نہج البلاغہ اور اسلامی معاشرہ کی اخلاقی اور سیاسی خصوصیات
تمہید:
چرج جرداق سے پوچھاگیا کہ تم عیسائی ہوتے ہوئے کو نسی چیز نے تمہیں نہج البلاغہ کی طرف رغبت دلائی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میں بچپن سے ادبیات کا شوقین تھا اور میں نے نہج البلاغہ کا مشاہدہ کیا تو اس کی فصاحت و بلاغت اور ادبی نکات پر فریفتہ ہوا حالانکہ میری عمر 9سال سے زیادہ نہیں تھی پھر بھی میں نے پورے نہج البلاغہ کو حفظ کرلیاتھا اور ابھی نصف صدی سے زیادہ گزر چکی ہے پھربھی میرا حافظہ نہج البلاغہ پر فخر کرتا ہے۔
اس (جرق جرداق) سے سوال کیا گیا کہ! تم نے کتاب (علی صوت العدالة الانسانیة) کیوں لکھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میری نہج البلاغہ سے آشنائی کی وجہ سے، میں حضرت علی کو پہچان سکا اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ امام علیؑ تمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں یہاں تک کہ شیعوں کے درمیان بھی مظلوم ہیں حالانکہ میں نے دیکھ لیا کہ حضرت امام علیؑ کی شخصیت و مرتبہ، شیعہ و سنی، اسلام عسیائیت، بلکہ تمام مکاتب فکر اور ادیان سے بلند و بالاہے اسی لئے میں نے یہ کتاب لکھی ہے تاکہ شاید، اس ظلم و ستم کو خاتمہ کرنے میں، میرا بھی حصہ ہو۔ (ماہنامہ پرسمان، (اسفند ١٣٨٢)ص١)
حضرت امام علیؑ کے بارے میں:
انگلینڈ کے مشہور محرر (نوسیندہ ) اور فیلسوف، تو ماس کار لائل اپنی کتاب بعنوان (بہادر، پہلوان، دلیر) میں حضرت امام علی کے بارے میں کہتے ہیں: مگر امام علی سے ہمیں دوستی اور عشق کے سوا کچھ نہیں ملاہے وہ کتنا بلند مرتبہ والا بہادر تھے آپ کے سر چشمہ وجدان سے محبت، دوستی اور نیکی سیلاب کی طرح جاری تھیں اور آپ کا مبارک دل قدرت مندی اور بہادری سے بھرا ہوا تھا کہ جن کے شعلے زبان سے نکل آتے تھے آپ کی شجاعت میں لطف و مہربانی گڑھی ہوئی تھی۔ (فضل اللہ کمپانی، علی کیست؟، ص ٣٥٧)
فرانس کے مستشرق (مشرقی زبانوں اور علوم کا ماہر) بارون ردائفوکا کہنا ہے کہ:
علیؑ کا کردار ان کی فکر عاطفہ اور خیال کا مظہر ہے عین دلیری کے ساتھ، ساتھ آپ ایسے پہلوان، اور بہادر تھے کہ ہمدرد بھی تھے، اور عین جنگی حالات کے دوران ایسے شہسوار تھے کہ جوازہد بھی تھے، دنیا کے مال و منصب اور جاہ و مقام کی طرف آپکی کوئی توجہ نہیں تھی اورحقیقی راہ میں آپ نے اپنی جان قربان کردی اور آپ اسی عمیق روح کے مالک تھے کہ جس کی جڑ پوشیدہ تھی، اور آپ جہاں بھی ہوتے تھے خوف الہیٰ آپ پر غالب رہتا تھا۔ (محمدر ضا حکیمی، دستان غدیر، ص ٢٥٩)
نہج البلاغہ کے بارے میں:
نہج البلاغہ، صبحی صالح کے نسخہ کی بناپر ٢٣٩ خطبے، و ٧٩خطوط (رسائل) اور ٤٨٠ کلمات قصار پر مشتمل ہے، جو مسلمانوں کے پہلے امام کے گوہر کلاموں کا مجموعہ ہے یہ مجموعہ قرآن مجید اور حدیث نبویؑ کے بعد عربی ادبیات کا ایسا بلند ترین نمونہ او رایسا بے نیاز منبع اور مبنیٰ ہے، جو عربی زبان کی تقویت و ترویج او ربلندی کا سبب بنا ہے البتہ آپ کی گفتگو کا مجموعہ، ان کلمات سے بالاتر ہے جو نہج البلاغہ میں جمع آوری ہوئے ہیں۔
مسعودی، کتاب مروج الذہب میں، امام علی کے خطبوں کا مجموعہ، جو اس زمانہ میں موجود تھا تقریبا اسکی تعداد ٤٨٠ تک بتاتے ہیں جب کہ کتاب نہج البلاغہ میں، اس تعداد کا نصف حصہ ہے۔ نہج البلاغہ کے بہت سے امتیازات میں سے چند کی طرف اشارہ کیا جاسکتاہے جیسے اس کی جامعیت، زیبائی فصاحت و بلاغت اور مخاطب میں تاثیر گزا ہونا۔
سیدرضی کہ جس نے نہج البلاغہ کو تدوین کیاہے، اس کتاب شریف کے کلام کی زیبائی اور خوبصورتی کے بارے میں کہتے ہیں کہ: (وہی نہج البلاغہ ) ہے جس نے کلام کے چہرے سے نقاب ہٹادیاہے اس کلام کے وزن کا اندازہ اس کے بیان کی فصاحت و بلاغت سے کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی قانون مندی نے اس کے بیان میں جڑ پکڑلی ہے۔
نہج البلاغہ کی نظر سے دیکھا جائے تو ایک اسلامی معاشرہ بہت سارے سیاسی خصوصیات پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں، ان میں سے چند کا ذکر مندرجہ ذیل ہے:١۔ گفتار میں آزادی:
اجعل لِذوِی الحاجاتِ مِن قِسما تفرِغ لہم فِیہِ شخص و تجلِس لہم مجلِسا عاما فتواضع فِیہِ لِلّٰہِ الذِی خلق و تقعِد عنہم جندک و اعوانک مِن حراسکِ و شرطکِ حتی یکلِمک متکلِمہم غیر متعتِع۔
اپنے قیمتی اوقات میں سے کچھ وقت ایسے لوگوں (محتاجوں ) کے لئے مختص کرلو، جنہیں تمہاری ضرورت ہے، خود انکے کاموں کے لئے فارغ کردو، اور ان کے عمومی مجلس میں بیٹھا کرو، اور جس (خدا ) نے تجھے پیدا کیا ہے، اس کے سامنے، اس مجلس میں، سر تسلیم خم ہو کر بیٹھ جاؤاور اپنے ایسے سپاہیوں اور مدد گاروں جو تمہارا محافظ اور پاسبان ہیں ان کو اپنے پاس پیار سے بٹھا دو، تا کہ ان کے اسپیکر تم سے بیدھڑک گفتگو کرے۔ (وہی حوالہ خط، ٥٣)٢۔معاشرہ میں تحفظ فراہم کرنا:
انطلِق عل تقو اللّٰہِ وحدہ لا شرِیک لہ و لا تروِعن مسلِما و لا تجتازن علیہِ کارِہا و لا تخذن مِنہ اکثر مِن حقِ اللّٰہِ فِی مالِہ۔
جا اس خدا کے خوف کے ساتھ جو یکتا اور بے مثل ہے اور کسی مسلمان کو مت ڈرا اور اگر تجھے وہ پسند نہیں آیا تو نا پسندی کی بنیاد پر اس پر تجاوز مت کرو، اور خدا کے حق سے زیادہ اس کے مال سے مت آٹھا۔(وہی حوالہ خط، ٢٧)٣۔ معاشرہ کو حقارت اور نظرانداز سے بچانا:
فاخفِض لہم جناحک وا لِن لہم جانِبک و ابسط لہم وجہک و آسِ بینہم فِی اللحظِ و النظرِ ةحتی لا یطمع العظما فِی حیفِک لہم و لا ییاس الضعفا مِن عدلِک علیہِم:
معاشرہ کے لوگوں کے سامنے خصوع و خشوع سے پیش آ اور ان کے سامنے نرم مزاجی، خندہ پیشانی اور کشادہ، اور ناتوان و مستضعف لوگ تمہاری عدالت سے مایوس نہ ہو جائیں۔(وہی حوالہ ہے، خط، ٢٠)٤۔مالی تحفط:
و انی اقسم باللّٰہ قسما صادقا لئن بلغنی انک (زیادبن ابیہ ) خنت من فئی المسلمین شیئا صغیرا او کبیرا لاشدن علیک شدة تدعک قلیل الوفر ثقیل الظہرضئیل الامر۔
میں خدا کی سچی قسم کھا کر کہہ رہاہوں کہ اگر مجھ تک کوئی ایسی خبر پہنچ جائے کہ تم ( زیادبن ابیہ ) نے مسلمانوں کے مال غنمیت میں کہ و زیاد خیانت کی ہے تو میں تم پر اتنی سختی کروں گا کہ وہی تھوڑا سا مال تمہارے لئے مصیبت بن جائے اور تم خوارو پریشان میں پھر جائے(خط، ٢٧)
٥۔ مردوں کی حکومت:
ولتکن احب الامور الیک اوسطہا فی الحق و اعمہا فی العدل و اجمعہا لضی الرعیة، فا سخط العامة یجحف برضی الخاصة و ان سخط الخاصة یغتفر مع رضی العامة۔ ولیس حد من الرعیة اثقل علی الوالبی مؤونة فری الرخاء، و اقل معونة لہ فی البلاء۔ و اکرة للانصاف، و اسال بالالحاف، و اقل شکرا عندا الا عطاء، و ابطا عذرا عندالمنع، و اضعف صبرا عند ملما ت الدہر من اہل اخاصة۔ و انما عماد الدین و جماع المسلمین و العدة للا عداء العاقة من الاقة فلیکن صغوک لہم و میلک معہم۔
تجھے ایسے امور کو پسندیدہ ترین قرا دینا چاہیئے جو حق میں میانہ ترین عدل و انصاف میں وسیع ترین ہوں، اور لوگوں کی خوشنودی کو جلب کرنے میں جامع ترین ہوں، بے شک، عام لوگوں کی ناراضگی، خاص لوگوں کی رضایت کے اثر کو ختم کردیتی ہے حالانکہ عام لوگوں کی خوشنودی سے خاص لوگوں کی ناراضگی معاف کی جاسکتی ہے خاص لوگ، روز مرہ شرائظ کے ساتھ عام لوگوں کو جانچنے میں حکومت کے لئے سنگین بوجھ ہیں اور مصیبت و سختی کے وقت، ان کی حمایت بھی بہت ہی کم ہوتی ہے اور یہ لوگ پریشان ہیں کیونکہ حکومت کے ساتھ عمل بجالانے سے قاصر ہے اور یہ لوگ مانگتے وقت اصرار سے مانگتے ہیں بخششوں اور عطاوں کے مقابلہ میں کم شکر کزار ہیں شکر نہیں کرتے ہیں )، اور رنج و افسوس و ناراضگی وقت، معذرت خواہی کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں اور زمانے کے دردناک حادثات کے دوران صبر کے لحاظ سے بہت کمزور ہیں پس صرف لوگوں کا وہ گروہ تمہارے لئے بہتر ہے جودین کو اپنا تکیہ گاہ سمجھتے ہیں اور دشمنوں کے ساتھ جنگ لڑنے میں یہی تمہارا طاقت کا ذخیرہ ہے لہذا، تمہاری توجہ و دھان اور تمہار شوق انکی رکھو – (وہی حوالہ ہے، خط٣٥)
٦۔ لوگوں کی خدمت کرنا:
وعلم ان لارعیة طبقات لایصلح بعضہا الا ببعض ولاغنی ببعضہا عن۔ بمنہا جنوداللّٰہ، و منہا کتاب العامة و الخاصة، و منہاقضات العدل، و منہا عمل الانصاف و الرفق و منہا اہل الجزیة، و ارلخراج من اہل الذمة و مسلمة الناس، و منہا التجار و اہل الصناعات و منہا الطبقة السفلی من ذوالحاجة و المسکنة و کلا قدسمی اللہ سہمہ، وو صنع علی حدہ فریضة فی کتابہ او سنة نبیة صلی اللّٰہ علیہ وآلہ عہدا منہ عند نا محفوضا:
جان لو کہ لوگوں کے کئی طبقات ( طبقے) ہوتے ہیں، بعض طبقوں میں بہتری نہیں آتی مگر یہ کہ دوسرا طبقہ ہو، اور نہ ان میں سے بعض گروہ دوسرے گروہ سے بے نیاز ہیں ( بلکہ ایک کو دوسرے کی ضرورت ہے) پس ان میں سے بعض لوگ خداکی سپاہی ہیں، اور کچھ لوگ عمومی اور خصوصی خطوط کے رالڑ ہیں اور بعض لوگ محکمئہ عدالت کے قاضی ہیں اور بعض لوگ ایسے ہیں جنکا کام انصاف اور مہربانی کرنی ہے مسلمانوں اور اہل ذمہ میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جو اہل جزیہ اور خراج ہیں، اور بعض لوگ اہل تجارت اور صناعت ہیں، اور بعض نچلی سطح کے فقرا او رمساکین میں سے ایسے افراد ہیں کہ جن کا حصہ اللہ تعالی نے مشخص اور معین کرلیا ہے – خدا اس واجب مقدار کو اپنی کتاب اور حدیث نبویؐ میں وضع کیا ہے کہ جس کے بارے میں خود نے وعد کیا تھا اور ہمارے پاس (شیعہ) مخفوظ بھی ہے۔( وہی حوالہ )
٧۔ حق پرستی یا حق کی حمایت:
انا موفوک حقک، فو فہم حقوقہم، و الا تفعل فانک من اکثر الناس خصوما یوم القیامة، و یؤسا لمن خصمہ عند اللّٰہ الفقراء و المساکین و السائلون والمدفوعون و الغارم وابن السبیل۔ ۔۔ و ان اعظم الخیانة الامة وافظع الغش غش الاعة:
ہم نے تمہارے سارے حقوق ادا کرلئے ہیں، لہذا تم بھی دوسروں کا حق ان تک پہنچا یا کرو، ورنہ قیامت کے دن تم بڑے دشمنوں میں شمار ہوگا – اور خدا کے نزدیک وہ شخص بہ ترین لوگوں میں شمار ہوگا کہ جس نے فقیروں، مسکینوں، گداگروں، دہتکارے ہوئے لوگوں، قرضہ داروں اور ابن سبیل کے ساتھ خیانت و عداوت کی ہو، اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کرنا، بزرگترین خیانت میں سے ہوگا، اور اپنے اماموں کو فریب دھوکہ دینا بدترینی دھوکہ بازی ہوگا ( خط٢٦)
٨۔ لوگوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کرنا:
فان شکوا ثقلا او عل او انقطاع مثرب او بال او احال ارضی اغتمرہا غرق او اجحف بہا عطش خففت عنہم بہا ترجو ان یصلح بہ امرہم، و لا یثقلن علیک شء خففت بہ الموون عنہم، فانہ ذخر بعودون بہ علیک فی عمار بلادک و تزیین ولایتک مع استجلا بک حسن ثنا ئہم و تبححک باسفامن العدل فیہم، معتمدا فضل قوتہم بما ذخرت عندہم من اجمامک لہم، و الثق منہم بما عوذتہم من عدلک علیہم و رفقک بہم فربما حدث من الامور ما اذاعولت فیہ علیہم من بعد احتملوہ طیبة انفسہم بہ فان العمران محتمل ما حملتہ:
جب لوگ ٹکس کی سنگینی اور کوئی دوسری وجہ سے مثلا )زمیں و آسمان سے پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے( یا زمین پانی میں ڈوبنے اور خشک ہونے کی وجہ سے شکایت کریں، تو ان کے امور کو انجام دینے کی امید دلاکر انہیں تخفیف کردو، اور اتنی تخفیف مت کرو، کہ کل کو تمہارے لئے بوجھ بنے، اور وہ تمہارے لئے ایسا ذخیر ہے، جسے وہ اپنے ملک کی تعمیر اور حکمرانی کی تزیین کے لئے تجھے لوٹا دیں گے، اور اس کا فائدہ، یہ ہوگا کہ وہ سب تجھ پر قربان ہوں گے- اور وہ ایسی گران بہا شے ہے کہ جب تم عدالت کے سامنے ہوں گے تو تم احساس کروگے کہ وہ لوگ زیادہ تر ان قوتوں اور طاقتوں پر اعتماد کرتے ہیں، جنہیں تو نے پیار و محبت سے خزانے کے طور پر ان کے پاس امانت رکھی ہوئی تھی اور وہ اعتماد، ایسا اعتماد ہے کہ جسے تونے ان کے او پر عدل و انصاف اور مہربانی کرکے لوٹا دیاہے )یعنی ان کے اندر اعتماد پیداد کردیاہے (اور بعض اوقات ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جیسے کہ تمہارا ان کے ساتھ اچھے سلوک کے بعد جب تم ان سے کسی قسم کی مدد طلب کروگے تو وہ کبھی بھی انکار نہیں کریں گے بلکہ دل و جان سے قبول کرکے تمہاری مرضی کے مطابق زمین کی آبادی میں وسعت بھی پیدا کریں گے۔(ایضا، خط ٥٣)
١٠۔تشویق و تنبیہ، شوق او رتوجہ دلانا:
اغرف لکل امری منہم ما ابلی، ولاتضمن بلا امری الی غیرہ ولا تقصرن بہ دون غای بلائہ ولایدعونک شرف امری الی ان تعظم من بلائہ ماکان صغیرا ولاصنع امری الی ان تستصفر من بلائہ ماکان عظیما:
ہر ایک کے رنج و مصیبت کی مقدار کو پہچان لو چاہے جتنی بھی ہو اور کسی کے رنج کو کسی دوسرے پر مت ڈالو، رنج و مصیبت کا اندازہ جسے اس نے دیکھا ہے اور وہ تکلیف، جسے اس نے اٹھائی ہے اس کے بدلہ اور عوض دینے میں کوتاہی مت کرو او رخبردار کسی کی بزرگی و شرافت سے غلط فائدہ اٹھاکر اس کے تھوڑے سے رنج کو بڑے رنج میں تبدیل مت کرو، اور کسی کی پستی کی وجہ سے اس کی عظیم کوششوں کو خوار و مصیبت میں مت ڈالو۔ (ایضا)
https://alhassanain.org/urdu/?com=content&id=692