تحریر: عمران حسین عابدی
- تعارف مولا امیر المومنین علی علیہ السلام
- نام۔ علی ابنِ ابی طالب
- کنیت ۔ ابوالحسن ،ابوتراب
- لقب۔ مرتضیٰ ،حیدر کرار، امیر المومنین
- تاریخ پیدائش ۔ 13 رجب المرجب 600 عیسوی بمقام خانہ کعبہ
- تاریخ وفات ۔ 21 رمضان المبارک ، 40 ہجری بمقام مسجد کوفہ
- مدفون ۔ نجف اشرف ،عراق۔
دنیا کا لغوی معنی
دنیا عربی لفظ میں ” دنی(قریب اور کمتر ہونا) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ‘ نزدیک یا کم درجے کی ‘ اس وجہ سے آخرت کے مقابلے میں اسے ‘ دنیا’ کہا جاتا ہے یعنی قریب اور فانی زندگی ۔
وضاحت
حضرت مولا علی ؑ شیر خدا دنیا میں پہلے کامل انسان ہے جنہوں نے دنیا کے متعلق اپنے ارشادات کا بڑا سرمایہ چھوڑا ہے ۔آپ نے دنیا کا نقشہ جس انداز میں دکھایا ہے اس سے عبادات و معاملات کے لیے ایک عمدہ لائحہ عمل ملتا ہے۔دنیا کے متعلق آپ کے خطبات ، خطوط ،اشعار و دیگر ارشادات موجود ہیں۔
مثلاً حضرت علی ؑنے فرار کی مذمت کی خواہ وہ میدان جہاد سے ہو یا دنیوی آلایم و مصائب سے ہو ۔اور اس کے ساتھ ساتھ محض لذت اندوزی، عیش پرستی و دولت کی ذخیرہ اندوزی کو ہی مقصد حیات سمجھ لینے کی سخت مخالف فرمائی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بعد از رسول مسلمانوں نے بڑی فتوحات کیں اور حدودِ سلطنت کو وسیع تر کیا لیکن یہی فتوحات مسلمانوں کے مزاج روحانی پر کافی اثرانداز ہوئی۔ خدا پرستی و معرفت کوشی گھٹ گئی اور ثروت اندازی کی طرف توجہ بڑھ گئی ۔وفات پیغمبر ؐ کے فوراً بعد وہ دور آگیا جس کے متعلق آپ پہلے ہی پیشن گوئی فرما چکے تھے۔ خدا کی قسم مجھے یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرو بلکہ مجھے یہ خوف ہے کہ تم خزانوں کی محبت میں لڑنے لگو۔ (صحیح بخاری )۔
جب اموی دور آیا تو اس اسٹیج پر پہنچ گیا کہ مذہب میں لذت کی مانگ بڑھ گئی ۔قوانین شریعت محمدیہ اور سیرت رسول کو نظر انداز کردیا گیا ۔بعض جگہوں پر اسلامی حکمران شراب پی کر نماز پڑھانے لگے۔دنیا کی صحیح شکل
دنیا اپنے وجود کا خود آئینہ دار ہے۔ اس نے اپنے تاریک پہلو کو اپنے روشن پہلو سے زیادہ نمایاں کر رکھا ہے اور انسان ہی کا قصور ہے کہ وہ اس کے تاریک پہلو پر غوروفکر نہیں کرتا حالنکہ آباؤ اجداد کی اموات اور تمام تاریخی روایات اس کی حقیقت بیانی کی مثالیں ہیں۔
دنیا آرام کا گھر کیسے بن سکتی ہے
اگر انسان نے اپنی کامیابی اور ناکامی اور زندگی و موت کے صحیح تصورات قائم کرلیے ہیں اور وہ تصورات دنیا کی حقیقت کے ہم آہنگ بھی ہے تو یہ دنیا حقیقت ہی حقیقت ہے جس انسان کو تکمیل فرائض ہو اور وہ اس دنیا کو دوسری کا زینہ سمجھتا ہے تو اس کے لیے یہ دنیا راحت کدہ ہے۔دنیا کے الائم کی حقیقت
انسان کو تکلیفیں جھیلنے کے لیے پیدا نہیں کیا ہے بلکہ ان تکالیف سے اس کو دوسری زندگی کی تکالیف کا تصور کرنا چاہیے یعنی یہاں کی تکالیف محرک احساس ہے ناکام انسانوں کے لئے دنیا اپنی زحمتوں کے بھیس میں آخرت کی تکلیفوں کا تصور پیش کرتی ہیں ۔
دنیا کی عیش پرستی
یہ بھی محرک احساس لذت ابدی ہے خود مقصود نہیں ہے۔ دنیا نے اپنی خوشحالی سے آخرت کے عیش و سرود کا اندازہ بتا دیا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کی شاہراہ فکر و عمل
حضرت علی ؑ کو یہ خاص امتیاز حاصل ہے کہ آپ ؑنے ترقی پذیر زندگی کے لیے ہمہ گیر نظام سکھایا ہے۔ زندگی بھر آپ کا بحر فصاحت ٹھاٹھیں مارتا رہا ۔آپ ؑ نے جو فرمایا وہ قرآن وحدیث کی جامع تفسیر ہے۔ خاتم الانبیاء کے سوا کوئی دوسری شخصیت اس جامع فکر و وسعت عمل کی مثال پیش نہیں کر سکتا ۔انفرادی ہو یا اجتماعی دوستوں سے معاملہ ہو یا دشمنوں سے وہی طرز عمل تھا جو رضائے الٰہی کے مطابق تھا۔
آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ پاک ہمیں سیرت علی ابنِ ابی طالب اور ان کی آل کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ثم آمین
