تحریر: محمد کاظم سلیم

جلوسِ میلاد النبی( ص) میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں امتِ مسلمہ کے دلوں میں عشقِ رسول(ص) کی لو روشن کرنے کا ایک روح پرور اور ایمان افروز مظہر ہے۔ یہ جلوس نہ صرف ولادتِ باسعادت کی مسرت کا اجتماعی اظہار ہے، بلکہ سیرتِ طیبہ کے اجمالی تعارف، اتحادِ امت اور شعورِ دینی کی بیداری کا آئینہ دار بھی ہے۔ نعت و درود کی گونج دلوں کو منور اور ماحول کو روحانی جِلا عطا کرتی ہے۔ سیرتِ طیبہ کو عوام تک پہنچانے کا ایک بابرکت ذریعہ ہونے کے ساتھ قرآنی شعائر کا احیاء بھی ہے۔
قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

"قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا” (یونس: 58) "کہہ دو: یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوشی منائیں۔”

رحمت للعالمین (ص)کی ولادت پر خوشی منانا اسی قرآنی حکم کی عملی تعبیر ہے۔ کیونکہ آپ کی ولادت جو پوری انسانیت کےلئے رحمت ہے فضل اور رحمت الہٰیہ کا کامل ترین مصداق ہے۔ میلاد النبی(ص)، عاشورا اور دیگر اسلامی مواقع پر نکالے جانے والے جلوس، دراصل ایمان، محبتِ رسول(ص) و اہل بیت، اور وحدتِ امت کا مظہر ہوتے ہیں۔ ان مواقع پر لازم ہے کہ شرکاء اخلاصِ نیت، نظم و ضبط، اور شریعتِ مطہرہ کی مکمل پاسداری کو اپنا شعار بنائیں۔ جلوس کے دوران کسی بھی قسم کا خلافِ شرع عمل، موسیقی، اسراف یا شور و غوغا نہ صرف اس روحانی اجتماع کے مقصد کو مجروح کرتا ہے بلکہ اسلامی آداب اور اخلاقیات کے منافی بھی ہے۔ ایسے مواقع پر سیرتِ طیبہ(ص)کا عکس عمل میں جھلکنا چاہیے تاکہ یہ اجتماعات امن، تہذیب، اور عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو سے معطر ہو کر قلوب کو منور کریں اور دینِ اسلام کا جمال دنیا پر واضح ہو۔

سچی محبت کا تقاضا: اتباع و اطاعت
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہل بیت علیہم السلام اور صحابہ کرام سے سچی محبت کا تقاضا اُن کی پیروی اور تقلید ہے۔محض زبانی دعویٰ محبت، جب تک عملی اتباع میں نہ ڈھلے، صرف جذباتی وابستگی شمار ہوگی جو دین کے مطلوبہ معیار پر پوری نہیں اترتی۔ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا:

"قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ”(آل عمران: 31) یعنی "اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔”

اسی طرح نبی کریم (ص) اور اہل بیت اطہار علیہم السلام سے محبت، جب تک ان کی سیرت، اخلاق، دینداری، عدل و انصاف اور تقویٰ کے سانچے میں زندگی ڈھالنے کا باعث نہ بنے، اُس وقت تک محض محبت کے دعوے بےاثر اور بے وزن رہتے ہیں۔ رسول اللہ اور اہل بیت کی پیروی کا عملی نتیجہ اطاعت الہٰی ہے جیساکہ امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:

"من أطاع اللّٰه فهو لنا ولي، ومن عصى اللّٰه فهو لنا عدو۔”(الکافی، جلد 1، باب طاعة الأئمة، حدیث 3) "جو اللہ کی اطاعت کرے وہ ہمارا دوست ہے، اور جو اس کی نافرمانی کرے وہ ہمارا دشمن ہے۔”

جلوس میلاد اور مجالسِ عزاداری کا مقصد اور افادیت :
جلوس میلاد النبی (ص)اور مجالسِ عزاداری اہل بیت علیہم السلام، اگر ان کا انعقاد شعوری اور بامقصد انداز میں کیا جائے تو یہ نہ صرف عشقِ رسول اور مودّتِ اہل بیت کا اظہار بن جاتے ہیں بلکہ عوام الناس کو سیرتِ طیبہ، تقویٰ، صبر، قربانی، عدل، اور اخلاقِ حسنہ کی جانب راغب کرنے کا مؤثر ذریعہ بھی ثابت ہوتے ہیں۔
تاہم یہ حقیقت بھی مدنظر رہے کہ اگر یہ اجتماعات صرف رسمی مظاہر تک محدود رہیں، اور ان میں اخلاقی و سماجی انحطاط یا غیر شرعی افعال شامل ہو جائیں، تو یہ اپنے مقصدِ وجود سے منحرف ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان خرابیوں کی نشاندہی اور اصلاح شرعی و عقلی فریضہ ہے، مگر ان خامیوں کو بنیاد بنا کر مکمل طور پر ان شعائر کی بندش کا مطالبہ کرنا نہ صرف علمی و دینی بددیانتی ہے بلکہ تاریخی پس منظر کے اعتبار سے ایک مخصوص گروہی ایجنڈا بھی معلوم ہوتا ہے۔

تنقید برائے اصلاح یا تعصب و عناد؟ :
افسوس کہ کچھ ناصبی اور خوارج مزاج حلقے میلاد النبی (ص) اور عزاداری کے اجتماعات پر تنقید کرتے ہوئے ان میں شامل بعض خرافات کو جواز بنا کر پورے عمل کو ہی منسوخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان حضرات کا مقصد اصلاح نہیں بلکہ شعائرِ الٰہی، بالخصوص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت علیہم السلام کی یاد کو محدود کرنا ہوتا ہے۔ یہ طرزِ فکر درحقیقت بنو امیہ کے اس سیاسی اور مذہبی بیانیے کا تسلسل ہے، جس کے تحت رسول اللہ اور اہل بیت کی یاد کو ریاستی سطح پر دبایا گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی عناصر، جو میلاد النبی(ص) یا عاشورہ جیسے تاریخی و دینی مواقع پر ہونے والے اجتماعات کو "بدعت” اور "فساد” کا نام دیتے تھے، اب بعض صحابہ کرام کے ایامِ ولادت و شہادت کے نام پر جلسے اور جلوس منعقد کر کے سرکاری تعطیلات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ دوہرا معیار اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا اصل ہدف اصلاح نہیں بلکہ ایک خاص طبقے، تاریخ اور دینی شعائر کو محدود کرنا ہے۔

خرابی کا علاج اصلاح ہے، انسداد نہیں:
اگر کسی جلوس یا مجلس میں انفرادی طور پر کچھ نامناسب حرکات دیکھی جائیں تو یہ کسی مخصوص شخص یا گروہ کی کوتاہی ہو سکتی ہے، نہ کہ خود شعائرِ دین کی خرابی۔ جس طرح کسی ادارے کے ملازم کے غلط عمل کی وجہ سے پورے ادارے کو بند نہیں کیا جاتا، بلکہ صرف اُس فرد کی اصلاح یا برطرفی کی جاتی ہے، بالکل اسی طرح شعائرِ الٰہی میں اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو اس کی اصلاح ہونی چاہیے، انسداد نہیں۔

حاصل نتیجہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپؐ کے اہل بیت علیہم السلام، اور اصحابِ باوفا رضی اللہ عنہم سے محبت کا حقیقی تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کی سیرت کو اپنی عملی زندگی کا آئینہ بنائیں۔ شعائرِ اسلامی جیسے جلوسِ میلاد اور مجالسِ عزاداری، اگر بامقصد اور شعوری ہوں تو یہ محض یادگاریں نہیں بلکہ ذریعۂ ہدایت بن سکتے ہیں۔ ان میں موجود خامیوں کی اصلاح ضروری ہے، مگر اُن کے وجود پر اعتراض صرف دشمنی یا لاعلمی کا اظہار ہے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے