محقق: حسن رضا روحانی
دوستی سے متعلق اسلام کا نظریہ
عام طور سے دوستی خود سے ہی ہو جاتی ہے، جب مختلف افراد ایک دوسرے سے ملتے ہیں، تو ان کے درمیان ہر کوئی اپنے ہم فکر اور ہم خیال شخص کو دوست بنا لیتا ہے۔ دنیا کے مختلف مذاہب میں سے کوئی بھی اس موضوع پر کوئی خاص نظریہ نہیں رکھتا ہے۔ صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے کہ جس نے اس موضوع کو بھی بڑی اہمیت دی ہے، اور دوست اور دوستی سے متعلق اپنا خاص نظریہ بھی ظاہر کیا ہے اور اس دوستی (رفاقت) کو بھی دینی چیزوں میں شمار کرتے ہوئے دوست کو دینی بھائی کہا ہے۔ ساتھ ہی دوستی کے اصول اور ضوابط بھی معین کئے ہیں۔بہترین دوست
دوست تو کئی قسم کے ہوتے ہیں، لیکن اسلامی نقطۂ نظر سے بہترین دوست وہ ہے کہ جس کو دیکھنے سے خدا کی یاد آجائے۔ یعنی نیک کاموں اور خدا کی اطاعت میں معاون اور مددگار ہو۔ اور وہی دوستی پائیدار اور دنیا و آخرت میں مفید ہوتی ہے جو اسلامی اقدار کے تحت اور دینی اصول پر قائم ہو۔ بہترین دوست وہی ہے جو عیوب کی مخلصانہ طور پر اصلاح کرے، ترقی کے حصول میں مدد کرے، دوست کی حفاظت کرے اور مشکل مراحل میں اس کا ساتھ دے۔ چونکہ دوست ہم عمر ہو نے کی وجہ سے دین میں بھی ایک اچھا اور مددگار ساتھی ہوتا ہے اس لئے عبادت میں بھی دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ جب وہ دیکھتا ہے کہ یہ ہمارا ہم عمر ہے اور اتنی عبادتیں کرتا ہے، نماز شب کا پابند ہےتو رشک کرتا ہے اور ساتھ ہی خود بھی پڑھنے کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔
نام کے دوست تو بہت ہوا کرتے ہیں لیکن حقیقی دوست اور سچا ساتھی وہی ہوتا ہے کہ جو آڑے وقت میں کام آئے۔ مولائے کائنات امام علی علیہ السلام نہج البلا غہ میں ارشاد فرماتے ہیں’’ دوست اس وقت تک دوست سمجھا نہیں جا سکتا کہ جب تک وہ اپنے بھائی کی تین موقعوں پر حفاظت نہ کرے، مصیبت کے موقع پر، اس کی غیر موجودگی میں، اور اس کے مرنے کے بعد‘‘۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ سچا دوست وہی ہے جو مصیبت، پریشانی اور برے وقت میں دوست کو چھوڑ کر بھاگے نہیں، بلکہ اس کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہوئے، اس کی پوری طرح سے مدد کرے۔ اور دوسری چیز یہ ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں اس کی مدد کرے اور اگر دوست کے پیٹھ پیچھے کوئی اسے برا بھلا کہہ رہا ہو، اس کے سلسلے میں بد گمانی، اور بد کلامی کر رہا ہو، برائی کر رہا ہو، تو وہ اس کی طرف داری اور حمایت کرے۔
اور تیسرا مورد اس کے مرنے کے بعد کا ہے کہ مرنے کے بعد دوست کے لئے ایصال ثواب کرے، اور دوست کے ادھورے کام کو پورا کرکے اس کی مدد کرے اس کے گھر والوں کا خیال رکھے، ان سے اظہار ہمدردی کرے، اور ان کی حتیٰ الامکان حمایت کرے، اور دوست کی کمی کا احساس نہ ہونے دے۔دوستی کے فرائض
لَا يَكُوْنُ الصَّدِيقُ صَدِيْقًا حَتّٰى يَحْفَظَ اَخَاهُ فِيْ ثَلَاثٍ:فِيْ نَكْبَتِهٖ،غَيْبَتِهٖ،وَوَفَاتِهٖ۔
(نہج البلاغہ ، حکمت ۱۳۴)
دوست اس وقت تک دوست نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کی تین موقعوں پر نگہداشت نہ کرے: مصیبت کے موقع پر، اس کے پس پشت اور اس کے مرنے کے بعد۔انسان زندگی گزارنے کے لیے دوسروں کا ضرورت مند بھی ہے اور مددگار بھی۔ کبھی اسے دوسروں کی ضرورت ہوتی ہے اور کبھی دوسروں کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو اپنی ضرورتوں کے لیے دوسروں سے توقع رکھے مگر دوسروں کو ضرورت پڑے تو ان کی توقعات پر پورا نہ اترے تو حقیقت میں یہ اپنی انسانیت کو زیر سوال لانے کا مرحلہ ہے۔ انسانیت کے اس رشتے کے بعد کئی رشتے ہیں اور ان رشتوں کے بہت سے درجات ہیں۔ ان میں سے ایک رشتہ جسے خود انسان انتخاب کرتا ہے اس کا نام دوستی ہے۔ دوستی ایک ایسا موضوع ہے جس پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔’’نہج البلاغہ میں دوستی‘‘ کے عنوان سے بھی کتابیں موجود ہیں۔
امیرالمومنینؑ نے یہاں حقیقی دوست کی تین نشانیاں بیان کی ہیں۔ تین مواقع پر دوستی نبھانے والا ہی صحیح دوست ہے اور اگر ان مواقع پر دوستی کے معیار پر پورا نہیں اترتا تو وہ حقیقی دوست نہیں، ملنے ملانے والا ہو سکتا ہے۔ پہلا موقع یہ ہے کہ اگر ایک دوست پر مشکل وقت آئے تو اس کا مددگار ہو، اپنی طاقت کے مطابق اس کا ساتھ دے، مالی یا جسمانی طور پر جو کچھ کر سکتا ہے کرے اور اگر یہ طاقت نہیں رکھتا تو تسلی تو دے سکتا ہے اور غم میں شریک تو ہو سکتا ہے۔ حقیقی دوست مشکل گھڑی میں مدد کرتے وقت یہ امید نہیں رکھتا کہ میں مدد کروں گا تو کل کو میری مدد بھی ہوگی۔ یہ دوستی نہیں، یہ تجارت ہو گی۔ دنیا جب کسی سے پیٹھ پھیر جائے اس وقت جو ساتھ کھڑا رہے وہ دوست ہے۔
دوسری نشانی یہ ہے کہ جب دوست موجود نہیں اس وقت بھی اس کے دل اور زبان پر کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہیے کہ اگر وہ سامنے ہوتا تو نہ ہوتی۔ اس کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کا، اس کے خاندان کا مال و منال کا محافظ بن جائے۔ تیسری نشانی یہ ہے کہ موت کے بعد اس کے خاندان کا خیال رکھے، اس کے لیے نیک کام انجام دے اور اس کے لیے دعا کرے۔ اگر آپ کسی میں یہ صفات دیکھیں تو اسے دوست بنائیں اور دوست سمجھیں۔اچھے اور بہترین دوست کے صفات
دوست تو بہت اور مختلف قسم کے ہوتے ہیں،اور ہر اچھا انسان چاہتا ہے کہ اچھے افراد سے دوستی کرے اوریہ اچھے دوست کا انتخاب اس کی اپنی فکر اور مزاج کے اعتبا ر سے ہوتا ہے۔ وہ جس میدان میں رغبت رکھتا ہے، دوست بھی اسی اعتبار سے چنتا ہے ، عام طور پر لوگ صرف ظاہری اور دنیا وی فائدہ ہی نظر میں رکھتے ہیں اور اسی حساب سے اچھے اور برے کی تمیز کرتے ہیں ، اسی بنا پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی خاص میدان ، جیسے پڑھا ئی میں تو بہت اچھا ہو، لیکن اپنی ذاتی زندگی یا دوسرے لحاظ سے برا ہو تو ایسی دوستی مضبوط نہیں ہوتی ہے۔ اس طرح ہر لحاظ سے اچھا دوست ملنا مشکل بلکہ نا ممکن جیسا ہے۔ لیکن اگر ہم مولائے کا ئناتؑ کے بیش بہا اقوال پر غور کریں تو ان اقوال کی روشنی میں اچھے دوست کا با آسانی انتخاب کرسکتے ہیں جو ہر لحاظ سے اچھا ہو اورجس سے مضبوط دوستی ہو سکے۔ امام المتقین امام حسن ؑ کو وصیت کرتے ہوئے چار لوگوں سے دوستی نہ کرنے کی نصیحت فرما تے ہیں۔ آپ ؑ فرما تے ہیں کہ:
- (بیوقوف سے دوستی نہ کر نا کیو نکہ وہ تمہیں فا ئدہ پہنچانا چا ہے گا تو نقصان پہنچا دے گا )۔
- (بخیل (کنجوس) سے دوستی نہ کرنا کیو نکہ جب تمہیں اس کی مدد کی ضرور ت ہو گی تو وہ تم سے دور بھا گے گا)۔
- بد کردار سے دوستی نہ کرنا ور نہ وہ تمہیں کوڑیوں کے مول بیچ دے گا )۔
- جھو ٹے سے دوستی نہ کرناکیونکہ وہ سراب کے مانند تمہا رے لئے دور کی چیزوں کو قریب اور قریب کی چیزوں کو دور کر کے دکھا ئے گا)
اسی مضمو ن کی ایک اور حکمت میں آپ ؑ بیان فرما تے ہیں ’’ احمق سے دوستی نہ کرو کیونکہ وہ تمھارے برے کاموں کو اچھا کہے گا اور تمہیں اپنے جیسا بنا دے گا ، اس سے بخوبی اچھے دوست اور دوستی کی اہمیت کا اندازہ ہو جا تا ہے۔اور انتخاب دوست میں مدد ملتی ہے کہ کسے دوست بنا یا جا ئے۔ اگردوست اچھا ہے تو ہر میدان میں وہ مفید ہوگا اور اگر خدا نخواستہ وہ برا ہے تو پھر جہاں جہاں اس کی دسترس ہے، وہ دوست کے لئے نقصان دہ اور ضرر کا باعث ہے۔
دوستوں کی قسمیں
یہ سوال اکثر جوا نوں کے ذہن میں اٹھتا ہے کہ دوست کتنے طرح کے ہوتے ہیں؟ کیو نکہ سا رے دوست ایک جیسے نہیں ہوتے بلکہ دوستوں کے درمیان کا فی فرق پایاجاتاہے۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو اپنے دوست کے دشمن سے بھی دوستی کرلیتے ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا تے رہتے ہیں۔ تو کیا انہیں بھی دوست کہا جا سکتا ہے،یا نہیں؟ مشکل کشا ؑنے اس مشکل کو بھی اپنے نایاب کلمات کے ذریعہ حل فرمایا ہے۔ آپؑ فرما تے ہیں کہ
تمہارے تین قسم کے دوست ہیں۔(۱)تمہارا دوست، (۲)تمہارے دوست کا دوست اور (۳) تمہارے دشمن کا دشمن
اور اسی طرح تمہارے دشمن بھی تین ہی طرح کے ہوتے ہیں۔
(۱) تمہا را دشمن ، (۲) تمہارے دوست کا دشمن اور(۳) تمہارے دشمن کا دوست۔اس کلمہ سے آسانی سے دوستوں اور دشمنوں کی قسمیں سمجھ میں آتی ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ دوست ہر کوئی نہیں ہو سکتا ہے بلکہ جو دوستی کے شرائط پر پورا اترے وہی اچھا اور سچا دوست ہے۔
احمق سے دوستی
اِيَّاكَ وَمُصَادَقَةَ الْاَحْمَقِ۔ (نہج البلاغہ، حکمت ۳۸)
بے وقوف سے دوستی نہ کرنا۔انسانی زندگی پر سب سے زیادہ اثر کرنے والی چیزوں میں سے ایک دوستی ہے۔ یہی دوستی انسان کے کمال کے حصول میں معاون بنتی ہے اور یہی اُسے پستیوں میں ڈال دیتی ہے۔ امیرالمومنینؑ کے کلام میں دوستی کی اہمیت و اثرات کا بار ہا ذکر آیا ہے۔ اس فرمان میں آپؑ نے اپنے بیٹے کو چار قسم کے افراد کی دوستی سے منع کیا ہے اور اس دوستی کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا ہے۔ “بیٹا!” بے وقوف سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ چاہے گا کہ آپ کو فائدہ پہنچائے مگر اپنی حماقت و بیوقوفی کی وجہ سے نقصان پہنچا دے گا۔ بخیل سے دوستی نہ کرنا کیونکہ جب تمھیں اُس کی مدد کی انتہائی ضرورت ہوگی وہ تم سے دور بھاگے گا۔ بدکردار سے دوستی نہ کرنا ورنہ وہ اپنے معمولی فائدے کے لئے تمہیں بیچ ڈالے گا اور جھوٹے سے دوستی مت کرنا کیونکہ وہ تمہیں سراب کی طرح دور کی چیزوں کو قریب اور قریب کی چیزوں کو دور دکھائے گا۔ اگر انسان ان چار کرداروں کو پہچان لے اور خود کو ان سے محفوظ رکھے تو دنیا و آخرت کی بہت سی مشکلوں سے محفوظ رہے گا۔
مخلص دوست
وَ امْحَضْ اَخَاكَ النَّصِيْحَةَ حَسَنَةً كَانَتْ اَوْ قَبِيحَةً۔ (وصیت، 31)
دوست کو کھری کھری نصیحت کی باتیں سناؤ خواہ اسے اچھی لگیں یا بری۔انسان کے قیمتی اثاثوں میں سے ایک اثاثہ مخلص دوست ہے۔ مخلص دوست کی نشانیوں میں سے اکثر یہ گنا جاتا ہے کہ وہ دوست کو کسی حال میں ناراض نہ کرے۔ ہمیشہ اس کی پسند و ناپسند کو ملحوظ خاطر رکھے۔ مگر امیر المؤمنینؑ نے یہاں ایک بہترین معیار بیان فرمایا کہ دوست کے خیر خواہ بنو اور اگر کہیں اس سے ایسا عمل سرزد ہو رہا ہے جو اس کے دین یا دنیا کے لیے نقصان دہ ہے تو اسے متوجہ کریں خواہ یہ تذکّر و نصیحت اسے اچھی لگے یا بری۔ اس لیے کہ حقیقی دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ دوست سے خیانت نہ کی جائے اور اگر دوست کوئی ایسا کام کر رہا ہے جو حقیقت کے خلاف ہے اور اس کے نقصان کا سبب ہے تو یہاں خاموش رہنا یا بعض اوقات اسے خوش رکھنے کے لیے اس کی ہاں میں ہاں ملانا خیانت و منافقت ہے۔ مثلاً ایک دوست اپنی علمی کمزوری کے با وجود خود کو بڑا صاحب علم سمجھتا ہے اور اپنے علم پر فخر کرتا ہے یا مثلاً جھوٹ بولتا ہے یا حسد کی مرض میں گرفتار رہتا ہے تو اسے اشارے کنائے سے آگاہ کریں اور اگر اس انداز سے وہ متوجہ نہ ہو اور نہ سمجھے تو تنہائی میں واضح الفاظ میں روکیں تاکہ وہ اس کمزوری کو خود سے دور کرے۔
بدگمان دوست
لَا خَيْرَ فِيْ مُعِيْنٍ مَّهِيْنٍ وَ لَا فِيْ صَدِيْقٍ ظَنِيْنٍ۔(وصیت 31)
پست فطرت مددگار اور بدگمان دوست میں کوئی بھلائی نہیں۔انسان کی زندگی میں دوستی اور تعلقات کی بہت اہمیت ہے۔ امیر المومنینؑ نے نہج البلاغہ میں متعدد بار مختلف الفاظ میں اس موضوع کو بیان فرمایا۔ اس فرمان میں گھٹیا اور پست فطرت مددگار اور بدگمان دوست سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ پست اور بدگمان افراد میں ایک قدرِ مشترک یہ ہوتی ہے کہ اُن سے جتنی اچھائی کریں گے وہ اس میں برائی کا پہلو تلاش کریں گے۔کبھی شکر گزار نہیں ہوں گے بلکہ ہر وقت شکوہ کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ اگر آپ سےکوئی اچھائی کریں گے تو بار بار احسان جتلائیں گے۔ اس لیے کسی کو اپنا مددگار اور دوست بنانے سے پہلے اس کی فطرت سے واقفیت حاصل کر لینی چاہیے تب دوستی کی جائے۔ کسی نے بد فطرت ساتھی کے لیے کیا اچھی مثال دی کہ کیکر کے درخت کو ساری زندگی باغ کے ساتھ سیراب کیا جائے تو بھی کسی اس پر آم نہیں لگیں گے۔ پست فطرت شخص کے ساتھ رہنے کی وجہ سے لوگ اسے بھی گھٹیا تصور کریں گے اور یہی صورت بدگمان دوست کی بھی ہوتی ہے، وہ دوسرے دوست کے سکون کے بجائے اسے پریشان ہی کرتا رہے گا۔نیک فطرت انسان سے اچھائی کی جائے گی تو وہ خود بھی ساری زندگی اسے یاد رکھے گا بلکہ اپنی نسلوں کو بھی بتا جاتا ہے کہ فلان میرا محسن ہے اور پست فطرت خود بھی بھول جائے گا کہ کسی نے اس سے اچھائی کی تھی۔
دوستی کے لئے نقصان دہ چیزیں
دوستی کی حفا ظت کرنا دونوں دوستوں کا فرض ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بے توجہی اور لا پرواہی کی وجہ سے یا نادانی کے سبب اچھے اور نیک دوستوں میں جدائی ہوجائے۔ اس لئے ایسے موارد سے بچنا چا ہیے کہ جو دوستی کے لئے نقصان دہ ہیں جیسے دوست کو شرمندہ کرنا۔ اگر کوئی بات ہو بھی جا ئے تو بھی ایسی صورت سے بچنا چا ہیے کہ جس کے سبب دوست کو شرمندہ ہونا پڑے۔ دوسری چیز جس سے بچنا چا ہیے وہ یہ کہ دوست کو غصہ نہ دلائے ، یہ بھی مو لا ئے کا ئنا ت ؑ کے کلام کی روشنی میں دوستوں کے درمیان جدائی کا سبب ہو سکتا ہے۔ دوستی کی سب سے بڑی مصیبت ’’حسد‘‘ ہے۔ (یعنی دوست سے جلنا ) آپ ؑ فرما تے ہیں کہ؛ ’’ حسد الصدیق من سقم المودۃ ‘‘ دوست سے جلنا محبت کی کمی کا نتیجہ ہے۔
نتیجۃًیہی با ت معلوم ہوتی ہے کہ دوست اور دوستی پروردگارعالم کی اپنے بندوں پر ایک انمول نعمت ہے۔ جو خوش نصیب افراد کے حصہ میں آتی ہے۔ اور اس کو اگر اسلامی اصول اور معیار سے سنوار دیا جا ئے تو دوستی ہمیشہ کے لئے ہو جا تی ہے۔ اور ایک مثالی حیثیت اختیا ر کر لیتی ہے اچھا دوست ملنا بہت بڑی بات ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ بڑی اور اہمیت والی با ت یہ ہے کہ خود کو اپنے دوست کے لئے اچھا اور مفید دوست اور ساتھی بنا یا جا ئے۔مولا ئے کا ئنا تؑ اس مضمون کی طرف اس طرح اشارہ فرما تے ہیں کہ ’’ من ظنّ بک خیرًافصّدق ظنّہ ‘‘
جو تم سے حسن ظن رکھے اس کے گمان (حسن ظن) کو سچا ثابت کردو۔ مثال کے طورپر اگر کو ئی تمہارے سلسلہ میں یہ خیال و گمان رکھتا ہو کہ تم ہر شب جمعہ زیارت عاشورا پڑھتے ہو یا حدیث کسا ء کی تلاوت کرتے ہو تو تمہیں چاہیے کہ ثابت کردکھا ؤکہ واقعاً تم پڑھتے ہو۔ اور اس کا راستہ یہ ہے کہ کم از کم ایک دفعہ اس کی نگا ہوں کے سامنے مذکورہ نیک عمل انجام دو یہ ریا کاری نہیں بلکہ حکم امام ہے۔ کیو نکہ اس سے اس کو دلی سکون ملے گا اور وہ تمہیں اپنے دین اور دنیا کے لئے مفید سمجھے گا اور بہت ممکن ہے کہ تمہا رے ساتھ رہ کر وہ ایک اچھا اور بہتر سے بہتر انسان بن جا ئے۔دوستی کی خامی
حَسَدُ الصَّدِيْقِ مِنْ سُقْمِ الْمَوَدَّةِ۔ (نہج البلاغہ، حکمت ۲۱۸)
دوست کا حسد کرنا محبت و دوستی کی خامی ہے۔انسانی زندگی پر مثبت اور منفی اثر کرنے والی چیزوں میں سے ایک دوستی ہے۔ کامیاب زندگی کے لئے دوست بہت بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس لیے حقیقی دوست کی پہچان ضروری ہے۔ حقیقی دوست وہ ہے جو دوست کے لیے وہی چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے اور جسے اپنے لیے نہیں چاہتا اسے دوست کے لئے بھی نہ چاہے۔ حقیقی دوست وہ ہے جو دوست کو کمال تک پہنچانے کے لئے اپنا کندھا پیش کرے۔ حقیقی دوست وہ ہے جو کسی مجبوری کی وجہ سے خود ایک منزل تک نہیں پہنچ سکا تو دوست کو اس منزل کی راہیں بتائے۔ حقیقی دوست وہ ہے جسے دوست کو اپنی ضرورتیں بتانا نہ پڑیں وہ خود جانتا ہو۔ حقیقی دوست وہ ہے کہ اگر کسی بلند مقام تک پہنچ گیا تو دوست کا ہاتھ تھام کر اسے بھی وہاں پہنچائے۔
