میں صلح کو جنگ سے اور محبت کو عداوت سے کہیں بہتر سمجھتا ہوں۔ (امام حسن ع)

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

ماہٍ صیام، رمضان المبارک کو اللہ رب العزت کا مہینہ کہا گیا ہے جسے یہ عز و اعزاز حاصل ہے کہ اسی ماہ میں نزول قرآن کریم، قرآن صامت اور قرآن ناطق کی ایک کڑی یعنی شبیہٍ پیغمبر خدا کی ولادت باسعادت ہوئی۔ رسولٍ اکرمؐ کی حدیث پاک کی اتباع یعنی جو قرآن صامت اور قرآن ناطق سے متمسک رہے گا وہ شفاعت محمد ﷺ کا شرف حاصل کرے گا۔

کیا وسیع الظرف تھا شیرٍ خدا کا لاڈلا

ولی ذوالمنن حضرت حسن آن سرور خوباں

کہ ہر چیز زعدم باقدرتش ممکن زامکاں شد

زہے سودائے باطل کے توانم مدح آں شاہے

کہ مداحش خدا، راوی پیمبر، مدح قرآن شُد

امام حسن علیہ السلام، امیر المومنین حضرت علیؑ و سیدۃ النساء حضرت فاطمتہ الزہراؑ کے فرزند، پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفٰیﷺ و محسنۂ اسلام حضرت خدیجتہ الکبریٰ کے نواسے اور مُحسنٍ اسلام حضرت ابی طالب اور فاطمہ بنت اسد کے پوتے تھے۔ آپ کو خالق کائنات نے معصُوم، منصوص، افضل کائنات اور عالمٍ علمٍ لدّنی قرار دیا ہے۔ آپ کی ولادت باسعادت 15 رمضان المبارک 3 ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔

آج پوری دنیا میں امام حسن علیہ السلام کی قمری کیلنڈر کے مطابق 1442 ویں اور انگریزی کیلنڈر کے اعداد و شمار کے مطابق 1399 ویں یومٍ ولادت کی خوشی میں چاہنے والے مگن ہیں اور جشن و محفل کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ تقریب میں تحفہ و مٹھائیاں تقسیم کی جا رہی ہیں۔ روزہ داروں کے لیے افطار پارٹی کا انتظام کیا گیا ہے۔ امام بارگاہوں کو سجایا گیا ہے۔ بڑا ہی پُر نُور ماحول و دلکش مناظر کا مظہر و اظہر ہے۔

مورخین کا کہنا ہے کہ رحمت العالمینؐ کے گھر میں امام حسنؑ کی ولادت اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی۔ یہ قابلٍ ذکر ہے کہ سبطٍ اکبر کی پیدائش نے تاجدار انبیاءؐ کے دامن سے مقطوع النسل ہونے کا طعنہ تشنہ و دھبہ صاف کر دیا اور عالمٍ فانی و دشمنان اسلام ابو جہل ابو لہب، ابو سفیان کے سامنے سُورۃ کوثر کی عملی اور بنیادی تفسیر پیش کر دی اور ملعون و لعنت اللہ کو روزٍ قیامت تک کے لئے ابتر بنا دیا۔

ابو محمد، جگر بند مصطفٰیؐ، ریحانٍ مرتضٰیؑ و قرۃ العین زہراؑ حسن بن علیؑ کا نام مبارک “حسن” ہے۔ آپؑ حضور نبی کریمؑ کی جگر گوشۂ شہزادیؑ رسول اللہؐ، طیب و طاہرہ حضرت سیدہ فاطمہ الزہؑرا اور برادرٍ مصطفٰی مقتدائے جملہ اولیاء و اصفیاء حیدرٍ کرار، شیرٍ خدا حضرت علی ابن سبی طالب کے بڑے صاحبزادے ہیں۔

حضرت امام حسنؑ کا سلسلہ نسب قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ قابل توجہ ہے “حضرت حسن بن علی بن ابی طالب، بن عبد المطلب، ہاشم، بن مناف، بن قصٰی بن کلاب بن مسرہ بن کعب بن لوی بن غالب”

حضرت امام حسن علیہ السلام کا نام مبارک اللہ عزوجل نے رکھا۔ اس کا معنی ہیں ‘حُسن و جمال والا’ آپ اپنے ناناؐ سے حسن و جمال میں یکتا تھے۔ آپ کے القاب کافی ہیں کیونکہ آپ مجموعہ صفات حمیدہ تھے، ان میں سے کچھ کا ذکر کیا جا رہا ہے اور آپ کے لقب کی وجہ تسمیہ بھی دیا جا رہا ہے تاکہ قارئین کرام لقب کے ساتھ صفات سے بھی آشنا ہو سکیں۔ آپ کے القاب ہیں: طیب، امین، تقی، زکی، صفوۃ اللہ، مجتبٰی اور شبیہ رسول۔

‘سید’ کے معنی سردار کے ہیں۔ مشکٰوۃ شریف میں نبی کریمؐ کی حدیث منقول ہے جس میں آپؐ نے حسنینؑ کریمینؑ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ ‘طیب’ کے معنی پاک کے ہیں۔ آپؐ کے لقب طیب کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آپؐ کو ان کے نیک خصائل اور حضور نبی کریمؐ سے ظاہری و باطنی مشابہت کی وجہ سے طیب کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ‘امین’ سمن سے مشتق ہے اور امام حسنؑ نے امن کی خاطر خلافت کو ٹھکرا دیا تاکہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح ہوسکے اور باغی گروہ کا سرغنہ اصحابٍ رسولؐ اور آئمہ معصومین کو شہید نہ کرے:

متحد امت رہے، اس لئے خلافت چھوڑی

کیا وسیع الظرف تھا شیرٍ خدا کا لاڈلا

علاوہ ازیں لقب کے لقب ‘تقی’ کے معنی پرہیزگاری کے ہیں اور اسی سے لفظ تقویٰ نکلا ہے جس کے معنی اللہ تعالٰی عزوجل کے خوف کے ہیں۔ ‘ذکی’ کے معنی پاک کے ہیں۔ آپؑ عصمت و طہارت کی وجہ سے ‘ذکی’ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ ‘صفوۃ اللہ’ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ لقب آپؑ کو آقائے دو جہاںؐ شفیع المذنبیں نبی ﷺ نے فرمایا تھا۔ امام حسنؑ اپنی پاکیزگی اور اعلٰی کردار کی وجہ سے بلند مراتب پر فائز تھے اس وجہ سے ‘مجتبٰی’ لقب سے مشہور ہوئے۔ حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ شمسی حسنؑ سر مبارک سے لے کر پاؤں مبارک تک آقاؐ سے مشابہ تھے اس لئے آپؑ شبیہ رسول ﷺ کے لقب سے معروف ہیں:

وہ شبیہ مصطفٰیؐ وہ مصطفٰیؐ کا لاڈلا

فاطمہ زہراؑ علی مرتضٰیؑ کا لاڈلا

نرم فطرت، اُمت محبوب حق کا خیر خواہ

ہاتھ کا، دل کا کھلا خیر النساءؑ کا لاڈلا

میراؐ یہ بیٹا ہے سید، مصطفٰیؐ کا قول ہے

کتنا باعثٍ عظمت ہے، وہ خیر الوریٰ کا لاڈلا

امام حسن علیہ السلام نے 25 حج با پیادہ کیا۔ اسد الغاریہ میں صحیح روایات سے منقول ہے کہ امام حسنؑ نے 25 حج با پیادہ کئے۔ آپؑ کے ہمراہ سورای کے لئے اونٹنیاں موجود تھیں لیکن آپؑ ان پر سواری نہ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب آپؑ سے اس کی وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا کہ مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے کہ میں اس کے گھر اس کی ملاقات کو جاؤں اور سواری پر سوار ہو کر جاؤں۔ (قاری گلزار احمد مدنی، حضرت سیدنا امام حسن، صفحہ 46)

ابن عساکر کی روایات ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے سامنے ابوذر غفاری رحہ کا قول دہرایا گیا کہ حضرت ابوذر غفاری رحہ کہتے ہیں کہ میں مفلسی میں تونگری سے بہتر اور بیماری کو تندرستی سے بہتر خیال کرتا ہوں۔ حضرت امام حسنؑ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل ان کے حال پر رحم فرمائے ہم نے تو خود کو اللہ عزوجل پر چھوڑ رکھا ہے وہ جس میں رکھتا ہے ہم اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور ایسی کوئی حالت جو اس کی رضا کے خلاف ہو اس کے متمنّی نہیں ہیں۔

آپ کی حیات طیبہ کا اصل اور اہم معرکہ ‘صلح امام حسن’ قرار پایا اور یہ تاریخ اسلام کا لازوال بلند و بالا ستون ہے۔

حسنینؑ کریمینؑ کا ذکر ہوگا تو صُلح و جنگ پر تبصرہ ہوگا۔ لہٰذا یہ لکھنا ہی پڑے گا کہ امام حسنؑ کے لیے جنگ ممکن نہ تھی اس لیے آپؑ نے صُلح کی اور یہ بات مورخین نے شواہد کے ساتھ تحریر کی ہے اور امام حسین علیہ السلام کے لیے صلح ممکن نہ تھی اس لیے سید الشہداء نے جنگ کی۔ اور از روئے حدیث اپنے مقام پر دونوں عمل صحیح اور ممدوح ہوئے۔ “امامان قاما اوقعدا۔’ یہ دونوں امام حسن اور امام حسن، ہر حال میں واجب الاطاعتہ ہیں چاہے جنگ کریں یا صُلح (علامہ مجلسی، بحار الانوار) یعنی دونوں کے حالات اور سوالات میں فرق تھا۔ امام حسنؑ کے پاس اس وقت بالکل معین و مدد گار نہ تھے۔ جب معاویہ نے خٍلع خلافت کا سوال کیا تھا۔ نیز معاویہ کا سوال یہ تھا کہ خلافت سے کنارہ کش ہو جاؤ یا اپنی اور اپنے ماننے والوں کی تباہی و بربادی برداشت کرو۔ رحمت العالمین کے نواسے اور شیرٍ خدا و فاتح خیبر کے فرزند نے خٍلع خلافت کو مناسب سمجھا اور صُلح کرلی۔ پارہ جگر فاطمتہ الزہؑرا مسلسل ارشاد فرمایا کرتے تھے “میں نے خلافت ادراک فہمی کے مد نظر اس لیے ترک کر دی ہے تاکہ امن، سکون اور اصلاح ہوسکے اور انسان اور اسلام دوست کا ناحق لہو نہ بہے۔ (علامہ مجلسی، بحار الانوار)۔

صُلح امام حسن مجتبٰی کے پس منظر کو مزید مربوط قابل فہم کے لیے وضاحت ضروری ہے اس لیے تحریر کرنا لازمی ہے کہ امام حسین صلواۃ اللہ علیہ کے پاس بہترین جاں نثار جاں باز موجود تھے اور یزید ابن معاویہ لعنت اللہ کا سوال یہ تھا کہ بیعت کرو یا سر دو۔ (طبری، روضتہ الصفا) سردارٍ نوجوانٍ جنت نے حالات کی روشنی میں ناناؐ کے دیں کی بقا کے لیے قربان ہونا مناسب سمجھا اور بیعت سے اٍنکار کر کے جنگ پر آمادہ ہوکر مصداق سورۃ الفجر ہوئے۔

امت محمدی کو یقینٍ مطلق ہے کہ اگر امام حسن مجتبٰی، سبطٍ اکبر سے بھی مطالبۂ بیعت ہوتا تو آپؑ بھی سبطٍ اصغر شہید اکبر کی مانند جنگ پر آمادہ ہوتے۔ آپ کے مونس و مددگار ہوتے یا نہ ہوتے۔ کیونکہ آلٍ محمد ﷺ کسی غیر کی بیعت حرام مطلق سمجھتے تھے۔ علامہ جلال حسینی مصری نے “الحسین” میں بحوالہ واقعہ حرہ تحریر کیا ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد کسی حکومت نے آلٍ محمد ﷺ کے کسی بنو امیہ یا بنو عباسیہ کے دورٍ اقتدار میں بیعت کا سوال نہیں کیا:

بحکمٍ حق کہیں پر صُلح کر لیتے ہیں دُشمن سے

کہیں پر جنگٍ خاموشی جوابٍ سنگ ہوتی ہے

زمانہ یہ سبق لے فاطمہ کے دل کے ٹکڑوں سے

کہاں پر صُلح ہوتی ہے کہاں پر جنگ ہوتی ہے

صُلح امام حسن کے حوالے سے فرزند رسولؐ اکرم کے اس خطبہ کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا جو آپ نے مقامٍ ساباط سے روانہ ہوتے وقت فرمایا:

” لوگو! تُم نے اس شرط پر مجھ سے بیعت کی ہے کہ صلح اور جنگ دونوں حالتوں میں میرا ساتھ دوگے۔” میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے کسی شخص سے بغض و عداوت نہیں ہے۔ میرے دل میں کسی کو ستانے کا خیال نہیں۔ میں صُلح کو جنگ سے اور محبت کو عداوت سے کہیں بہتر سمجھتا ہوں۔”

مفسر قرآن، مورخ، اور مصنف علامہ سید علی نقی نقوی نقن صاحب رقم طراز ہیں کہ امیر شام حضرت امام حسن علیہ السلام کی فوج کی حالت اور لوگوں کی بیوفائی کے حال سے بخوبی واقف ہو چکا تھا۔ اس نے اندازہ لگایا کہ امام حسنؑ کے لیے جنگ ممکن نہیں ہے۔ لیکن اس بات سے بھی آشنا تھا کہ امام حسنؑ کتنے ہی بے بس اور بے کسی میں ہوں مگر فرزند علیؑ و فاطمؑہ اور نواسۂ رسول ﷺ ایسے شرائط پر ہرگز صُلح نہ کریں گے جو حق پرستی کے خلاف ہوں اور جن سے باطل کی حمایت ہوتی ہو۔

شہیدٍ اعظم حضرت امام حسین علیہ السلام یہ فرمان کے جیسے اصحاب مجھکو ملے ویسے اصحاب نہ میرے ناناؐ، نہ باباؑ اور نہ میرے برادرؑ کو ملے۔ اس حقیقت کو جاننے کے لیے امام حسنؑ کا وہ خطبہ ملاحظہ فرمائیں: “آگاہ رہو کے تم، وہ خونریز لڑائیاں ہو چکی ہیں جن میں بہت لوگ قتل ہوئے۔ کچھ مقتول صفین میں ہوئے جن کے لیے آج تک رو رہے ہو اور مقتول نہروان کے جن کا معاوضہ طلب کر رہے ہو، اب اگر تم موت پر راضی ہو تو ہم اس پیغامٍ صُلح کو قبول نہ کریں اور ان سے اللہ کے بھروسے پر تلواروں سے فیصلہ کریں اور زندگی کو عزیز رکھتے ہو تو ہم اس کو قبول کر لیں اور تمہاری مرضی پر عمل کریں۔” جواب میں لوگوں نے ہر طرف سے پکارنا شروع کیا ہم زنگی چاہتے ہیں۔ ہم زندگی چاہتے ہیں۔ آپ صُلح کر لیجیے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ نے صُلح کی شرائط تیار کر صلح کیا۔ (ترجمہ ابن خلدون)

25 ربیع الاول کو کوفہ کے قریب مقام انبار میں فریقین کا اجتماع ہوا اور صُلح نامہ پر امام حسن علیہ السلام اور معاویہ لعنت اللہ(باغی گروہ کا سرغنہ) کے دستخط ہوئے اور گواہیاں ثبت ہوئیں۔ (نہایتہ الارب فی معرفہ انساب العرب، صفحہ 80)

تکمیل صُلح کے بعد امام حسن مجتبٰیؑ منبر پر تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا۔ “اے لوگو! خدائے تعالٰی نے ہم میں سے اول کے ذریعہ سے تمہاری ہدایت کی اور آخر کے ذریعہ سے تمھیں خونریزی سے بچایا۔ معاویہ نے اس امر میں مجھ سے جھگڑا کیا جس کا میں اس سے زیادہ مستحق ہوں لیکن میں نے لوگوں کی خونریزی کی نسبت اس امر کا ترک کر دینا بہتر سمجھا۔ تم رنج و ملال نہ کرو میں نے حکومت اٍس نا اہل کو دے دی اور اس کے حق کو جائے ناحق پر رکھا۔ میری نیت اس معاملہ میں صرف امت کی بھلائی ہے۔ (تاریخ خمیس، جلد 2، صفحہ 325)

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے