مقالہ نگار: زاہد عباس

چکیدہ:
جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ کوئی بھی کلام کسی متکلم کی طرف اس وقت منسوب کیا جا سکتا ہے جب اس کلام کے کلمات کو ان کی ترکیب و تنظیم خود متکلم یا جسے متکلم اس علم کے بارے میں مکمل طور پر آشنا کردے کہ فلان چیز کو اس جگہ پر رکھنا ہے اور اسے فلاں جگہ پر، جس طرح قرآن مجید کو خدا تعالیٰ نے پیغمبر اکرمﷺ پر نازل فرمایا اور ساتھ ہی اس کی آیات و سورتوں کی ترتیب بھی بتائی اور پیغمبر اکرمﷺ نے ان سب کا علم حکمِ خدا تعالیٰ سے مولا علیؑ کو عطافرمایا تو مولا کائناتؑ نے رحلتِ پیغمبر اکرمﷺ کے بعد سب سے پہلا کام اسی ترتیب نزولی کے مطابق قرآن کو جمع کیا۔

کلیدی الفاظ: تدوین، مصحف، حضرت رسول خدا ﷺ، حضرت امام علیؑ، قرآن مجید

مقدمہ
ابتداء ہےاس رب جلیل کے نام سے جس نے اپنے پاک کلام کو اپنے پاک پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺپر نازل کیا،درود وسلام ہو حضرت محمد مصطفی ﷺاور آپ کی آل اطہارؑپر، جن سے زیادہ قرآن مجید کے بارے میں کوئی علم نہیں رکھتا،خصوصاً حضرت علی ابن ابی طالبؑ پر جس نے ہر وقت دین اسلام کی بقاء کیلئے پیغمبر اسلام ﷺ کی نصرت کی چاہے جنگ کے میدان میں ہو،چاہے ہجرت کی رات ہو، چاہے تبلیغِ دین کے موقع پر ہو،چاہے وہ علمی کارناموں کے موقع پر ہو، چاہے وہ موقع کسی کے سوال کا جواب دینا ہو یا کسی کے ساتھ مناظرہ کرنا ہو، یا قرآن مجید کی جمع آوری کی صورت میں ہو ہر موقع پرمولا ئےکائنات نے رسول خداﷺ کے معاون و مددگار ثابت ہوئے۔
ان تمام تر صفات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے کوشش کی ہے کہ قرآن کی جمع آوری میں حضرت امام علیؑ کے کردار کا مختصرجائزہ لیں۔ ہم اپنی اس تحقیق میں رسول پاکؐ  کی رحلت کے بعد مولا ئے کائنات نے قرآن کی جمع آوری کے حوالے سے جو اقدام کیے ہیں انہیں اور کیفیتِ مصحف علیؑ و خصوصیاتِ مصحف علیؑ اور انجامِ مصحف علیؑ اور دیگر موضوعات کو پیش کریں گے۔ کیونکہ قران مجید تدریجی حیثیت سے تئیس برس کے عرصے میں رسالت مآبﷺ پر نازل ہوا۔ مختلف حالات اور واقعات کی مناسبت سےکبھی آیات اور کبھی پوری سورت آپﷺپر نازل ہوئی اور آپﷺان کی تبلیغ فرماتے تھے اور کوئی لکھنے والا جب آجاتا تھا تو اسے کاغذ،چمڑے، درخت کے پتے اسی طرح جو کچھ ملتا تھا اس پر لکھوا دیا کرتے تھے۔
لیکن عرب میں کتابت اور قرأت کا رواج بہت کم تھااور ذوقِ حفظ ان میں ترقی پرتھا۔ لہٰذا قرآن مجید کیلئے بھی شروع میں حفظ کا طریقہ اختیار کیا گیا اور بیرون ممالک میں جہاں جہاں مسلمان ہوتے وہاں قرآن کی تعلیم کیلئے معلمین کو روانہ کیا جاتاتھا۔ اور جتنا جس کو ممکن ہوتا تھا اتنا اس کو حفظ کراتے تھےلیکن یہ حفظ تنہا حفاظتِ وحی الہٰی کی ضامن نہیں بن سکتا تھا جب تک وہ کتابی شکل میں مدون اور محفوظ نہ ہو۔
اسی طرح رسول اکرمﷺ کے حکم سے جو بر وقت کتابت ہوئی تھی وہ متفرق اور غیر مرتب صورت رکھتی تھی اس لئے بعد رسولﷺ جو سب سے اہم ضرورت تھی وہ یہ ہے کہ ان اجزاء کو مرتب صورت سے کتاب کی شکل میں لایا جائے۔

فضائل قرآن بزبان قرآن
تمام آسمانی کتب کی مرکزی حیثیت رکھنے والی کتاب قرآن ہے۔ اور اس کتاب کی اس سے بڑھ کر اور کیا شان ہو سکتی ہے کہ جس کو عالمین کے رب نےرحمۃ للعالمین ہستی کےپاکیزہ قلب پر سبب ہدایت عالمین بناکر نازل کیا۔ لیکن ہماری کوشش ہے کہ ہم اس تحقیق کے اندر قرآن کی فضیلت کو قرآن ہی سےبیان کریں کہ قرآن کی آیات قرآن کے بارے میں کیا بیان کر رہی ہیں۔
بلکہ یوں کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ خود خدا نے قرآن کی کیا فضیلت بیان کی ہے۔اس میں ہم چند آیات سےقرآن مجید کے فضائل بیان کرتے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
قرآن کتاب مبین:
خدا تعالیٰ کا اپنے حبیب سے ارشاد ہوا کہ !
قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ يَّہْدِيْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ وَيُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِہٖ وَيَہْدِيْہِمْ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْم۔ ( القران الکریم: 05: 15، 16)
ترجمہ: بتحقیق تمہارے پاس اللہ کی جانب سے نور اور روشن کتاب آ چکی ہے جس کے ذریعے اللہ ان لوگوں کو امن و سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی رضا کے طالب ہیں اور وہ اپنے اذن سے انہیں ظلمتوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور انہیں راہ راست کی رہنمائی فرماتا ہے۔

قرآن راہ ہدایت:
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ !
اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ يَہْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا كَبِيْرًا۔ ( القران الکریم: 17: 09)
ترجمہ: یہ قرآن یقینا ًاس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھی ہے اور ان مومنین کو جو نیک اعمال بجا لاتے ہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔

قرآن کتاب بے مثل:
قرآن ایک لا ثانی کتاب ہے جس کے مثل کوئی بھی شخص یا گروہ یا پھر مذہب اس جیسی کتاب تو دور کی بات ایک جملہ بھی نہیں لا سکا۔ اور خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے منکروں کو چاہے وہ منکر اس زمانے کے ہوں یا رسول خداﷺ کے زمانے کے ہوں، ان کو کھلم کھلا و واضح چیلنج دیا ہے کہ آپ سب مل کر بھی اس کے مثل نہیں لا سکتے اور اسے خدا نے قرآن میں یوں بیان کیا ہے کہ!
قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِيْرًا۔ (القران الکریم: 17:88)
ترجمہ: کہدیجیئے: اگر انسان اور جن سب مل کر اس قرآن کی مثل لانے کی کوشش کریں تو وہ اس کی مثل نہیں لا سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔

قرآن کتاب مبارک :
قرآن ایک مبارک کتاب ہے اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن ایک بابرکت اور فائدہ مند کتاب ہے یعنی جو بھی اس قرآن کریم پر عمل پیرا ہوگا وہ خیرالدنیا و الآخرۃ حاصل کر لے گا۔ اس کو خدا تعالیٰ نے قرآن میں یوں بیان کیا ہے !
وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَكٌ۔ ۔۔۔ ( القران الکریم: 04: 155)
ترجمہ: اور یہ ایک مبارک کتاب ہے جو ہم نے نازل کی۔

قرآن کتاب شافی:
جیسا کہ اوپر ہم نے بیان کیا کہ جو بھی اس قرآن کے بتائے گئے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرے گا تو وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہوگا۔ اور اسی طرح قرآن مومنین (اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والے) کیلئے روحانی اور جسمانی بیماریوں کیلئے شافی بھی ہے اور اس کو قرآن میں خدا تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے !
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَشِفَاۗءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۔
ترجمہ: اور ہم قرآن میں سے ایسی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنین کے لیے شفا اور رحمت ہے۔ ( القران الکریم: 17: 82)
ان فضائل کے علاوہ اس کتاب مبین کے اور بھی فضائل اسی کتاب الہٰی میں موجود ہیں۔ لیکن ان کو سب کو اس مختصر تحقیق میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔

فضائل قرآن بزبان امام علیؑ
امام علیؑ نے قرآن کریم کے بارے میں فرمایا !
ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْهِ الْكِتَابَ نُوْرًا لَّا تُطْفَاُ مَصَابِیْحُهٗ
پھر آپؐ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی جو (سراپا) نور ہے جس کی قندیلیں گل نہیں ہوتی
وَ سِرَاجًا لَّا یَخْبُوْ تَوَقُّدُهٗ
ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی
وَ بَحْرًا لَّا یُدْرَكُ قَعْرُهٗ
ایسا دریا کہ جس کی تہہ تک رسائی نہیں
وَ مِنْهَاجًا لَّا یُضِلُّ نَهْجُهٗ
ایسی شاہراہ ہے جس میں راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی
وَ شُعَاعًا لَّا یُظْلِمُ ضَوْؤُهٗ
ایسی کرن ہے جس کی چھوٹ مدہم نہیں پڑتی
وَ فُرْقَانًا لَّا یُخْمَدُ بُرْهَانُهٗ
وہ ایسا (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والا ہے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی
وَ تِبْیَانًا لَّا تُهْدَمُ اَرْكَانُهٗ
ایسا کھول کر بیان کرنیوالا ہے جس کے ستون منہدم نہیں کئے جا سکتے
وَ شِفَآءً لَّا تُخْشٰۤی اَسْقَامُهٗ
وہ (سراسر) شفا ہے جس کے ہوتے ہوئے (روحانی) بیماریوں کا کھٹکا نہیں
وَ عِزًّا لَّا تُهْزَمُ اَنْصَارُهٗ
وہ (سراپا) حق ہے جس کے معین و معاون بے مدد چھوڑے نہیں جاتے
وَ حَقًّا لَّا تُخْذَلُ اَعْوَانُهٗ.
اور وہ سرا سر عزت و غلبہ ہے کہ جس کے یار ومددگار شکست نہیں کھاتے
فَهُوَ مَعْدِنُ الْاِیْمَانِ وَ بُحْبُوْحَتُهٗ
وہ ایمان کا معدن اور مرکز ہے
وَ یَنَابِیْعُ الْعِلْمِ وَ بُحُوْرُهٗ
اس سے علم کے چشمے پھوٹتے اور دریا بہتے ہیں
وَ رِیَاضُ الْعَدْلِ وَ غُدْرَانُهٗ
اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں
وَ اَثَافِیُّ الْاِسْلَامِ وَ بُنْیَانُهٗ
وہ اسلام کا سنگ بنیاد اور اس کی اساس ہے
وَ اَوْدِیَةُ الْحَقِّ وَ غِیْطَانُه
حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان ہے
وَ بَحْرٌ لَّا یَنْزِفُهُ الْمُسْتَنْزِفُوْنَ
وہ ایسا دریا ہے کہ جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کر سکتے
وَ عُیُوْنٌ لَّا یُنْضِبُهَا الْمَاتِحُوْنَ
وہ ایسا چشمہ ہے کہ پانی لینے والے اسے خشک نہیں کر سکتے
وَ مَنَاهِلُ لَا یُغِیْضُهَا الْوَارِدُوْنَ
وہ ایسا گھاٹ ہے کہ اس پر اترنے والوں سے اس کا پانی گھٹ نہیں سکتا
وَ مَنَازِلُ لَا یَضِلُّ نَهْجَهَا الْمُسَافِرُوْنَ
وہ ایسی منزل ہے کہ جس کی راہ میں کوئی راہرو بھٹکتا نہیں
وَ اَعْلَامٌ لَّا یَعْمٰی عَنْهَا السَّآئِرُوْنَ
وہ ایسا نشان ہے کہ چلنے والے کی نظر سے اوجھل نہیں ہوتا
وَ اٰكَامٌ لَّا یَجُوْزُ عنْهَا الْقَاصِدُوْنَ.
وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے گزر نہیں سکتے۔
جَعَلَهُ اللّٰهُ رِیًّا لِّعَطَشِ الْعُلَمَآءِ وَ رَبِیْعًا لِّقُلُوْبِ الْفُقَهَآءِ وَ مَحَاجَّ لِطُرُقِ الصُّلَحَآءِ
اللہ نے اسے عالموں کی تشنگی کیلئے سیرابی فقیہوں کے دلوں کیلئے بہار اور نیکوں کی رہ گزر کیلئے شاہراہ قرار دیا
وَ دَوَآءً لَّیْسَ بَعْدَهٗ دَآءٌ
یہ ایسی دوا ہے کہ جس سے کوئی مرض نہیں رہتا
وَ نُوْرًا لَّیْسَ مَعَهٗ ظُلْمَةٌ
ایسا نور ہے جس میں تیرگی کا گزر نہیں
وَ حَبْلًا وَّثِیْقًا عُرْوَتُهٗ
ایسی رسی ہے کہ جس کے حلقے مضبوط ہیں
وَ مَعْقِلًا مَّنِیْعًا ذِرْوَتُهٗ
ایسی چوٹی ہے کہ جس کی پناہ گاہ محفوظ ہے
وَ عِزًّا لِّمَنْ تَوَلَّاهُ
جو اس سے وابستہ ہو اس کیلئے سرمایہ عزت ہے
وَ سِلْمًا لِّمَنْ دَخَلَهٗ
جو اس کی حدود میں داخل ہوا اس کیلئے پیغام صلح و امن ہے
وَ هُدًی لِّمَنِ ائْتَمَّ بِهٖ
جو اس کی پیروی کرے اس کیلئے ہدایت ہے
وَ عُذْرًا لِّمَنِ انْتَحَلَهٗ
جو اسے اپنی طرف نسبت دے اس کیلئے حجت ہے
وَ بُرْهَانًا لِّمَنْ تَكَلَّمَ بِهٖ
جو اس کی رُو سے بات کرے اس کیلئے دلیل و برہان ہے
وَ شَاهِدًا لِّمَنْ خَاصَمَ بِهٖ
جو اس کی بنیاد پر بحث و مناظرہ کرے اس کیلئے گواہ ہے
وَ فَلْجًا لِّمَنْ حَاجَّ بِهٖ
جو اسے حجت بنا کر پیش کرے اس کیلئے فتح و کامرانی ہے
وَ حَامِلًا لِّمَنْ حَمَلَهٗ
جو اس کا بار اٹھائے یہ اس کا بوجھ بٹانے والا ہے
وَ مَطِیَّةً لِّمَنْ اَعْمَلَهٗ
جو اسے اپنا دستور العمل بنائے اس کیلئے مرکب (تیزگام) ہے
وَ اٰیَةً لِّمَنْ تَوَسَّمَ
یہ حقیقت شناس کیلئے ایک واضح نشان ہے
وَ جُنَّةً لِّمَنِ اسْتَلْاَمَ
جو (ضلالت سے ٹکرانے کیلئے) سلاح بند ہو اس کیلئے سپر ہے
وَ عِلْمًا لِّمَنْ وَّعٰی
جو اس کی ہدایت کو گرہ میں باندھ لے اس کیلئے علم و دانش ہے
وَ حَدِیْثًا لِّمَنْ رَّوٰی وَ حُكْمًا لِّمَنْ قَضٰی
بیان کرنے والے کیلئے بہترین کلام اور فیصلہ کرنے والے کیلئے قطعی حکم ہے۔
(مفتی، جعفر حسین، نہج البلاغہ (مرکز افکار اسلامی) ، خطبہ نمبر 196)

اہمیت جمع و تدوین قرآن
قرآن کی جمع و تدوین نہایت اہمیت کا حامل مسئلہ ہے۔ اس پر سیر حاصل بحث و تحقیق کی ضرورت ہے کہ قرآن قرآن قلب رسول ﷺ سے امت کی طرف کیسے منتقل ہوا؟ کیونکہ رسالتمآب ﷺ کے وصال کے بعد پیش آنے والے سیاسی و اجتماعی مسائل و حالات نے اس حقیقت کو بھی واضح کردیا کہ قرآن کی تدوین کی کیا صورتحال تھی؟
نبی اکرمﷺ کی وفات کے بعد بہت سے اصحاب نے قرآن کی جمع بندی کی بلکہ کچھ اصحاب نے تو عصرپیغمبرﷺ میں ہی قرآن کو مختلف طریقوں سے جمع کیا تھا مثلا ً حفظ کرنا لکھنا وغیرہ اور جن اصحاب نے عصر رسول میں قرآن جمع کیا ان میں سے حضرت اما م علی ؑ ، ابی ابن کعب، ابو ایوب انصاری اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اصحاب نے قرآن کو جمع کرنےکی سعادت حاصل کی ان کو ہم عنقریب بیان کریں گے۔
جیسا کہ آپ نے قرآن کی فضیلت کوملاحظہ کیا ہے، اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس قرآن کریم کی اتنی فضلیت ہے تو پھر جو اس کتاب مبین کو جمع کرے تو یہ کام اس شخص کیلئے کتنا باعث سعادت ہو گا۔

جمع قرآن کے معانی
جمع: ” الجمع” مصدر ہے جیسے ” جمعت الشیء ” میں نے اس چیز کو جمع کیا
جمع کا لغوی معنی "جمع الشیء عن تفرقۃ ” ہے یعنی کسی چیز کو متفرقات سے جمع کرنا یا اکٹھا کرنا۔ ( الانصاري الخزرجي، محمد بن مكرم بن علي ابن منظور، لسان العرب ، ج 3، ص 196، بیروت)
اور اسی طرح” الجمع” لوگوں کے جمع ہونے کو بھی کہا جاتا ہے اسی وجہ جہاں زیادہ لوگ موجود ہوں اسے مجمع کہا جاتا ہے۔ (الفراہيدي، ابي عبدالرحمن الخليل بن احمد، کتاب العین، دار ومكتبة الهلال، ج 1، ص 313)
قرآن: لفظ قرآن ” قراء ” سے مشتق ہے اور اس کا معانی ” پڑھنے ” کے ہیں ۔ ہمزہ اصل میں واؤ تھا اور مادہ” قرو ” سے ” اکٹھا کرنے ” کے معانی میں ہے۔ اس کو اس (قرو) سے اس وجہ سے ماخوذ کیا گیا ہے کیونکہ جب قاری قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے تو وہ قرآن کے الفاظ اور حروف کو اکٹھا کرتا ہے۔
اور اسی طرح مشہور لغت دان راغب اصفہانی نے کہا کہ لفظ قرآن ، غفران، رجحان، اور کفران جیسے الفاظ کی طرح مصدر ہے اور اس پر شاہد کے طور پر اس نے یہ آیت پیش کی ہے۔
اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ؕ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ کَانَ مَشۡہُوۡدًا
ترجمہ: زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب و عشاء کی) نماز قائم کرو اور فجر کی نماز بھی کیونکہ فجر کی نماز (ملائکہ کے) حضور کا وقت ہے۔ ( القران الکریم: 17: 78 ) 
لفظ قرآن کے اشتقاق کے بارے میں علماء کے مابین اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ اکثر محققین اس بات کے قائل ہیں کہ درحقیقت لفظ قرآن ” قرء ” سے لیا گیا ہے جو کہ اصل میں قرو تھا۔

جمعِ قرآن کا اصطلاحی معنی :
اصطلاح میں جمع قرآن چار معنوں میں استعمال ہوا ہے جو کہ درج ذیل ہیں۔
1۔ قرآن کو لوح قلب میں حفظ کرنا۔ باالفاظ دیگر قرآن کو حفظ کرنا۔ اسی لیے حفاظ قرآن کو جماع القرآن بھی کہا جاتا ہے۔
2۔ آیات اور سورتوں کو بالترتیب کتابت کر کے کتابی شکل میں لانا۔
3۔ آیات اور سورتوں کو بالترتیب کتابت کرکے کتابی شکل میں مدون کرنا۔
4۔ قرآن مجید کی متعدد قرائتوں میں سے صرف ایک قرآت پر تمام لوگوں کو متفق و اکٹھا کرنا۔
ان چارمعانی کو ہم مختصر طور پر بیان کرتے ہیں۔
معنی اول: پہلے معنی کے مطابق قلب رسول اکرم ﷺ قلوب آل نبی ﷺ اور قلب اصحاب میں قرآن موجود تھا۔
معنی دوم : دوسرے معنی کے مطابق بھی عصر رسالت مآب ﷺ میں جمع کردہ قرآن مختلف صحیفوں کی شکل میں موجود تھا۔
معنی سوم : جمع قرآن اس معنی کے مطابق بھی عصر رسالت میں ہی متحقق ہو چکا تھا۔
معنی چہارم : جمع قرآن کےاس معنی کو عصر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حقیقت بخشی گئی۔ یعنی تمام لوگوں کو ایک ہی قرات پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کاربند کیا گیا تھا۔

عصر رسول اکرم ﷺ میں قرآن کی جمع آوری

حفظ قرآن، اس کی سلامتی اور تمام لوگوں کی جانب اس کی تبلیغ کا سب سے زیادہ خیال رسول ﷺ کو تھا اور اس بات کی جانب قرآن کریم میں بھی اشارہ کیا گیا ہے کہانا نحن نزلنا الذكر وَ اِنّا له لحافظون بے شک ہم ہی نے اس ذکرقرآن کو نازل کیا ہے اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ ( القران الکریم: 15: 09)
نیز آپﷺ کی بعثت سے لے کر وفات تک کی سیرت طیبہ بھی اس پردلالت کرتی ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی موقع ملا آپ اپنے پاس موجود کئی صحابہ کوقرآن کےلکھنے اور اسے سکھانے کی تاکید کرتے رہے اور انہیں اس بات کی طرف دھیان دینے کی ترغیب دی،صرف یہی نہیں بلکہ آپ نےاپنے کئی صحابہ کرام کولوگوں کی طرف قرآن سکھانے کے لئے بھیجا۔ عبادہ ابن صامت بیان کرتے ہیں: ” جب کوئی شخص ہجرت کرتاتھا تورسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو ہم میں سے کسی ایسے شخص کے پاس بھیج دیتے جو اس کو قرآن سکھا تا۔ اس مقام پر ہجرت سے مراد مدینہ کی جانب ہجرت کر کے اسلام قبول کرنا ہے۔
اس کے علاوہ اہل سنت کی احادیث میں ملتا ہے کہ:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا، يَقُولُ:جَمَعَ الْقُرْآنَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرْبَعَةٌ، كُلُّهُمْ مِنَ الْأَنْصَارِ: مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَبُو زَيْدٍ، قَالَ قَتَادَةُ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: مَنْ أَبُو زَيْدٍ؟ قَالَ: أَحَدُ عُمُومَتِي۔ ( نیشاپوری، امام ابو الحسن مسلم ابن حجاج، صحیح المسلم، ج 09 ، ص 314، ناشر نور فاؤنڈیشن)
شعبہ نے قتادہ سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ ﷺ کےعہد میں چاراشخاص نے قرآن مجید جمع کیا اور وہ سب کے سب انصار میں سے تھے: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ قتادہ نے کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: ابو زید کون؟ فرمایا: وہ میرے ایک چچا ہیں۔تو کیا ان باتوں سےا یسالگتا ہے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کے لئے جو اہتمام کیا اس میں آپ کے صحابہ آپ سے سبقت کرگئے ہوں گے؟!! (ہرگز نہیں!)
اہلبیت علیہم السلام کی روایتیں یہ بیان کرتی ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے نصوص قرآنی کوجمع فرمایا اور اسے اپنے بستر کے پیچھے رکھ دیا۔
امام جعفرصادق ؑ فرماتے ہیں: رسول خدﷺنےحضرت علی ؑسے فرمایا اے علیؑ میرے بستر کے پیچھے رکھے ہوئے مصحف حریر اور کاغذوں میں قرآن ہے، لہٰذا تم انہیں لے لو اور انہیں اس طرح سے ضائع مت کرنا جس طرح کہ یہودیوں نے توریت کو ضائع کر دیا تھا۔ چنانچہ حضرت علیؑ نے وہاں جا کر سب کچھ سبز کپڑے میں یکجا کر لیا اور اس کے بعد آپ نے اُس پر مہر لگا کر اپنے گھر میں رکھ دیا اور کہنے لگے کہ جب تک میں اس کو یکجا نہ کرلوں، چین سے نہیں بیٹھوں گا۔
( مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی بحار الانوار، ج 92، ص 38، بیروت)
ابن شہر آشوب (متوفی ۵۸۸ھ) نے ابورافع قبطی (متوفی ۴۱ھ) کی روایتوں سے جونقل کیا ہے اُسے لفظ بہ لفظ یہاں نقل کیا جاتا ہے: ”آنحضرت ﷺ نے مرض الموت میں حضرت علیؑ سے فرمایا: اے علی ؑ، یہ اللہ کی کتاب ہے اور تم اسے اپنے پاس رکھ لو؛ چنانچہ حضرت علی ؑنے ایک کپڑے میں اسے یکجا کیا اور اپنے گھر کی جانب چلے گئے۔ چنانچہ جب نبی اس دنیا سے کوچ کیا تو حضرت علیؑ نے اپنے آپ کو اس کام کے لئے وقف کر دیا جس طرح اللہ نے اسے نازل کیا تھا ویسے ہی اس کی تالیف کر دی اور آپ اس کا صحیح علم رکھتے تھے۔
( المکی الخوارزمی، الموفق بن احمد بن محمد، المناقب ج 2 ص 41، ناشرالمؤسسہ النشر اسلامی)
سوچ و بچار بھی اس نظریہ کی تائید کرتی ہے، اس لئے کہ عقلاً یہ کیونکر ممکن ہے کہ مسلمانوں کے نبی نص قرآن سے بے اعتنائی برتیں حالانکہ انہیں اس بات کا علم تھا کہ ہر صحابی اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا ہے یا قدرتی موت آئے گی؟ لہٰذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شروع ہی سے نص قرآنی کی جمع آوری کی گئی ہو جس طرح کہ اہلبیت علیہم السلام سے مروی روایتیں اُس کی وضاحت کرتی ہیں اگر چہ اُسلوب جمع آوری ہمارے لئے آج بھی نامعلوم ہے اور اِس بات کی تائید وہ تمام روایتیں کرتی ہیں جومل کر یہی کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن سیکھنے اور اُس کے سکھانے،قرآت قرآن اور اس کے آداب سیکھنے کی ترغیب دلائی اور اس بات کی بھی ترغیب دلائی کہ مخصوص سورتوں کے مخصوص یا مختلف نام رکھے جائیں۔
اسی طرح سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کا اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کا خاص اہتمام کرنے بنفس نفیس آپ کی سرپرستی میں ہی ایسا ہوا تھا اور جب آپﷺ اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے تو قرآن کوجمع کرنےوالے پہلو کا گہرائی سے مطالعہ کرنے والا وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ کے عہد ہی میں قرآن کو جمع کر لیا گیا تھا، بلکہ کر لیا گیا تھا اور وہ مسلمانوں کے درمیان معروف ہو چکا تھا کہ قرآن کو سیکھنے اور سکھانے کے لئے تمام مسلمان اسی کی طرف رجوع کرتے تھے۔ البتہ روایتوں میں اس رائے کا اظہار وضاحت کے ساتھ نظر نہیں آتا۔
ایک اور چیز جو اس بات کی تائید کرتی ہے کہ عہد رسولﷺ میں اور آپ کی سر پرستی میں ہی قرآن جمع کر لیا گیا تھا وہ یہ ہے کہ اگر چہ صحابہ کے قرآنی نسخے باہم مختلف ہیں مگر تعداد کے اعتبار سے ترتیب قرآن میں سب ایک ہیں اور ان سب نسخوں کے شروع میں طویل سورتیں ہیں،ان کے بعد ان سے چھوٹی اور پھر ان سے چھوٹی یعنی اُن کی شروعات سبع طوال سے ہوتی ہے جبکہ ان کا اختتام مفصلات پر ہوتا ہے۔چنانچہ قرآنی نسخے سورتوں کی تقدیم و تاخیر کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بے حد مختلف ہیں، لیکن اس بات میں اُن میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ان سب میں بڑی سورتیں پہلے ہیں اور چھوٹی چھوٹی سورتیں ان کے بعد خواہ ان کے نزول کی تاریخ کوئی بھی ہو اور چاہے وہ سورہ مکی ہو یا مدنی۔ اگر یہ ترتیب آپﷺ کی سر پرستی میں نہ دی گئی ہوتی تو صحابہ کے قرآنی نسخے اس سلسلہ میں بھی باہم مختلف ہوتے اور اس بات کی تائید کئی دلیلوں سےہوتی ہے:
پہلی دلیل: امام بخاری کی روایت: ”براء سے منقول ہے کہ جب یہ آیت لا يستوى القاعدون من المؤمنين والمجاهدون فی سبیل اللّٰہ نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا زید کو بلایا اور اسے کہاکہ میرے پاس قلم، دوات اور کاغذوں کا پلند ا لے آئے یا (یوں کہا) اسے میرے پاس بلاؤ اور اسے کہو کاغذوں کا پلندا اور دوات لے آئے۔ پھر آپ نے فرمایا لکھو” لا يستوى القاعدون ” ( القران الکریم: 04: 95)،تو آپ کی پشت کے پیچھے موجود عمر و ابن ام مکتوم جونا بینا تھے نے کہا: اے اللہ کے رسول، آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں جبکہ میں تو وہ شخص ہوں جو بصارت سے معذور ہے تو اس مقام پر یہ آیت نازل ہوئی۔
دوسری دلیل: ابن عباس سے مروی ہے: رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کبھی ایسا وقت بھی آتا تھا کہ آپ پر متعد دسورتیں نازل ہوتی تھیں، چنانچہ جب آ پ پر ایسی کوئی وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کسی کا تب کو بلاتے اور ان آیات کو اُس سورت میں جگہ دو کہ جس میں اس اس طرح سے ذکر ہوا ہے” ترمذی کہتا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے، جبکہ حاکم کہتا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے بشرطیکہ شیخین نے اس کو خارج نہ کر دیا ہو۔  ( زرکشی، بدر الدین محمد بن عبداللہ، البرهان فی علوم القرا ن ، ج 1، ص 24، ط یونان)
تیسری دلیل: قرآن کی جمع آوری سے متعلق تقریباً ساری روایتیں جس شخص کی جانب منتہی ہوتی ہیں وہ زید ابن ثابت ہیں اور ان روایتوں میں اُن کا بہت نمایاں تذکرہ ملتا ہے؛ وہ بالکل واضح طور پر کہتے ہیں: "ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں موجودرہ کر رقعوں سے قرآن کی تالیف کیا کرتے تھے۔ یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ تالیف قرآن رقعوں سے کی گئی یعنی ان چھوٹے چھوٹے کتابچوں سے جو متعد د سورتوں پر مشتمل تھے اور ان کو رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سر پرستی میں ہی حاصل کر لیا گیا تھا۔ چنانچہ وہ بھی یہی وضاحت کرتے ہیں کہ ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے یعنی اُن کے سامنے اور اُن کے حضور میں۔
چوتھی دلیل: ہجرت سے قبل مکہ میں مسلمان مخفی طور پر قرآن کی تلاوت کرتے اور اُسے سیکھتے اور خلیفہ ثانی حضرت عمر ابن خطاب نے بھی اپنی بہن اور ان کے شوہر کے اسلام قبول کر لینے کے بعد اسی طرح یہ کہتے ہوئے اسلام قبول کیا تھا کہ مجھے یہ کتاب دے دو جو تمہارے پاس ہے تا کہ میں اُسے پڑھوں۔ ۔۔ اس کے بعد آپ نے وہ کتاب لے کر اُس کو پڑھنا شروع کر دیا۔ (ابن سعد نے الطبقات، جلد ۳، صفحہ ۲۶۸ میں اس روایت کو نقل کیا ہے) 
یہ روایت بھی بالکل واضح ہے کہ قرآن تحریری صورت میں تھا اور یہ پڑھنے اور تحقیق کا عنوان بن چکا تھا، حضرت عمر ابن خطاب نے اس تحریر شدہ قرآن کو طلب کیا اور اُسے لے کر اس تحریر شدہ قرآن میں سے سورہ طہ کو پڑھنا شروع کر دیا، جبکہ اگر تحریری صورت میں نہ ہوتا تو یہ تعبیر صحیح نہ ہوتی اور یہ بھی بالکل واضح ہے کہ یہ تعبیر اُن کے اسلام قبول کرنے اور خلیفہ بننے سے پہلے کی ہے۔

عصر رسول کے بعد قرآن کی جمع آوری
اگرچہ قرآن عصر رسالتﷺ ہی میں امت کے حوالے ہو چکا تھا اور پورا قرآن امت کے پاس موجود تھا لیکن اس کا محمدی نسخہ بیت محمد مصطفی ﷺمیں محفوظ تھا۔ اس نسخے کے وارث علی بن ابی طالبؑ  تھے۔
حضرت امام علیؑ  فرماتے ہیں کہ:
وَ لَقَدْ كُنْتُ أَتَّبِعُهُ اِتِّبَاعَ اَلْفَصِيلِ أَثَرَ أُمِّهِ يَرْفَعُ كُلَّ يَوْمٍ لِي عَلَماً مِنْ أَخْلاَقِهِ وَ يَأْمُرُنِي بِالاِقْتِدَاءِ بِهِ وَ لَقَدْ كَانَ يجاوز [يُجَاوِرُ] فِي كُلِّ سَنَةٍ بحرا ]بِحِرَاءَ [فَأَرَاهُ وَ لاَ يَرَاهُ غَيْرِي وَ لَمْ يَجْمَعْ بَيْتٌ وَاحِدٌ يَوْمَئِذٍ فِي اَلْإِسْلاَمِ غَيْرَ رَسُولِ اَللّٰهِ صَلَّى اَللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ خَدِيجَةَ وَ أَنَا ثَالِثُهُمَا أَرَى نُورَ اَلْوَحْيِ وَ اَلرِّسَالَةِ وَ أَشَمُّ رِيحَ اَلنُّبُوَّةِ وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ اَلشَّيْطَانِ حَتَّى نَزَلَ اَلْوَحْيُ عَلَيْهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اَللّٰهِ مَا هَذِهِ اَلرَّنَّةُ فَقَالَ هَذَا اَلشَّيْطَانُ قَدْ أَيِسَ مِنْ عِبَادَتِهِ إِنَّكَ تَسْمَعُ مَا أَسْمَعُ وَ تَرَى مَا أَرَى إِلاَّ أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ وَ لَكِنَّكَ وَزِيرٌ وَ إِنَّكَ لَعَلَى خَيْرٍ۔ ۔۔ ( ابن طاووس، علی بن موسی، الطرائف فی معرفۃ مذہب الطوائف، ج 2، ص ، مطبعۃ الخیام قم، ایران)
اور میں آپ ﷺ کے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے۔ آپ ہر روز میرے لیے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند فرماتے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے اور ہر سال کچھ عرصے کے لیےغارحرا میں قیام فرماتے تھے۔ وہاں آپ ﷺ کو میرے علاوہ کوئی نہیں دیکھتا تھا اس وقت رسول اللہ ﷺ اورام المومنین ( حضرت خدیجہ)س کے گھر کے علاوہ کسی گھر کی چار دیواری میں اسلام نہیں تھا اور میں ان میں کا تیسرا تھا۔ میں وحی و رسالت کا نور دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو سونگھتا تھا۔ جب آپ ﷺ پرپہلے پہل (وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی، جس پر میں نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ آواز کیسی ہے؟ تو آپ ﷺ نے بتایا: یہ شیطان ہے جو اب اپنے پوجے جانے سے مایوس ہو گیا ہے۔)اے علی (جو میں سنتا ہوںوہ تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتاہوں وہ تم بھی دیکھتے ہو، فرق بس اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو، بلکہ میرے وزیر و جانشین ہو اور یقیناً بھلائی کی راہ پر ہو۔
اس کے علاوہ حضرت امام علیؑ  نے فرمایا کہ:
ما نزلت آیۃ الا و انا علمت فیمن نزلت و این نزلت و علی من نزلت، ان ربی وھب لی قلبا عقولا و لسانا طلقاً۔(عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، ص 1 ص 17، ط تہرا ن) 
حضرت علیؑ نے فرمایا: کوئی آیت ایسی نہیں اتری مگر یہ کہ مجھے علم ہے کہ کس سلسلے میں اتری اور کہاں اتری اور کس کے بارے میں اتری۔ یقینا ًمیرے رب نے مجھے ایک عقلمند دل اور فصیح زبان عنایت فرمائی ہے۔
ان کے علاوہ اور بھی روایات بہت سی کتب میں ذکر ہوئی ہیں جو اس بات پر دالالت کرتی ہیں کہ قرآن کریم کا مکمل علم رسول خدا کے بعد صرف ایک ہستی کے پاس تھا اور وہ ذات حضرت امام علیؑ تھے۔

تدوین قرآن اور حضرت علیؑ
امیر المومنینؑ کا پہلا علمی و دینی کارنامہ جو پیغمبر اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد ظاہر ہوا وہ قرآن کی ترتیب اورجمع آوری تھی۔ اگرچہ جو آیات نازل ہوتیں تھیں بعض صحابہ اسے ضبط تحریر میں لے آتے تھے مگر یہ آیتیں درخت، خرما کی چھال، لکڑی اور چمڑے کے ٹکڑوں پر لکھی جاتی تھیں جنکا کوئی نظم وضبط نہیں تھا تو اس کام کی ضرورت تھی کہ ان متفرق اجزا کو ترتیب نزول کے مطابق یکجا کردیا جائے، چنانچہ اس ضرورت کو حضرت امیرالمومنینؑ نے محسوس کیا اور تمام مشاغل سے دستبردار ہو کر ہمہ تن قرآن کی ترتیب و تدوین پر مکمل توجہ دی اور اسے ترتیب نزول کے مطابق جمع کرکے قرآن کی بنیادی ضرورت کی تکمیل کی۔
محمد بن سیرین حضرت امام علیؑ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
آلَيْتُ يَمِيناً أَنْ لاَ أَرْتَدِيَ إِلاَّ لِلصَّلاَةِ حَتَّى أَجْمَعَ اَلْقُرْآنَ۔ ( مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی،بحار الانوار، جلد 28، ص 189،ط بیروت)
ترجمہ: آپؑ نے فرمایا کہ میں قسم کے ذریعے اپنے اوپر یہ پابندی عائد کرلی ہے کہ نماز کے علاوہ عبا نہ اوڑھوں گا جب تک میں قرآن جمع نہ کر لوں۔
ترتیب نزولی کے مطابق قرآن کی جمع آوری وہی کر سکتا تھا جو ترتیب آیات سے اس طرح آشنا ہو جیسے آشنا ہونے کا حق ہوتا ہے اور وہ شخصیت بعد از پیغمبر اکرمﷺ صرف امیرالمومنینؑ ہی کی تھی۔ ان کے علاوہ تاریخ میں کوئی ایسا فرد نہیں تھا جو ہر آیت سے اس طرح واقف ہو اور ترتیب نزول کا تفصیلی علم رکھتا ہو۔آپؑ ہر آیت کے شان نزول، محل نزول، اور وقت نزول سے مکمل طور پر آگاہ تھے اور جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی تھی تو آپ اسے قلمبند کر لیتے تھے۔ اس کے بارے میں آپ نے خود فرمایا :
ان کل ایۃ انزلنھا عللی نبیہ عندی باملاء رسول اللہ ﷺو خط یدی۔ ( عاملی، شیخ حر، فصول، ص 65 (مؤسسہ معارف اسلام امام رضاؑ)
ترجمہ: خدا وند عالم نے جو آیت اپنے نبی پر نازل کی وہ میرے پاس ہے جسے رسول اللہﷺ نے لکھوایا اور میں نے اسے قلمبند کیا۔
اس کے علاوہ آپؑ نے پیغمبراکرمﷺ کی زمدگی میں ہی قرآن مجید حفظ کر چکے تھے اور وہ حفظ اسی ترتیب کے مطابق ہو گا جس ترتیب سے قرآن خدا کی طرف سے رسول اکرمﷺ پر نازل ہوا تھا لہٰذا تو چونکہ آپؑ ترتیب نزولی کے مطابق حافظ قرآن تھے تو آپ نے قرآن کو بھی ازسر نو ترتیب سے جمع کیا تھاجس ترتیب سے قرآن نازل ہوا تھا۔علامہ سیوطی اس بارے میں فرماتے ہیں۔
و قد ورد عن علیؑ انہ جمع قران علی ترتیب النزول عقب موت النبیﷺ۔ ( سیوطی،علامہ جلا الدین،الاتقان فی علوم القرآن،ج1، ص 74، ط لٹل سٹارپرنٹرز)
ترجمہ: حضرت امام علیؑ سے وارد ہوا ہے کہ آپؑ نے پیغمبر اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد ترتیب نزول کے مطابق قرآن مجید جمع کیا۔

مصحف علیؑ کی خصوصیات
آپؑ کا جمع کردہ قرآن یقینا ان تمام فوائد و خصوصیات کا مکمل طور پہ حامل ہوگا جو کسی کتاب کے برقرار رہنے پر مرتب ہو سکتے ہیں بہتر تو یہی تھا کہ اسی ترتیب کو قائم رکھا جاتا اور مصھف علیؑ کو ہی زمانے میں رائج کیا جاتا چونکہ پیغمبر کے بعد قرآن کا سب سے زیادہ علم صرف امیرالمومنین کے پاس ہی تھا اور وہ مصحف تمام مصاحف سے اعلیٰ درجے کا سند کے لحاظ سے بھی اور خصوصیات کے لحاظ سے بھی، اب ویسے تو میری کیا مجال کے ہم مصحف علیؑ کی خصویات بیان کریں لیکن کوشش کرتے ہیں کہ کچھ خصوصیات آپ کی نذر کر سکیں، جو کہ درج ذیل ہیں۔
1۔حضرت امام علیؑ نے جس قرآن کو جمع کیا تھا اس میں آیات اور سورتوں کی دقیق ترتیب کا خیال رکھا گیا تھا۔ یعنی ترتیب وہی نزولی تھی گویا کہ مصحف امام علیؑ میں مکی سورتوں کو پہلے اور مدنی سورتوں کو بعد میں لکھے گئے تھے۔ اسی وجہ سے مصحف امام علیؑ کو پڑھنے والے آیات اور سورتوں کے تاریخی مراحل کو اچھی طرح سمجھ سکتے تھے یہی وجہ ہے کہ مصحف امام علیؑ کے ذریعے سے احکام خدا کی خارجہ بندی اور ناسخ اور منسوخ کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا تھا۔
2۔مصحف امام علیؑ  میں آیات کو قرات رسول خداﷺ کے مطابق درج کیا گیا تھا۔ کیونکہ یہی سب سے اصلی قرأت تھی۔ اس میں کسی قسم کی اختلاف کی گنجائش نہیں تھی۔اس اعتبار سے اس مصحف کے ذریعے قرآنی مطالب کا سمجھنے کے ساتھ ساتھ تفسیر تک رسائی بھی ایک آسان امر تھا۔ یہی ایک ایسی چیز ہے جو خاص اہمیت کے حامل ہے کیونکہ بسا اوقات قرأت کا اختلاف بعض مفسرین کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے۔لیکن مصحف امام علیؑ میں ایسے کوئی خطرہ نہیں تھا۔
3۔مصحف حضرت امام علیؑ میں تنزیل اور تاؤیل دونوں کا تذکرہ تھا یعنی اس مصحف میں آیات اور سورتوں کونزول کی مناسبتوں کو حاشیے میں درج فرمایا تھا۔اور ان کی ضروری وضاحت بھی کی گئی تھی اور یہ حاشیے معانی قرآن کو سمجھنے کیلئے بہت اہمیت کے حامل تھے۔ اسی طرح اس قرآن میں تنزیل کے ساتھ ساتھ تاؤیل کا بھی ذکر تھا۔ اور یہ تاؤیلیں اجمالی طور پر خاص مقام پر نازل ہونے والی آیتوں کی شرح کے طور پرحاشیہ پر تحریر کی گئی تھیں۔انکے ذریعے آیات کےمطالب کو سمجھنے میں مزید آسانی ہوتی تھی۔حضرت علیؑ نے خود اس سلسلے میں فرمایا ہے کہ:ولقد جئتھم بالکتاب مشتملا علی التنزیل والتاؤیل ۔ ترجمہ: بتحقیق میں نے ایک ایسی کتاب لائی ہے جو تنزیل اور تاؤیل پر مشتمل ہے ( معرفت،علامہ محمد ھادی،تلخیص التمھید،ج1،ص143،ط الثانیہ)۔

مصحف علیؑ کی کیفیت
حضرت امام علیؑ نے رسول خدا ﷺ کی وفات کے بعد سات اجزاء میں قرآن کو جمع فرمایا تھا۔ ہر جز ء پندرہ یا سولہ سوروں پر مشتمل تھا۔ یوں کل ایک سو گیارہ سورے بنتے ہیں۔ اور ہر جز ءآٹھ سو چھیاسی آیات پر مشتمل تھے۔ اسی طرح کل آیات چھ ہزار دوسو دو بنتی ہیں۔ ( معرفت،علامہ محمد ھادی،تلخیص التمھید،ج1،ص144،ط الثانیہ)
جزء اول: پہلا جزء سورہ بقرہ سے شروع ہوتا ہے پھراس کے بعد سورہ یوسف پھر سورہ عنکبوت اسی طرح سورہ اعلی اور بینہ پر اختتام ہوتا ہے اس جز کو جزء بقرہ نام رکھا گیا ہے۔ اور یہ جزء پندرہ سوروں پر مشتمل ہے۔
جزء دوم: دوسرا جزء سورہ آل عمران سے شروع ہوتا ہے پھر اس کے بعد سورہ ہود پھر سورہ الحج اسی طرح سورہ فیل اور قریش پر اختتام ہوتا ہے۔ اس جزء کا نام جزء آل عمران رکھا ہے۔اور یہ جزء سولہ سوروں پر مشتمل ہے۔
جزء سوم: یہ جزء سورہ النساء سے شروع ہوتا ہے اور سورہ النمل پر ختم ہوتا ہے۔ اس جزء کو جزء النساء نام رکھا گیا ہے۔ اور یہ جزء سولہ سوروں پر مشتمل ہے۔
جزء چہارم: یہ جزء سورہ المائدہ سے شروع ہوتا ہے اور سورہ الکافرون پر اختتام ہوتا ہے۔ اور یہ جزء پندرہ سوروں پر مشتمل ہے۔ اور اس جزء کو المائدہ نام رکھا گیا ہے۔
جزء پنجم: یہ جزء سورہ الانعام سے شروع ہوتا ہے اور سورہ التکاثر پر اختتام ہوتا ہے۔ اور یہ جزء سولہ سوروں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح اس جزء کو الانعام نام دیا گیا ہے۔
جزء ششتم: یہ جزء سورہ الاعراف سے شروع ہوتا ہے اور سورہ النصر پر اختتام ہوتا ہے۔ اور یہ جزء کل سولہ سوروں پر مشتمل ہے۔ اور اسی طرح اس جزء کو الاعراف نام دیا گیا ہے۔
جزء ہفتم: یہ جزء سورہ الانفال سے شروع ہوتا ہے اور سورہ الناس پر اختتام ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ جزء پندرہ سوروں پر مشتمل ہے۔اور اس جزء کا نام الانفال رکھا گیا تھا۔
اسی طرح امام علی ؑ نےسات اجزاء میں قرآن جمع کیا تھا جن میں سےہر جزء بڑی سوروں میں سے کسی ایک کے ذریعے شروع کرکے چھوٹی سوروں میں سے کسی ایک پر اختتام کیا جاتا ہے۔ اور ہر جزء کو ابتداء ہونے والے سورہ کے ذریعے نام دیا گیا ہے۔ ( الحسینی الجلالی، سید محمد حسین، قرآن شناسی، ص104، ط العبا پرنٹر پاکستان چوک کراچی )

مصحف امام علیؑ کا انجام
حضرت علیؑ  نے قرآن کو زرد ریشم پر تحریر فرمایا اور ایک اونٹ پر لاد کر مسجد نبوی میں موجود اصحاب کے سامنے پیش کیا اور فرمایا:
قال رسول اللّٰہ:انی مخلف فیکم ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا، کتاب اللّٰہ و عترتی اھل بیتی، و ھذا الکتاب و انا العترۃ
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب، دوسری میری عترت اہل بیتؑ۔ لہٰذا یہ ہے کتاب اور میں عترت ہوں۔ ( مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار ج 40: ص 155، ط بیروت)
جواب ملا: اگر آپؑ کے پاس کتا ب ہے تو ہمارے پاس بھی کتاب ہے۔ چنانچہ آپؑ حجت تمام کر کے واپس تشریف لے گئے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ امت کے پاس قرآن کا کوئی نسخہ موجود نہ ہو، اس کے باوجود اصحاب اس نسخہ محمدی کو رد کر دیں؟
اگر قرآن کا کوئی نسخہ امت کے پاس موجود نہیں تھا تو اس نسخہ محمدی کو رد کرنا ناقابل فہم ہے اور اگر دیگر قرآنی نسخے موجود تھے تو یہ کہنا کہ قرآن زید بن ثابت نے جمع کیا، ناقابل فہم ہے۔
اگرچہ فی الواقع دونوں صورتوں میں اس نسخہ محمدی کو رد کرنا ایک المیہ ضرور ہے۔ زرقانی کہتے ہیں:
لا ضیر فی ہذا البحث ان یقال: ان علیا اول من جمع القرآن بعد رسول اللہ۔
اس بحث میں اس بات کے ماننے میں کوئی حرج نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے پہلے علیؑ نے قرآن جمع کیا ہے۔ (الزرقانی، محمد عبدالعظیم، مناھل العرفان فی علوم القران ، ج 1: ص 247، ط ثالثہ (الناشر: مطبعة عيسى البابي الحلبي وشركاه)
کس قدر مقام تعجب ہے کہ جس طرح مستشرقین یہ ثابت کرنے کے لیے کہ قرآن زمان رسول ﷺ میں جمع نہیں ہوا تھا، لفظ جمع، سے جو بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قرآن جمع ہوا تھا، حفظ مراد لیتے ہیں۔ یعنی عصر رسول للہ ﷺ میں قرآن حفظ ہوا تھا، جمع نہیں ہوا تھا، بالکل اسی طرح بعض علمائے اسلام حضرت علی ؑ کے جمع قرآن کے بارے میں جو روایات میں لفظ جمع آیا ہے اسے حفظ کے معنی میں لیتے ہیں۔ یعنی آپؑ نے سینے میں حفظ کر لیا تھا۔ (ملاحظہ کیجیے مقدمہ تفسیر بیضاوی وغیرہ) تاکہ یہ ثابت ہی نہ ہو سکے کہ حضرت علی ؑ نے قرآن جمع کیا تھا اور اسے رد کیا گیا۔ و لیست ھذہ اول قارورۃ کسرت فی الاسلام، حالانکہ حضرت علیؑ نے نسخۂ محمدی کی تدوین کے بعد ایک اونٹ پر لاد کر مسجد نبویؐ میں اسے اصحاب کے سامنے پیش کیا تھا اور اس واقعہ کو تمام مورخین نے لکھا ہے اور ڈاکٹر آتھر جفری بھی مانتے ہیں کہ علیؑ نے قرآن کی تدوین فرمائی تھی۔ ( ابن ابی داؤد، المصاحف، ص 05)

مصحف امام علیؑ کہاں ہے؟
پوری ذمہ داری کے ساتھ تو کوئی نہیں کہ سکتا کہ اب حضرت علی علیہ السلام کا مصحف کہاں ہے۔لیکن ایسے کچھ نسخے محفوظ تھے یا ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت علی علیہ السلام کے دست مبارک سے تحریر کردہ ہیں۔
ابن ندیم نے اپنی مشہور کتاب الفہرست میں لکھا ہے:
میں نے اپنے زمانے ۳۷۷ھ میں ابو یعلی حمزہ حسنی کے پاس قرآن کا ایک نسخہ دیکھا جس کے کچھ اوراق موجود نہیں تھے۔ یہ قرآن حضرت علی ابن ابی طالب کے دست مبارک کا لکھا ہوا تھا اور یہ اولاد حسن میں پشت در پشت میراث میں چلا آرہا ہے۔ (نجفی، شیخ محسن علی، تفسیرالکوثر، ج1، ص137، جامعۃ الکوثر پاکستان)
مقریزی کہتے ہیں:
۵۱۶ھ میں فاطمی وزیر مامون بطائحی نے ایک قرآن جو حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ کا لکھا ہوا تا، جامعہ عتیق مصر میں محفوظ کر لیا۔  (خطوط مقریزی) (محمود رامیار، تاریخ القرآن ، ص 374 ناشر شرکت سهامی نشر اندیشه) 
علاوہ ازیں ترکی میں کتاب خانہ صوفیہ میں حضرت علی علیہ السلام کے دست مبارک کا لکھا ہوا ایک قرآن دو جلدوں میں موجود ہے۔
نجف اشرف میں روضۂ امیر المؤمنین علیہ السلام میں ایک نسخۂ قرآن آپ کے ہاتھ کا لکھا ہوا موجود تھا جو بعد میں ضائع ہو گیا۔ (حوالہ سابق)
جناب زنجانی اپنی کتاب تاریخ القرآن میں لکھتے ہیں:
ورأیت فی شھر ذی الحجۃ سنۃ ۱۳۵۳ھ فی دار الکتب العلویۃ فی النجف الأشرف مصحفاً بالخط الکوفی کتب علی آخرہ:کتبہ علی بن ابی طالب فی سنۃ اربعین من الہجرۃ، لتشابہ ابی و ابو فی رسم الخط الکوفی قد یظن من لا خبرۃ لہ انہ کتب علی بن ابو طالب بالواو۔
ترجمہ: ۱۳۵۳ھ کے ماہ ذی الحجۃ الحرام میں نجف اشرف کے دارالکتب العلویہ میں خط کوفی میں ایک قرآن میں نے دیکھا جس کے آخر میں تحریر تھا کہ اسے ۴۰ھ میں علی ابن ابی طالب نے لکھا۔ کوفی رسم الخط میں ابی اور ابو تقریباً ایک جیسے ہی لکھے جاتے ہیں اس لیے بے خبر لوگ اسے ابو طالب پڑھتے ہیں۔

نتیجہ: ان ساری باتوٰں کو بیان کرنے بعد ہمارے نزدیک یہ معلوم ہوا کہ جس ترتیب سے قرآن مجید نازل ہوا تھا اسی ترتیب سے واقف بعداز رسول خداﷺ صرف مولا کائناتؑ کی ذات تھیں اور پیغمبر اکرمﷺ کی رحلت کے بعد سب سے پہلے قرآن کو ترتیب نزول کے مطابق جمع فرمایا۔ اگرچہ حیات پیغمبر اکرمﷺ میں ہی مولا نے قرآن کو حفظ کرلیا تھا۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے