مقالہ نگار:علی حسین شگری

چکیدہ:

اسلام ایک جامع طرز زندگی فراہم کرتا ہے۔اسلام کا دعوی ٰہے کہ یہ دین قیامت تک پوری دنیا کے لیے نجات کا راستہ لے کر آیا ہےاور ہر دور کے مسائل کا سامنا سینہ تان کے کرتا ہےدوسرے مذاہب کی طرح گٹھنے نہیں ٹیکتا، نئے مسائل اورفقہ اسلامی میں انسانوں کو روزمرہ پیش آنے والے مسائل پر بحث اور اس کا حل پیش کرتا ہے، اور ان مسائل کا بنیادی ماخذ قرآن اور معصومینؑ کے فرامین ہیں۔ جس طرح باقی آئمہؑ  کے فقہی اقوال اور خدمات ہیں اسی طرح امیرالمومنینؑ کے بھی اقوال ہیں بلکہ فقہ میں کچھ ابواب ایسے ہیں جو امیرالمومنینؑ کے اقوال کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتے مثلاً کتاب قضاوت، کتاب حدود، کتاب قصاص۔ ہم نے اس مقالہ کے کچھ ابواب میں مولاؑ کی احادیث کو نقل کیا ہے اور باقیوں سے ہم نے اختصار کی خاطر اجتناب کیا ہےجبکہ باقی ابواب میں بھی کثرت سے روایات موجود ہیں جو اس مقالے میں نہیں سمو سکتا۔

کلیدی الفاظ:  فقہ، امیر المومنینؑ، حدیث، اسلام، جائزہ۔
مقدمہ

اسلام خدا کا پسندیدہ دین ہے جس کی تبلیغ کے لیے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے۔ دین مبین اسلام بنی نوع انسان کے لیے ابدی طرز زندگی ہے اور ہر جہت سے کامل و جامع ہے، چاہے طہارات کا مسئلہ ہو یا عبادات کا، نکاح و طلاق کا ہو، کھانے پینے کا مسئلہ۔ اسلام بتاتا ہے کہ جنگ ہوگی تو کن اصولوں کے تحت ہوگی اور اگر صلح ہوگی تو کن اصولوں کے تحت ہوگی۔ زندگی کے کسی بھی پہلو کو بھی زیر بحث لائے بغیر نہیں چھوڑا، اور نہ صرف یہ کہ بحث کیا بلکہ ہر مسئلہ کا حل پیش کیا، کیونکہ اس دین کے دائمی ہونے کا تقاضی یہی تھا کہ نبی رحمت ایسے اصول دیکر جائیں جو قیام قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بن سکے۔ آپﷺ نے اپنے بعد دو چیزوں کو ہمارے درمیان چھوڑا، ایک قرآن اور دوسری اہل بیتؑ۔ ہم احکام الٰہی، فقہ اسلامی کو انہی سے لیتے ہیں یہ دونوں ماخذ مسلمانوں کے درمیان متفق علیہ ہیں۔ہم یہاں اہل بیت میں سے پہلی ہستی مولا علیؑ سے منقول فقہ اسلامی کا تذکرہ کریں گے۔ بعون اللّٰہ۔

حدیث اور روایات کا معنی

حدیث کا لغوی معنی ابن منظور نے لسان العرب میں: الجدید من الاشیاء(لسان العرب، ج۳ ص ۷۶) اور قاموس میں: خبر، کلام اور جدید سے کیا ہے۔
اصطلاح میں حدیث سے مراد امامیہ کے نزدیک: قول معصوم، فعل معصوم اور تقریر معصوم کو کہتے ہے۔(محمد باقر، الدرایہ فی علم الروایہ، ص ۲ ہمدانی)

علیؑ تلمیذ نبی ﷺ

امیر المومنین حضرت علیؑ نے چونکہ بچپن سے ہی نبی رحمت ﷺکے زیر تربیت پرورش پائی تھی،اسی وجہ سے نبی ﷺ سے سب سے زیادہ قریب تھے،اور علم نبی سے زیادہ آشنا تھے۔ نبی رحمت نے آپؑ کو علم اس طرح عطا کیا جس طرح ایک پرندہ اپنے بچے کو دانہ دیتا ہے۔مولائے کائنات نے بطور فخر یہ ارشاد فرمایا:
لقد علمني رسول اللّٰه (صلى اللّٰه عليه وآله وسلم) ألف باب يفتح كل باب ألف باب۔(الاختصاص ۲۸۳)
رسول اللہ ﷺ نے مجھے ہزار بابِ علم کے تعلیم دیے اور ہر باب سے ہزار باب کھل گئے، اور کبھی رسول نے فرمایا:
انا مدینۃ العلم و علی بابھا۔(الحاكم النيشابوري، المستدرك علي الصحيحين، ج 3، ص 126)
میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہے۔
ان دونوں حدیثوں سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ علیؑ  علم رسولﷺ کے وارث ہیں، یہی وجہ ہے کہ مولا علیؑ نے حضور اکرمﷺ کی زندگی میں ہی فیصلے فرمائے اور حضور ﷺ نے آپ پر اعتماد کرتے ہوئے آپ کے فیصلوں کی توثیق کی۔ "مصنف عبدالرزاق” میں ہے کہ ایک انصاری نے حالت احرام میں شتر مرغ کے گھونسلے کو روند کر اس کا انڈا توڑدیا۔ پھر انہوں نے حضرت علیؑ سے فتویٰ پوچھا، آپؑ نے جواب دیا، تم پر اونٹنی کا جنین (بچہ) بطور کفارہ لازم ہوگیا ہے۔ وہ انصاری حضورﷺ کی خدمت میں آئے اور سارا ماجرا بیان کیا۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ؛ فتوی تو وہی ہے جو تم نے علی کی زبانی سنا، ہاں تمہارے لیے اور گنجائش بھی ہے روزے رکھ لو، یا ایک مسکین کو کھانا کھلادو۔ (مصنف عبد الرزاق ج ۴ ص ۴۲۰) اور بعد از رحلت پیغمبرﷺ آپ نے سلونی کا دعویٰ کیا۔ یہ لوگوں کو بتانا مقصود تھا کہ میں علم نبی کا وارث ہو ں۔اگر حقیقی اسلام کو سمجھنا ہے تو میرے در پہ آنا، مگر افسوس کہ زمانے والوں نے اس وارث علم رسولؐ کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ علیؑ تاریخِ انسانیت کے مظلوم ترین انسان ہیں۔ان سب کے باوجود آپ سے اتنی روایات منقول ہے کہ قضاوت کی بحث اور حدود کی بحث آپ کے اقوال اور فیصلوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ آپ سے مرویات شیعہ منابع میں الحمد اللہ بہت زیادہ ہیں البتہ اہل سنت کے ہاں پہلے کہا جاتا تھا کہ صرف ۵۰۰ احادیث منقول ہیں لیکن اب طاہر قادری صاحب نے "مسند علی” نامی کتاب لکھ کر ثابت کیا ہے کہ مولا علیؑ سے کم و بیش ۱۲۰۰ احادیث منقول ہیں، اور ہم اپنے اس مختصر مقالہ میں مولا علیؑ کی روایات کا مختصراً جائزہ لیں گے۔

مولا علیؑ سے منقول روایات و احادیث کی قسمیں
حضرت علیؑ سے روایات فقہ میں جو وارد ہوئی ہیں ہم انہیں چار حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
۱۔ وہ روایات جن میں سائل ( راوی ) نے امام سے کوئی مسئلہ پوچھا اور امام نے بتا دیا، دوسرے لفظوں میں ہم اسے قول امام کہتے ہیں۔
۲۔ وہ روایات جن میں فعل امام کو بیان کیا گیا ہے مثلاً امامؑ نے کوئی فیصلہ فرمایا ہو تو اس کا نقل کرنا، جسے ہم فعل امام کہتے ہیں۔
۳۔ امامؑ سے منقول وہ روایات یا افعال (فیصلے ) جو آپ نے حیات النبیﷺ میں انجام دیئے۔
۴۔ وہ فیصلے جو آپ نے بعد از نبی ﷺ صادر فرمائے۔

۱۔ قول امام علیہ السلام

چونکہ امامیہ حدیث کی تعریف میں لفظ معصوم لاتے ہیں جو آئمہؑ  کو بھی شامل ہے لہٰذا جس طرح قول، فعل، تقریر نبیﷺ ہمارے لیے حجت ہے اسی طرح امام کا بھی قول و فعل و تقریر ہمارے لئے حجت ہے۔ قول امام میں ہم فقہ کے چند ابواب سے امام کے اقوال ذکر کریں گےاور باقی ابواب سے ہم فعل امام کے لئے احادیث ذکر کریں گے اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ جن ابواب سے فعل امام والی روایات لئے ہیں تو اس میں قول والی روایات نہیں ہیں اور جس سے قول والی روایات کو لئے ہیں، اس میں فعل والی روایات نہیں ہیں۔ قول و فعل امام میں ہم کتاب طہارت، وضو، صلاۃ، صوم، زکات، خمس، وغیرہ کا ذکر کریں گے۔

(الف) کتاب الطہارت

دین اسلام نے طہارت کو بہت اہمیت دی ہے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی عبادت سے پہلے طہارت کو ضروری قرار دیاگیا اور اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا کہ (اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا۔۔۔) اور طہارت کو پسند فرمایا: ان اللّٰہ یحب التوابین و یحب المتطھرین۔(القرآن، البقرہ ۲۲۲)اور طہارت کے لیے اللہ نے پانی کو خلق فرمایا:
عن أبی عبد اللّٰه (علیه السلام) قال قال علی (علیه السلام قال رسول اللّٰه (صلی اللّٰه علیه وآله)
الماء یطهر ولا یطهر۔ (الطباطبائی، البروجردی، سید حسین، جامع الاحادیث الشیعہ، ج۲،ص ۲)
امیرالمومنینؑ  نے پیغمبرﷺ سے روایت کی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ پانی پاک کرتا ہے لیکن اسے پاک نہیں کیا جاتا۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ سمجھ آتا ہے کہ کوئی بھی چیز اگر نجس ہوجائے تو اسے پانی کے ذریعے پاک کیا جاسکتا ہے لیکن پانی اگر نجس ہوجائے تو اسے پاک نہیں کیا جاسکتا۔
عن علی (علیه السلام) الماء الجاری یمر بالجیف والعذرة والدم یتوضأ منه ویشرب منه لیس ینجسه شئ۔ (الطباطبائی، البروجردی، سید حسین، جامع الاحادیث الشیعہ، ج۲،ص ۲)
جاری پانی جو مردار اور پاخانہ اور خون سے گزرے اسے وضو اور غسل کے لیے استعمال کرسکتے ہیں اسے کوئی چیز نجس نہیں کرسکتی۔
اس حدیث میں امام کی مراد وہ پانی ہے جس کا رنگ، بو، ذائقہ نجاست کے ملنے سے تبدیل نہ ہوتا ہو وگرنہ اگر رنگ بو یا ذائقہ تبدیل ہوجائے تو اس کے نجس ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، جیسا کہ بعد والی روایت میں اس بات کو بیان کیا ہے۔
عن علی (علیه السلام) الماء الجاری یمر وذکر مثله وزاد ما لم تتغیر أوصافه لونه وریحه وطعمه
اگر جاری پانی ان چیزوں سے گزرتا ہے جن کا ذکر گزرچکا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور چیز سے گزرے جب تک اس کے اوصاف، رنگ بو،ذائقہ تبدیل نہ ہوجائے وہ نجس نہیں ہوگا۔
عن أمیر المؤمنین (علیه السلام) أنه قال أوصیکم بالطهارة التی لا تتم الصلاة الا بها (فی حدیث طویل کذا)- قال أمیر المؤمنین (علیه السلام) لا تجوز صلاة حتی یطهر خمس جارحة الوجه والیدین والرأس والرجلین بالماء والقلب بالتوبة۔(الطباطبائی، البروجردی، سید حسین، جامع الاحادیث الشیعہ، ج۲،ص ۲)
امیر المومنینؑ  کی ان دونوں حدیثوں سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ کامل نماز کے لیے دوچیزیں ضروری ہیں:
۱۔ ظاہری طہارت جسے وضو کے نام سے یاد کیا ہے۔
۲۔باطنی طہارت جسے آپ نے توبہ کا نام دیا ہے۔ وضو تو نماز کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہے۔ ہر صحیح نماز کامل بھی ہو اور قبول بھی ہو ایسا نہیں ہوتا۔ اب اگر اسی صحیح نماز کو شرف قبولیت بخشنا ہے تو ضروری ہے کہ باطنی طہارت یعنی توبہ کرے۔
عن علی (علیه السلام) قال قال رسول اللّٰه (صلی اللّٰه علیه وآله) الوضوء نصف الایمان۔(البروجردی، جامع الاحادیث الشیعہ ج۲، ص ۲۳۸)
وضو ایمان کا آدھا حصہ ہے۔
بإسناده عن علی (علیه السلام) قال واما الرخصة التی هی الاطلاق بعد النهی فان اللّٰه تعالی فرض الوضوء علی عباده بالماء الطاهر وکذلک الغسل من الجنابة فقال تعالی یا ایها الذین آمنوا إذا قمتم إلی الصلاة إلی قوله صعیدا طیبا فالفریضة من اللّٰه عز وجل الغسل بالماء عند وجوده لا یجوز غیره والرخصة فیه إذا لم تجد الماء الطاهر التیمم بالتراب من الصعید الطیب۔(البروجردی، جامع الاحادیث الشیعہ ج۲، ص ۲۴۲)
اس حدیث مبارکہ میں امام ارشاد فرمارہے ہیں کہ پانی سے وضو کو فرض کیا ہے لیکن اگر کسی کو پانی میسر نہ ہو تو وہ پاک مٹی سے تیمم کرسکتا ہے یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ امام یہاں اسباب تیمم کو صرف پانی نہ ملنے کی صورت میں منحصر نہیں فرمارہے ہیں،یعنی امام اس چیز کو بیان کرنے کے مقام میں ہی نہیں ہے کہ کن چیزوں کی وجہ سے تیمم واجب ہوتا ہےجبکہ بعض اوقات پانی میسر تو ہوتا ہے لیکن اس کے لئے مضر ہوتا ہے تب بھی تیمم کرنا ہوگا۔

(ب) کتاب الصلاۃ

نماز دین کا ستون ہے۔ مومن کی معراج ہے۔ رسولﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ نماز کے بارے پیغمبرﷺ نے بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ امیر المومنینؑ  نے بھی بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ جس کا اظہار آپؑ کے قول و فعل سے جابجا ہوتا ہے:
عن الحسن، عن عبایة قال: کتب أمیر المؤمنین علیه السلام إلی محمد بن أبی بکر وأهل مصر وذکر الکتاب بطوله، وفیه انظر صلاة الظهر فصلها لوقتها لا تعجل بها عن الوقت، لفراغ ولا تؤخرها عن الوقت لشغل، فان رجلا جاء إلی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم فسأله عن وقت الصلاة، فقال: اتانی جبرئیل فأرانی وقت الصلاة، فصلی الظهر حین زالت الشمس، ثم صلی العصر، وهی بیضاء نقیة، ثم صلی المغرب حیت غربت [۱] ثم صلی العشاء حین غاب الشفق، ثم صلی الصبح، فأغلس به، والنجوم مشتبکة۔(البروجردی، جامع الاحادیث الشیعہ ج ۴ ص ۱۱۰)

امیر المومنینؑ نے اپنے اس خط میں جو آپ نے اپنے منہ بولے بیٹے محمد بن ابی بکر جواس وقت والی مصر تھے لکھا تھا:نماز کے بارے میں خصوصی تاکید کی ہے اسے وقت پر پڑھنے کی تلقین کی ہےاور آپؑ نے ایک حدیث رسول بھی نقل کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص پیغمبرﷺ سے نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کرتا ہے تو آپﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ جبرائیلؑ نے مجھے نماز کے اوقات دکھائے، اس نے ظہر کی نماز زوال کے وقت پڑھی اور نماز عصر اس وقت جب خالص سفیدی تھی، پھر مغرب کے وقت اس نے نماز مغرب پڑھی اور جب مغرب کی سرخی زائل ہوئی تب نماز عشاء پڑھی،پھر نماز صبح پڑھی۔
ہم نے شروع میں کہا تھا کہ ہم کسی باب میں قول امام کو نقل کر رہے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس میں فعل امام ذکر نہ ہو اپنی بات کی تائید کے لیے۔ ہم یہاں ایک روایت جس میں فعل امام کو نقل کیا گیا ہے ذکر کر رہے ہیں۔
عَلِیُّ بْنُ إِبْرَاهِیمَ عَنْ أَبِیهِ عَنِ ابْنِ أَبِی عُمَیْرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَیْنَةَ عَنْ عِدَّةٍ مِنْ أَصْحَابِنَا أَنَّهُمْ سَمِعُوا أَبَا جَعْفَرٍ ع یَقُولُ کَانَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ ص لَا یُصَلِّی مِنَ النَّهَارِ حَتَّی تَزُولَ الشَّمْسُ وَ لَا مِنَ اللَّیْلِ بَعْدَ مَا یُصَلِّی الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ حَتَّی یَنْتَصِفَ اللَّیْلُ۔ ( کاشانی، محمد محسن الوافی، ج ۷)
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا کہ امیرالمومنینؑ دن کو نماز تب پڑھتے جب سورج زائل ہوجاتا اور رات کو نماز عشاء کے بعد آدھی رات سے پہلے نماز نہیں پڑھتے۔
ظاہراً یہاں نماز واجب کی نہیں بلکہ نماز نوافل کی بات ہورہی ہے۔ دلیل ہمارے مدعی پر یہ ہے کہ نماز پنجگانہ یومیہ کے اوقات آقا حضورﷺ مقرر فرماگئے ہیں، اور رسولﷺ کا سب سے زیادہ فرمانبردار علیؑ شیرخدا ہے، اور جو چیز رسول معین کرکے گئے ہو مولا علیؑ سے اس کی مخالفت کا توقع بھی نہیں کیاجاسکتا،اور دوسرا شاہد ہمارے مدعی پر یہ ہے کہ اس حدیث میں لفظ آیا ہے بعد ما یصلی العشاء، یہ دلیل ہے کہ یہاں نوافل کی بات ہورہی ہے ۔

کتاب الزکاۃ

اسلام میں زکات کو بڑی اہمیت حاصل ہے،عَنْ عَلِيٍّ  أَنَّهُ قَالَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ الصَّلَاةَ مِمَّنْ مَنَعَ الزَّكَاةَ۔(نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل، ج ۷،ح ۷۴۹۰ )
امامؑ نے فرمایا جو زکاۃ ادا نہیں کرتا اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔
زکاۃ معاشرے میں اقتصادی مساوات کا ذریعہ ہے۔ شریعت نے کچھ چیزوں پر زکات واجب قرار دی ہے، انعام ثلاثہ، غلات اربعہ اور نقدین پر۔
عَلِيٍّ  أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى عَفَا لَكُمْ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ عَنِ الْبَقَرِ الْعَوَامِلِ وَ عَنِ الْإِبِلِ النَّوَاضِحِ۔ (نوری، مستدرک الوسائل، ج۷ص ۴۳ )
ذیل میں امیرالمومنین ؑ کی حدیث گھوڑے کی زکاۃ کے بارے میں ہے۔
عَن مُحَمّدِ بنِ مُسلِمٍ وَ زُرَارَةَ عَنهُمَا جَمِيعاً ع قَالَا وَضَعَ أَمِيرُ المُؤمِنِينَ عَلَي الخَيلِ العِتَاقِ الرّاعِيَةِ فِي كُلّ فَرَسٍ فِي كُلّ عَامٍ دِينَارَينِ وَ جَعَلَ عَلَي البَرَاذِينِ دِينَاراً۔ (الطوسی، محمد بن حسین، الاستبصار، ج ۲،باب زکات الخیل )
اس حدیث مبارکہ میں امامؑ نے گھوڑے کی زکاۃ کو بیان کیا ہےکہ اگر گھوڑا عتیق ہو یعنی ماں باپ دونوں طرف سے کریم النسل ہو،اور راعیہ ہو یعنی مالک کے مال سے نہ کھاتا ہو بلکہ باہر چرتا ہو تو ہر گھوڑے پر ہرسال دو دینار ہوگا۔

کتاب الجہاد
جہاد کا لغوی معنی جد و جہد کرنا، کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے سعی کرنا اور شرعاً جہاد سے مراد اپنی جان کو خرچ کرنا اسلام کے کلمہ حق کو بلند کرنے کے لیے اور شعائر ایمان کو قائم کرنے کے لئے اور یہ جہاد ارکان اسلام میں سے ایک عظیم رکن ہے۔پیغمبر اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نیکی سے بڑھ کر ایک نیکی ہے اللہ کے راہ میں مارا جانے سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں ہے۔ اور سورہ بقرہ میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جہاد کے بارے میں ارشاد فرمایا:
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَ عَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَ عَسى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئاً وَ هُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَ اللّهُ يَعْلَمُ وَ أَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ۔ (البقرة: ۲۱۶)
یہ آیت جہاد کے وجوب پر دلالت کرتی ہے چونکہ آیت میں لفظ "کتب” آیا ہے جو کہ فرض اور وجوب پر دلالت کرتا ہے۔
لیکن اسلام میں جہاد ایک دفاعی عمل ہے، اور اسلام دشمن پر زیادتی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے میت کو مسمار کرنے سے منع کیا ہے،اور نا ہی عورتوں اور بچوں  کو قتل کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ نے مشرکین کے شہر میں زہر پھینکنے سے منع کیا ہے۔
عَنْ عَلِيٍّ ع:أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ  نَهَى أَنْ يُلْقَى السَّمُّ فِي بِلَادِ الْمُشْرِكِينَ۔ (نوری، مستدرک الوسائل ج ۱۱ ص ۴۲ )
امام علیؑ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مشرکین کے شہر میں زہر پھینکنے سے منع فرمایا ہے۔
یہاں زہر پھینکنے سے مراد اس نہر کے پانی میں زہر ملانا جو نہر آپ کے پاس سے گزر کر ان کے ہاں جاتا ہو، لیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔ یا پھر آپ یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ پیغمبرﷺ نے یہاں زہر کو بطور استعارہ لیا ہے ہر اس چیز سے جو ان کے لیے مضر ہو۔چونکہ آپ کے اس عمل سے وہ بھی ہلاک ہوجا ئیں گے جو لڑائی میں شریک نہ ہو یا ان کے بیوی بچے بھی ہلاک ہوسکتے ہیں جس کی اسلام میں ہرگز اجازت نہیں ہے۔
عَن جَعفَرٍ عَن أَبِيهِ ع أَنّ عَلِيّاً ع كَانَ يَجعَلُ لِلفَارِسِ ثَلَاثَةَ أَسهُمٍ وَ لِلرّاجِلِ سَهماً وَ الّذِي يَدُلّ عَلَي ذَلِكَ مَا رَوَاهُ أَحمَدُ بنُ أَبِي عَبدِ اللّٰهِ البرَقيِ ّ عَن أَبِيهِ عَن أَبِي البخَترَيِ ّ عَن جَعفَرٍ عَن أَبِيهِ ع أَنّ عَلِيّاً ع كَانَ يُسهِمُ لِلفَارِسِ ثَلَاثَةَ أَسهُمٍ سَهمَينِ لِفَرَسَيهِ وَ سَهماً لَهُ وَ يَجعَلُ لِلرّاجِلِ سَهماً۔(الاستبصار لطوسی، ج ۳ ص ۹۔۱۰ )
امام جعفر صادقؑ  فرماتے ہیں کہ امیرامومنینؑ گھڑ سوار کے لئے مال غنیمت کا تین حصہ اور پیادے کے لئے ایک حصہ قرار دیتے تھے۔
اسی بات کی تائید کے لیے ہمارے پاس ایک اور روایت ہے جس میں اس تفریق کی وجہ کو بیان کیا ہے۔ وہ بھی صادق آل محمدؑ سے ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ امیر المومنین ؑ مال غنیمت میں سے گھڑ سوار کو تین حصہ، ان میں سے دو گھوڑے کے لیے ایک اس شخص کے لئے اور جو پیادہ ہے اس کے لیے ایک حصہ قرار دیتے تھے۔

کتاب امربالمعروف ونہی عن المنکر

وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتُ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ۘ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ۔ (( التوبہ: 71، ) النجفی، محسن علی، البلاغ)
اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔
اس کی تعریف شہید ثانی نے کتاب شرح لمعہ میں یوں کی ہے (في الأمر بالمعروف) و هو الحمل على الطاعة قولا أو فعلا۔ یعنی امر بالمعروف یہ ہے کہ کسی کواطاعت پر آمادہ کرنا قول کے ذریعے یا فعل کے ذریعے۔
(و النهي عن المنكر) و هو المنع من فعل المعاصي قولا أو فعلاً۔اور نہی عن المنکر سے مراد کسی کو معصیت سے روکنا قول کے ذریعے یا فعل کے ذریعے۔( اللمعة الدمشقية ج ١،ص ٣٤٢)
یہ فریضہ اتنا اہم ہے کہ اللہ نے اسے ہماری کامیابی کا ذمہ دار قرار دیا۔ ہم کامیاب اسی صورت میں ہوں گے جب ہم میں سے ایک ایسا گروہ موجود ہو جو اچھائی کی دعوت دے اور برائی سے روکے۔ اللہ نے واضح الفاظ میں فرمایا:
وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔ (آل عمران: 104)
اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔
امام علی علیہ السلام سے بھی اسی سے ملتی جلتی ایک حدیث اور یہی حدیث تھوڑے الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بھی مروی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے مولا علی ؑ کا علم پیغمبر ص سے لیا گیا علم ہے تو ممکن ہے اصل میں یہ پیغمبر ہی کا قول ہو جو مولا نے نقل کیا ہو۔
لتأمرنّ بالمعروف و لتنهون عن المنكر،أو ليسلّطنّ (۲) اللّٰه شراركم على خياركم فيدعوا خياركم فلا يستجاب لهم۔
تمہیں ضرور بضرور نیکی کا حکم اور برائی سے روکنا چاہیےوگرنہ( یعنی تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کرو گے) اللہ تمہارے نیک لوگوں پر تم میں سے بد ترین لوگوں کو مسلط کرے گا( تم اللہ کے سامنے فریاد کرو گے) پس اللہ تمہارے نیک لوگوں کی فریاد نہیں سنے گا۔(مسندامام علی، ج 4، ص 419)
عَنْ أَبِی عَبْدِ اللّٰهِ  عَنْ آبَائِهِ عَنْ عَلِیٍّ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ مَنْ أَمَرَ بِمَعْرُوفٍ أَوْ نَهَی عَنْ مُنْکَرٍ أَوْ دَلَّ عَلَی خَیْرٍ أَوْ أَشَارَ بِهِ فَهُوَ شَرِیکٌ وَ مَنْ أَمَرَ بِسُوءٍ أَوْ دَلَّ عَلَیْهِ أَوْ أَشَارَ بِهِ فَهُوَ شَرِیکٌ۔
امام علی علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ایک حدیث نقل فرماتے ہیں کہ آپ ص نے فرمایا جو کوئی بھی نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے یا کسی خیر کی طرف رہنمائی کی یا اس کی طرف اشارہ کیا تو وہ اس ( ثواب) میں شریک ہے، اور جو کوئی بھی برائی کا حکم دے یا رہنمائی کریں یا اشارہ کریں تو وہ اس (گناہ ) میں شامل ہے۔ ( وسائل الشیعہ ج 11 حدیث ۲۱۱۴۷)
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراتب ہیں جو یکے بعد دیگرے لاگو ہوتے ہیں۔ شہیدین رحمها اللّٰه نے لمعہ کچھ یوں بیان کیا ہے:
(ثمّ يتدرّج) المباشر (في الإنكار) فيبتدئ (بإظهار) (الكراهة) و الإعراض عن المرتكب متدرّجا فيه أيضا فإنّ مراتبه كثيرة، (ثمّ القول الليّن) إن لم ينجع الإعراض، (ثمّ الغليظ) إن لم يؤثّر اللّيّن متدرّجا في الغليظ أيضا، (ثمّ الضرب)إن لم يؤثّر الكلام (شرح المعة الدمشقية )
یعنی کسی کو غلط کام کرتے ہوئے دیکھے تو سب سے پہلے اس سے اظہار کراہت کرے باز نہ آئے تو نرم الفاظ میں منع کرے، پھر بھی باز نہ آئے تو سخت الفاظ سے منع کرے پھر اسے ماریں اگر بات سے وہ نہ سمجھے۔
اسی ترتیب کو مولا علی علیہ السلام نے اپنے ایک قول میں یوں فرمایا ہے:
أَیُّهَا الْمُؤْمِنُونَ إِنَّهُ مَنْ رَأَی عُدْوَاناً یُعْمَلُ بِهِ وَ مُنْکَراً یُدْعَی إِلَیْهِ فَأَنْکَرَهُ بِقَلْبِهِ فَقَدْ سَلِمَ وَ بَرِئَ وَ مَنْ أَنْکَرَهُ بِلِسَانِهِ فَقَدْ أُجِرَ وَ هُوَ أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِهِ وَ مَنْ أَنْکَرَهُ بِالسَّیْفِ لِتَکُونَ کَلِمَةُ اللَّهِ الْعُلْیَا وَ کَلِمَةُ الظَّالِمِینَ السُّفْلَی فَذَلِکَ الَّذِی أَصَابَ سَبِیلَ الْهُدَی وَ قَامَ عَلَی الطَّرِیقِ وَ نَوَّرَ فِی قَلْبِهِ الْیَقِینُ۔ (حر عاملی، وسائل الشیعہ ج 11 ص 405)
اے مومنین جو کوئی برائی کو دیکھے کہ اس پر عمل کیا جا رہا ہے اوراس کی طرف دعوت دی جارہی ہے تو وہ اس کا انکار کرے گا دل سے تو وہ امن اور راستبازی میں ہوگا اور جو اس کی زبان سے انکار کرے گا، اسے اجر ملے گا، اور وہ اپنے ساتھی سے بہتر ہے، اور جو اس کا انکار تلوار سے کرے گا وہ بہتر ہوگا تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو اورظالموں کا کلام ادنیٰ ہو کیونکہ وہی ہے جس نے ہدایت کی راہ کو درست کیا اور اسے درست کیااور اس نے اپنے دل کے راستے کو روشن کیا۔

کتاب النکاح

قال اللّٰه تعالى وَ أَنْكِحُوا الْأَيامى مِنْكُمْ وَ الصّالِحِينَ مِنْ عِبادِكُمْ وَ إِمائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللّهُ مِنْ فَضْلِهِ۔
اور تم میں سے جو لوگ بے نکاح ہوں اور تمہارے غلاموں اور کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو، اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا۔(النجفی، محسن علی، البلاغ، سورة النور: ۳۲)
شیخ الجامعہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مایہ ناز تفسیر میں فرمایا ہے کہ یہاں ایامی سے مراد:
بے شوہر عورت اور بے ہمسر مرد کو کہتے ہیں جسے مجرد کہا جاتا ہے۔اور وَالصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ:تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں جو ازدواجی زندگی نبھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں ان کا بھی نکاح کر دو۔(الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 5، صفحہ 457 النجفی، محسن علی)
نکاح کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگائے کہ
قَالَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ  تَزَوَّجُوا فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ  قَالَ مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَتَّبِعَ سُنَّتِی فَإِنَّ مِنْ سُنَّتِیَ التَّزْوِیجَ۔ (الکلینی، محمد بن یعقوب، الکافی ج 5 ص 329)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو میری سنت کی اتباع کرنا چاہتے ہیں تو ( سنو ) میری سنت میں سے ایک نکاح ہے۔اسی متن کی ایک اور حدیث بھی ہے کچھ اضافے کے ساتھ وہ بھی مولا علی علیہ ا لسلام سے ہی مروی ہے۔ ہم اختصار کی خاطرصرف اضافی جملہ ذکر کریں گے تاکہ تکرار نہ ہو جائے۔
اطْلُبُوا الْوَلَدَ فَإِنِّی مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْأُمَمَ غَداً وَ تَوَقَّوْا عَلَی أَوْلَادِکُمْ مِنْ لَبَنِ الْبَغِیِّ مِنَ النِّسَاءِ وَ الْمَجْنُونَةِ فَإِنَّ اللَّبَنَ یُعْدِی۔ ( نوری، حسین بن محمد تقی، وسائل الشیعہ ج 14 ) 
بچے طلب کرو ( یعنی پیدا کرو) میں کل بروز قیامت تمہارے ذریعے باقی امتوں پرفخر کروں گا اور اپنی اولاد کو باغی اور مجنونہ عورت کے دودھ سے بچا کے رکھو یعنی ان کا دودھ نہ پلاؤ کیونکہ دودھ ( کا اثر) سرایت کر جا تا ہے۔ اسی ایک حدیث سے ہمیں دائی کی شرائط بھی مل گئی کہ دائی جو آپ کے بچے کو دودھ پلائے گی وہ نہ ہی باغی ہو یعنی احکام الہٰی سے بغاوت کرنے والی نہ ہو اور نہ ہی مجنونہ ہو بلکہ صحیح سالم ہو۔

کتاب الطلاق

هو إزالة قيد النكاح بغير عوض بصيغة «طالق»؛ طلاق کی تعریف لمعہ یوں کی ہے کہ یہ نکاح کے قید کو بغیر کسی عوض کے زائل کرنا ہے صیغہ ن، طالق، کے ساتھ۔
يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَما لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَها فَمَتِّعُوهُنَّ۔ (النجفی، محسن علی، البلاغ ( سورة الاحزاب: ۴۹))
اے مومنو! جب تم مومنات سے نکاح کرو اور پھر ہاتھ لگانے سے پہلے انہیں طلاق دے دو تو تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ انہیں عدت میں بٹھاؤ، لہٰذا انہیں کچھ مال دو اور شائستہ انداز میں انہیں رخصت کرو۔
طلاق ایک نا پسندیدہ عمل ہے اسی لئے اسلام نے طلاق کے معاملے کو سخت بنایا اور نکاح کو آسان بنایا۔ مولا علی علیہ السلام نے بھی طلاق سے کراہت کا اظہار کیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ کی ایک کنیز آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہی تھی جس کا نام ام سعید تھا فرمایا کہ میں شادی کرنا چاہتا ہوں تو اس نے کہا یاامیر المومنین کیا چیز مانع ہے کر دیجئے تو آپ نے فرمایا کہ میری تو پہلے ہی چار بیویاں ہیں تو کنیز نے کہا کسی ایک کو طلاق دے دیجیئے۔
فَقَالَ وَيْحَكِ قَدْ عَلِمْتُ هَذَا وَ لَكِنَّ الطَّلَاقَ قَبِيحٌ وَ أَنَا أَكْرَهُهُ۔ (نوری، حسین بن محمد تقی،مستدرک الوسائل ج 15 ص 279)
یعنی امام نے جواب میں فرمایا کہ میں جانتا ہوں لیکن طلاق دینا قبیح ہے اور میں اسے پسند نہیں کرتا ہوں۔

شرائط صحت طلاق
1۔ گواہ موجود ہو

عَنْ عَلِيٍّ ع: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ فَقَالَ إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِي لِلْعِدَّةِ بِغَيْرِ شُهُودٍ فَقَالَ لَيْسَ بِطَلَاقٍ فَارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ۔(القمی،الصدوق،محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ ۳، ح ۴۷۵۴)
ایک شخص نے امام سے پوچھا کہ میں نے اپنی بیوی کو عدت کےلیے بغیر گواہ کے طلاق دی ( اس کا کیا حکم ہے؟) امام نے فرمایا طلاق نہیں ہے اپنی بیوی کے پاس جاؤ۔

2۔ قصد رکھتا ہو۔

عَلِيٍّ ع أَنَّهُ قَالَ: طَلَاقُ النَّائِمِ لَيْسَ بِشَيْ ءٍ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ إِلَى أَنْ قَالَ وَ لَا يَجُوزُ طَلَاقُ صَاحِبِ هَذَيَانٍ الْخَبَر۔(نوری، حسین بن محمد تقی،مستدرک الوسائل ج ۱۵،ص ۲۹۰)
امام نے فرمایا کہ نائم کا طلاق شمار نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ جاگ جائے پھر آپ نے فرمایا ہذیان بکنے والے کے لیے طلاق دینا جائز نہیں ہے۔

3۔ تقدم نکاح

عَنْ عَلِيٍّ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ : لَا طَلَاقَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ نِكَاحٍ۔(نوری، حسین بن محمد تقی،مستدرک الوسائل ج ۱۵ ص ۲۹۲)
مولا علی علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ ص نے فرمایا کہ نکاح کے بغیر طلاق نہیں ہوتی۔
ہمارے پیش نظر یہ نہیں ہے کہ ہم فقہی تمام مسائل کو بیان کریں بلکہ ہم فقط امیر المومنین ع سے مروی روایات کا جائزہ لے رہے ہیں اور یہ بتانا مقصود ہے کہ فقہ اسلامی میں مولا کے بھی اقوال موجود ہیں جن سے ہم نے غفلت برتی ہے۔

کتاب میراث

لِكُلٍّ جَعَلْنا مَوالِيَ مِمّا تَرَكَ اَلْوالِدانِ وَ اَلْأَقْرَبُونَ وَ اَلَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اَللّٰهَ كانَ عَلى كُلِّ شَيْ ءٍ شَهِيداً۔((النساء: ٣٣)، النجفی، محسن علی، البلاغ القرآن)
اور ہم نے ان سب کے ترکوں کے وارث مقرر کیے ہیں جو ماں باپ اور رشتے دار چھوڑ جاتے ہیں اور جن سے تم نے معاہدہ کیا ہے انہیں بھی ان کے حق دے دو، بے شک اللہ ہر چیز پر حاضر و ناظر ہے۔
میراث کے معنی فقہاء نے دو طرح سے بیان فرمائے ہیں۔
1۔ بمعنی اسم مصدر یعنی ( ارث)
2۔ یا بمعنی اسم مفعول یعنی (موروث)
1۔ پہلے معنی کے مطابق اس کی تعریف کی گئی ہے کہ میراث سے مراد کسی کے مرنے سے انسان کا کسی چیز کا مستحق ہونا۔
2۔ دوسرے معنی کے مطابق میراث سے مراد وہ چیز ہے جو فریضہ کے طور پر کسی کو ملتی ہے۔(سبحانی، جعفر، الطاف الرحمن فی فقہ القران، ج 3 ص 151 )
فقہ اسلامی میں میراث ملنے کی دو سبب ہیں۔
1۔نسب( والدین، اولاد، بہن بھائی، چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں)
2۔ سبب( زوج و زوجہ، عتق، ضامن جریرہ، امام)
پھر سببیوں کو تین طبقے میں تقسیم کیا ہے۔
اور فرائض کو چھے حصوں میں تقسیم کیا ہے، امیر المومنین ع فرماتے ہیں:
اَلْفَرَائِضُ مِنْ سِتَّةِ أَسْهُمٍ اَلثُّلُثَانِ أَرْبَعَةُ أَسْهُمٍ وَ اَلنِّصْفُ ثَلاَثَةُ أَسْهُمٍ وَ اَلثُّلُثُ سَهْمَانِ وَ اَلرُّبُعُ سَهْمٌ وَ نِصْفٌ وَ اَلثُّمُنُ ثَلاَثَةُ أَرْبَاعِ سَهْمٍ وَ لاَ يَرِثُ مَعَ اَلْوَلَدِ إِلاَّ اَلْأَبَوَانِ وَ اَلزَّوْجُ وَ اَلْمَرْأَةُ وَ لاَ يَحْجُبُ اَلْأُمَّ عَنِ اَلثُّلُثِ إِلاَّ اَلْوَلَدُ وَ اَلْإِخْوَةُ وَ لاَ يُزَادُ اَلزَّوْجُ عَلَى اَلنِّصْفِ وَ لاَ يُنْقَصُ مِنَ اَلرُّبُعِ وَ لاَ تُزَادُ اَلْمَرْأَةُ عَلَى اَلرُّبُعِ وَ لاَ تُنْقَصُ مِنَ اَلثُّمُنِ وَ إِنْ كُنَّ أَرْبَعاً أَوْ دُونَ ذَلِكَ فَهُنَّ فِيهِ سَوَاءٌ وَ لاَ تُزَادُ اَلْإِخْوَةُ مِنَ اَلْأُمِّ عَلَى اَلثُّلُثِ وَ لاَ يُنْقَصُونَ مِنَ اَلسُّدُسِ وَ هُمْ فِيهِ سَوَاءٌ اَلذَّكَرُ وَ اَلْأُنْثَى وَ لاَ يَحْجُبُهُمْ عَنِ اَلثُّلُثِ إِلاَّ اَلْوَلَدُ وَ اَلْوَالِدُ وَ اَلدِّيَةُ تُقْسَمُ عَلَى مَنْ أَحْرَزَ اَلْمِيرَاثَ۔ ( الطوسی، محمد بن حسین،تهذيب الأحكام ج: ٩ ص ٢٤٩)
اس حدیث میں مولا نے مال کے چھےحصے کئے ہے اور چھے حصے میں سے جس کو جتنا ملنا ہے چھے کی نسبت اس کو بیان کیا ہے مثلا کسی کو نصف ملنا ہے تو چھے کا نصف تین ہے، حدیث کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
فرائض چھے حصے ہیں،( جس کو ) ثلثان ( ملے گا اس کو ) چار حصے ملے گا اور نصف تین حصے ( بنے گا) اور ثلث دو حصے (بنے گا) اور ربع ڈیڑھ حصے ( بنے گا) اور ثمن تین چوتھائی ( بنے گا) بیٹے کے ساتھ صرف ( میت کے) والدین اور زوج یا زوجہ ہی ارث پاسکتے ہیں اور ماں کے لیے ثلث ملنے سے حاجب صرف ( میت کا ) بیٹا یا بھائی ہوتا ہے اور شوہر کو نصف سے زیادہ اور ربع سے کم نہیں دی جائے گی اور بیوی کو ربع سے زیادہ اور ثمن سے کم نہیں دی جائے گی اگر چار بیویاں ہوں یا اس سے کم تو وہ آپس میں برابر تقسیم کریں گی۔اور مادری بھائی کو ثلث سے زیادہ اور سدس سے کم نہیں دی جائے گی اور وہ آپ میں برابر تقسیم کریں گے چاہے مذکر ہو یا مونث اور ان کے لیے ثلث سے حاجب صرف ( میت کا) بیٹا اور باپ ہی واقع ہو سکتے ہیں اور دیت کو ان کے درمیان تقسیم کیا جائے گا جن کے لیے میراث ثابت ہو۔

موانع ارث

ارث کے موانع کے بارے میں امیر المومنین ع سے جو روایت مروی ہیں ان کی روشنی میں موانع ارث چار بنتے ہیں۔
1۔قتل
2۔ لعان
3۔ حمل
4۔ کفر

قتل

(أَنَّ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ) قَالَ إِذَا قَتَلَ الرَّجُلُ أُمَّهُ خَطَأً وَرِثَهَا وَ إِنْ قَتَلَهَا (مُتَعَمِّداً فَلَا) یَرِثُهَا۔
امیر المومنین ؑ نے فرمایا: جب کوئی شخص اپنی ماں کو غلطی سے قتل کردے تو وہ اپنی ماں سے ارث پائے گا اور اگر وہ جان بوجھ کر قتل کردے تو اس سے ارث نہیں پائے گا۔(حر عاملی، وسائل الشیعہ ج ۱۷، بازار کتاب قائمہ)

کفر

عَنْ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ  أَنَّهُ قَالَ لِلنَّصْرَانِیِّ الَّذِی أَسْلَمَتْ زَوْجَتُهُ بُضْعُهَا فِی یَدِکَ وَ لَا مِیرَاثَ بَیْنَکُمَا۔
امامؑ  نے ایک نصرانی سے جس کی زوجہ نے اسلام قبول کیا تھا فرمایا کہ اس کا بضع تمہارے ہاتھ میں ہے لیکن تمہارے درمیان میراث نہیں ہے۔(حر عاملی، وسائل الشیعہ ج۱۶)
اس حدیث کے مطابق کافر کسی مسلمان سے ارث نہیں پائے گا۔

لعان

عَنْ جَدِّهِ عَنْ عَلِیٍّ علیه السلام فِی رَجُلٍ قَذَفَ امْرَأَتَهُ ثُمَّ خَرَجَ فَجَاءَ وَ قَدْ تُوُفِّیَتِ الْمَرْأَةُ قَالَ یُخَیَّرُ وَاحِدَةً مِنِ اثْنَتَیْنِ فَیُقَالُ لَهُ إِنْ شِئْتَ أَلْزَمْتَ نَفْسَکَ الذَّنْبَ فَیُقَامُ فِیکَ الْحَدُّ وَ تُعْطَی الْمِیرَاثَ وَ إِنْ شِئْتَ أَقْرَرْتَ فَلَاعَنْتَ أَدْنَی قَرَابَتِهَا إِلَیْهَا وَ لَا مِیرَاثَ لَکَ۔ (من لايحضره الفقهيه ج ٤)
امام ؑ نے ایک شخص کے بارے میں کہ، جس نے اپنی بیوی کو قذف کیا اورنکل گیا پھر آیا تو اس کی بیوی فوت ہوگئی تھی، فرمایا: کہ اسے دو کاموں میں سے ایک کا اختیار ہے پھر آپ نےاسے فرمایا کہ اگر تو چاہے تو تم خود کو گناہ گار ٹھہراو تاکہ تم پر حد جاری کیا جائے اور تمہیں ارث دیا جائے اور اگر چاہو تو تم اقرار کرو کہ تم نے اس پر لعان کیا ہے تو تمہیں ارث نہیں دی جائے گی۔
یعنی اس حدیث میں امام نے اسے یہ اختیار دیا کہ جو تم نے قذف کیا ہے تمہارے پاس دو راستے ہیں یا تو اس قذف کے بارے میں خود کو جھٹلاو تاکہ تم پر حد جاری ہو اور تمہیں میراث میں سے حصہ دیا جائے یا پھر اپنی بات پر قائم رہو تو تمہیں میراث نہیں ملے گی۔

حمل

الجنين إذاولد حيا ورث وورث استهل أو لم يستهل والحياة تعرف بالحركة والنفس وأشباه ذلك وإنما يكون استهلال الطفل عن ألم يناله و قدربما لا يكون يناله ذلك حتي يموت۔((دعائم الاسلام ج 2 375)التمیمی المغربی، نعمان بن محمد)
جنین (بچہ) جب زندہ پیدا ہوجائے تو وہ میراث پائے گا اور بچہ میراث پائے (اگرچہ) بچہ نے رونا شروع کرے یا نہ کرے (یعنی اس کا رونا شرط نہیں ہے جو کہ عموما یہی ہوتا ہے کہ بچہ پیدا ہوتے ہی رونا شروع کر دیتا ہے لیکن یہ اس میراث پانے کے لئے شرط نہیں ہے)۔
یہ جنین دوسرے ورثا کے لئے بھی مانع واقع ہوگا جب تک یہ پیدا نہیں ہوتا چاہے زندہ پیدہ ہو یا مردہ تب تک دوسرے ورثا کو ان کا حق نہیں دیا جائےگا اور اگر وہ مطالبہ کریں تو انہیں اپنا حق دیا جائے گا اور جنین کے لئے دو مذکر کا حصہ بچا کر رکھیں گے۔

خلاصہ

اس مقالہ کو لکھنے کا بنیادی مقصد اس فکر کو غلط ثابت کرنا ہے جو اس وقت اپنوں اور غیروں میں پایاجاتا ہے وہ یہ ہے کہ امیر المومنینؑ  سے فقہ اسلامی میں روایات یا نہیں ہے یا اگر ہے تو بہت کم ہے۔ ان سے ایک الگ فقہ، فقہ علی کے نام سے مرتب کیا جاسکے۔ ہم نے اس مقالہ میں اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ فقہ میں امیر المومنین ؑ سے نہ صرف فقہ میں روایات مروی ہیں بلکہ آپ ؑ کے نام پر الگ ایک فقہ مرتب کیا جاسکتا ہے۔اور فقہ کے ہر ابواب میں آپ سے روایات منقول ہیں۔ فقہ کے تمام ابواب، کتاب طہارت سے لے کر کے کتاب دیات تک، میں امیر المومنین ؑ کے اقوال فراواں پائے جاتے ہیں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے