوں پر مہربان نہیں ہو سکتا لیکن حضرت امیر المومنین علیہ السلام اس ذات کا نام ہے جس میں رحم دلی اور سختی یہ دونوں متضاد صفات پائی جاتی تھیں۔ جو شخص زاہد و پرہیزگار ہو وہ حاکم نہیں ہوسکتا لیکن حضرت علی ؑ زاہد و پرہیزگار کے ساتھ حاکم بھی تھے۔ جو شخص تنگدست ہو وہ سخی نہیں ہوسکتا لیکن مولا علی ؑ تنگدستی کے ساتھ سخی بھی تھے۔
